بسم اللہ الرحمن الرحیم
جماعت اسلامی کے کُل پاکستان اجتماعات کا اپنا ایک مزاج اور کردار ہے۔ جماعت کا ہراجتماع ابتدا ہی سے ملک و ملّت دونوں کے لیے ایک مخصوص پیغام دینے اور ہدایاتِ کار فراہم کرنے کی روشن روایت رکھتا ہے لیکن ۲۴ تا ۲۶ اکتوبر ۲۰۰۸ء کو مینارِ پاکستان کے زیرسایہ اقبال پارک لاہور میں منعقد ہونے والے اجتماع کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان اور ملّتِ اسلامیہ کی تاریخ کے بڑے نازک اور فیصلہ کن مرحلے پر اس اجتماع نے پاکستان اور عالمی اسلامی تحریکوں کے لیے مستقبل کی جس روشن راہ کی نشان دہی کی ہے وہ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے گوشے گوشے سے جمع ہونے والے لاکھوں تحریکی کارکنوں، دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کی قیادت، کینیڈا اور امریکا سے لے کر جاپان اور ملایشیا تک سے شریک ہونے والے مندوبین نے کامل یکسوئی کے ساتھ اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل و حالات کا جس دقتِ نظر سے تجزیہ کیا اور عمومی مایوسی کے ماحول میں اعتماد اور فراست کے ساتھ مستقبل کے لیے جس طرح ایک روشن شاہ راہ کی نشان دہی کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ خوف، بدامنی اور عدم تحفظ کی ملک گیر فضا میں لاکھوں افراد کے اس شہر میں تین روز تک علمی اور دعوتی اجتماع کی شکل میں جس سکون، اطمینان اور عزم و استقلال کا نمونہ پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
افغانستان میں یہ جنگ ہزاروں افراد کی جانیں لے چکی ہے، لاکھوں زخمی اور بے گھر ہیں اور جنگ کی آگ اب پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بڑھ کر آباد علاقوں (settled areas) کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ۱۵ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، ہزاروں زخمی ہیں اور بے گھر افراد کی تعداد ۸لاکھ سے متجاوز ہے۔۱؎ عراق میں تباہی سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر ہے۔ وہاں ہلاک ہونے والوں کی تعداد محتاط اندازوں کے مطابق ۶ لاکھ سے متجاوز ہے اور ملک کا چپہ چپہ معصوموں کے خون سے رنگین ہے اور تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ساری دنیا بے چینی اور عدم تحفظ کی گرفت میں ہے اور اسرائیل اور بھارت کو چھوڑ کر دنیا کے ہر ملک میں امریکا سے بے زاری اور نفرت کی لہریں اُٹھ رہی ہیں اور آبادی کی عظیم اکثریت (۶۰ سے ۹۰ فی صد تک) امریکی پالیسیوں سے اپنے اختلاف کا برملا اظہار کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود امریکی قیادت، میڈیا اور اہلِ قلم کی ایک بڑی تعداد اسلام اور مسلمانوں کو ہدف بنائے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی خاص عنایت اسلامی تحریکات پر ہے جن کا اصل ’جرم‘ یہ ہے کہ وہ اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات سمجھتی ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی کی اسلام کی تعلیمات اور قوانین کی روشنی میں تشکیلِ نو کرنا چاہتی ہیں۔ اسے پہلے Radical Islam (انقلابی اسلام) اور Fundamentalism (بنیاد پرستی) کا نام دیا گیا اور اب اسے Islamic Terrorism (اسلامی دہشت گردی) اور Islamo-fascism (اسلامی فاشزم) کا منبع قرار دیا جارہا ہے۔
اس پس منظر میں ۴۰ مسلم ممالک کے اسلامی قائدین کی جماعت کے اجتماع میں شرکت اور اسلام کے عالمی پیغام اور اُمت کی وحدت کی ضرورت پر مکمل یک جہتی کا اظہار روشنی کے سفر کی ایک تابناک علامت ہے۔
سیاسی تبدیلی کا یہ عمل ایک عظیم تحریکِ مزاحمت سے شروع ہوا تھا جس کی قیادت ملک کی وکلا برادری کر رہی تھی اور جس کی علامت چیف جسٹس افتخار چودھری تھے۔ اس تحریک میں پوری سول سوسائٹی اور اہم سیاسی کارکن اور جماعتیں شریک ہوئیں اور ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں عوام نے مشرف اور اس کی پالیسیوں کے خلاف اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور کسی ایک پارٹی کو اکثریت نہ دے کر یہ پیغام بھی صاف لفظوں میں دے دیا کہ سب سیاسی قوتوں کو، خصوصیت سے پی پی پی اور نواز مسلم لیگ کو مل کر، قومی مفاہمت کے ذریعے پرویزی دور کی زیادتیوں اور انحرافات (deviations ) کی اصلاح کر کے دستور کی اس شکل میں جو ۱۹۹۹ء میں تھی بحالی، عدلیہ کی حقیقی آزادی اور غیرقانونی طور پر معزول کیے جانے والے ججوں کی باعزت بحالی، نیز قومی آزادی، خودمختاری اور عزت کی قیمت پر امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت کی پالیسی کی تبدیلی اور خارجہ پالیسی کی اس قلبِ ماہیت کی تصحیح کا مینڈیٹ دیا جو امریکا، بھارت اور اسرائیل کے دیے ہوئے ایجنڈے کے تحت پرویز مشرف نے آمرانہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کی تھی۔ معاشی پالیسی کے دروبست کی تبدیلی بھی عوام کے مینڈیٹ کا حصہ تھی کہ پرویزی دور کی پالیسیوں کے نتیجے میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہے تھے اور ملک کو نمایشی ترقی کے سراب کے نشے سے مسحور کیا جا رہا تھا، جب کہ فی الحقیقت زرعی اور صنعتی شعبوں میں حقیقی پیداواری ترقی مفقود تھی اور ملک بجٹ، تجارت اور توازن ادایگی کے خساروں سے دوچار، اور ملکی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا تھا۔
قوم کو نئی مخلوط حکومت سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ زرداری صاحب نے ایک طرف ساری توجہ اپنے ذاتی اقتدار کو مستحکم کرنے پر دی تو دوسری طرف ایک ایک کر کے ان تمام وعدوں کی خلاف ورزی کی راہ اختیار کی جو میثاقِ جمہوریت، جولائی ۲۰۰۷ء کے اعلانِ لندن، اور فروری مارچ ۲۰۰۸ء کے اعلانِ بھوربن اور اعلانِ دوبئی میں کیے گئے تھے۔ اس کا پہلا نتیجہ مسلم لیگ نواز کی حکومت سے علیحدگی اور اس کے بعد زندگی کے ہر شعبے میں عملاً پرویز مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل اور بالآخر معیشت کے میدان میں آئی ایم ایف کے جال میں دوبارہ گرفتاری، بھارت کے مقابلے میں مسلسل پسپائی، کشمیر کے مسئلے پر پریشان کن ژولیدہ بیانی، اور امریکا کے پنجے میں اس حد تک گرفتاری کہ ۳ستمبر کو امریکی افواج نے پاکستان کی سرزمین پر زمینی حملہ بھی کردیا اور مارچ ۲۰۰۸ء میں موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے ۴۰ سے زیادہ فضائی حملے پاکستان کی سرزمین پر ہوچکے ہیں جن میں ۴۰۰ سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔
اس سب کچھ پر مستزاد امریکا اور یورپ کی مجالس دانش (think tanks)کی وہ فکری اور نفسیاتی جنگ ہے جو روز افزوں ہے۔ ان تمام جائزوں اور رپورٹوں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان ایک ناکام ہوتی ہوئی (failing ) ریاست ہے، ’دہشت گردی‘ کا اصل مرکز پاکستان کے علاقوں میں ہے، پاکستان کے لیے اپنے جغرافیائی وجود کو باقی رکھنا ممکن نہیں رہا ہے اور پاکستان خدانخواستہ اگلے ۱۰،۱۵ سال میں صفحۂ ہستی سے معدوم ہوجائے گا یا اس کے ایسے حصے بخرے ہوجائیں گے کہ وہ سیاسی بساط پر ایک اہم کردار ادا کرنے کے لائق نہیں رہے گا۔ یوں نہ صرف پاکستان کی معیشت کو استعماری شکنجوں میں کسا جا رہا ہے بلکہ ملک کے مستقبل ہی کو مخدوش اور مشکوک بناکر پیش کیا جارہا ہے۔
موجودہ حکومت کے ۹ مہینوں پر پھیلے ہوئے دورِ اقتدار میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے اور امن و امان کی زبوں حالی کے ساتھ معاشی افراتفری، معاشرتی اضمحلال، سیاسی انتشار اور داخلی عدم استحکام میں پریشان کن حد تک اضافہ ہوا ہے اس کے ساتھ نظریاتی خلفشار اور ثقافتی اور تہذیبی بگاڑ بھی بلوہ عموم کی سی کیفیت اختیار کر رہے ہیں۔ فکری اور اخلاقی ہردو اعتبار سے حالات مخدوش تر ہوتے جا رہے ہیں اور نوجوانوں میں بے راہ روی اور قوم میں ہرسطح پر ڈسپلن کی کمی ایک وبا کی صورت اختیار کر رہے ہیں۔
ان حالات میں قوم کو جھنجھوڑنے اور وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے بیدار، متحرک اور منظم کرنے کی ضرورت تھی۔ اس پس منظر میں جماعت اسلامی نے مینارِ پاکستان پر یہ ولولہ انگیز اعلان کے ساتھ کیا ؎
صنم کدہ ہے جہاں ، لا الٰہ الا اللہ
اور : ع
مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ
اجتماع کے کامیاب انعقاد کے اس پہلو کو سب نے محسوس کیا اور سراہا کہ مایوسی کی فضا میں جماعت کا لاکھوں افراد پر مشتمل یہ اجتماع روشنی کی ایک تازہ کرن ہے۔ اس طرح اس پہلو پر بھی ہرحلقے نے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا ہے کہ ملک پر خوف اور عدمِ تحفظ کے جو بادل چھائے ہوئے تھے اور جن کی وجہ سے سرکاری حکام ہی نہیں بہت سے دانش ور بھی احتیاط کا مشورہ دے رہے تھے اور لاہور کے قلب میں اتنے بڑے اجتماع کے بارے میں طرح طرح کے خدشات کا اظہار کر رہے تھے، الحمدللہ وہ سب پادَرِ ہوا ثابت ہوئے اور جماعت کے شان دار روایتی نظم و نسق کے ساتھ یہ سہ روزہ اجتماع بڑی خوش اسلوبی سے انجام پذیر ہوا اور قوم میں اُمید اور اعتماد کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔
یہ دونوں پہلو اپنی جگہ اہم ہیں اور ہم ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں لیکن ہماری نگاہ میں اس اجتماع کی اصل اہمیت ان سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا تعلق اس پیغام سے ہے جو اس اجتماع نے پوری قوم کو دیا ہے اور مستقبل کے لیے ملک اور عالمی سطح پر نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی جدوجہد کے جو خدوخال اس میں پیش کیے گئے ہیں، وہ وقت کی ضرورت اور مستقبل کی تعمیر کے لیے راہِ عمل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان پہلوئوں پر سب کو غوروفکر کی دعوت دیں۔
جماعت اسلامی کے اس اجتماع کا اولین مقصد تذکیر تھا تاکہ جماعت کے کارکنوں اور معاونین کے سامنے خاص طور پر، اور پوری قوم اور اُمت مسلمہ کے سامنے بالعموم، ایک بار پھر وہ مقصد آسکے جس کے لیے تحریکِ اسلامی پاکستان میں، اور دیگر اسلامی تحریکیں دنیا کے گوشے گوشے میں اپنے اپنے حالات کے مطابق اپنے انداز میں جدوجہد کر رہی ہیں۔
تحریکِ اسلامی کی نگاہ میں زندگی کے تمام مسائل کا حل اللہ کی ہدایت کو قبول کرنے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل وفاداری کے ساتھ اطاعت، اور آخرت کی زندگی میں کامیابی کے حصول کے لیے دنیا میں قرآن وسنت کے مطابق عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے میں ہے۔ سارے مسائل کے حل کی کلید اخلاق کی اصلاح اور پوری زندگی کو خیروشر اور حلال اور حرام کے اس ضابطے کے مطابق گزارنے میں ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پوری انسانیت کو دیا ہے اور اُمت ِمسلمہ جس کی امین ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سردارانِ عرب کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: ایک کلمہ لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کو اختیار کرلو تو عرب و عجم پر تمھارا جھنڈا لہرائے گا۔ یہی وہ پیغام ہے جسے اقبال نے اپنی اس خوب صورت غزل میں پیش کیا ہے جو ۲۰۰۸ء کے اجتماع کی علامت تھی :
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں ، لا الٰہ الا اللہ
یہ نغمہ فصلِ گُل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں ، لا الٰہ الا اللہ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ
جماعت اسلامی پاکستان کابنیادی عقیدہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہوگا،یعنی یہ کہ صرف اللہ ہی ایک الٰہ ہے اور اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ (دفعہ ۳)
اس عقیدے کو دل کی گہرائیوں اور عقل کی سپردگیوں کے ساتھ قبول کرنے کے معنی یہ ہیں:
اس کلمے کے ماننے والے ایک امت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو استخلاف کی جو ذمہ داری اور سعادت سونپی ہے وہ اس کے امین ہیں۔ استخلاف کا تقاضا زمین پر اپنے مالک کی مرضی کو پورا کرنا اور زندگی کے پورے نظام کو رب السَّمٰوٰت والارض کی ہدایت کے مطابق مرتب و منظم کرنا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے تحریکِ اسلامی اپنا نصب العین قرار دیتی ہے، جو دراصل اُمت مسلمہ اور پوری انسانیت کا حقیقی نصب العین ہے یعنی اقامت ِ دین۔
جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصد عملاً اقامتِ دین (حکومتِ الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضاے الٰہی اور فلاحِ اخروی کا حصول ہوگا۔ (دفعہ ۴)
جو چیز جماعت اسلامی کی منفرد حیثیت کو نمایاں کرتی ہے وہ اس کا یہی نظریاتی ، اخلاقی، تہذیبی اور انقلابی کردار ہے۔ یہ جماعت کسی وقتی ضرورت اور محدود سیاسی ہدف کے حصول کے لیے قائم نہیں ہوئی بلکہ انسان کی پوری زندگی کو اسلام کے انقلابی پیغامِ ہدایت کے مطابق ڈھالنے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے پورے نظام کو اللہ کی شریعت کی روشنی میں مرتب و منظم کرنے کے لیے قائم ہوئی ہے۔
