دسمبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

بہار ہو کہ خزاں ، لا الٰہ الا اللہ

پروفیسر خورشید احمد | دسمبر ۲۰۰۸ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جماعت اسلامی کے کُل پاکستان اجتماعات کا اپنا ایک مزاج اور کردار ہے۔ جماعت کا ہراجتماع ابتدا ہی سے ملک و ملّت دونوں کے لیے ایک مخصوص پیغام دینے اور ہدایاتِ کار فراہم کرنے کی روشن روایت رکھتا ہے لیکن ۲۴ تا ۲۶ اکتوبر ۲۰۰۸ء کو مینارِ پاکستان کے زیرسایہ اقبال پارک لاہور میں منعقد ہونے والے اجتماع کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان اور ملّتِ اسلامیہ کی تاریخ کے بڑے نازک اور فیصلہ کن مرحلے پر اس اجتماع نے پاکستان اور عالمی اسلامی تحریکوں کے لیے مستقبل کی جس روشن راہ کی نشان دہی کی ہے وہ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے گوشے گوشے سے جمع ہونے والے لاکھوں تحریکی کارکنوں، دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کی قیادت، کینیڈا اور امریکا سے لے کر جاپان اور ملایشیا تک سے شریک ہونے والے مندوبین نے کامل یکسوئی کے ساتھ اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل و حالات کا جس دقتِ نظر سے تجزیہ کیا اور عمومی مایوسی کے ماحول میں اعتماد اور فراست کے ساتھ مستقبل کے لیے جس طرح ایک روشن شاہ راہ کی نشان دہی کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ خوف، بدامنی اور عدم تحفظ کی ملک گیر فضا میں لاکھوں افراد کے اس شہر میں تین روز تک علمی اور دعوتی اجتماع کی شکل میں جس سکون، اطمینان اور عزم و استقلال کا نمونہ پیش کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

اس اجتماع کے پس منظر اور اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے دو امور کا ادراک ضروری ہے:

  • عالمی پس منظر: ویسے تو اسلام اور مسلمان ایک مدت سے مغرب کی استعماری طاقتوں اور الحاد، لادینیت، اباحت پرستی اور مادرپدر آزادی کے علَم برداروں کی مخالفت، تضحیک اور تنقید کا نشانہ رہے ہیں لیکن اس مخالفت میں ۱۹۷۳ء کی جنگ رمضان اور شاہ فیصل شہید کی تحریک پر عربوں کے تیل کے ہتھیار کے استعمال کے بعد بڑی تیزی اور تلخی آگئی جو ۱۹۷۹ء کے ایران کے اسلامی انقلاب، ۹۰-۱۹۸۹ء میں افغانستان سے روسی افواج کی واپسی، فلسطین میں حماس کے انتفاضہ، لبنان میں حزب اللہ کی مسلسل کامیابیوں، الجزائر میں اسلامک فرنٹ کی انتخابی کامیابی اور دوسرے مسلم ممالک میں اسلامی تحریکات کے اجتماعی اثرورسوخ کے بڑھنے سے تیز تر کردی گئی۔ مسلم دنیا کو بانٹنے اور اس کے سیاسی نقشے کو تبدیل کرنے کے لیے منصوبوں پر تیزی سے عمل شروع ہوگیا۔ عراق سے ایران پر حملہ کرایا گیا۔ پھر پہلی جنگ ِ خلیج کا خونی ڈراما رچایا گیا اور بالآخر نائن الیون کے ڈرامائی حادثے کے بہانے افغانستان پر فوج کشی، پھر عراق پر حملہ اور پوری دنیا میں ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور اس دنیا میں جہاں ایک بلین سے زیادہ افراد غربت، بھوک، افلاس، جہالت اور بیماری کی گرفت میں ہیں، کھربوں ڈالر خرچ کرکے بش کے الفاظ میں: ’خدا کے بلاواسطہ احکام کے تحت‘ پوری دنیا کو ایک صلیبی جنگ (crusade) میں جھونک دیا ہے۔ اس سلسلے کا تازہ شاہ کار وہ نام ہے جو افغانستان کی حالیہ فوجی کارروائی کو دیا گیا ہے یعنی Lion-heart جس کا شجرئہ نسب صلیبی جنگ کے ایک خونی کردار رچرڈ دی لائن ہارٹ سے ملتا ہے۔ اب اسے نادانی کہیے یا ذہنی غلامی، کہ پاکستان نے اپنی حالیہ مذموم فوج کشی کا نام ’شیردل‘ رکھا ہے۔

افغانستان میں یہ جنگ ہزاروں افراد کی جانیں لے چکی ہے، لاکھوں زخمی اور بے گھر ہیں اور جنگ کی آگ اب پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بڑھ کر آباد علاقوں (settled areas) کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ۱۵ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، ہزاروں زخمی ہیں اور بے گھر افراد کی تعداد ۸لاکھ سے متجاوز ہے۔۱؎ عراق میں تباہی سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر ہے۔ وہاں ہلاک ہونے والوں کی تعداد محتاط اندازوں کے مطابق ۶ لاکھ سے متجاوز ہے اور ملک کا چپہ چپہ معصوموں کے خون سے رنگین ہے اور تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ساری دنیا بے چینی اور عدم تحفظ کی گرفت میں ہے اور اسرائیل اور بھارت کو چھوڑ کر دنیا کے ہر ملک میں امریکا سے بے زاری اور نفرت کی لہریں اُٹھ رہی ہیں اور آبادی کی عظیم اکثریت (۶۰ سے ۹۰ فی صد تک) امریکی پالیسیوں سے اپنے اختلاف کا برملا اظہار کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود امریکی قیادت، میڈیا اور اہلِ قلم کی ایک بڑی تعداد اسلام اور مسلمانوں کو ہدف بنائے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی خاص عنایت  اسلامی تحریکات پر ہے جن کا اصل ’جرم‘ یہ ہے کہ وہ اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات سمجھتی ہیں اور  اپنی اجتماعی زندگی کی اسلام کی تعلیمات اور قوانین کی روشنی میں تشکیلِ نو کرنا چاہتی ہیں۔ اسے   پہلے Radical Islam (انقلابی اسلام) اور Fundamentalism (بنیاد پرستی) کا نام دیا گیا اور اب اسے Islamic Terrorism (اسلامی دہشت گردی) اور Islamo-fascism (اسلامی فاشزم) کا منبع قرار دیا جارہا ہے۔

اس پس منظر میں ۴۰ مسلم ممالک کے اسلامی قائدین کی جماعت کے اجتماع میں شرکت اور اسلام کے عالمی پیغام اور اُمت کی وحدت کی ضرورت پر مکمل یک جہتی کا اظہار روشنی کے سفر کی ایک تابناک علامت ہے۔

  • ملکی صورت حال : وطنِ عزیز کے حالات سیاسی، معاشی، ثقافتی، اخلاقی اور اجتماعی ہر اعتبار سے بحرانی کیفیت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پرویز مشرف کی ساڑھے آٹھ سالہ آمرانہ حکمرانی، نائن الیون کے بعد قومی زندگی کے ہر شعبے میں امریکی مداخلت میں اضافہ اور ’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کی شرکت کے نتیجے میں فوج اور قوم میں جو کش مکش اور دُوری رونما ہوئی ہے اور جس طرح فاٹا، سوات، باجوڑ اور دوسرے علاقوں میں خانہ جنگی کے شعلے بھڑک اُٹھے ہیں، اس نے ملک کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور سارے ہی ادارے مضمحل ہوکر  رہ گئے ہیں۔ معاشی ترقی کے بلندبانگ دعووں کا غبارہ جلد ہی پھٹ گیا اور گذشتہ دو سال میں خاص طور پر مہنگائی، توانائی کی قلت، تیل کی قیمت میں ہوش رُبا اضافہ، بے روزگاری، زرعی اور صنعتی کساد بازاری، اشیاے ضرورت کی قلت، تجارت اور ادایگیوں کے توازن میں شدید خسارے اور حکومت کے مصارف میں بے محابا اضافوں کے نتیجے میں بجٹ کے خسارے نے پوری معیشت کی چولیں ہلادی ہیں۔ پھر مارچ ۲۰۰۷ء میں مشرف کا عدالتِ عالیہ پر شب خون اور ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو پوری عدلیہ کو تہ و بالا کرنے، دستور کو مسخ کرنے اور میڈیا کی آزادی پر کاری ضرب لگانے سے حالات کا بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اس پر مستزاد امریکا اور برطانیہ کے توسط سے قومی مفاہمت (reconciliation) کے نام پر پیپلزپارٹی اور مشرف کے درمیان نئی سودے بازی جس کے نتیجے میں ۶۰۰ ارب روپے کی بدعنوانی (corruption) کے معاملات کو دفن کر کے اور محترمہ بے نظیر صاحبہ کو میدان سے ہٹاکر ایک نیا سیاسی انتظام کیا گیا ہے جس کا اصل مقصد تو مشرف صاحب کے اقتدار کو مزید مہلت دینا تھا مگر بالآخر وہ زرداری صاحب کے اقتدار پر متمکن ہونے پر منتج ہوا۔

