قرآن کریم انسان کو دعوتِ فکر دیتے وقت یہ بات واضح کردیتا ہے کہ انسان کو مکمل آزادیِ فکر کے ساتھ ایک سے زائد راستے اور طرق اپنانے کا اختیار عطا کیا گیا ہے (وَھَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ o البلد ۹۰:۱۰ ’’دونوں نمایاں راستے اسے دکھا دیے‘‘) لیکن یہ فیصلہ وہ کس طرح کرے؟ کیا محض اپنے آباواجداد کی اندھی پیروی کو رہنما اصول بنائے یا محض منطق اور مشاہدے کو، یا مشاہدے کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرے کہ عقل کی وسعت و محدودیت کتنی ہے؟ مشاہدے کی حدود کہاں تک ہیں؟ رہوارِ فکر کہاں تک جاسکتا ہے؟ اور اس پورے فکری عمل میں کسی معروضی معیارِ حق و باطل کا کیا مقام ہے؟ اسلامی فکروثقافت کا یہی پہلو، جسے ہم کلیت پسند تصور کہہ سکتے ہیں، اسے دیگر فکری اور ثقافتی روایتوں سے ممتاز کرتا ہے۔
چنانچہ دعوتِ فکر کو تذکرہ و تذکیر کے ساتھ یک جا کرتے ہوئے قرآن کریم انسان کو ایک تیسری بنیاد کی طرف متوجہ کرتا ہے اور خود ہی اس کی تعریف بھی فراہم کردیتا ہے۔ فکروذکر کا عمل انسان کی عقل اور قلب کو ایک ایسے طرزِ عمل اور رویے (attitude) کی طرف لے جاتا ہے جس میں عقل و قلب ایک دوسرے کی ضد بن کر نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر جائزہ، تنقید، تفکر اور تصفیہ کا عمل اختیار کرتے ہیں، چنانچہ تزکیہ نہ محض قلب کی صفائی تک محدود رہتا ہے اور نہ تدبر محض ہی منطقی اور کلامی بحثوں میں مقیّد ہوتا ہے بلکہ دونوں مل کر ثقافت کی بنیاد بن جاتے ہیں اور ذکروفکر فطری طور پر ایک شخص کو اپنے مشاہدات، احساسات، آرزوئوں، خواہشات، وقت، مال، صحت، صلاحیت غرض ہرہرانسانی عمل کے تزکیے اور مطلوبہ اعمال کے مقاصد و اہداف پر غوروتدبر کرنے کی طرف آمادہ کردیتے ہیں۔ یہ ثقافت چند ظاہری، بصری اور صوتی اعمال کا نام نہیں ہے بلکہ ہر وہ شے جس کا تعلق بصری، صوتی، احساساتی معاملات سے ہو، ثقافت اسے ایک معنی دینے کے بعد فکروذکر کی بنیاد توحید سے وابستہ وپیوستہ کردیتی ہے اور ایک شاعر ہو یا ادیب، مصور ہو یا صاحبِ فن نقاش، حرفت کار ہو یا معمار، اس کے تیشے کی ہر ضرب اور قلم کی ہر جنبش توحید کی بنیاد پر فکروذکر اور تزکیے کے عمل سے گزرنے کے بعد عالمِ شہود میں آتی ہے۔
قرآن کریم نے تزکیے کو ایک شعوری اور ارادی عمل کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ سورئہ شمس اور الاعلیٰ میں واضح الفاظ میں غیرمبہم طور پر یہ بات فرمائی گئی ہے کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَاo (الشمس ۹۱:۹) ’’یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا‘‘۔ اسی بات کو سورۃ الاعلیٰ میں تزکیے کے ظاہری اور عملی پہلو کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے یوں فرمایا گیا: ’’فلاح پاگیا وہ جس نے تزکیہ کیا اور اپنے رب کا نام یاد کیا۔ پھر صلوٰۃ ادا کی‘‘ (الاعلٰی ۸۷: ۱۴-۱۵)۔ قرآن کریم نے یہاں تزکیے کے عمل کو آزاد نہیں چھوڑ دیا بلکہ اسے اللہ کے نام کی یاد اور اس ذکر کی بہترین شکل قیام، رکوع و سجود کا بیان کرنے کے ذریعے قرآن کے طالب علم کے ان سوالات کا جواب بھی فراہم کردیا جو تزکیے کی اصطلاح پڑھنے اور سننے کے بعد ذہن میں اُبھر سکتے ہیں، یعنی کیا یہ آنکھیں بند کر کے کسی گوشے میں ہفتوں اور برسوں بیٹھنے کا نام ہے یا کسی جنگل بیابان میں معاشرتی زندگی سے دُور جاکر اپنے قلب و نظر کو مجلا و مصفّا کرنے کا نام ہے۔ یا زندگی کے ہنگاموں، بازار کی معاشی سرگرمیوں اور سیاست کی شطرنج میں الجھنے کے باوجود سیاسی، معاشی،معاشرتی معاملات میں رب کریم کی رضا و خوشنودی کے کام اختیار کرنے اور اپنے سر اور جسم کو نہیں بلکہ عقلی وجود کو، قلبی خواہشات کو، نظر کی حسرتوں اور تڑپتی خواہشوں کو ربِ کریم کی رضا کا پابند کردینے، اس کے حضور اپنے پورے وجود کو عاجزی اور طلب کے ساتھ ساتھ اُس ایک سجدے میں گرا دینے کا نام ہے جواسے تمام غلامیوں سے آزاد کر کے نفس کو اُس کے اعلیٰ مقام سے آگاہ کردے۔
تزکیے کا یہ وہ عملی اور محسوس پہلو ہے جو اس کے معیار کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ وہ تزکیہ اور خشیت اور تقویٰ جو فرائض واجبات، سنن اور نوافل کی شکل میں اپنے آپ کو نہ ڈھال سکے ایک فکرِآوارہ تو ہوسکتا ہے، قرآن کا مطلوب تزکیہ نہیں ہوسکتا۔ قرآن جس تزکیے کے ذریعے ایک ثقافت و تہذیب پیدا کرنا چاہتاہے، اس میں اللہ کی خشیت، اس کی توحید، بہترین ناموں کے ساتھ اس کا ذکر، جو تسبیح کے دانوں کی محدودیت سے نکل کر اس کی بارگاہ میں قیام و قعود اور رکوع و سجود میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ رکوع و سجود چند خاص اوقات میں نہیں بلکہ زندگی کے ہرفیصلہ کن معاملے میں ہوتے ہیں۔ جب ایک فرد یا ایک سربراہ یا ایک قوم اپنے مالی معاملات میں سودی نظام کے آگے سجدہ کرتی ہے اور اس سے نرم یا گرم سودی کاروبار کے لیے قدم آگے بڑھاتی ہے توتسبیح کے دانوں پر اسماے حسنیٰ کی گردش اپنا مفہوم کھو دیتی ہے۔ جب ایک سربراہِ مملکت مسلمانوں کی نرم شبیہہ کی تمنّا میں مسلمانوں کو نرم نوالہ بناکر پیش کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے تو یہ عمل اس کے قولی دعووں کی تردید کردیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ وہ اللہ کی خشیت سے نہیں، کسی نام نہاد یک قطبی قوت کی ہیبت و رعونت سے لرزہ براندام ہے۔
تزکیہ کوئی غیرمحسوس و غیرمرئی عمل نہیں ہے بلکہ قرآن اسے ان تمام اعمال سے وابستہ کرتا ہے جو انسان کی انتہائی ذاتی کیفیات سے وابستہ ہوں مثلاً قیام اللیل، یا اس کے معاشرتی وظائف سے تعلق رکھتے ہوں مثلاً والدین کے حقوق، بیوی بچوں کے حقوق، اولاد کی صحیح اسلامی تربیت یا بین الاقوامی معاملات میں معاہدوں اور پالیسیوں کا تعین۔
یہی وجہ ہے کہ تزکیے کی اصطلاح کوقرآن کریم نے تزکیۂ مال کے ساتھ بیان کرنے کے بعد ان تمام شکوک و شبہات کا ازالہ کردیا جو دین و دنیا، عالمِ قلب اور مادی عالم کے درمیان مصنوعی طور پر ذہنوں اور قوموں کے خون میں سرایت کر گئے ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے: خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(التوبۃ ۹:۱۰۳)’’اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ [زکوٰۃ] لے کر انھیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انھیں بڑھائو اور ان کے حق میں دعاے رحمت کرو کیوں کہ تمھاری دعا ان کے لیے وجۂ تسکین ہوگی، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے‘‘۔
