ڈاکٹر رخسانہ جبیں


اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیا ل کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ جس پر نہایت تندخو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔ (التحریم ۶۶:۶)

اللہ، ربِ مہربان ہمیں خود کو اوراپنے اہل خانہ کو دوزخ کی شدید آگ سے بچنے کا حکم دے رہے ہیں۔ وہ آگ جس پر مقرر فرشتوں کے دلوں میں کسی کے لیے کوئی نرمی نہ ہوگی۔ کسی کی فریاد اور آہ وبکا ان پر کوئی اثر نہ کرے گی۔ وہ دوزخ جس کی آگ دنیا کی آگ سے ستّر گنا زیادہ شدید ہو گی۔

جہاں شدید تپش اور جلن ہو گی لیکن پینے کو ٹھنڈا پانی نہ ہو گا، بلکہ جلتے ہوئے زخموں سے نکلنے والی پیپ اور کھولتا ہوا پانی ہو گا، اللہ کی پناہ!

جہاں کھانے کو ایسا زہریلا اور کانٹے دار درخت ’تھوہر‘ ہو گا کہ جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’اگر دوزخ کے’ تھوہر‘ کا ایک قطرہ بھی دنیا میں ٹپک پڑے تو یہا ں رہنے والوں کا جینا دو بھر ہو جائے ۔پھر ان پر کیا بیتے گی جن کی غذا ہی ’تھوہر‘ ہو گی‘‘۔ (ترمذی )

کیا ہمیں معلوم ہے کہ دوزخ میں لے جانے والے اعمال کون کون سے ہیں؟

کیا ہم نے ان سے خود اور اپنے اہل وعیال کو بچانے کا کوئی منصوبہ بنا رکھا ہے ؟

ماں تو وہ ہستی ہے جو اپنے بچوں کو ایک کانٹے کا چبھنا بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ بچہ بیمار ہو تو ماں کی جان پر بن جاتی ہے۔ وہ علاج کے ساتھ ساتھ اللہ کے آگے ہاتھ بھی پھیلا دیتی ہے، اور سب ملنے والوں سے کہتی پھرتی ہے کہ میرے بچے کی صحت یابی کے لیے دعا کریں۔ اس کی سکول کی تعلیم کے لیے سخت پریشان ہوتی ہے اور اس میں کوتاہی پر بچے کی مار کٹائی سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ اس کی صحت ، کاروبار اور دیگر مادی ضروریات کے لیے وظیفے کرتی ہے اور کراتی ہے۔ الغرض اپنے بچے کی دنیوی ضروریات کے لیے ایک ماں نہ اپنا آرام دیکھتی ہے، نہ دن اور رات کا چین۔

لیکن کتنی مائیں ایسی ہیں جنھیں یہ فکر ہو کہ بچے جنت کے باغوں کے پھول بن رہے ہیں یا دوزخ کا ایندھن بننے جارہے ہیں؟

اور کتنی تحریکی مائیں ایسی ہیں جنھیں یہ تڑپ ہو کہ ان کے بچے ان کے نصب العین کے وارث بنیں اور اقامت دین کی تحریک کے باعمل ومتحرک داعی بنیں ؟

حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق: ’’ہم راعی ہیں اور ہم سے ہماری رعیت کے بارے میں سوال ہو گا ‘‘۔

اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ دنیا میں بھی ایک اَن پڑھ اور پڑھے لکھے فرد کے امتحانی سوالات کی نوعیت میں فرق ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک غیر تحریکی اور کم شعور رکھنے والی ماں کا حساب کچھ اور طرح کا ہوگا، اور زندگی کا مقصد سمجھ کر اس کو عملاً اپنانے والی ماں کا بحیثیت راعی ذمہ داریوں کا حساب فرق ہوگا۔ دُعا ہے کہ اللہ ہم سے آسان حساب لے اور نرمی کا معاملہ کرے۔ آمین !

ایک خصوصی قلیل المیعاد منصوبہ بنائیں اور بہت ساری خصوصی دعائیں کریں تا کہ ہم    روزِ قیامت کے اس منظر کو دیکھنے سے بچ سکیں کہ خدا نخواستہ ہمارے اہل وعیال میں سے کسی کو فرشتے طوق اور زنجیریں پہنا کر دوزخ کی طرف کھینچ رہے ہوں، اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا۔

اس وقت ہماری زندگیاں تین طرح کی معاشرت کا ملغوبہ ہیں:

  • کچھ اسلامی شعائر پر مبنی طرزِ زندگی
  • جاہلیتِ قدیمہ اور خاندانی رسومات
  • جدید تعلیم اور مغربی معاشرت تیزی سے ہماری زندگی پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ خصوصاً معاشرتی قدریں تیزی سے بدل رہی ہیں۔ دین داری ’انتہا پسندی‘ ٹھیری ہے۔ شرافت، حیا، عزت کے سکّے کھوٹے ہورہے ہیں۔ سادگی ، کفایت شعاری کی جگہ مادیت پرستی اور ریا کاری نے لے لی ہے۔

اصل اور خالص اسلام خال خال نظر آتا ہے۔ دین کا فہم اور زندگی کا شعورو مقصد رکھنے والی ایک ماں کو نہ صرف ماحول کے اثرات سے اپنے بچوں کو بچانا ہے، بلکہ اس کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ  وہ اصلاحِ معاشرہ اور فروغ دین کے لیے اپنے بچوں کو تیار کرے، تا کہ اللہ کی زمین شیطان کے حملوں سے محفوظ ہو سکے اور اللہ کے بندے اللہ کی جانب رجوع کر کے دوزخ سے بچ سکیں۔

اور ایسی مائیں بگاڑ کے اس دور میں یقینا انقلاب برپا کر سکتی ہیں، ان شاء اللہ ۔ شرط یہ ہے کہ دل میں تڑپ پیدا ہو جائے اور اتنی حرارت پیدا ہو جو انھیں متحرک کر دے۔

کرنا کیا چاہیے ؟___اس کے لیے لائحہ عمل پیش ہے!

l والدین کا کردار :رب کائنات کے فرمان کے مطابق پہلا حکم ہے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ(التحریم ۶۶:۶)اے ایمان والو ! اپنے آپ کو بچائو۔

سب سے پہلے ماں اور باپ کو اپنے ایمان وعمل کا تجزیہ کرنا ہے۔ اس کی اصلاح کرنی ہے۔ اپنے آپ کو صحیح اور سچا مسلمان بنانا ہے۔ رول ماڈل بننا ہے۔ کیونکہ بچے کی تربیت کا آسان طریقہ اپنا بہترین کردار بچے کے سامنے رکھنا ہے۔ نمازی ماں کے بچے نا سمجھی کی عمر میں بھی   جاے نماز لے کر اس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں، اور گالیاں دینے والے والدین کے بچے  گھٹی میں گالیاں ہی سیکھتے ہیں۔ اس لیے ذرا ان نکات پر غور کریں:

  • ہمارا ایمان کس درجے کا ہے ؟
  • فکر آخرت کتنی ہے ؟
  • اپنے انجام سے کتنے  خوف زدہ رہتے ہیں؟
  • حب ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس درجے کی ہے ؟
  • عبادات کی کیفیت کیا ہے ؟
  • نمازیں کس پابندی اور کتنے خشوع سے ادا ہوتی ہیں ؟
  • قرآن پاک سے تعلق کتنا ہے ؟
  • دیگر عبادات اور انفاق فی سبیل اللہ کس قدر ہے ؟
  • بچوں اور اہل خاندان سے معاملات کیسے ہیں ؟
  • میاں بیوی کے تعلقات کیسے ہیں ؟

یقینا جھوٹ بولنے والی ، غیبتیں کرنے والی ماں کی اولاد کا حسن خلق سے آراستہ ہونا بہت مشکل ہے۔ (الا ما شاء اللہ!)

ماں کا لبا س حیا دار ہو گا تو بچے بھی حیا سے آراستہ ہوں گے۔ باپ غیرت مند ہو گا تو اولاد بھی ویسی ہی ہو گی۔ ان شاء اللہ !

اسی طرح تمام معاملات میں احساس ذمہ داری ماں کے اندر کتنا ہے ؟___وہ کاموں کو احسن طریقے سے انجام دینے والی ہے یا ذمہ داریوں میں ڈنڈی مارنے والی ہے ؟___ الغرض ماں اور باپ وہ سانچے ہیں جن کے مطابق اولاد ڈھلتی ہے اور اس کا بہترین پیمانہ خود رب کائنات نے تقویٰ کو قرار دیا ہے۔ خاندان کی تشکیل سے لے کر موت تک تقویٰ کا حکم دیا:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ (النساء۴:۱) اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو ، جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ۔

یہ تقویٰ ایک پیمانہ ہے۔ برعظیم کے ایک معروف عالمِ دین سے کسی نے اولاد کی نافرمانی کی شکایت کی تو انھوں نے فرمایا :اپنی زندگی کو دیکھو !تم اللہ کے کتنے فرماں بردار ہو ؟ گویا اولاد کی صالحیت کے لیے ضروری ہے کہ والدین اللہ کے اطاعت گزار اور اس سے ڈرنے والے ہوں۔ ان شاءاللہ رحیم وکریم اللہ اولاد کو ضائع نہیں کرے گا (اِلا یہ کہ کوئی آزمایش مطلوب ہو) ۔

l گھر کا ماحول: والدین کے کردار کے بعد بچوں پر اثر انداز ہونے والی دوسری چیز گھر کا ماحول ہے۔ جہاں ماحول غیر اسلامی ہو ، گھر میں رات دن فحش فلمیں اور ٹی وی ڈرامے چلتے ہوں، جہاں لڑائی جھگڑا رہتا ہو، مخلوط معاشرت ہو، اسراف وتبذیر ہو، طرزِ زندگی اسلام کے بجاے مادیت پرستی کا علَم بردار ہو، گھر کی پاکیزہ معاشرت کے بجاے مصنوعی سجاوٹ وبناوٹ پر زیادہ زور ہو، وہاں بچوں کا صالح بن کر اُٹھنا دشوار ہے۔ لہٰذا، والدین کی ذمہ داری ہے کہ اولاد کے دنیا میں آنے سے قبل اپنے گھر کے ماحول کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی بھرپور کوشش کریں۔

عمومی زندگی سے لے کر خصوصی تقریبات تک سب پر اللہ کا رنگ غالب ہو تو بچوں پر بھی یہ ہی رنگ چڑھے گا۔ ان شاء اللہ !

صِبْغَۃَ اللّٰہِ ج وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً ز(البقرہ ۲:۱۳۸) اللہ کا رنگ، اور   اللہ کے رنگ سے اچھا اور کون سا رنگ ہو سکتا ہے۔

کاش! ہمیں یہ یقین ہو جائے کہ یہی بہترین رنگ ہے، بہترین ماحول ہے، اور انجام کے لحاظ سے بھی اسی میں عافیت ہے۔ اگر ایسا ہو جائے کہ ہمارا سونا جاگنا، کھانا پینا ، اٹھنا بیٹھنا،    اُوڑھنا بچھونا، سجاوٹ بناوٹ ، سب کچھ درست ہو جائے۔ تقریبات میں ہندووانہ تہذیب کی بجاے اللہ کا رنگ غالب آ جائے، اور لباس ، وضع قطع یہودو نصاریٰ جیسی بنانے کے بجاے جگر گوشۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا خاتونِ جنت جیسی بنا کر ہمیں سکون واطمینان حاصل ہو، تو بھلا خاندان پر اسلامی سوچ کیوں نہ غالب ہو گی!

یقینا ، جس گھر میں توحید کا بول بالا ہوتا ہے ، وہ شرک اور بدعات سے بچ جاتا ہے۔ اس گھر کے بچوں پر مفاد پرست اور علماے سوء کی تعلیمات اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔ ان شاء اللہ !

