مولانا حمیدالدین فراہی (۱۸۶۲ئ-۱۹۳۰ئ) قرآنی علوم کے معروف محقق‘ مفسر اور ترتیب و نظم قرآن میں ایک نئے مکتب فکر کے بانی تھے۔ انھوں نے بقول مولانا مودودی ’’مسلسل چالیس برس تک قرآن کی خدمت کی اور معارفِ قرآنی کی تحقیق میں سیاہ بالوں کو سفید کیا۔ ] ان کی [ تفسیروں سے عرب و عجم کے ہزاروں مسلمانوں میں تدبر فی القرآن کا ذوق پیدا ہوا‘‘۔
زیرنظر کتا ب ان کے ’’سوانح حیات اور تصنیفی کام کے تحقیقی مطالعے‘‘ پر مشتمل ہے۔ یہ علمی منصوبہ ربع صدی قبل مصنف کے سپرد کیا گیا تھا۔ اس وقت وہ ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ انھوں نے اس تحقیق میں بہت کھکھیڑاٹھائے۔ بارہا بھارت کے مختلف شہروں کا سفر کیا‘ بیسیوں بلکہ سیکڑوں لوگوں سے ملے‘ روایات اور بیانات جمع کیے اور متعلقہ اداروں سے بہت سا ریکارڈ حاصل کیا۔ پھر یہ علمی منصوبہ (جیسا کہ مصنف نے اپنے سیرحاصل مقدمے میں ایک لمبی داستان کی صورت‘ اس کا پس منظر بتایا ہے) ’’سرخ فیتے‘‘ کی رکاوٹوں اور ’’حاسدوں‘ مفسدوں‘ فتنہ پردازوں اور شرپسند عناصر‘‘ کی تخریبی سازشوں کا شکار ہوتا ہوا’’ایک جمبوجیٹ کے ایئرکریش کی طرح تباہ ہو کر رہ گیا۔ اب یہ اس کے ملبے کا کچھ حصہ ہے جو پیش کیا جا رہا ہے‘‘ (ص ۹)۔ اگرچہ مصنف کہتے ہیں کہ ’’میرا یہ کام اپنی نظر میں بے وقعت ہے‘‘ مگر انھوں نے نامساعد حالات کے باوجود جس محنت کے ساتھ مواد اکٹھا کیا اور پھر اسے مرتب کر کے موجودہ قاموسی جلد کی شکل میں شائع کیا ہے‘ وہ قابل داد ہے۔
کتاب میں مولانا فراہیؒ کی زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل بھی جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خاندانی پس منظر‘ شجرہ‘ تاریخ اور جاے پیدایش‘ عبدالحمید یا حمیدالدین؟ تعلیم کے مختلف مراحل‘ اساتذہ‘ ملازمتیں‘ اسفار‘ تلامذہ‘ بیماری‘ وفات‘ اولاد اور مطبوعہ و غیرمطبوعہ تصانیف‘ شخصیت کے تابناک پہلو وغیرہ۔ یہ کتاب اپنی جامعیت اور پھیلائو میں حالی کی حیاتِ جاوید کی یاد دلاتی ہے۔ ہمارا تاثر یہ ہے کہ ذکر فراہی میں حیات شبلی(سید سلیمان ندوی) اور حیاتِ سلیمان (شاہ معین الدین ندوی) سے کہیں زیادہ کاوش و محنت اور جگرکاوی سے کام لیا گیا ہے۔ اور ممدوح کی زندگی کی معمولی جزئیات تک کو جمع کردیا گیا ہے۔
جناب مصنف نے یہ کام بڑی لگن کے ساتھ انجام دیا ہے۔ مگر کہیں کہیں غیر ضروری تفصیل ملتی ہے اور کہیں وہ غیرمتعلق باتوں کا ذکر کرنے لگتے ہیں۔ اگر کچھ حشووزوائد نکال دیے جاتے تو کتاب اتنی ضخیم نہ ہوتی اور اس کے علمی معیار میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی۔
یہ بات کھٹکتی ہے کہ مصنف نے تفصیلی دیباچے میں کئی جگہ تلخ نوائی سے کام لیا ہے اور متن کتاب میں بھی کہیں کہیں اس کی جھلک نظر آتی ہے‘ جیسے انھوں نے مولانا ابوالخیر مودودی کی ’’بے خبری‘ غلط اندیشی اور بدگمانی‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فراہی سے ابوالخیر صاحب کے ’’بغض وعناد‘‘پراُنھیں لتاڑا ہے‘ وغیرہ۔ ہماری رائے میں اس طرح کی تلخی کسی عالم یا اسکالر کے شایانِ شان نہیں ہے۔ بایں ہمہ اس علمی کارنامے پر اصلاحی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔
ایسی اہم اور عالمانہ سوانح عمری کے آخر میں اشاریے کی عدم موجودگی بری طرح کھٹکتی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
پندرہ ابواب پر مشتمل یہ دونوں جلدیں طریقت کے باب میں کسی خوش کن تاثر کا اظہاریہ نہیں بن سکیں۔ اس کتاب میں خیالات اس قدر منتشر اور بے ربط ہیں کہ طریقت کے حقائق تک رسائی کارے دارد ہے۔ مراحلِ تصوف کا بیان ترتیب وار ہے اور نہ مکمل۔ تقدیم و تاخیر کا لحاظ بھی پیشِ نظر نہیں رہا۔ مؤلف کے نزدیک کوئی بھی بات کہیں سے شروع کرکے کہیں پر بھی چھوڑی جا سکتی ہے‘ چاہے حقیقت افسانے کا رُوپ دھار لے یا افسانہ حقیقت بن جائے۔ پھر طریقت کی حقیقت کے ضمن جس علمی اور تحقیقی اندازِ بیان کی ضرورت تھی‘ وہ یہاں مفقود ہے۔ زبان اور انشا کی غلطیاں اس پر مستزاد ہیں--- لگتا ہے کہ مؤلف درست اور صحیح زبان کے قائل ہی نہیں۔ پروف کی اتنی غلطیاں ہیں کہ شاید ہی کوئی صفحہ اس عیب سے داغ دار نہ ہو۔ اصولِ تالیف کا اس کتاب میں کہیں گزر نہیں--- یہ فقط ایک کتاب ہے‘ جس کے پانچ سو پندرہ صفحے ہیں۔ متضاد اور متناقض خیالات کے ترجمان۔ مغالطہ انگیزی قدم قدم پر دامن کشاں ہے۔ ربط اور تلازمے کی شدید کمی ہے۔ کتاب کی دونوںجلدیں پڑھ لینے کے بعد‘ کم از کم میں ذاتی طور پر یہ بتانے سے قاصر ہوں کہ مؤلف طریقت کے مؤید ہیں یا مخالف---!
مؤلف نے علامہ اقبال کے کلام اور افکار سے بھی استدلال کیا ہے‘ مگر یک رُخا اور اکہرا--- معلوم ہوتا ہے کہ وہ افکار اقبالؒ سے براہِ راست فیض یاب نہیں ہوئے‘ محض اقبالیاتی ادب کے توسط سے اقبال تک پہنچنے کی سعی فرمائی۔ اس صورت میں مغالطے کا شکار ہونا بدیہی اور لازمی امر ہے‘ بصورتِ دیگر وہ طریقت اور مسائلِ طریقت کی یک رُخی تعبیر نہ فرماتے۔ مثال کے طور پر وحدت الوجود ہی کو لیں۔ بادی النظر میں یہ نظریہ یونانی فلاسفہ کے افکار کا ترجمان بھی ہے اور ویدانت کا پرتو بھی--- اسی طرح انگریزی اصطلاح Pantheism بھی اس کی مترادف اور ہم معنی ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کیوں کہ اگر اس نظریے کا بغور مطالعہ کیا جائے‘ تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظریہ نہ تو یونانی افکار کا ترجمان ہے اور نہ ہی ویدانت کا۔ اسے پین تھی ازم اور مونوازم سے بھی کچھ علاقہ نہیں۔ یہ ان سب نظریات سے بالکل علاحدہ ہے اور صرف اسلامی تعلیمات سے مستنیر--- مگر اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے ٹھوس علمی اور تحقیقی مطالعے کی ضرورت ہے۔ (عبدالعزیز ساحر)
متعدد اہل علم نے قرآن حکیم کے لغات تیار کیے ہیں۔ بعض تو ڈکشنری کے طرز پر اور بعض حروفِ تہجی کی ترتیب کے مطابق ہیں۔ بعض نے مفردات کو سامنے رکھا ہے۔ مولانا عبدالرحمن مرحوم نے تلاوتِ قرآن حکیم کی ترتیب کے مطابق الفاظ (اسماء ‘ افعال اور تراکیب و کلمات وغیرہ) کے معنی و مفہوم کی وضاحت کی ہے۔ بعض الفاظ اور کلمات پر مفسرین اور اکابر کی رائے بھی دی ہے۔ انھوں نے ہر اہم کلمے کو درج کرنے کے بعد‘ پہلے اس کا مصدر یا مادہ (اگر ہو تو) بیان کیا ہے‘ پھر اس کلمے کی صرفی حیثیت اور نحوی مقام بتایا ہے) پھر اس کے مفہوم میں اہل لغت اور اہل تفسیر سے حوالے نقل کیے ہیں اور جہاں ممکن ہوا ہے وہاں صحیح احادیث سے کلمات کا مفہوم متعین کیا ہے‘‘ (ص ۶۰۷) ۔گویا یہ قرآن حکیم کے الفاظ کا ایسا لغت ہے جس میں کہیں کہیں معنی و مفہوم کی وضاحت اور تعین کے لیے مختلف مفسرین سے بھی مدد لی گئی ہے۔