سیاسی تبدیلی کا یہ عمل ایک عظیم تحریکِ مزاحمت سے شروع ہوا تھا جس کی قیادت ملک کی وکلا برادری کر رہی تھی اور جس کی علامت چیف جسٹس افتخار چودھری تھے۔ اس تحریک میں پوری سول سوسائٹی اور اہم سیاسی کارکن اور جماعتیں شریک ہوئیں اور ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں عوام نے مشرف اور اس کی پالیسیوں کے خلاف اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور کسی ایک پارٹی کو اکثریت نہ دے کر یہ پیغام بھی صاف لفظوں میں دے دیا کہ سب سیاسی قوتوں کو، خصوصیت سے  پی پی پی اور نواز مسلم لیگ کو مل کر، قومی مفاہمت کے ذریعے پرویزی دور کی زیادتیوں اور انحرافات (deviations ) کی اصلاح کر کے دستور کی اس شکل میں جو ۱۹۹۹ء میں تھی بحالی، عدلیہ کی حقیقی آزادی اور غیرقانونی طور پر معزول کیے جانے والے ججوں کی باعزت بحالی، نیز قومی آزادی، خودمختاری اور عزت کی قیمت پر امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت کی پالیسی کی تبدیلی اور خارجہ پالیسی کی اس قلبِ ماہیت کی تصحیح کا مینڈیٹ دیا جو امریکا، بھارت اور اسرائیل کے دیے ہوئے ایجنڈے کے تحت پرویز مشرف نے آمرانہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کی تھی۔ معاشی پالیسی کے دروبست کی تبدیلی بھی عوام کے مینڈیٹ کا حصہ تھی کہ پرویزی دور کی پالیسیوں کے نتیجے میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہے تھے اور ملک کو نمایشی ترقی کے سراب کے نشے سے مسحور کیا جا رہا تھا، جب کہ فی الحقیقت زرعی اور صنعتی شعبوں میں حقیقی پیداواری ترقی مفقود تھی اور ملک بجٹ، تجارت اور توازن ادایگی کے خساروں سے دوچار، اور ملکی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا تھا۔

قوم کو نئی مخلوط حکومت سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ زرداری صاحب نے ایک طرف ساری توجہ اپنے ذاتی اقتدار کو مستحکم کرنے پر دی تو دوسری طرف ایک ایک کر کے ان تمام وعدوں کی خلاف ورزی کی راہ اختیار کی جو میثاقِ جمہوریت، جولائی ۲۰۰۷ء کے اعلانِ لندن، اور فروری مارچ ۲۰۰۸ء کے اعلانِ بھوربن اور اعلانِ دوبئی میں کیے گئے تھے۔ اس کا پہلا نتیجہ مسلم لیگ نواز کی حکومت سے علیحدگی اور اس کے بعد زندگی کے ہر شعبے میں عملاً پرویز مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل اور بالآخر معیشت کے میدان میں آئی ایم ایف کے جال میں دوبارہ گرفتاری، بھارت کے مقابلے میں مسلسل پسپائی، کشمیر کے مسئلے پر پریشان کن ژولیدہ بیانی، اور امریکا کے پنجے میں اس حد تک گرفتاری کہ ۳ستمبر کو امریکی افواج نے پاکستان کی سرزمین پر زمینی حملہ بھی کردیا اور مارچ ۲۰۰۸ء میں موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے ۴۰ سے زیادہ فضائی حملے پاکستان کی سرزمین پر ہوچکے ہیں جن میں ۴۰۰ سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔

اس سب کچھ پر مستزاد امریکا اور یورپ کی مجالس دانش (think tanks)کی وہ فکری اور نفسیاتی جنگ ہے جو روز افزوں ہے۔ ان تمام جائزوں اور رپورٹوں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان ایک ناکام ہوتی ہوئی (failing ) ریاست ہے، ’دہشت گردی‘ کا اصل مرکز پاکستان کے علاقوں میں ہے، پاکستان کے لیے اپنے جغرافیائی وجود کو باقی رکھنا ممکن نہیں رہا ہے اور پاکستان خدانخواستہ اگلے ۱۰،۱۵ سال میں صفحۂ ہستی سے معدوم ہوجائے گا یا اس کے ایسے حصے بخرے ہوجائیں گے کہ وہ سیاسی بساط پر ایک اہم کردار ادا کرنے کے لائق نہیں رہے گا۔ یوں نہ صرف پاکستان کی معیشت کو استعماری شکنجوں میں کسا جا رہا ہے بلکہ ملک کے مستقبل ہی کو مخدوش اور مشکوک بناکر پیش کیا جارہا ہے۔

موجودہ حکومت کے ۹ مہینوں پر پھیلے ہوئے دورِ اقتدار میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے اور امن و امان کی زبوں حالی کے ساتھ معاشی افراتفری، معاشرتی اضمحلال، سیاسی انتشار اور داخلی عدم استحکام میں پریشان کن حد تک اضافہ ہوا ہے اس کے ساتھ نظریاتی خلفشار اور ثقافتی اور تہذیبی بگاڑ بھی بلوہ عموم کی سی کیفیت اختیار کر رہے ہیں۔ فکری اور اخلاقی ہردو اعتبار سے حالات مخدوش تر ہوتے جا رہے ہیں اور نوجوانوں میں بے راہ روی اور قوم میں ہرسطح پر ڈسپلن کی کمی ایک وبا کی صورت اختیار کر رہے ہیں۔

ان حالات میں قوم کو جھنجھوڑنے اور وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے بیدار، متحرک اور منظم کرنے کی ضرورت تھی۔ اس پس منظر میں جماعت اسلامی نے مینارِ پاکستان پر    یہ ولولہ انگیز اعلان کے ساتھ کیا  ؎

صنم کدہ ہے جہاں ، لا الٰہ الا اللہ

اور :  ع

مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ

اجتماع کے کامیاب انعقاد کے اس پہلو کو سب نے محسوس کیا اور سراہا کہ مایوسی کی فضا میں جماعت کا لاکھوں افراد پر مشتمل یہ اجتماع روشنی کی ایک تازہ کرن ہے۔ اس طرح اس پہلو پر بھی ہرحلقے نے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا ہے کہ ملک پر خوف اور عدمِ تحفظ کے جو بادل چھائے ہوئے تھے اور جن کی وجہ سے سرکاری حکام ہی نہیں بہت سے دانش ور بھی احتیاط کا مشورہ دے رہے تھے اور لاہور کے قلب میں اتنے بڑے اجتماع کے بارے میں طرح طرح کے خدشات کا اظہار کر رہے تھے، الحمدللہ وہ سب پادَرِ ہوا ثابت ہوئے اور جماعت کے شان دار روایتی نظم و نسق کے ساتھ یہ  سہ روزہ اجتماع بڑی خوش اسلوبی سے انجام پذیر ہوا اور قوم میں اُمید اور اعتماد کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔

یہ دونوں پہلو اپنی جگہ اہم ہیں اور ہم ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں لیکن ہماری نگاہ میں اس اجتماع کی اصل اہمیت ان سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا تعلق اس پیغام سے ہے جو اس اجتماع نے پوری قوم کو دیا ہے اور مستقبل کے لیے ملک اور عالمی سطح پر نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی جدوجہد کے جو خدوخال اس میں پیش کیے گئے ہیں، وہ وقت کی ضرورت اور مستقبل کی تعمیر کے لیے راہِ عمل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان پہلوئوں پر سب کو غوروفکر کی دعوت دیں۔

