دسمبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

اوباما، پاکستان اور عالمِ اسلام

پروفیسر خورشید احمد | دسمبر ۲۰۰۸ | شذرات

Responsive image Responsive image

۲۰۰۸ء کے امریکی صدارتی انتخاب کے دو پہلو غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا یہ کہ امریکا کی سوا دو سو سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک غیرسفید فام شخص صدارت کا امیدوار بنا اور صدر منتخب بھی ہوگیا۔ واضح رہے کہ بارک حسین اوباما مکمل سیاہ فام نہیں، اس کا باپ کینیا کا ایک مسلمان سیاہ فام تھا مگر اس کی ماں ایک سفیدفام امریکی خاتون تھی۔ یہی وجہ ہے کہ رنگ دار (coloured) نسل سے ہونے کے باوجود اسے سیاہ فام (black) نہیں کہا جاسکتا۔

۲۰۰۸ء کے انتخابات کا دوسرا غیرمعمولی پہلو اس انتخاب میں غیرملکی دنیا کی انتہائی دل چسپی ہے جس کی وجہ صرف اوباما کا رنگ اور نسلی اور سیاسی پس منظر یا اس کی ۴۷ سالہ جواں عمری (youthful looks) ہی نہیں، بلکہ امریکا کی وہ تصویر (image ) تھی جو صدربش کے آٹھ سالہ تاریک دور میں دنیا بھر میں قائم ہوئی اور جس نے امریکا کو تقریباً پوری دنیا میں (اسرائیل اور بھارت کے سوا) ناپسندیدہ اور لائقِ نفرت بنا دیا تھا۔ امریکا سے یہ بے زاری اور امریکا میں تبدیلی کا امکان وہ چیز تھی جس نے اوباما کے انتخاب کو پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا دیا اور معلوم ہو رہا تھا کہ ۴نومبر کو انتخاب امریکا کے نہیں، بلکہ پوری دنیا کے ہورہے ہیں۔ دنیا کی اس غیرمعمولی دل چسپی نے اوباما کی آزمایش میں اضافہ ہی کیا ہے۔ دیکھیے وہ اس سے کس طرح عہدہ برآ ہوتا ہے۔

بلاشبہہ اوباما کا صدر منتخب ہونا اور ۷۰ لاکھ ووٹوں کی برتری سے منتخب ہونا ایک اہم تاریخی واقعہ ہے۔ ان انتخابی نتائج اور پورے انتخابی عمل کی کامیابی پر امریکی جمہوریت اور امریکی عوام کے سیاسی کردار اور بیداری کو داد نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ امریکا کی حکومتوں سے ہمیں جو بھی شکایات ہوں اور جارج بش کے دور میں جو زخم بھی پاکستان اور اُمت مسلمہ کے سیاسی جسد پر لگے ہیں، وہ اپنی جگہ، لیکن اوباما کا انتخاب تاریک اُفق پر روشنی کی ایک کرن ہے اور ہمیں اس کے اعتراف میں کوئی باک نہیں۔

۲۰۰۸ء کے امریکی انتخابات امریکا کی تاریخ کے سب سے مہنگے انتخابات بھی تھے۔   اب تک کے اندازوں کے مطابق اس انتخاب پر ۵ ارب ڈالر سے زیادہ خرچ ہوئے ہیں۔ البتہ  دل چسپ بات یہ ہے کہ ماضی کی طرح ری پبلکن مالی وسائل کی فراہمی میں اس دفعہ آگے نہیں تھے۔ اوباما نے اس میدان میں بھی انھیں پیچھے چھوڑ دیا حالانکہ امریکا کے دولت مند طبقے کی میکین کو مکمل حمایت حاصل تھی اور یہی روایت رہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ دل چسپ اور خوش آیند پہلو یہ ہے کہ امریکا کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کم رقم کے عطیات دینے والوں نے اپنے صدارتی امیدوار کے فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور ۱۰۰ ڈالر اور ۱۰۰۰ ڈالر والے عطیا ت کی اوباما کی مہم میں بھرمار رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی عوام کو متحرک اور مجتمع کرنے میں کامیاب ہوجائے تو عام ووٹروں سے بھی بڑے وسائل حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

