اہلِ مغرب کو داد دینی پڑتی ہے کہ جتنی بڑی گمراہی ہو، اس کے حق میں اتنے ہی کثیر علمی دلائل کے انبار لگا دیتے ہیں۔ انسان جیسی اشرف المخلوقات کو بندروں کی نسل سے وابستہ کرنے جیسی مضحکہ خیز بات پر کتابوں پر کتابیں لکھیں اور صورت یہ بنا دی کہ اللہ کی انسان کی تخلیق جیسی درست، عقلی اور سچی بات دفاعی انداز میں پیش کی جائے۔ ڈارون نے نہ صرف انسان، بلکہ اس کائنات کے تمام مظاہر حیات کے لیے ارتقا کا نظریہ پیش کیا جو پچھلے ۲۰۰ سال سے علمی اور سائنسی دنیا پر چھایا ہوا ہے اور جس نے صرف حیاتیات ہی نہیں، علوم کے دوسرے دوائر پر بھی اثر ڈالا ہے۔ انسان اور کائنات کی تخلیق کے بارے میں تفہیم القرآن میں متعلقہ آیات کی تشریح کرتے ہوئے سید مودودیؒ نے جو غیرمعمولی تحریریں لکھی ہیں حیاتیات کے پروفیسر شہزاد الحسن چشتی نے اس کتاب میں وہ سب یک جا کردی ہیں۔ ان سے، قدرتی بات ہے، ڈارون ازم کا ابطال ہوتا ہے اور انسان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی ہستی اپنی صفتِ تخلیق کی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے، صاحب ِ تفہیم القرآن کی دوسری کتابوں سے، جہاں ڈارون ازم پر سوالوں کے جواب دیے گئے ہیں، وہ بھی جمع کر کے ایک باب میں (۱۷ صفحات) پیش کردیے ہیں۔ اتنا کام بھی اس کتاب کو ایک وقیع کتاب بنا دیتا، لیکن انھوں نے اس پر مزید محنت یہ کی ہے کہ ۳۵ صفحات کے پیش لفظ میں ڈارون ازم کے حق میں پیش کیے جانے والے شواہد کی حقیقت بھی بیان کردی ہے۔
مؤلف خود حیوانیات کے پروفیسر رہے ہیں اس لیے ان پر ان کے طالب علموں کا، بلکہ اس اُمت کا یہ حق ہے کہ وہ صرف ۳۵ صفحات کے پیش لفظ ہی میں نہیں، بلکہ ۳۵۰ صفحات کی ایک پوری کتاب میں، اس باطل نظریے کی تائید میں درسی کتابوں میں طلبہ و طالبات کو جو نام نہاد شواہد پڑھائے جاتے ہیں ان کا کچا چٹھا کھول کر بیان کریں۔ اس کتاب کا ہم انتظار کریں گے۔
ڈارون کے نظریے کے بارے میں مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ ’’یورپ نے جو اس وقت تک اپنے الحاد کو پائوں کے بغیر چلا رہا تھا، لپک کر یہ لکڑی کے پائوں ہاتھوں ہاتھ لیے اور نہ صرف اپنے سائنس کے تمام شعبوں میں بلکہ اپنے فلسفہ و اخلاق اور اپنے علومِ عمران تک میں ان کو نیچے سے نصب کرلیا‘‘ (ترجمان القرآن، جنوری فروری ۱۹۴۴ئ)۔ یہ گمراہ کن نظریہ یورپ میں پیش ہوا تو عیسائی اہلِ ایمان نے بھی اس کی خوب خبرلی اور آج تک لے رہے ہیں۔ اپنے تعلیمی اداروں میں اس کے مقابل تخلیق سائنس (Creation Science) کی ترویج کے لیے تحریک چلاتے ہیں۔ لیکن مسلم دنیا کا المیہ یہ ہے کہ مسلمان سائنس دانوں اور حیوانیات کے اساتذہ نے سائنسی بنیادوں پر اس کے تاروپود نہ بکھیرے بلکہ علماے دین ہی عقیدے کی بنیاد پر اس کی تردید کرتے رہے۔ گذشتہ کچھ برسوں سے ترکی کے ہارون یحییٰ نے اس عقیدے کے خلاف منظم مہم چلائی ہے، استدلال سے مزین دل کش اسلوب میں باتصویر کتابیں پیش کی ہیں۔ ۷۰، ۸۰ وڈیو سی ڈی کا ایک سلسلہ ہے جس کا ان کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی ۸۰زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہ ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں(haroonyahya.com)٭۔ لیکن آزادی کے بعد ہماری بھی نصف صدی گزر گئی ہے۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں طلبہ نے حیوانیات کی کتابوں میں آمنا وصدقنا کہتے ہوئے اسے پڑھا ہے اورمسلمان اساتذہ نے معلوم نہیں کس طرح اپنا عقیدہ محفوظ رکھتے ہوئے اسے پڑھایا ہے لیکن انگریزی میں ہر طرح کا مواد موجود ہونے کے باوجود اُردو میں ۱۰، ۲۰ کتب اور
شہزاد چشتی صاحب نے ایک اچھا آغاز کیا ہے جو طالب علموں کے ذہن صاف کرنے میں اکسیر ہوگا۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ حیوانیات کی درسی کتب میں اس نظریے کو بطور ایک عقیدہ نہ پڑھایا جائے اور ساتھ ہی اس کے شواہد پر جو جائز سائنسی تنقید ہے اس کو بھی پڑھایا جائے اور سالانہ امتحان میں اس تنقید کو ہی موضوعِ سوال بنایا جائے۔ اب ہم انسان اور گھوڑے کے شجرے پڑھاتے ہیں، رینگنے والے جانوروں سے اڑنے والے پرندوں کا وجود میں آنا ثابت کرتے ہیں، بصارت جیسے کام کے لیے، آنکھ جیسے پیچیدہ عضو کا بننا محض موروثی تبدیلیوں کے ذریعے ارتقا سے ثابت کرتے ہیں اور معلوم نہیں کیا کیا لطیفے پڑھاتے ہیں۔ ہمارے منہ پر یہ ’غیرسائنسی‘ لیکن عقلی بات نہیں آتی کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اس بنیادی بات سے زندگی کا پورا تصور بدل جاتا ہے۔ تہذیب بدل جاتی ہے۔ ہم تو اس پر بھی بحثیں ہی پڑھاتے ہیں کہ بے جان مادے سے جان دار وجود کیسے پیدا ہوا اور تُکے لگاتے ہیں لیکن کلاس روم میں کھڑے ہوکر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ نے زندگی پیدا کی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس میں لاکھوں طلبہ پڑھتے ہیں لیکن ان کے ذمہ داروں کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ ان کے لیے سائنس کی کوئی ایسی کتاب مرتب کروائیں جس کی بنیاد الحاد پر نہ ہو تاکہ ان کے طلبہ سائنسی علوم میں ضروری شُدبُد رکھتے ہوں لیکن الحاد کی جہالت و جاہلیت سے مبرا ہوں۔ (مسلم سجاد)
سیرت پاکؐ کا مطالعہ نوعِ انسانی کے لیے روشنی کا مینار اور مسلمانوں کے لیے ایمان کی رفعتوں کا وسیلہ ہے۔ سیرت پاکؐ کا سب سے بنیادی ماخذ قرآن عظیم ہے، اور پھر احادیث مقدسہ۔ تاہم حدیث پاک کے باب میں روایات، سند اور درایت کی کسوٹی بحث و تمحیص کے در کھولتی اور قرآن وسیرت کے جملہ پہلوؤں کی وضاحت اور جزئیات کی تفصیلات فراہم کرتی ہے۔
زیرتبصرہ کتاب شیخ محمد ناصر الدین البانی (۱۹۱۴ئ-۱۴۹۹ئ) کی جانب سے اس نقدو جرح پر مبنی ہے، جو انھوں نے سیرت کی دو کتب: فقہ السیرۃ از شیخ محمد الغزالی اور فقہ السیرۃ النبویہ از ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی پر تحریر کی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے مصنفین نے ایسی روایات کو بھی سیرتی کتب میں پے درپے نقل کرکے، عمومی سطح پر قارئین کے حافظے کا حصہ بنا دیا ہے، کہ جن پر ابتدائی اور وسطانی عہد کے محققین و محدثین نے واضح طور پر جرح وتعدیل کے بعد لکھا تھا کہ فلاں فلاں روایت ضعیف ہے یا موضوع!
