دسمبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | دسمبر ۲۰۰۸ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت طلحہ ؓبن عبید اللہ بن کریز سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: شیطان کسی بھی دن اتنا ذلیل وخوار ،اتنا دھتکارا ہوا،اورپھٹکارا ہوا،اتنا جلابھنا نہیں دیکھاگیا،    جتنا کہ عرفہ کے دن ذلیل و خوار، رُوسیاہ اور جلابھنا دیکھاجاتاہے اوریہ صرف اس لیے کہ وہ اس دن اللہ کی رحمت کو موسلادھار برستے ہوئے دیکھتا ہے(اور یہ اس کے لیے ناقابل برداشت ہے)۔ (مؤطا امام مالکؒ)

جب کوئی اپنے مشن میں ناکام ہوجاتا ہے ،تو اسے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔لوگ اللہ کی بندگی پر جمع ہوں تو یہ شیطان کی ناکامی ہے۔ اللہ کی بندگی کا سب سے بڑا اجتماع میدان عرفات میں ہوتاہے،  جس میں دنیا بھرسے اہل ایمان بیت اللہ شریف کی دہلیزپر جمع ہوتے ہیں۔گڑگڑاکر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے اور اپنی مغفرت کاسامان جمع کرتے ہیں۔اپنی زندگیوں کو پاکیزہ بناتے ہیں۔ مستقبل میں اللہ کی بندگی کے لیے پوری طرح تیار ہوتے ہیں۔اہل ایمان کامیاب اور شیطان ذلیل وخوار ہوجاتا ہے۔ خوش قسمت ہیںوہ لوگ جو حج کی برکتوں سے اپنے آپ کو مالامال کرتے ہیں۔

حج کے بعدبرائیوں سے بچنا اور نیک کام کرنا،قبولیت حج کی علامت ہے۔حج کے بعد بھی شیطان کو ذلیل وخوار کرنے کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔اگر تمام حاجی یہ سلسلہ جاری رکھیں اور انفرادی واجتماعی سطح پر شیطان کو ناکام کرنے کی جدوجہد میں شریک رہیں، تو اس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے دین کا نمونہ بن جائیں۔

o

حضرت جندب بن عبداللہ بَجَلی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر صحابہ کرامؓ کا ایک گروہ مشرکین کے خلاف جنگ کرنے کے لیے بھیجا۔اس گروہ اور مشرکین میں سخت جنگ ہوئی۔ مشرکین میں ایک شخص بہت پھرتیلا اور جنگ جو تھا،جس مسلمان پر حملہ آور ہونا چاہتا، نشانہ بنا لیتا اور قتل کردیتا۔مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے ارادہ کیا کہ اس پر ،اس کی    بے خبری میں حملہ کر کے اسے ٹھکانے لگا دے (ہم آپس میں کہاکرتے تھے کہ وہ اسامہ بن زیدؓ تھے)۔ جب اسامہؓ نے اس پر حملہ کیا،اسے اپنی تلوار کی زدمیں لے لیا تو اس نے کلمۂ شہادت    پڑھ لیا، لیکن اسامہ ؓنے اس کی پروا نہ کی اور اسے قتل کردیا(فتح ہوگئی)۔

فتح کی بشارت دینے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچا اور بشارت دی۔آپ ؐنے حالات معلوم کیے، مبشر نے ساری صورت حال بیان کردی اور کلمہ پڑھنے والے کے قتل کی خبر بھی پہنچادی۔اس پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہؓ کو بلایا اور پوچھا: تم نے اسے کیوں قتل کردیا؟جواب میں حضرت اسامہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ!اس شخص نے مسلمانوں کو بڑی زک پہنچائی، خون ریزی کی انتہا کردی اور فلاں فلاں مسلمانوں کو قتل کردیا (کئی آدمیوں کے نام لیے اور عرض کیا) میں نے اس پر حملہ کیا اور وہ میری تلوار کی زد میں آگیاتو اس نے تلوارکے ڈر سے کلمہ  پڑھ لیا۔رسولؐ اللہ نے تعجب اورناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: اچھا تم نے اسے قتل کردیا؟ اسامہ نے عرض کیا،ہاں یارسولؐ اللہ! آپ نے فرمایا:جب قیامت کے روز لاالٰہ الااللہ کے کلمے کو لے کر وہ تمھارے خلاف آئے گا(اللہ تعالیٰ سے استغاثہ کرے گا)تو تم کیا جواب دوگے؟

بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے،آپؐ نے فرمایا: تم نے اسے لاالٰہ الااللہ پڑھنے کے بعد قتل کردیا؟ (اسامہؓ کہتے ہیں)میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! وہ محض جان بچانے کی خاطر کلمہ پڑھ رہاتھا، ا س پر آپؐ نے فرمایا: تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے بعد قتل کیا؟آپ باربار اس کلمہ کو دہراتے رہے۔یہاں تک کہ میںنے آرزو کی،کاش میں اس دن سے پہلے اسلام نہ لایاہوتا۔

مسلم شریف کی روایت میں ہے تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا تاکہ تمھیں پتا چلتا کہ اس نے کلمہ دل سے پڑھا تھا یا نہیں۔(بخاری و مسلم)

حضرت اسامہؓ نے عین میدانِ جنگ میںاس جرم کا ارتکاب کیاتو اس پرنبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بار بار صدمے کا اظہار کیا اوراسامہؓ کو آخرت کی پکڑ سے ڈرایا لیکن آج مسلمانوں کی ریاست کی فوج    اہلِ ایمان کو بے دریغ قتل کر رہی ہے اور کافروں سے قتل کروانے میں شریک و ساجھی ہے۔ یہ آپریشن اور قتل و غارت اور بم باری کا سلسلہ کب ختم ہوگا؟ کیا یہ اس دن کو بھول گئے ہیں جب یہ سب مقتول اللہ کی عدالت میں فریادی ہوں گے؟

o

حضرت عامر بن واثلہ ؓ سے روایت ہے کہ چند مسلمان ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ایک شخص نے پاس سے گزرتے ہوئے سلام کیا، ان لوگوں نے اسے سلام کا جواب دیا۔جب ان کے پاس سے گزر گیا تو ان میں سے ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! میںاس آدمی سے اللہ کی خاطر بُغض رکھتاہوں۔ اہلِ مجلس نے کہا: واللہ تم نے بری بات کی ہے، ہم اسے بتلا دیتے ہیں۔ایک آدمی سے انھوں نے کہا: اٹھو!اور اسے بتلادو۔وہ اٹھ کرگیااور جلدی سے اس کے پاس پہنچا اور وہ بات اُسے بتلا دی، جو اس کے بارے میں بات کرنے والے نے کی تھی۔بات سن کروہ آدمی واپس چلا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں مسلمانوں کی مجلس کے پاس سے گزرا، ان میں فلاں آدمی بھی تھا ۔میں نے اہلِ مجلس پر سلام پیش کیا،انھوں نے سلام کا جواب دیا۔جب میں ان کے پاس سے گزر گیا تو ان میں سے ایک آدمی نے مجھے آپکڑا اورمجھے اطلاع دی کہ فلاں آدمی نے کہا ہے کہ اللہ کی قسم میں اس سے اللہ کے لیے بُغض رکھتا ہوں۔آپ اس سے پوچھیے، کس وجہ سے یہ مجھ سے بُغض رکھتاہے؟رسولؐ اللہ نے اسے بلایا اور جو شکایت اس نے کی تھی، اس کے بارے میںاس سے پوچھا۔ اس شخص نے اپنی بات کا اعتراف کیا اور کہا: یارسولؐ اللہ! میں نے یہ بات کی ہے۔رسولؐ اللہ نے پوچھا: کس بنا پر تم اس سے بُغض رکھتے ہو؟ اس نے کہا: میں اس کا پڑوسی ہوں اور مجھے اس کے حالات کا پتہ ہے۔اللہ کی قسم! میں نے اسے فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔یہ فرض نماز تو سارے نیک وبد پڑھتے ہیں۔ اس شخص نے جواباً کہا آپ اس سے پوچھیے کہ کیا اس نے کبھی مجھے دیکھا ہے کہ میں نے نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کیاہو؟ یا رکوع وسجود ٹھیک نہ کیا ہو؟رسولؐ اللہ نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا،نہیں ایسا تو کبھی نہیں کیا۔ پھر کہا اللہ کی قسم میںنے اسے صرف رمضان المبارک کے روزے رکھتے ہوئے دیکھا ہے جو نیک وبد سارے رکھتے ہیں۔اس نے کہا: یارسولؐ اللہ!اس سے پوچھیے کہ اس نے کبھی دن میںمجھے افطار کرتے ہوئے پایاہے؟اس کے حق میں کمی کرتے ہوئے دیکھا ہے؟رسولؐ اللہ نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: نہیں ۔پھر اس نے کہا: میں نے اسے نہیں دیکھا کہ اس نے زکوٰۃ کے علاوہ جو نیک و بد سارے دیتے ہیں، کبھی سائل کو کچھ دیا ہو۔ اس نے کہا یارسول اللہ! اس سے پوچھیے ’’کیا میں نے کبھی زکوٰۃ کا زیادہ یا تھوڑا حصہ چھپایاہے؟یا کبھی میں نے زکوٰۃ طلب کرنے والے سے ٹال مٹول سے کام لیاہے‘‘۔ رسولؐ اللہ نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: زکوٰۃ میںتو کچھ کمی نہیں کی۔تو رسولؐ اللہ نے فرمایا:کھڑے ہوجاؤ،میں نہیں سمجھتا کہ تمھارا رویہ صحیح ہے۔ شاید یہ تجھ سے بہترہے(الفتح الربانی)

تقویٰ کے گھمنڈ میں مبتلا ہوکرکسی مسلمان خصوصاً فرائض وواجبات کے پابند شخص کوگھٹیا سمجھنا ،اس سے بُغض رکھنا ناپسندیدہ بات ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت نرمی سے اس پر متنبہ فرمایا۔ آج کل کسی کے متعلق بات کی جائے تو لڑپڑتا ہے۔لیکن اسلام نے ایسے اخلاق کی تعلیم دی ہے کہ ایک آدمی دوسرے کے بارے میں اگر سخت بات کرتاہے تو دوسرے مسلمان بھائی اس کی غائبانہ مدد کرتے ہیں۔بات کرنے والے کو اس کی زیادتی پرتنبیہہ کرتے ہیں،پھر جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اسے اس کا پتہ دیتے ہیں۔ وہ غصہ سے لال پیلا ہونے کے بجاے اور خود کوئی انتقام لینے کے بجاے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں استغاثہ دائر کرتا ہے۔آپ باقاعدہ مقدمہ کی سماعت فرماتے ہیں اور  دونوں کی باتیں سننے کے بعد مدّعاعلیہ کے خلاف فیصلہ دے دیتے ہیں لیکن اس طرح کہ مدّعاعلیہ کی ڈانٹ ڈپٹ اور زجر و توبیخ کے بجاے اتنا فرمادیتے ہیں کہ میں تمھاری بات کی تائید نہیں کرسکتا۔  شاید وہ تجھ سے بہتر ہو۔یہ نرمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمہ کا مظہر ہے۔یہ واقعہ صبروتحمل،صاف گوئی اور وقاروسکون کا بہترین نمونہ ہے۔مدعی،مدّعا علیہ اورموقع کے گواہ سب نے اپنااپنا کرداربہترین انداز میں اداکیا۔

o

حضر ت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جس نے ایسی چیز فروخت کی جس میں عیب تھا اورخریدار کے سامنے اسے ظاہر نہ کیا۔وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی میں گھِر جاتا ہے۔فرشتے بھی اس پر لعنت کرتے ہیں‘‘۔ (ابن ماجہ)