’پاکستان اور دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ‘ (نومبر ۲۰۰۸ئ) میں قومی و ملّی اُمنگوں کے برعکس فردِ واحد کی غلط اور ناکام پالیسی، اس کے مضمرات اور نئی آزاد خارجہ پالیسی کے حوالے سے مدلل تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ ’دہشت گردی‘ کے خلاف جاری یہ جنگ ہماری نہیں، بلکہ یہ ایک گھنائونا سامراجی کھیل ہے جس نے ہمیں دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ اس جنگ سے ہم نے ۱۰ ارب ڈالر حاصل کیے، جب کہ ۵ئ۳۴ ارب ڈالر کا نقصان کیا۔ غیروں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے ہی ملک کے عوام کے خلاف لشکرکشی کرناکہاں کی دانش مندی ہے؟
’عالمی غذائی بحران اور پاکستانی زراعت‘ (نومبر ۲۰۰۸ئ) ایک اچھی تحریر ہے۔ ملکی زراعت کی بہتری کے لیے جو مفید تجاویز پیش کی گئی ہیں، حکومت بھی ان سے باخبر ہے لیکن اصل رکاوٹ وسائل کی کمی اور ہاری اور کسان کو سودی نظام کی وجہ سے عملاً مشکلات کا درپیش ہونا ہے۔ اسی وجہ سے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر اس میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا۔ موجودہ نظام میں بلیک اکانومی کو بھی تحفظ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم وسائل کی کمی سے دوچار ہیں اور سودی نظام کے نفاذ کی وجہ سے خدا کی رحمت سے بھی دُور ہیں۔ خود مضمون نگار نے بھی اپنی تجاویز ۱۲ اور ۱۳ میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔ ان تجاویز پر عمل درآمد صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ہمارے ہاں سود سے پاک زرعی نظام نافذ کیا جائے۔ اس کے لیے عملی خاکہ موجود ہے۔ ضرورت صرف عمل درآمد اور سرپرستی کی ہے۔
’قرآن اور یہ کائنات‘ (نومبر ۲۰۰۸ئ) اپنے موضوع پر ایک مفید اور ایمان افروز تحریر ہے جو غوروفکر کی دعوت دیتی ہے۔ البتہ فطرت کو اللہ کہنامناسب نہیں۔ یہ تو نیچری نقطۂ نظر کی تائید ہے۔ آخر میں مختلف اعداد وشمار اور آیات کی تعداد اور تناسب کے حوالے سے کائنات کے بعض حیران کن اتفاقات کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور اس طرح قرآن کی حقانیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح کے حسابی ثبوت تلاش کرنا مناسب نہیں۔ قرآن کو اس سے بالا ہی رکھیں۔
مولانا مودودیؒ کی تحریر ’رسموں کی بیڑیاں‘ (اکتوبر ۲۰۰۸ئ) پڑھ کر ایک عجیب تاثر اور تحرک پیدا ہوا۔ مولانا نے فرمایا ہے کہ ان رواجوں کے بوجھوں سے لوگوں کی کمریں ٹوٹ رہی ہیں مگر پیش قدمی نہیں کرسکتے۔ یہ پہل اور پیش قدمی کرنا اور سادگی کو رواج دینا تحریک کے وابستگان خصوصاً قائدین کا فرض ہے۔
’فہم دین کا مسئلہ‘ (اکتوبر ۲۰۰۸ئ) نظر سے گزرا۔ تحریر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ دین کے نام پر انتہاپسندی اور تشدد کے جو بھی واقعات سامنے آرہے ہیں ان کے پیچھے طالبان کا ہاتھ ہے۔ ’دہشت گردی‘ کا کوئی واقعہ پیش آجائے، لڑکیوں کے اسکول جلا دیے جائیں تو ہمارے چینل اور ملکی و بین الاقوامی این جی اوز، سب اس کا الزام طالبان پر دھرتے ہیں۔یہ پہلو نہیں دیکھا جاتا کہ اسلام کو بدنام کرنے کے لیے طالبان کے روپ میں امریکی، اسرائیلی یا بھارتی ایجنٹ یہ کام دکھا رہے ہیں؟ ہمارے حکمران بھی بلاسوچے سمجھے، یا قصداً امریکا کی ’دہشت گردی‘ کی اس جنگ کو جو دراصل اسلام کے خلاف صلیبی جنگ ہے اپنی جنگ قرار دے رہے ہیں اور پاکستان فرنٹ لائن اتحادی بن کر ہرطرح سے تعاون کر رہا ہے۔ پاکستان کی خودمختاری روز پامال ہورہی ہے۔ مگر ہماری سرکار اپنے مضحکہ خیز اعلانات میں شرم محسوس نہیں کرتی۔