بلاشبہہ جارج بش کی آٹھ سالہ ناکامیاں اوباما کے لیے مثبت پہلو رکھتی تھیں اور میکین کے لیے اصل بوجھ (liability) تھیں۔لیکن یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ اوباما کی کامیابی دراصل بش کے لیے  منفی ووٹ کی رہینِ منت ہے۔ بلاشبہہ اس منفی ووٹ کا اوباما کو فائدہ ہوا لیکن اوباما کی کرشماتی شخصیت (personal charisma)، اس کی خطابت اور حاضرجوابی، اس کی جواں سالی، ان سب کا حصہ اس فتح میں شامل ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں سب سے اہم چیز اوباما کی انتخابی حکمت عملی ہے جس میں اس نے تبدیلی اور اُمید (change and hope) کو مرکزی اہمیت دی۔ امریکا بش کے آٹھ سالہ اقتدار کے بعد تبدیلی کا خواہش مند تھا جیساکہ پاکستان میں فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں پاکستانی ووٹر کی خواہش تھی۔ اوباما نے تبدیلی کی اس خواہش کو اپنی انتخابی مہم کا مرکزی موضوع بنایا اور عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہا کہ وہ امریکا کی داخلی اور خارجی سیاست، دونوں کا رُخ بدلنا چاہتا ہے اور اس کے پاس اس تبدیلی کو لانے کی صلاحیت موجود ہے۔

دوسری بنیادی چیز اوباما کا امریکا کے نوجوانوں اور محروم طبقوں کو اپیل کرنا تھا۔ روزگار، چھوٹا کاروبار اور خصوصیت سے ایک عام امریکی کے لیے صحت کی انشورنس اور علاج کی سہولتوں کی فراہمی کے پروگرام میں بڑی کشش تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ساڑھے پانچ فی صد آبادی والے ملک امریکا کے پاس دنیا کی دولت کا ۲۵ فی صد ہے مگر اس کے باوجود امریکا میں آبادی کا ۱۴ فی صد خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔

تیسری چیز عراق کی جنگ کے سلسلے میں انخلا کی حکمت عملی (exit strategy) کا وعدہ ہے۔ نیز انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں بش کے دور میں ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے دوران ہوئی ہیں ان سے اوباما نے فاصلہ پیدا کیا اور ان میں سے کئی کے بارے میں تبدیلی کا وعدہ کیا۔ گوانتانامو کو بند کرنے، تعذیب (torture) کو معلومات حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے سے پرہیز اور قید کے دوران شخصیت کی توڑ پھوڑ کے عمل (rendition ) سے اجتناب کا کھل کر ذکر کیا گیا۔

صدارتی انتخاب کے دوران پولنگ اسٹیشن سے باہر آنے والوں کے سروے (Exit Poll)  کے تجزیے سے بڑے دل چسپ اور چشم کشا نکات سامنے آئے ہیں۔ ووٹروں کے ۶۲ فی صد کی نگاہ میں انتخاب میں اہم ترین مسئلہ معاشی حالات تھے۔ ۶۲ فی صد کے نزدیک اوباما کے پاس بہتر معاشی حکمت عملی تھی، جب کہ بش کو معاشی بحران کا ذمہ دار سمجھا گیا اور میکین نے اس کی قیمت ادا کی۔ عراق اور ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میڈیا میں سب سے نمایاں موضوع رہے، صرف انتخاب کے دوران ہی نہیں بلکہ پورے سال۔ لیکن ووٹروں میں سے صرف ۱۰ فی صد کے نزدیک عراق اور صرف ۹ فی صد کے خیال میں دہشت گردی کا مسئلہ ان کی راے کا رُخ طے کرنے پر اثرانداز ہوا ہے۔ صحت کی سہولت کے مسئلے کو بھی ۹ فی صد نے اہم قرار دیا۔ گویا ’دہشت گردی‘ کا مسئلہ (جس پر امریکا نے ۷۰۰ ارب ڈالر خرچ کیے ہیں اور معیشت کو ۳ کھرب ڈالر کے بوجھ سے گراں بار کیا ہے) اور صحت کی سہولت کی ضرورت کو مساوی اہمیت حاصل رہی ہے۔ حالانکہ امریکا میں علاج معالجے کا پورا نظام نجی سیکٹر میں ہے اور جن افراد کے پاس صحت کی انشورنس نہیں وہ بڑی مشکل میں مبتلا ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے اوباما نے انتخاب جیتنے پر جو تقریر شکاگو میں کی اور جو اس کی بہترین تقاریر میں سے ایک ہے، اس میں ایک بار بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ یا عراق، افغانستان اور اسامہ بن لادن کا ذکرنہیں کیا۔ یہ تقریر بُردباری، تحمل اور مصالحت کا شاہکار ہے۔

انتخاب کا مرحلہ تو پورا ہوا لیکن امریکا اور پوری دنیا میں اوباما کی فتح سے جو توقعات وابستہ کی گئی ہیں ان میں اب اوباما اور امریکا کا اصل امتحان ہے۔ اوباما نے اپنے تبدیلی کے ایجنڈے پر عمل کیا تو اس خدشے کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا کہ اس کا انجام سابق ڈیموکریٹک صدر کینیڈی جیسا ہوجائے۔

l پاکستان کے بارے میں پالیسی: اوباما کی انتخاب کے بعد کی تقاریر میں بہت احتیاط اور ٹھیرائو کی کیفیت ہے جو خوش آیند ہے، البتہ انتخابی مہم کے دوران جو باتیں اس نے افغانستان، پاکستان، القاعدہ، طالبان، اسرائیل اور بھارت کے بارے میں کہی ہیں ان میں تشویش کا بڑا سامان ہے اور پاکستان اور عالمِ اسلام کی قیادت کو کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ پوری گہرائی کے ساتھ مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنا چاہیے۔

پاکستان کے بارے میں اوباما کے متعدد بیان ہیں مگر دو بیان خصوصیت سے توجہ طلب ہیں۔ پاکستان کے شمالی اور قبائلی علاقوںکے بارے میں اوباما صاف الفاظ میں کئی بار یہ کہہ چکا ہے کہ القاعدہ کی قیادت ان علاقوں میں پناہ گزیں ہوسکتی ہے اور وہ ان کے خلاف پاکستان کی حدود میں کارروائی کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:

ہمیں یہ واضح کر دینا چاہیے کہ اگر پاکستان خود کارروائی نہ کرے، یا نہ کرسکے تو ہم اسامہ بن لادن جیسے اعلیٰ سطح کے ہدف کو خود نشانہ بنائیں گے، اگر وہ ہماری نظر میں آجائے۔

دوسرا بیان کشمیر کے سلسلے میں ہے جس سے لوگوں نے بہت سی امیدیں لگا ڈالی ہیں مگر بیان کا اصل زور (thurst) کشمیر کی طرف نہیں، افغانستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

پاکستان اور بھارت میں بہتر تفہیم کا راستہ ہموار کرنے اور کشمیر کے بحران کو حل کرنے کی کوشش تاکہ ان کی توجہ کا مرکز بھارت نہ رہے، جنگجوؤں کی طرف مبذول ہوجائے۔

یہ دونوں بیان زیادہ بالغ نظری سے تجزیے کے محتاج ہیں۔ ان کی بنیاد پر امریکا کی پالیسی میں کسی بنیادی تبدیلی کی توقع رکھنا خطرات سے خالی نہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے بارے میں اوباما سے کسی بنیادی تبدیلی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ عراق سے فوجیں ہٹا کر وہ انھیں افغانستان لانا چاہتا ہے۔ عراق میں امریکا کی ناکامی اس نے بظاہر تسلیم کرلی ہے، لیکن ہمیں اندیشہ ہے کہ افغانستان کے بارے میں اس کا تجزیہ مختلف ہے اور اس پہلو سے پاکستان کو بڑی تیاری کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح امریکا کو وہاں کی زمینی حقائق کو سمجھنے میں مدد دے، اور افغانستان سے بھی انخلا کی حکمت عملی کا راستہ ہموار کرے ورنہ پاکستان خود اپنے لیے یہ حکمت عملی وضع کرے۔ کشمیر کے بارے میں بھی ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے اور اگر کوئی دروازہ نہ سہی کھڑکی بھی کھلتی ہے تو اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے مگرہمارے پائوں زمین پر رہیں اور اس نوعیت کی خوش فہمیوں کا شکار نہ ہوں کہ بس اب امریکا کشمیر کا مسئلہ حل کرا دے گا یا اوباما کے آنے کے بعد پاکستان کی سرحدی خلاف ورزیاںختم ہوجائیں گی، جیساکہ جنابِ وزیراعظم سے ایک بیان منسوب ہے۔

  • اوباما اور عالمِ اسلام: ہمیں ڈر ہے کہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں جو عالمی عدم استحکام کے مسئلے کی جڑ ہے، اوباما کا رویہ بش سے مختلف نہیں ہوگا بلکہ خطرہ ہے کہ اس کا جھکائو اسرائیل کی طرف کچھ زیادہ ہی ہوگا۔ اوباما کا جو بھی مسلم باپ کی وجہ سے اسلام سے تعلق رہا ہے وہ اس کے پائوں کی بیڑیاں بن سکتا ہے اور وہ کچھ زیادہ ہی اسلام اور مسلمانوں سے فاصلہ رکھنے کی کوشش کرسکتا ہے۔

اسرائیل کے بارے میں اس کے بیانات اور فلسطین کے مسئلے کے اصل حقائق کے اعتراف سے شعوری اغماض بلکہ مسئلہ فلسطین کو نظرانداز کرنے کی کوشش کوئی اچھا شگون نہیں۔ پھر اوباما انتقالِ اقتدار کے لیے جو ٹیم بنا رہا ہے اس میں یہودی لابی اور بھارتی لابی کی بھرمار ہے۔ اس کی طرف سے جس شخصیت کی پہلی اہم تقرری عمل میں آئی ہے وہ الی نوائی ریاست کا ممبر کانگریس  راحم ایمانیول ہے جو صرف یہودی ہی نہیں بلکہ معروف صہیونی اور اسرائیلی لابی کے سرکردہ ارکان میں سے ہے اور جس کی تقرری پر اسرائیل میں گھی کے چراغ جلائے گئے اور وہاں کے اخبارات نے برملا لکھا کہ: Our man in the White House(وہائٹ ہائوس میں ہمارا آدمی)۔

راحم ایمانیول کا باپ اسرائیل کا شہری اور ارگن جیسی دہشت پرست صہیونی تنظیم کا رکن تھا جس نے ۱۹۴۰ء میں فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے اور اسرائیلی ریاست کے قیام میں خون ریزی میں شرکت کی اور جو امریکا منتقل ہوجانے کے باوجود ۱۹۷۳ء کی جنگ میں اسرائیل کی فوج میں شرکت کے لیے گیا۔

اسی طرح اب تک کی اطلاعات میں نئی ٹیم میں بھارت سے امریکا منتقل ہونے والے چار افراد شریک کیے جاچکے ہیں جن میں سونل شاہ سب سے خطرناک ہے جس کا تعلق بی جے پی اور امریکا میں ہندوانتہا پسند تنظیموں سے رہا ہے۔ نیز ایک بھارتی ماہر انتظامیات کو عبوری ٹیم میں شامل کیا گیا ہے جس کا نام انجن مکرجی  ہے۔ یہ دونوں اس ۱۵رکنی ٹیم کا حصہ ہیں جو انتقال اقتدار کے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ امریکا کی پاکستان کمیونٹی کا کوئی رول دُور دُور نظر نہیں آ رہا۔ انتخابی مہم کے دوران مسلمان ووٹروں میں سے ۹۳ فی صد نے اوباما کو ووٹ دیا مگر اوباما نے مسلمانوں سے فاصلہ رکھا حتیٰ کہ ایک موقع پر اسٹیج سے دو مسلمان خواتین کو اس لیے ہٹا دیا گیا کہ وہ اسکارف میں تھیں اور ان کے اسٹیج پر موجود ہونے کو کچھ حلقوں نے ناپسند کیا۔

ان سب امور کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ اوباما کے صدر منتخب ہونے سے امریکا اور اس کی پالیسیوں میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ضرور رونما ہوں گی۔ پاکستان اور مسلم ممالک کو سرجوڑ کر حالات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لینا چاہیے اور پاکستان اور مسلم دنیا کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مربوط حکمت عملی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ عمل مسلسل جاری رہنا چاہیے۔ جس حد تک بھی راستے ملیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور جن نقصان دہ پہلوئوں کے سلسلے میں پیش بندی ممکن ہو اس کی سعی کرنی چاہیے۔ خوش فہمی خطرناک حد تک نقصان دہ ہوسکتی ہے لیکن مایوسی اور عدم تحرک بھی دانش مندی کا راستہ نہیں۔ اوباما کے لیے معاشی اور مالیاتی بحران بھی بہت بڑا چیلنج ہے اور سب سے زیادہ خطرناک مسئلہ ہے۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان اور مسلم ممالک کے لیے یہ موقع ہے کہ ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے جو نقصانات عالمِ اسلام اور خود امریکا کو ہورہے ہیں اور جن کا احساس امریکی عوام کو ہو رہا ہے، اس کی بنیاد پر مناسب حکمت عملی بنائیں اور فضا کو سازگار بنانے کے مؤثر انتظام (lobbying ) کا اہتمام کریں۔ اس طرح ہمارا اور امریکا کا مفاد ایک نکتے پر جمع ہوسکتا ہے اور ہمیں اس جنگ سے نجات مل سکتی ہے جس کا فائدہ اسرائیل اور بھارت کو ہو رہا ہے اور جس نے آزادی کی تحریکات کے پورے محاورے (idiom) کو متاثر کردیا ہے۔