قرآن کریم یہاں جس ثقافت و تہذیب کی بات کر رہا ہے اس میں تین پہلو انتہائی قابلِ غور ہیں۔ پہلی بات یہ کہ نبی اللہ کے رسول اور مسلمانوں کے فرماں روا ہونے کی حیثیت سے لوگوں کے اموال میں سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ کوئی رضاکارانہ کام نہیں ہے کہ جب چاہا کرلیا بلکہ یہ اس کے فرائض میں شامل ہے اور اس بنا پر مسلم ثقافت میں جو افراد بھی صاحب ِ اختیار ہوں گے یہ ان کی ذمہ داری ہوگی۔
دوسری بات یہ واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ حلال کمائی بھی اس وقت تک پاک نہ ہوگی اور نہ بڑھے گی جب تک اس کا تزکیہ نہ کیا جائے۔ گویا قرآنی ثقافت و تہذیب میں غیراخلاقی ذریعے سے حاصل کردہ مال و دولت کے دروازے پر ایک بھاری اور مضبوط قفل لگا دیا جاتا ہے اور ہرشہری کو صرف اخلاقی ذریعے سے مال حاصل کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی طرح نہ تو سود پر مبنی ہے، نہ اس میں محض منافع کی بنیاد پر عوام کا خون چوسنے یا انھیں ایسے حرام کاموں میں خرچ کرنے کا امکان ہی ہے جو اسلام کے آفاقی اصولِ اخلاق سے متصادم ہوں، مثلاً جواخانے، ناچ گھر، شراب خانے، ٹی وی کے پردے پر فحاشی کے ذریعے اور فحش اشتہارات کے ذریعے روپے کمانے یا بنکوں میں سودی کاروبار کے ذریعے مال و دولت میں اضافہ۔ جس مال میں سے زکوٰۃ دے کر اس کا تزکیہ کیا جائے گا اس کے خود پاک اور اخلاقی ذریعے سے حاصل کیے جانے کو ایک طرح سے انفرادی، اجتماعی اور سرکاری طور پر ایک شرط قرار دے کر تزکیۂ مال کوقابلِ پیمایش تقویٰ کی شکل دے دی گئی ہے۔
تیسری بات جو وضاحت سے کہی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ رسولؐ اور اس کے بعد ریاست اپنے اس فرض کو ادا کرے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کے لیے جو مال کا تزکیہ کرنے اور کروانے پر شعوری طور پر آمادہ ہوں، اللہ کے رسولؐ سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ان کے لیے دعاے رحمت و مغفرت بھی کریں کیونکہ محض اپنے فریضے (زکوٰۃ) کا ادا کردینا شرطِ مغفرت نہیں ہوسکتا۔ اس کے ساتھ اور بہت سے پہلو ایسے ہوسکتے ہیں جو ناقص ہوں لیکن زکوٰۃ کی ادایگی کے ساتھ دعاے مغفرت کے بعد اس کا امکان زیادہ ہوگا کہ رب کریم جو اپنے بندوں سے بے حساب محبت کرتا ہے وہ ان کے تزکیے کے عمل کو قبول کرلے۔ یہ وہ ثقافت ہے جس میں مال کی حرص اور ہوس کی جگہ مال کے جائز طور پر بڑھانے اور اللہ کی راہ میں خرچ کے ذریعے اضافے کی خواہش پروان چڑھتی ہے جس کی نظیر نہ مادہ پرست تہذیب میں ملتی ہے نہ روحانیت پرست تہذیب میں۔ اسلامی تہذیب و ثقافت وہ واحد ثقافت ہے جو تزکیے کے اس پہلو کو نہاں خانۂ دل سے نکال کر نرم و گرم بازارِ معیشت و سیاست و معاشرت میں لاکر ایک قابلِ عمل اور قابلِ پیمایش (quantifiable) شعوری اور ارادی طرزِعمل بنا دیتی ہے۔