نصب العین کی تذکیر

جماعت اسلامی کے اس اجتماع کا اولین مقصد تذکیر تھا تاکہ جماعت کے کارکنوں اور معاونین کے سامنے خاص طور پر، اور پوری قوم اور اُمت مسلمہ کے سامنے بالعموم، ایک بار پھر وہ مقصد آسکے جس کے لیے تحریکِ اسلامی پاکستان میں، اور دیگر اسلامی تحریکیں دنیا کے گوشے گوشے میں اپنے اپنے حالات کے مطابق اپنے انداز میں جدوجہد کر رہی ہیں۔

تحریکِ اسلامی کی نگاہ میں زندگی کے تمام مسائل کا حل اللہ کی ہدایت کو قبول کرنے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل وفاداری کے ساتھ اطاعت، اور آخرت کی زندگی میں کامیابی کے حصول کے لیے دنیا میں قرآن وسنت کے مطابق عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے میں ہے۔ سارے مسائل کے حل کی کلید اخلاق کی اصلاح اور پوری زندگی کو خیروشر اور حلال اور حرام کے اس ضابطے کے مطابق گزارنے میں ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پوری انسانیت کو دیا ہے اور اُمت ِمسلمہ جس کی امین ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سردارانِ عرب کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: ایک کلمہ لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کو اختیار کرلو تو عرب و عجم پر تمھارا جھنڈا لہرائے گا۔ یہی وہ پیغام ہے جسے اقبال نے اپنی اس خوب صورت غزل میں پیش کیا ہے جو ۲۰۰۸ء کے اجتماع کی علامت تھی :

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

صنم کدہ ہے جہاں ، لا الٰہ الا اللہ

یہ نغمہ فصلِ گُل و لالہ کا نہیں پابند

بہار ہو کہ خزاں ، لا الٰہ الا اللہ

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ

جماعت اسلامی کا دستور اس تحریک کے عقیدے کا ان الفاظ میں اظہار کرتا ہے:

جماعت اسلامی پاکستان کابنیادی عقیدہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہوگا،یعنی یہ کہ صرف اللہ ہی ایک الٰہ ہے اور اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ (دفعہ ۳)

اس عقیدے کو دل کی گہرائیوں اور عقل کی سپردگیوں کے ساتھ قبول کرنے کے معنی یہ ہیں:

  •   انسان اللہ کے سوا کسی کو ولی و کارساز، حاجت روا اور مشکل کشا، فریاد رس اور حامی و ناصر نہ سمجھے۔
  •  اللہ کے سوا کسی کو نفع و نقصان پہنچانے والا نہ سمجھے۔
  •  اللہ کے سوا کسی کے آگے سر نہ جھکائے۔
  • اللہ کے سوا کسی کو بادشاہ، مالک الملک، مقتدراعلیٰ تسلیم نہ کرے اور صرف اللہ کے حکم کی اطاعت اور اس کے دیے ہوئے قانون کی پابندی کرے۔
  •  اپنے آپ کو اللہ کے سامنے ذمہ دار اور جواب دہ سمجھے اور اپنی قوتوں کے استعمال اور اپنے برتائو میں ہمیشہ اس حقیقت کو ملحوظ رکھے کہ اسے قیامت کے روز اللہ کو ان سب چیزوں کا حساب دینا ہے۔
  •  اپنی پسند کا معیار اللہ کی پسند کو، اپنی ناپسندیدگی کا معیار اللہ کی ناپسندیدگی کوبنائے۔
  • اللہ کی رضا اور اس کے قرب کو تمام سعی و جہد کا مقصود اور اپنی پوری زندگی کا محور بنائے۔
  • اپنے لیے اخلاق میں، برتائو میں، معاشرت، تمدن اور سیاست میں، غرض زندگی کے ہر معاملے میں صرف اللہ کی ہدایت کو ہدایت تسلیم کرے اور ہر اس طریقے اور ضابطے کو رد کردے جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہو۔
  •  قرآن و سنت ہی مسلمان کے لیے صحیح ضابطۂ حیات ہیں اور مسلمان وہ ہے جو ہر اس تعلیم اور ہدایت کو بے چون و چرا قبول کرے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔

اس کلمے کے ماننے والے ایک امت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو استخلاف کی جو     ذمہ داری اور سعادت سونپی ہے وہ اس کے امین ہیں۔ استخلاف کا تقاضا زمین پر اپنے مالک کی مرضی کو پورا کرنا اور زندگی کے پورے نظام کو رب السَّمٰوٰت والارض کی ہدایت کے مطابق مرتب و منظم کرنا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے تحریکِ اسلامی اپنا نصب العین قرار دیتی ہے، جو دراصل اُمت مسلمہ اور پوری انسانیت کا حقیقی نصب العین ہے یعنی اقامت ِ دین۔

جماعت کا دستور کہتا ہے کہ:

جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصد عملاً اقامتِ دین (حکومتِ الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضاے الٰہی اور فلاحِ اخروی کا حصول ہوگا۔ (دفعہ ۴)

جو چیز جماعت اسلامی کی منفرد حیثیت کو نمایاں کرتی ہے وہ اس کا یہی نظریاتی ، اخلاقی، تہذیبی اور انقلابی کردار ہے۔ یہ جماعت کسی وقتی ضرورت اور محدود سیاسی ہدف کے حصول کے لیے قائم  نہیں ہوئی بلکہ انسان کی پوری زندگی کو اسلام کے انقلابی پیغامِ ہدایت کے مطابق ڈھالنے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے پورے نظام کو اللہ کی شریعت کی روشنی میں مرتب و منظم کرنے کے لیے قائم ہوئی ہے۔

جماعت کے دستور میں اس نصب العین کی تشریح یوں کی گئی ہے:

اقامت دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیرضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیہ و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہلِ ایمان کو  مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔

اگرچہ مومن کا اصل مقصدِ زندگی رضاے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کوقائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت ِ دین اور حقیقی نصب العین وہ رضاے الٰہی ہے جو اقامت ِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔ (ص ۱۴-۱۵)

جماعت اسلامی سیاسی نظام کی اصلاح اور اسلامی بنیادوں پر انقلابِ قیادت کی داعی ہے اور اس پہلو سے وہ ایک سیاسی جماعت ہے جو زمامِ کار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں سونپنا چاہتی ہے جو  اللہ کے وفادار اور شریعت ِ اسلامی کے نفاذ کے داعی ہوں اور جن کا اپنا کردار سیاسی تبدیلی کے اس پروگرام سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس معنی میں وہ ایک سیاسی جماعت ہے لیکن جماعت اسلامی محض ایک سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر نظریاتی تحریک بھی ہے جو سیاست سمیت زندگی کے تمام نظام کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق منظم اور مرتب کرنا چاہتی ہے۔ اس کے پروگرام کے چار عناصر ِترکیبی ہیں جو مساوی طور پر اہم ہیں اور ایک دوسرے سے مربوط اور ناقابلِ تقسیم ہیں۔

