جمہوریت کی برکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حکومتوں کو عوام کی خواہشات اور ضروریات کا کچھ نہ کچھ خیال رکھنا پڑتا ہے اور اگر جواب دہی کا موثر نظام موجود ہو تو یہی چیز وسائل کے بروقت استعمال اور عوام کی مشکلات کے حل کا اہم ذریعہ بن سکتی ہے۔ آمریت کے ادوار میں تو ساری توجہ ورلڈبنک ‘ آئی ایم ایف اور فوجی اور سول بیوروکریسی کی دل پسند ترجیحات پر مرکوز رہتی ہے‘ لیکن جیسے ہی الیکشن کے آثار رونما ہوتے ہیں فوجی حکومت بھی عوام کے لیے سہولتوں کی باتیں (کم ازکم باتیں) کرنے لگتی ہے اور الیکشن کے نتیجے میں رونما ہونے والی حکومتیں تو بڑھ چڑھ کر عوام کے مسائل ہی کو اپنی ترجیح بتاتی ہیں۔ اعلانات کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔ یہ اسی وقت خوش آیند ہے جب ان پر عمل ہو اور صرف نمایشی اقدامات پر قناعت نہ کی جائے‘ بلکہ حقیقی مسائل کو وسائل کے موثر استعمال‘ صحیح ترجیحات اور بدعنوانی کو لگام دے کر حل کیا جائے۔
اس پس منظر میں پنجاب کی صوبائی حکومت کا اپنی کابینہ کے پہلے ہی اجلاس میں (۴جنوری ۲۰۰۳ئ) یہ اعلان کہ صوبے میں میٹرک تک سرکاری اور ضلعی اداروں میں تعلیم مفت ہوگی۔ تازہ ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا ہے۔ سرحد کی حکومت نے بھی اپنی دوسری اصلاحات کے ساتھ جن میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ اور فحاشی اور بے راہ روی پھیلانے والے چند اقدامات پر گرفت اور اُردو کو سرکاری زبان بنانا شامل ہے ‘میٹرک تک مفت تعلیم کا اعلان (۲۱ جنوری ۲۰۰۳ئ) کر دیا ہے۔ ہم ان اقدامات کا خیرمقدم کرتے اور انھیں مستقبل کے لیے ایک نیک فال تصور کرتے ہیں۔ ہم اس توقع کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ باقی دو صوبوں کی حکومتوں کو بھی اس سلسلہ میں جلد اقدام کرنا چاہیے‘ تاکہ پورے ملک میں سرکاری اور ضلعی حکومت کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں میں میٹرک تک تعلیم مفت ہو اور ملک کے طول و عرض میں کم از کم اس محدود میدان میں یکسانی پیدا ہو۔ ہم ان اقدامات کی خوش الحانی پر مایوسی کا کوئی سایہ ڈالنا نہیں چاہتے لیکن صرف امر واقعہ کے طور پر یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ ۱۹۷۲ء میں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے نام نہاد عوامی دور کا آغاز جن چند اقدامات سے کیا تھا‘ ان میں ملک بھر میں میٹرک تک مفت تعلیم بھی شامل تھی لیکن یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا۔ اصل میزان عمل ہے‘ اعلان نہیں اس لیے اب ان منتخب حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ اس فیصلہ پر لفظ و معنی ہر دو اعتبار سے پورا پورا عمل کروائیں۔