تزکیے کے اس عمل میں تین ایسے عناصر شامل ہیں جن کی طرف قرآن کریم بار بار متوجہ کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ: ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰـتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (الجمعۃ ۶۲:۲) ’’وہی ہے جس نے اُمیّوں کے اندر ایک رسولؐ خود انھی میں سے اٹھایا ،جو انھیں اُس کی آیات سناتا ہے، ان کی زندگی سنوارتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں بھی تزکیے کے عمل کو تلاوتِ آیات، تعلیمِ کتاب اور تعلیم معرفت وحکمت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے قرآن کریم نے اپنی ثقافت کو وحی اور علم و حکمت کے ساتھ یکجا کرکے اُسے ایک خصوصی اور ممتاز روایت بنا دیا ہے۔ گویا یہ وہ ثقافت ہے جس میں انسان خود اپنا رہنما اور ہادی نہیں ہے بلکہ وحی (الکتاب) اُسے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ یہ رہنمائی تفکر و تذکیر اور تزکیے کے عمل کے ذریعے تعلیمی طریق کار پر دی جاتی ہے۔ رسولؐ خود معلم ہونے کی حیثیت سے ایک ثقافتِ علم کی بنیاد رکھتا ہے جس پر ثقافت و تہذیب کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ رسولؐ اپنے اسوہ اور قابلِ اتباع مثال کے ذریعے ثقافتی اور تہذیبی سرگرمی کے لیے اصول و ضوابط اور خود ایک ایسی زندہ مثال چھوڑ جاتا ہے جو قیامت تک انسانی تہذیب کے لیے قابلِ عمل نمونہ ہو اور جو رفتارِ زمانہ اور روز افزوں معاشرتی ترقی کے باوجود ایک دمکتی ہوئی مثال ہو جس میں اتنی وسعت اور یُسر ہو کہ ہردور کی مشکلات اور عُسر کو دُور کرسکے۔
تزکیۂ نفس، تزکیۂ وقت، تزکیۂ صلاحیت، تزکیۂ مال، تزکیۂ فکرونظر کا یہ سفرِ علم و حکمت جس قوتِ محرکہ کی بنا پر ہوتا ہے وہ محض اس دنیا میں ثقافتی اور تہذیبی کمال کا حصول نہیں ہے بلکہ اس کی اصل منزل تہذیبی و ثقافتی ترقی کے ذریعے آخرت کی کامیابی کا حصول ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: وَمَنْ یَّاْتِـہٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓئِکَ لَھُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰی o جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰی o (طٰہٰ ۲۰: ۷۵-۷۶) ’’اور جو اُس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہوگا، جس نے نیک عمل کیے ہوں گے، ایسے سب لوگوں کے لیے بلند درجے ہیں، سدابہار باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا ہے اُس شخص کی جو پاکیزگی (تزکیہ) اختیار کرے‘‘۔
تزکیہ اور اخلاقی عمل گو بذاتِ خود مطلوب عمل ہے لیکن قرآن کریم انسان کے ہرہرعمل کو آخرت میں اچھے یا بُرے نتائج کے ساتھ وابستہ کردیتا ہے تاکہ اس دنیا میں بعض اوقات مطلوبہ نتائج کے حاصل نہ ہونے کے باوجود معاشرہ اور تہذیب متحرک رہے اور کبھی جمود اور پژمُردگی کا شکار نہ ہو اور دنیا میں تہذیبی و ثقافتی جدوجہد ہی انسان کا حقیقی مقصود نہ ہو بلکہ انسان کی ہر ہر کاوش کا آخری نقطہ آخرت میں کامیابی ہی رہے۔
