فروری ۲۰۰۳

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| فروری ۲۰۰۳ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

چہرے کا پردہ

سوال:  میں نے ایک سال پیشتر پردہ شروع کیا ہے۔ اس سے پہلے دورِ جاہلیت تھا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے ہدایت کے قابل سمجھا اور ہدایت دی۔ اب‘ جب کہ پورا پردہ شروع کیا ہے تو چہرے کے پردے کے حوالے سے اختلافی باتوں کا پڑھ کر طبیعت بہت بے زار اور افسردہ ہوتی ہے بالخصوص جب انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ریسرچ اسکالر طارق جان کا نقطۂ نظر روزنامہ جنگ میں ارشاد احمد حقانی کے کالم (۲۸‘ ۲۹ نومبر ۲۰۰۲ئ) میں چھپنے پر نظر سے گزرا۔مزید افسوس اس لیے بھی ہوا کہ وہ اس ادارے سے وابستہ ہیں جس کے آپ چیئرمین ہیں اور آپ جماعت اسلامی کے نائب امیر بھی ہیں۔ مجھے تو اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے سارے علما صرف سراب ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ ہم جیسے ہدایت کے پیاسے انھیں پانی سمجھ کر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ اگر قرآن کا ترجمہ پڑھیں تو بات واضح لگتی ہے کہ چہرے کا پردہ ضروری ہے۔ میری اس ذہنی اُلجھن کو دُور فرما دیجیے۔

جواب: اللہ تعالیٰ نے آپ کو پردے کی نعمت سے سرفراز فرما کر جس سعادت سے نوازا ہے‘ اس پر میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ وہ آپ کو استقامت بخشے اور دنیا و آخرت دونوں میں اجرعظیم سے نوازے۔ کبھی پردہ مسلم معاشرے اور ثقافت کی پہچان تھا اور آج اسے اختیار کرنا ایک جہاد کے مترادف ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی سعادت سے نوازا ہے۔بلاشبہہ آپ کا اپنا شوق اور ہمت ہی وہ چیز ہے جس نے آپ کو اس نعمت سے سرفراز کیا ہے۔

آپ نے روزنامہ جنگ کا جو تراشا بھیجا تھا میں نے اسے انگلستان کے قیام کے دوران ہی پڑھ لیا تھا۔ میں بلاتکلف عرض کرتا ہوں کہ برادرم طارق جان میرے عزیز ساتھی ہیں جو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس) میں ریسرچ فیلو کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ البتہ وہ اپنے خیالات کے خود ذمہ دار ہیں۔ نہ وہ میرے خیالات کی ترجمانی کر رہے ہیں اور نہ آئی پی ایس یا جماعت اسلامی ہی کا یہ موقف ہے۔ یہ ان کی ذاتی رائے ہے۔ میں اسی حجاب کا قائل ہوں جو ہمارے دور کے مقتدر علما بشمول مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے پیش کیا ہے۔ یہی قرآن پاک کی آیات اور احادیث نبویؐ سے معلوم ہوتا ہے۔ میں چہرے کے حجاب کا قائل ہوں اور میری اہلیہ الحمدللہ اسی پر عمل کرتی ہیں۔ البتہ میں یہ بات ضرور آپ سے کہنا چاہوں گا کہ اسلامی تاریخ میں‘ ماضی میں بھی اور آج بھی‘ اسلامی تحریکات اور دینی حلقوں سے وابستہ لوگوں کے درمیان جہاں حجاب کی فرضیت پر کوئی دو آرا نہیں‘ وہاں حجاب کی تفصیلات کے بارے میں ضرور محدود اور متعین اختلاف پایا جاتا ہے۔ ثقہ علما کا ایک گروہ چہرے کے حجاب کو ضروری سمجھتا ہے اور صرف آنکھ‘ ہاتھ اور پائوں کو ما ظھرمنھا کے ذیل میں شمار کرتا ہے‘ جب کہ ماضی کے علما اور فقہا میں سے بہت کم اور آج کے برعظیم پاک و ہند کے علما اور دوسرے اہل علم کے سوا ایک خاصی تعداد اس رائے کی حامی ہے کہ ہاتھ اور پائوں کے ساتھ بغیر زینت کے چہرہ کھلا رکھا جا سکتا ہے ۔ البتہ بال اور گردن ڈھکی ہونی چاہیے۔ عرب دنیا ‘ جنوب مشرقی ایشیا کے علاقوں کے علما اور اسلامی تنظیموں کا بحیثیت مجموعی یہی موقف ہے اور وہاں کی اسلامی تحریکات سے وابستہ خواتین اسی پر عامل ہیں۔ البتہ یہ وضاحت کر دوں کہ وہاں بھی ایک تعداد ایسے علما اور ان کے متبعین کی ہے جو چہرے کے حجاب کے قائل ہیں۔