  • فکر کا تزکیہ : ایمان کا احیا اور فکری اور نظری اعتبار سے اسلام کی صحیح اور مکمل تفہیم تاکہ عقیدہ، فکر، تصورِ کائنات اور دین کی روشنی میں ضابطۂ حیات کا صحیح شعور دل و دماغ کے اطمینان کے ساتھ زندگی کا رہنما بن سکے۔ اس کے لیے قرآن و سنت سے ربط و تعلق اور ان کی تعلیمات کے مکمل ادراک کے ساتھ اپنے زمانے کے ان تصورات اور نظریات کا علم اور نقد و احتساب بھی شامل ہے جو اسلام کے تصورِ دین و تہذیب سے متصادم ہوں اور اپنے دور کے حالات کی روشنی میں فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید اور حقیقی اصل مآخذ سے مکمل وفاداری اور اُمت مسلمہ کی معروف روایات کے احترام کے ساتھ مسلّمہ اصولِ فقہ کی روشنی میں اجتہاد کے ذریعے کی جائے۔
  • منظم جدوجھد : اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں فرد اور معاشرے کی اخلاقی تربیت اور تزکیہ، تاکہ اسلام کا انسان مطلوب وجود میں آسکے، اور فرد اور معاشرہ اخلاقی محرکات کی قوت سے نئی زندگی کی تعمیر کا کام انجام دے سکے۔ کردار سازی اور اخلاقی تعمیر کے ساتھ ایسے تمام مردوں اور عورتوں کو منظم اصلاحی جدوجہد سے منسلک کرنا بھی اس پروگرام کا ایک مرکزی نکتہ ہے تاکہ زندگی کی تشکیلِ نو کا کام انفرادی مساعی کے ساتھ اجتماعی اور منظم جدوجہد کے ذریعے انجام پاسکے۔
  • اصلاحِ معاشرہ : تیسرا نکتہ اصلاحِ معاشرہ ہے جس کے تحت تعلیم، تبلیغ، اصلاحِ رسوم، مسجد اور مدرسے کا فروغ، خاندانی نظام کا استحکام اور مسلم معاشرے کی اجتماعی زندگی اور اداروں کو اسلامی اقدار، اصولوں اور احکام کے مطابق مرتب کرنا ہے۔ نیز پورا معاشرہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے احترام و انصرام کے ساتھ امداد باہمی کی بنیاد پر خدمت، اجتماعی تکافل اور معاشرتی انصاف کا نمونہ بنے۔
  • انقلاب قیادت : احیاے ایمان اور فکری تشکیلِ نو، تزکیۂ نفس اور فرد اور معاشرے کی اخلاقی تعمیر، معاشرے کی اصلاح اور سماجی اور تمدنی اداروں کی اسلامی اقدار کی بنیادوں پر تعمیروتشکیل کے ساتھ اقامت دین کی منزل اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک سیاست کی اصلاح انجام نہ پائے اور ملک کا نظامِ حکومت و عدالت، ملکی قانون اور اقتدار کے تمام مراکز کو بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت کا پابند اور ان مقاصد کے حصول کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ جماعت یہ تبدیلی اذہان اور اخلاق کی اصلاح کے ساتھ ساتھ عوامی راے عامہ کی تسخیر کرکے انقلابِ قیادت کے ذریعے لانا چاہتی ہے۔ جماعت اسلامی ووٹ کی قوت سے سیاسی تبدیلی لانے کی داعی ہے اور سیاست میں غیرآئینی اور غیراخلاقی ذرائع کے استعمال کی مخالف ہے۔ اس طریق کار کو دستور جماعت بہت صاف الفاظ میں اس طرح بیان کرتا ہے:

دفعہ ۵: جماعت کا مستقل طریقِکار یہ ہوگا کہ:

۱-  وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ خدا اور رسولؐ کی ہدایت کیا ہے۔ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اُس حد تک پیشِ نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اس کی گنجایش ہوگی۔

۲- اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے        فساد فی الارض رونما ہو۔

۳-  جماعت اپنے پیشِ نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی یعنی یہ کہ تبلیغ و تلقین اور اشاعت ِ افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عامہ کو اُن تغیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیشِ نظر ہیں۔

۴- جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔

جماعت اسلامی کی انفرادیت اس کے مندرجہ بالا نظریاتی، اخلاقی، تہذیبی اور انقلابی خصوصیات کی رہینِ منت ہے۔ بلاشبہہ اس کی تنظیمی سرگرمیوں کا محور پاکستان ہے لیکن اس کی نظریاتی دعوت پوری انسانیت کے لیے ہے اور وہ ان عالمی اصلاحی تحریکوں کا حصہ ہے جو اپنے اپنے دستور، اپنی اپنی تنظیم اور اپنی اپنی قیادت کے تحت چل رہی ہیں اور عالمی سطح پر ایک نظریاتی اور  تہذیبی رَو کا حصہ اور رنگ رنگ کے پھولوں کا ایک حسین گلدستہ ہیں۔

اکتوبر ۲۰۰۸ء کا اجتماع جماعت کے کارکنوں کی تذکیر ہی کا نہیں بلکہ پوری قوم اور عالمی برادری کے سامنے اپنے اس ہمہ گیر اور منفرد کردار کو اُجاگر کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔

  • منزل بہ منزل : جماعت اسلامی نے اپنے اس انقلابی سفر کا آغاز اگست ۱۹۴۱ء میں کیا تھا جب دین ِحق کے ۷۵ متوالوں نے لاہور میں جمع ہوکر اپنے آقا سے ایک نیا عہد کیا تھا کہ وہ دین کی مکمل اقامت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریںگے اور منظم انداز میں ایک عالمی انقلاب کی طرف پہلا قدم اٹھائیں گے۔ جماعت کے قیام سے بھی ۹سال پہلے اللہ کے ایک مخلص بندے نے ترجمان القرآن کے ذریعے قرآن کے پیغامِ انقلاب کو مسلمانوں تک خاص طور پر اور تمام انسانوں تک بالعموم پہنچانے کے لیے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تھا اور ۹ سال کی شب و روز کی کوشش سے فکرِاسلامی کی تشریح و توضیح اور دعوتِ اسلامی کو اس کی اس شکل میں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور کے حالات کے پیشِ نظر دی، دلیل اور دیانت سے پیش کی۔ یہی وہ دعوت تھی جس نے برعظیم کے باشعور نفوس کی قلبِ ماہیت کی اور بالآخر اس انقلابی آواز پر لبیک کہنے والوں نے جماعت اسلامی قائم کی۔ برعظیم کی تقسیم کے بعد تحریک کا نیا مرکز پاکستان بنا، جب کہ بھارت،   سری لنکا، مقبوضہ کشمیر اور ۱۹۷۱ء کے سانحہ کے بعد بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اسی مقصد کے لیے مگر اپنے اپنے حالات کے مطابق اپنے اپنے دستور اور نظم جماعت اور قیادت کے تحت کام کر رہی ہے۔

اللہ کے فضل وکرم سے پاکستان میں جماعت اسلامی ایک اہم نظریاتی، سیاسی، تعلیمی اور سماجی قوت ہے۔ اجتماع اکتوبر میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق اس وقت جماعت کے تقریباً ۲۳ہزار ارکان اور رکنیت کے ۱۷ ہزار امیدوار ہیں (خواتین ارکان کی تعداد ۲۳۹۹ اور رکنیت کی امیدوار خواتین ۱۴۳۷ ہیں)۔ ملک بھر میں جماعت کے کارکنوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ اور اس کے عام ممبروں کی تعداد ۵۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ تنظیمی اعتبار سے مرکز، صوبوں اور اضلاع کی سطح پر جماعت کی کارروائیاں جاری و ساری ہیں اور ۴ہزار سے زائد یونین کونسلوں میں تنظیم قائم ہے۔ ملک میں درسِ قرآن کے ۸ہزار حلقے اور تعلیم القرآن کے ۳۳۱۷ مراکز کام کر رہے ہیں۔ فہم دین کے پروگرام کے تحت تقریباً ۹۰۰ پروگرام ایک سال میں منعقد ہو رہے ہیں جو دس روزہ اور سہ روزہ قرآن فہمی کے اجتماعات سے عبارت ہیں اور ایک ایک پروگرام میں کئی کئی ہزار افراد باقاعدگی سے شرکت کر کے قرآن کے پیغام کو سمجھنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ خواتین کے حلقے میں     فہم قرآن کے ۱۳۶ ادارے قائم ہیںاور درسِ قرآن کا سلسلہ ۴۲۱۱ حلقوں میں انجام دیا جا رہا ہے۔ دعوتی کیمپ سالِ گذشتہ میں ۲۸۳۰ لگائے گئے اور کُل دعوتی وفود کی تعداد ۶۰ ہزار کے قریب رہی۔ جماعت کے نظم کے تحت اس وقت ملک میں چھوٹی بڑی ۷۵۵۸ لائبریریاں کام کر رہی ہیں۔

جماعت کی برادر تنظیموں کا کام اس کے علاوہ ہے جو زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنے اپنے دائرۂ کار میں سرگرمِ عمل ہیں اور الحمدللہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں جماعت اور اس کے کارکن متحرک نہ ہوں۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔

ہم نے یہ مختصر جائزہ تحدیث ِ نعمت کے احساسات کے ساتھ پیش کیا ہے اور مقصد اس امر کا اظہار بھی ہے کہ دعوت، تربیت، اصلاحِ معاشرہ، خدمتِ عوام، تعلیم اور سیاسی تبدیلی کا وہ پروگرام جس پر جماعت اسلامی کام کر رہی ہے ایک ہمہ جہتی پروگرام ہے۔ اس کے کام کا تعلق محض سیاسی موسم سے نہیں، یہ جماعت ایک تحریک کا مرکز و محور ہے اور اس کی دعوتی اور اصلاحی سرگرمیاں سال کے بارہ مہینے اور ہرمہینے کے تیس دن جاری ہیں  ع

بہار ہو کہ خزاں ، لا الٰہ الا اللہ

درپیش چیلنج اور تحریک اسلامی

اجتماع کا ایک اور مقصد جماعت کے پیغام کو جماعت کے اپنے کارکنوں کے سامنے، ان میں مکمل یکسوئی پیدا کرنے کے لیے، پوری قوم کے سامنے، ملک کو درپیش ایشوز پر اپنے موقف کو بیان کرنے کے لیے، اور پوری دنیا خصوصیت سے عالمی قوتوں کے سامنے، انھیں یہ موقع فراہم کرنے کے لیے تھا کہ وہ تحریکِ اسلامی کو اس کے اپنے الفاظ اور بیان کے مطابق سمجھنے کی کوشش کریں اور اُسے ویسے تعصب اور عناد کی عینک سے نہ دیکھیں، جس طرح میڈیا کے بعض عناصر حقیقت کو مسخ کرکے پیش کر رہے ہیں۔

عالمی سطح پر اس اجتماع کے ذریعے جماعت اسلامی نے امریکا اور مغربی دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ان خانوں میں رکھ کر نہ دیکھیں جو ان کے تنگ نظر سیاسی اور فکری قائدین نے وضع کیے ہیں۔ اسلام ایک عالم گیر پیغام کا علَم بردار ہے لیکن یہ پیغام کوئی نیا پیغام نہیں بلکہ وہی پیغام ہے جو خالقِ کائنات نے اپنے تمام انبیا کے ذریعے انسان کی ہدایت کے لیے بھیجا اور جس کی آخری اور مکمل شکل وہ ہے جو نبی آخرالزماں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی شکل میں نازل ہوئی اور جس کی عملی تعبیرو تشکیل پیغمبرؐاسلام کی سنت اور زندہ روایت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ پیغام اللہ کی بندگی کا، اللہ کے تمام بندوں کی اخلاقی ترقی اور تزکیے کا، تمام انسانوں کے درمیان انصاف کے قیام اور حقوق العباد کی ادایگی کے ذریعے ہرسطح پر انسانی زندگی کو امن اور عدل اور بھائی چارے کا گہوارہ بنانے کا ہے۔ یہ جنگ، خون ریزی اور دہشت گردی کا پیغام نہیں۔ بلکہ یہ تو  انسان کی پوری زندگی کو اخلاقی اصولوں اور اقدار کی روشنی سے منور کرنا چاہتا ہے اور زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ یہ پیغام ابدی ہے مگر اس میں بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کا لحاظ رکھنے کی پوری پوری گنجایش موجود ہے۔ اس پیغام کو اس کی اصل شکل میں پرکھنے کا سب کو پورا پورا حق ہے لیکن یہ رویہ مبنی برحق و انصاف نہیں کہ اس دین کی تعلیمات کو مسخ کیا جائے اور سیاق و سباق سے علیحدہ (out of content ) چیزوںکو لے کر اسلام کو تنقید وتنقیص کا ہدف بنایا جائے یا کچھ خاص افراد کے سیاسی اقدامات کو ان کے سیاسی پس منظر سے کاٹ کر اسلام کے سر تھوپ دیا جائے اور دنیا کو ایک نظریاتی تصادم اور جنگ و جدال میں جھونک دیا جائے۔ اُمت مسلمہ امن و انصاف کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہے اور دوسروں کے ساتھ بھی عزت اور انصاف سے معاملہ کرنے کی خواہش مند ہے لیکن اگر اس پر محض قوت کے بل پر کچھ نظریات مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی اور محض طاقت کے ذریعے اُمت کے وسائل پر قبضہ کرنے اور اس کی ریاستوں کو اپنا تابع مہمل بنانے کی سعی کی جائے گی تو یہ تصادم کا راستہ ہے اور اسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔

آج اُمت مسلمہ امریکی، صہیونی، یورپی اور بھارتی استعمار کا نشانہ ہے۔ اگر ظلم اور سامراجی تسلط کے خلاف اُمت کے کچھ حصے یا عناصر صف آرا ہیں تو ان مسائل کا بے لاگ انصاف کے ساتھ حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سیاسی مسائل کا حل قوت کے استعمال سے نہیں بلکہ حق و انصاف کے مسلّمہ اصولوں کی روشنی میں تلاش کرنا چاہیے۔ اگر یہ راستہ اختیار کیا جائے تو سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ خرابی کی جڑ استعماری ذہنیت اور قوت کے ذریعے مبنی برحق تحریکوں اور مزاحمتوں کو ختم کرنے کی ظالمانہ پالیسیاں ہیں۔ نیز طاقت ور ممالک کا یہ ادّعا ہے کہ ان کو دوسروں کے وسائل پر قبضے کا حق ہے اور محض اپنی خواہشات بلکہ ہوس (greed) کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کے منہ سے ان کا نوالہ چھین لینا بھی ان کا حق ہے۔ اگر طاقت ور اپنے مفاد کی خاطر دوسروں پر ایسی دست درازیاں کریں گے تو دوسرے بھی کمزور ہونے کے باوجود مزاحمت اور اپنے مفادات کے تحفظ کا راستہ نکالنے پر مجبور ہوں گے۔

’دہشت گردی‘ کے خلاف امریکا کی برپا کردہ یہ جنگ ہر میدان میں ناکام رہی ہے۔ عراق ہو یا افغانستان، پاکستان ہو یا کوئی اور علاقہ___ نہ صرف یہ کہ یہ جنگ ناکام رہی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں امریکا کے خلاف نفرت کے جذبات کا طوفان اُمنڈ آیا ہے اور آج امریکا دنیا میں جتنا بدنام ہے اور اسے جتنی بڑی تعداد میں راے عامہ کی ہرسطح کے لوگ امن وانصاف کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں، تاریخ کے کسی دور میں نہیں ہوا۔

اس اجتماع میں عالم اسلام پر امریکا کی دست درازیوں کی مذمت کے ساتھ یہ واضح کیا گیا ہے کہ امریکا محض قوت سے اپنے نظریات اور تصورات دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، دوسروں کے وسائل پر قبضہ کر رہا ہے، ان کے استحصال (exploitation) کا مرتکب ہو رہا ہے اور مسلم ممالک میں جبروقوت کے ذریعے قابض اپنے مفید مطلب حکمرانوں کی سرپرستی کر رہا ہے اور اب اس سے بڑھ کر مسلم دنیا میں انتہاپسندی اور میانہ روی کے نام پر اپنے ایجنٹوں کو آگے بڑھا کر ان کے ذریعے اپنے مطلب کے ’اسلام‘ کو فروغ دینے کی مذموم کوشش کر رہا ہے۔ یہ راستہ تصادم اور بگاڑ کا راستہ ہے___ مسلم دنیا امریکا اور مغربی ممالک سے اور مغربی تہذیب کے علَم برداروں سے مذاکرات اور افہام و تفہیم کے لیے ہرلمحہ تیار ہے لیکن مسلمان اپنے دین میں مداخلت، اپنی تہذیب کی پامالی، اپنی معیشت و سیاست پر غیروں کے تسلط اور اپنے درمیان دوسروں کے ایجنٹوں کے اقتدار کو برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم حقیقی کثیریت (pluralism) کے قائل ہیں لیکن کسی ایک ملک کا غلبہ اور بالادستی ہرگزقبول نہیں کی جاسکتی۔