اگرچہ زیرتبصرہ کتاب قدرے تلخ لہجے میں لکھی گئی تھی، لیکن محمدالغزالی نے شیخ البانی کی پوری تحریر کو اپنی کتاب کے ضمیمے میں اس نوٹ کے ساتھ شامل کیا: ’’استاذ محدث ناصرالدین البانی نے میری نقل کردہ احادیث نبویؐ پر تعلیقات پیش کی ہیں، اور انھیں رضاکارانہ طور پر لکھ کر علمی حقیقت کو نمایاں کرنے اور تاریخی حقائق کو صحیح انداز میں پیش کرنے میں تعاون کیا ہے۔ کسی حدیث کی سندوں کی تحقیق کے بعد شیخ ناصر فرماتے ہیں کہ ’’یہ ضعیف ہے‘‘۔ حدیث میں رسوخ و مہارت کے باعث انھیں یہ راے ظاہر کرنے کا حق ہے، لیکن میں اس حدیث کے متن کو دیکھتا ہوں، تومجھے اس کی روایت میں کوئی حرج دکھائی نہیں دیتا،اور اسے نقل کرنے کو کچھ نقصان دہ خیال نہیں کرتا… بیش تر علما نے ضعیف اور صحیح مرویات کے قبول ورّد میں یہی طریقہ اپنایا ہے کہ ضعیف حدیث اگراسلام کے عام اصول اور جامع قواعد سے ہم آہنگ ہو تو وہ قابلِ قبول ہے‘‘۔ (ص ۱۰۷-۱۰۹)
شیخ البانی کی کلاسیکی بحث نے ذخیرۂ حدیث کے مطالعے کو نیا رُخ دیا ہے جس میں انھوں نے قدیم کتب کے نظائر سے بات کی ہے، جب کہ اسی زمانے میں مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم نے سند اورروایت سے بڑھ کر خود متن حدیث، الفاظ اور استدلال کو قرآن و سنت اور عقل و نقل کی بنیاد پر دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ درایت حدیث کے اس باب میں شیخ البانی کا طریق کار زیادہ محتاط ہے۔
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اس مجموعے کا طبع زاد ترجمہ کیا ہے، جس میں نہ عربی لفظیات کا بوجھ ہے اور نہ اسلوب میں بے جاپیچیدگی۔ (سلیم منصورخالد)
عہدِحاضر کی سائنسی ترقی کے پس منظر میں قدیم سائنس دانوں کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے جن کے کارناموں کی بدولت آج یہ سب کچھ ممکن ہوپایا ہے۔ مسلمانوں کے عہد ِ زریں میں خصوصاً عہد ِ عباسی میں مسلم سائنس دانوں نے بہت کام کیا اور اس کام کی بنیاد پر اہلِ یورپ نے تحریک احیاے علوم کی نیو ڈالی۔ ایک عرصے تک یورپ کے تعلیمی اداروں میں سائنس سے متعلق مسلمانوں کی کتب پڑھائی جاتی رہیں۔
مسلم اُمہ کے زوال کے بعد تیرھویں صدی میں علم کی یہ قندیلیں یورپ میں روشن ہوئیں۔ زیرتبصرہ کتاب کا آغاز بھی اسی صدی کے ایک نام ور سائنس دان راجر بیکن (۱۲۱۴ئ-۱۲۹۴ئ) سے ہوتا ہے۔ کوسٹر اور گوٹن برگ، کوپرنیکس، گلیلیوگلیلی، ولیم ہاروے، رابرٹ بوائل اور آئزک نیوٹن سمیت ۱۳سائنس دانوں کی حیات و خدمات کو ۱۳ الگ الگ ابواب میں پیش کیا گیا ہے۔ ضمیمے میں مزید ۱۲ سائنس دانوں کی خدمات کا تذکرہ ہے۔ یہ تذکرہ گو مختصر ہے مگر اس طرح مصنف نے سترھویں صدی میں یورپ کے تقریباً تمام نام ور سائنس دانوں کے احوال شاملِ کتاب کردیے ہیں۔
