فروری ۲۰۰۳

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| فروری ۲۰۰۳ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

محمد اسلام خان  ‘  لاہور

جنوری ۲۰۰۳ء کا ترجمان القرآن ادارے کی جدت پسندی کا مظہر بن کر موصول ہوا۔ پہلا تاثر تو یہ ہے کہ دل ترجمان کا یہ حلیہ قبول کر رہا ہے نہ نگاہیں‘ ممکن ہے یہ تاثر آخری نہ ہو اور اجنبیت مانوسیت میں بدل جائے۔

ترجمان القرآن کوبالخصوص پاکستان جو جماعت اسلامی کا اولین میدان عمل ہے‘ کے عوام کو نفسیاتی‘ معاشرتی اور معاشی عنوانات سے جو متنوع مسائل درپیش ہیں ان پر ٹھوس تحقیق کر کے جواب فراہم کرنا چاہیے۔ پاکستانیت‘ ترجمان القرآن میں کم کیوں ہے؟ معیشت و معاشرت کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے مسلمانوں کو انفرادی سطح پر کیا کرنا چاہیے اور تہذیب و تمدن کے اسلامی تہذیب و تمدن بننے کے درمیان کون کون سے مرحلے دکھائی دے سکتے ہیں ان کا ذکر ترجمان کے صفحات میں بہت کم ہے۔

’’رسائل و مسائل‘‘ میں سوال پیش ہوتا ہے ‘ جواب دیا جاتا ہے لیکن سوال پھر اپنی جگہ برقرار رہتاہے۔ ’شادی سے قبل ملاقاتیں‘ (جنوری ۲۰۰۳ئ)کے عنوان سے شائع ہونے والا سوال اس کی ایک مثال ہے۔

اسلامی تحریکوں کا تعارف ترجمان میں شائع ہوتا ہے لیکن ان تحریکات اسلامی پر تنقید کی جرأت دکھائی نہیں دیتی۔ ان تحریکات کے تجربات سے سیکھنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مختلف النوع تحریکات سے تعمیری بحث مباحثے کو فروغ ملے۔ ماریاہولٹ کے مضمون کا جو ترجمہ جنوری کے شمارے میں شائع ہوا ہے زیادہ معلومات افزا نہیں۔


مولانا محمد سلطان ‘  لاہور

بانی ترجمان القرآن کی روح کو شاید موجودہ چھوٹے قد کے ترجمان کو دیکھ کر حیرت ہوئی ہوگی۔


ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم ‘ فیصل آباد

ترجمان کا تازہ شمارہ موصول ہوا۔ نئے سائز کو دل نے قبول نہیں کیا۔


سید وقاص انجم ‘ لاہور

ترجمان القرآن نے مسلسل محنت کرکے جو نام کمایا ہے اس پر اللہ کا شکر بجا لانا اور ترجمان کی ٹیم کی محنت کو سراہا نہ جانا زیادتی ہوگی۔ پروفیسر خورشید صاحب جس عرق ریزی اور دل سوزی سے اشارات قلم بند کر رہے ہیں وہ زورِ قلم نہیں بلکہ خونِ جگر سے عبارت ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں سلامت رکھے۔ آمین!

ترجمان کے سائز کو کم کرنا (حجم بڑھانے کے باوجود) میری نظر میں درست نہیں۔ ترجمانکا سمٹنا کچھ جچ نہیں رہا۔

مضامین کے انتخاب‘ عنوانات کے تنوع اور مسائل پر گرفت کے حوالے سے ترجمان اب الحمدللہ ایک ایسا رسالہ بن گیا ہے کہ جس کے نہ ملنے سے تشنگی کا احساس رہتا ہے۔


اظہراقبال حسن ‘  لاہور

مجھے ترجمان القرآن سے دلی لگائو ہے اور مرحوم و مغفور استاذ خرم مرادؒ سے کیے گئے وعدے کے مطابق ترجمان کی اشاعت میں اضافے کی کوشش بھی کرتا رہتا ہوں۔ جنوری ۲۰۰۳ء کے شمارے کا چھوٹا سائز بہت اچھا اور بھلا لگا۔ ترجمان کی انتظامیہ نے قارئین پر احسان کیا ہے کہ صفحے کا سائزکم مگر صفحات کی تعداد بڑھا کر مطالعے کے مواد میں اضافہ کر دیا ہے‘ جب کہ قیمت میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ یہ سائز اس لحاظ سے بھی بہت مناسب لگا کہ ہاتھ میں آسانی سے آتا ہے اور کتاب نما محسوس ہوتا ہے‘ مجھے امید ہے کہ قارئین اس تبدیلی کو پسند کریں گے۔