جس طرح قرآن تزکیے کے عمل کو عبادات و معاملات کے ساتھ وابستہ کردیتا ہے، ایسے ہی فکروذکر اور تزکیہ میں الکتاب اور کتابِ فطرت و کائنات سے تعلق کو اسلامی تہذیب و ثقافت کی پہچان قرار دیتا ہے: کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ (صٓ ۳۸:۲۹) ’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبیؐ) ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق لیں‘‘۔ آیاتِ کتاب پر تدبر کیا جانا اس لیے ضروری ہے تاکہ انسان ان سے اپنے معاملات میں رہنمائی لے سکے۔ انھیںمحض ثواب کے لیے تلاوت کرلینا اور مفہوم سے بے خبر رہنا ان کے نزول کا مقصد پورا نہیں کرتا، بلکہ رب العالمین چاہتا ہے کہ اس کتاب کے ایک ایک حرف پر تدبر کیا جائے اور تدبر کے نتیجے میں ایک ایسی تہذیب و ثقافت وجود میں آئے جس کا ہر ہرمظہر اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کا زبانِ حال سے اظہار کرے۔
تہذیب و ثقافت میں تضادات سے محفوظ رہنے اور صحیح سمت میں آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ الکتاب کی بنیاد پر علوم و فنون کی ترقی کے نئے راستے تلاش کیے جائیں۔ چنانچہ سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًاo (النساء ۴:۸۲) ’’کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی‘‘۔ صرف قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ ۲۳سال کے عرصے میں جو کچھ نازل ہوا اس کی ہرآیت دوسری آیت کے ساتھ معنوی حیثیت سے مربوط ہے اورکسی مقام پر تضاد نہیں پایاجاتا۔
جب اس الکتاب کو معاملات کی بنیاد بنایا جائے گا تووہ معاشی معاملات ہوں یا سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی، ان میں آپس میں ٹکرائو اور تضاد کبھی نہ ہوگا بلکہ منزل و مقصد اور طریق کار کی یک جہتی کے نتیجے میںترقی کا عمل صحیح سمت اختیار کرے گا۔ مسلم دنیا کا ایک المیہ یہ ہے کہ دیگر مذاہب کی کتب اور مذہبی تعلیمات کے زمان و مکان میں محدود ہونے کے سبب قدامت پرستی اور سائنسی تحقیقات کے ساتھ ٹکرائو کی بنا پر مشرق و مغرب میں مذہب اور جدیدیت میں جو کش مکش پائی جاتی ہے، اسے اسلام میں تلاش کرتے ہوئے یہ قیاس کرلیا جاتا ہے کہ اسلام بھی مشرقی اور مغربی مذاہب کی طرح ایک ’مذہب‘ ہے اور چونکہ ’مذہب ‘ مغرب میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ رہا ہے اور مشرقی اقوام بھی، چاہے وہ ہندو ہوں یا بدھ پرست ہوں، مذہبی قیود سے نکلے بغیر ترقی نہیں کرسکتیں۔ اس لیے مسلمانوں کو بھی اسلام کو نظرانداز کرتے ہوئے جدیدیت کو اختیار کرنا ہوگا۔ یہ ایک بنیادی فکری غلطی ہے جس کی تردید قرآن کریم کے ہرصفحے پر بار بار تفکر، تعقل، تدبر، تزکیہ اور تفقہ کی متحرک اصطلاحات کے ذریعے کی گئی ہے۔