یہ کام بڑی محنت کا تھا جسے مصنف ِ مرحوم نے اپنے تبحرعلمی کی مدد سے بخوبی مکمل کیا ہے۔ مولانا عبدالرحمن سکول میں مدرس تھے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد دیوبند سے دورئہ حدیث مکمل کیا اور پھر تصنیف و تالیف میں مصروف ہوئے۔
مطالعۂ قرآن اور فہمِ قرآن کے سلسلے میں عام قاری کے لیے یہ ایک مفید معاون کتاب ہے۔ ۱۹۵۶ء کی پرانی کتابت کا عکس شائع کر دیا گیا ہے۔ اگر ازسرنو مشینی کتابت (کمپوزنگ) کرائی جاتی تو ۶۰۰ صفحات کا یہ لغت چار‘ ساڑھے چار سو صفحات میں بخوبی سما سکتا تھا اور قیمت بھی کم ہوتی۔ (ر-ہ)
صاحب زادہ سید خورشید گیلانی مرحوم ایک ممتاز دانش ور‘ مذہبی مفکر‘ مصلح اور معروف کالم نگار تھے۔ انھوں نے فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر عمربھر ملّی یک جہتی‘ عالم اسلام کے اتحاد اور ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا۔ اُمت مسلمہ کا ایک فرد ہونا ان کے لیے باعث افتخار تھا خود ان کے بقول ’’راقم ان لوگوں میں شامل ہے جسے کبھی کوئی گروہی سوچ مسحور نہ کرسکی‘‘۔
زیرنظر کتاب سید مرحوم کے ان ۷۸ کالموں کا مجموعہ ہے جو انھوں نے عمرعزیز کے آخری چار ماہ (فروری تا مئی ۲۰۰۰ئ) میں تحریر کیے۔ موضوعات میں تنوع ہے اور عصرِحاضر کے عالمی اور ملکی مسائل پر ان کی جان دار آرا سامنے آئی ہیں۔ زیرنظر تحریروں میں انھوں نے ’’پاکستانی سیاست کے شب و روز‘‘ ، ’’مسئلہ کشمیر‘‘، ’’اکیسویں صدی‘‘،’’نواز مشرف ڈیل‘‘، ’’نواز شریف کی متوقع واپسی‘‘ اور ’’قیادت کا قحط‘‘ اور اسی طرح کے بہت سے عنوانات پر قلم اٹھایا ہے۔ لیکن موضوعی لحاظ سے غالب عنصر اُمت مسلمہ کے احوال کے بارے میں ہے۔ ’’ایک ضرورت‘ ایک نعمت‘‘ مرحوم کی آخری تحریر ہے۔
خورشید گیلانی نے اپنے منفرد اسلوب اور دل کش اندازِ تحریر کے ذریعے نہ صرف دلوں کو متاثر بلکہ مسخر کیا۔ جرأت اظہار ایک عطیہ خداوندی ہے جو انھیں وافر مقدار میں میسر تھا۔ خونِ جگر ہونے تک کی تحریریں اس لحاظ سے اہم اور منفرد ہیں کہ یہ بسترمرگ پر لکھی گئیں جب وہ کینسر جیسے موذی مرض کے سبب موت کے روبرو تھے۔
یہ تحریریں ملّت اسلامیہ کی فلاح و سربلندی کا شعور اور اتحاد بین المسلمین کے لیے ایک جذبہ و ولولہ پیدا کرتی ہیں اور عالمی تناظر میں اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اذہان کو نیا رُخ دینے میں مفید ہیں۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)