اس بار ’’اشارات‘‘ کے ساتھ ’’شذرات‘‘ کا بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی مفید سلسلہ ہے۔ اس طرح کئی اہم مسائل زیربحث آسکیں گے اور تنوع بھی بڑھے گا۔ اللہ تعالیٰ ترجمان کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی دے تاکہ یہ تشنگان فکروعمل کی پیاس بجھاتا رہے۔


راشد نسیم ‘ کراچی

کئی ساتھی ایسے ملے جنھیں نئے سائز کا ترجمان پسند نہ آیا۔ مجھے تو بہت پسند آیا‘ بلکہ اچھا لگا۔ شاید ہم لوگ طرزِ کہن پر اڑنا نہیں چھوڑ سکتے۔


محمد حیات اعوان ‘ خوشاب

جنوری ۲۰۰۳ء کا پورا شمارہ ہی بہت موثر ہے۔ البتہ ’’موڈریٹ اسلام کی تلاش‘‘ مولانا مودودیؒ کی اپنی تربیت کے لیے ہدایات‘ خرم مرادؒ کا خطبہ ’’دل کی زندگی‘‘ اور ’’ڈیپریشن کا قرآنی علاج‘‘ خاصے کی چیزہیں۔


صابر نظامی ‘ قصور

’’موڈریٹ اسلام کی تلاش‘‘ (جنوری ۲۰۰۳ئ) میں پروفیسر خورشید احمد نے مغرب کی سازش کو بے نقاب کر دیا ہے۔ مغرب اسلام کو نظامِ حکمرانی سے دُور رکھنا چاہتا ہے اور ایک دور رس حکمت عملی سے اسلام کو مٹانے پر عمل پیرا ہے۔ پروفیسر صاحب کا تجزیہ بروقت رہنمائی ہے۔


ڈاکٹر نجات اللّٰہ صدیقی ‘ جدہ

یوں تو یادِ رفتگاں میں آپ جو کچھ بھی لکھتے ہیں پڑھنے کے لائق ہوتا ہے مگر ڈاکٹر محمدحمیدؒاللہ کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا وہ خاص چیز ہے۔ اللہ آپ کو جزاے خیر دے۔


ڈاکٹر محمد عبداللّٰہ ‘ لاہور

پروفیسر خورشید صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے اپنی ۴۰ سالہ خط و کتابت کا تذکرہ کیا ہے۔ بلاشبہہ ڈاکٹر حمیدؒاللہ سے سیکڑوں لوگوں کی خط و کتابت رہی۔ ان خطوط کو شائع کرنے کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ یہ بھی ان کی سیرت کا اہم پہلو ہے جو ابھی تک مخفی ہے۔ ان کی دیگر خدمات کا بھی تفصیل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ علم و تحقیق میں جو اسلوب انھوں نے اختیارکیا‘ کاش ہم اُسے برقرار رکھ سکیں!


سعید الرشید عباسی ‘ مری

’’یادِرفتگاں‘‘ (جنوری ۲۰۰۳ئ) میں پروفیسر خورشید احمد نے ڈاکٹرحمیدؒاللہ کی زندگی کا ایک انتہائی سبق آموز واقعہ بیان کیا کہ زندگی بھر میں ڈاکٹرحمیدؒاللہ صرف ایک مرتبہ کلاس میں تاخیر سے پہنچے اور تاخیر کا سبب اپنی والدہ محترمہ کی وفات بتایا۔ حقیقتاً تاریخ عالم کے روشن اُفق پر اُبھرنے والے ستارے اسی کردار اور پابندی کے حامل نظر آتے ہیں۔


عبدالواسع کاکڑ  ‘  پشین‘ بلوچستان

صدق، لکھنؤ ۱۹۵۵ء سے اخذ شدہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کا مضمون ’’رمضان کے بعد‘‘ فکر کو  جلا بخشنے اور عمل پر اُبھارنے والا ہے۔ اسلاف جو اس صدی میں گزرے ہیں یا ماقبل‘ برعظیم پاک و ہند کے ہوں یا عالم عرب کے--- ایمان کو روشن کرنے والی تحریروں کے انتخاب کا یہ سلسلہ مفید ہے۔

’’غیرمسلموں کے قانونی و مدنی حقوق‘‘ میں حامد عبدالرحمن الکاف کے دلائل وزنی ہیں۔ اس صدی کی زندہ تحریکوں کے اکابر نے بھی تحقیق و اجتہاد کی ضرورت محسوس کی ہے۔ اس سلسلے میں مولانا مودودیؒ، سید قطب شہیدؒ، نمایاں ہیں۔ اب ‘ جب کہ ’’حزبیت‘‘ سے نکل کر ہم ’’اجتماعیت‘‘ کی طرف جانے لگے ہیں‘ تمام مکاتب فکر کے اکابر کو اجتماعی اجتہاد کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس کرنا چاہیے۔