میں نہ اپنے آپ کو فتویٰ کا اہل سمجھتا ہوں اور نہ کبھی یہ جسارت کی ہے۔ میرا اپنا تعامل ان علما کی رائے کے مطابق ہے جو چہرے کے حجاب کے قائل ہیں۔ لیکن یہ زیادتی ہوگی کہ جو لوگ اپنے دلائل کے مطابق چہرے کے حجاب کے قائل نہیں ہیں‘ انھیں اس زمرے میں ڈال دیا جائے جو بے پردگی اور مغربی ثقافت و بے حجابی کے قائل ہیں۔ ہمیں جہاں اس راستے کو اختیار کرنا چاہیے اور اسی پر استقامت کاثبوت دینا چاہیے جسے ہم شرعی دلائل یا معتبر علما کی رائے کے احترام کی بنیاد پر اختیار کرتے ہیں اور بجا طور پر اس پر ہمیں اطمینان اور فخرہونا چاہیے اور    اللہ تعالیٰ سے اجراور قبولیت کی توقع رکھنی چاہیے‘ وہیں اگر دوسرا نقطۂ نظر کچھ ایسے دلائل کی بنا پر ہے‘ جو خواہ ہمیں مطمئن نہ کر سکے لیکن جس کی نسبت شریعت کے ماخذ ہی کی طرف ہو تو ہمیں اس کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح فقہ کے مختلف مکاتب فکر میں اختلاف پایا جاتا ہے اور کہیں کہیں یہ اختلاف بڑا ہی نمایاں اور بظاہر تضاد تک پہنچ جاتا ہے لیکن اس کے باوجود صحیح راستہ یہی ہے کہ اس پورے اختلاف کو اپنی حدود میں رکھا جائے‘ تکفیر‘ تنقیص اور تضحیک کا راستہ اختیار نہ کیا جائے۔ عبادات سے لے کر معاملات بلکہ حدود کی سزائوں تک میںاختلاف پایا جاتا ہے۔ اسے اختلاف ہی رہنا چاہیے۔ افتراق اور تصادم کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔ میں مثالیں دینے سے عملاً احتراز کر رہا ہوں اور صرف اصولی بات تک اپنی گزارش کو محدود رکھ رہا ہوں۔ البتہ اختلاف الفقہا کے موضوع پر کتابوں میں اس مسئلے پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے اور شاہ ولیؒ اللہ کی کتاب اس بارے میں ایک مفید علمی ماخذ ہے۔

میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔ آپ نے جو عملی راستہ اختیار کیا ہے اس پر آپ کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں لیکن چاہوں گا کہ آپ اگر اس بارے میں اعتدال اور توازن کا راستہ اختیار کریں تو وہ دین کے مزاج اور مصالح سے قریب ترین ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین پر قائم رکھے اور حق کو حق جان کر اس کے اتباع کی توفیق دے۔ (پروفیسر خورشید احمد)


توبہ کا بار بار ٹوٹنا

س:  میں ایک خوف زدہ شخص ہوں۔ ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ یہ نہ ہو جائے وہ نہ ہو جائے۔ والدین کے بارے میں ‘ بھائیوں کے بارے میں ہر وقت منفی خیالات آتے رہتے ہیں حالانکہ میں جانتا ہوں کہ جو کچھ ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ لیکن پھر بھی خود پر کنٹرول نہیں ہے۔ اس خوف کے لیے میں نے علاج بھی کروایا ہے مگر حالت جوں کی توں ہے۔