اس اقدام کی تحسین کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان حکومتوں کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ تعلیم کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ سرکاری اسکولوں میں پرائمری تعلیم مفت ہے اور میٹرک تک تعلیم کے لیے ۵ روپے ماہانہ سے ۲۰ روپے ماہانہ تک فیس ہے۔ اس رقم کا بوجھ غریب عوام کی پشت سے اگر کم ہو جائے تو یہ اچھا ہے لیکن اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ فروغ تعلیم کے لیے یہ اقدام مشکل کشا ہوگا تو بڑا گمراہ کن ہوگا۔ غریب بچوں پر سرکاری اسکولوں میں فیس کے علاوہ سب سے زیادہ بوجھ کتابوں اور اسٹیشنری کا ہے جو فیس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال ہر بچے کے والدین پر آٹھ سو سے ایک ہزار روپے تک کا بوجھ اس عنوان سے پڑتا ہے۔ پھر یونیفارم کا مسئلہ ہے‘ ہم نصابی سرگرمیوں کے لیے چندہ ہے‘ پورے دن کے اسکولوں میں بچوں کی خوراک بھی ایک مسئلہ ہے۔ مفت تعلیم اسی وقت مفت ہو سکتی ہے جب ان سب کی ذمہ داری ریاست اور معاشرہ لے جو اس کا فرض ہے۔ بنیادی تعلیم ایک حق ہے جسے کاروباری ذہن سے ادا نہیں کیا جا سکتا۔
یہ سب بجا‘ لیکن سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری اداروں میں تعلیم کا معیار اتنا پست اورتعلیمی سہولتوں (بلڈنگ‘ صفائی‘ روشنی‘ پانی‘ لائبریری‘ اچھا استاد وغیرہ) کی فراہمی ایسی زبوں حالی کی تصویر پیش کرتی ہے کہ اس کا تصور بھی مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نجی اداروں کی جو ریل پیل ہے اس کی اصل وجہ سرکاری اور ضلعی انتظام میں چلنے والے تعلیمی اداروں کی بدحالی ہے۔ غریب سے غریب انسان بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے ان اداروں کو قتل گاہیں سمجھتا ہے اور پیٹ کاٹ کر اور قرض لے کر اپنے بچوں کو پرائیویٹ اداروں میں بھیجنے کی فکر کرتا ہے۔ اصل مسئلہ سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار‘ ان کی بلڈنگ اور سہولتوں اور سب سے بڑھ کر اچھے تربیت یافتہ اور جذبے سے بھرپور اساتذہ کی فراہمی ہے۔ جب تک اس لحاظ سے صورتِ حال درست نہیں ہوتی عوام کا رجوع سرکاری تعلیمی اداروں کی طرف نہیں ہو سکتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ محکمہ تعلیم تک کے افسر اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں بھیجنا پسند نہیں کرتے؟ اصل مسئلہ سرکاری تعلیم اور نجی تعلیمی اداروں کے تعلیمی معیار کے تفاوت کو دُور کرنا ہے اور جب تک آپ سرکاری تعلیمی اداروں کو اتنا پُرکشش نہیں بناتے کہ والدین نجی اداروں کا رُخ نہ کریں‘ تعلیم کا مسئلہ علیٰ حالہ باقی رہے گا اورگمبھیرنہ ہوتا جائے گا۔
پھر تعلیمی پالیسی کے مسائل بھی فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کو قومی تعلیمی پالیسی کے فریم ورک میں لانا‘ ان کے لیے نگرانی کا‘ خصوصیت سے نظریاتی اور ثقافتی معاملات میں بہت ضروری ہے۔ آج ہمارے ملک میں ایک نہیں کئی کئی تعلیمی نظام چل رہے ہیں‘ کچھ اشراف اور متمول گھرانوں کے لیے اور کچھ مجبور اور بے وسیلہ طبقوں کے لیے۔ یہ چیز قوم کو نظریاتی‘ اخلاقی‘ معاشی اور ثقافتی حیثیت سے ٹکڑوں میں بانٹ رہی ہے ۔ اس سے طبقاتی تفاوت ہی پیدا نہیں ہو رہا‘ طبقاتی جنگ کے لیے بھی زمین ہموار ہو رہی ہے۔ نجی اداروں میں بے مہار انداز میں پبلک اسکول‘ اور کونونٹ اسکول ہی کم مصیبت نہ تھے کہ انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم بنانے اور بیرونی تعلیمی نظاموں (او لیول/ اے لیول) سے رشتہ جوڑنے کے نتیجے میں ہمارے تعلیمی ادارے ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جن کے فکرونظر اور جذبات و احساسات کا رشتہ ملک سے باہر جڑ رہا ہے۔ وہ اپنے وطن اور اپنے گھر میں اجنبی بنتے جا رہے ہیں۔ تعلیمی معیار اور تعلیمی پالیسی کے یہ مسائل فوری توجہ کے محتاج ہیں اور ہم توقع رکھتے ہیں مرکزی اور صوبائی حکومتیں ان کی طرف فوری توجہ دیں گی۔
مرکز اور صوبہ سندھ میں آنکھ مچولی کے مختلف کھیلوں کے بعد بالآخر ایم کیو ایم نے جنرل پرویز مشرف کی ذاتی مداخلت کے نتیجے میں اپنا گورنر مقرر کرا لیا اور صوبائی حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اس وقت ہمارا موضوع ایم کیو ایم کا کردار نہیں‘ بلکہ ملک کی سیاست میں فوجی ایجنسیوں کا کردار ہے جس کا سب سے نمایاں سرٹیفیکیٹ خود جناب الطاف حسین نے اپنے گورنر کے تقرر اور سندھ کی حکومت بننے پر ان الفاظ میں دیا ہے۔ انھوں نے نام لے کر اپنی اس کامیابی کا سہرا جنرل پرویز مشرف (چیف آف اسٹاف)‘ جنرل احسان الحق (آئی ایس آئی کے ڈائرکٹرجنرل)‘ میجر جنرل احتشام ضمیر (آئی ایس آئی کے ڈپٹی ڈائرکٹر) اور جنرل مشرف کے بیوروکریٹ معاون طارق عزیز کے سر باندھا ہے اور ان کا نہ صرف شکریہ ادا کیا ہے بلکہ انھیں اس عظیم خدمت پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اور ہمیں اس کا اعتراف ہے کہ کم از کم اس بات کی حد تک الطاف حسین صاحب نے اصل حقائق کو بلاکم و کاست کھلم کھلا بیان کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آج وہ اس پر ممنونیت کا اظہار کر رہے ہیں اور کل وہ انھی ایجنسیوں کو سب و شتم کا نشانہ بنا رہے تھے اور ان کے خون کے پیاسے تھے۔ صرف ریکارڈ کی خاطر عرض ہے کہ ایم کیو ایم کی سرکاری ویب سائٹ پر فوج‘ اس کی قیادت اور آئی ایس آئی کے ذمہ دار حضرات کے بارے میں گذشتہ سالوں بلکہ مہینوں تک میں جو کچھ آتا رہا ہے‘ اس پر سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو ایم کیو ایم نے اپنے اس نظریاتی موقف کے ساتھ کہ:
ہندستان کی تقسیم انسانیت کی تاریخ کی عظیم ترین غلطی تھی۔
نام لے کر فوج اور اس کے اداروں کو اپنا دشمن قرار دیا ہے اور فوج اور پولیس کے ۴۸ اعلیٰ افسروں کو "most wanted people" قرار دیا۔ اس فہرست میں آئی ایس آئی‘ آئی بی اور ایف آئی اے کے نام سب سے اُوپر تھے۔ ان ناموں میں لیفٹیننٹ جنرل مظفرعثمانی‘ لیفٹیننٹ جنرل نصیراختر‘ لیفٹیننٹ جنرل اسعد درانی‘ میجر جنرل نصیراللہ بابر‘ کرنل عبید اور خفیہ ایجنسیوں کے طارق لودھی ‘ مسعود شریف اور رحمان ملک خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جس آئی ایس آئی کے ڈائرکٹر اور ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل کو آج پھول پہنائے جا رہے ہیں اس آئی ایس آئی کے بارے میں ان کی ویب سائٹ کا فتویٰ یہ ہے:
آئی ایس آئی بدنام زمانہ ہے۔ اسے ریاست در ریاست قرار دیا جاتا ہے یا پاکستان کی نہ دکھائی دینے والی حکومت۔ اس نے بھارتی کشمیر میں مسلمان باغیوںکو اسپانسر کیا ہے‘ اور طالبان کو کھڑا کیا ہے اور افغانستان میں اس کے باطن عرب مہمانوں کی سرپرستی کی ہے--- گو یہ ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس کے پنجے پاکستانی سیاست‘ عدالت اور روز مرہ زندگی تک گڑے ہوئے ہیں۔ سب اس سے ڈرتے ہیں۔ کسی آئی ایس آئی افسر کی ایک زہریلی سرگوشی کسی کے کیریر کے تباہ کرنے‘ گرفتار کرنے یا اس سے بھی بدتر انجام تک پہنچانے کے لیے کافی ہے۔
ایم کیو ایم کو مبارک ہو کہ اس ’’زہریلی سرگوشی‘‘سے اب وہ گورنری اور وزارتوں پر متمکن ہے اور ’’تھا جو ناخوب‘‘ وہ خوب بلکہ خوب تر ہوگیا۔
ایم کیو ایم‘ جس کے بارے میں واقفانِ حال جانتے ہیں کہ اس کا قیام بھی اسی ’’سرگوشی‘‘کا رہینِ منت ہے‘ اور اس کی خون آشام جولانیاں بھی اس کی سرپرستی اور حفاظتی چھتری میں کراچی اور حیدرآباد کو خون کی ہولی کھلاتی رہی ہیں اور پھر اس کا دور ابتلا بھی انھی سرپرستوں کو آنکھیں دکھانے کی پیداوار تھا اور اب اس کا نیا ہنی مون بھی انھی کی کرشمہ سازی ہے--- یہ سب بجا‘ لیکن کیا یہ سب قوم اور تمام سیاسی جماعتوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں! کیا ایجنسیوںکا ہماری زندگی میں اس طرح دخیل ہونا اور کھل کھیلنا گوارا کیا جا سکتا ہے؟ کیا حاضرسروس فوجی اور سول حکام کو اسی طرح سیاسی جوڑ توڑ اور بنائو بگاڑ کی کارفرمائی کی چھوٹ ملی رہنا چاہیے؟ کیا وقت نہیں آگیا کہ سب مل کر ’’بس بہت ہو چکا‘‘ (enough is enough)کہہ دیں تاکہ سول نظام فی الحقیقت سول اور جمہوری نظام کی صورت اختیار کرسکے۔
ورلڈ بنک کی ایک تازہ رپورٹ میں جو ۱۹۹۹ء کے حالات کے جائزے پر مشتمل ہے یہ وحشت ناک حقائق دنیا کے سامنے پیش کیے گئے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں ۱۹۹۹ء میں ۱۷۵ ارب سگریٹ کام و دہن کو دھواں دار کرنے کا باعث ہوئے لیکن پاکستان‘ اس علاقے کی آبادی کا صرف دس فی صد ہونے کے باوجود‘ سگریٹ نوشی میں ۳۲ فی صد حصہ بٹانے والا ملک ہے۔ (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۲۵ دسمبر ۲۰۰۲ئ)۔ ۱۵ سال کی عمر سے بڑے افراد کا تناسب اگر نکالا جائے تو اگرچہ علاقے کا اوسط ۱۵ پیک فی کس ہے لیکن پاکستان میں ۳۰ پیک فی کس سے متجاوز ہے۔ تپ دق اور سرطان جیسے موذی مرض اس کا عطیہ ہیں۔ پورے علاقے میں سگریٹ سے پیدا ہونے والے امراض میں ہر سال خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ مردوں میں اس کا استعمال اور سگریٹ نوشی پر مبنی امراض سے اموات کا تناسب عورتوں میں کہیں زیادہ ہے۔ اس تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سگریٹ نوشی کے فروغ میں سب سے اہم کردار سگریٹ کے اشتہارات کا ہے۔ بھارت نے ان پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے لیکن پاکستان میں اس کی کوئی فکر نہیں۔ اور ذرا سی آمدنی (ریونیو) کے لیے سگریٹ سے خودسوزی کی بلا کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جو قومی خودکشی کے مترادف ہے۔ پاکستان ٹوبیکو کمپنی نے اپنے طور پر اشتہارات پر کچھ پابندیاں عائد کر کے اچھا اقدام کیا ہے مگر اسے بھی پبلسٹی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ملک کی نئی جمہوری حکومت کو خودسوزی کے اس عمل کو لگام دینے کے لیے جلد موثر تدابیر اختیار کرنا چاہییں۔