دسمبر ۲۰۰۸

فہرست مضامین

ہر کارِ خیر میں پیش پیش الشیخ عبداللہ المطوعؒ

عبد الغفار عزیز | دسمبر ۲۰۰۸ | تاریخ و سیر

Responsive image Responsive image

عبداللہ العلی المُطَوَّعْ(م: ستمبر ۲۰۰۶ئ) کو ہم سے رخصت ہوئے ۲ برس ہوچکے ہیں لیکن بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ انھیں گزرے ہوئے خواہ کتنے ہی برس ہوجائیں، ان کا ذکر ہمیشہ تازگی کا احساس اُجاگر کرتا ہے۔ اس کیفیت میں کچھ دخل ذکر کرنے والے کا بھی ہوتا ہے۔ اس مضمون کا مطالعہ کیجیے، اپنی تربیت کا سامان کیجیے اور کرنے کے لیے کچھ سیکھیے۔ (ادارہ)

کویت میں اسلامی تحریک کے بانی عبداللہ العلی المُطَوَّعْ کو پوری دنیا میںان کی کنیت ابوبدر سے پہچانا جاتا تھا۔ اپنی وفات سے چند ہفتے پہلے انھوں نے ایک خواب میں دیکھا کہ ان کے بڑے بھائی مرحوم عبدالعزیز المطوع اور کویت کے ایک اور بزرگ مرحوم یوسف بن عیسیٰ القناعی سمندر کے کنارے نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں دُور سے ان کی طرف جا رہا ہوں وہ سلام پھیرتے ہیں اور مجھے پکار کر کہتے ہیں:دُور کیوں ہو، یہ دیکھو یہ تمھارا محل ہے۔ آئو اور اسے لے لو۔ انھی دنوں انھوں نے ایک اور خواب دیکھاکہ ان کے کچھ مرحوم بزرگ جمع ہیں اور پوچھتے ہیں کہ عبداللہ المطوع نہیں پہنچا؟ جواب میں کوئی کہتا ہے: وہ دیکھو فرشتوں کی ایک بڑی جماعت کے جلو میں آرہا ہے۔

۱۹۲۶ء میں کویت میں پیداہونے والے عبداللہ المطوع کو جاننے والے لاکھوں لوگ اس امر پر متفق ہیں کہ پوری دنیا میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔ وہ ارب پتی درویش تھے۔ وہ جہاں بھی ہوتے کسی نہ کسی کارِخیر کی درخواستیں اٹھائے ہوئے ہجوم میں گھرے ہوتے اور کوئی شخص بھی ان کے ہاں سے خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔ ان کی وفات کے بعد اکثر کویتی اخبارات نے انھیں ’ہر کارخیر کے امیر‘ کے لقب سے یاد کیا۔ کویت کے سیاہ و سفید کے مالک حکمران نے اپنے لیے بادشاہ یا صدر کے بجاے امیر کالقب اختیار کیا ہوا ہے۔ اس تناظر میں کویتی اخبار کی یہ سرخی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ ان سے انٹرویو کرتے ہوئے ایک بار ایک صحافی نے حیران ہوکر پوچھا: آپ سیاست دان ہیں یا دینی رہنما، تاجر ہیں یا سماجی کارکن…؟ انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: میں ایک مسلمان انسان ہوں اور مسلمان کی ذات میں یہ سب امور یکجا ہوتے ہیں۔

عبداللہ العلی المطوع کا گھرانہ اُمت کے لیے باعث ِخیر تھا۔ ان کے والد خداسے ڈرنے والے تاجر تھے۔ ان کے بڑے بھائی عبدالعزیز اپنے والد صاحب کے ساتھ تجارت میں شریک ہوگئے۔ تجارت کی غرض سے وہ اکثر برعظیم پاک و ہند کا سفر بھی کرتے رہتے تھے۔ یہ وہی شخصیت ہے جو سیدابوالاعلیٰ مودودی اور سید حسن البنا شہید کے درمیان اوّلیں رابطے کا ذریعہ بنی۔ وہ یہاں آتے تو ترجمان القرآن اور دیگر ذرائع سے مولانا مرحوم کی تحریروں کا ترجمہ کرواتے اور سامانِ تجارت کے علاوہ یہ تراجم بھی اپنے ساتھ لے جاتے۔ چونکہ وہ ’اخوان المسلمون‘ کے مرکزی مکتب ِارشاد کے رکن بھی تھے، اس لیے مولانا کی یہ تحریریں ’اخوان‘ کی مرکزی قیادت سے لے کر کارکنان تک پہنچ جاتیں اور ’اخوان و جماعت‘ کے دونوں بانیوں کے درمیان کوئی بالمشافہ ملاقات نہ ہونے کے باوجود اخوت و مؤدّت کے گہرے تعلقات استوار ہوگئے۔

عبداللہ المطوع نے بھی اپنے برادر بزرگ سے اخوان المسلمون اور اسلامی تحریک سے محبت کی نعمت حاصل کی۔ وہ گاہے بگاہے اخوان کے ذمہ داران اور دیگر علماے کرام کواپنے ہاں مدعو کرتے رہتے اور ان کے ذریعے دین کا پیغام عام کرتے۔ ۱۹۴۶ء (۱۳۶۵ھ) میں دونوں بھائی حج کی سعادت حاصل کرنے گئے تو وہاں اُنھیں امام حسن البنا کی رفاقت حاصل رہی۔ مکہ و مدینہ میں ان سے کسب ِ فیض کیا۔ مدینہ منورہ میں ان کا تفصیلی خطاب سنا۔ امام البنا نے دونوں بھائیوں کو دو کتابیں بطور ہدیہ دیں۔ایک تو معروف فرانسیسی مؤلف گستائولیبان کی کتاب حضارۃ العرب (تمدّنِ عرب ) تھی جس میں اسلام اور اہلِ اسلام کا ذکرِ خیر تھا، اور دوسری الرحلۃ الحجازیۃ (حجاز کا سفر) تھی۔ اس پر امام نے اپنے ہاتھ سے لکھا: ’’اپنے پیارے بھائی جناب عبداللہ العلی کے لیے۔ اللہ کی خاطر محبت اور عظیم دعوتِ اسلامی کی خاطر، حرمین شریفین میں ملاقاتوں کی یاد‘‘۔

  • خدمت و اصلاح: دعوت کی انفرادی کوششوں کے بعد ۱۹۵۰ء میں جمعیۃ الارشاد الاسلامی کے نام سے کویت میں تحریک اسلامی کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی تو عبدالعزیز المطوع کو اس کا پہلا سربراہ چنا گیا۔ دونوں بھائیوں نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کرکویت اور اہلِ کویت کی خدمت و اصلاح کا باقاعدہ سفر شروع کردیا۔ تحریکی سفر میں حاصل ہونے والی چند نمایاں کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے عبداللہ المطوع بتاتے ہیں کہ:’’استعمار نے کویت میں شر کے کئی در کھول دیے تھے، شراب عام تھی۔ ایک انگریز کمپنی ’ایکری مکنزی‘ یہ کہہ کر کویت میں کھلم کھلا شراب فروخت کرتی تھی کہ یہ غیرملکیوں، غیرمسلموں،عیسائیوںاور ہندوئوں کے لیے ہے۔ اس طرح وہاں شراب کھلم کھلا فروخت ہوتی تھی اور عملاً کویتی شہریوں کی ایک بڑی تعداد اس کی زد میں آچکی تھی۔ ہم نے ہزاروں لوگوں سے دستخط حاصل کرتے ہوئے ایک طویل محضرنامہ حکومت کوپیش کیا لیکن اس نے ہماری درخواست پر کان نہ دھرے۔ آزادی کے بعد کویت میں پہلی بار پارلیمنٹ وجود میں آئی۔ یوسف ہاشم الرفاعی وزیراوقاف تھے۔ انھوں نے ہمیں کہا کہ اگر اس وقت پارلیمنٹ میں شراب کی ممانعت کا بل لے آئو تو کوئی مخالفت نہیں کرسکے گا۔ تب مصر میں جمال عبدالناصر کے مظالم سے تنگ آکر ’اخوان‘ کے ایک ذمہ دار حسن عشماوی کویت آئے ہوئے تھے۔ ہم نے ان کی مدد سے قانونی مسودہ تیار کیا۔ ۶ ارکان پارلیمنٹ سے اس پر دستخط لے لیے گئے۔ بل پارلیمنٹ میں پیش ہوا تو ایک رکن کے علاوہ باقی سب نے اس کی تائید کی۔ عبداللہ سالم کویت کے امیر تھے، بل ان کے پاس گیا تو انھوں نے نظرثانی کے لیے پھر پارلیمنٹ کوبھجوا دیا۔ دوبارہ ووٹنگ ہوئی تو نتیجہ پھر بھی وہی تھا۔ اس وقت ممکن تھا کہ امیر پارلیمنٹ معطل کردے اور شراب کا بل منظور نہ کرے لیکن اسے اچانک بھارت جانا پڑگیا۔ اس کا بھائی صباح السالم قائم مقام امیر بنا اور اس نے بل پر دستخط کردیے، شراب ہرجگہ ممنوع ہوگئی۔

ان دنوں یہ افواہ پھیلائی جاتی تھی کہ شراب کی ممانعت سے کویت ایئرلائن کو خسارہ ہوگا کیونکہ شراب کے رسیا شراب نہ ملنے پر اس میں سفر نہیں کریں گے۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ جب شراب پر پابندی لگی تو کویت ایئر کے منافعے میںاضافہ ہوگیا۔ یہی عالم خنزیر کے گوشت کا تھا جویہاں عام تھا۔ کویتی بھی کھلم کھلا اور بے سوچے سمجھے خنزیر کا گوشت کھا رہے تھے۔ ہم نے کچھ ارکان پارلیمنٹ سے اتفاق راے کے بعد وہاں سوال اٹھایا کہ کویت میں خنزیر کے گوشت کی درآمد پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی؟ بحث ہوئی اور بالآخر ممانعت کا قانون منظور ہوگیا۔ اسی طرح یونی ورسٹی میں مخلوط تعلیم پر پابندی اور کئی دیگر اخلاقی برائیوںکا ہمیشہ کے لیے سدباب کیاگیا۔

ایک بار ایک صاحب نے اعلان کیا کہ وہ کویت میں ایک رقص گاہ قائم کریں گے۔ ہم نے اسے روکنے کے لیے مختلف دینی شخصیات کو ساتھ ملا کر امیرکویت عبداللہ السالم کوخط لکھا۔ اس نے نہ صرف ہماری درخواست مسترد کردی بلکہ کہا کہ ہم تو اس طرح کے ہال مدارس کی سطح تک قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت کویت میں سڑکوں کی تعمیر کا کام شروع تھا۔ بلدیہ کے شعبہ شاہرات میں غزہ کا ایک انجینیر کام کرتا تھا۔ ہم نے اس سے جاکر بات کی اوراس فسادگاہ کی سنگینی واضح کی۔ انھوں نے نئی سڑکوں کا نقشہ اس طرح بنا دیا کہ ایک سڑک عین اس جگہ سے گزرتی تھی جہاں رقص گاہ   تعمیر ہورہی تھی۔ وہ ڈھا دی گئی اور پھریہ معاملہ رفع دفع ہوگیا۔

ابوبدر اور ان کے ساتھیوں کی خدمات صرف ان اخلاقی امور تک ہی محدود نہیں تھیں بلکہ کویت میں اسلامی بنک کاری کا سہرابھی انھی کے سر ہے۔ شروع میں انھیں اس کی اجازت نہیں  ملی تو انھوں نے دبئی کے اسلامی بنک کی تشکیل میں بھرپور حصہ لیا اور پھر بالآخر کویت بھی اس  صدقۂ جاریہ کا مضبوط مرکز بن گیا۔

  • نڈر اور بے باک: اسلامی تحریک کے ابتدائی اور بنیادی ستونوں میں شامل ابوبدر نے کویت کے چھوٹے سے چھوٹے اندرونی مسائل سے لے کر اُمت کے ہر اہم اور فیصلہ کُن مرحلے تک اپنا بھرپور کردارادا کیا۔ اس ضمن میں انھوں نے کبھی کسی خوف اور اندیشے کو قریب نہیں پھٹکنے دیا۔

جمال عبدالناصر نے اخوان المسلمون کے خلاف ظلم کی تاریخ رقم کی تو ابوبدر گرفتار شدگان کے اہلِ خانہ کی کفالت کرنے لگے۔ اس ’جرم‘ کا سراغ ملنے پر مصری عدالت نے ابوبدر کوپانچ سال قید اور ۱۵ ہزار مصری پائونڈ جرمانے کی سزا سنا دی۔ سب کواس سزاپر حیرت ہوئی۔ خدشہ تھا کہ مصری حکومت کویتی حکمرانوں سے اپنا ملزم طلب نہ کرلے لیکن جب مصری ریڈیو پر اس فیصلے کی خبر نشر ہوئی تو کویتی امیر صباح السالم نے کہا: ’’ہم کبھی انھیں اس تک نہیں پہنچنے دیں گے‘‘۔ ابوبدر کہا کرتے تھے: ’’میں شیخ صباح السالم کا یہ موقف کسی صورت فراموش نہیں کرسکتا‘‘۔

  • بامقصد زندگی: ایک ارب پتی تاجر نے جسے ایک اشارے پر دنیا جہاں کی نعمتیں اور آسایشیں حاصل ہوسکتی تھیں، اپنی پوری زندگی ایک مقصد اور ہدف سے مربوط رہ کر گزار دی۔ ان کے والد نے بچپن ہی سے انھیں سچائی، ایمان داری، محنت اور حق کا ساتھ دینے کی تعلیم دی تھی۔ عبداللہ المطوع ابھی ۱۶برس کے تھے کہ ان کے والد نے انھیں اپنے وسیع کاروبار کی ذمہ داریاں سونپنا شروع کردی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ والد صاحب تجارتی سفرپرجاتے ہوئے آہنی صندوق کی چابیاں مجھے دے گئے۔ اس زمانے میں ابھی بنک وجود میں نہیں آئے تھے اور تاجر کی چابیاں ہی اس کا اصل خزانہ ہوتی تھیں۔ میرے والد نے یہ ذمہ داری سونپ کر مجھے خوداعتمادی اور ایمان و تقویٰ کی عملی تعلیم دی۔ میرے والد دوسری عالمی جنگ سے پہلے ہندستان اور افریقہ جانے والے بحری جہازوں کے ذریعے تجارت کرتے تھے۔ دوسری عالم گیر جنگ کے دوران میرے والد کا ڈیرا تاجروں کا مرکز بن گیا۔ میری عمر ۱۸ سال تھی جب میں نے ۱۹۴۵ء میں پہلا سفر کیا۔ والدصاحب نے مجھے ہندستان بھیجا اور مجھ پر ان کے اعتماد کا عالم یہ تھا کہ اس عمر میںا نھوں نے مجھے ایک لاکھ روپے دیے کہ اس سے سامانِ تجارت خرید لائوں۔ مجھے یہ رقم ہندستان پہنچ کر ممبئی کے ایک مسلمان تاجر سے وصول ہوئی اور میں نے اپنے والد کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ ۱۹۵۴ء میں، مَیں چین اور جاپان گیا اور کپڑے کی خریداری کرتے ہوئے ۱۰لاکھ روپے کا سودا کیا۔ پھر قابلِ تجارت کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس میں ہمارا بھرپور حصہ نہ رہا ہو۔
  • کامیاب تجارت کی بنیاد:ابوبدر اپنی زندگی میں چند بنیادی اصولوں پر حیرت ناک حد تک عمل پیرا تھے۔ ان میں سے سب سے بنیادی تو یہ کہ انھوں نے پوری زندگی سود کے ایک دھیلے کو بھی ہاتھ نہیں لگایا۔ وہ سودکے مخالف ہی نہیں، سخت دشمن تھے۔ سود نہیں سود کا شبہہ بھی ہوتا تو اس کے قریب نہ جاتے۔ ہم ابوبدر کے گھر کھانے پر مدعو تھے کہ ان کے صاحبزادے عبدالالٰہ نے ایک واقعہ سنایا۔ والدصاحب (ابوبدر) نے ایک روز خواب دیکھا کہ وہ ایک راستے پر جا رہے ہیں۔ سامنے ایک سیاہ پتھر کا بڑا پہاڑ ہے۔ اچانک دیکھتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب ایک دوسرے راستے پر چل رہے ہیں۔ ابوبدر نے پوچھا حضرت حمزہؓ والے راستے تک کیسے پہنچا جا سکتاہے؟ لوگوں نے بتایا ان تک اس راستے سے نہیں پہنچا جاسکتا۔ ابوبدر نے راستہ تبدیل کرلیا اور حضرت حمزہؓ کے راستے کی طرف چل دیے۔ اسی پر آنکھ کھل گئی۔

کچھ سمجھ نہیں آئی، دفتر گئے اور اپنے سارے تجارتی سودوں کا جائزہ لینے لگے۔ یاد آیا کہ کویت فنانس ہائوس سے جو یہاں کا اسلامی بنک ہے، سرمایہ کاری کا ایک معاہدہ کیا تھا۔ فون کر کے تفصیل پوچھی تو معلوم ہوا کہ انھوں نے اس معاہدے سے پتھر کے کوئلے کا ایک بڑا سودا کیا ہے اور اس سے بڑا منافع یقینی ہے۔ ابوبدر نے کہا نہیں، میں یہ سودا منسوخ کرنا چاہتا ہوں۔ جواب ملا کہ یہ سود نہیں مرابحت کی بنیاد پر ہے، دونوں کو نفع ہوگا۔ ابوبدر نے کہا میں اس راہ پر مزید ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا اور سودا منسوخ ہوگیا۔ عبدالالٰہ نے کہا میرے والد فرمایا کرتے تھے: منافع کوئی تاجرانہ چالاکی نہیں یہ سراسر اللہ کی برکت ہے۔ اللہ کو ناراض کر کے کبھی اس کی برکات حاصل نہیں کی جاسکتیں۔ ایک اور موقع پر والدصاحب نے ایک سعودی تاجر سے ایک بڑا سودا کیا۔ ایک پورا بحری جہاز خام مال کا آرہا تھا۔ راستے میں جہاز حادثے کا شکار ہوگیا۔ والد صاحب بہت پریشان ہوئے کہ اس میں ان کے بھائیوں کی ایک بڑی رقم لگی ہوئی تھی۔ سعودی تاجر نے والد صاحب کو تسلی دیتے ہوئے ان سے دریافت کیا: آپ نے اس مال کی زکوٰۃ نکالی تھی؟ والد صاحب نے کہا ہاں، الحمدللہ! انھوں نے کہا کہ پھر نہ ڈرو، اللہ تعالیٰ تمھارے مال کی حفاظت فرمائے گا۔ سفینے تک رسائی ہوئی تو معلوم ہوا کہ اسی جہاز میں کچھ آٹا بھی لاد دیا گیا تھا۔ حادثہ ہوا تو سمندری پانی سے مل کر اس آٹے کی ایک موٹی تہ اُوپر جم گئی اور نیچے سارا خام مال محفوظ رہا۔ ابوبدر نے اس واقعے کے بعد کبھی اپنے سامان کی انشورنس نہیں کروائی کہ زکوٰۃ ہی اصل انشورنس ہے، اللہ حفاظت کرتا ہے۔ ابوبدر ہمیشہ سود کے بارے میں قرآنی آیات دہراتے رہتے، خاص طور پر یہ کہ یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ (البقرہ ۲:۲۷۶)’’اللہ تعالیٰ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے‘‘۔

کویت پر عراق کا قبضہ ہوا تو ہر کویتی شہری کا مستقبل اندیشوں اور خطروں کی نذر ہوگیا۔ کویتی حکومت اور شہریوں کی بڑی تعداد سعودی عرب میں پناہ گزیں ہوئی۔ وہاں کویت کی بازیابی اور کویتی عوام کی مدد کے لیے مختلف کوششوں کاآغاز ہوا۔ دیگر کئی امور کے علاوہ ایک اعلیٰ سطحی مالیاتی کمیٹی بنی۔ ابوبدر کی عدم موجودگی میں کویتی ولی عہد سعدالعبد اللہ نے انھیں کمیٹی کا سربراہ بنا دیا۔ ابوبدر کو اطلاع دی گئی تو انھوں نے کچھ سوچنے کے بعد کمیٹی کی سربراہی قبول کرنے سے معذرت کرلی۔ وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے کہا کہ اس کمیٹی کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے مجھے بہت بڑے بڑے معاملات دیکھنا پڑتے۔ بڑی بڑی امدادی رقوم حکومتوں کی طرف سے بھی آتیں اور بڑے تاجروں کی طرف سے بھی۔ ان میں سے یقینا کئی رقوم ایسی ہوسکتی تھیں کہ جن میں سود یا کسی سودی کاروبار کی رقم بھی شامل ہو۔ اور میں کبھی سود سے متعلقہ کسی کام میں شامل نہیں ہوا۔ ہاں، البتہ ایک کارکن کی حیثیت سے میں اپنے کویتی بھائیوں کی جومدد بھی کرسکا ضرور کروں گا۔

  • جذبۂ انفاق: ابوبدر بہت بڑے تاجر ہونے کے باوجود چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ اگرچہ یہاں ان کی زندگی میں بظاہر ایک بڑا تضاد دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں یہ دونوں پہلو بھی اسلامی تعلیمات ہی سے ماخوذ ہیں۔ شیخ احمد القطان کہتے ہیں کہ ہم ایک بار بازار گئے۔ کوئی چیز خریدنے لگے۔ دکان دار سے بھائو پوچھا، اس نے پانچ ریال بتائے۔ ابوبدر نے کہا: نہیں، یہ مہنگاہے، کم کرو۔ سودا نہ بنا تو آگے چل دیے۔ دوسرے دکان دار نے چار ریال بتائے ابوبدر نے اس سے خریداری کرلی۔ میں نے باہر نکل کر پوچھا ابوبدر، ایک ریال کی خاطر آپ نے پہلی دکان چھوڑ دی۔ انھوں نے کہا کہ ہاں، یہی تجارت ہے۔ ہم استحقاق سے زیادہ کیوں دیں اور وہ اپنے حق سے زیادہ کیوں لیں۔ یہاں آنحضوؐ ر کی حدیث یاد آتی ہے کہ تم جو  کام بھی کرو اسے بہترین انداز سے کرو، تجارت ہو تو تجارت کے کامل اصولوں کے مطابق ہو۔   احمد القطان کہتے ہیں کہ اس خریداری کے بعد ہم ظہر کی نماز کے لیے مسجد گئے۔ ابوبدر کہنے لگے:    شیخ احمد میں تمھیں گواہ بنانا چاہتا ہوں کہ آج میں نے خیطان کے علاقے میں اپنی سات مہنگی ترین عمارتیں اُمت کے فقرا کے لیے وقف کردی ہیں۔ یہ عمارتیں پورے کویت میں میری سب سے قیمتی جایداد ہیں جن کی مالیت کئی ملین کویتی دینار بنتی ہے۔

شیخ یوسف قرضاوی صاحب بھی ایسا ہی ایک واقعہ سناتے ہیں کہ ہم دونوں سفر میں اکٹھے تھے۔ صبح کمرے میں ناشتہ آیا توساتھ چھوٹی سی ڈبیا میں شہد بھی تھا جو بچ گیا۔ ابوبدر نے وہ اٹھا کر کمرے میں رکھ لیا اور کہا کہ ہم نے اس کے پیسے دیے ہوئے ہیں۔ ہم نے کویت میں ایک کانفرنس رکھی ہوئی تھی جہاں میں نے تجویز دی کہ امریکا میں کچھ افراد نے دنیا میں مسیحیت کے پرچار کے لیے ایک فنڈ قائم کیا ہے جس میں ایک ارب ڈالر جمع کیے گئے ہیں۔ انھوں نے اس فنڈ سے ’زویمر‘ نامی انسٹی ٹیوٹ قائم کیا ہے جہاں عیسائی مشنریوں کو خصوصی تربیت دی جاتی ہے تو کیوں نہ ہم بھی ایک فنڈ قائم کریں جو ان عیسائی کاوشوں کے مقابلے کے لیے مختص ہو۔ ہم نے الہیئہ الخیریۃ الاسلامیۃ العالمیۃ کے قیام کا فیصلہ کیا۔ ابوبدر سب سے پہلے شخص تھے جو میرے پاس آکر کان میں کہنے لگے: میری طرف سے اس میں ایک ملین (۱۰ لاکھ) ڈالر شامل کرلیں لیکن میرے نام کا اعلان نہ کریں۔ وہی ابوبدر جو تجارت و معاملات میں ایک ریال زیادہ دینے یا چند تولے شہد چھوڑنے کا روادار نہیں تھا اللہ کی راہ میں بے حساب دیتا تھا۔ اللہ بھی انھیں بے حساب لوٹاتا تھا۔ کویت سے عراقی قبضہ ختم ہوا تو سب تاجر رو رہے تھے، لیکن ابوبدر جن کا مال اسباب دورانِ جنگ لوٹ لیا گیا تھا نو ماہ کے اندر اندر پہلے سے بھی زیادہ منافع کماچکا تھا۔

کویت پر عراقی جارحیت کے مشکل ایام میں بھی ابوبدر پوری طرح متحرک و فعال رہے۔ جیسے ہی کویت کی ’آزادی‘ کا اعلان ہوا، انھوں نے امیرکویت کے نام ایک اہم خط لکھا۔ ۲۷فروری ۱۹۹۱ء کو لکھے گئے اس خط میں انھوں نے مبارک باد دیتے ہوئے امیرکویت کو یاد دلایا کہ ’’اللہ کی نعمتوں کا شکر بندوں پر فرض ہے۔ اس شکر کی عملی صورت یہ ہے کہ ہر معاملے میں اسی پروردگار سے رجوع کیا جائے اور کویت کی حکومت اور عوام اپنی وہ تمام ذمہ داریاں پوری کریں جو اللہ نے ان پر عائد کی ہیں تاکہ اللہ کی ان تمام ظاہری اور مستور نعمتوں کو دوام ملے جواس نے ہم پر کی ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ اہلِ ایمان وہ لوگ ہیں کہ جب ہم انھیں زمین پر متمکن کرتے ہیں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ ہم اللہ سے امیدکرتے ہیں کہ وہ کویت کا قومی دن اس حال میں دوبارہ لائے کہ کویت اور اس کی نسلوں کی تعمیر ِنو قرآن مجید اور سنت نبویؐ کی روشنی میں مکمل ہوچکی ہو‘‘۔ امیرکویت نے ۴مارچ کو جوابی خط میں ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر کویت میں ایک قانونی کمیٹی تشکیل دے دی گئی جس کے سربراہ اخوان ہی کے ایک بزرگ ڈاکٹر خالدالمذکور کو بنایا گیا، کمیٹی کا نام ہے: لجنۃ استکمال تطبیق الشریعۃ’’ کمیٹی براے تکمیل نفاذِ شریعت‘‘۔ کمیٹی اب تک بہت سی سفارشات تیار کرچکی ہے لیکن تشنۂ تنفیذ۔

ابوبدر سے گاہے بگاہے رابطہ رہتا تھا۔ کویت کے انتخابات کے بعد مبارک باد کافون کیا تو بے حد خوش تھے۔ کہنے لگے مصر میں اخوان، فلسطین میںحماس، بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی، پاکستان میں متحدہ مجلس عمل، انڈونیشیا میں جسٹس پارٹی، مراکش میں انصاف و ترقی پارٹی اور اب کویت میں دستوری تحریک… ہر طرف سے اچھی خبریں، اسلامی بیداری کی تکمیل کی دلیل ہیں۔

۸۰سالہ عبداللہ المطوع آخری لمحے تک اپنے مورچے پر ڈٹے رہے۔ ۴ستمبر کی صبح کا آغاز بھی انھوں نے قریبی مسجد میں نمازِفجر اور پھر نمازِ چاشت تک قرآن کی تلاوت و نوافل سے کیا۔ وہ اس سے ایک روز قبل ہی بیرون ملک سے آنکھ کا آپریشن کروا کے لوٹے تھے اور بہت خوش تھے کہ آج میں دوبارہ تلاوت کرنے کے قابل ہوگیا۔ عبداللہ المطوع کی پوری زندگی مسجد، نماز، قرآن اور انفاق کے گرد گھومتی تھی۔ وہ جہاں بھی ہوتے ان کے متلاشی افراد کو معلوم ہوتا تھا کہ    وہ کس مسجد میں کس نماز کے بعد ملیں گے۔ آج بھی نمازِفجر کی ادایگی اور تلاوتِ قرآن کے بعد دسیوں لوگ اپنی اپنی درخواستیں لے کر آئے ہوئے تھے۔ ابوبدر نے سب درخواستوں کو دیکھا، ان پر مناسب ہدایات لکھیں۔ گھر جاکر ناشتہ کر کے کچھ دیر آرام کیا اور پھر دفتر چلے گئے۔نمازِ ظہر تک مصروف رہے۔ ان کے ایک عزیز دفتر آئے، ان سے مل کر نمازِ ظہر کے لیے وضو کرنے چلے ہی تھے کہ قدم بے جان ہوگئے۔ ابوبدر مسجد یا ہسپتال جانے سے پہلے ہی رفیقِ اعلیٰ کی طرف چلے گئے۔ ان کی وفات کے دن وہ ہزاروں یتیم ایک بار پھر سے یتیم ہوگئے جن کی کفالت ابوبدر کرتے تھے۔ یوں لگا اب وہ دفتر ویران ہوجائے گا جہاں ہر وقت چاردانگ عالم سے آنے والے حضرات اپنی اپنی درخواستیں لیے جمع ہوتے تھے اور سال کے ۱۲مہینے یوںلگتا تھا کہ یہاں انفاق کی سرگرمیوں کے علاوہ کوئی اور کام ہوتا ہی نہیں۔ کویت میں رفاہی سرگرمیوں کا دائرہ ساری خلیجی ریاستوں سے زیادہ منظم و وسیع تھا لیکن کویت کے اکثر اہلِ خیر کسی بھی درخواست پر کچھ دینے سے پہلے دیکھتے تھے کہ اس پر ابوبدر نے کچھ دیا ہے یا نہیں۔ انھیں معلوم تھا کہ ابوبدر نے ہر درخواست گزار کی ضرورت کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے ایک نظام وضع کیا ہوا ہے۔

ایک بار ابوبدر اپنے دفتر میں موجودتھے۔ باہر لوگوں کی بھیڑ تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد سیکرٹری نے بتایا کہ سب فارغ ہوگئے۔ ابوبدر نے باہر آکر پوچھا یہاں جو اتنا رش تھا وہ کیا ہوا؟ سیکرٹری نے بتایا کہ وہ آپ کے فلاں عزیز آئے تھے۔ انھوں نے سب کو فارغ کردیا کہ پسینوں میں شرابور اِن رنگ برنگے لوگوں کی بو.ُ ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ ابوبدر شدید ناراض ہوئے اور کہنے لگے: احمد تمھیں معلوم نہیں پسینے کی اسی بدبو نے ہی ہمیں جنت میں لے جانا ہے۔ میں یہاں رہوں یا نہ رہوں، یہ دفتر ان مستحق افراد کی درخواستیں یونہی لیتارہے گا۔

ابوبدر اپنے ان صدقاتِ جاریہ کے بارے میں بتاتے تھے کہ والد صاحب ۱۹۴۶ء میں اللہ کو پیارے ہوئے تو انھوں نے ۳۰ لاکھ ہندستانی روپے ترکے میں چھوڑے اور وصیت کی کہ ان میں ایک تہائی صدقات و خیرات کے لیے وقف ہیں اور دو تہائی ورثا کے لیے۔ ہم نے اس رقم کو  اسی طرح الگ الگ رکھتے ہوئے تجارت میں لگادیا۔ سود، رشوت اور جھوٹ سے مکمل اجتناب کیا۔ زکوٰۃ کی ایک ایک پائی ہمیشہ ادا کی۔ آج اللہ کا دیا رزق پوری دنیا میں پھل پھول رہا ہے۔

یہ عجب اتفاق ہے کہ گذشتہ سال عبداللہ المطوع کے بڑے صاحبزادے بدر، اللہ کو پیارے ہوگئے اور ایک سال سے کم عرصے میں ابوبدر خود بھی فردوسِ اعلیٰ کے مکیں ہوگئے۔ ان کی وفات کے بعد محترم قاضی حسین احمد صاحب اور راقم تعزیت کے لیے کویت گئے۔ ان کے رفقاے کار اور صاحبزادوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ کویت میں پاکستانی احباب نے ان کے لیے تعزیتی اجلاس رکھا۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے ان کے صاحبزادے کہہ رہے تھے: ہمارے والدِمرحوم ہم سے زیادہ کارِخیر سے محبت کرتے تھے۔ وہ ہمیں بھی ہمیشہ یہی وصیت کیا کرتے تھے کہ اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے جینا اور نماز، سچائی اور کارہاے خیر کی حفاظت کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔

صحیحین میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ صحابہؓ ایک جنازہ کے پاس سے گزرے   اور انھوں نے میت کی تعریف کی۔ آپؐ نے فرمایا: واجب ہوگئی۔ بعدازاں ایک اور جنازے کے پاس سے گزرے تو میت کے شر کا ذکرکیا۔ آپؐ نے فرمایا: واجب ہوگئی۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ، کیاواجب ہوگئی؟ آپؐ نے فرمایا: جس کی تم لوگوں نے تعریف کی اس کے لیے جنت واجب ہوگئی اور جس کی تم نے مذمت کی اس کے لیے آگ واجب ہوگئی۔ آپ لوگ زمین پر    اللہ کے گواہ ہیں۔

ابوبدر کے لیے پوری دنیا میں لوگوں کی زبان پر ذکرِخیر تھا۔ کویت کی تاریخ میں نماز جنازہ کے لیے اتنے لوگ پہلے کبھی نہیں آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے لاکھوں بلکہ کروڑوں بندوں کی یہ گواہی ضرور قبول فرمائیں گے۔ آیئے ہم سب بھی جائزہ لیں کہ اپنے لیے دنیا میں کیسے کیسے گواہ بنا رہے ہیں اور اللہ کے گواہ تو ہرلمحے ہرانسان کے ساتھ ڈیوٹی دے رہے ہیں۔