جو مائیں جنوں اور چڑیلوں کی کہانیاں سنانے کے بجاے اپنے بچوں کو قصص الانبیا ؑسناتی ہیں، ان کا آئیڈیل انبیا علیہم السلام ہی بنتے ہیں۔

جو مائیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رول ماڈل بناتی ہیں، وہ ان کی زندگی کے خدوخال سے اپنے بچوں کو گفتگو میں، کھانے پر، اُٹھتے بیٹھتے آگاہ کرتی رہتی ہیں، تو بچے اس ماحول میں خود کو پروان چڑھاتے ہیں۔

تاہم، اس کے ساتھ ساتھ درج ذیل امور میں بچوں کی رہنمائی ضروری ہے:

بنیادی تعلیمات راسخ کرنا

l توحید:بچوں میں توحید راسخ کرنے کی شعوری اور انتہائی کوشش کرنا بہت ضروری ہے، اس لیے کہ ’شرک‘ وہ گناہ ہے جو معا ف نہ ہو گا:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ج (النساء ۴:۴۸)اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے، معاف کر دیتا ہے۔

 شرک کرنے والوں پر جنت حرام ہے:

اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ (المائدہ۵ :۷۲) جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا ، اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی۔

موجودہ دور کے خطرات اور شرور میں ’دین کے نام پر بے دینی کے سود اگروں ‘ کا کردار بہت بڑھ گیا ہے۔ خصوصاً میڈیا کی وجہ سے بے حیائی کے ساتھ ساتھ بدعات اور شرک کو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے۔ لہٰذا بہت چھوٹی عمر میں کلمہ طیبہ کا مفہوم بچوں کے ذہن میں پختہ کرنا ضروری ہے۔ اس کے بعد صراط مستقیم پر قائم رہنے کے لیے انھی دو چیزوں کو مضبوطی سے تھامنا ضروری ہے، جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو تھامے رکھو گے تو گمراہ نہ ہو گے ، یعنی قرآن اور سنت رسولؐ۔

لہٰذا ،اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ ہمارے گھروں میں ان بنیادوں سے وابستگی کتنی ہے ؟ ان کی تعلیم وتدریس کا کیا بندوبست ہے ؟ بچے قرآن وحدیث کو کتنا سمجھتے ہیں ؟ کتنے بچے قرآن پاک کا ترجمہ سمجھتے ہیں؟ اور تفسیر کی شد بد ھ رکھتے ہیں ؟ اور اس کے لیے کتنی محنت کی جاتی ہے ؟ اس کا ایجنڈا بنانا اور بچوں کی عمر کے لحاظ سے نصاب طے کرنا اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے ۔

  • نبی کریم ؐکی محبت : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شوق بچوں کے اندر پیدا کرنا___ اتنی محبت، اتنی محبت، کہ جو تمام محبتوں پر غالب آ جائے ورنہ تو ایمان ہی مکمل نہیں۔ چھوٹے بچوں کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم دل نشین انداز میں کہانی کی صورت میں قسط وار سنائی جائے، اور بڑے بچوں کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرایا جائے۔
  • فکرِ آخرت:آخرت پر مضبوط ایمان اور فکر آخرت ہی شرور سے بھری اس دنیا میں گناہوں اور برائیوں سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ بچوں کے اندر جنت کا شوق ، دوزخ کا ڈر مؤثر طریقے سے پیدا کیا جائے۔ اس طرح کہ بچے جنت کے حصول اور دوزخ سے بچنے کی تیاری میں لگ جائیں۔

میڈیا کے بگاڑ کے اس دور میں خشیت الٰہی اور فکر آخرت ہی وہ چیز ہے جو اس کے نقصانات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ والدین پاس موجود ہوں یا نہ ہوں، بچے کو یہ شعور ہو کہ اللہ دیکھ رہا ہے، تو یہ فکر بہترین محاسب ہے۔ ان شاء اللہ !

  • صحابہ کرامؓ بطور مثال: بدلتی ہوئی قدروں اور اس زوال پذیر معاشرت میں، جب بھانڈ، گویے اور کھلاڑی نوجوانوں کے آئیڈیل بنا دیے گئے ہیں، ان کی سوچ اور تخیل کو درست رکھنے کے لیے اعلیٰ ترین کردار بطور مثال ان کے سامنے پیش کرنے ضروری ہیں۔ صحابہ کرامؓ اور صحابیات ؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست تربیت کردہ مثالی انسان تھے۔ عشقِ رسولؐ سے بچوں کو سرشار کرنے کے بعد، اس عشق کے تقاضے پورے کرنے والوں کی عملی تصاویر اور نمونے، آج کے ہیروز کے ساتھ تقابل کر کے اصل روح کے ساتھ بچوں کے سامنے رکھے جائیں۔ بچپن میں کہانیوں کی صورت میں اور بعد میں لٹریچر اور سٹڈی سرکلز کی صورت میں تاکہ وہ اپنے تصور میں طے کرلیں کہ ’بڑا ہو کر کیا بنوں گا۔‘اور پھر ان کو ویسا بننے میں پوری مدد ومعاونت فراہم کی جائے۔
  • عبادات:خصوصاً نماز کی عادت پختہ کرنا۔ ابتدائی عمر سے تقریباً سولہ سال کی عمر تک بچوں کی نماز کے معاملے میں نگرانی اور یاددہانی کا تسلسل رکھنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد الحمد اللہ بچے پختہ عادات اپنا لیتے ہیں۔ اس دوران محض ’نماز پڑھو‘ کی گردان نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ’نماز مومن کی معراج‘ بناکر بچوں کے قلب وروح کے اندر اتاری جائے اور ہر دکھ درد، مشکل کا علاج بذریعہ نماز سکھایا جائے۔ نیز اس کا دین کا ستون ہونا دلائل سے ثابت کیا جائے۔ پھر نماز نہ پڑھنے پر حکمِ رسولؐ کے مطابق کچھ نہ کچھ سختی ضروری ہے، تا کہ انھیں احساس ہو کہ نماز چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔
  • شیطانی حربے:شیطان ، اس کے چکر ، اس کا وسواس الخناس ہونا، اس کے حربے قرآن وسنت کی روشنی میں بچوں کو بتائے جائیں۔ قدم قدم پر اسے باور کرایا جائے کہ وہ سوچے  کہ کس کے راستے پر چل رہا ہے ، اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر یا شیطان کے ؟ حلال وحرام کی حدود، معروف ومنکر کے بدلتے تصورات (مثلاً موسیقی، تصاویر وغیرہ کا معاملہ )، اخلاق وکردار ، میڈیا میں درست یا غلط، تمام امور میں واضح رہنمائی دینا ضروری ہے۔
  • مادیت پرستی سے بچانا:شیطان کا بہت بڑا وار مادیت کے راستے پر دھکیلنا ہے۔ یہی وہ خطرہ ہے، جس کے بارے میں نبی کریم ؐ نے خبر دار کیا تھا :’’اللہ کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں ہے کہ تم مفلس ہوجائو گے۔ میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ ہو جائے گی جیسے تم سے پہلی امتوں پر یہ کشادہ ہوئی تھی ۔ پھر تم اسے چاہنے لگو گے جیسے انھوں نے اسے چاہا۔ پھر تم اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرو گے جیسے انھوں نے کیا۔ پھر یہ د نیا کی فراوانی اور اس کی طرف بے انتہا رغبت تمھیں تباہ کر کے رکھ دے گی جیسے اس نے تم سے پہلوں کو کیا۔‘‘ (متفق علیہ)

اسی کو’ وہن‘ بھی کہا گیا اور یہ مال ودولت کی دوڑہی ہے جس نے دنیا کا سکون تباہ کر دیا ہے۔ فساد ، قتل وغارت گری عام ہو گئی ہے، اور ساہو کاروں او ر سرمایہ داروں کی گندی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے مال بٹورنے کی خاطر دنیا کو بے حیائی کی دلدل میں دھنسا دیا ہے۔

لہٰذا صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں کی مثالیں دیتے ہوئے ان کا سادہ اور غریبانہ طرزِ زندگی واضح کرنا، غنٰی کے معنی بتانا اور برکات کے حصول کے طریقے سکھانا، قناعت اختیار کرنے پر رغبت دلانا، یہ سب مائوں کے کام ہیں ( بشرطیکہ مائیں خود سادگی اور قناعت کے راستے پر چل رہی ہوں۔ )

  • اخلاق و معاملات: بچوں کے اخلاق پر چھوٹی عمر ہی سے نظر رکھنا ضروری ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرتِ صحابہ ؓ سناتے ہوئے ان کے بہترین اور آئیڈیل اخلاق کو واضح کرنا اور بچوں کے لیے اس کے حصول کو ہدف بنانا ضروری ہے۔ اس وقت جب ہمارا معاشرہ اخلاقی اصولوں کی پاس داری سے بہت حد تک عاری ہے، بچوں کا بہترین اخلاق پر عمل اسی وقت ممکن ہے جب والدین اس کا بہترین نمونہ پیش کر رہے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ طہارت ، صفائی،  بہترین شہری کی صفات پیدا کرنا، قانون کی پاس داری کا جذبہ بیدار کرنا، ملک وملت سے محبت اور امت کے ’جسدواحد ‘ ہونے کا تصور پیدا کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔

حیا، ایمان اور اخلاق کا اہم ترین جز ہے۔ ’حیا ‘ پر ہی شیطان نے کاری وار کرکے   ہماری قوم کی غیرت کا جنازہ نکال دینے کی سر توڑ کوشش کی ہے۔ بچوں کے اندر حیا پیدا کرنا ضروری ہے ۔ نماز کی عمر کو پہنچیں تو مکمل لباس کی عادت بن جانی چاہیے۔ لڑکے پانچ سال کی عمر کے بعد نیکر اور لڑکیاں چھوٹی آستین اور جانگیہ نہ پہنیں۔ بچیوں کو نماز کی عمر سے دوپٹے اور اسکارف کی عادت ڈالی جائے۔ مائیں بھی اپنے طرزِ عمل پر ضرور نظر ڈالیں کہ گھروں میں مکمل لباس میں ملبوس ہوتی ہیں یا دروازے پر گھنٹی بجے تو دوپٹہ ڈھونڈنے دوڑتی ہیں۔

 ’لباس التقویٰ ‘ کی تشریح مائوں کو بھی آتی ہو اور بچوں کو بھی سمجھائیں۔ اس حدیث کو یاد رکھیں کہ ’عورتیں جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں، جنت کی خوشبو بھی نہ پائیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو ہزاروں میل سے آتی ہو گی‘‘۔ پتلا، چست اور نامکمل لباس، سبھی یہاں مراد ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ ’لباس کے احکام ‘ گھر کے اندر کے لیے ہوتے ہیں، باہر کے لیے حجاب کے احکا م ہیں۔ قرون اولیٰ میں یہ تصور ہی نہ تھا کہ کوئی عورت بغیر حجاب کے محض لباس پہن کر باہر جائے گی۔ شیطان کی اس چال سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ عورتیں گھروں میں ایسا لباس پہن سکتی ہیں جو ساتر نہ ہو۔ یاد رکھیں غیر ساتر لباس میں نماز قبول نہیں ہوتی ۔ اس لیے پتلے کپـڑوں میں پڑھی گئی نماز یں ضائع ہو جائیں گی۔ لہٰذا، اپنے بچوں کو دوزخ سے بچانے اور جنت میں داخل کرا نے کے لیے بے حیائی وبے حجابی سے بچانا اشد ضروری ہے۔ لڑکیوں کے لباس کا حیا دار ہونا بھی ضرور ی ہے۔