اقامت دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیہ و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہلِ ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اگرچہ مومن کا اصل مقصدِ زندگی رضاے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کوقائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت ِ دین اور حقیقی نصب العین وہ رضاے الٰہی ہے جو اقامت ِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔ (ص ۱۴-۱۵)
جماعت اسلامی سیاسی نظام کی اصلاح اور اسلامی بنیادوں پر انقلابِ قیادت کی داعی ہے اور اس پہلو سے وہ ایک سیاسی جماعت ہے جو زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں سونپنا چاہتی ہے جو اللہ کے وفادار اور شریعت ِ اسلامی کے نفاذ کے داعی ہوں اور جن کا اپنا کردار سیاسی تبدیلی کے اس پروگرام سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس معنی میں وہ ایک سیاسی جماعت ہے لیکن جماعت اسلامی محض ایک سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر نظریاتی تحریک بھی ہے جو سیاست سمیت زندگی کے تمام نظام کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق منظم اور مرتب کرنا چاہتی ہے۔ اس کے پروگرام کے چار عناصر ِترکیبی ہیں جو مساوی طور پر اہم ہیں اور ایک دوسرے سے مربوط اور ناقابلِ تقسیم ہیں۔
۱- وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ خدا اور رسولؐ کی ہدایت کیا ہے۔ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اُس حد تک پیشِ نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اس کی گنجایش ہوگی۔
۲- اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔
۳- جماعت اپنے پیشِ نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی یعنی یہ کہ تبلیغ و تلقین اور اشاعت ِ افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عامہ کو اُن تغیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیشِ نظر ہیں۔
۴- جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔
جماعت اسلامی کی انفرادیت اس کے مندرجہ بالا نظریاتی، اخلاقی، تہذیبی اور انقلابی خصوصیات کی رہینِ منت ہے۔ بلاشبہہ اس کی تنظیمی سرگرمیوں کا محور پاکستان ہے لیکن اس کی نظریاتی دعوت پوری انسانیت کے لیے ہے اور وہ ان عالمی اصلاحی تحریکوں کا حصہ ہے جو اپنے اپنے دستور، اپنی اپنی تنظیم اور اپنی اپنی قیادت کے تحت چل رہی ہیں اور عالمی سطح پر ایک نظریاتی اور تہذیبی رَو کا حصہ اور رنگ رنگ کے پھولوں کا ایک حسین گلدستہ ہیں۔
اکتوبر ۲۰۰۸ء کا اجتماع جماعت کے کارکنوں کی تذکیر ہی کا نہیں بلکہ پوری قوم اور عالمی برادری کے سامنے اپنے اس ہمہ گیر اور منفرد کردار کو اُجاگر کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔
اللہ کے فضل وکرم سے پاکستان میں جماعت اسلامی ایک اہم نظریاتی، سیاسی، تعلیمی اور سماجی قوت ہے۔ اجتماع اکتوبر میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت جماعت کے تقریباً ۲۳ہزار ارکان اور رکنیت کے ۱۷ ہزار امیدوار ہیں (خواتین ارکان کی تعداد ۲۳۹۹ اور رکنیت کی امیدوار خواتین ۱۴۳۷ ہیں)۔ ملک بھر میں جماعت کے کارکنوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ اور اس کے عام ممبروں کی تعداد ۵۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ تنظیمی اعتبار سے مرکز، صوبوں اور اضلاع کی سطح پر جماعت کی کارروائیاں جاری و ساری ہیں اور ۴ہزار سے زائد یونین کونسلوں میں تنظیم قائم ہے۔ ملک میں درسِ قرآن کے ۸ہزار حلقے اور تعلیم القرآن کے ۳۳۱۷ مراکز کام کر رہے ہیں۔ فہم دین کے پروگرام کے تحت تقریباً ۹۰۰ پروگرام ایک سال میں منعقد ہو رہے ہیں جو دس روزہ اور سہ روزہ قرآن فہمی کے اجتماعات سے عبارت ہیں اور ایک ایک پروگرام میں کئی کئی ہزار افراد باقاعدگی سے شرکت کر کے قرآن کے پیغام کو سمجھنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ خواتین کے حلقے میں فہم قرآن کے ۱۳۶ ادارے قائم ہیںاور درسِ قرآن کا سلسلہ ۴۲۱۱ حلقوں میں انجام دیا جا رہا ہے۔ دعوتی کیمپ سالِ گذشتہ میں ۲۸۳۰ لگائے گئے اور کُل دعوتی وفود کی تعداد ۶۰ ہزار کے قریب رہی۔ جماعت کے نظم کے تحت اس وقت ملک میں چھوٹی بڑی ۷۵۵۸ لائبریریاں کام کر رہی ہیں۔
