دین اسلام حصول علم اور بحث و تحقیق کو ایک پسندیدہ امر قرار دیتا ہے۔ اُمت مسلمہ پر یہ فرض کفایہ ہے کہ وہ اُن تمام شعبہ ہاے علوم میں دسترس اور مہارت پیدا کرے جو اس کے دین اور دنیا سنوارنے کے لیے مطلوب ہیںیہاں تک کہ علوم و فنون کے ہر اختصاص اور شعبے میں وہ خودکفیل ہو جائے اور اغیار کی محتاج نہ رہے۔ اسلام کا تصور علم یہ ہے کہ انسان کے اعمال و اخلاق کی طرح معیشت‘ سیاست‘ جنگ‘ سب کچھ دین کے تقاضوں پر پورے اُترنے والے ہوں۔ اسلام اس نظریے کا قائل نہیں کہ دنیاوی امور کا رشتہ دین اور اخلاق سے منقطع کردیا جائے۔ جیساکہ حریت علم‘ حریت اقتصاد‘ حریت سیاست وحرب کا نعرہ لگانے والے یہ باور کراتے ہیں کہ دین اور اخلاق کو ان امور سے الگ تھلگ رہنا چاہیے کیونکہ اس طرح ترقی کی راہ کھوٹی ہوتی ہے‘ اس کا میدان تنگ ہو جاتا ہے اور حرکت و ایجاد ماند پڑ جاتی ہے۔ درحقیقت اسلام ایسے تمام نظریات کو رد کرتا ہے جس سے علم و اقتصاد اور سیاست وغیرہ میں بگاڑ اور فساد در آتا ہے اور یہ شرط عائد کرتا ہے کہ زندگی میں تمام کام دین کے تابع ہونے چاہییں۔
شریعت اسلامی کا مزاج جو تمام صریح نصوص‘ واضح فقہی اصول اور مقاصد عامہ کی رعایت سے اخذ شدہ ہے اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ انسانی کلوننگ اختیار کی جائے۔ اس کے اختیار کرنے سے درج ذیل مفاسد پیدا ہونے کا یقینی خطرہ موجود ہے۔
تنوع کی نفی
پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تنوع کے ساتھ قائم کیا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کا ذکر آیا ہے۔ تخلیق عباد کے ساتھ قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کے رنگ مختلف ہیں۔ اس طرح مختلف رنگ کا ہونا تنوع کو ظاہر کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ذریعے سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ پہاڑوں میں بھی سفید‘ سُرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘ ۔(فاطر ۳۵:۲۷-۲۸)
کلوننگ تصویر کائنات سے ان رنگوں کو مٹا دینا چاہتی ہے چونکہ وہ ایک ہی طرح کے متعدد اجسام ڈھالنے کی دعوے دار ہے۔ اس کے سبب انسانی زندگی میں انفرادی اور اجتماعی معاملات میں مفاسد کا در آنا یقینی ہے۔ اس کا کچھ ادراک ہر صاحب عقل کر سکتا ہے اور مزید کچھ مفاسد شاید ابھی احاطۂ ادراک میں نہ آ سکیں۔
ایک ایسی درس گاہ کا تصور کیجیے جس میں کلوننگ سے پیدا شدہ طلبہ زیرتعلیم ہیں۔ کس طرح استاد ان طلبہ کی شناخت کا معمّا حل کر سکے گا؟ وہ کیسے معلوم کرے گا کہ ان میں کون کون ہے؟ اسی طرح ایک تفتیش کرنے والا پولیس آفیسر ارتکاب جرم پر مجرم کو کیسے گرفتار کر سکے گا‘ جب کہ ایک ہی چہرے‘ قدوقامت اور انگلیوں کے نشانات رکھنے والے بیسیوں افراد جاے واردات پر موجود ہوں؟ اسی طرح ایک شوہر اپنی بیوی کو کس طرح پہچانے گا‘ جب کہ اس کے سامنے صد فی صد مشابہ یا فوٹوکاپی کی گئی کئی عورتیں ہوں؟ وغیرہ وغیرہ۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس بات کا ہرگز اطمینان نہیں ہے کہ کلوننگ شر کے لیے استعمال نہ ہو۔ آج جوہری طاقت اور دیگر مہلک ہتھیار بڑے پیمانے پر زمین اور اس پر بسنے والے انسانوں کی تباہی و بربادی کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کون ہمیں یہ ضمانت دیتا ہے کہ بڑی طاقتیں اور ان کے حلیف کلوننگ کے عمل سے ایک قوی اور وحشی فوج تیار کر کے دیگر اقوام کو روند نہ ڈالیں گے؟ کون ہمیں یہ یقین دلا سکتا ہے کہ یہ بڑی طاقتیں کلوننگ کا استعمال صرف اپنے لیے خاص نہیں کر لیں گی اور دیگر اقوام کے لیے اس کے استعمال پر پابندی نہیں لگا دیں گی؟ جیساکہ ایٹمی اسلحے کے سلسلے میں انھوں نے کیا ہے۔
کلوننگ کی جو کچھ معلومات ہم تک پہنچ رہی ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس سے رشتۂ ازدواج کی بیخ کنی ہوتی ہے اور اس کائنات کی سنتِ زوجیت پر ضرب پڑتی ہے جس میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مرد اور عورت کی شکل میں جوڑے بنائے ہیں۔ اسی طرح سے حیوانات میں پرند‘ چرند‘ کیڑے مکوڑے اور دیگر اصناف میں نر اور مادہ بنائے اور تمام نباتات میں بھی یہ سنت قائم و دائم ہے۔ جدیدعلوم سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جوڑے یا زوجیت کا تصور جمادات میں بھی موجود ہے‘ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ بجلی‘ مثبت اور منفی عناصر سے عبارت ہے۔ یہاں تک کہ ایک ذرے (atom) کے اندر بھی الیکٹران اور پروٹان کی شکل میں یہ حقیقت جلوہ گر ہے۔ قرآن کریم اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کرتا ہے:
پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا اُن اشیا میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں۔ (یٰسٓ ۳۶: ۳۶)
اس کے برعکس کلوننگ ایک جنس واحد کی تکرار اور دوسری جنس سے لاتعلقی کو فروغ دیتی ہے۔ اس پس منظر سے وہ امریکی عورت پوری طرح آگاہ ہے جس نے کہا کہ کلوننگ کی کامیابی کا یہ مطلب ہوگا کہ یہ دنیا مستقبل میں صرف اور صرف عورتوں کی ہوگی۔ دراصل کلوننگ اس فطرت سے بغاوت ہے جس پر اللہ نے انسانوں کی تخلیق کی۔ اس کے ذریعے انسانیت کی بھلائی کی تلاش ایک فعل عبث ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے عین مطابق صرف افزایش نسل ہی کے لیے نہیں بلکہ ایک دوسرے کی طمانیت اور تکمیل کی خاطر جنس مخالف کا محتاج رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
جواب میں ان کے رب نے فرمایا: ’’میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت‘ تم ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ (آل عمران ۳: ۱۹۵)
جب اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو پیدا کیا اور انھیں جنت میں آباد کیا تو انھیں جنت میں بھی اکیلے نہیں چھوڑا بلکہ ان کے لیے ان کی پسلی سے ان کی زوجہ کو بنایا تاکہ وہ ایک دوسرے کے لیے باعث تسکین ہوں۔
پھر ہم نے آدم سے کہا کہ ’’تم اور تمھاری بیوی‘ دونوں جنت میں رہو‘‘۔ (البقرہ ۲:۳۵)
مرد اور عورت ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ ان میں باہم اُنس اور مودت رکھی گئی ہے۔ ان کی اولاد کو ان دونوں کی مزید شدت سے ضرورت رہتی ہے۔ وہ اس خاندان کے محتاج رہتے ہیں جہاں پر ماں کی محبت اور باپ کی نگہداشت انھیں میسر آئے۔ اور یہی تعلق انھیں اپنے خاندان اور معاشرے کی خیرخواہی پر اُکساتا ہے اور ان کے اندر جود و عطا‘ تفاہم باہمی اورخیرکے لیے تعاون جیسی کیفیات پیدا کرنے کا محرک بنتا ہے۔
لوگ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ طویل تر عہد طفولیت انسانوں ہی میں پایا جاتا ہے جو کئی برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ اس کے دوران بچہ اپنے ماں باپ اور خاندان کے مادی اور اخلاقی سہارے کا قدم قدم پر محتاج ہوتا ہے۔ اس کی تربیت مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ والدین اس سے پیار و محبت سے نہ پیش آئیں اور اپنی محنت کی کمائی اس پر خرچ نہ کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ وہ سن بلوغت کو پہنچ جائے۔ والدین عام طور سے اولاد کے لیے جو کچھ کرتے ہیں اُس پر خوش رہتے ہیں‘ نہ اپنے احسانات شمار کرتے ہیں اور نہ کوئی تکلیف ہی کا احساس اولاد کی پرورش میں مانع ہوتا ہے۔ لیکن کلوننگ مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے فطری تعلق سے آزاد کرتی ہے اور اُس خاندان کی بنیاد ڈھا دیتی ہے جہاں انسان پرورش پاتے ہیں اور ان کی اولین تربیت ہوتی ہے۔
جس انسان سے مادہ لے کر کلوننگ کی جائے گی اور جو نومولود ہوگا‘ ان میں کیا رشتہ و تعلق ہوگا؟ یہ ایک بڑا معمّا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ نومولود ایک الگ وجود رکھتا ہے چاہے وہ اپنے محسن/ ہم زاد کی مکمل اور مماثل جسمانی‘ عقلی اور نفسیاتی صفات رکھتا ہو۔ لیکن وہ ایک معنی میں دوسرا بھی نہیں ہے بلکہ ان دونوں میں صرف زمانی اختلاف ہے۔ دیگر صفات کی مماثلت کے باوجود نومولود ایک نئی شخصیت میں ڈھل جائے گا۔ اسے مختلف ماحول اور ثقافت میسر آئے گی۔ چونکہ عقیدہ‘ سلوک اور معرفت کسب کیے جاتے ہیں‘ وراثت سے سرشت کا حصہ نہیں بن جاتے‘ اس طرح یہ نیا شخص ہی شمار کیا جائے گا۔ لیکن اس کا اپنے سینیر(senior)سے کیا رشتہ ہوگا؟ کیا وہ بیٹا ہوگا؟ یا بھائی ہوگا؟یا لاتعلق ہوگا؟ یہ ایک بنیادی سوال اُٹھے گا۔ بعض لوگ قیاس کرتے ہیں کہ وہ بیٹا ہوگا کیونکہ وہ اس کا جز ہے۔ لیکن یہ بات اسی وقت منطقی ہوگی جب کہ مادہ رحمِ مادر میں ڈالا جائے‘ اور اس کی طبیعی طریقے پر ولادت ہو۔ جیساکہ قرآن میں آتا ہے: ’’ان کی مائیں تو وہی ہیں جنھوں نے ان کو جنا ہے‘‘ (المجادلۃ ۵۸:۲)۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نومولود کی ماں ہوگی اور باپ نہیں ہوگا۔
بعض حضرات کی رائے میں یہ جڑواں بھائی ہوگا لیکن بھائیوں کی اصل تو ماں باپ ہوتے ہیں اور جب اصل ہی نہ رہے گی تو فرع کیسے ثابت ہوگی۔
یہ تمام پیچیدگیاں اس بات کی متقاضی ہیں کہ ان تمام مفاسد سے بچنے کے لیے کلوننگ کا انکار کر دیا جائے۔
کلوننگ امراض کے علاج میں کس طرح استعمال ہوگی‘ یہ میں نہیں جانتا۔ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ کلوننگ شدہ انسان‘ طفل یا جنین بنائے جائیں تاکہ ان کے اعضا نکال کر مریض انسانوں کے علاج میں کام آئیں تو یہ صورت ہرگز جائز نہیں ہوگی۔ کیونکہ مخلوق باحیات ہے چاہے کلوننگ کے ذریعے ہی پیدایش ہوئی ہو۔ اس لیے اس کے اعضا ے جسم کو ضائع نہیں کیا جاسکتا چاہے وہ ابھی مرحلۂ طفولیت یا جنین ہی میں کیوں نہ ہو۔ اس کی حرمت وقوع پذیر ہوچکی ہے۔
اگر کلوننگ سے مخصوص اعضاے جسم ہی کی پیداوار ہو سکے جیسے دل‘ جگر‘ گردے وغیرہ تاکہ محتاج مریض اور معذور افراد کے کام میں لائے جائیں تو یہ صورت مقبول ہے۔ دین میں پسندیدہ ہے اور باعث ثواب ہے۔ چونکہ یہ طریقۂ کار انسانیت کے لیے نفع بخش ہے اور یہ کسی دیگر مخلوق کو ایذا پہنچائے بغیر‘ نیز کسی حرمت کو پامال کیے بغیر یہ مقصد حاصل ہو رہا ہے--- اس لیے اس طرح کے تمام استعمال شرعی حدود کے اندر سمجھے جائیں گے بلکہ یہ مطلوب اور مستحسن کام ہوگا۔ بعض حالات میں بقدر ضرورت اس کی اہمیت و افادیت اور بڑھ جائے گی۔
اولاً یہ کہ کلوننگ جیسا کہ بعض تصور کرتے ہیں کسی جان دار کی بذاتِ خود تخلیق نہیں ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ مادئہ تناسل کو مخصوص طریقے سے نشوونما دینا ہے۔ کلوننگ کے دوران ایک بالغ ذی روح کے جسمانی خلیہ (somatic cell) سے حاصل کردہ مرکزے (nucleus) کو ایک بیضہ (egg) میں داخل کیا جاتا ہے جس کا مرکزہ نکال لیا گیا ہو۔ اس طرح جس مولود کی نشوونما ہوتی ہے اُس میں اُس ذی روح سے جس سے somatic cell nucleus لیا گیا ہو مکمل جینیاتی مماثلت ہوتی ہے۔ اس پورے عمل کی بنیادبیضہ اور جسمانی خلیہ کا استعمال ہے جس کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے کی ہے۔ نشوونما اسی فطری دائرے میں ہو رہی ہے جس پر یہ سارا عالم قائم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو قائم کیا ہے۔
ثانیاً یہ کہ شاید کلوننگ کے علم سے دین کے اساسی عقیدے حیات بعد موت کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوگی۔ دورِ قدیم کے مشرکین ہوں یا آج کے مادہ پرست‘ موت کے بعد زندہ کیے جانے کے تصور کو بعیداز حقیقت واہمہ سمجھتے رہے ہیں۔ مگر آج کلوننگ کی ٹکنالوجی یہ ثابت کر رہی ہے کہ صرف بیضہ اور خلیہ کے واسطے سے انسان اپنی اصل شکل و صورت پر پھر سے وجود میں آسکتا ہے۔ پس اگر اس معاملے میں انسان اتنی قدرت حاصل کر سکتا ہے تو کیا اللہ تبارک و تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ انسانوں کو دوبارہ اس مادے سے زندہ کرے جو حدیث میں عجب الذنب کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے‘ جو انسان سے فنا نہیں ہوتا‘ یا کسی بھی واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ اس کو دوبارہ زندگی میں لا سکتا ہے جو ہمارے علم سے بعید ہے۔
وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے‘ پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے۔ (الروم ۳۰: ۴۷)