  • تعلیم و تربیت:تعلیم کا قبلہ درست رکھنا، ’اصل علم ‘ کا مفہوم سمجھنا اور اس کے مطابق بچوں کی تعلیم وتربیت کی فکر ضروری ہے۔ یاد رکھیں ! تعلیم کے نام پر اس وقت ’تجارت ‘ ہے اور ’سوداگری‘۔ یہ سودا گر ایمان کے بدلے مال کما رہے ہیں۔ اس نظامِ تعلیم نے نسلیں تباہ کر دی ہیں۔

 بقول مولانا مودودی ؒ : ’’یہ تعلیم گاہیں نہیں ، قتل گاہیں ہیں‘‘۔ اس تعلیم نے آکر ہماری نسلوں کو مکمل کافر نہیں بنایا تو مسلمان بھی کم ہی چھوڑا ہے۔ صحابہ کرامؓ کبھی سوچ سکتے تھے کہ ایک دور ایسا آئے گا جب مسلمان ـ’قرآن ‘ کے معنی تو نہ جانتے ہوںگے لیکن اوکسفرڈ اور ہارورڈ کی کتابیں گھول کر پیتے ہوں گے اور فرنگی علوم کے ماہر ہونے پر فخر کرتے ہوں گے ۔ افسوس کہ’ تعلیم کے تیزاب‘ نے ہماری نوجوان نسل کے ایمان کو جلاکر بھسم کر دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

یہ والدین ہی کا فرض ہے کہ وہ ’تعلیمی ادارے ‘ کے انتخاب میں اللہ کے نور کی روشنی سے دیکھیں اور ایسے ادارے کا انتخاب کریں، جو عصری علوم سے بہرہ ور تو کرے لیکن ’ایمان کی قیمت ‘ پر نہیں۔ اور اگر اسکول میں وہ تعلیم نہیں، جو بچوں کو ان کا مقصد زندگی سمجھا کر اس کی ادایگی کے لیے تیار کر سکے تو اس کا بندوبست گھر میں کرنا ہو گا، جیسے فزکس اور کیمسٹری کے لیے ٹیوٹر رکھا جاتا ہے۔ ’قرآ ن وحدیث ‘ کے لیے بدرجۂ اولیٰ استاد کا بندوبست کرنا اور ترجمہ وتفسیر باقاعدہ سکھانے کا اہتمام کرنا والدین کا فرضِ عین ہے۔ یہاں تک کہ اسلامی نظام غالب آ جائے اور سکولوں کا قبلہ درست ہو جائے ، ان شاء اللہ!

  •  شادی بیاہ: بہوکی تلاش میں آج کل ’مال دار حوریں‘ تلاش کی جاتی ہیں اور داماد کی تلاش میں بڑے قدوجسامت کے ساتھ ساتھ ’موٹی آسامی‘ ۔ اس معاملے میں دین کی ترتیب کو بالکل اُلٹ کر دیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس کے مال کی وجہ سے، اس کے خاندان کی شرافت کی وجہ سے ، اس کی خوب صورتی کی وجہ سے، اور اس کے دین کی وجہ سے ۔ اور تُو دین دار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر۔ اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی آخرت میں تجھ کو ندامت ہو گی )‘‘۔ (متفق علیہ )

اگر دین دار والدین کا معیار بھی دوسروں جیسا ہی ہو گا، تو اس ترتیب کو درست کون کرے گا؟ دین سب سے پہلے ہے، حسن ونسب اور دولت اس کے بعد۔ تحریکی شادیوں کو رواج دیا جائے تو ان شاء اللہ، تحریکی خاندان وجود میں آئیں گے۔ اللہ کا حکم ہوا تو نسل در نسل دین کا کا م جاری رہے گا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی کتنی پیاری دعا ہے :

رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ ص(البقرہ ۲: ۱۲۸) ’اے رب ! ہم دونوں کو اپنا مسلم (مطیع فرمان )بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا ، جو تیری فرماںبردار ہو۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اولاد کے لیے اُمت مسلمہ کی تمنا کرتے ہیں۔ سوچ کی بلندی دیکھیے! اگلی نسلوں کی فکر کرنا انبیا ؑ کی سنت ہے۔ نسلوں کی تعمیر کی پہلی اینٹ وہ ’رشتہ ‘ ہے جو ہم اپنے بچوں کے لیے چنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہترین شادی اسے قرار دیا گیا ہے ’جو کم خرچ ہو‘۔  اس کی فکر کرنا، اسراف وتبذیر سے بچنا اور اپنے بچوں کو بچانا ، تقریبات میں ’رضاے الٰہی ‘ مد نظر رکھنا ، یہ سب والدین کی ذمہ داریاں ہیں۔ اس معاملے میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو مجبوری بنا کر اللہ کے حکم سے رُوگردانی کرنا مومنین کا شیوہ نہیں ہے۔

  •  خاندان کا استحکام: مسلمانوں کا مستحکم خا ندانی نظام اس وقت دشمنانِ دین کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہا ہے اور اس پر چاروں اطراف سے شیطانی قوتیں حملہ آور ہیں۔ خاندان کے استحکام کے لیے جہاں مائوں کو خود اچھی ساس اور بہو بننا ہے وہیں اپنے بیٹوں کو اچھا ’قوّام ‘ بنانے کی شعوری کوشش کرنا ہے۔ ان کے اندر خودی اور عزت و احترام کو بیدار کرنا ہے۔ لیکن ’جاہل مرد‘ بننے سے بچانا یقینا ایک سمجھ دار ماں کا ہدف ہونا چاہیے اور لڑکوں کی تربیت اس ضمن میں لڑکیوں سے زیادہ اہم ہے۔ اچھا شوہر کیسا ہوتا ہے؟ یہ تعلیم اسکول نے نہیں ، والدین نے دینی ہے۔

اسی طرح لڑکیوں میں ’صالحات اور قانتات ‘ کی روح پیدا کرنی ہے۔ اچھی بیوی اور بہو کی صفات اُجاگر کرنا ، محبت کے خمیر میں اس کے اخلاق کو پروان چڑھانا،محنت ومشقت کا عادی بنانا ، قربانی اور صبر وحوصلہ کی صفات پیدا کرنا، یہ سب ہو گا تو خاندان مستحکم ہو گا (یاد رہے کہ اپنے بچوں میں ’تقویٰ ‘ جو کہ خاندان کے استحکام کی بنیاد ہے، پیدا کرنے کی بات ہم پہلے کر چکے ہیں)۔

گھر کے بزرگوں کے ساتھ نرمی ومحبت کا برتائو، ان کی خدمت اور آرام کا خیال رکھنا، جو مائیں سکھائیں گی کل کو ان کے بچے بھی ان کی خدمت کر رہے ہوں گے، اور ’حیات طیبہ ‘ بسر کرنے والے خاندان وجود میں آئیں گے۔ ان شاء اللہ !

خاندان کو درپیش تمام خطرات سے مائوں کا آگاہ ہونا اور اپنے بچوں کو ان سے بچانے کی تدابیر کرنا اور ان پر محنت سے عمل درآمد کرنا ضروری ہے۔ سسرال میں پیش آنے والے مسائل سے بچوں کو آگاہ کرنا اور ان کا اسلام کی روشنی میںحل دینا بھی ضروری ہے۔ اسلام نے اس ضمن میں حقوق و فرائض کا واضح طور پر تعین کردیا ہے۔ یہ بدنصیبی ہے کہ شرح طلاق میں اضافہ ہونے کی وجوہات میں ایک وجہ مائوں کی نا سمجھی بھی ہے۔ بہو کی جائز معاملات میں بھی حمایت نہیں کرتیں اور بیٹیوں کی ناجائز مطالبات میں بھی لڑائی مول لے کر غلط رہنمائی کرتی ہیں۔ لہٰذا اپنے بچوں کے گھر بسانے اور خاندان کو مستحکم بنانے میں ماں کی ’دین داری اور سمجھ داری ‘ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

  • شہداء علی الناس: ہر مسلمان بہ حیثیت ’مسلمان ‘ شہادت حق ادا کرنے کے منصب پر فائز ہے:

وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط (البقرہ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک  ’اُمتِ وسط‘ بنایا ہے تا کہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو۔

والدین بچوں کو جیسے دُنیا میں رزق کمانے کا طریقہ سکھاتے ہیں اور دنیا کے دیگر فرائض ادا کرنے کے لیے محنت سے تیار کرتے ہیں، اس ذمہ داری کے لیے تیار کرنا بھی ان کا فرض ہے اور اس کا حساب بھی روز قیامت ان سے لیا جائے گا۔ وہ والدین جو خود ’مقصد زندگی ‘ سمجھ چکے ہیں اور یہ فرض ادا کر رہے ہیں، ان میں اس ذمہ داری کے بارے میں کتنی حساسیت پائی جاتی ہے ؟ اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے:

  • بچوں کے اندر اقامت دین کی ذمہ داری کی فکر بیدار کرنا۔
  • تحریک سے جوڑنے کے طریقے سوچنا ۔
  • ہم عمر تحریکی ساتھیوں سے ملانا اور اجتماعیت میں شامل کرنا۔
  • تحریکی لٹریچر کا مطالعہ کرانا اور اس کے لیے مشق اور تیاری کرانا۔
  • تیز رفتار زندگی کی دوڑ میں اس فریضے کو فراموش نہ کرنا۔

یہ فرضِ منصبی ہے، اس مقصد کے لیے :

  • چھوٹے بچوں کو مائیں پروگرام میں اپنے ساتھ رکھیں۔
  • گھروں میں تحریکی رسائل جاری کروائیں۔
  • اور متعلقہ کتب پر سٹڈی سرکل اور ڈسکشن فور مز رکھیں۔
  • قرآن پاک اگر اپنی روح کے ساتھ بچوں کو پڑھا دیا جاے تو نا ممکن ہے کہ بچے اپنے فرض سے غافل رہ جائیں۔
  • دین کے لیے قربانی کا تصور صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں کو سامنے رکھ کر دیا جائے۔
  • بچوں کو آسایشوں سے بچا کر ان میں سخت کوشی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ یقینا ایک تحریکی ماں کے بچے ایسے نخرے والے نہیں ہو سکتے کہ فلاں چیز نہیں کھانی اور فلاں لباس نہیں پہننا اور فلاں بستر کے بغیر سو نہیں سکتا وغیرہ ۔

تکمیل تربیت : یقینا بچوں کی تربیت کی تکمیل نہیں ہو سکتی :

  • جب تک معاشرہ تربیت یافتہ نہ ہو جائے جہاں اس کو زندگی بسر کرنی ہے۔
  • وہ تعلیمی ادارے درست نہ ہو جائیں جہاں اسے تعلیم حاصل کرنی ہے۔
  • میڈیا کا قبلہ درست نہ ہو جائے اور وہ بگاڑ کے بجاے اصلاح کا فریضہ انجام دینے لگ جائے۔
  • جب تک سودی نظام سے نجات نہ مل جائے جو اخلاقِ فاسد پیدا کر رہا ہو، اور رزقِ حرام قبولیت حق میں مانع ہو رہا ہو۔
  • یہ سب کچھ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک اللہ رب العالمین کا نازل کردہ اور پسندیدہ دین ’اسلام ‘ غالب نہیں آ جاتا۔
  • دین غالب نہیں آ سکتا جب تک ہم سب اور ہمارے بچے مل کر اس کے لیے جدوجہد نہیں کرتے اور اس فرض کو ادا کرنے میںتن من دھن لگا نہیں دیتے ۔

کیا ہم اپنا فرض تندہی سے ادا کر رہے ہیں ؟

دُعا ہے کہ: اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنَا حِسَابًا یَّسِیْرًا  ’’اے اللہ! ہمارا حساب آسان کرنا‘‘۔