کیا زندگی ایک المیہ ہے؟ نہیں‘ زندگی تو ایک نعمت ہے۔ مگر پاکستانی معاشرے میں خودکشیوں اور خود سوزیوں کے روز افزوں رجحان کے حوالے سے بلاشبہہ عام آدمی کے لیے زندگی ایک المیہ بن کر رہ گئی ہے۔ گلی کوچوں اور سڑکوں پر اور اخبارات کے صفحات پر بھی ہم ہر روز اُس کا مشاہدہ کرتے ہیں لیکن ہمارا مشاہدہ صرف اُس کے ظاہر اور سطح تک محدود رہتا ہے۔ ابوشامل نے زندگی کے المیوں کی تہ میں اُتر کر اُن کے اسباب کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے۔ ہمارا سماج اس قدر بدہیئت اور غیرمتوازن کیوں ہو گیا ہے؟ اس کا اندازہ ابوشامل کی بنائی ہوئی لفظی تصویروں سے ہوتا ہے۔
مصنف نے ایک عرصے تک ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی میں زندگی کے عنوان سے معاشرے کے نچلے غریب ‘ مفلس اور محروم طبقے کے کرداروں سے ملاقاتیں کیں‘ اُن کے انٹرویو لیے‘ اُن کے دلوں کے داغوں کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا۔ اُن میں چوکیدار ‘ اخبار فروش‘ نان بائی‘ گٹر صاف کرنے والے‘ اُونٹ والے‘ گدھا گاڑی والے‘ تالا چابی بنانے والے‘ گونگے‘ بہرے اور نابینا کردار شامل ہیں۔ ابوشامل اِن کرداروں کے ہم نوا‘ ہم درد اور غمگسار بن کر اُن کی دل کی باتوں کو سامنے لاتے ہیں‘ اُن کے دکھ درد‘ مصائب‘ پریشانیاں اور اُن کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور ساتھ ہی اُن کے آنسو---آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کے حوالے سے ابوشامل نے حقیقی زندگی کو دریافت کیا ہے۔ معمولی اور چھوٹے آدمیوں کی گفتگو میں پتے کی باتیں بھی ہیں اور حکمت و بصیرت کی کرنیں بھی۔ یہ ایک ایسا سماجی اور عمرانیاتی مطالعہ ہے جو ہم جیسے کتابی لوگوں کے لیے معلومات انگیز اور چشم کشا ہے۔ دفتروں یا قہوہ خانوں اور ٹی ہائوسوں میں بیٹھ کر لفظوں کے طوطے مینا بنانے والوں اور سگریٹ کے مرغولوں کے درمیان جدیدیت‘ مابعد جدیدیت اور وجودیت پر بحثیں چھانٹنے والوں کے لیے بھی ابوشامل کے پیش کردہ کرداروں میں غوروفکر اور بہت کچھ اخذ و اکتساب کا سامان موجود ہے۔
یہ کہانیاں نہایت خوب صورت اور دل کش اسلوب میں پیش کی گئی ہیں۔ انداز تحریر نپاتلا ہے جس میں فکرانگیزی اور دعوتِ غوروفکر ہے۔ جو لوگ ان کو کہانی یا افسانے کے طور پر پڑھیں گے وہ ان سے لطف اُٹھائیں گے اور اس کے ساتھ ایک ذہنی اور فکری غذا بھی حاصل کریں گے۔ (ر-ہ)
عصرحاضر میں فکرِانسانی کی تشکیل کے مبارک کام میں‘ جن چند نمایاں ترین شخصیات کا نام سامنے آتا ہے۔ اُن میں ایک رجلِ عظیم علامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ئ-۱۹۳۸ئ) ہیں۔ اگر مسلم دنیا میں اسلامی فکر کی تعبیروتشریح اور احیاے اسلام کے لیے کوشاں رہنے والے محسنوں کا تذکرہ کیا جائے تو اقبال کا نام نامی صفِ اول میں نظر آئے گا۔
اقبالیات میں علامہ کی تحریرات‘ مکتوبات‘ خطبات اور ملفوظات کی جمع و تدوین کی ضرورت اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے متن کی صحت اور مختلف روایات کی جانچ پرکھ پر غیرمعمولی طور پر زور دیا جاتا ہے۔
مصنف کا ڈاکٹریٹ کا یہ مقالہ اپنے موضوع پر ایک کامیاب کوشش ہے جسے انھوں نے بڑی لگن اور اہتمام سے انجام دیا۔ اقبال کی تصانیف کے ایک ایک لفظ کے مطالعے کے بعد‘ ممکن حد تک متن کے تقابلی جائزے پیش کیے گئے ہیں۔ صحت متن کی اس کاوش میں انھوں نے کس قدر محنت اور جاں کاہی سے کام لیا‘ اس کا اندازہ زیرتبصرہ کتاب پڑھ کر ہو سکتا ہے۔
علم و تحقیق کی دنیا میں یہ تصنیف ایک قابل قدر اور رہنما کتاب کی صورت میں سامنے آتی ہے‘ جس سے طالب علموں کو کار تحقیق میں آگے بڑھنے کی تربیت ملتی ہے اور حسنِ تحقیق اور معیارِ تحقیق کی شاہراہ دیکھنا نصیب ہوتی ہے۔موضوع کی مناسبت اور تحقیق کی مطابقت نے اسے ذخیرۂ اقبالیات میں گنتی کی چند بہترین اور زندہ کتب میں شامل کر دیا ہے۔ (سلیم منصور خالد)
ربع صدی پہلے تک‘ بچوں کے لیے اقبال کے تعارف کا اولین اور بڑا ذریعہ ان کی نظم ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ تھی مگر اب یہ وطن عزیز کے معدودے چند اسکولوں ہی میں پڑھی اور گائی جاتی ہے۔ ۲۰۰۲ء کو ’’سال اقبال‘‘ قرار دیا گیا لیکن جس انداز میں ہم نے یہ سال ’’منایا‘‘، بلکہ کہنا چاہیے کہ اسے ’’گزارا‘‘ وہ علامہ کے بقول: ’’رہ گئی رسمِ اذاں‘ روح بلالی نہ رہی‘‘کے مترادف تھا۔
اقبالیات پر کتابوں اور رسالوں کے انبار لگائے جا چکے ہیں لیکن اگر یہ سوال کیا جائے کہ اقبال کو بچوں اور لڑکوں میں متعارف کرانے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟ تو شاید اس کا تشفی بخش جواب نہیں ملے گا۔ ربع صدی پہلے اقبال اکادمی پاکستان نے‘ پروفیسر سید محمد عبدالرشید فاضل سے سلسلہ درسیاتِ اقبال لکھوایا تھا‘ جو اس وقت کے لحاظ سے ایک اچھی چیز تھی--- لیکن میرا اقبال کے عنوان سے پانچ کتابوں کا ایک باتصویر اور رنگین خوب صورت سیٹ شائع ہوا ہے‘ اس نے اس باب میں اقبالیات کے ایک بڑے خلا کو نہایت احسن طریق سے پُر کر دیا ہے۔ اقبالیات میں اپنی نوعیت کا یہ ایک مثالی کام ہے۔ تعجب تو یہ ہے کہ اس کا اہتمام سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ نے کیا ہے (اقبالیات سے اپنائیت اور محبت کا دعویٰ تو پنجاب والوں کا زیادہ ہے---!)
بچوں اور طلبہ کے لیے اقبال کی منتخب نظموں‘ غزلوں اور رباعیات کے ساتھ ان کا تعارف‘ پس منظر‘ فرہنگ‘ ہر نظم سے متعلق سوالات اور نظم پر کچھ تبصرہ--- کہیں کہیں چوکھٹے میں ’’کیا آپ جانتے ہیں؟‘‘ عنوان کے تحت علامہ کی زندگی کا کوئی دلچسپ اورسبق آموز واقعہ درج ہے۔
میرا اقبالکی غرض و غایت چوتھی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کے بچوں میں ’’اردو شاعری کا ذوق‘‘ پیدا کرنا اور انھیں’’اقبال کے افکار سے روشناس‘‘ کرانا ہے۔ منظومات کے جمالیاتی پہلو (قدرتی مناظر‘ پرندے‘ جانور) تصویروں کے ذریعے نمایاں کیے گئے ہیں۔ آخری دو دو صفحوں کو ’’بیاض‘‘ کا عنوان دے کر طلبہ کو اپنے پسندیدہ اشعار لکھنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ کچھ شبہہ نہیں کہ مرتبین نے یہ کام مہارت سے انجام دیا ہے۔ نظرثانی کرنے والی مجلس میں پہلا نام پروفیسر عنایت علی خاں کا ہے۔
بچوں‘ نوجوان طلبہ و طالبات کے لیے یہ ایک خوب صورت اقبالیاتی تحفہ ہے۔ ماہرین اقبالیات اور اقبالیاتی اداروں پر ایک قرض تھا جسے چکانے اور بہ حسن و خوبی چکانے کا کام ایک غیراقبالیاتی ادارے نے انجام دیا ہے۔ضروری ہے کہ سندھ کے ہی نہیں‘ ملک کے تمام اسکولوں میں خصوصاً نظریاتی نجی اسکولوں میں اسے شامل نصاب کیا جائے۔ (ر -ہ)