چنانچہ قرآنی تہذیب و ثقافت میں ماضی کی مفید روایات کی جگہ تبدیلیِ زمانہ کے لحاظ سے اجتہاد کی بنیاد پر مسائل کا حل تلاش کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ چونکہ قرآن کریم کے ساتھ مسلمانوں کا تعلق روایتی نوعیت کا بن گیا ہے اس لیے قرآن کریم سے براہِ راست رہنمائی حاصل کیے بغیر سنی سنائی باتوں اور ٹی وی چینلوں کے دریافت کردہ تجدد پسند ’عالم‘، ’علامہ‘ اور ’دانش ور‘ ایک ایسے اسلام کی تدوین کرنے میں لگ جاتے ہیں جو مغربی ذہن اور مغرب زدہ افراد کے لیے بے ضرر ہو۔
قرآن کریم جس ثقافت و تہذیب کی بنیادیں فکر، ذکر، تزکیے اور تدبر پررکھتا ہے وہ اپنی جگہ خود ایک مستقل ثقافت اور تہذیب ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ قرآنی ثقافت جہاں کہیں بھی زمین میں اپنی جڑیں پیوستہ کرے گی، وہاں اس زمین میں نمو تو حاصل کرے گی لیکن اس کے بنیادی خدوخال اور شجرطیبہ کی طرح جہاںبھی وہ قائم ہوگی اس کے ثمرات (products)ایک ہی ہوں گے۔ یہ ثمرات روحانی بھی ہیں اور مادی بھی، معاشی بھی ہیں اور ثقافتی بھی۔ قرآن کریم کے زیرسایہ پرورش پانے والی تہذیب و ثقافت بنیادی طور پر توحیدی ثقافت ہے جو زمان و مکاں کی قیود سے ماورا لیکن زمان و مکاں کی ضروریات ومطالبات سے مکمل طور پر آگاہ ثقافت ہے۔ وہ نیل کے ساحل سے جبل الطارق تک اور مراکش سے انڈونیشیا تک تنوع کے باوجود عنصری طور پر ایک وحدانی ثقافت ہے۔
لیکن اگر انسان انجان بن کر یا جان بوجھ کر اپنے قلب پر قفل چڑھا لے تو پھر پہاڑوں کو لرزا دینے والا یہ کلامِ برحق کہ جسے سُن کر بعض پتھر لڑھک کر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور بعض کا سینہ شق ہوکر ان سے پانی اُبل پڑتا ہے، ایسا کلام بھی ایسے انسانوں کو ہدایت یاب نہیں کرسکتا۔ انھی کو مخاطب کرکے قرآن کہتا ہے: اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَاo (محمد ۴۷:۲۴) ’’کیا ان لوگوں نے قرآن پر تدبر نہیں کیا یا دلوں پر ان کے قفل چڑھے ہوئے ہیں‘‘۔ دلوں کے غلاف ہوں یا کانوں اور آنکھوں پر پڑے ہوئے پردے، جس لمحے بھی انسان تلاشِ حق اور راہِ ہدایت کی طرف ایک قدم بڑھاتا ہے، خالقِ کائنات اس کی طرف دس قدم بڑھتا ہے اور وہی دل جو کل تک شقاوتِ قلبی کی مثال تھے خشیت و رقّت سے پُر ہوکر نورِ ہدایت سے معمور ہوجاتے ہیں اور ان کی ہر دھڑکن قرآنی ثقافت و تہذیب کے قیام کے لیے تازہ اور پاک خون فراہم کرنا شروع کردیتی ہے۔ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآئُ (النساء ۴:۴۹) ’’مگر اللہ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے‘‘۔
قرآنی ثقافت و تہذیب کی فکری بنیادیں آفاقی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ صلاحیت بھی رکھتی ہیں کہ وہ ہر دور میں انقلاباتِ زمانہ کے مطالبات کا عملاً جواب فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک تعلیمی عمل کے ذریعے انسانوں کو اس ثقافت کے فروغ کے لیے صحیح شعور، قوتِ عمل، قوتِ محرکہ (incentive) اور اعتماد فراہم کرسکیں۔ اس تدریجی عمل میں تعلیم و تعلّم، عقل و تعقل اور گہری طبیعی فکر (تفقّہ) وہ عناصر ہیں جن کے ایک مناسب امتزاج سے یہ ثقافت و تہذیب اپنا صحیح مقام حاصل کرتی ہے۔ (جاری)