شرق اوسط میں تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف شام پر ۲۶ اکتوبر ۲۰۰۸ء کو کیا جانے والا امریکی حملہ ہے جو امریکی عزائم کی نشان دہی کر رہا ہے تو دوسری طرف سفارتی عمل کے ذریعے نئی صورت حال سامنے آتی نظر آرہی ہے۔ سفارتی سطح پر تبدیلی کا آغاز ۲۹ مارچ ۲۰۰۸ء کو دمشق میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس سے ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کانفرنس کے اعلامیے میں عرب پالیسی کا ایک نیا رخ سامنے آیا۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ نے جو اعلامیہ پڑھ کر سنایا اس میں کہا گیا تھاکہ: ’’اسرائیل اگر اپنا رویہ تبدیل کرنے پر تیار ہو تو پھر عرب ملک بھی امن کی پیش کش پر ازسرِنو غور کرنے کو تیار ہوں گے‘‘۔ یہ ’ازسرِنو غور‘ ایک نئی شرط اور ایک نیا عندیہ تھا جو پہلی بار اس کانفرنس میں سامنے آیا۔ اس وقت اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔
’ازسرِنو غور‘ نے جلد ہی پَر پُرزے نکالنے شروع کردیے۔ ۲۲ مئی کو ترکی کی وساطت سے انقرہ میں بالواسطہ شام اسرائیل مذاکرات ہوئے۔ ۲۰۰۰ء کے بعد پہلی بار جولان کی پہاڑیاں موضوع بنیں۔ انقرہ مذاکرات کا کھوکھلاپن اس وقت واضح ہوگیا جب جون کے اوائل میں اسرائیل کے سابق آرمی چیف اور موجودہ نائب وزیراعظم شال موفاز (Shaul Mofaz) نے صحافیوں کو بتایا کہ: ’’جولان شام کے حوالے نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
اب تک شام اور اسرائیل میں بالواسطہ مذاکرات کے چار دور ہوچکے ہیں لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اس کے باوجود صدر بشارالاسد بڑے پُرامید ہیں۔ انھوں نے حکمران بعث پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بتایا کہ شام اور اسرائیل میں جولان کے بارے میں بلاواسطہ امن بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے پیغامات کا تبادلہ ہوا ہے۔ انھوں نے کسی تفصیل کے بغیر بتایا کہ: ’’اسرائیل اچھی طرح سے جانتا ہے کہ شام کا مطالبہ کیا ہے اور اسے کیا قبول ہے اور کیا ناقابلِ قبول‘‘۔
اسی سال چار جون کو امریکا کی طرف سے دھمکی آئی کہ اب شام کو بین الاقوامی جوہری نگران ادارے (IAEA) سے اپنی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرانا ہوگا۔ مسلسل شامی تردید کے باوجود، امریکا کا اصرار ہے کہ شام ایران کا اتحادی ہے اوروہ شمالی کوریا کی مدد سے الکبر کا جوہری پلانٹ بنا رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہ پلانٹ ہے جو گذشتہ سال ستمبر میں اسرائیل کی فضائی بم باری سے تباہ ہوچکا ہے۔ اس حملے کے لیے یہ بہانہ گھڑا گیا کہ اسرائیل کے جاسوس سیارچے نے اس پلانٹ کی جو تصویریں بھیجی تھیں وہ شمالی کوریا کی تنصیبات سے ’ملتی جلتی‘ تھیں۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ شام کی سرحدی فوجی چھائونی تھی جو زیر تعمیر تھی۔ چونکہ شام کا موقف واضح تھا اس لیے اس نے بین الاقوامی جوہری انسپکٹروں کی آمد میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔ یہ انسپکٹر ۲۲ سے ۲۴ جون تک شام میں اپنی مرضی سے گھومتے پھرتے رہے، لیکن انھیں کہیں بھی کسی جوہری تنصیب کے آثار نہ ملے۔
امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کو ایک اور تدبیر سوجھی کہ اگر شام اور لبنان سفارتی تعلقات قائم کرلیں تو ایران تنہا رہ جائے گا اور فلسطینی تحریک حماس بھی کمزور پڑ جائے گی۔ واضح رہے کہ ۱۹۴۱ء میں لبنان اور ۱۹۴۶ء میں شام فرانس سے آزاد ہوئے لیکن وہ سفارتی تعلقات قائم نہ کرسکے (تنازع ’عظیم تر شام‘ کے نظریے کا تھا)۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ لبنان طویل عرصے تک براہِ راست شام کے زیرِاثر بلکہ زیرِ تصرف رہا ہے۔ حریری کے قتل کے بعد شامی فوجوں کو نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان تعلقات کے قیام کے لیے فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کو ذمے داری دی گئی۔ انھوں نے اسی سال ۱۲ جولائی کو پیرس کے صدارتی محل ایلیزیہ میں شام کے صدر بشارالاسد اور لبنانی صدر مائیکل سلیمان کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کیا اور انھیں سفارتی تعلقات کے قیام پر رضامند کرلیا۔ فرانسیسی صدر نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ بشارالاسد ایران کو اس کے جوہری پروگرام میں پیش رفت سے باز رکھیں گے۔ دوسری طرف بشارالاسد نے صدر سرکوزی کے سامنے جولان کا مسئلہ پیش کیا کہ وہ امریکا سمیت شام اور اسرائیل کے درمیان بلاواسطہ مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنے میں مدد دیں۔ ۳ستمبر کو فرانسیسی صدر دمشق آئے۔ دوسرے دن قطر کے امیر شیخ حمد بن خلیفہ الثانی اور ترک وزیراعظم طیب اردوگان بھی آئے۔ اس سربراہ کانفرنس میں بشارالاسد نے اسرائیل کے ساتھ قیامِ امن کے لیے تجاویزپیش کیں جس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ وہ اسرائیل کے ساتھ بلاواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے بھی کڑی شرائط سامنے آئیں کہ اگر شام ایران، حزب اللہ اور حماس سے تعلقات پر نظرثانی کرنے کو تیار ہو تو اس صورت میں اسرائیل کو باہمی مذاکرات سے کوئی عذر نہیں ہوگا۔
۱۴ اکتوبر کو صدر بشارالاسد نے صدارتی حکم نامہ نمبر ۳۵۸ جاری کر کے لبنان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دن شام کی وزارتِ خارجہ نے اقوامِ متحدہ کو ایک خط کے ذریعے مطلع کیا کہ اس نے لبنان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں۔ نہ صرف عرب ملکوں بلکہ ایران نے بھی اس اقدام کو خوش آیند قرار دیا۔ حزب اللہ کے رہنما شیخ حسن نصراللہ نے اسے ایک بہت بڑی تبدیلی قرار دیا۔ مرحوم رفیق حریری کے بیٹے تحریک المستقبل کے مرکزی رہنما اور ممبر پارلیمنٹ سعد حریری نے سفارتی تعلقات کے قیام کو ایک مثبت قدم قرار دیا اور ساتھ ہی یہ تبصرہ کیا کہ یہ لبنان کے ثورہ الارز (انقلابِ صنوبر) کی فتح ہے۔ واضح رہے کہ شام کی فوجی موجودگی کے خلاف شروع کیے گئے مظاہروں کو یہ نام دیا گیا تھا۔
سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد لبنان ایک نئے جذبے سے سرشار نظر آرہا ہے لیکن مسائل بے شمار ہیں۔ شام کے ساتھ اس کی سرحدیں ابھی تک غیرمتعین ہیں۔ ۲۵ مربع کلومیٹر پرمشتمل شَبْعافارمز کا زرخیز علاقہ اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ شام اور لبنان دونوں اس کے دعوے دار ہیں۔ جولان اور شَبْعا فارمز جیسے مسائل لاینحل نہیں۔ اگرچہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی نے انھیں پیچیدہ ضرور بنا دیا ہے۔ سردست ان کی واپسی کے لیے کسی نظام الاوقات کا تعین مشکل دکھائی دیتا ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب شام سفارتی روپ میں لبنان پر اثرانداز ہوگا، بلکہ اس کا سفارت خانہ سفارت کاری کے روپ میں انٹیلی جنس کا مرکز بنے گا۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے شبہات فریقین کے قلب و ذہن سے جب تک دُور نہیں ہوں گے، بدگمانیاںباقی رہیں گی۔ لبنان کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام سے بظاہر شام کا جھکائو امریکا کی طرف ہوگیا ہے لیکن اسرائیل اور امریکا دونوں شام کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ حالیہ امریکی حملہ اس کی تازہ مثال ہے جو شامی حدود کے اندر ۴ کلومیٹر گھس کر کیا گیا اور جس کے نتیجے میں ۸ بے گناہ شہری ہلاک ہوگئے۔
شرق اوسط عالمی طاقتوں کا اکھاڑہ ہے۔ سب کے اپنے اپنے مہرے ہیں۔ چالیں چلی جارہی ہیں۔ نقشہ کیا بنتا ہے، آنے والا وقت ہی بتائے گا۔