اجتماع میں برطانوی صحافی خاتون اے وان رڈلی کی تقریر مدتوں یاد رکھی جائے گی۔ اس میں مغرب کے لیے بھی پیغام ہے اور مسلمانوں کے لیے بھی۔ نوحہ صرف ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نہیں ___ تمام مظلوم انسانوں کا اور ظلم کے نظام کے خلاف نفرت اور بغاوت کا ہے۔

اجتماع کے مقررین اور خصوصیت سے بین الاقوامی اجلاس نے یہ پیغام بڑے بھرپور مگر باوقار انداز میں دیا ہے اور اسی جذبے سے دیا ہے کہ  ع

مجھے ہے حکمِ اذاں ، لا الٰہ الا اللہ

قومی بحران

اجتماع میں پاکستان نے موجودہ حالات کا بھی دقتِ نظر سے تجزیہ کیا گیا اور جماعت اسلامی کے موقف کو مسکت دلائل کے ساتھ پیش کیا گیا۔

  •  بگاڑ کا بنیادی سبب : مسائل کی تشخیص میں سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ کسی ایک جزوی مسئلے کو توجہ کا مرکز نہیں بنایا گیا بلکہ بگاڑ کی جڑ پر انگلی رکھنے کی کوشش کی گئی۔ مختصراً اس اجتماع میں یہ بات قوم کے سامنے رکھی گئی کہ اصل بگاڑ نظریاتی، اخلاقی اور اداراتی ہے۔ بلاشبہہ شخصیات اور افراد، خصوصیت سے ان کا کردار، ماضی اور حال دونوں اہم ہیں اور یہ بہت ہی تکلیف دہ امر ہے کہ عوام نے بڑی امیدوں سے اور بہت واضح وعدوں کی روشنی میں جن کو اقتدار سونپا انھوں نے ذاتی، گروہی اور جماعتی مفاد کی خاطر چند مہینے ہی میں عوام کو مایوس کردیا ہے اور اس مینڈیٹ کا جواز بُری طرح مجروح ہوگیا ہے جو ۱۸فروری کو عوام نے دیا تھا۔ عدلیہ کی بحالی کے مسئلے کو اس   حکومت نے جس طرح الجھایا اور بگاڑا، وہ یقینا اس حکومت کا ایک مجرمانہ فعل ہے۔ چیف جسٹس افتخارچودھری اور ان کے ساتھ معزول کیے جانے والے ۶۰ ججوں کی بحالی کا راستہ ترک کر کے مسئلے کو اُلجھانے اور بددیانتی سے تعویق میں ڈالنے کا رویہ اختیار کیا۔ عدلیہ کی آزادی کو اُلٹی چھری سے سرعام ذبح کیا گیا ہے۔ کچھ ججوں کو مجبور اور بے وقعت کرکے نئے حلف کے تحت واپس لیا گیا ہے اور اس طرح عدالت پر سے پوری قوم کا اعتماد متزلزل کردیا گیا ہے۔ جتنی بے وقعت اعلیٰ عدلیہ  آج ہے پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں تھی اور اس کی ذمہ داری پرویز مشرف کے بعد زرداری-گیلانی حکومت اور اس کے وزیرقانون پر ہے۔ اسی طرح دستورکی بحالی اور جس طرح ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء اور ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے آمرانہ اقدامات سے دستور کا حلیہ بگاڑا گیا ہے، اسے اس کی اصل شکل میں لانے کے مسئلے کو تعویق میں ڈال دیا گیا ہے اور عملاً پارلیمنٹ کو بے اثر بناکر صدارتی نظام ملک پر مسلط کردیا گیا ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ جو اختیارات پہلے مشرف کے پاس تھے وہ اب زرداری صاحب کے ہاتھوں میں ہیں۔ یہ اس عہدوپیمان کے ساتھ کھلی غدّاری ہے جو میثاقِ جمہوریت میں اور پھر فروری کے انتخابات کے موقع پر خود اپنے منشور میں حکمرانوں نے کیا تھا۔
  • ’دھشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں شرکت : یہ سلسلہ نہ صرف تسلسل سے جاری ہے بلکہ موجودہ حکمرانوں نے مشرف سے بھی زیادہ امریکا کی وفاداری کا طوق اپنی گردنوں میں ڈال لیا ہے اور وطنِ عزیز کو گویا جنگ کے شعلوں میں جھونک دیا ہے۔ فوجی آپریشن نہ صرف جاری ہے بلکہ اس میں زیادہ شدت آئی ہے۔ امریکا کی دراندازیاں اور سرحدات کی خلاف ورزیاں بڑھ گئی ہیں اور حکومت کا حال یہ ہے کہ  ع

ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم

پارلیمنٹ نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی ہے جس میں جنگ اور فوجی کارروائی کے راستے کو رد کیا گیا ہے اور مذاکرات، جنگ بندی، فوجوں کی واپسی اور پوری سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو کا مطالبہ کیا گیا۔ مگر پارلیمنٹ کی قرارداد نوحہ کناں ہے اور حکومت اور امریکا دونوں اپنی من مانی کررہے ہیں اور بات ملک کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت و وقار کی پامالی تک پہنچ چکی ہے۔ صدر، وزیراعظم اور وزیردفاع ایسے بیانات دے رہے ہیں جو ملک وقوم کے لیے شرمناک ہیں لیکن حکمران اتحاد کے بڑے بڑے سورما ہیں کہ پھر بھی لیلاے اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔   یہ کیسی حکومت ہے کہ جس کے شرکا اپنی ہی حکومت کی پالیسی کی مذمت بھی کرتے ہیں اور کرسی چھوڑنے کا باعزت راستہ بھی اختیار نہیں کرتے۔

