فیض احمد شہابی


شرق اوسط میں تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف شام پر ۲۶ اکتوبر ۲۰۰۸ء کو کیا جانے والا امریکی حملہ ہے جو امریکی عزائم کی نشان دہی کر رہا ہے تو دوسری طرف سفارتی عمل کے ذریعے نئی صورت حال سامنے آتی نظر آرہی ہے۔ سفارتی سطح پر تبدیلی کا آغاز ۲۹ مارچ ۲۰۰۸ء کو دمشق میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس سے ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کانفرنس کے اعلامیے میں عرب پالیسی کا ایک نیا رخ سامنے آیا۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ نے جو اعلامیہ   پڑھ کر سنایا اس میں کہا گیا تھاکہ: ’’اسرائیل اگر اپنا رویہ تبدیل کرنے پر تیار ہو تو پھر عرب ملک بھی امن کی پیش کش پر ازسرِنو غور کرنے کو تیار ہوں گے‘‘۔ یہ ’ازسرِنو غور‘ ایک نئی شرط اور ایک نیا عندیہ تھا جو پہلی بار اس کانفرنس میں سامنے آیا۔ اس وقت اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔

’ازسرِنو غور‘ نے جلد ہی پَر پُرزے نکالنے شروع کردیے۔ ۲۲ مئی کو ترکی کی وساطت سے انقرہ میں بالواسطہ شام اسرائیل مذاکرات ہوئے۔ ۲۰۰۰ء کے بعد پہلی بار جولان کی پہاڑیاں موضوع بنیں۔ انقرہ مذاکرات کا کھوکھلاپن اس وقت واضح ہوگیا جب جون کے اوائل میں اسرائیل کے سابق آرمی چیف اور موجودہ نائب وزیراعظم شال موفاز (Shaul Mofaz) نے صحافیوں کو بتایا کہ: ’’جولان شام کے حوالے نہیں کیا جاسکتا‘‘۔

اب تک شام اور اسرائیل میں بالواسطہ مذاکرات کے چار دور ہوچکے ہیں لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اس کے باوجود صدر بشارالاسد بڑے پُرامید ہیں۔ انھوں نے حکمران بعث پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بتایا کہ شام اور اسرائیل میں جولان کے بارے میں بلاواسطہ امن بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے پیغامات کا تبادلہ ہوا ہے۔ انھوں نے کسی تفصیل کے بغیر بتایا کہ: ’’اسرائیل اچھی طرح سے جانتا ہے کہ شام کا مطالبہ کیا ہے اور اسے کیا قبول ہے اور کیا ناقابلِ قبول‘‘۔

اسی سال چار جون کو امریکا کی طرف سے دھمکی آئی کہ اب شام کو بین الاقوامی جوہری نگران ادارے (IAEA) سے اپنی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرانا ہوگا۔ مسلسل شامی تردید کے باوجود، امریکا کا اصرار ہے کہ شام ایران کا اتحادی ہے اوروہ شمالی کوریا کی مدد سے الکبر کا جوہری پلانٹ بنا رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ وہ پلانٹ ہے جو گذشتہ سال ستمبر میں اسرائیل کی فضائی بم باری سے تباہ ہوچکا ہے۔ اس حملے کے لیے یہ بہانہ گھڑا گیا کہ اسرائیل کے جاسوس سیارچے نے اس پلانٹ کی جو تصویریں بھیجی تھیں وہ شمالی کوریا کی تنصیبات سے ’ملتی جلتی‘ تھیں۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ شام کی سرحدی فوجی چھائونی تھی جو زیر تعمیر تھی۔ چونکہ شام کا موقف واضح تھا اس لیے اس نے بین الاقوامی جوہری انسپکٹروں کی آمد میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔ یہ انسپکٹر ۲۲ سے ۲۴ جون تک شام میں اپنی مرضی سے گھومتے پھرتے رہے، لیکن انھیں کہیں بھی کسی جوہری تنصیب کے آثار نہ ملے۔

امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کو ایک اور تدبیر سوجھی کہ اگر شام اور لبنان سفارتی تعلقات قائم کرلیں تو ایران تنہا رہ جائے گا اور فلسطینی تحریک حماس بھی کمزور پڑ جائے گی۔ واضح رہے کہ ۱۹۴۱ء میں لبنان اور ۱۹۴۶ء میں شام فرانس سے آزاد ہوئے لیکن وہ سفارتی تعلقات قائم نہ کرسکے (تنازع ’عظیم تر شام‘ کے نظریے کا تھا)۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ لبنان طویل عرصے تک براہِ راست شام کے زیرِاثر بلکہ زیرِ تصرف رہا ہے۔ حریری کے قتل کے بعد شامی فوجوں کو نکلنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان تعلقات کے قیام کے لیے فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کو ذمے داری دی گئی۔ انھوں نے اسی سال ۱۲ جولائی کو پیرس کے صدارتی محل ایلیزیہ میں شام کے صدر بشارالاسد اور لبنانی صدر مائیکل سلیمان کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کیا اور انھیں سفارتی تعلقات کے  قیام پر رضامند کرلیا۔ فرانسیسی صدر نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ بشارالاسد ایران کو اس کے جوہری پروگرام میں پیش رفت سے باز رکھیں گے۔ دوسری طرف بشارالاسد نے صدر سرکوزی کے سامنے جولان کا مسئلہ پیش کیا کہ وہ امریکا سمیت شام اور اسرائیل کے درمیان بلاواسطہ مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنے میں مدد دیں۔ ۳ستمبر کو فرانسیسی صدر دمشق آئے۔ دوسرے دن قطر کے  امیر شیخ حمد بن خلیفہ الثانی اور ترک وزیراعظم طیب اردوگان بھی آئے۔ اس سربراہ کانفرنس میں بشارالاسد نے اسرائیل کے ساتھ قیامِ امن کے لیے تجاویزپیش کیں جس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ وہ اسرائیل کے ساتھ بلاواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے بھی کڑی شرائط سامنے آئیں کہ اگر شام ایران، حزب اللہ اور حماس سے تعلقات پر نظرثانی کرنے کو تیار ہو تو اس صورت میں اسرائیل کو باہمی مذاکرات سے کوئی عذر نہیں ہوگا۔

۱۴ اکتوبر کو صدر بشارالاسد نے صدارتی حکم نامہ نمبر ۳۵۸ جاری کر کے لبنان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دن شام کی وزارتِ خارجہ نے اقوامِ متحدہ کو ایک خط کے ذریعے مطلع کیا کہ اس نے لبنان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں۔ نہ صرف عرب ملکوں بلکہ ایران نے بھی اس اقدام کو خوش آیند قرار دیا۔ حزب اللہ کے رہنما شیخ حسن نصراللہ نے اسے ایک بہت بڑی تبدیلی قرار دیا۔ مرحوم رفیق حریری کے بیٹے تحریک المستقبل کے مرکزی رہنما اور ممبر پارلیمنٹ سعد حریری نے سفارتی تعلقات کے قیام کو ایک مثبت قدم قرار دیا اور ساتھ ہی یہ تبصرہ کیا کہ یہ لبنان کے ثورہ الارز (انقلابِ صنوبر) کی فتح ہے۔ واضح رہے کہ شام کی فوجی موجودگی کے خلاف شروع کیے گئے مظاہروں کو یہ نام دیا گیا تھا۔

سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد لبنان ایک نئے جذبے سے سرشار نظر آرہا ہے لیکن مسائل بے شمار ہیں۔ شام کے ساتھ اس کی سرحدیں ابھی تک غیرمتعین ہیں۔ ۲۵ مربع کلومیٹر پرمشتمل شَبْعافارمز کا زرخیز علاقہ اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ شام اور لبنان دونوں اس کے دعوے دار ہیں۔ جولان اور شَبْعا فارمز جیسے مسائل لاینحل نہیں۔ اگرچہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی نے انھیں پیچیدہ  ضرور بنا دیا ہے۔ سردست ان کی واپسی کے لیے کسی نظام الاوقات کا تعین مشکل دکھائی دیتا ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب شام سفارتی روپ میں لبنان پر اثرانداز ہوگا، بلکہ اس کا سفارت خانہ سفارت کاری کے روپ میں انٹیلی جنس کا مرکز بنے گا۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے شبہات فریقین کے قلب و ذہن سے جب تک دُور نہیں ہوں گے، بدگمانیاںباقی رہیں گی۔   لبنان کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام سے بظاہر شام کا جھکائو امریکا کی طرف ہوگیا ہے لیکن اسرائیل اور امریکا دونوں شام کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ حالیہ امریکی حملہ اس کی تازہ مثال ہے جو  شامی حدود کے اندر ۴ کلومیٹر گھس کر کیا گیا اور جس کے نتیجے میں ۸ بے گناہ شہری ہلاک ہوگئے۔

شرق اوسط عالمی طاقتوں کا اکھاڑہ ہے۔ سب کے اپنے اپنے مہرے ہیں۔ چالیں چلی جارہی ہیں۔ نقشہ کیا بنتا ہے، آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

اسرائیل کے ناجائز قیام کو ۶۰ سال ہو گئے۔ اِس کی پوری تاریخ ظلم و جبر، نسل کشی، ناجائز قبضے اور مذاکرات کی فریب کاریوں پر مشتمل ہے۔ اسرائیل میں آج تک جو کچھ ہوتا رہا ہے یا اب جو کچھ غزہ اور مغربی کنارے میں ہو رہا ہے، اُسے انسانیت کے خلاف جرم ہی کہا جا سکتا ہے۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی کسی قرار داد، امن فارمولے، بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کو  تسلیم نہیں کیا۔ جنگِ عظیم دوم کے دوران جرمنی کے ہاتھوں ۶۰ لاکھ یہودیوں کے قتلِ عام کے افسانے گھڑ کر دُنیا کو فریب دیتے ہوئے مظلومیت کی داستانیںسنائیں اور پھر فلسطین کا رُخ کرتے ہوئے اُس پر قبضہ کر لیا۔

دُنیا کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہودیوں کے ہاتھوں دیریاسین کے قتلِ عام کو بھی ۶۰ سال ہوگئے ہیں۔ ۳۰۰ فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں پر مشتمل یہ بستی ہاگانہ (Hagana) دہشت گردوں کے ہاتھوں راتوں رات صفحۂ ہستی سے اِس طرح مٹی کہ اب وہاں کھنڈرات کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ’مہذب‘ مغربی حکومتیں دیریاسین کی بربریت پر آج تک خاموش ہیں، جب کہ یہ فلسطینیوں کے قتلِ عام کا پہلا بڑا واقعہ تھا۔ ایک معروف اسرائیلی مورخ ایلان پاپ(Ilan Pappe) نے    جو ۲۰۰۷ء تک حیفا یونی ورسٹی میں پروفیسر رہے ہیں، اپنی ایک کتاب فلسطینیوں کا نسلی صفایا  (The Ethnic Cleansing of Palestine) میں لکھتے ہیں:

دسمبر ۱۹۴۷ء سے جنوری ۱۹۴۹ء تک فلسطینیوں کا مسلسل ۳۱ بار قتلِ عام ہوا۔ یہودیوں نے فلسطینیوں کی ۴۱۸ بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹا دیں۔

ایلن پاپ حماس کی تحریکِ مزاحمت کے حامی ہیں۔ وہ صہیونیوں کو کھلّم کھلّا نوآبادکار کہتے ہیں۔ وہ اسرائیل کو ایک جمہوری ریاست نہیں سمجھتے۔ ۲۰۰۷ء میں اُنھیں یونی ورسٹی سے استعفا دینے پر مجبور کیا گیا۔ جنوری ۲۰۰۸ء میں ایلن پاپ نے مانچسٹر میٹروپولیٹن یونی ورسٹی (MMU) میں تقریر کرتے ہوئے کہا:

جس طرح سے فلسطینیوں کا نسلی صفایا ہوا ہے، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ اِسے نوآبادکاری کے جبر کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ دُوسری جنگِ عظیم کے بعد اسرائیل نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتلِ عام کر کے نصف سے زیادہ فلسطینیوں کو اُن کے گھروں سے نکالا جو اب دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

مغرب کے کئی معروف دانش ور ایلن پاپ کو ایک ’بہادر مورخ‘ کہتے ہیں۔

اسرائیل دُنیا کی واحد ریاست ہے جو نسلی تفریق پر قائم ہے۔ عربوں کی زندگیاں اِتنی سستی اور اِتنی بے مایہ ہیں کہ ایک اسرائیلی کے قتل کے بدلے میں درجنوں فلسطینی بم باری کے ذریعے  اُڑا دیے جاتے ہیں۔ ۶۰ برس گزرنے کے باوجود اسرائیل خوف و ہراس کا اِس حَد تک شکار ہے کہ سڑکوں اور گلیوں پر جگہ جگہ کلوز سرکٹ کیمرے اور میٹل ڈی ٹیکٹر نصب ہیں۔ ہر اسرائیلی کے لیے، چاہے وہ مرد ہے یا عورت، ملٹری سروس لازمی ہے۔ اسرائیل نے امن و آشتی کے راستے کا انتخاب کبھی نہیں کیا۔ اِس کے پاس امریکا کا دیا ہوا وافر اسلحہ موجود ہے۔ لیکن ۲۰۰۶ء میں حزب اللہ نے اسرائیل کو پسپا کر کے ثابت کر دیا کہ وہ کوئی ناقابل تسخیر قو ّت نہیں ہے۔ اب وہ غزہ میں حماس سے پنجہ آزمائی کر رہا ہے، لیکن وہ اِس کی راکٹ باری کو روکنے میں ناکام ہو چکا ہے۔

یہودیوں کی اکثریت یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اسرائیل اُن کے لیے کبھی خطۂ امن نہیں   بن سکتا ۔ دُوسرے انتفاضہ کے بعد سے اب تک کے آٹھ برسوں میں ۱۱۰۰ اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اِسی دوران ۴۸۰۰ فلسطینی بھی جاں بحق ہوئے ہیں، لیکن اسرائیل اُن کے عزم کو شکست دینے میں ناکام ہوا ہے۔ غزہ کو ایک ’اوپن جیل‘کہا جاتا ہے جس میں ۱۵ لاکھ قیدی فلسطینی بھوکوں مر رہے ہیں۔ باقی رہے مغربی کنارے کے فلسطینی، تو وہ اسرائیلی بستیوں کے محاصرے میں آ چکے ہیں۔ اب اُن کی اپنی فلسطینی اتھارٹی اسرائیل سے اُن کا سودا کرنے یا اُنھیں خود ہی ٹھکانے لگانے میں مصروف ہے۔ نام نہاد مذاکرات کے باوجود مغربی کنارے پر اسرائیلی بستیاں کم ہونے کے بجاے بڑھ رہی ہیں اور فلسطینی سر چھپانے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات دینا تو دُور کی بات ہے، مغربی کنارے اور غزہ کے فلسطینی پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں، جب کہ اسرائیلی تازہ پانی کے سوئمنگ پولوں میں نہاتے ہیں۔ اِن حقائق سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل غیر یہودیوں کے لیے کتنا ظالم ہے۔

۲۰۰۶ء سے مغربی کنارے پر القدس کے ساتھ ساتھ دیوارِ برلن کے نمونے پر ایک دیوار بنائی جا رہی ہے۔ دیوارِ برلن ۱۵۵ کلو میٹر طویل اور تین سے ۶ میٹر اُونچی تھی۔ جب کہ مغربی کنارے کی دیوار ایک ہزار کلومیٹر طویل اور ۸ میٹر اُونچی ہو گی۔ یہ چاند سے نظر آنے والی دیوارِ چین کے بعد دُوسری طویل دیوار ہو گی۔ اِس کے ساتھ ایک دفاعی سڑک اور ٹاور تعمیر ہوں گے۔ فلسطینیوں نے اِسے جدارالفصل العُنصری ، یعنی نسلی منافرت کی دیوار کا نام دیا ہے۔ انگریزی میں اِسے Apartheid Wall کہا جا سکتا ہے۔ اسرائیل اِس دیوار کو اگلے دَو برسوں میں مکمل کرنا چاہتا ہے۔ اِس کی تعمیر کے لیے راستے میں آنے والے فلسطینیوں کے باغ اُجاڑ دیے گئے اور اُن میں کھڑے زیتون کے لاکھوں درخت کاٹ دیے گئے۔ اسرائیل نے مغربی کنارے پر سڑکوں کا ایسا الگ تھلگ نظام قائم کیا ہے کہ وہاں فلسطینی نہ تو سفر کر سکتے ہیں اور نہ ہی گاڑی چلا سکتے ہیں۔ اِس جبری تقسیم کا مطلب القدس سمیت فلسطینی شہروں اور اُن کی زرخیز زمینوں پر مستقل قبضہ کرنا ہے۔ آج ۹۰ فی صد فلسطین پر اسرائیل کا ناجائز تسلّط قائم ہے۔ شام کی جولان کی پہاڑیاں اور لبنان کے شبعاء فارمز اُن کے علاوہ ہیں جنھیں وہ ضم کر چکا ہے۔ حالانکہ ۱۹۴۷ء کی اقوامِ متحدہ کی قرار داد میں فلسطینیوں کو ۴۵ فی صد علاقہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

اسرائیل کا دیمونہ (Dimona)جوہری ری ایکٹر النقب (Negev) کے دشت میں قائم ہے جہاں یورینیم دستیاب ہے۔ یہ ری ایکٹر فرانسیسی ایٹمی توانائی کے تکنیکی تعاون سے ۱۹۶۳ء میں مکمل ہوا۔ ان میں وہ فرانسیسی، مفرور جرمن اور یہودی سائنس دان شامل تھے جو ایٹم بم بنانے والے امریکی مین ہٹن پروجیکٹ میں کام کر چکے تھے۔ اسرائیل غیرعلانیہ طور پر ایٹم بم بنا چکا ہے۔ وہ ہزاروں ٹن مہلک جوہری فضلہ غزہ کی پٹی میں کم گہرائی پر دفن کرتا رہا ہے۔ دیمونہ ری ایکٹر  روس کے چرنوبل پلانٹ کی طرح بوسیدہ ہو چکا ہے۔ بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم کے مطابق اسرائیل کے جوہری ری ایکٹر میں دراڑیں پڑ چکی ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ کر مصر سے اُردن تک تباہی پھیلا سکتا ہے۔

تل ابیب اسرائیل کی ۶۰ ویں سالگرہ کے علاوہ اپنی صدسالہ تقریبات منانے کی تیاریاں بھی کر رہا ہے۔ یہ شہر ۱۹۰۹ء میں یافا کے پہلو میں بحیرۂ رُوم کے کنارے آباد کیا گیا تھا۔ یہ اِس وقت کی عثمانی حکومت کی فراخ دِلی کا کھلا ثبوت ہے کہ اُس نے یہودیوں کو ایک نیا شہر بسانے کی اجازت دی۔ تل ابیب ۵۱ مربع کلومیٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ اِس کی آبادی ۳۰ لاکھ سے زائد ہے۔ یہودی اِسے اسرائیل کا نیویارک کہتے ہیں۔ پہلے اِس کا نام صہیونیوں کے باوا آدم تھیوڈور ہرزل کے نام پر ہرزیلیا (Herzliya) بھی تجویز ہوا تھا۔

اِس وقت اسرائیل کی مجموعی آبادی ۷۱ لاکھ سے زائد ہے۔ اِس میں یہودیوں کی تعداد ۵۴لاکھ ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے، مشرقی القدس اور جولان میں سیکڑوں یہودی نوآبادیات قائم ہیں۔ ویسٹ بنک میں ۲۴۲ نو آبادیات ہیں جن میں ایک لاکھ ۸۷ہزار نوآبادکار لاکر بسائے گئے ہیں۔ مشرقی القدس میں فلسطینیوں کی زبردست مزاحمت کے باوجود ۲۹ نوآبادیات قائم ہو چکی ہیں جن میں ایک لاکھ ۷۷ ہزار یہودی رہتے ہیں۔ جولان کی پہاڑیوں پر ۴۲نوآبادیات ہیں اور یہودی آباد کاروں کی تعداد ۲۰ ہزار ہے۔ اسرائیل نے حال ہی میں یہ عندیہ دیا ہے کہ اگر شام  حزب اللہ ، حماس اور اسلامک جہاد سے تعاون نہ کرنے کی یقین دہانی کرا دے تو وہ جولان کی واپسی کے لیے مذاکرات کر سکتا ہے۔

اسرائیل امریکا کا بغل بچہ ہے۔ اِسے امریکا سے ہر سال ایک بلین ارب ڈالر سے زائد بلاواسطہ معاشی امداد مل رہی ہے۔ اربوں ڈالر پر مشتمل امریکی یہودیوں سے ملنے والے فنڈ اِس کے علاوہ ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق ۲۰۰۶ء میں اسرائیل کی خام قومی آمدنی ۱۹۵ ارب ڈالر تھی۔ اِسی ذریعے کے مطابق ۲۰۰۷ء میں اسرائیلی کی فی کس آمدنی ۷۶۷,۳۱ ڈالر سالانہ تک بڑھ چکی تھی۔ دُوسری طرف فلسطینی ہیں جن کا پرسان حال کوئی نہیں۔ اپریل ۲۰۰۸ء میں عالمی بنک نے رپورٹ دی کہ اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے مغربی کنارے کے فلسطینی غربت کے چنگل میں پھنس کر رِہ گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو محدود رکھنے کے لیے مسلسل چیک پوسٹیں تعمیر کی جارہی ہیں۔ مارچ ۲۰۰۸ء تک مغربی کنارے میں ۵۴۶ چیک پوسٹیں بن چکی تھیں۔ اِس امتیازی سلوک سے مغربی کنارے کی معیشت بدترین دَور سے گزر رہی ہے۔ یہاں کی نصف فلسطینی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ غزہ کا حال نام نہاد یہودی انخلا کے باوجود بہت پتلا ہے۔ یہاں کی پوری ۸۰ فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ واضح رہے کہ غزہ کی آبادی ۱۵لاکھ ۳۷ ہزار، جب کہ مغربی کنارے کی فلسطینی آبادی ۲۶ لاکھ ۱۱ ہزار ہے۔

فلسطینیوں کے خون سے سرخ اسرائیل نہایت بے شرمی کے ساتھ اپنی ۶۰ ویں سالگرہ  منا رہا ہے۔ مال و دولت کی ریل پیل کے باوجود اسرائیل کا حکمران طبقہ مالی و اخلاقی بدعنوانی اور روایتی یہودی بددیانتی میں ملو ّث ہے۔ اسرائیلی صدر موشے کتساف پر صدارتی دفتر کی خواتین سے زیادتی کا، موجودہ وزیراعظم اولمرٹ پر مالی بدعنوانی اور بدعنوان کابینہ بنانے کا اور نائب وزیراعظم لیبرمین پر خواتین کو چھیڑنے کا الزام ہے۔ پولیس اِن کیسوں کی تحقیقات میں مصروف ہے۔ نومبر ۲۰۰۷ء میں ۲۰ سے زائد مقامات پر چھاپے مار کر سرکاری ریکارڈ قبضے میں لیے گئے، اِن میں وزارتِ صحت و تجارت شامل تھی۔

اسرائیل کا تحریری دستور مختلف تنازعات کے باعث آج تک وضع نہیں ہو سکا۔ اِس تنازع کے پیچھے عرب نہیں، بلکہ وہ یہودی ہیں جو آج تک اسرائیل کی صہیونی یا سیکولر حیثیت کا تعین نہیں کرسکے۔ یہ وہ نام نہاد ریاست ہے جو پورے مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کی اکیلی دعوے دار ہے۔ دُنیا کے دساتیر میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیے گئے ہیں، مگر اسرائیلی دستور کے لیے یہ شق متنازع ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کے اکثر ارکان اِس مساوات کے مخالف ہیں، کیونکہ اِس سے یہودی دُوسرے غیر یہودی شہریوں کے مساوی ہو جائیں گے۔ اِس وقت ۱۹۴۸ء کے ایک بنیادی قانون کے تحت حکومت چلائی جا رہی ہے۔

اسرائیل کی ۶۰ سالہ تقریبات میں صدومی بھی حصہ لیں گے، کیونکہ صدومیت یہودی کلچر کا تاریخی حصہ ہے۔ اِس سلسلے میں اگست میں عالمی فخر (World Pride) کے نام سے ہم جنس پرستوں کی پریڈ مشرقی یروشلم میں ہو گی۔ کئی یہودی ربیوں، عیسائی پادریوں اور مسلم علما نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ وہ علانیہ گناہ کا مظاہرہ کر کے خدا کے غضب کو نہ بھڑکائیں۔

امریکا میں اسرائیل کی ۶۰ سالہ تقریبات کا سلسلہ فروری سے جاری ہے۔ اِس سلسلے میں واشنگٹن سکوائر میں ایک بڑے مخلوط رقص کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ امریکا کے یہودی طلبہ نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اُنھیں اسرائیل کی طرح یہاں بھی ہتھیار رکھنے اور فوجی تربیت لینے کا حق دیا جائے۔ اسرائیلی تقریبات منانے کے لیے امریکی یہودی اور یہود نواز تنظیمیں چندے اکٹھے کر رہی ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیل اپنے برتھ ڈے بجٹ کے لیے ۲۸ ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ دُوسری جانب فلسطین کا زخم مندمل ہونے کے بجاے گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ یہودی اور امریکی اسرائیل کے یومِ تاسیس ۱۴ مئی کو جس ڈھٹائی سے بھی منانا چاہیں، اُنھیں کوئی نہیں   روک سکتا۔ لیکن اُنھیں اِس موقع پر اپنے ضمیر کے اندر جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ وہ جس اسرائیل کی تقریبات منا رہے ہیں، اُس کی بنیاد فلسطینیوں کی کھوپڑیوں پر رکھی گئی ہے۔ ۱۴ مئی یومِ تاسیس نہیں، بلکہ ’یومِ نکبہ‘یعنی مصائب کے آغاز کا دِن ہے۔