دعائیں 

مَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِ ج وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَلَہٗ وَ لِیًّا مُّرْشِدًا O (الکہف ۱۸:۱۷) جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولی ومرشد (رفیق: سیدھی راہ دکھانے والا) نہیں پا سکتے ۔ 

لہٰذا ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے اوراس کی رحمت کے بغیر ملنی مشکل ہے۔ قرآن و حدیث میں بے شمار دعائیں موجود ہیں، جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہیں۔ ان کا بکثرت اہتمام ضروری ہے۔ یہ دعائیں ہمارے سامنے اولاد کی تربیت کا معیار بھی رکھ دیتی ہیں اور دل کی تڑپ کو اُجاگر بھی کرتی ہیں، مثلاً حضرت ابراہیم ؑ کی دعا جس کا پیچھے تذکرہ کیا گیا ۔ یہ اولاد کو ایسی امت میں دیکھنے کی تڑپ ہے جو خود ہی مسلمان نہ ہو بلکہ دنیا کو بھی مسلمان بنانے کا ہدف رکھتی ہو۔

اسی طرح سورۂ فرقان (۲۵:۷۴)میں دعا سکھائی گئی کہ :

رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ  اِمَامًا  O

گویا ’اولاد صرف آنکھوں کی ٹھنڈک ہی نہ ہو‘، ’متقین‘ کی بھی امامت کرے، یعنی ’نیکوں میں سب سے نیک ‘اور’امام ‘ ___ امامت کرنے والا ، رہنمائی کرنے والا۔ امام رول ماڈل ہوتا ہے، جس کی لوگ پیروی کرتے ہیں، جس کی اقتداکرتے ہیں۔ گویا اللہ سے یہ دعا کی جائے کہ ہمارے بچے انسانیت کی رہنمائی کرنے والے ’قائدین ‘ ہوں، اور دنیا ان کے پیچھے چلنے والی ہو، اور تمام دنیا کے لیڈر کی طرح نہیں بلکہ ’متقین کے امام ‘ ہوں۔ یہ ایک آئیڈیل ہے جو ہمیں دکھا دیا گیا ۔ لہٰذا اپنے اہل خانہ کے لیے متقین کا امام بننے کے لیے دعائیں اور صلوٰۃ حاجت ، ان کی اصلاح کے لیے ، ان کا فرضِ منصبی سمجھنے اور سمجھانے کے لیے اور اس کے نتیجے میں دنیا وآخرت کی فلاح کے لیے، ہمارے معمول میں شامل ہونی چاہیے۔ بے شک رب کریم ہے اور ستّر مائوں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ ماں جب دردِ دل سے دعا کرتی ہے تو قبول ہوتی ہے:

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا  ط  اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ O (البقرہ ۲:۱۲۷)

اور جو کچھ ہم کر پا رہے ہیں، اس کو قبول فرما۔ بے شک تو سننے اور جاننے والا ہے۔

اللہ کی طرف سے اور آپ کی آرا کی روشنی میں میرے ناتواں کندھوں پر ایک بھاری     ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میں بہت ناتواں ہوں، کمزور ہوں لیکن میں نے     یہ ذمہ داری اللہ کے بھروسے پر اٹھا لی ہے۔ اس موقع پر مجھے حضرت علیؓ کا قول یاد آیا: ’’اگرچہ میری ٹانگیں پتلی ہیں، میری آنکھیں خراب ہیں لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کے لیے حاضر ہوں‘‘۔

یاد کیجیے وہ وقت جب مکہ میں مسلمان مغلوب تھے، ان پر ظلم ڈھائے جا رہے تھے اور انھیں انگاروں پر لٹایا جا رہا تھا۔ اللہ کا نام لینا انگارہ ہاتھ میں لینے کے مترادف تھا۔ اذیتیں دی جاتی تھیں، ترغیبات دی جاتیں، گھروں سے نکالا جاتا، گویا زمین ان پر تنگ کردی گئی تھی۔ دین غریب (اجنبی) تھا، نصرت کرنے والے کم تھے مگر مضبوط تھے۔ ان کا ایمان و یقین اور بھروسا اللہ پر تھا۔ ان کی  چربی پگھل کر آگ کے انگارے ٹھنڈے کر دیتی لیکن وہ ’احد، احد‘ پکارتے رہتے۔ ان کے جسم نیزوں سے چھلنی کردیے جاتے لیکن وہ لا الٰہ الا اللہ کا ورد کرتے رہتے، دین سیکھتے سکھاتے اور  دین کی نصرت کرتے رہتے۔ کوئی چیز راہ کی رکاوٹ نہ بنی، نہ گھر، نہ رشتہ دار، نہ اولاد، نہ کاروبار،        نہ ملازمت۔ اگر گھر اور خاندان رکاوٹ بنا تو ہجرت کی راہ اپنائی۔ مال و دولت رکاوٹ بنے      تو مصعب بن عمیرؓ کی طرح وہ کپڑے بھی اُتار کر رکھ دیے جو اس کے مرہونِ منت تھے اور ایک  ٹاٹ لپیٹ کر درِ نبویؐ پر حاضر ہوگئے۔ نہ ماں کی محبت بیڑیاں ڈال سکی، نہ آرام و آسایش، نہ قبیلہ، نہ برادری، نہ عورت ہونا مسئلہ بنا اور نہ بچہ ہونا۔ جب انھوں نے کہا کہ نحن انصاراللّٰہ تو انصاراللّٰہ بن کر دکھایا۔ انھوں نے ثابت کردیا: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرہ ۲:۱۶۵) ’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔

آج دین اسلام پھر غریب ہے، خواہ کلمے کے نام پر حاصل کردہ پاکستان میں ہے یا   ارضِ فلسطین میں۔ کشمیر، افغانستان، وزیرستان ہو یا سوات، ہرجگہ مسلمان پر دہشت گردی کا لیبل     لگا ہے۔ آج کشمیر، ابوغریب اور گوانتانامو کے عقوبت خانے پھر سے مکہ کی گلیوں کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔

ادھر دین کے نام لیوائوں کو وَھن (دنیا کی محبت اور موت کا خوف)لگ چکا ہے، خواہ لاہور میں ہوں یا جدہ یا دبئی میں جہاں دولت اور آسایشوں کی ریل پیل ہے، نیز دنیا کی دوڑ اور مادہ پرستی نے بھی دین کو غریب کردیا ہے۔ دوسری جانب دین اگر دیہات میں ہے تو جہالت نے اسے غربت میں مبتلا کردیا ہے۔ اکثریت شیطان کے جال اور فریب میں گرفتار ہوچکی ہے۔ عورتوں کی بڑی تعداد بھی اپنی ذمہ داریاں فراموش کرچکی ہے۔

ان حالات میں بڑی بشارت ہے اُن خواتین و حضرات کے لیے جو اللہ کے دین کی  غربت کو دُور کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ ان کے لیے جنت کی خوش خبری ہے (فطوبٰی لِلغربائ)۔ اسی جنت کی طلب میں مجھے حضرت علیؓ کا قول یاد آیا اور مجھ جیسی ناتواں نے اس بھاری ذمہ داری کو قبول کرنے کا عہد کرلیا کہ اس دین کی غربت دُور کرنے کے لیے میں حاضر ہوں، اگرچہ میں کمزور ہوں مگرمیرا بھروسا جس ذات پر ہے وہ حی و قیوم ہے، وہ علٰی کل شیٔ قدیر ہے۔ جب وہ دست و بازو بن جاتا ہے تو ساری کمزوریاں قوت میں بدل جاتی ہیں، راستے آسان ہوجاتے ہیں، طوفانوں کے رخ بدل جاتے ہیں، ۳۱۳ ایک ہزار کو شکست دے دیتے ہیں اور ہزار لاکھوں پر غالب آجاتے ہیں۔ کیا میں درست کہہ رہی ہوں؟

آیئے ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم اس دین کی غربت کو دُور کرنے کے لیے اپنا تن من دھن لگائیں گے اور کوئی مجبوری، کوئی عُذر ہماری راہ کی رکاوٹ نہ بنے گا۔ آیئے! میرے ساتھ مل کر کہیے: لبیک اللھم لبیک، لبیک اللھم لبیک… میں حاضر ہوں اے میرے اللہ، میں حاضر ہوں اے میرے اللہ! لیکن یہ یاد رکھیے، محض منہ سے لبیک کہہ دینے سے اللہ راضی نہیں ہوجاتا، محض نعرئہ تکبیر لگا لینے سے زمین پر اللہ کی کبریائی نافذ نہیں ہوجاتی:

کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جائو گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنھوں نے (اس کی راہ میں) جاں فشانی کی اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کے سوا کسی کو جگری دوست نہ بنایا۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔(التوبہ۹:۱۶)

پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمھیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے۔ ان پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلامارے گئے، حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھ اہلِ ایمان چیخ اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ (اُس وقت انھیں تسلی دی گئی کہ) ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔(البقرہ۲:۲۱۴)

جہاد شرط ہے، اَن تھک کوشش شرط ہے، آزمایش لازم ہے اور جہاد بالنفس سب سے پہلا جہاد ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔ اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ (الصف۶۱:۲ تا۴)

یاد رکھیں اپنے آپ کو مثالی، باکردار مسلمان تحریکی خاتون بنانا ہماری اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ قرآن ایک چراغ ہے، ایک حرارت ہے جو ایک فرد سے دوسرے فرد کو منتقل ہوتی ہے۔ لیکن اگر قرآن کی دعوت دینے والا خود ہی بے عمل ہو تو یہ چنگاری دوسرے فرد تک پہنچنے سے پہلے بجھ جاتی ہے، تبلیغ بے اثر ہوجاتی ہے۔ لہٰذا قرآن کی تعلیم کا نفاذ سب سے پہلے اپنے اُوپر کرنا ہے۔

مجھے اور آپ کو یہ عہد کرنا ہے کہ اے اللہ! میں تیرے دین پر عمل کروں گی۔ میں دین میں پوری کی پوری داخل ہوجائوں گی، ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً (البقرہ۲: ۲۰۸)کی مثال بنوں گی۔ میرا اخلاق، میرا کردار، میرا عمل وہ ہوگا جو تجھے پسند ہے۔ میں جھوٹ نہ بولوں گی، غیبت نہ کروں گی، گناہ نہ کروں گی اور بے حیائی کے کام کی مرتکب نہ ہوں گی۔

ہم جو لباس پہنتے ہیں، ہمارے دین نے اس کے بارے میں بھی ہدایات دی ہیں۔ آیئے، عہد کریں: میرا لباس وہ ہوگا جو میرے اللہ اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند ہے۔ میرا لباس تقویٰ کا لباس ہوگا۔ میرا گھر اسلامی تہذیب کا نمونہ ہوگا۔ میرے بچے مجاہد بنیں گے، اداکار اور گلوکار نہیں بنیں گے۔ میرا کوئی بچہ بے نمازی نہ ہوگا، اللہ کا نافرمان نہ ہوگا۔ میرے اہلِ خاندان اللہ کے دین کے راہی بنیں گے۔ میرے محلے میں میرا گھر روشنی کا مینار اور درسِ قرآن کا مرکز ہوگا۔ میری صلاحیتیں، میرے اوقات دین کی اقامت اور سربلندی میں لگیں گے۔ کوئی عذر میری راہ میں رکاوٹ نہ بنے گا۔ اپنی زندگی، اپنے گھر میں اسلامی انقلاب میری ابتدا اور دنیا میں اللہ کے دین کا نفاذ میری انتہا ہوں گے___ بولیں: اتفاق ہے؟ عہد ہے؟ ان شاء اللہ!

تمام ارکان و کارکنانِ جماعت اسلامی پاکستان کو روشنی کا چراغ بننا ہے، مثال بننا ہے اور جماعت اسلامی پاکستان حلقۂ خواتین کو خواتینِ اسلام کا ہراول دستہ بنانا ہے۔ یاد رکھیں کوئی نظم، ناظمہ اور تنظیم اُس وقت تک مؤثر نہیں ہوتی جب تک ارکان و کارکنان اس کے دست و بازو نہ بنیں۔ لہٰذا نظم کی پکار پر لبیک کہیں، معذرتیں کرنے والے نہ بنیں۔ اپنے اندر جہاد فی سبیل اللہ کے لیے قوت پیدا کریں۔ وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرہ ۲:۴۵) ’’صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔

عبادات کو عادت بننے سے بچائیں۔ نماز ایسی ہو کہ آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔ قرآن اس طرح پڑھیں کہ دلوں کے زنگ دُور ہوجائیں اور آنکھیں خشیت ِ الٰہی سے بھرآئیں۔ روزہ ایسا ہو کہ تقویٰ حاصل ہوجائے۔ قرآن کا علم حاصل کریں۔ جتنا حصہ پڑھیں اس میں سے عمل کے لیے اصول نکالیں اور عمل پیرا ہوجائیں۔ چھوٹے گناہوں سے بھی بچیں۔ شریعت کے دائرے کے اندر رہ کر دین کا کام کریں۔ ڈرائیور کے ساتھ تنہا لمبا سفر نہ کریں۔ محرم کے بغیر رات کے سفر سے    حتی الامکان گریز کریں، اِلا.ّ یہ کہ بڑے گروپ کی صورت میں ہو۔

اپنی زندگی کو سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب تر کریں۔ تمام معمولات مسنون طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ زندگی میں آسایشوں اور مادیت کی دوڑ سے خود کو بچانے کی حتی الامکان کوشش کریں۔ سادگی اپنائیں، اپنے شوہر کی خدمت کریں، بچوں کو اسلام کا ہراول دستہ بنائیں۔ گلی محلے میں قرآن کی دعوت اور قرآن کی کلاسوں کا جال بچھا دیں۔ یہ سب کر کے بھی اللہ سے کثرت سے استغفار کریں کیوں کہ اللہ نے دنیا کے سب سے عظیم مومنِ حنیفؐ سے بھی فرمایا:

فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَمنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوٰکُمْo (محمد۴۷:۱۹)پس اے نبیؐ ، خوب جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے اور معافی مانگو اپنے لیے بھی اور مومن مردوںاور عورتوں کے لیے بھی۔ اللہ تمھاری سرگرمیوں کو خوب جانتا ہے اور تمھارے ٹھکانے سے بھی واقف ہے۔

اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی فرماتے تھے: ’’میں دن میں ۷۰ بار استغفار کرتا ہوں‘‘۔ پھر اپنے رب سے استعانت کی دعا کریں، دعا قبول ہوگی۔ ان شاء اللہ!

آیئے پھر دعا کریں: اے اللہ! ہم حاضر ہیں، ہماری نصرت فرما! ہمیں اچھا مسلمان بنا، ہمیں مثالی مائیں بنا، ہمیں مثالی تحریکی خواتین بنا اور ہماری کمزوریوں سے درگزر فرما۔ آمین!

(اجتماع عام اکتوبر ۲۰۰۸ء میں حلف برداری کے بعد خطاب)

۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد جہاں مغرب کی ساری توپ و تفنگ کا رُخ عالم اسلام کی طرف پھر گیا ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی زندگی حرام کی جا رہی ہے‘ وہیں میڈیا میں ’’اسلام‘‘ پھر سے ایک عنوان بن گیا ہے۔ ایک جانب موڈریٹ اسلام کے علم بردار ہر اُس چیز کو باطل قرار دیتے نظرآرہے ہیں جسے مغرب ناپسند کرتا ہے--- اور دوسری جانب ’’اعتدال‘‘ ان کے نزدیک اسلام اور مغرب کے درمیان کسی راستے کا نام ہے۔ پاکستان میں متحدہ مجلسِ عمل کی جزوی کامیابی کے بعد ’’عورت‘‘ اور ’’پردہ‘‘ کے موضوع پر متعدد مضامین نظر سے گزرے۔ کہیں پردے (برقع) کو پھانسی کا پھندا قرار دیا گیا--- کہیں اسے ایک گٹھڑی میں بند کر دینے کے مترادف کہا گیا‘ اور کچھ تو اس حد تک پہنچے کہ ان کے خیال میں خیر کے غالب نہ آسکنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ خواتین کا حجاب اوڑھنا بھی ہے۔ افسوس اُمت مسلمہ کے ان اسکالروں پر‘ جنھیں دین کے پھیل نہ سکنے میں اُمت کی حد سے بڑھی ہوئی بے دینی نہیں بلکہ ٹوٹی پھوٹی دین داری ہی نظر آتی ہے۔

ان حالات میں لازم ہے کہ پردے اور حجاب کی آیات کی وضاحت کی جائے تاکہ بہت سے ناپختہ ذہنوں کو شکوک و شبہات سے بچایا جا سکے۔

فی الوقت ہم اپنی بحث ان نکات تک محدود رکھیں گے جو سورۂ احزاب کی آیات ۵۳ اور ۵۹ اور سورۂ نور کی آیت نمبر ۳۱ پر بحث کرکے اٹھائے جاتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے:

  •  سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۵۳ (آیت حجاب) محض اُمہاتِ المومنین کے لیے ہے۔
  • جلباب اور خمر دراصل ایک ہی چیز قرار پاتے ہیں (بڑی چادر اور چھوٹا دوپٹہ)
  •  الا ما  ظھر منھا ، میں خوب صورت لباس‘ چوڑیاں‘سرمہ‘ مہندی--- سبھی کچھ کھول دینا درست ہے۔
  •  اور قرآن و حدیث میں ان کے خیال میں کوئی ایسا حکم نہیں جو چہرے کے پردے کی تائید کرتا ہو---
  • سورہ احزاب کی آیت نمبر ۵۹ محض ایک ایجابی اور معاشرتی حکم ہے۔

آگے کچھ بھی لکھنے سے قبل ایک بات کا اظہار ضروری سمجھتی ہوں کہ ہر دور میں دین پر تنقید کرنے والوں نے خود کو ’’جدت پسند‘‘ کہا اور اپنے لیے ’’عقلیت پسند‘‘ کی اصطلاح استعمال کی--- اور تو اور حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہرنبی کی دعوت کو ’’اساطیر الاولین‘‘ کہہ کر ہی رد کیا گیا اور ایمان و عمل والوں کو ’’سفھا‘‘کہا گیا (اب ہمارے محترم مسلمان محققین اور دانش ور سوچ لیں انھیں یہ اصطلاحات کہاں تک زیب دیتی ہیں)۔

اصل میں دین اسلام ہی جدید ہے--- ’’جہالت‘‘ قدیم ترین ہے اور حیا‘ پردہ‘ جلباب جدید ہے۔ اس ضمن میں نام نہاد جدید معاشرے دراصل پھر سے قدیم ترین دور کی طرف لوٹ رہے ہیں جو بے پردگی ہی نہیں بے لباسی کا دور تھا-- (اور ہر بے پردگی کی انتہا  بے لباس ہی ہوتی ہے) جو جہالت اور تاریکی کا دور تھا۔

اپنے موضوع کی طرف آتے ہوئے میں آغاز سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۵۳ سے کروں گی جسے صرف ’’اُمہات المومنین‘‘ کے لیے مخصوص قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ آیت حجاب کے بارے میں نہیں۔ آیئے اس پر غور کریں۔ ہم نے اس آیت کو آج تک ہر تفسیر میں ’’آیت حجاب‘‘ کے طور پر ہی پڑھا ہے۔

مولانا مفتی محمد شفیعؒ لکھتے ہیں: ’’قرآن کریم میں پردۂ نسواں اور اس کی تفصیلات کے متعلق سات آیتیں نازل ہوئیں: چار سورۂ احزاب میں‘ تین سورۂ نور میں گزر چکی ہیں۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ پردے کے متعلق سب سے پہلے نازل ہونے والی یہی آیت ہے‘‘ (معارف القرآن‘ ج ۷‘ ص ۲۱۰)۔

مولانا مودودیؒ رقم طراز ہیں: ’’یہی آیت ہے جسے آیت حجاب کہا جاتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۲۱)

اب آیئے آیت کی طرف --- ترجمہ ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں بلااجازت نہ چلے آیا کرو‘ نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو۔ ہاں‘ اگر تمھیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آئو۔ مگر جب کھانا کھا لو تو منتشر ہوجائو‘ باتیں کرنے میں نہ لگے رہو۔ تمھاری یہ حرکتیں نبیؐ کو تکلیف دیتی ہیں مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیںکہتے۔ اور اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا۔ نبی ؐکی بیویوں سے اگر تمھیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو‘ یہ تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ تمھارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوںسے نکاح کرو‘ یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ تم خواہ کوئی بات ظاہر کرو یا چھپائو ‘اللہ کو ہر بات کا علم ہے‘‘۔(الاحزاب ۳۳:۵۳)

مولانا مودودیؒ اس آیت کی تشریح کا آغاز یوں کرتے ہیں: یہ اس حکم عام کی تمہید ہے جو تقریباً ایک سال بعد سورۂ نور کی آیت ۲۷ میں دیا گیا… اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ کوئی شخص‘ خواہ وہ قریبی دوست یا دور پرے کا رشتے دار ہی کیوں نہ ہو‘ آپؐ کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہو۔ پھر سورۂ نور میں اس قاعدے کو تمام مسلمانوں کے گھروں میں رائج کرنے کا عام حکم دے دیا گیا۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۲۰)

مفتی محمد شفیعؒ اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں: ’’آیت مذکورہ میں جتنے احکام آئے ہیں ان میں خطاب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی ازواج مطہرات کو ہوا ہے مگر حکم عام ہے ساری اُمت کے لیے‘ بجز اس آخری حکم کے کہ ازواجِ مطہرات کے لیے یہ خصوصی حکم ہے کہ وہ آپؐ کی وفات کے بعد کسی سے نکاح نہیں کرسکتیں‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۷‘ ص ۲۰۳)

ہر دانش ور اتنی دانش تو رکھتا ہے کہ سرسری نظر سے دیکھنے کے بعد ہی جان سکے کہ اس آیت میں سوائے اُمہات المومنین کے نکاح کی ممانعت کے--- کون سا حکم ہے جس سے کوئی مہذب معاشرہ صرفِ نظر کرسکتا ہو---

دوسروں کے گھروں میں بلااجازت داخل ہونا‘ کھانے کے اوقات تاکتے رہنا‘ عین کھانے کے وقت بغیر اجازت چلے آنا‘ کھانے کے بعد بیٹھ کر دیر تک گپیں ہانکتے رہنا کون سے مہذب معاشرے کے اصول ہیں--- جن کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے علاوہ کسی اور کو ممانعت کی ضرورت نہیں---؟ اس کو صرف نبیؐ کے گھر والوں کے لیے مخصوص مان لینا اور معاملہ ناسخ و منسوخ تک لے جانا ایک بڑی جسارت ہے جس کی تائید کسی تفسیر سے فراہم نہیں ہوتی‘--- صرف خیال آرائی کی جا سکتی ہے۔

اس آیت کے جو معنی مختلف مفسرین نے بیان کیے ہیں ان پر ایک نظر ڈالنے سے بات زیادہ واضح ہو جائے گی۔

مولانا امین احسن اصلاحیؒ ’’یہ طریقہ تمھارے دلوں کو بھی پاکیزہ رکھنے والا ہے اور ان کے دلوں کو بھی‘‘کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’بظاہر یہ بات ایک غیر ضروری تکلیف محسوس ہوتی ہے کہ کسی کو ان سے ایک گلاس پانی بھی مانگنے کی ضرورت پیش آئے تو اس کے لیے بھی پردے کا اہتمام کرے۔ لیکن یہ کوئی تکلیف نہیں بلکہ دل کو آفات سے محفوظ رکھنے کی ایک نہایت ضروری تدبیر ہے‘‘۔ آگے لکھتے ہیں: ’’اس زمانے کے مدعیانِ تہذیب اپنے کپڑوں کی صفائی کا تو بڑا اہتمام رکھتے ہیں۔ مجال نہیں کہیں پر ایک شکن یا ایک دھبہ بھی پڑنے دیں--- لیکن ان کے دل جس گندگی میں لت پت رہیں ان کی انھیں کوئی پروا نہیں ہوتی‘‘۔ (تدبر قرآن‘ ج۷‘ ص ۲۶۴)

مفتی محمد شفیع ؒرقم طراز ہیں: ’’اس میں بھی اگرچہ سبب نزول کے خاص واقعہ کی بنا پر بیان اور تعبیر میں خاص ازواجِ مطہرات کا ذکر ہے--- مگر حکم ساری اُمت کے لیے عام ہے‘‘۔ آگے لکھتے ہیں: ’’اس جگہ یہ بات قابل نظر ہے کہ یہ پردے کے احکام جن عورتوں اور مردوں کو دیے گئے ہیں ان میں عورتیں تو ازواجِ مطہرات ہیں جن کے دلوں کو پاک صاف رکھنے کاحق تعالیٰ نے خود ذمہ لیا ہے جس کا ذکر اس سے پہلی آیت --- لیذھب عنکم الرجس اہل البیت--- میں مفصل آچکا ہے۔ دوسری طرف جو مرد مخاطب ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ ہیں جن میں بہت سے حضرات کا مقام فرشتوں سے بھی آگے ہے۔لیکن ان سب امور کے ہوتے ہوئے ان کی طہارت قلب اور نفسانی وساوس سے بچنے کے لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ مرد و عورت کے درمیان پردہ کرایا جائے۔ آج کون ہے جو اپنے نفس کو صحابہ کرامؓ کے نفوسِ پاک سے اور اپنی عورتوں کے نفوس کو ازواجِ مطہرات کے نفوس سے زیادہ پاک ہونے کا دعویٰ کر سکے۔ اور یہ سمجھے کہ ہمارا اختلاط عورتوں کے ساتھ کسی خرابی کا موجب نہیں‘‘۔ (معارف القرآن ‘ج ۷‘ ص ۲۰۰)

مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اس حکم کے بعد ازواجِ مطہراتؓ کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا اس لیے تمام مسلمانوں کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے۔ آیت کا آخری فقرہ خود اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو لوگ بھی مردوں اور عورتوں کے دل پاک رکھنا چاہیں انھیں یہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ج ۴‘ ص ۱۲۱)

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے بے خبر تھے کہ یہ آیت تو صرف اُمہات المومنین کے لیے ہے--- اور گھروں پر پردے لٹکا لیے تمام مسلمانوں نے--- اور آپؐ نے کسی کو منع بھی نہ فرمایا--- یا پھر مولانا مودودی ؒ اور دوسرے مفسرین غلط کہہ رہے ہیں‘ معاذ اللہ!

مولانا مودودیؒ تو اس سے بھی آگے جاتے ہیں۔ لکھتے ہیں: ’’اب جس شخص کو بھی خدا نے بینائی عطا کی ہے وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جو کتاب مردوں کو عورتوں سے رُو در رُو بات کرنے سے روکتی ہے‘ اور پردے کے پیچھے سے بات کرنے کی مصلحت یہ بتاتی ہے کہ’’تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے‘‘، اُس میں سے آخریہ نرالی روح کیسے کشید کی جا سکتی ہے کہ مخلوط مجالس اور مخلوط تعلیم اور جمہوری ادارات اور دفاتر میں مردوں عورتوں کا بے تکلف میل جول بالکل جائز ہے اور اس سے دلوں کی پاکیزگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی کو قرآن کی پیروی نہ کرنی ہو تو اس کے لیے زیادہ معقول طریقہ یہ ہے کہ وہ اس کی خلاف ورزی کرے اور صاف صاف کہے کہ میں اس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن یہ تو بڑی ہی ذلیل  حرکت ہے کہ وہ قرآن کے صریح احکام کی خلاف ورزی بھی کرے اور پھر ڈھٹائی کے ساتھ یہ بھی کہے کہ یہ اسلام کی ’’روح‘‘ ہے جو میں نے نکال لی ہے۔ آخر وہ اسلام کی کون سی روح ہے جو قرآن و سنت کے باہر کسی جگہ ان لوگوں کو مل جاتی ہے؟‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۲۱-۱۲۲)

مفتی محمد شفیع ؒنے حجاب کے احکامات کی پوری تفصیل اسی آیت کے ذیل میں بیان کی ہے اور اس میں اب کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ یہ کوئی ’’پیوند‘‘ یا ’’سہارا‘‘نہیں--- بلکہ اصل آیت حجاب یہی آیت ہے۔

اب آیئے سورہ نور کی آیت ۳۱ کی طرف۔ جس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ اس میں منہ ڈھانپنے کا ذکر نہیں ہے اور الاما ظھر منھا کی تشریح میں چہرہ‘ خوب صورت لباس‘ سرمہ‘ چوڑیاں‘ مہندی لگے ہاتھ سب کچھ کھول دینے کو استثنا میں شامل کرتے ہیں۔ تو پھر ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ لاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اور اِلاَّ مَا ظَھَرَمِنْھَا میں فرق کیا ہے؟

آیئے پہلے آیت کا ترجمہ دیکھیں: اے نبیؐ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں‘ اور بنائوسنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود بخود ظاہر ہو جائے‘ اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بنائو سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے …(مکمل فہرست محرم رشتہ داروں کی)… وہ اپنے پائوں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے‘‘۔ (النور ۲۴:۳۱)

اس کی تشریح میں ابن کثیرؒ لکھتے ہیں: ’’عورتوں کو بھی اپنی عصمت کا بچائو کرنا چاہیے۔ بدکاری سے دُور رہیں۔ اپنا آپ کسی کو نہ دکھائیں۔ اجنبی غیرمردوں کے سامنے اپنی زینت کی کسی چیز کو ظاہر نہ کریں۔ ہاں‘ جس کا چھپانا ممکن ہی نہ ہو اس کی اور بات ہے‘ جیسے چادر ‘اُوپر کا کپڑا وغیرہ جس کا پوشیدہ رکھنا عورتوں کے لیے ناممکن ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد چہرہ‘ پہنچوں تک کے ہاتھ اور انگوٹھی ہے--- لیکن ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ یہی زینت کے وہ محل ہیں جن کے ظاہر کرنے سے شریعت نے ممانعت کر دی ہے‘‘۔ حضرت اسمائؓ والی حدیث (جس میں آپؐ نے ان سے فرمایا تھا کہ عورت جب بالغ ہو جائے تو چہرے اور ہاتھ کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آنا چاہیے) بیان کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ ’’یہ مُرسل ہے۔ خالد بن دریکؓ اسے حضرت عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں اور ان کا مائی صاحبہ سے ملاقات کرنا ثابت نہیں واللہ اعلم!‘‘ (تفسیر ابن کثیر‘ ج ۳‘ ص ۵۰۰)

مفتی محمد شفیعؒ  معارف القرآن میں لکھتے ہیں: ’’عورت کے لیے اپنی زینت کی کسی چیز کو مردوں کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں بجز ان چیزوں کے جو خود بخود ظاہر ہو ہی جاتی ہیں اور عادتاً ان کا چھپانا مشکل ہے‘ وہ مستثنیٰ ہیں۔ ان کے اظہار میں کوئی گناہ نہیں۔ مراد اس سے کیا ہے؟ اس میں حضرت عبداللہؓ بن مسعود نے فرمایا:  ما ظھرمنھا میں جس چیزکو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ اوپر کے کپڑے ہیں‘ جیسے برقع یا لمبی چادر جو برقع کے قائم مقام ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ اس سے مرادچہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔ اس لیے فقہاے اُمت میں اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ چہرہ اور ہتھیلیاںپردے سے مستثنیٰ ہیں یا نہیں۔ لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر چہرہ اور ہتھیلیوں پر نظر ڈالنے سے فتنے کا اندیشہ ہو تو ان کا دیکھنا جائز نہیں۔

’’قاضی بیضاوی اور خازن نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ مقتضا اس آیت کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے اصل حکم یہی ہے کہ وہ اپنی زینت کی کسی چیز کو بھی ظاہر نہ ہونے دے۔ بجز اس کے جو نقل و حرکت اور کام کاج کرنے میں عادتاً کھل ہی جاتی ہیں۔ ان میں برقع اور چادر بھی داخل ہیں اور چہرہ اور ہتھیلیاں بھی۔

’’جن فقہا نے چہرہ اور ہتھیلیاں دیکھنے کو جائز قرار دیا ہے وہ بھی اس پر متفق ہیں کہ اگر فتنے کا اندیشہ ہو تو چہرہ وغیرہ دیکھنا بھی ناجائز ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ حُسن اور زینت کا اصل مرکز انسان کا چہرہ ہے اور زمانہ فتنہ و فساد اور غلبہ ہویٰ اور غفلت کا ہے--- اس لیے بجز مخصوص ضرورتوں کے‘ مثلاً علاج معالجہ یا کوئی شدید خطرہ وغیرہ‘ عورت کو غیرمحارم کے سامنے قصداً چہرہ کھولنا بھی ممنوع ہے‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۴۰۱-۴۰۲)

مولانا مودودی ؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اس آیت کے مفہوم کو تفسیروں کے مختلف بیانات نے اچھا خاصا مبہم بنا دیا ہے‘ ورنہ بجائے خود بات بالکل صاف ہے۔ پہلے فقرے میں ارشاد ہوا ہے: لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ ’’وہ اپنی آرایش و زیبایش کو ظاہر نہ کریں‘‘۔اور دوسرے فقرے میں اِلاَّ بول کر اس حکم نہی سے جس چیز کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ ہے  مَا ظَھَرَ مِنْھَا۔ ’’جو کچھ اس آرایش و زیبایش میں سے ظاہر ہو‘ ظاہر ہوجائے‘‘۔ اس سے صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو خود اس کا اظہار اور اس کی نمایش نہ کرنی چاہیے‘ البتہ جو آپ سے آپ ظاہر ہو جائے (جیسے چادر کا ہوا سے اُڑ جانا اور کسی زینت کا کھل جانا)‘ یا جو آپ سے آپ ظاہر ہو (جیسے وہ چادر جو اُوپر سے اوڑھی جاتی ہے‘ کیونکہ بہرحال اس کا چھپانا توممکن نہیں ہے‘ اور عورت کے جسم پر ہونے کی وجہ سے بہرحال وہ اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے۔ اس پر خدا کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ یہی مطلب اس آیت کا حضرت عبداللہ بن مسعود‘ حسن بصری‘ابن سیرین اور ابراہیم نخعی نے بیان کیا ہے۔ اس کے برعکس بعض مفسرین نے  مَا ظَھَرَمِنْھَا کا مطلب لیا ہے  ما یظھرہ الانسان علی العادۃ الجاریۃ (جسے عادتاً انسان ظاہر کرتا ہے)‘ اور پھر وہ اس میں منہ اور ہاتھوں کو ان کی تمام آرایشوں سمیت شامل کر دیتے ہیں… یہ مطلب ابن عباسؓ اور ان کے شاگردوں سے مروی ہے۔ اور فقہاء حنفیہ کے ایک اچھے خاصے گروہ نے اسے قبول کیا ہے (احکام القرآن للجصاص‘ ج ۳‘ ص ۳۸۸-۳۸۹)۔لیکن ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مَا ظَھَرَ کے معنی مَا یُظْھِرُعربی زبان کے کس قاعدے سے ہوسکتے ہیں۔ ’’ظاہر ہونے اور ’’ظاہر کرنے میں‘‘ کھلا ہوا فرق ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن صریح طور پر ’’ظاہرکرنے‘‘ سے روک کر ’’ظاہر ہونے‘‘ کے معاملے میں رخصت دے رہا ہے۔ اس رخصت کو ظاہر کرنے کی حد تک وسیع کرنا قرآن کے بھی خلاف ہے اور ان روایات کے بھی خلاف جن سے ثابت ہو رہا ہے کہ عہدنبویؐ میں حکم حجاب آجانے کے بعد عورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں‘ اور حکم حجاب میں منہ کا پردہ شامل تھا‘ اور احرام کے سوا دوسری تمام حالتوں میں نقاب کو عورتوں کے لباس کا ایک جز بنا دیا گیا تھا۔ پھر اس سے بھی زیادہ قابل تعجب بات یہ ہے کہ اس رخصت کے حق میں دلیل کے طور پر یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ منہ اور ہاتھ عورت کے ستر میں داخل نہیں ہیں۔ حالانکہ ستر اور حجاب میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ ستر تو وہ چیز ہے جسے محرم مردوں کے سامنے کھولنا بھی ناجائز ہے۔ رہا حجاب‘ تو وہ ستر سے زائد ایک چیز ہے جسے عورتوں اور غیرمحرم مردوں کے درمیان حائل کیاگیا ہے اور یہاں بحث ستر کی نہیں بلکہ احکامِ حجاب کی ہے‘‘۔(تفہیم القرآن‘ج ۳‘ ص ۳۸۶)

یہ دونوں تفاسیر اتنی واضح ہیں کہ کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا۔ حضرت اسماء کے --- باریک لباس والی روایت سترسے متعلق ہے (جسے ابن کثیر مرسل قرار دیتے ہیں)۔ اس سے حجاب پر استدلال غلط استدلال ہے۔ اور عورت کو عورۃ قرار دینے والی حدیث کو محض ایک تکریم قرار دے کر ستروحجاب سے نکال دینا--- گویا ’جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے‘ والی بات ہے۔ ورنہ ’’عورہ‘‘ کے مفہوم سے کون واقف نہیں۔

رہی یہ بات کہ نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہی اس وقت جاتا ہے جب چہرہ کھلا ہو۔ اس کے جواب میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’اس سے کسی کو غلط فہمی نہ ہو کہ عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی عام اجازت تھی تبھی تو غضِ بصر کا حکم دیا گیا‘ ورنہ اگر چہرے کا پردہ رائج کیا جا چکا ہوتا تو پھر نظر بچانے اور نہ بچانے کا کیا سوال۔ یہ استدلال عقلی حیثیت سے بھی غلط ہے اور واقعہ کے اعتبار سے بھی۔ عقلی حیثیت سے اس لیے غلط ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہو جانے کے باوجود ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں‘ جب کہ اچانک کسی عورت اور مرد کا آمنا سامنا ہوجائے اور ایک پردہ دار عورت کو بھی بسااوقات ایسی ضرورت لاحق ہو سکتی ہے کہ وہ منہ کھولے۔ اور مسلمان عورتوں میں پردہ رائج ہونے کے باوجود بہرحال غیرمسلم عورتیں توبے پردہ ہی رہیں گی۔    لہٰذا محض غضِ بصر کا حکم اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عورتوں کے کھلے منہ پھرنے کو  مستلزم ہے۔

’’اور واقعہ کے اعتبار سے یہ اس لیے غلط ہے کہ سورۂ احزاب میں احکامِ حجاب نازل ہونے کے بعد جو پردہ مسلم معاشرے میں رائج کیا گیا تھا اس میں چہرے کا پردہ شامل تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس کا رائج ہونا بکثرت روایات سے ثابت ہے۔ واقعہ افک کے متعلق حضرت عائشہؓ کا بیان جو نہایت معتبر سندوں سے مروی ہے اس میں وہ فرماتی ہیں کہ جنگل سے واپس آکر جب میں نے دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے تو میں بیٹھ گئی اور نیند کا غلبہ ایسا ہوا کہ وہیں پڑ کر سو گئی۔ صبح کو صفوان بن معطل وہاں سے گزرا تو دور سے کسی کو پڑے دیکھ کر ادھر آگیا--- وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا کیونکہ حجاب کا حکم آنے سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکا تھا۔ مجھے پہچان کر جب اس نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا تو اس کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانک لیا (بخاری‘ مسلم‘ احمد‘ ابن جریر‘ سیرت ابن ہشام)‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۳۸۱)

ہمارے لیے اُمہات المومنین ہی نمونہ ہیں۔ وہ چراغِ راہ ہیں۔ ان کے حجاب سے اشاعت دین کے راستے نہ رُکے تو ان شاء اللہ ہمارے حجاب سے بھی نہ رُکیں گے۔ ہمیں اس پر پوری طرح شرح صدر ہے کہ یہی ہمارے رب کا منشا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعبیر ہے۔

پھر بھی آیئے سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۵۹ پر بھی غور کرلیں کیونکہ یہ ہمارے موقف کی بھرپور تائید کرتی ہے۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں‘ بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو اپنے اُوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے۔

اس کی تشریح میں مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں: سورۂ نور میں یاد ہوگا اعزہ و اقربا سے متعلق یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب وہ اجازت کے بعد گھروں میں داخل ہوں تو گھر کی عورتیں سمٹ سمٹا کر رہیں۔ اپنی زینت کی چیزوں کا اظہار نہ کریں اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بُکل مار لیا کریں۔یہاں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنی بڑی چادروں (جلابیب) کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں۔ یہ واضح قرینہ اس بات کا ہے کہ یہ ہدایت اس صورت سے متعلق ہے جب عورتوں کو باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے۔ اس کا دوسرا واضح قرینہ یہ ہے کہ یہاں لفظ خمار‘ نہیں بلکہ جلباب استعمال ہوا ہے۔ جلباب کی تشریح اہل لغت نے یوں کی ہے:  ھو الراد فوق الخمار۔ جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جو اوڑھنی کے اُوپر لی جاتی ہے… قرآن نے اس جلباب سے متعلق یہ ہدایت فرمائی کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اس کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ چہرہ بھی  فی الجملہ ڈھک جائے اور انھیں چلنے پھرنے میں بھی زحمت پیش نہ آئے۔ یہی جلباب ہے جو ہمارے دیہاتوں کی شریف بوڑھیوں میں اب بھی رائج ہے۔ اور اسی نے فیشن کی ترقی سے اب برقع کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس برقع کو اس زمانے کے دلدادگان تہذیب‘ اگر تہذیب کے خلاف قرار دیتے ہیں تودیں‘ لیکن قرآن مجید میں اس کا حکم نہایت واضح الفاظ میں موجود ہے جس کا انکار صرف وہی برخود غلط لوگ کرسکتے ہیں جو خدا اور رسول سے زیادہ مہذب ہونے کے مدعی ہوں۔ (تدبرقرآن‘ ج ۶‘ ص ۲۶۹)

مفتی محمد شفیع ؒ فرماتے ہیں: آیت مذکورہ میں حرہ آزاد عورتوں کے بارے پردہ کے لیے یہ حکم ہوا ہے۔ جلابیب جمع جلباب کی ہے جو ایک خاص لمبی چادر کو کہا جاتا ہے۔ اس چادر کی  ہیئت سے متعلق حضرت ابن مسعود نے فرمایا کہ وہ چادر ہے جو دوپٹے کے اُوپر اوڑھی جاتی ہے(ابن کثیر)۔ اور حضرت ابن عباسؓ نے اس کی ہیئت یہ بیان فرمائی:’’اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اُوپر سے یہ چادر لٹکا کر چہروں کو چھپا لیں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں‘‘ (واضح رہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے ستر میں ہتھیلیاں اور چہرہ کھولنے کی اجازت دی ہے لیکن یہاں حجاب کے ذیل میں چہرہ ڈھکنے کا حکم دے رہے ہیں)۔ (معارف القرآن‘ ج ۷‘ ص ۲۳۳)

مولانا مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’اصل الفاظ ہیں:  یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ۔ جلباب عربی زبان میں بڑی چادر کو کہتے۔ اِدْنَاء کے اصل معنی قریب کرنے اور لپیٹ لینے کے ہیں۔ مگر جب اس کے ساتھ ’علٰی‘ کا صلہ آئے تو اس میں ’’اِرْخَائ‘‘ یعنی اُوپر سے لٹکا لینے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ موجودہ زمانے کے بعض مترجمین اور مفسرین مغربی مذاق سے مغلوب ہو کر اس لفظ کا ترجمہ صرف لپیٹ لینا کرتے ہیں تاکہ کسی طرح چہرہ چھپانے کے حکم سے بچ نکلا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا مقصود اگر وہی ہوتا جو یہ حضرات بیان کرنا چاہتے ہیں تو وہ  یُدْنِیْنَ اِلَیْھِنَّ فرماتا --- اس آیت کا صاف مفہوم یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر ان کا ایک حصہ یا پلّو اپنے اُوپر سے لٹکا لیا کریں‘ جسے عرفِ عام میں گھونگھٹ ڈالنا کہتے ہیں۔

’’یہی معنی عہد رسالت سے قریب ترین زمانے کے مفسرین بیان کرتے ہیں۔ ابن جریر اور ابن المنذر کی روایت ہے کہ محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عبیدہ السلمانی سے اس آیت کا مطلب پوچھا… انھوں نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنی چادر اٹھائی اور اسے اس طرح اوڑھا کہ پورا سر اور پیشانی اور پورا منہ ڈھک کر صرف ایک آنکھ کھلی رکھی۔ ابن عباسؓ بھی قریب قریب یہی تفسیر کرتے ہیں… یہی تفسیر قتادہ اور سدی نے بھی اس آیت کی بیان کی ہے۔

’’عہدصحابہؓ اور تابعینؒ کے بعد جتنے بڑے بڑے مفسرین تاریخ اسلام میں گزرے ہیں انھوں نے بالاتفاق اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ امام ابن جریر طبری کہتے ہیں: یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ‘ یعنی شریف عورتیں اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھروں سے نہ نکلیں کہ ان کے چہرے اور سر کے بال کھلے ہوئے ہوںبلکہ انھیں چاہیے کہ اپنے اوپر چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق ان کو چھیڑنے کی جرأت نہ کرے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۲۹)

مولانا مودودیؒ اس آیت پر بحث سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’کسی شخص کی ذاتی رائے خواہ قرآن کے موافق ہو یا خلاف--- اور وہ قرآن کی ہدایت کو اپنے لیے ضابطہ عمل کی حیثیت سے قبول کرنا چاہے یا نہ چاہے--- بہرحال اگر وہ تعبیر کی بددیانتی کا ارتکاب نہ کرنا چاہتا ہو تو وہ قرآن کا منشا سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔ وہ اگر منافق نہیں ہے تو صاف صاف مانے گا کہ قرآن کا منشا وہی ہے جو اُوپر بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو خلاف ورزی بھی وہ کرے گا یہ تسلیم کرے گا کہ وہ قرآن کے خلاف عمل کر رہا ہے یا قرآن کی ہدایت کو غلط سمجھتا ہے‘‘۔  (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۱۳۲)۔

سترکے احکامات میں بھی جو حضرات چہرہ اور ہتھیلیاں اور کلائی کو سترسے مستثنیٰ رکھتے ہیں انھوں نے بھی یہ شرط لگائی ہے کہ فتنہ اور شہوت کا ڈر نہ ہو تو یہ استثنا ہے۔

مفتی محمد شفیعؒ نے آیت حجاب ( سورۂ احزاب ۵۳) کے تحت پوری تفصیل لکھی ہے جو اس بحث کو سمیٹتی بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: پردہ نسواں سے متعلق قرآن مجید کی سات آیات اور حدیث کی ۷۰ روایات کا حاصل یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل مطلوب شرعی حجاب اشخاص ہے--- یعنی عورتوں کا وجود اور ان کی نقل و حرکت مردوں کی نظروں سے مستور ہو۔ جو گھروں کی چاردیواری یا خیموں اور معلق پردوں کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ اس کے سوا جتنی صورتیں حجاب کی منقول ہیں وہ سب ضرورت کی بنا پر اور وقت ضرورت اور قدرِ ضرورت کے ساتھ مفید اور مشروط ہیں۔

’’قرآن و سنت کی رو سے اصل مطلوب یہی درجہ ہے۔ سورۂ احزاب کی زیربحث آیت ۵۳ اس کی واضح دلیل ہے۔ اور اس سے زیادہ واضح سورہ احزاب ہی کے شروع کی آیت  وَقَرْنَ فِی بیوتکن ہے۔ ان آیتوں پر جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا اس سے اور زیادہ اس کی تشریح سامنے آجاتی ہے۔ (اس کے بعد انھوں نے اُمہات المومنین کے حجاب کے واقعات لکھے ہیں اور مولانا مودودی کی تشریح گزر چکی ہے جس میں انھوں نے تمام صحابہ کرام کے گھروں پر پردے لٹک جانے کا ذکر کیا ہے)۔

’’شریعت اسلامیہ ایک جامع اور مکمل نظام ہے جس میں انسان کی تمام ضروریات کی پوری رعایت کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ عورتوں کو ایسی ضرورتیں پیش آنا ناگزیر ہے کہ وہ کسی وقت گھروں سے نکلیں۔ اس کے لیے پردے کا دوسرا درجہ قرآن و سنت کی رُو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سر سے پائوں تک برقع یا لانبی چادر میں پورے بدن کو چھپا کر نکلیں۔ یہ صورت بھی باتفاق فقہاے اُمت ضرورت کے وقت جائز ہے۔ مگر احادیث یہ ہدایات دیتی ہیں کہ خوشبو نہ لگائے ہوں‘ بجنے والا زیور نہ پہنا ہو‘ راستہ کے کنارے پر چلے۔ مردوں کے ہجوم میں داخل نہ ہو وغیرہ۔

’’تیسرا درجہ شرعی‘ جس میں فقہا کا اختلاف ہے یہ ہے کہ سر سے پیر تک سارا بدن مستور ہو مگر چہرہ اور ہتھیلیاں کھلی ہوں۔ جن حضرات نے الا ما ظھر کی تفسیر چہرے اور ہتھیلیوں سے کی ہے ان کے نزدیک چونکہ چہرہ اور ہتھیلیاں حجاب سے مستثنیٰ ہوگئیں اس لیے ان کو کھلا رکھنا جائز ہو گیا۔ جن حضرات نے ما ظھر سے برقع جلباب وغیرہ مراد لی ہے وہ اس کو ناجائز کہتے ہیں۔ جنھوںنے جائز کہا ہے ان کے نزدیک بھی یہ شرط ہے کہ فتنے کا خطرہ نہ ہو۔ مگر چونکہ عورت کی زینت کا سارا مرکزاس کا چہرہ ہے اس لیے اس کو کھولنے میں فتنے کا خطرہ نہ ہونا شاذونادر ہے اس لیے انجام کار عام حالت میں ان کے نزدیک بھی چہرہ وغیرہ کھولنا جائز نہیں۔

’’ائمہ اربعہ میں سے امام مالکؒ، امام شافعی ؒ، امام احمد بن حنبلؒ تینوں اماموں نے تو پہلا مذہب اختیار کرنے‘ چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاً اجازت نہیں دی خواہ فتنے کا خوف ہو یا نہ ہو۔ امام ابوحنیفہؒ نے دوسرا مسلک اختیار فرمایا مگر خوفِ فتنہ کا نہ ہونا شرط قرار دیا۔ چونکہ عادتاً یہ شرط مفقود ہے اس لیے فقہا حنفیہ نے بھی غیر محرموں کے سامنے چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی اجازت نہیں دی۔ (اس کے بعد وہ  فتح القدیر ‘ مبسوط‘ شمس الائمہ سرخسی اور علامہ شامیؒ کے  ردالمختار سے فتوے نقل کرتے ہیں جن میں یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارے زمانے میں فتنہ کے خوف سے عورت کو چہرہ نہ کھولنا چاہیے نہ کہ عورہ ہونے کی وجہ سے)

آگے لکھتے ہیں: ’’اس کا حاصل یہ ہوا کہ اب بالاتفاق ائمہ اربعہ تیسرا درجہ پردے کا ممنوع ہو گیا کہ عورت برقع یا چادر وغیرہ میں پورے بدن کو چھپا کر مگر صرف چہرے اور ہتھیلیوں کو کھول کر مردوں کے سامنے آئے۔ اس لیے اب پردے کے صرف پہلے دو درجے رہ گئے کہ اصل مقصود‘ یعنی عورتوں کا گھروں کے اندر رہنا--- بلاضرورت باہر نہ نکلنا اور دوسرا برقع وغیرہ کے ساتھ نکلنا‘ ضرورت کی بنا پر بوقت ِ ضرورت و بقدر ضرورت‘‘۔ (معارف القرآن‘ ج ۷‘ ص۲۱۷- ۲۲۰)

اس ساری بحث کو اگر غیر جانب داری کے ساتھ پڑھا جائے تو شارع کا منشا یہی ہے جو اُوپر لکھا ہے اور صاف سمجھ میں آ رہا ہے--- اگر پردے کے حکم کو آپ شرعی حکم تسلیم نہیں کرتے‘ ایجابی حکم تسلیم کرتے ہیں اور معاشرے کی اصلاح کے لیے اُس وقت اس کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں جب معاشرہ پاکیزہ ترین نفوس پر مشتمل تھا توآج کے معاشرے‘ آج کے دورِ فتن میں آپ عورتوں کو کھلے منہ پھرنے کی ترغیب دیتے ہیں جب شیطان ہر وقت کھلا پھر رہا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ جلباب کو خمربنا دیا گیا ہے--- اور الا ما ظھر منھا کی آڑ میں تمام تر زینت کھول دینے کو درست قرار دے دیا گیا ہے--- تاکہ تمام فتنہ پرور لوگ اپنے نفوس اور شیطانی نگاہوں کو خوب تسکین دے سکیں۔

کیا یہی وہ معاشرتی اصلاح کا تصور ہے جو قرآن نے پیش کیا اور جس پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے عمل کر کے دکھایا---؟ اُمہات المومنین اور صحابیات کی سیرت طیبہ کیا یہی تصویر پیش کرتی ہے؟ جنت کی سردار خاتونؓ کا عمل کیا تھا---؟ جنت کی تلاش ان کے اسوہ حسنہ میں ہے یا کہیں اور---؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی کی زندگی کیسی تھی؟ اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبتوں کی تلاش میں ہم تو اسی کی جستجو کریں گے۔ ساری دنیا کے مفسرین کسی معاملے میں اختلاف کرنے لگ جائیں تو جس تفسیر کی شہادت اسوہ حسنہ اور اسوہ صحابہؓ سے ہوگی وہی تفسیر صحیح ہوگی۔ دانش وری اور عقلیت کے سارے فلسفے بیکار ہیں اگر وہ روحِ قرآنی سے خالی ہیں۔ وہ دانش و عقل کا سرچشمہ صحابہ کرامؓ کے مثالی معاشرے کے بجائے وہ آج کے گمراہ ترین معاشروں میں تلاش کرتے ہیں اور ان سے مرعوب ہو کر معذرتیں پیش کرتے ہیں‘ حجاب‘ ستر‘ اور عورۃ کے معنی بدلنے کی سعی کرتے ہیں۔ کس لیے---؟

کبھی آپ نے اس عورت سے پوچھا بھی سہی جو مکمل شرعی حجاب اُوڑھتی ہے۔ اپنے رب کے حکم کے مطابق جلباب لیتی ہے‘ اپنی سج دھج دکھاتی نہیں پھرتی--- اس کے احساسات کیا ہیں---؟ یہ ہمدردی آپ کس سے کرتے ہیں؟ یہ باحجاب عورت کے کرب کا اظہار ہے یا اس عورت کے جذبات کا جس نے کبھی پردہ کیا ہی نہیں--- اور اس کے خلاف واویلا کرتی پھرتی ہے---؟

جس نے رب کی اطاعت کا مزہ چکھا ہی نہیں‘ جو دن رات ایک طرف رب کی نافرمانی کر رہی ہے--- دوسری طرف اس کے احکامات کو مغرب کی کسوٹی پرپرکھ کر کبھی ظالمانہ اقدامات--- کبھی پھانسی کا پھندا قرار دے رہی ہے‘ یہ تو اس عورت کے احساسات ہیں--- کبھی آپ نے معلوم کیا کہ جو شعوری طور پر اس حجاب کو اختیار کرتی ہے اس کے جذبات کیا ہیں؟---

  •  یہ حجاب ہمارے لیے ایک تحفظ ہے۔ ایک تکریم ہے جو ہمارے رب نے ہمیں دی ہے۔ وہ تکریم جو کسی بے حجاب خاتون کو کبھی میسر نہ ہوئی۔
  •  یہ حجاب اوڑھ کر ہم خود کو میدانِ جہاد میں باطل کے خلاف نبردآزما مجاہد کی طرح سمجھتے ہیں۔
  •  آج جب دین اجنبی ہو چکا ہے ہم باحجاب خواتین‘ باریش بھائیوں کی طرح اس کی اجنبیت کو دُور کرنے والے ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں ہماری موجودگی معاشرے میں روح اسلامی کے جاری و ساری رہنے کی علامت ہے۔

اس کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے والے بھی جان لیں--- اس رب کی قسم جس نے یہ حجاب ہمارے اُوپر فرض کیا ہے‘ یہ کسی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔ آج کی پڑھی لکھی باشعور‘باحجاب عورت نے یہ ثابت کر دیا ہے۔ ہم نے میڈیکل کی تعلیم--- ہائوس جاب‘ کلینک‘ سبھی کچھ مکمل حجاب میں کیا۔ ہماری ساتھیوں نے یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ پوزیشن بھی لی۔ آج ٹیچنگ بھی کر رہی ہیں‘ ریسرچ اسکالر بھی ہیں--- مختلف دوسرے اداروں میں کام بھی کر رہی ہیں اور اب اسمبلیوں میں بھی اپنے فرائض ادا کرنے کو موجود ہیں--- اس کے علاوہ کون سی ترقی ہم سے چاہتے ہیں---؟ منفی کام---؟ منفی شعبے؟۔ مردوں کی پسند کے وہ شعبے جہاں انھوں نے اپنی تسکین کے لیے بنی سنوری خواتین بھرتی کر رکھی ہیں---؟ ایسی ترقی پر ہم لعنت بھیجتی ہیں۔

بے حجابی‘ بے حیائی کا نکتہ آغاز ہے۔ اور یہ وہ خرابی ہے جو کبھی تنہا نہیں آتی‘مخلوط معاشرے کی تمام تر خباثتیں ساتھ لاتی ہے۔ گلوبل ولیج نے ان خباثتوں کو راز نہیں رہنے دیا۔ یہ اللہ کے خوف سے کیاگیا مکمل حجاب ہی اِن کا سدِّراہ بن سکتا ہے‘ کیونکہ فرمان رب کے مطابق…

ذٰلِکُمْ اَطْھَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِھِنَّط (الاحزاب ۳۳:۵۳)

یہ تمھارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