  • امن و امان کے فقدان اور ظلم و جور کی فراوانی: بلوچستان کے لوگوں سے معافی تو مانگ لی لیکن فوجی آپریشن، گرفتاریاں اور حق تلفیاں اسی طرح جاری ہیں اور بلوچستان میں ایک ایسی نادرہ روزگار حکومت قائم ہے جس میں اسمبلی کے ۶۳ ارکان میں سے ایک کو چھوڑ کر سب ہی وزیر یا پارلیمانی سیکرٹری بنادیے گئے ہیں۔ قوم کے اخلاقی بگاڑ کی اس سے زیادہ کریہہ شکل اور کیا ہوگی کہ رند اور پارسا، قوم پرست اور مرکز کے منظورِنظر، پی پی پی، مسلم لیگ (ق) جمعیت علماے اسلام، اے این پی، بلوچ نیشنلسٹ سب ہی اس کشتی میں سوار ہیں۔ معاملہ سیاسی تنازعات کا ہو یا معاشی محرومیوں کا، امن و امان کا ہو یا دہشت گردی پر قابو پانے کا، لاپتا افراد کا ہو یا عزت کے نام پر قتل کا، ملک کی مجموعی صورتِ حال میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے جب کہ بدحال معیشت میں اقتدار کے متوالوں کی شاہ خرچیاں حسب ِسابق جاری ہیں۔ خود مرکز میں ۵۵ افراد پر مشتمل وزارت ہے اور اس میں مشیروں، سفیروں اور پارلیمانی سیکرٹریوں کو ملا کر تعداد ۱۰۰ تک پہنچتی ہے جن کا سالانہ بوجھ مرکزی خزانے پر ایک ارب روپے سے کم نہیں ہوسکتا۔ سندھ کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ نہ صرف امن و امان مفقود ہے بلکہ طالبائزیشن کا ہوّا دکھا کر ایم کیو ایم کے قائد کھلے بندوں کہہ رہے ہیں کہ اسلحہ حاصل کرو اور مقابلے کی تیاری کرو۔ سیاسی قتل و غارت کا بازار گرم ہے اور گذشتہ ۹ماہ میں ۵۰سے زیادہ افراد کا قتل کھلے بندوں ہوچکا ہے۔۱؎
  • ایم کیو ایم کا کردار: قانون کی حکمرانی کے پس منظر میں دو چیزوں کا ذکر بے محل نہیں ہوگا۔ گورنر سندھ کے ایما پر سندھ کے وزیراعلیٰ نے کراچی اور حیدرآباد کی ایم کیو ایم کے زیراثر شہری حکومتوں کو آڈٹ سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے جب کہ باقی تمام لوکل باڈیز کے آڈٹ ہورہے ہیں۔ بدعنوانی اور قانون کے اسقاط (miscarriage) کی اس سے قبیح مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔
  • اقتصادی بحران: افراطِ زر کا عفریت دندناتا پھر رہا ہے اور اب خوراک کے اشاریے میں ۳۰ فی صد اضافہ اور عام قیمتوں کے اشاریے میں ۲۴ فی صد کا اضافہ ہے۔ اشیاے ضرورت کی قلت ہے اور قیمتوں کو آگ لگی ہوئی ہے۔ بے روزگاری عروج پر ہے۔ غریبوں کی تعداد آبادی کے ۲۴ فی صد سے بڑھ کر ۴۴ فی صد ہوگئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ملک کی ۱۷کروڑ آبادی میں اس وقت سات کروڑ سے زیادہ خط ِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ملک میں درآمدات ۴۰ بلین ڈالر سے بڑھ گئی ہیں جب کہ برآمدات ۲۰ بلین ڈالر سے بھی کم ہیں۔ گویا تجارت کا خسارہ ۲۰ بلین ڈالر سے زائد کا ہے۔ ادایگیوں کا توازن بھی بدترین حالت میں ہے، ۱۱بلین ڈالر سے زیادہ صرف ایک سال میں۔ یہی حال مالی بجٹ کے خسارے کا ہے۔ قرضے بڑھ رہے ہیں۔ ملکی قرضوں کا حجم اب ۴ کھرب روپے سے زیادہ ہے اور بیرونی قرضے ۴۷ بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ اب آئی ایم ایف کے جال میں پھنسنے کے بعد یہ قرض آیندہ سال کے آخیر تک ۵۰ بلین ڈالر کی خبر لائے گا۔ ان نو ماہ میں حکومت کوئی مربوط معاشی اور مالیاتی پالیسی نہیں بنا سکی ہے۔   آئی ایم ایف کی ساری شرائط پر قرضہ ملنے سے پہلے ہی عمل شروع ہوگیاہے اور ان میں سب سے نقصان دہ شرط یعنی ملک میں شرح سود میں اضافہ کسی تکلف کے بغیر کردیا گیا ہے۔ پچھلے دو سال میں یہ شرح ۱۰ فی صد سے بڑھا کر ۱۵ فی صد کردی گئی ہے (دو فی صد کا اضافہ اسی مہینے ہوا ہے) اور خطرہ ہے کہ ابھی ۵ئ۱ یا ۲ فی صد مزید اضافہ کیا جائے گا جو ملک میں سرمایہ کاری کے لیے سمِّ قاتل ہے کہ سرمایے کی لاگت (cost of capital) مسلسل بڑھ رہی ہے، جب کہ سرمایہ کاری اور صنعتی پیداوار میں کمی ہورہی ہے اور سرمایے کے مہنگا ہونے کے باعث سیکڑوں صنعتی ادارے پچھلے تین سال میںبند ہوگئے ہیں۔ ایک طرف یہ معاشی صورت حال ہے اور دوسری طرف حکومت کی شاہ خرچیوں میں کوئی فرق نہیں۔ بیرونی اسفار پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں اور تازہ ترین تحفہ یہ ہے کہ پلاننگ کمیشن نے صدر زرداری صاحب کی نوڈیرو (لاڑکانہ) کی کوٹھی کی حصاربندی کے لیے ۱۱ کروڑ روپے کی رقم منظور کی ہے اور اسلام آباد کے ایوانِ صدر کی تزئین کے لیے ۸ کروڑ ۲۳لاکھ روپے کی۔ اور یہ بھی صرف پہلا فیز ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ (دی نیوز، ۲۳ نومبر ۲۰۰۸ئ)

پچھلے ایک سال میں بنکوں کے نظام میں قرض کے نادہندوں (Non Performing Loans) کی مالیت ستمبر ۲۰۰۸ء کے آخیر میں ۳۷ئ۲۸۸ ارب روپے تھی، جب کہ ستمبر ۲۰۰۷ء میں یہ رقم ۱۱ئ۲۵۱ بلین تھی۔ گویا اس ایک سال میں ۳۷ ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔

  • اداروں کا بگاڑ اور فساد: یہ عدم استحکام کی بنیادی وجہ بن گیا ہے۔ سارا نظام  ذاتی انداز میں (personalized ) چل رہا ہے۔ نہ بیورو کریسی میںکوئی غیر جانب داری اور نہ پیشہ ورانہ امور کا لحاظ ہے، نہ عدالت میں انصاف، نہ ملک کی پولیس میں دیانت اور احساسِ ذمہ داری، نہ تجارت اور صنعت میں ملک کے مفاد اور عوام کی مشکلات کا احساس۔ نئی حکومت کی تقرریوں کو دیکھیے تو انسان سرپیٹ لیتا ہے۔ جس طرح ہر جگہ این آراو کے ذریعے کرپشن پر پردہ ڈالنے والوں کا راج ہے، جس طرح یار دوست ہر اہم مقام پر لگائے جارہے ہیں اور قانون، ضابطہ اور اہلیت کا خون ہو رہا ہے، وہ دل خراش ہے اور ملک کے مستقبل کے لیے اندوہناک۔

جماعت اسلامی کی نگاہ میں مسئلے کی اصل جڑ اخلاقی فساد اور اجتماعی اور اداراتی بگاڑ ہے۔ قیادت کی ناکامی اور جمہوری عمل کو دستور یا قانون اور ضابطے کے مطابق چلانے سے مکمل بے اعتنائی ہے۔ اور یہ بگاڑ اس وقت تک دُور نہیں ہوسکتا جب تک ایسی قیادت برسرِکار نہ آئے جو اخلاقی اعتبار سے اعلیٰ کردار کی حامل ہو، جو نظریاتی اعتبار سے پاکستان اور نظریۂ پاکستان کی وفادار ہو، جو قوم ہی سے ہو اور قوم کے سامنے جواب دہ ہو، جو امریکا اور بیرونی طاقتوں کے زیربار نہ ہو اور ان سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خوداری سے معاملہ کرسکے، جو ملک کی آزادی اور عزت کا سودا کرنے والی نہ ہو اور قومی خودمختاری اور وقار کی خاطر جان کی بازی لگانے کا داعیہ اور صلاحیت رکھتی ہو۔

جماعت اسلامی کا اجتماع انقلابِ قیادت کے اس آہنگ کا برملا اظہار ہے۔

اجتماع کا پیغام:جھدِ مسلسل

اجتماع میں جماعت کی قیادت نے آیندہ کے لیے جو پروگرام جماعت کے کارکنوں اور پوری قوم کو دیا ہے وہ تجدید عہد، وقت کی قربانی اور مسلسل جدوجہد کا پیغام ہے۔ اس میں پہلی اور سب سے اہم چیز رجوع الی اللہ ہے کہ ہماری ساری دعوت اور پروگرام کی بنیاد اللہ سے تعلق،    اللہ سے مدد اور استعانت کی طلب، اللہ کے دین کی سربلندی کا جذبہ اور کوشش، اور اللہ کی خوش نودی کا حصول ہے۔ تحریک کے کارکنوں کے لیے اجتماع کا دوسرا پیغام جماعتی استحکام ہے۔ اپنی صفوں کو مضبوط کرنا، اپنے تربیتی نظام کو مؤثر بنانا، اپنی تنظیم کو زیادہ مستحکم کرنا، جہاں تنظیم نہیںہے یا کمزور ہے اس کی تقویت کی فکر کرنا، جماعت میں ڈسپلن، وقت کی پابندی، ذمہ داریوںکی صحیح ادایگی، ایک دوسرے کی معاونت اور تقویت کا باعث ہونا___ ان سب پہلوئوں سے جماعت کو مضبوط کرنا تاکہ آگے کے مراحل میں چیلنجوں کا مؤثر مقابلہ کیا جاسکے۔