جماعت کی برادر تنظیموں کا کام اس کے علاوہ ہے جو زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنے اپنے دائرۂ کار میں سرگرمِ عمل ہیں اور الحمدللہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں جماعت اور اس کے کارکن متحرک نہ ہوں۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔
ہم نے یہ مختصر جائزہ تحدیث ِ نعمت کے احساسات کے ساتھ پیش کیا ہے اور مقصد اس امر کا اظہار بھی ہے کہ دعوت، تربیت، اصلاحِ معاشرہ، خدمتِ عوام، تعلیم اور سیاسی تبدیلی کا وہ پروگرام جس پر جماعت اسلامی کام کر رہی ہے ایک ہمہ جہتی پروگرام ہے۔ اس کے کام کا تعلق محض سیاسی موسم سے نہیں، یہ جماعت ایک تحریک کا مرکز و محور ہے اور اس کی دعوتی اور اصلاحی سرگرمیاں سال کے بارہ مہینے اور ہرمہینے کے تیس دن جاری ہیں ع
بہار ہو کہ خزاں ، لا الٰہ الا اللہ
درپیش چیلنج اور تحریک اسلامی
اجتماع کا ایک اور مقصد جماعت کے پیغام کو جماعت کے اپنے کارکنوں کے سامنے، ان میں مکمل یکسوئی پیدا کرنے کے لیے، پوری قوم کے سامنے، ملک کو درپیش ایشوز پر اپنے موقف کو بیان کرنے کے لیے، اور پوری دنیا خصوصیت سے عالمی قوتوں کے سامنے، انھیں یہ موقع فراہم کرنے کے لیے تھا کہ وہ تحریکِ اسلامی کو اس کے اپنے الفاظ اور بیان کے مطابق سمجھنے کی کوشش کریں اور اُسے ویسے تعصب اور عناد کی عینک سے نہ دیکھیں، جس طرح میڈیا کے بعض عناصر حقیقت کو مسخ کرکے پیش کر رہے ہیں۔
عالمی سطح پر اس اجتماع کے ذریعے جماعت اسلامی نے امریکا اور مغربی دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ان خانوں میں رکھ کر نہ دیکھیں جو ان کے تنگ نظر سیاسی اور فکری قائدین نے وضع کیے ہیں۔ اسلام ایک عالم گیر پیغام کا علَم بردار ہے لیکن یہ پیغام کوئی نیا پیغام نہیں بلکہ وہی پیغام ہے جو خالقِ کائنات نے اپنے تمام انبیا کے ذریعے انسان کی ہدایت کے لیے بھیجا اور جس کی آخری اور مکمل شکل وہ ہے جو نبی آخرالزماں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی شکل میں نازل ہوئی اور جس کی عملی تعبیرو تشکیل پیغمبرؐاسلام کی سنت اور زندہ روایت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ پیغام اللہ کی بندگی کا، اللہ کے تمام بندوں کی اخلاقی ترقی اور تزکیے کا، تمام انسانوں کے درمیان انصاف کے قیام اور حقوق العباد کی ادایگی کے ذریعے ہرسطح پر انسانی زندگی کو امن اور عدل اور بھائی چارے کا گہوارہ بنانے کا ہے۔ یہ جنگ، خون ریزی اور دہشت گردی کا پیغام نہیں۔ بلکہ یہ تو انسان کی پوری زندگی کو اخلاقی اصولوں اور اقدار کی روشنی سے منور کرنا چاہتا ہے اور زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ یہ پیغام ابدی ہے مگر اس میں بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کا لحاظ رکھنے کی پوری پوری گنجایش موجود ہے۔ اس پیغام کو اس کی اصل شکل میں پرکھنے کا سب کو پورا پورا حق ہے لیکن یہ رویہ مبنی برحق و انصاف نہیں کہ اس دین کی تعلیمات کو مسخ کیا جائے اور سیاق و سباق سے علیحدہ (out of content ) چیزوںکو لے کر اسلام کو تنقید وتنقیص کا ہدف بنایا جائے یا کچھ خاص افراد کے سیاسی اقدامات کو ان کے سیاسی پس منظر سے کاٹ کر اسلام کے سر تھوپ دیا جائے اور دنیا کو ایک نظریاتی تصادم اور جنگ و جدال میں جھونک دیا جائے۔ اُمت مسلمہ امن و انصاف کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہے اور دوسروں کے ساتھ بھی عزت اور انصاف سے معاملہ کرنے کی خواہش مند ہے لیکن اگر اس پر محض قوت کے بل پر کچھ نظریات مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی اور محض طاقت کے ذریعے اُمت کے وسائل پر قبضہ کرنے اور اس کی ریاستوں کو اپنا تابع مہمل بنانے کی سعی کی جائے گی تو یہ تصادم کا راستہ ہے اور اسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
