دسمبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| دسمبر ۲۰۰۸ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

والدہ کا نامناسب رویہ اور حق خدمت

سوال: میری دادی جان جب سے میرے والد صاحب کے ساتھ رہایش پذیر ہیں آج تک میری والدہ اور دادی کے درمیان کبھی بھی خوش گوار تعلقات نہیں رہے۔ پہلے صرف میری والدہ کے ساتھ ناچاقی رہتی تھی پھر ان کی اولاد یعنی ہمارے بہن بھائیوں کے ساتھ بھی معاملات خراب رکھنے لگیں۔خدا گواہ ہے کہ ہم نے کبھی آج تک دادی جان کے ساتھ نہ کوئی بدتمیزی کی اور نہ ہی کبھی ان کی کوئی چیز یا رقم وغیرہ نکالی۔ اب والدصاحب پر ڈیڑھ سال سے فالج ہوچکا ہے جس کی وجہ سے وہ محتاجی کی زندگی گزار رہے ہیں اور دوسری طرف دادی جان کی ٹانگ میں بھی ایک سال پہلے گرنے کی وجہ سے فریکچر ہوگیا تھا جس کی انتہائی شدید تکلیف تھی۔ دونوں مریضوں (والد اوردادی جان) کو میری والدہ نے انتہائی جاں فشانی سے سنبھالا جب کہ وہ خود بھی ہائی بلڈپریشر کی مریض ہیں لیکن میرے والدین کے اتنے نرم رویے کے باوجود دادی کا مزاج   ان کے لیے دن بہ دن سخت ہوتا جا رہا ہے۔ دونوں کے لیے انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کرتی ہیں اور بددعائیں دیتی ہیں۔

والد صاحب اپنی فالج زدہ زندگی کے ہاتھوں مجبور ہونے کے باعث کبھی کبھار دادی جان کے رویے کو دیکھ کر شدید غصے میں آجاتے ہیں۔ اس لیے اب ان کے لیے دادی جان کا گالم گلوچ اور بددعائوں والا رویہ برداشت کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ دادی جان کے مزاج سے تنگ آکر والد صاحب نے اپنی بہنوں سے کہا کہ آپ کی بھی والدہ ہیں، آپ ان کو سمجھانے کی کوشش کریں، یا پھر ہم اپنے بیٹے کے گھر چلے جاتے ہیں۔ پھوپھو دادی جان کو اپنے ہمراہ لے گئیں مگر اب دادی جان نے سب کو یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ میرے بیٹے نے اپنی بیوی کے کہنے میں آکر مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ اب میں اپنی باقی زندگی میں کبھی وہاں واپس نہیں جائوں گی۔ والدصاحب وہاں ملنے جاتے ہیں تو دادی جان ان سے بات بھی نہیں کرتیں۔

دادی جان کے اس رویے اور ناراضی کی وجہ سے والدصاحب بہت پریشان ہیں اور رشتے دار بھی باتیںبنا رہے ہیں۔ کیاہماری پھوپھیوں پر دادی جان کی خدمت اور تیمارداری کرنا فرض نہیں یا پھر ان حالات میں بھی میرے والدین ہی اس کے مکلف ہیں، جب کہ والد صاحب تو دادی جان کی خدمت فالج کی وجہ سے نہیں کرسکتے، صرف والدہ ہی کرسکتی ہیں؟ ایسی صورت میں والدصاحب کے لیے کیا حکم ہے، جب کہ معافی مانگنے پر بھی دادی جان ابو کے گھر آنے کے لیے راضی نہیں اور نہ معاف کرنے پر ہی تیار ہیں، نیز ان کے اخراجات والدصاحب ہی اٹھاتے ہیں۔ کیا ایسی صورت میں میرے والد اور والدہ کے لیے دادی جان کی ناراضی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث تو نہیں، جب کہ والدین کی اطاعت معروف میں ہے نہ کہ منکر میں؟

جواب: یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ کے والد صاحب اور آپ کی والدہ صاحبہ نے آپ کی دادی صاحبہ کی بڑی مخلصانہ خدمت کی ہے، البتہ آپ کے بقول ،دادی صاحبہ اپنے مزاج کی بناپر پہلے آپ کی والدہ صاحبہ اور اب والد صاحب سے بھی ناراض ہیں اور آپ نے اس کی تفصیل بھی لکھی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ والدہ کا حق اس قدر زیادہ ہے کہ کبھی بھی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے حق ادا کردیا ہے۔ والدین کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ھما جنتک ونارک، ’’وہ تمھاری جنت اور دوزخ ہیں‘‘، نیز جبریل ؑ نے بددعا کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر آمین فرمائی۔ پہلی بددعا یہ کہ ہلاک ہو وہ جو رمضان کو پائے اور اپنی مغفرت نہ کرائے۔ دوسری یہ کہ ہلاک ہو وہ جس کے پاس آپ کا ذکر کیا جائے (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم) اور وہ آپؐ پر درود شریف نہ پڑھے۔ تیسری یہ کہ ہلاک ہو وہ جو اپنے ماں باپ یا دونوں میں سے ایک کو بڑھاپے میں پائے اور وہ اسے جنت میں داخل نہ کردیں (بخاری)۔ پس ایسی دعا جو جبریل نے کی ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر آمین کہی ہو کسی بھی صورت ردّ نہیں ہوسکتی۔ اس لیے یہ تینوں آدمی ہلاکت سے دوچار ہوں گے۔ وہی بچ سکتا ہے جو اپنے گناہ کی تلافی کرکے اپنا بچائو کرلے۔

آپ کے نزدیک آپ کے والد صاحب اور آپ کی والدہ صاحبہ نے آپ کی دادی صاحبہ کی بڑی خدمت کی ہے لیکن یہ خدمت اس وقت معتبر ہوگی جب والدہ صاحبہ یعنی دادی صاحبہ بھی راضی ہوجائیں اور کہیں کہ اس کے بیٹے اور بہو، یعنی آپ کے والد اور والدہ نے ان کی خدمت کی ہے اس لیے ابھی دونوں مل کر خدمت کریں، والدہ کو راضی کریں۔ لوگوں کی باتوں کی طرف نہ دیکھیں۔ وہ آپ کے پاس واپس آجائیں یا آپ کی پھوپھی صاحبہ کے پاس رہیں، ان کی مرضی پر ہے لیکن راضی کرنا ضروری ہے۔ والدہ، یعنی دادی صاحبہ اگر سمجھتی ہیں کہ ان کے بیٹے نے ان کو اپنے گھر سے نکال دیا ہے تو والد صاحب کوشش کر کے اس تاثر کو زائل کریں۔ یہ بحث و مباحثے اور مناظرے کی بات نہیں ہے کہ پھوپھیوں پر بھی دادی کا حق ہے کہ نہیں۔ حق سب پر ہے لیکن عرف، شریعت اور دنیا کا رواج یہ ہے کہ ماں والد کے فوت ہوجانے کے بعد بیٹوں کے سپرد ہوتی ہے، بیٹیوں کے نہیں۔ آپ کے والد صاحب پر ان کی خدمت اور کفالت واجب ہے، آپ کی پھوپھیوں پر نہیں۔ ابھی آپ لوگوں نے اپنی دادی کا حقِخدمت ادا نہیں کیا اسی لیے وہ آپ کی خدمت کو تسلیم نہیں کرتیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی کے نیکی ہونے اور کسی کے ساتھ نیکی کرنے نہ کرنے کا معیار بتلا دیا ہے۔ وہ یہ کہ نیکی اتنی زیادہ اور اس قدر کامل اور اس قدر مخلصانہ ہو کہ لوگ کہیں کہ اس نے نیکی کی ہے۔

ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! جب میں کسی کے ساتھ احسان کروں یا برائی کروں تو مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ میں نے احسان کیا ہے یا برائی کی ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: جب آپ اپنے پڑوسیوں کو دیکھیں کہ وہ کہیں کہ آپ نے احسان کیا ہے تو پھر فی الواقع آپ نے احسان کیا ہے اور جب آپ کے پڑوسی کہیں کہ آپ نے بُرا کیا ہے تو سمجھ لیں کہ آپ نے بُرا کیا ہے۔ (ابن ماجہ، مشکوٰۃ، ج۲، ص ۴۲۴)

آپ کے والد صاحب بجا طور پر پریشان ہیں۔ وہ جس حالت میں بھی ہیں اپنی والدہ کو راضی کریں اور آپ اور آپ کی والدہ بھی اخلاص کے ساتھ اپنی آخرت سنوارنے کی خاطر ان کو راضی کریں۔ بدنامی کرنے والوں کو خوش کرنے کے بجاے والدہ کو راضی کریں تاکہ اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کی توفیق سے نوازے۔ آمین!نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماں باپ کی رضامندی اللہ کی رضامندی ہے اور ماں باپ کی ناراضی اللہ کی ناراضی ہے۔ (بحوالہ ترمذی،مشکٰوۃ)

اس کے ساتھ ساتھ دوسرا پہلو بھی پیش نظر رہے۔ وہ یہ کہ ہر طرح کی خدمت کے باوجود اگر والدہ صاحبہ محض اپنے مزاج کی وجہ سے راضی نہ ہوسکیں تو وہ بھی قصوروار ٹھیریں گی اور اللہ کے ہاں جواب دہ ہوں گی۔ والدہ صاحبہ کو معاملے کی اس نزاکت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ان کی ناراضی ان کے بیٹے کی آخرت برباد کرنے کا باعث بن سکتی ہے (بدسلوکی کو بھی معاف کردینا چاہیے کہ اولاد آخرت کی پکڑ سے بچ سکے)۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اندھیر نگری نہیں ہے کہ کوئی شخص بلاوجہ اپنی اولاد کی خدمت کو ٹھکرا دے تو اس سے بازپُرس نہ ہو۔ جہاں اولاد سے ماں باپ کے بارے میں سوال ہوگا، وہیں ماں باپ سے بھی اولاد کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ اگر والدہ صاحبہ کو یہ بات اب سمجھ میں آجائے تو بہتر ہے، اور اگر انھیں بات سمجھ میں  نہیں آتی تو پھوپھیوں اور رشتہ داروں اور برادری کو عدل و انصاف کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ انھیں چاہیے کہ وہ والدہ کو سمجھائیںاور بھائی کا ساتھ دیں، اگر وہ حق پر ہیں۔ صلۂ رحمی    صرف یہ نہیں ہے کہ اولاد ماں باپ کا خیال رکھے بلکہ یہ بھی ہے کہ ماں باپ اولاد سے   شفقت سے پیش آئیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت اور ہمارے عالِم کی قدر نہ کرے (مختصر الترغیب والترھیب)۔ (مولانا عبدالمالک)


بیوی کا شوہر کے بجاے خاندانی نام کا استعمال

س:  اگر کوئی مسلمان خاتون اپنے خاندانی نسب اور نام کو جو وجۂ شہرت ہے، قائم رکھنے کے لیے رشتۂ ازدواج میںمنسلک ہونے کے بعد اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام استعمال کرنے کے بجاے اپنے والد کے نام یا خاندانی نام سے منسوب ہونا پسند کرتی ہے تو شرعی حیثیت سے ایسا کرنا کس زمرے میں آئے گا اور اس کے لیے خاتون کو شوہر کی اجازت یا رضامندی کی ضرورت ہوگی یا نہیں!؟

ج: شریعت میں تو اسی بات کو رواج حاصل رہا ہے کہ خاتون ہو یا مرد، دونوں اپنے     نام کے ساتھ بطور تعارف اپنے والد، دادا یا پردادا وغیرہ جتنوں کو ذکر سکتے ہیں، کریں۔ کتب   اسما الرجال اور احادیث مبارکہ میں خواتین کے نسب کا ذکر کیا جاتا ہے۔ رہا شوہر، تو اسے بطور تعارف ذکر کرنے کا رواج بعد کے ادوار میں شروع ہوا ہے، مثلاً حضرت عائشہؓ اور حضرت اسماؓ کے ساتھ بنت ابی بکر کا ذکر ہوتا ہے۔ حضرت عائشہؓ کے اُم المومنین ہونے کا الگ سے ذکر آتا ہے۔ اس لیے کہ ازواجِ مطہراتؓ کا اِسی حیثیت سے یہ تعارف قرآن پاک نے کرایا ہے اور یہ ان کے لیے بہت بڑا شرف ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کے بارے میں فرمایا: ’’اگر فاطمہ محمدؐ کی بیٹی بھی چوری کرتی (اللہ نے ان کو اس سے بچائے رکھا) تو میں ان کے ہاتھ کو بھی کاٹتا‘‘(بخاری)۔ لہٰذا باپ کا ذکر تو ایک شرعی روایت ہے، اس کے جواز میں کوئی شک نہیں۔ آج کل چونکہ خاتون کے ساتھ اس کی شادی کے بعد اس کے شوہر کا تذکرہ کیا جاتا ہے کہ یہ فلاں کی زوجہ ہے تو یہ تعارف بھی قابلِ اعتراض نہیں ہے لیکن اصل تعارف تو باپ، دادا ہوتے ہیں۔ تعارف میں ان کا ذکر اس بنا پر بہتر ہے کہ شرعی روایت کی پیروی ہے۔ شوہر سے اجازت کی حاجت نہیں۔ شوہر کو اس پر ناراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ خوش ہونا چاہیے۔ واللّٰہ اعلم! (ع - م)