تیسرا پیغام دعوت کا ہے۔ جماعت کی نگاہ میں ہمارا سب سے اہم کام عوام تک پہنچنا اور ہرممکن طریقے سے ان تک اسلام کی دعوت اور جماعت کے پروگرام کو پہنچانا ہے۔ ہمارا اصل ہدف انسان سازی ہے___ ووٹ اس کا نتیجہ ہے، اولین ہدف نہیں۔ جتنا ہم اپنا پیغام لوگوں تک پہنچائیں گے، ان کے سوالات کا تشفی بخش جواب دیں گے، اپنے سیرت و کردار اور اپنی خدمت سے ان کے دلوں کو اسلام اور جماعت کے لیے جیتیں گے اتنا ہی ہمارا وزن بڑھے گا اور بالآخر انتخابات میں بھی اس کے ثمرات سے جماعت اور ملک فیض یاب ہوسکیں گے۔ ۲۰۰۸ء بھی دعوت کا سال تھا اور ۲۰۰۹ء بھی دعوت کا سال ہے تاکہ ساری سرگرمیوں میں اولیت دعوتی کاموں کو دی جائے۔ امیرجماعت نے کارکنوں سے متعین طور پر وقت دینے کی خصوصی اپیل کی ہے اور ہرسطح پر تمام جماعتیں اب اس کا اہتمام کریں گی کہ ایک متعین پروگرام کے تحت ہرکارکن سے وقت کا مطالبہ کریں اور جو جتنا وقت دینے کا وعدہ کرے اسے مناسب ترجیح کے ساتھ دعوتی سرگرمیوں میں شامل اور متحرک کیا جائے۔

دعوت کے ساتھ ساتھ تمام اچھے لوگوں کو جماعت میں سمونے اور شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جماعت میں وسعت پیدا کرنا ضروری ہے۔ ایک طرف اپنے اخلاقی اور نظریاتی معیار کی حفاظت کیجیے تو دوسری طرف فراخ قلبی اور کھلے بازوئوں کے ساتھ تمام اچھے انسانوں کو جماعت میں لانے کی کوشش کیجیے اور انھیں ان کے مقام کے مطابق جگہ دیجیے تاکہ وہ جماعت کا حصہ بن جائیں اور اس دعوت کی تقویت کا باعث ہوں۔ یہ کام اس انداز میں کیا جائے کہ ہرعلاقے کے بااثر افراد تک دعوت پہنچائی جائے اور انھیں جماعت کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی جائے۔

اللہ کا فضل ہے کہ جماعت اسلامی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسانی مساوات اور اہلیت کی بنیاد پر قیادت کے اصول پر قائم ہے۔ جماعت میں پہلے دن سے قانون اور ضابطے کی پابندی کی روایت ہے۔ قیادت نہ موروثی ہے، نہ خاندانی اور نہ وصیت کے ذریعے قیادت کی ٹوپی سر کی زینت بنائی جاتی ہے۔ دستور کے مطابق متعین وقت پر انتخابات ہوتے ہیں اور ہرسطح پر ہوتے ہیں۔ ہرشخص کے لیے ذمہ داری کے مقامات تک رسائی ممکن ہے بشرطیکہ اس میں وہ صلاحیت اور اہلیت موجود ہو جو دستور نے مقرر کی ہے۔ نہ کوئی سونے کا چمچہ منہ میں لے کر آتا ہے اور نہ کسی کے لیے دروازہ بند ہے۔ پھر جماعت کے اندر مشورے کا نظام رائج ہے، بلاشبہہ اطاعت امیر ہماری قوت کا ذریعہ ہے لیکن امیر کی طاقت کا انحصارمشاورت کے اس نظام پر ہے جو ہرسطح پر قائم کیا گیا ہے۔ جماعت میں نئے خون کی آمد کا سلسلہ الحمدللہ پہلے دن سے جاری ہے اور آج مرکزی شوریٰ میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اسلامی جمعیت طلبہ، جمعیت طلبہ عربیہ اور دوسری برادر تنظیموں میں سرگرم تھے۔ زندہ اور ترقی کرنے والی تحریکوں کا یہ خاصا ہے۔ ان میں بزرگوں کا احترام اور ان سے استفادے کے ساتھ نئے باصلاحیت افراد کی قدر اور ان کو ذمہ داریاں سونپنے کا اہتمام ہوتا ہے۔ البتہ خدا کا خوف، دین کا فہم، اعلیٰ کردار اور حسنِ کارکردگی وہ صفات ہیں جو ترقی کازینہ اور کامیابی کی ضمانت ہیں۔

جماعت کے اس اجتماع میں حسنِ انتظام کے ساتھ بڑی اہم چیز اجتماع کے پورے پروگرام کو انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچانے کی بڑی کامیاب کوشش تھی۔ جدید ٹکنالوجی کا استعمال ہمارے پیغام کے ابلاغ کے لیے ضروری ہے۔ الحمدللہ اس اجتماع میں اس کا بڑا کامیاب استعمال ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے اب ہر میدان میں نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق مناسب کام پر لگایا جائے اور جدید ٹکنالوجی کا استعمال صرف انٹرنیٹ پر اجتماع کے پروگرام تک محدود نہ ہو بلکہ جہاں بھی انتظامی، تربیتی، دعوتی کاموں کو خوب تر بنانے کے لیے جدید اسلوب اورجدید سہولتوں کا استعمال ممکن ہو، اس کا اہتمام کیا جائے۔ ملک کی آبادی کا نصف اب نوجوانوں پر مشتمل ہے جو تعلیم اور مہارت کے جدید تجربات سے روشناس ہیں۔ دعوت کی وسعت اور تنظیم کے استحکام دونوں کے لیے ان مردانِ کار اور جدید فنی اختراعات کا بھرپور استعمال وقت کی ضرورت ہے۔ وسعت اور صف بندی دونوں کے لیے ان شاء اللہ یہ مفید ہوں گے۔

اجتماع کے پیغام کا ایک اورپہلو، اور شاید سب سے اہم پہلو، نئی اُمید، نیا عزم اور حالات کو صحیح سمت میں تبدیل کرنے کا عزم اور داعیہ ہے۔ ہرفرد اس اجتماع سے ایک نیاجذبہ لے کر رخصت ہوا ہے۔ بڑے عرصے کے بعد اس وسیع پیمانے پر اُمید اور روشنی کے احساسات اور جذبات کا ہم سب نے تجربہ کیا ہے۔ یہ امر، تحریک اور ملک کے لیے بڑا نیک شگون ہے۔ جس ملک میں ہرطرف مایوسی اور اضطراب کی لہریں اُبھر رہی ہوں وہاں ایک ایسے اجتماع کا انعقاد جہاں لاکھوں افراد نے اجتماع کے ہرلمحے کا لطف لیا ہو اور اجتماع سے ایک نیا جذبہ اور ولولہ لے کر اپنے اپنے دائرہ کار میں شریکِ جدوجہد ہورہے ہیں، ایک بڑا ہی مبارک واقعہ ہے۔ اقبال کی روح جس ابراہیم کی تلاش میں بے چین اور بے قرار تھی آج تحریکِ اسلامی براہمیت کے اس جوہر کی امین ہے۔ جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام ایک عظیم فکری سفر کے بعد اپنے رب تک پہنچے، اسی طرح باطل افکار کے ایک جنگل سے گزر کر تحریک کے کارکن اسلام کی شاہ راہ تک پہنچے ہیں۔ جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جاہلیت کے ہر صنم پر ضرب لگائی، اسی طرح تحریکِ اسلامی اپنے دور کے ہرصنم سے نبردآزما ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وقت کے طاغوت کو چیلنج کیا اور طاقت کے مرکز کو نشانہ بنایا اسی طرح تحریکِ اسلامی آج ملک اور عالمی سطح پر طاغوت کے تمام مظاہر سے برسرِکش مکش ہے۔

یہ سب صحیح لیکن چیلنجوں کی اس مماثلت اور ردعمل کی مشابہت کے باوجود سنت ابراہیمی سے مطابقت کوئی آسان کام نہیں۔ البتہ شوق، جدوجہد، خلوص اور استعانت باللہ ہرمرحلے کو آسان بنا سکتے ہیں۔ شرط ایمان، توفیق اور کوشش ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ کی رحمت اور نصرت اور اپنے رب سے بہتری کی اُمید    ؎

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا

آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا