بنگلہ دیش ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جو ۱۶؍دسمبر۱۹۷۱ء تک پاکستان کے مشرقی بازو کے طور پر ہمارا ایک صوبہ تھا۔ اس کے بعد اس نے پاکستان سے علیحدگی اختیار کرلی اور اب ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ بنگلہ دیش کی آبادی تقریباً ۱۵کروڑ افراد پرمشتمل ہے۔ یہاں گذشتہ ۳۷ برسوں کے دوران کئی مرتبہ فوج نے براہِ راست انقلاب برپا کیا اور مارشل لا لگا کر حکومت پر قبضہ کیا۔ بعد میں فوجی جرنیلوں نے خود کو سیاسی شخصیت بنانے کے لیے اپنی سیاسی پارٹیاں بنائیں اور ان کے ذریعے سے کئی سال حکومت کرتے رہے۔
شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد اور جنرل ضیا الرحمن کی بیوہ خالدہ ضیا بنگلہ دیش کی عوامی لیگ اور بی این پی کی راہ نما ہیں۔ دونوں خواتین یکے بعد دیگرے وزراے اعظم رہ چکی ہیں۔ خالدہ ضیا نے یہ منصب دو مرتبہ حاصل کیا۔ ان کی حکومت کو فوج نے پُرتشدد ہنگاموں کے بعد ۲۰۰۶ء کے آخر میں برخاست کردیا تھا۔ فوج نے اس مرتبہ براہِ راست حکومت پر قبضہ کرنے کے بجاے پسِ پردہ رہ کر کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے بالواسطہ حکمرانی کا راستہ اپنایا۔ اصل اختیارات فوج ہی کے پاس ہیں۔ اس عبوری حکومت نے ملک کے بڑے بڑے تمام لیڈروں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات قائم کیے۔ خالدہ ضیا، حسینہ واجد اور بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی سب پابندِ سلاسل ہوئے۔مطیع الرحمن نظامی نے چیلنج کیا کہ عام عدالت میں ان کا مقدمہ چلایا جائے۔ عدالت سے انھیں رہائی ملی مگر ایک ماہ بعد انھیں دوبارہ جماعت کے سیکرٹری جنرل، سابق وفاقی وزیر علی حسن مجاہد کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی گرفتاری پر شدید احتجاج ہوا تو عبوری حکومت نے ایمرجنسی قوانین کے تحت جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کردی۔ ۱۶نومبر کو دونوں قائدین کی عدالت سے ضمانت ہوگئی ہے اور وہ رہا ہوچکے ہیں۔
عبوری حکومت کی کوشش تھی کہ دونوں سابق وزراے اعظم خالدہ ضیا اور حسینہ واجد کو میدانِ سیاست سے خارج کردیا جائے لیکن اس میں انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوپائی۔ اب ۲۹دسمبر۲۰۰۸ء کو عام انتخابات ہونا ہیں۔ گذشتہ پارلیمنٹ میں خالدہ ضیا کی پارٹی بی این پی کے ساتھ جماعت اسلامی اور دیگر دو پارٹیوں نے اتحاد کیا تھا، جب کہ عوامی لیگ کے ساتھ ۱۰چھوٹی پارٹیاں اتحادی تھیں۔ بنگلہ دیش پارلیمنٹ میں کُل ۳۴۵ نشستیں ہیں، جن میں سے ۳۰۰ نشستیں براہِ راست انتخاب کے ذریعے پُر کی جاتی ہیں اور خواتین کے لیے ۴۵ مختص نشستیں منتخب ارکانِ پارلیمنٹ کے تناسب سے پارٹیوں کو ملتی ہیں۔ جنرل نشستوں پر بھی خواتین انتخاب لڑ سکتی ہیں۔ بنگلہ دیش کا یومِ آزادی ۱۶دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان، جماعت اسلامی، البدر، الشمس اور پاک فوج کے خلاف خوب پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے عوامی لیگ اور بھارت نواز عناصر کا ہاتھ ہوتا ہے۔ میڈیا پر زہریلا پروپیگنڈا، در و دیوار پر چاکنگ، غرض ایک عجیب ماحول ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ایسی فضا میں انتخابی معرکہ عوامی لیگ ہی کے مفاد میں ہوسکتا ہے۔ جماعت اسلامی اور بی این پی دونوں جماعتیں چند ماہ کے لیے انتخابات کے التوا کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
خالدہ ضیا اور ان کی پارٹی کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوامی لیگ کی حامی حکومت میں مشیرداخلہ (تمام وزرا مشیر ہی کہلاتے ہیں) حسین ظل الرحمن نے کافی مہارت سے عوامی لیگ کے حق میں فضا ہموار کردی ہے۔ بی این پی کے ۱۴۰ انتخابی حلقوں کو خراب کردیا گیا ہے۔ ۱۰۰ حلقے ایسے ہیں جہاں سے بی این پی کے مضبوط امیدواروں کو مختلف الزامات کے تحت نااہل قرار دے دیا گیا ہے، جب کہ ۴۰ حلقوں کی حدبندیاں اس طرح بدلی گئی ہیں کہ عوامی لیگ کو زبردست فائدہ پہنچے۔ اس وجہ سے بی این پی کے سیکرٹری جنرل خوندکر دلاور حسین نے انتخابات کے بائیکاٹ کی بھی دھمکی دی ہے۔ اب حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ انتخابات کچھ ہفتوں کے لیے ملتوی ہوسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ۳۲ سیاسی پارٹیوں نے رجسٹریشن کرا لی ہے۔
خالدہ ضیا کی بی این پی کی اتحادی جماعتوں میں جماعت اسلامی، قومی مدارس کی تنظیم، تنظیم اتحاد الاسلامی اور جنرل ارشاد کی نیشنل پارٹی کا ایک گروپ(ناجی الرحمن) شامل تھے۔ انتخابات میں خالدہ ضیا کی پارٹی نے ۲۰۱ نشستیں جیتیں۔ جماعت اسلامی نے ۱۷ (خواتین کی نشستیں ملا کر کُل ۲۰)، اتحاد الاسلامی نے ۳ اور نیشنل پارٹی(ناجی الرحمن) نے ۴ نشستیں جیتیں۔ عوامی لیگ کو صرف ۵۷ نشستیں ملیں۔ اس کے اتحادی صرف ۲ نشستیں حاصل کرسکے۔ باقی چند نشستیں جنرل ارشاد کی نیشنل پارٹی اور چند ایک آزاد امیدواروں کو ملیں۔ خالدہ ضیا کے اتحاد کو پارلیمنٹ میں ۲۳۵ارکان کی حمایت حاصل تھی۔ خالدہ ضیا کی کامیابی کا دارومدار پہلے بھی جماعت اسلامی کی حمایت پر تھا اور آیندہ انتخابات میں بھی جماعت ہی کے تعاون سے وہ نشستیں جیت سکیں گی۔
ملک میں راے عامہ کے سروے یہ بتاتے ہیں کہ عوامی لیگ کی حمایت تقریباً ۳۵ فی صد ہے۔ دوسرے نمبر پر ۲۹ فی صد کے ساتھ نیشنل پارٹی ہے۔ تیسرے نمبر پر جماعت اسلامی ہے جس کے حامی ۱۷ فی صد ہیں۔ جنرل حسین محمد ارشاد کی نیشنل پارٹی چند اضلاع تک محدود ہے۔ غالباً وہ ۸سے ۱۰ نشستیں حاصل کرپائیں گے۔ باقی آبادی چھوٹی پارٹیوں اور ضلعی گروپوں کے درمیان تقسیم ہے۔ بی این پی کی دیگر دو اتحادی جماعتیں بھی مجموعی طور پر ۵سے ۶ فی صد تک حمایت رکھتی ہیں۔ عوامی لیگ کے ساتھ اتحاد میں شامل جماعتیں تعداد میں تو بہت ہیں لیکن عملاً وہ محض خانہ پُری ہے۔
عبوری حکومت کے مخصوص عزائم ہیں۔ ان کی ترجیح اول تو یہ ہے کہ اہم سیاسی شخصیات کو میدانِ سیاست سے خارج کردیا جائے اور پاکستان میں پرویز مشرف کے تجربے کے مطابق کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے اپنی من مانی کی جائے۔ اگر یہ نہ ہوسکے تو ان کی دوسری ترجیح یہ ہے کہ بی این پی اور جماعت اسلامی کا اتحاد کسی صورت برسرِاقتدار نہ آسکے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل معین الدین احمد بھارت کا حامی ہے اور جواب میں بھارتی حکومت بھی اس کے بارے میں خاصا نرم گوشہ رکھتی ہے۔ ان جرنیل صاحب اور عوامی لیگ کے درمیان سیکولر سوچ کے علاوہ بھارت نوازی بھی ایک قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔ خالدہ ضیا اور حسینہ واجد کے درمیان گذشتہ ۱۵برس سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی بلکہ بول چال تک بند رہی ہے۔ اب دونوں راہ نمائوں کے درمیان ملاقات کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ عوامی لیگ چاہتی ہے کہ بی این پی بائیکاٹ نہ کرے کیونکہ اس صورت میں انتخابات کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا اور بی این پی کے سیکرٹری جنرل کے مطابق ایسی حکومت ایک ماہ بھی قائم نہ رہ سکے گی۔
بی این پی کوئی دینی سوچ رکھنے والی جماعت نہیں لیکن عوامی لیگ اور بی این پی کا موازنہ کیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جماعت بھارت کے مقابلے میں پاکستان سے زیادہ قریب ہے اور لادینی خیالات کی حمایت کرنے کے بجاے زبانی کلامی حد تک ہی سہی، اسلامی اقدار وشعائر کو ترجیح دیتی ہے۔ عوامی لیگ پاکستان مخالف ہے اور جماعت اسلامی کو آج تک غدارِ وطن قرار دیتی ہے۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کی قیادت نے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد سے اب تک بڑی حکمت کے ساتھ اپنا راستہ متعین کیا ہے اور ملک کی تیسری بڑی پارٹی کا مقام حاصل کرلیا ہے۔
سابقہ کابینہ میں جماعت اسلامی کے دو وزرا تھے: امیر جماعت مطیع الرحمن نظامی اور قیم جماعت علی حسن محمد مجاہد۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق انھی دووزرا کی وزارتوں میں قاعدے اور ضابطے کی مکمل پابندی کی گئی۔ عبوری حکومت نے بدعنوانی کے مقدمات قائم کرنے کے لیے ریکارڈ کی خوب چھان بین کی لیکن ان وزرا کے خلاف کوئی شواہد نہ تلاش کرسکی۔ ان کی وزارتوں کی کارکردگی کے اپنے اور غیر سب ہی قائل رہے۔ جماعت کی موجودہ بڑھتی ہوئی حمایت میں ان وزرا کی کارکردگی کا نمایاں حصہ ہے۔
جماعت اسلامی نے اسلامی بنک بنگلہ دیش کے ذریعے غیرسودی بنکاری کا قابلِ تحسین تجربہ کیا ہے۔ یہ بنک ملک کے تمام بنکوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب، اکاؤنٹ ہولڈرز کے نزدیک زیادہ قابل اعتماد اور مالیاتی امور اسلامی اصولوں کے مطابق انجام دینے کی وجہ سے انتہائی مقبول ہے۔ بنک نے اپنے حصہ داروں کو اچھا منافع دینے کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اس قدر رفاہی کام کیا ہے کہ تمام مخالفانہ پروپیگنڈا اس کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا ہے۔
جماعت اسلامی نے عوامی سطح تک کسانوں اور مزدوروں کے اندر اپنی تنظیم کو منظم کیا ہے اور ملک کا کوئی حصہ ایسانہیں، جہاں انھیں مؤثر قابلِ لحاظ حمایت حاصل نہ ہو۔ جماعت اسلامی نے اپنی تنظیم میں خواتین کو بھی بڑی تعداد میں شامل کیا ہے۔ بنگلہ دیش بننے کے وقت جماعت اسلامی پاکستان کے ارکان تقریباً ۲۵۰ تھے۔ ان میں سے کئی شہید ہوگئے، جب کہ بہت سے جلاوطن بھی ہوئے۔ اس وقت مرد ارکان کی تعداد ۱۷ ہزار ۷ سو ۱۳ ہے، جب کہ خواتین ارکان کی تعداد ۶ہزار ۲سو ۱۱ ہے۔ یوں کُل تعداد ۳۰ہزار ۹ سو ۲۴ ہے۔
جماعت اسلامی نے تنظیمی اور مالیاتی شعبے کے علاوہ شعبہ ابلاغ عامہ میں بھی کامیاب پیش رفت کی ہے۔ ملک میں موجود سرکاری اور غیرسرکاری تمام ٹی وی چینل لادین اور ہندونواز عناصر کی آماجگاہ ہیں۔ ان سب میں قدرِ مشترک اسلام، پاکستان اور جماعت اسلامی کی مخالفت ہے۔ جماعت نے کچھ عرصہ قبل اپنا چینل شروع کیا ہے جو دیگانتو(آفاق) کے نام سے پروگرام پیش کررہا ہے اور روز بروز مقبول ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہ چینل اپنا ایک روزنامہ بھی اسی نام سے شائع کررہا ہے، جس کی اشاعت اس وقت ایک لاکھ ۵۰ ہزار ہے۔
اگر مجوزہ انتخابات میں عبوری حکومت اور فوج زیادہ مداخلت نہیں کرتی تو بی این پی، جماعت اسلامی اتحاد واضح اکثریت حاصل کرسکتا ہے۔ پچھلے انتخابات میں جماعت اسلامی کو اتحاد کی طرف سے ۳۰نشستیں دی گئی تھیں جس میں سے جماعت نے ۱۷ جیتیں۔ اس مرتبہ جماعت کا مطالبہ ہے کہ اسے کم از کم ۵۰ نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کی اجازت دی جائے۔ دیکھیے اگلے انتخابات میں برادر مسلم ملک بنگلہ دیش کی تقدیر کا کیا فیصلہ ہوتا ہے۔