آج اُمت مسلمہ امریکی، صہیونی، یورپی اور بھارتی استعمار کا نشانہ ہے۔ اگر ظلم اور سامراجی تسلط کے خلاف اُمت کے کچھ حصے یا عناصر صف آرا ہیں تو ان مسائل کا بے لاگ انصاف کے ساتھ حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی مسائل کا حل قوت کے استعمال سے نہیں بلکہ حق و انصاف کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں تلاش کرنا چاہیے۔ اگر یہ راستہ اختیار کیا جائے تو سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ خرابی کی جڑ استعماری ذہنیت اور قوت کے ذریعے مبنی برحق تحریکوں اور مزاحمتوں کو ختم کرنے کی ظالمانہ پالیسیاں ہیں۔ نیز طاقت ور ممالک کا یہ ادّعا ہے کہ ان کو دوسروں کے وسائل پر قبضے کا حق ہے اور محض اپنی خواہشات بلکہ ہوس (greed) کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کے منہ سے ان کا نوالہ چھین لینا بھی ان کا حق ہے۔ اگر طاقت ور اپنے مفاد کی خاطر دوسروں پر ایسی دست درازیاں کریں گے تو دوسرے بھی کمزور ہونے کے باوجود مزاحمت اور اپنے مفادات کے تحفظ کا راستہ نکالنے پر مجبور ہوں گے۔
’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی برپا کردہ یہ جنگ ہر میدان میں ناکام رہی ہے۔ عراق ہو یا افغانستان، پاکستان ہو یا کوئی اور علاقہ___ نہ صرف یہ کہ یہ جنگ ناکام رہی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں امریکا کے خلاف نفرت کے جذبات کا طوفان اُمنڈ آیا ہے اور آج امریکا دنیا میں جتنا بدنام ہے اور اسے جتنی بڑی تعداد میں راے عامہ کی ہرسطح کے لوگ امن وانصاف کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں، تاریخ کے کسی دور میں نہیں ہوا۔
اس اجتماع میں عالم اسلام پر امریکا کی دست درازیوں کی مذمت کے ساتھ یہ واضح کیا گیا ہے کہ امریکا محض قوت سے اپنے نظریات اور تصورات دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، دوسروں کے وسائل پر قبضہ کر رہا ہے، ان کے استحصال (exploitation) کا مرتکب ہو رہا ہے اور مسلم ممالک میں جبروقوت کے ذریعے قابض اپنے مفید مطلب حکمرانوں کی سرپرستی کر رہا ہے اور اب اس سے بڑھ کر مسلم دنیا میں انتہاپسندی اور میانہ روی کے نام پر اپنے ایجنٹوں کو آگے بڑھا کر ان کے ذریعے اپنے مطلب کے ’اسلام‘ کو فروغ دینے کی مذموم کوشش کر رہا ہے۔ یہ راستہ تصادم اور بگاڑ کا راستہ ہے___ مسلم دنیا امریکا اور مغربی ممالک سے اور مغربی تہذیب کے علَم برداروں سے مذاکرات اور افہام و تفہیم کے لیے ہرلمحہ تیار ہے لیکن مسلمان اپنے دین میں مداخلت، اپنی تہذیب کی پامالی، اپنی معیشت و سیاست پر غیروں کے تسلط اور اپنے درمیان دوسروں کے ایجنٹوں کے اقتدار کو برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم حقیقی کثیریت (pluralism) کے قائل ہیں لیکن کسی ایک ملک کا غلبہ اور بالادستی ہرگزقبول نہیں کی جاسکتی۔
اجتماع میں برطانوی صحافی خاتون اے وان رڈلی کی تقریر مدتوں یاد رکھی جائے گی۔ اس میں مغرب کے لیے بھی پیغام ہے اور مسلمانوں کے لیے بھی۔ نوحہ صرف ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نہیں ___ تمام مظلوم انسانوں کا اور ظلم کے نظام کے خلاف نفرت اور بغاوت کا ہے۔
اجتماع کے مقررین اور خصوصیت سے بین الاقوامی اجلاس نے یہ پیغام بڑے بھرپور مگر باوقار انداز میں دیا ہے اور اسی جذبے سے دیا ہے کہ ع
مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ
اجتماع میں پاکستان نے موجودہ حالات کا بھی دقتِ نظر سے تجزیہ کیا گیا اور جماعت اسلامی کے موقف کو مسکت دلائل کے ساتھ پیش کیا گیا۔
ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم
پارلیمنٹ نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی ہے جس میں جنگ اور فوجی کارروائی کے راستے کو رد کیا گیا ہے اور مذاکرات، جنگ بندی، فوجوں کی واپسی اور پوری سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو کا مطالبہ کیا گیا۔ مگر پارلیمنٹ کی قرارداد نوحہ کناں ہے اور حکومت اور امریکا دونوں اپنی من مانی کررہے ہیں اور بات ملک کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت و وقار کی پامالی تک پہنچ چکی ہے۔ صدر، وزیراعظم اور وزیردفاع ایسے بیانات دے رہے ہیں جو ملک وقوم کے لیے شرمناک ہیں لیکن حکمران اتحاد کے بڑے بڑے سورما ہیں کہ پھر بھی لیلاے اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ یہ کیسی حکومت ہے کہ جس کے شرکا اپنی ہی حکومت کی پالیسی کی مذمت بھی کرتے ہیں اور کرسی چھوڑنے کا باعزت راستہ بھی اختیار نہیں کرتے۔