اصل میں مجھے اپنے نفس پہ کنٹرول نہیں ہے۔ میں نے ایک کام نہ کرنے کی توبہ کی‘ پھر توڑ دی‘ دوبارہ توبہ کی اس پر پھر قائم نہیں رہ سکا‘ بار بار توبہ کی اور توڑ دی۔ کیا مجھے اللہ معاف کر دے گا؟ کیا مجھے سکون مل سکے گا؟

ج: گناہ پر ندامت اور اس بات کا خوف کہ نفس پر قابونہ ہونے کی بنا پر کہیں کسی غلطی کا ارتکاب نہ ہو جائے لازمی طور پر ایک پریشان کن صورت ہے لیکن ساتھ ہی یہ نہ بھولیے کہ جب تک احساسِ گناہ دل میں پایا جائے گا اس وقت تک ان شاء اللہ ایمان بھی سرگرم رہے گا۔ دراصل انسان کا نفس ایک تو وہ ہے جو اپنے رب کے احسانات و انعامات کے احساس کے ساتھ پورے اطمینان کے ساتھ اس کی رضا کا پابند ہو جائے۔ یہ نفس مطمئنہ ہے۔ ایک نفس وہ ہے جو وساوسِ شیطانی کی بنا پر نفس کو برائی کی طرف اُکساتا ہے۔ یہ نفسِ امارہ ہے‘ اور تیسرا نفس وہ ہے جو غلط کام کے بارے میں سوچنے‘ یا برائی کی نیت کرنے‘ یا غلطی کربیٹھنے کے بعد انسان کو ملامت کرتا ہے۔ اسے نفسِ لوامہ یا ضمیر کہا جاتا ہے۔ آپ نے جس کیفیت کا ذکر کیا ہے بظاہر اس کا تعلق نفس کی اسی تیسری قسم کے ساتھ ہے۔ دراصل ہم میں سے اکثر افراد خود اپنے بارے میں اور ابلیس اور اس کی ذریت کے بارے میں صحیح تصور نہیں رکھتے اور فرائض دین کی پابندی کرنے کے بعد سمجھ لیتے ہیں کہ اب ہم شیطان سے محفوظ ہو گئے۔ حالانکہ ہم نماز صرف دن کے پانچ اوقات میں پڑھتے ہیں‘ روزے عموماً صرف رمضان میں رکھتے ہیں‘ حج سال میں مخصوص دنوں میں ہوتا ہے‘ جب کہ شیطان نہ تو کوئی جزوقتی ورکر ہے‘ نہ وہ سرکاری ملازموں کی طرح وقت چرانے کا عادی ہے۔ وہ ۲۴ گھنٹے اور اگر ممکن ہو تو اس سے زیادہ مستعدی کے ساتھ اللہ کے بندوں کو بہکانے میں لگا ہوا ہے۔ اس لیے اس کے حملے ایسے اوقات میں اور ایسے مقامات پر ہوتے ہیں جہاں ہم گمان بھی نہیں کر سکتے۔

اگر ایک شخص سے غلطی کا ارتکاب ہو جائے تو وہ انبیا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے حضرت آدم ؑ کے الفاظ میں: رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا سکتہ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o (الاعراف ۷:۲۳)‘ یا حضرت یونس ؑ کی زبان میں ادا کی گئی دعا: لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَق اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ o (الانبیا ئ۲۱:۸۷)‘ خلوصِ دل کے ساتھ اور دوبارہ غلطی کا ارتکاب نہ کرنے کے عزم کے ساتھ ادا کرے۔ قرآن کریم نے انسان کی اسی کمزوری کو جانتے ہوئے انسان کو ناامیدی اور پریشانی اور خوف سے بچانے کے لیے جو بنیادی تصور پیش کیا ہے وہ ہر مسلمان کے لیے ہدایت کی روشنی فراہم کرتا ہے۔ فرمایا: ’’(بندو) دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے‘ جو مہیا کی گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے‘ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘ (الحدید ۵۷:۲۱)۔ یہاں اہل ایمان کو اللہ کی مغفرت کی طرف تیزی اختیار کرنے کے ساتھ یہ بات بھی سمجھا دی گئی ہے کہ ایسے لوگوں کا انجام ان شاء اللہ ایسی جنت ہے جس کی وسعت کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔

قرآن کریم انسانی غلطیوں کے لیے ارتکاب فحش اور ارتکاب برائی (سوئ) کے الفاظ استعمال کرنے کے بعد اللہ کے بندوں کو وثوق کے ساتھ اُمید دلاتا ہے کہ رب کریم ان کی ندامت اور استغفار و توبہ کو آخر دم تک قبول کرنے کو تیار رہتا ہے۔ وہی تو الرحمن والرحیم ہے۔ غافر الذنب اور قابل التوبہ ہے۔ فرمایا: ’’اگر کوئی شخص برا فعل کر گزرے یا اپنے نفس پر ظلم کر جائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزر کی درخواست کرے تو اللہ کو درگزر کرنے والا اور رحیم پائے گا‘‘ (النساء ۴:۱۱۰)۔ یہاں عمل سوء کا ذکر ہوا لیکن سورئہ آل عمران میں اس سے زیادہ سخت اصطلاح (فاحشۃ) کا استعمال کرتے ہوئے فرمایا گیا: ’’اگر کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اُوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انھیں یاد آ جاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہے اور وہ کبھی دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے‘‘(۳:۱۳۵)۔

یہاں یہ بات واضح کر دی گئی کہ اگر ایک شخص اپنی غلطی پر اصرار نہیں کرتا اور رب کریم کا ذکر اور استغفار کرکے اس کی طرف پلٹتا ہے تو رب کریم اس کی غلطیوں سے درگزر فرماتا ہے۔ وہی تو ہے جو بڑی سے بڑی غلطی کو معاف کر سکتا ہے۔ حضرت انسؓ بن مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’بندہ گناہ کرنے کے بعد معافی مانگنے کے لیے جب اللہ کی طرف پلٹتا ہے تو اللہ کو اپنے بندے کے پلٹنے پر اس شخص کے مقابلے میں زیادہ خوشی ہوتی ہے جس نے اپنی اونٹنی جس پر اس کی زندگی کا دارومدار تھا‘ کسی بیابان میں گم کر دی اور پھر اس نے اچانک اسے پا لیا ہو۔ ایسے ہی آدمی کے توبہ کرنے پر اللہ خوش ہوتا ہے بلکہ اللہ کی خوشی اس کے مقابلے میں بڑھی ہوئی ہوتی ہے کیونکہ وہ رحم و کرم کا سرچشمہ ہے‘‘ (بخاری و مسلم)۔

اس طرح حضرت ابوموسٰی الاشعریؓ سے ایک روایت مسلم میں ہے جس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ جس شخص نے دن میں کوئی گناہ کیا ہے وہ رات میں اللہ کی طرف پلٹ آئے‘ اور دن میں ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات میں اگر کسی نے گناہ کیا تو وہ دن میں اپنے رب کی طرف پلٹے اور گناہوں کی معافی مانگے حتیٰ کہ سورج مغرب سے طلوع ہو‘‘۔

گویا قیامت کے ظہور تک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں کی مغفرت کے لیے منتظر رہتا ہے۔ حضرت عبداللہؓبن عمر توبہ کی قبولیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ حضور نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’اللہ بندے کی توبہ سانس رکنے سے پہلے تک قبول کرتا ہے‘‘ (ترمذی)‘ یعنی جب انسان پر سکرات واقع ہو جائے اس سے قبل اگر وہ توبہ کر لے تو رب کریم اسے معاف کر دیتا ہے۔ گویا توبہ واستغفار کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ اس لیے نہ کسی خوف میں پڑنے کی ضرورت ہے نہ مایوسی کی۔ اگر ایک مرتبہ غلطی کے بعد معافی مانگ کر کبھی غلطی نہ کرنے کا عہد کیا گیا لیکن اس پر قائم نہ رہا گیا تو دوبارہ توبہ کے بعد توبہ پر قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ساتھ ہی رضاکارانہ طور پر اپنے اُوپر یہ پابندی لگائی جائے کہ توبہ کے ہمراہ خصوصی نوافل یا نفلی روزے رکھ کر اپنے آپ کو دوبارہ غلطی سے بچانے کی کوشش کرے‘ یا اللہ کی راہ میں کچھ انفاق کر کے اپنے عزم کو مزید مستحکم کرے۔ یہی حصول سکون کا طریقہ ہے اور یہی فلاح و کامیابی کا وہ راستہ ہے جو ہمیں قرآن و سنت نے دکھایا ہے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)