یہ کتاب اُردو کے سائنسی ادب میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ اس سے قبل بھی مصنف مسلم سائنس دانوں کے بارے ایک کتاب نام ور مسلم سائنس دان تحریر کرچکے ہیں۔ عموماً سائنسی مباحث خشک قسم کے ہوتے ہیں مگر مصنف نے کوشش کی ہے کہ مذکورہ کتاب کا طرزِ نگارش اور اس کی زبان ادبی معیار کے مطابق ہو اور مصنف اس میں کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ ان کا اسلوب دل چسپ اور عام فہم ہے۔ سائنس دانوں کے اس تذکرے میں کہیں کہیں کہانی کا سا انداز پیدا ہوگیا ہے جو تحریر کی تاثیر میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
سائنس دانوں کی حیات و خدمات کے ساتھ ساتھ اُن کی تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں مگر یہ تصاویر پرانی اور غیرواضح ہیں۔ مناسب ہوتا کہ نئی اور واضح تصاویر شامل کی جاتیں۔ مجلس ترقی ادب اور مصنف دونوں اس علمی کارنامے پر بجاطور پر فخر کرسکتے ہیں۔ (ساجد صدیق نظامی)
پہلی کتاب میں فاضل مؤلف نے جادو اور جنات کے بارے میں قرآن وسنت کی روشنی میں اسلام کا موقف واضح کیا ہے۔ انھوں نے متعدد اعتقادی گمراہیوں کی نشان دہی کے ساتھ جنات اور جادو کے توڑ کے لیے مسنون علاج بھی تجویز کیے ہیں۔ مؤلف کے عملی تجربات اور مشاہدات بھی کتاب میں شامل ہیں۔ روحانی علاج سے متعلقہ چند اصولی مسائل، نظرِ بد کا علاج اور متعدد جسمانی بیماریوں کے روحانی علاج بھی کتاب کا حصہ ہیں۔
دوسری کتاب میں قرآن و سنت کی روشنی میں دست شناسی، علم جفر، علم عدد، علم اسرار الحروف، علمِ نجوم، علمِ رمل، ریکی، یوگا، ٹیلی پیتھی، ہپناٹزم اور مسمریزم کی حقیقت اور پوزیشن واضح کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بدشگونی، نحوست اور فالناموں کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور اس سلسلے میں صحیح اسلامی موقف پیش کیا گیا ہے۔ مراقبوں اور چِلّہ کشی کی شرعی حیثیت، خوابوں سے متعلقہ مسائل قرآن و حدیث کی روشنی میں، اور قیافہ شناسی کی شرعی حیثیت بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ اسی طرح الہام، وسوسہ، کشف اور فراست میں فرق کو واضح کرتے ہوئے، اسلام میں ان کی حیثیت بھی بیان کردی گئی ہے۔ کتاب کے آغاز میں وحیِ الٰہی اور وحیِ شیطانی، اور کہانت و عرافت پر بھی عمدہ مباحث بطور تمہید شامل ہیں۔ (خالد محمود)