پچھلے ایک سال میں بنکوں کے نظام میں قرض کے نادہندوں (Non Performing Loans) کی مالیت ستمبر ۲۰۰۸ء کے آخیر میں ۳۷ئ۲۸۸ ارب روپے تھی، جب کہ ستمبر ۲۰۰۷ء میں یہ رقم ۱۱ئ۲۵۱ بلین تھی۔ گویا اس ایک سال میں ۳۷ ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔
جماعت اسلامی کی نگاہ میں مسئلے کی اصل جڑ اخلاقی فساد اور اجتماعی اور اداراتی بگاڑ ہے۔ قیادت کی ناکامی اور جمہوری عمل کو دستور یا قانون اور ضابطے کے مطابق چلانے سے مکمل بے اعتنائی ہے۔ اور یہ بگاڑ اس وقت تک دُور نہیں ہوسکتا جب تک ایسی قیادت برسرِکار نہ آئے جو اخلاقی اعتبار سے اعلیٰ کردار کی حامل ہو، جو نظریاتی اعتبار سے پاکستان اور نظریۂ پاکستان کی وفادار ہو، جو قوم ہی سے ہو اور قوم کے سامنے جواب دہ ہو، جو امریکا اور بیرونی طاقتوں کے زیربار نہ ہو اور ان سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خوداری سے معاملہ کرسکے، جو ملک کی آزادی اور عزت کا سودا کرنے والی نہ ہو اور قومی خودمختاری اور وقار کی خاطر جان کی بازی لگانے کا داعیہ اور صلاحیت رکھتی ہو۔
جماعت اسلامی کا اجتماع انقلابِ قیادت کے اس آہنگ کا برملا اظہار ہے۔
اجتماع میں جماعت کی قیادت نے آیندہ کے لیے جو پروگرام جماعت کے کارکنوں اور پوری قوم کو دیا ہے وہ تجدید عہد، وقت کی قربانی اور مسلسل جدوجہد کا پیغام ہے۔ اس میں پہلی اور سب سے اہم چیز رجوع الی اللہ ہے کہ ہماری ساری دعوت اور پروگرام کی بنیاد اللہ سے تعلق، اللہ سے مدد اور استعانت کی طلب، اللہ کے دین کی سربلندی کا جذبہ اور کوشش، اور اللہ کی خوش نودی کا حصول ہے۔ تحریک کے کارکنوں کے لیے اجتماع کا دوسرا پیغام جماعتی استحکام ہے۔ اپنی صفوں کو مضبوط کرنا، اپنے تربیتی نظام کو مؤثر بنانا، اپنی تنظیم کو زیادہ مستحکم کرنا، جہاں تنظیم نہیںہے یا کمزور ہے اس کی تقویت کی فکر کرنا، جماعت میں ڈسپلن، وقت کی پابندی، ذمہ داریوںکی صحیح ادایگی، ایک دوسرے کی معاونت اور تقویت کا باعث ہونا___ ان سب پہلوئوں سے جماعت کو مضبوط کرنا تاکہ آگے کے مراحل میں چیلنجوں کا مؤثر مقابلہ کیا جاسکے۔
تیسرا پیغام دعوت کا ہے۔ جماعت کی نگاہ میں ہمارا سب سے اہم کام عوام تک پہنچنا اور ہرممکن طریقے سے ان تک اسلام کی دعوت اور جماعت کے پروگرام کو پہنچانا ہے۔ ہمارا اصل ہدف انسان سازی ہے___ ووٹ اس کا نتیجہ ہے، اولین ہدف نہیں۔ جتنا ہم اپنا پیغام لوگوں تک پہنچائیں گے، ان کے سوالات کا تشفی بخش جواب دیں گے، اپنے سیرت و کردار اور اپنی خدمت سے ان کے دلوں کو اسلام اور جماعت کے لیے جیتیں گے اتنا ہی ہمارا وزن بڑھے گا اور بالآخر انتخابات میں بھی اس کے ثمرات سے جماعت اور ملک فیض یاب ہوسکیں گے۔ ۲۰۰۸ء بھی دعوت کا سال تھا اور ۲۰۰۹ء بھی دعوت کا سال ہے تاکہ ساری سرگرمیوں میں اولیت دعوتی کاموں کو دی جائے۔ امیرجماعت نے کارکنوں سے متعین طور پر وقت دینے کی خصوصی اپیل کی ہے اور ہرسطح پر تمام جماعتیں اب اس کا اہتمام کریں گی کہ ایک متعین پروگرام کے تحت ہرکارکن سے وقت کا مطالبہ کریں اور جو جتنا وقت دینے کا وعدہ کرے اسے مناسب ترجیح کے ساتھ دعوتی سرگرمیوں میں شامل اور متحرک کیا جائے۔
دعوت کے ساتھ ساتھ تمام اچھے لوگوں کو جماعت میں سمونے اور شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جماعت میں وسعت پیدا کرنا ضروری ہے۔ ایک طرف اپنے اخلاقی اور نظریاتی معیار کی حفاظت کیجیے تو دوسری طرف فراخ قلبی اور کھلے بازوئوں کے ساتھ تمام اچھے انسانوں کو جماعت میں لانے کی کوشش کیجیے اور انھیں ان کے مقام کے مطابق جگہ دیجیے تاکہ وہ جماعت کا حصہ بن جائیں اور اس دعوت کی تقویت کا باعث ہوں۔ یہ کام اس انداز میں کیا جائے کہ ہرعلاقے کے بااثر افراد تک دعوت پہنچائی جائے اور انھیں جماعت کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی جائے۔
