اللہ کی طرف سے اور آپ کی آرا کی روشنی میں میرے ناتواں کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میں بہت ناتواں ہوں، کمزور ہوں لیکن میں نے یہ ذمہ داری اللہ کے بھروسے پر اٹھا لی ہے۔ اس موقع پر مجھے حضرت علیؓ کا قول یاد آیا: ’’اگرچہ میری ٹانگیں پتلی ہیں، میری آنکھیں خراب ہیں لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کے لیے حاضر ہوں‘‘۔
یاد کیجیے وہ وقت جب مکہ میں مسلمان مغلوب تھے، ان پر ظلم ڈھائے جا رہے تھے اور انھیں انگاروں پر لٹایا جا رہا تھا۔ اللہ کا نام لینا انگارہ ہاتھ میں لینے کے مترادف تھا۔ اذیتیں دی جاتی تھیں، ترغیبات دی جاتیں، گھروں سے نکالا جاتا، گویا زمین ان پر تنگ کردی گئی تھی۔ دین غریب (اجنبی) تھا، نصرت کرنے والے کم تھے مگر مضبوط تھے۔ ان کا ایمان و یقین اور بھروسا اللہ پر تھا۔ ان کی چربی پگھل کر آگ کے انگارے ٹھنڈے کر دیتی لیکن وہ ’احد، احد‘ پکارتے رہتے۔ ان کے جسم نیزوں سے چھلنی کردیے جاتے لیکن وہ لا الٰہ الا اللہ کا ورد کرتے رہتے، دین سیکھتے سکھاتے اور دین کی نصرت کرتے رہتے۔ کوئی چیز راہ کی رکاوٹ نہ بنی، نہ گھر، نہ رشتہ دار، نہ اولاد، نہ کاروبار، نہ ملازمت۔ اگر گھر اور خاندان رکاوٹ بنا تو ہجرت کی راہ اپنائی۔ مال و دولت رکاوٹ بنے تو مصعب بن عمیرؓ کی طرح وہ کپڑے بھی اُتار کر رکھ دیے جو اس کے مرہونِ منت تھے اور ایک ٹاٹ لپیٹ کر درِ نبویؐ پر حاضر ہوگئے۔ نہ ماں کی محبت بیڑیاں ڈال سکی، نہ آرام و آسایش، نہ قبیلہ، نہ برادری، نہ عورت ہونا مسئلہ بنا اور نہ بچہ ہونا۔ جب انھوں نے کہا کہ نحن انصاراللّٰہ تو انصاراللّٰہ بن کر دکھایا۔ انھوں نے ثابت کردیا: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرہ ۲:۱۶۵) ’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔
آج دین اسلام پھر غریب ہے، خواہ کلمے کے نام پر حاصل کردہ پاکستان میں ہے یا ارضِ فلسطین میں۔ کشمیر، افغانستان، وزیرستان ہو یا سوات، ہرجگہ مسلمان پر دہشت گردی کا لیبل لگا ہے۔ آج کشمیر، ابوغریب اور گوانتانامو کے عقوبت خانے پھر سے مکہ کی گلیوں کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔
ادھر دین کے نام لیوائوں کو وَھن (دنیا کی محبت اور موت کا خوف)لگ چکا ہے، خواہ لاہور میں ہوں یا جدہ یا دبئی میں جہاں دولت اور آسایشوں کی ریل پیل ہے، نیز دنیا کی دوڑ اور مادہ پرستی نے بھی دین کو غریب کردیا ہے۔ دوسری جانب دین اگر دیہات میں ہے تو جہالت نے اسے غربت میں مبتلا کردیا ہے۔ اکثریت شیطان کے جال اور فریب میں گرفتار ہوچکی ہے۔ عورتوں کی بڑی تعداد بھی اپنی ذمہ داریاں فراموش کرچکی ہے۔
ان حالات میں بڑی بشارت ہے اُن خواتین و حضرات کے لیے جو اللہ کے دین کی غربت کو دُور کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ ان کے لیے جنت کی خوش خبری ہے (فطوبٰی لِلغربائ)۔ اسی جنت کی طلب میں مجھے حضرت علیؓ کا قول یاد آیا اور مجھ جیسی ناتواں نے اس بھاری ذمہ داری کو قبول کرنے کا عہد کرلیا کہ اس دین کی غربت دُور کرنے کے لیے میں حاضر ہوں، اگرچہ میں کمزور ہوں مگرمیرا بھروسا جس ذات پر ہے وہ حی و قیوم ہے، وہ علٰی کل شیٔ قدیر ہے۔ جب وہ دست و بازو بن جاتا ہے تو ساری کمزوریاں قوت میں بدل جاتی ہیں، راستے آسان ہوجاتے ہیں، طوفانوں کے رخ بدل جاتے ہیں، ۳۱۳ ایک ہزار کو شکست دے دیتے ہیں اور ہزار لاکھوں پر غالب آجاتے ہیں۔ کیا میں درست کہہ رہی ہوں؟
آیئے ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم اس دین کی غربت کو دُور کرنے کے لیے اپنا تن من دھن لگائیں گے اور کوئی مجبوری، کوئی عُذر ہماری راہ کی رکاوٹ نہ بنے گا۔ آیئے! میرے ساتھ مل کر کہیے: لبیک اللھم لبیک، لبیک اللھم لبیک… میں حاضر ہوں اے میرے اللہ، میں حاضر ہوں اے میرے اللہ! لیکن یہ یاد رکھیے، محض منہ سے لبیک کہہ دینے سے اللہ راضی نہیں ہوجاتا، محض نعرئہ تکبیر لگا لینے سے زمین پر اللہ کی کبریائی نافذ نہیں ہوجاتی:
کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جائو گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنھوں نے (اس کی راہ میں) جاں فشانی کی اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کے سوا کسی کو جگری دوست نہ بنایا۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔(التوبہ۹:۱۶)
پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت کا داخلہ تمھیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے۔ ان پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلامارے گئے، حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھ اہلِ ایمان چیخ اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ (اُس وقت انھیں تسلی دی گئی کہ) ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔(البقرہ۲:۲۱۴)
اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔ اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ (الصف۶۱:۲ تا۴)
یاد رکھیں اپنے آپ کو مثالی، باکردار مسلمان تحریکی خاتون بنانا ہماری اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ قرآن ایک چراغ ہے، ایک حرارت ہے جو ایک فرد سے دوسرے فرد کو منتقل ہوتی ہے۔ لیکن اگر قرآن کی دعوت دینے والا خود ہی بے عمل ہو تو یہ چنگاری دوسرے فرد تک پہنچنے سے پہلے بجھ جاتی ہے، تبلیغ بے اثر ہوجاتی ہے۔ لہٰذا قرآن کی تعلیم کا نفاذ سب سے پہلے اپنے اُوپر کرنا ہے۔
مجھے اور آپ کو یہ عہد کرنا ہے کہ اے اللہ! میں تیرے دین پر عمل کروں گی۔ میں دین میں پوری کی پوری داخل ہوجائوں گی، ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً (البقرہ۲: ۲۰۸)کی مثال بنوں گی۔ میرا اخلاق، میرا کردار، میرا عمل وہ ہوگا جو تجھے پسند ہے۔ میں جھوٹ نہ بولوں گی، غیبت نہ کروں گی، گناہ نہ کروں گی اور بے حیائی کے کام کی مرتکب نہ ہوں گی۔
ہم جو لباس پہنتے ہیں، ہمارے دین نے اس کے بارے میں بھی ہدایات دی ہیں۔ آیئے، عہد کریں: میرا لباس وہ ہوگا جو میرے اللہ اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند ہے۔ میرا لباس تقویٰ کا لباس ہوگا۔ میرا گھر اسلامی تہذیب کا نمونہ ہوگا۔ میرے بچے مجاہد بنیں گے، اداکار اور گلوکار نہیں بنیں گے۔ میرا کوئی بچہ بے نمازی نہ ہوگا، اللہ کا نافرمان نہ ہوگا۔ میرے اہلِ خاندان اللہ کے دین کے راہی بنیں گے۔ میرے محلے میں میرا گھر روشنی کا مینار اور درسِ قرآن کا مرکز ہوگا۔ میری صلاحیتیں، میرے اوقات دین کی اقامت اور سربلندی میں لگیں گے۔ کوئی عذر میری راہ میں رکاوٹ نہ بنے گا۔ اپنی زندگی، اپنے گھر میں اسلامی انقلاب میری ابتدا اور دنیا میں اللہ کے دین کا نفاذ میری انتہا ہوں گے___ بولیں: اتفاق ہے؟ عہد ہے؟ ان شاء اللہ!
تمام ارکان و کارکنانِ جماعت اسلامی پاکستان کو روشنی کا چراغ بننا ہے، مثال بننا ہے اور جماعت اسلامی پاکستان حلقۂ خواتین کو خواتینِ اسلام کا ہراول دستہ بنانا ہے۔ یاد رکھیں کوئی نظم، ناظمہ اور تنظیم اُس وقت تک مؤثر نہیں ہوتی جب تک ارکان و کارکنان اس کے دست و بازو نہ بنیں۔ لہٰذا نظم کی پکار پر لبیک کہیں، معذرتیں کرنے والے نہ بنیں۔ اپنے اندر جہاد فی سبیل اللہ کے لیے قوت پیدا کریں۔ وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرہ ۲:۴۵) ’’صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔
عبادات کو عادت بننے سے بچائیں۔ نماز ایسی ہو کہ آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔ قرآن اس طرح پڑھیں کہ دلوں کے زنگ دُور ہوجائیں اور آنکھیں خشیت ِ الٰہی سے بھرآئیں۔ روزہ ایسا ہو کہ تقویٰ حاصل ہوجائے۔ قرآن کا علم حاصل کریں۔ جتنا حصہ پڑھیں اس میں سے عمل کے لیے اصول نکالیں اور عمل پیرا ہوجائیں۔ چھوٹے گناہوں سے بھی بچیں۔ شریعت کے دائرے کے اندر رہ کر دین کا کام کریں۔ ڈرائیور کے ساتھ تنہا لمبا سفر نہ کریں۔ محرم کے بغیر رات کے سفر سے حتی الامکان گریز کریں، اِلا.ّ یہ کہ بڑے گروپ کی صورت میں ہو۔
اپنی زندگی کو سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب تر کریں۔ تمام معمولات مسنون طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ زندگی میں آسایشوں اور مادیت کی دوڑ سے خود کو بچانے کی حتی الامکان کوشش کریں۔ سادگی اپنائیں، اپنے شوہر کی خدمت کریں، بچوں کو اسلام کا ہراول دستہ بنائیں۔ گلی محلے میں قرآن کی دعوت اور قرآن کی کلاسوں کا جال بچھا دیں۔ یہ سب کر کے بھی اللہ سے کثرت سے استغفار کریں کیوں کہ اللہ نے دنیا کے سب سے عظیم مومنِ حنیفؐ سے بھی فرمایا:
فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَمنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوٰکُمْo (محمد۴۷:۱۹)پس اے نبیؐ ، خوب جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے اور معافی مانگو اپنے لیے بھی اور مومن مردوںاور عورتوں کے لیے بھی۔ اللہ تمھاری سرگرمیوں کو خوب جانتا ہے اور تمھارے ٹھکانے سے بھی واقف ہے۔
اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی فرماتے تھے: ’’میں دن میں ۷۰ بار استغفار کرتا ہوں‘‘۔ پھر اپنے رب سے استعانت کی دعا کریں، دعا قبول ہوگی۔ ان شاء اللہ!
آیئے پھر دعا کریں: اے اللہ! ہم حاضر ہیں، ہماری نصرت فرما! ہمیں اچھا مسلمان بنا، ہمیں مثالی مائیں بنا، ہمیں مثالی تحریکی خواتین بنا اور ہماری کمزوریوں سے درگزر فرما۔ آمین!
(اجتماع عام اکتوبر ۲۰۰۸ء میں حلف برداری کے بعد خطاب)