اللہ کا فضل ہے کہ جماعت اسلامی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسانی مساوات اور اہلیت کی بنیاد پر قیادت کے اصول پر قائم ہے۔ جماعت میں پہلے دن سے قانون اور ضابطے کی پابندی کی روایت ہے۔ قیادت نہ موروثی ہے، نہ خاندانی اور نہ وصیت کے ذریعے قیادت کی ٹوپی سر کی زینت بنائی جاتی ہے۔ دستور کے مطابق متعین وقت پر انتخابات ہوتے ہیں اور ہرسطح پر ہوتے ہیں۔ ہرشخص کے لیے ذمہ داری کے مقامات تک رسائی ممکن ہے بشرطیکہ اس میں وہ صلاحیت اور اہلیت موجود ہو جو دستور نے مقرر کی ہے۔ نہ کوئی سونے کا چمچہ منہ میں لے کر آتا ہے اور نہ کسی کے لیے دروازہ بند ہے۔ پھر جماعت کے اندر مشورے کا نظام رائج ہے، بلاشبہہ اطاعت امیر ہماری قوت کا ذریعہ ہے لیکن امیر کی طاقت کا انحصارمشاورت کے اس نظام پر ہے جو ہرسطح پر قائم کیا گیا ہے۔ جماعت میں نئے خون کی آمد کا سلسلہ الحمدللہ پہلے دن سے جاری ہے اور آج مرکزی شوریٰ میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اسلامی جمعیت طلبہ، جمعیت طلبہ عربیہ اور دوسری برادر تنظیموں میں سرگرم تھے۔ زندہ اور ترقی کرنے والی تحریکوں کا یہ خاصا ہے۔ ان میں بزرگوں کا احترام اور ان سے استفادے کے ساتھ نئے باصلاحیت افراد کی قدر اور ان کو ذمہ داریاں سونپنے کا اہتمام ہوتا ہے۔ البتہ خدا کا خوف، دین کا فہم، اعلیٰ کردار اور حسنِ کارکردگی وہ صفات ہیں جو ترقی کازینہ اور کامیابی کی ضمانت ہیں۔
جماعت کے اس اجتماع میں حسنِ انتظام کے ساتھ بڑی اہم چیز اجتماع کے پورے پروگرام کو انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچانے کی بڑی کامیاب کوشش تھی۔ جدید ٹکنالوجی کا استعمال ہمارے پیغام کے ابلاغ کے لیے ضروری ہے۔ الحمدللہ اس اجتماع میں اس کا بڑا کامیاب استعمال ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے اب ہر میدان میں نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق مناسب کام پر لگایا جائے اور جدید ٹکنالوجی کا استعمال صرف انٹرنیٹ پر اجتماع کے پروگرام تک محدود نہ ہو بلکہ جہاں بھی انتظامی، تربیتی، دعوتی کاموں کو خوب تر بنانے کے لیے جدید اسلوب اورجدید سہولتوں کا استعمال ممکن ہو، اس کا اہتمام کیا جائے۔ ملک کی آبادی کا نصف اب نوجوانوں پر مشتمل ہے جو تعلیم اور مہارت کے جدید تجربات سے روشناس ہیں۔ دعوت کی وسعت اور تنظیم کے استحکام دونوں کے لیے ان مردانِ کار اور جدید فنی اختراعات کا بھرپور استعمال وقت کی ضرورت ہے۔ وسعت اور صف بندی دونوں کے لیے ان شاء اللہ یہ مفید ہوں گے۔
اجتماع کے پیغام کا ایک اورپہلو، اور شاید سب سے اہم پہلو، نئی اُمید، نیا عزم اور حالات کو صحیح سمت میں تبدیل کرنے کا عزم اور داعیہ ہے۔ ہرفرد اس اجتماع سے ایک نیاجذبہ لے کر رخصت ہوا ہے۔ بڑے عرصے کے بعد اس وسیع پیمانے پر اُمید اور روشنی کے احساسات اور جذبات کا ہم سب نے تجربہ کیا ہے۔ یہ امر، تحریک اور ملک کے لیے بڑا نیک شگون ہے۔ جس ملک میں ہرطرف مایوسی اور اضطراب کی لہریں اُبھر رہی ہوں وہاں ایک ایسے اجتماع کا انعقاد جہاں لاکھوں افراد نے اجتماع کے ہرلمحے کا لطف لیا ہو اور اجتماع سے ایک نیا جذبہ اور ولولہ لے کر اپنے اپنے دائرہ کار میں شریکِ جدوجہد ہورہے ہیں، ایک بڑا ہی مبارک واقعہ ہے۔ اقبال کی روح جس ابراہیم کی تلاش میں بے چین اور بے قرار تھی آج تحریکِ اسلامی براہمیت کے اس جوہر کی امین ہے۔ جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام ایک عظیم فکری سفر کے بعد اپنے رب تک پہنچے، اسی طرح باطل افکار کے ایک جنگل سے گزر کر تحریک کے کارکن اسلام کی شاہ راہ تک پہنچے ہیں۔ جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جاہلیت کے ہر صنم پر ضرب لگائی، اسی طرح تحریکِ اسلامی اپنے دور کے ہرصنم سے نبردآزما ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وقت کے طاغوت کو چیلنج کیا اور طاقت کے مرکز کو نشانہ بنایا اسی طرح تحریکِ اسلامی آج ملک اور عالمی سطح پر طاغوت کے تمام مظاہر سے برسرِکش مکش ہے۔
یہ سب صحیح لیکن چیلنجوں کی اس مماثلت اور ردعمل کی مشابہت کے باوجود سنت ابراہیمی سے مطابقت کوئی آسان کام نہیں۔ البتہ شوق، جدوجہد، خلوص اور استعانت باللہ ہرمرحلے کو آسان بنا سکتے ہیں۔ شرط ایمان، توفیق اور کوشش ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ کی رحمت اور نصرت اور اپنے رب سے بہتری کی اُمید ؎
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا