فروری ۲۰۰۳

فہرست مضامین

امریکی عزائم :مقابلے کی حکمت عملی

پروفیسر خورشید احمد | فروری ۲۰۰۳ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

امریکہ عالم اسلامی کے خلاف جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہے ‘ ان سے اس کے مذموم عزائم دیکھنے والوں کی نظر میں کھلی کتاب کی طرح سامنے ہیں۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری جوابی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ قرآن پاک کے مطالعے اور سیرتؐ پاک پر تدبر کرنے سے جو حکمت عملی ہمارے سامنے آتی ہے اسے دو نکات کے تحت بیان کیا جا سکتا ہے: ۱- استقامت ‘۲- حکمت۔

استقامت

استقامت یہ ہے کہ اللہ پر پورا بھروسا کیا جائے اور اللہ کا دین‘ جیسا کہ وہ ہے‘ اس پر پورے اطمینان ‘ یقین محکم اور صبروثبات کے ساتھ ڈٹ جایا جائے۔ اپنے مقصد اور نصب العین‘ مستقبل کے بارے میں اپنے وژن اور اُمت مسلمہ کے حقیقی اہداف‘ اس کی قوت کے اصلی ذرائع‘ اور اقامت دین کے سلسلے میں اس کے اصول‘ مشن اور مخصوص عملی پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے اور نہ کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔ اسلام کی تراش خراش ہمارا طریقہ نہیں ہو سکتا اور اسلام کے دائرے کے اندر فکروتدبر‘ اطاعت اور اجتہاد‘ وفاداری اور رواداری‘ جدوجہد اور ایثار کے لیے جو خطوطِ کار‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیے ہیں ان پر ایمان اور احتساب کے ساتھ جم جایا جائے۔ اسلام اللہ کی ابدی ہدایت ہے۔ اس کی تعلیمات صبح نو کی طرح تازہ اور نکھری ہوئی ہیں۔ اعتدال اور توازن اس کا طرۂ امتیاز ہے ‘ لیکن یہ اس کے اپنے نظام کے اندر اور اس کا ابدی حصہ ہیں‘ اپنے نفس یا دوسروں کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اسے موڈرن یا موڈریٹ نہیں بنایا جا سکتا۔

یہ حقیقت اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام ہی راہِ اعتدال ہے اور سارا توازن‘ رواداری‘ میانہ روی‘ اس کے دیے ہوئے حقوق و فرائض کے نظام میں اپنی کامل شکل میں موجود ہیں۔ اُمت مسلمہ ہے ہی امت وسط اور عقیدہ و عمل ہر اعتبار سے یہ اُمت مسلک اعتدال پر قائم ہے۔ مذاہب کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے اور آپ پائیں گے کہ خدا اور انسان‘ معبود اور عبد‘ خدا اور پیغمبر کے رشتے اور حقوق و مقام کے باب میں کس طرح وہ افراط اور تفریط کا شکار رہے ہیں۔ اسلام نے نقطۂ عدل کو واضح کر دیا۔ خدا خدا ہے اور انسان انسان۔ لائق عبادت و عبودیت صرف اللہ ہے جو خالق سماوات والارض ہے۔ انسان کا مقام اللہ کے خلیفہ اور نائب کا ہے۔ وہ کسی حیثیت سے بھی خدا کی ذات یا صفات میں شریک نہیں۔ حتیٰ کہ خداکے پیغمبر بھی‘ بہترین نمونہ اور قرب الٰہی میں اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونے کے باوجود خدا کے اقتدار میں کوئی شرکت نہیں رکھتے۔ یہی وہ اعتدال ہے جس پر کائنات قائم ہے۔

پھر آپ مذاہب کی تاریخ میں دین اور دنیا‘ روح اور مادہ‘ اس زندگی اور اُس زندگی کے باب میں افراط و تفریط کا سماں دیکھیں گے ۔لیکن اسلام نے یہاں بھی وہی راہ ِاعتدال اختیار کی اور دین و دینا کی یک رنگی‘ روح اور مادے کی ہم آہنگی‘ اور حسنات دنیا اور حسنات آخرت کے اجتماع کی شکل میں ایک متوازن اور مبنی برعدل تصورِ حیات کو نہ صرف پیش کیا بلکہ اس پر عملاً فرد اور اجتماع‘ ذاتی سیرت اور اجتماعی تہذیب کا نقشہ تعمیر کر کے دکھا دیا۔

اسی طرح قانون اور اخلاق‘ ظاہر اور باطن‘ لفظ اور معنی کے باب میں افراط و تفریط کے بے شمار نمونے‘ مذہب اور تہذیب دونوں کی دنیائوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن اسلام نے پھر ایک راہِ اعتدل اختیار کی اور اس طرح اختیار کی کہ ثبات اور تغیر کے تمام تقاضے بھی بھرپور انداز میں پورے ہوئے اور قانون اور روحِ قانون دونوں کو بیک وقت حاصل کرنا انسان کے لیے ممکن ہوگیا۔

معاملہ فرد اور معاشرے کے تعلقات کا ہو یا مرد و زن کے رشتے کا‘ آزدی اور نظم وضبط کا ہو یا قیادت اور مشاورت کا‘ عبادت کا ہو یا کاروبارِ زندگی کا‘ باطن کی اصلاح ہو یا قانون اور نظام کی تبدیلی‘ دوستی کی بات ہو یا دشمنی کے آداب‘ ہر معاملے میں اسلام نے اعتدال کے راستے کو اختیار کیا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جملے میں اسلام کی اس شناخت کو بیان فرما دیا کہ بہترین عمل وہی ہے جو راہِ وسط پر قائم ہو: خیرالامور اوسطھا۔ دیکھیے قرآن و سنت نے کس طرح اسلام کے اس وصف کو نمایاں کیا ہے اور زندگی کا محور بنا دیا ہے۔

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًاط (البقرہ ۲:۱۴۳)

ہم نے تمھیں ایک اُمت وسط بنایا ہے تاکہ تم انسانوں پر حق کے گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ ہوں۔

وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّۃٌ یَّھْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ o  (الاعراف ۷:۱۸۱)

اور ہماری مخلوق میں ایک اُمت ہے جو ٹھیک حق کے مطابق ہدایت اور حق کے مطابق انصاف کرتی ہے۔

اللہ کے بندوں کا وصف ہی یہ ہے کہ وہ:

وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًاo (الفرقان ۲۵:۶۷)

اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔

وہ کھاتے پیتے ہیں مگر اسراف سے بچتے ہیں کہ اللہ کو اسراف پسند نہیں (وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلاَ تُسْرِفُوْا ج اِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَo الاعراف ۷:۳۱)۔ انفاق فی سبیل اللہ ان کا وطیرہ ہے مگر اس میں بھی نہ وہ اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھتے ہیں اور نہ اسے بالکل کھلا چھوڑتے ہیں (وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلاَ تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا - بنی اسرائیل ۱۷:۲۹)۔ نوافل کا وہ اہتمام کرتے ہیں لیکن اس میں بھی اعتدال اور استمرار ان کا شعار ہے۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں‘ قیام اللیل بھی کرتا ہوں اور آرام بھی‘ ازدواجی زندگی کا بھی اہتمام کرتا ہوں۔ معلوم ہوا کہ اسلام ہی وہ دین اور نظامِ حیات ہے جو عبارت ہے زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال‘ توازن‘ عدل ‘ انصاف‘ ادایگی حقوق‘ فرائض کی پابندی‘ صلہ رحمی‘ احترامِ انسانیت‘مخالف کے معبودوں کو بھی بدزبانی سے محفوظ رکھنے اور دین میں ہر جبر اور اکراہ سے پرہیزسے۔ یہ ہے اسلام اور اسلام کی امتیازی شان۔ لیکن یاد رکھیے یہ ساری میانہ روی‘ اعتدال اور رواداری شریعت کے نظام کا حصہ ہے‘ اور منصوص اور مطلوب ہے--- لیکن میانہ روی کے نام پر اسلام میں قطع و برید‘ اعتدال کے نام پر فرائض اور واجبات سے رخصت‘ دوستی کی خاطر جہاد سے فارغ خطی‘ رواداری کے نام پر کفر اور ظلم سے سمجھوتہ--- یہ اسلام نہیں‘ اسلام کی ضد ہیں۔ دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کے احکام اور حدود کے بارے میں کوئی مداہنت اللہ کی ناراضی کو مول لینے کا راستہ ہے اور اس کے عذاب کو دعوت دینے کا موجب ہو سکتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جسے محمود اور مطلوب قرار دیا ہے وہی ہمارا محمود اور مطلوب ہے اور جسے انھوں نے ناپسند کیا ہے اس سے برأت ہی ہماری میانہ روی اور رواداری ہے۔ اس لیے کہ اسلام نام ہی طاغوت سے بغاوت اور اللہ سے رشتے کو جوڑنے کا ہے---  فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْم  بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰیق لَاانْفِصَامَ لَھَاط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo (اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ البقرہ ۲:۲۵۶)۔ اسلام کے نظام اور فریم ورک میں بے پناہ آزادی ہے مگر یہ آزادی اس فریم ورک کے اندر ہے‘ اس فریم ورک کو توڑنے ‘ اس سے فرار اختیار کر کے یا اس کے باہر آزادی کی تلاش اسلام کے منافی ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے اقبال نے یوں کہا ہے کہ   ؎

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

دین کو ہرپیوندکاری سے محفوظ رکھنا اور دوسروں کے مطالبوں پر یا انھیں خوش کرنے کے لیے دین میں قطع و برید اللہ کی اطاعت کا نہیں اس سے بغاوت کا راستہ ہے۔ دیکھیے خود اللہ کے رسولؐ کو خطاب کر کے اللہ تعالیٰ کیا کہتا ہے:

قُلْ اِنِّیْ نُھِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَمَّا جَآئَ نِیَ الْبَیِّنٰتُ مِنْ رَّبِّیْز وَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o (المومن ۴۰:۶۶)

اے نبیؐ! ان لوگوں سے کہہ دو کہ مجھے ان ہستیوں کی عبادت و اطاعت سے منع کر دیا گیا ہے جنھیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو۔ میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں‘ جب کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے کھلی کھلی نشانیاں آچکی ہیں۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ رب العالمین کے آگے سرتسلیم خم کر دوں۔

قُلْ اِنِّیْ نُھِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِط قُلْ لاَّ ٓ اَتَّبِعُ       اَھْوَآئَ کُمْلا قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ o (الانعام ۶:۵۶)

اے نبیؐ! ان سے کہہ دو کہ تم لوگ اللہ کے سوا جن دوسروں کو پکارتے ہو‘ ان کی بندگی کرنے سے مجھے منع کیا گیا ہے اور کہو میں تمھاری خواہشات ذات کی پیروی نہیں کروں گا اگر میں نے ایسا کیا تو گمراہ ہو گیا اور راہِ راست پانے والوں میں سے نہیں رہا۔

وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ حُکْمًا عَرَبِیًّا وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَآئَ ھم بَعْدَ مَا جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَالَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیِّ وَّلاَوَاقٍ o (الرعد ۱۳:۳۷)

اسی ہدایت کے ساتھ ہم نے یہ قرآن عربی تم پر نازل کیا ہے‘ اب اگر تم نے اس علم کے باوجود جو تمھارے پاس آ چکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمھارا حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے۔

وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہٗق وَاِذًا لاَّ تَّخَذُوْکَ خَلِیْلًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۷۳)

اے نبیؐ! ان لوگوں نے اس کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی کہ تمھیں فتنے میں ڈال کر اس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے تمھاری طرف بھیجی ہے تاکہ تم ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑو۔ اگر تم ایسا کرتے تو وہ ضرور تمھیں اپنا دوست بنا لیتے۔

واذا قتلٰی علیھم ایاتنا بینت قال الذین لا یرجون لقاء نا انت لقرآن غیر ھذا … یوم عظیم o (یونس ۱۰:۱۵)

جب انھیں ہماری صاف صاف باتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے‘ کہتے ہیںاس کے بجائے کوئی اور قرآن لائو یا اس میں کچھ ترمیم کرو۔ اے نبیؐ، ان سے کہو تیرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیروتبدل کروں۔ میں تو بس اُس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے۔ میں ۔۔۔۔ کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

یہ آیات بینات ایک آئینہ ہیں جن میں اہل حق کے موقف اور مثال اور اہل باطل کی خواہشات‘ ترغیبات اور مطالبات ہر دو کی مکمل تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں۔ زمانہ کتنا ہی بدل جائے اور تاریخ کے اسٹیج پر کارفرما کردار کیسے ہی نئے ناموں اور نئی شکلوں میں نمودار ہو جائیں‘ اہل حق اور اہل باطل کا مسلک اوررویہ سرمو نہیں بدلتا۔ اس آئینے میں غیروں ہی کی نہیں بہت سے دوستوں کی اصل صورت بھی دیکھی جا سکتی ہے اور اس میں ہمیں وہ اسوہ بھی صاف نظر آتا ہے جو استقامت اور وفاداری کی راہ ہے۔ یہی ہمارا مطلوب و مقصود ہونا چاہیے۔

وَّاتَّبِعْ مَا یُوْحٰٓی اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا o  وَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِط وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلاً o (الاحزاب ۳۳: ۲-۳)

پیروی کرو اس بات کی جس کی طرف رہنمائی تمھارے رب کی طرف سے تمھیں کی جا رہی ہے اور اللہ اس بات سے باخبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو۔ اللہ پر توکل کرو‘ اللہ ہی تمھارا وکیل ہونے کے لیے کافی ہے۔

ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ o اِنَّھُمْ لَنْ یُّغْنُوْا عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًاط وَاِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍج  وَاللّٰہُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ o ھذا بصآئرٍ للناسِ وھدًی ورحمۃً لقومٍ یوقنون o (الجاثیہ ۴۵: ۱۸-۲۰)

اے نبیؐ! ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔ اللہ کے مقابلے میں وہ تمھارے کچھ بھی کام نہیں آسکتے۔ ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور متقیوں کا ساتھی اللہ ہے۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں سب لوگوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت ان لوگوں کے لیے جو یقین لائیں۔

حکمت

استقامت ہماری حکمت عملی کی پہلی بنیادہے‘ اور اس کا تقاضا ہے کہ مقصد‘مشن‘ اہداف اور منزل کے بارے میں نہ کوئی ابہام اور جھول رہے اور نہ کوئی کمزوری دکھائی جائے۔ وژن بہرصورت واضح اور ہر دھند سے پاک ہونا چاہیے۔ اس پر جم جانا‘ اللہ کا دامن تھامے رکھنا‘ صرف اس کی قوت پر بھروسہ کرنا اور صبر اور پامردی کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹ جانا اہل ایمان کا شیوہ اور طرئہ امتیاز ہے۔ اس میں ان کی بقا اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کا راز ہے۔

اگر استقامت اس حکمت عملی کی پہلی بنیاد ہے تو اس کی دوسری بنیاد اور اتنی ہی اہم بنیاد حکمت اور دانش مندی ہے۔ استقامت کسی اندھی اور بہری قوت کا نام نہیں‘ استقامت کے لیے ضروری ہے کہ ساری جدوجہد پوری سوجھ بوجھ کے ساتھ انجام دی جائے جس میں کلیدی کردار مقاصد کے صحیح شعور‘تدابیر کی مکمل تفہیم‘ نقشہ کار کی دقت نظر سے تیاری‘ وسائل اور لوازمات کے حصول کی موثر منصوبہ بندی اور تعمیرمنزل کی تمام ضروریات کا پورا پورا ادراک اور ان کو عملاً حاصل کرنے اور صحیح وقت پر صحیح انداز میں استعمال کرنے کا اہتمام ہوگا۔ قرآن پاک کے مطالعے اور سیرت خیرالانامؐ پر تدبر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حکمت‘ کار نبوت کی انجام آوری کے لیے ایک لازمی شرط ہے اور بیک وقت استقامت اور حکمت پر مبنی راستہ ہی وہ راستہ ہے جس سے اہل دین اپنی منزل کو پا سکتے ہیں۔ ان کی حیثیت انسان کی دو ٹانگوں کی طرح ہے۔ پیش قدمی کے لیے دونوں ٹانگیں درکار ہیں‘ محض ایک کے سہارے منزل سر نہیں کی جا سکتی۔

حکمت کا تقاضا ہے کہ جہاں ہم دین میں کوئی قطع و برید نہ کریں اور نہ ہونے دیں بلکہ اللہ کے دین کو جیسا کہ وہ ہے مضبوطی سے تھام لیں وہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم کسی اشتعال میں نہ آئیں‘ اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیں‘ اسلام کی سکھائی ہوئی میانہ روی اور رواداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں‘ اپنی داعیانہ حیثیت کو نہ بھولیں۔ہماری لڑائی مرض سے ہے مریض سے نہیں‘ کفر سے ہے لیکن اہل کفر کو ایمان کی دولت سے مالا مال کرنے کے لیے ہے‘ نیست و نابود کرنے کے لیے نہیں۔ اللہ کی ساری مخلوق کے کچھ حقوق ہیں اور ان کو دین حق کی طرف لانے کے کچھ آداب ہیں۔ ان کا احترام اور اہتمام ہی حکمت دین ہے۔ مالک کا حکم ہے:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُط (النحل ۱۶:۱۲۵)

اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف بلائو دعوت و حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے سے جو بہترین ہو۔

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (آل عمران ۳:۱۰۴)

تم میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں‘ بھلائیوں کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پانے والے ہیں۔

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o  وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُط  اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ o (حم السجدہ ۴۱:۳۳-۳۴)

اور اس شخص سے ا چھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبیؐ! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے رفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔

حکمت ہی کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہم عدل و انصاف کا دامن کبھی اپنے ہاتھ سے نہ چھوٹنے دیں حتیٰ کہ مخالفت‘ جنگ و جدال اور مذاکرہ و مجادلہ‘ ہر میدان میں ہم عدل کی راہ پر قائم رہیں اور فراست ِ مومن کے ساتھ نرمی اور سختی‘ عفو و درگزر اور مقابلہ اور انتقام‘ ہاتھ روکنے اور دشمن پر وار کرنے کے تمام ممکنہ ذرائع اپنے اپنے صحیح وقت پر استعمال کریں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے عدل اور قسط کے ساتھ احسان‘ بدلہ اور انتقام کے ساتھ عفوودرگزر جنگ کے ساتھ صلح‘ اور قوت کے استعمال کے ساتھ مذاکرے اور معاہدے کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے موقع اور محل پر ضروری ہے اور حکمت اور فراست اس کا نام ہے کہ ان میں سے ہر حربے کو اس کے صحیح وقت پر استعمال کیا جائے اور یہاں بھی اعتدال اور توازن پر کاربند رہا جائے۔ دیکھیے اس باب میں قرآن کس طرح ہماری رہنمائی اور تربیت کرتا ہے۔

قل امر ربی بالقسط (الاعراف ۷:۲۹)

تم کہہ دو‘ میرے رب نے عدل اور قسط کا حکم دیا ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ ………  لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o (النحل ۱۶:۹۰)

اللہ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق سیکھ لو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ امَنُوْا ………… بِمَا تَعْمَلُوْنَo (المائدہ ۵:۸)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘ جو کچھ تم کرتے ہو وہ اس سے پوری طرح باخبرہے۔

فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ ……… اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ o (البقرہ ۲:۱۹۴)

لہٰذا جو تم پر دست درازی کرے‘ تم بھی اُسی طرح اس پر دست درازی کرو۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان رکھو کہ اللہ انھی لوگوں کے ساتھ ہے‘ جو اس کی حدُود میں توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں۔

وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا ……… خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ o (النحل ۱۷:۱۲۶)

اگر تم لوگ بدلہ لو تو اُسی قدرے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے۔

وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃِ …… ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ o (الشوریٰ ۸۲:۴۰-۴۳)

برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے‘ پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کر دے اُس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے‘ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعدبدلہ لیں اُن کو ملامت نہیں کی جا سکتی‘ ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے‘ تو یہ بڑی اُولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے‘ جو اپنے دین کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے‘ جو اپنے نفس کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اپنے گھروالوں کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے (ترمذی)۔

اس طرح اللہ نے مسلمانوں کو ہر لمحہ تیار رہنے کا حکم دیا ہے اور صرف تیار رہنے ہی کا نہیں مقابلے کی قوت (deterrant power) کے حصول کو لازم کیا ہے۔ اور اس کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کی ترغیب دی ہے۔

وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ ……… وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ o (انفال ۸:۶۰)

اور تم لوگ‘ جہاں تک تمھارا بس چلے‘ زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیاربندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور اُن دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے--- اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمھاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا۔

وَاِنْ ………… اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ o (انفال ۸:۶۱-۶۲)

اے نبیؐ، اگر دشمن صلح وسلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جائو اور اللہ پر بھروسہ کرو‘ یقینا وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہیں تو تمھارے لیے اللہ کافی ہے وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی۔

مقابلے اور معاملات میں غصہ اور اشتعال سے پرہیز کی تعلیم بھی دی گئی ہے کہ جب انھیں غصہ آتا ہے تو وہ معاف کر دیتے ہیں (واذا ما غضبوا ھم یغفرون - الشوریٰ ۴۲:۳۷) اس لیے کہ مومن غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے ہوتے ہیں (والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس - آل عمران ۳:۱۳۰) علامہ قرطبی‘ امام رازی اور علامہ ۔۔۔۔ مالکی نے بہت خوب کہا ہے کہ عفوودرگزر کے نتیجے میں اگر فتنہ دب رہا ہے اور غلط کار اپنی روش سے باز آ رہا ہے تو عفو پسندیدہ ہے لیکن اگر عفوودرگزر سے مجرم کا حوصلہ بڑھ جائے اور اس کے غیض و غضب کو تقویت پہنچے تو انتقام لینا صحیح ہے۔ ان مواقع میں تمیز اور  حسب حال رویہ کے اختیار کرنے کا نام ہی حکمت ہے۔

حکمت ہی کا ایک پہلو مکالمہ ‘ گفت و شنید اور ڈائیلاگ ہے اور وہ بھی صحت علوم کے ساتھ ساتھ شیریں کلامی کے ذریعہ (وقولوا للناس حسنًا - البقرہ ۲:۸۳) اس لیے کہ اللہ کی تعلیم ہے ہی یہ کہ  وقل لعبادی یقولوا التی ھی احسن ’’میرے بندوں (مسلمانوں) سے کہہ دو کہ وہی بات کہیں جو بہترین ہو (بنی اسرائیل ۱۷:۵۳)۔ اور ڈائیلاگ کے بھی آداب یہ ہیں کہ قدر مشترک کی طرف بلایا جائے (تعالوا الٰی کلمۃٍ  سواء بیننا وبینکم----آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ آل عمران ۳:۶۷) نیز یہ کہ:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُط (النحل ۱۶:۱۲۵)

اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ‘ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔

وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُط  اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ  (حم السجدہ ۴۱:۳۴)

نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔

یہ سب حکمت ہی کے مختلف پہلو ہیں۔

اسی طرح یہ بات کہ کب قوت کا استعمال مطلوب ہے اور کب ہاتھ روک لینا اولیٰ ہے اور اس کا استعمال بھی حکمت ہی سے ہے۔ مکی زندگی اور مدنی زندگی ایک مدت ہیں لیکن کون سا طریقہ استعمال کیا جائے اس کا انحصار حکمت بالغہ پر ہے۔

اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ ……… وَلاَ تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً o (النساء ۴:۷۷)

تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو؟ اب جواُنھیں لڑائی کا حکم دیا گیا ہے تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر۔ کہتے ہیں خدایا‘ یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی؟ اِن سے کہو‘ دنیا کا سرمایۂ زندگی تھوڑا ہے اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لیے زیادہ بہتر ہے‘ اور تم پر ظلم ایک شمّہ برابر بھی نہ کیا جائے گا۔ رہی موت‘ تو جہاں بھی تم ہو‘ وہ بہرحال تمھیں آکر رہے گی ‘ خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں رہو۔

حقیقت یہ ہے کہ حکمت کے پہلو اتنے ہیں کہ ان کا احاطہ ناممکن ہے۔ ہم صرف چند اشارات پر قناعت کر رہے ہیں اور جو کچھ عرض کیا ہے بطور مثال ہے تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ استقامت اور حکمت دونوں کا باہم چولی دامن کا ساتھ ہے‘ کسی ایک کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور دونوں کے دامن میں جو وسعت اور تنوع ہے ان کا احاطہ بھی ضروری ہے۔ لیکن اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ استقامت اور حکمت ہی وہ راستہ ہے جس پر بیک وقت چل کر ہم آج بھی اسلام کے خلاف کی جانے والی ساری سازشوں‘ منصوبوں اور تحریکوں کا کامیابی سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ جس طرح سمجھوتا اور دشمن کے آگے سپر ڈال دینا موت کا راستہ ہے اسی طرح جذبات سے مغلوب ہوکر‘ مناسب تیاری کے بغیر‘ اشتعال اور تشدد کا راستہ بھی حق و ثواب کا راستہ نہیں۔ ’’موڈریٹ اسلام‘‘ کے نام پر اسلام سے برگشتہ کرنے‘ باطل قوتوں سے سمجھوتہ کرنے یا راہِ حق سے فرار کی راہ اختیار کرنے میں دنیا اور دین دونوں کا خسارہ ہے لیکن اس یلغار کا مقابلہ بھی اسلام ہی کی بتائی ہوئی راہِ اعتدال و حق و انصاف پر جم جانے ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس کو اختیار کر کے ہمارے ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریک اسلامی کو کامیابی سے ہم کنار کیا اور اسی راستے پر چل کر آج بھی ہم اللہ کی رضا اور دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔


اس وقت اُمت کے ارباب دانش‘ اسلامی تحریکات کے قائدین اور مسلمان ملکوں کی قیادت کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان قرآنی بنیادوں پر وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا حکمت عملی بنائی جائے؟ اس حکمت عملی کی روشنی میں کیا پالیسیاں اور کیااقدامات تجویز کیے جائیں تاکہ اُمت اپنا صحیح مقام حاصل کر سکے اور دنیا کو بھی نئے استعمار کی جارحیت سے محفوظ رکھا جاسکے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے خود اپنے گھر کی اصلاح کا نقشہ بنایا جائے۔ ان خطوط کار کا تعین بھی ضروری ہے جن پر دنیا کی دوسری اقوام‘ خصوصیت سے امریکہ سے آیندہ معاملات کیے جائیں۔ اس کے تین محاذ ہوں گے: ہر ملک کا اپنا محاذ‘ اُمت مسلمہ کا اجتماعی محاذ اور عالمی سطح پر نئے نظام اور اس کے قیام کے لیے منصوبہ بندی۔ بلاشبہہ امریکہ اور اس کے عزائم اس پورے معاملے میں ایک کلیدی مقام رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں ایک سوچے سمجھے موقف کی ضرورت ہے۔ ہم مسلمانوں کے تمام اہل فکر اور خصوصیت سے اسلامی تحریکات اور مسلمان حکومتوں کے کارپردازوں کو دعوت دیتے ہیں کہ ان امور پر غوروفکر اور مباحثے اور مذاکرے کا اہتمام کریں۔ اس سلسلے میں ہم اپنی گزارشات اُمت کے سوچنے سمجھنے والے عناصر‘ مسلمانوں کے معاملات کے ذمہ دار حضرات ان لوگوں کی خدمت میں عرض کرنے کی جسارت کر رہے ہیں جو اسلامی تحریکات اور مسلم ممالک کی قیادت پر فائز ہیں۔

تین راستے

ہماری اب تک کی گزارشات سے یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ اُمت کے لیے غفلت اور فرار کا راستہ مکمل تباہی کا راستہ ہوگا۔ اس لیے مقابلہ اور مردانہ وار مقابلہ ہی زندگی اور بقا کا راستہ ہے۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ حالات کے آگے سپر ڈالنے کے معنی محکومی اور موت کے ہیں۔ یہ وہ راستہ ہے جس کے نتیجے میں ہم سوا ارب کی اُمت ہوتے ہوئے بھی خس و خاشاک سے زیادہ وزن کے حامل نہ ہوں گے اور بالآخر ایک نئی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی غلامی کی گرفت سے بچ نہ سکیں گے۔ یہ راستہ جس قوم نے بھی اختیار کیا‘ وہ تاریخ کے اوراق میں صفحۂ ہستی سے مٹ گئی‘ عبرت کا نشان بن گئی اور کبھی باقی نہیں رہی۔ افسوس کہ مسلمانوں کی ایک قابل ذکر تعداد نے طوعاً یا کرہاً ، لیکن عملاً اس تباہ کن راستے کو اختیار کر لیا ہے۔ کچھ شیطانی قوتوں کے باقاعدہ شریک کار بن گئے ہیں اور کچھ خاموش تماشائی یا نوالہ تر بننے پر آمادہ نظر آ رہے ہیں۔ یہ دراصل ذہنی‘ فکری اور عملی طور پر ہتھیار ڈال دینا ہے۔ دشمن کے رنگ میں رنگ جانا ہے‘ جسم کو بچانے کی موہوم امیدیں‘ ایمان‘ تہذیب‘ اقدار‘ نظریات اور تصورِ حیات تک کی قربانی دے دینا ہے۔ ترکی میں کمال ازم نے یہی راستہ اختیار کیا تھا۔ مغرب اور مغرب کے کاسہ لیس دانش ور‘ مسلمانوں کو آج بھی سیکولرازم اور قومیت کی دعوت دے رہے ہیں۔ مگر یہاں یہ جان لینا چاہیے کہ یہ راستہ نہ صرف روحانی اور اخلاقی موت بلکہ تہذیبی موت کا ہے۔

دوسرا راستہ یہ ہے کہ شریک کار نہ بنا جائے‘ نرم چارہ نہ بنا جائے اور بس اپنے آپ کو بچا لیا جائے۔ اسے تحفظ کی حکمت عملی (strategy of preservation) کہتے ہیں۔ اس حکمت عملی پر ایک طبقے نے ۔۔۔۔۔۔ استعماری یلغار کے پہلے دور میں بھی عمل کر کے دیکھ لیا لیکن افسوس اس سے تم نے کوئی سبق نہ سیکھا۔ بلاشبہ یہ حکمت عملی ہتھیار ڈال دینے (سرنڈر) کی پالیسی سے کچھ بہتر ہے۔ اس میں اپنے آپ کو مسجد‘ مدرسہ اور خانقاہ میں محصور کرکے تبلیغی سرگرمیوں تک محدود تو کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ حکمت عملی بھی ناکافی‘ نامکمل اور نادرست ہے‘ جس میں خطرات کا مقابلہ کرنے کی حس پر جمود طاری ہوتا چلا جاتا ہے اور بالآخر مغلوبیت اور محکومیت ایسی اقوام کا مقدر بن جاتے ہیں۔

تیسرا راستہ تصادم اور انتقام کا راستہ ہے کہ جذبات میں آکرمیدان میں کود پڑو‘ بس جان کی بازی لگا دو‘ اڑادو اور تباہ کر دو اور جس چیز پر حملہ آور ہو سکتے ہو‘ حملہ کر ڈالو۔ یہ بھی کوئی دانش مندی کا راستہ نہیںاور نہ بھی کسی پہلو سے اسے آئیڈیل شکل کہا جا سکتا ہے۔ جذبات کی ایک اہمیت ہے‘ لیکن جذبات کے ساتھ ساتھ تفکر اور سوچ بچار کی بھی ضرورت ہے۔ قرآن اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریق کار کی تعلیم دی ہے وہ استقامت کے ساتھ حکمت سے عبارت ہے۔ اس میں قوت کا استعمال تو ایک ضروری عنصر ہے مگر قوت کا بے محابا استعمال یا بس اندھی انتقامی کارروائی کا کوئی مقام نہیں۔ اس میں قوت کو حکمت کے ساتھ استعمال کرنا شامل ہے۔ جذبات کی رو میں بہہ کر تیاری اور صحیح حکمت عملی اور صحیح وقت کا تعین کیے بغیر جنگ کرنا‘ حماقت اور خودکشی ہے۔ آخر کیا وجہ تھی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۳ سال تک مکہ میں اپنی دعوت اور اپنے مسلک کے اُوپر قائم رہتے ہوئے ظلم کو برداشت کیا‘ دعوت کے لیے نئے سے نئے راستے نکالے لیکن عسکری مزاحمت نہیں کی۔ مدینہ آنے کے بعد بھی یک لخت فوج کشی شروع نہیں کر دی‘ بلکہ دفاعی تیاریاں کیں‘ اپنی قوت کار کو منظم و مرتب کیا‘ دشمن کے خلاف اقدام میں پہل نہ کی اور اپنی اجتماعیت کو میثاقِ مدینہ کی شکل میں مستحکم کیا۔ یہودی جو بغل میں بیٹھے ہوئے تھے اُن سے معاملات طے کیے‘ اور جب جنگ مسلط کر دی گئی تو اس کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ بلاشبہہ رب کی مدد اور نصرت پر بھروسا کیا لیکن اس یقینی بھروسے کے ساتھ ساتھ مادی سطح پر تیاری بھی کی۔ جیسا کہ حضورؐ نے فرمایا: اللہ پر توکل کرو‘ مگر اونٹ باندھ کر رکھو۔اگر اُونٹ کو آپ باندھیں گے نہیں‘ تدبیر اور حکمت اختیار نہیں کریں گے تو صرف توکل کی بنیاد پر کوئی ردعمل اسلامی ردعمل نہیں کہلائے گا--- گویا کہ محض جذباتی ہو کر‘ وقتی طور پر کچھ کر دینا‘ یہ بھی ایک راستہ ہے‘ مگر اس راستے میں خیر کے امکانات بہت ہی کم ہیں‘ البتہ تباہی اور برس ہا برس کی محنتوں پر پانی پھر جانے کا خطرہ ضرور ہے۔

اصل اور حقیقی اہداف

میں جتنا بھی غور کرتا ہوں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں مسلم اُمت کم و بیش اسی نوعیت کے چیلنجوں سے دوچار ہے جو بیسویں صدی کے آغاز پر ہمیں درپیش تھے۔ بلاشبہہ گذشتہ پچاس سال میں ہم نے بہت کچھ پیش رفت کی ہے لیکن حالات کی ستم ظریفی ہے کہ سیاسی آزادی کے حصول اور معاشی وسائل کی فراہمی کے باوجود ہم ایک بار پھر ویسی ہی استعماری یلغار کی زد میں ہیں جس سے بیسویں صدی کے پہلے ربع میں ہمیں نبرد آزما ہونا پڑا۔ اس کربناک ماحول میں اللہ کے چند بندوں نے اُمت کی بیداری اور تنظیمِ نو کا بیڑا اٹھایا اور حالات سے سمجھوتا کرنے کے بجاے استقامت اور حکمت کے ساتھ مقابلے کا راستہ اختیار کیا۔ جمال الدین افغانی‘ محمد عبدہ‘ علامہ محمد اقبال‘امیرشکیب ارسلان‘ سعید نورسی‘ حسن البنا شہید اور سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنے اپنے عصری حالات و ماحول کی روشنی میں ایک حیات بخش لائحہ عمل تیار کیا اور اُمت کو اس جادہ پر گامزن کیا۔ آج بھی ان سارے تجربات کو سامنے رکھ کر مقابلے اور تعمیرنو کی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ اصل اہداف کا تعین کر لیا جائے اور پھر ان اہداف کے حصول کے لیے دیکھا جائے کہ کن خطوط پر حکمت عملی وضع کی جائے۔ صرف تذکیر کی خاطر عرض ہے کہ اس سلسلے میں تین امور مرکزی اہمیت کے حامل ہیں‘ یعنی:

۱- اصل ہدف کا تعین‘ ہماری نگاہ میں وہ ہدف یہ ہے کہ ہمیں اپنے ایمان‘اپنے نظریے‘ اپنے نصب العین سے سرموانحراف نہیں کرنا چاہیے۔ جس چیز کا تقاضا ہمارا ایمان کرتا ہے‘وہ اسلام کے بارے میں ہمارا وژن ہے۔ اسلام کے مکمل نظامِ زندگی ہونے پر پختہ ایمان ہو۔ اس میں نبی پاکؐ کی سنت مطہرہ ہمارا طریقہ اور سہارا ہے۔ ہمیں اِس ہدایت کے ماخذ سے روشنی حاصل کر کے نقشۂ زندگی مرتب کرنا ہے۔ اس میں سب سے اہم چیز اپنی شناخت کا تحفظ ہے۔ اگر ہماری شناخت مجروح یا تحلیل ہو جائے تو پھر ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ گویا اس حکمت عملی میں ہمارا پہلا ہدف اپنے وژن‘ اپنے ایمان‘ اپنی شناخت اور اپنی منزل کا تحفظ ہے۔ اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔

۲-  دوسری چیز وہ قوت حاصل کرنا ہے جس سے ہم اپنے اِس وژن کو صحیح طور سے حاصل کر سکیں۔ یہ محض آنکھیں بند کر کے آگ میں کود جانے والی بات نہیں ہے‘ بلکہ اخلاقی اور اجتماعی قوت‘ مادی اور عسکری قوت کا حصول بھی منزل تک پہنچنے کے لیے ایک منصوص ضرورت ہے۔ قرآن نے اپنے اندر مقابلے کی جو استطاعت پیدا کرنے‘ گھوڑوں کو تیار رکھنے‘ اور دیگر وسائل مہیاکرنے کا حکم دیا ہے‘ ہمیں اس کو سمجھنا چاہیے اور اسے اپنی حکمت عملی میں مرکزی اہمیت دینا چاہیے۔

۳-  تیسری چیز اُمت کی وحدت ہے۔ بظاہر یہ ایک مشکل کام دکھائی دیتا ہے لیکن وحدت اور اپنی قوت کو مجتمع کرنا اشد ضروری ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ مسلم ممالک کے لیے فرداً فرداً اس سیلاب بلا کا مقابلہ مشکل ہے۔ بقا کا ایک ہی راستہ ہے کہ سب مل کر حالات کا مقابلہ کریں۔ اس سلسلے میں دینی قوتوں کا اتحاد پہلی ضرورت ہے لیکن یہ بھی کافی نہیں۔ صرف دین اور اپنی تہذیب کے بقا ہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے دنیاوی مفادات کے تحفظ کے لیے بھی مسلمان ملکوں کے لیے ناگزیر ہوگیا ہے کہ مل جل کر حالات کا مقابلہ کریں ورنہ خطرہ ہے کہ ’’تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں!‘‘

ان اصولی لیکن عملی اعتبار سے فیصلہ کن (crucial) بنیادوں کی وضاحت کے بعد ہم مطلوبہ نقشہ کار کے خدوخال کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں لیکن آگے بڑھنے سے پہلے دو بہت ہی اہم امور کو ایک بار پھر بہت صاف الفاظ میں بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ان پر ساری نظری اور عملی حکمت عملی کی کامیابی کا انحصار ہے۔

صاحب دعوت اُمت

اولاً ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ایک صاحب دعوت اُمت ہیں اور مقابلے کے لیے قوت کوئی بھی ہو اور مقابلے کا زمانہ کچھ بھی ہو‘ ہمارا مقصد دشمن کی تباہی نہیں‘ انسانیت کی اصلاح اور فلاح ہے اور اللہ کے بندوں کو‘خواہ وہ کہیں بھی ہوں اور کسی بھی نظام کے تحت ہوں بالآخر اللہ کے راستے کی طرف لانا ہے۔ مقابلے‘ لڑائی اور جنگ میں بھی ہمارا مقصود دوسروں کی تباہی نہیں‘ ان کو خیر کی طرف بلانا ہے۔ اسی لیے آج امریکہ کے استعماری عزائم‘ فکری اور ثقافتی یلغار‘ معاشی شکنجوں اور جنگی کارروائیوں تک کے مقابلے میں ہمیں یہ بات سامنے رکھنی چاہیے کہ امریکی عوام کی تباہی ہمارا ہدف نہیں۔ پھر آج کی سوسائٹی کی جو ساخت ہے‘ اس میں امریکہ محض وہاں کی موجودہ قیادت اور انتظامیہ کا نام نہیں۔ خود اس معاشرے میں متعدد قوتیں برسرکار ہیں اور ان میں خیر اور شر دونوں عناصر موجود ہیں۔ ایک صاحب دعوت اُمت اور ایک داعی الی الخیر اُمت کی حیثیت سے ہمیں کوئی جذباتی یا یک رخا انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔اس لیے ڈائیلاگ کا راستہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے اور بگاڑ کو محدود کرنے کے لیے جہاں کہیں سے ہمیں معاون و انصار مل سکیں اس کی ہمیں اتنی ہی فکر کرنی چاہیے جتنی اپنے حقیقی دفاع کی۔ ہر معاشرے میں کچھ خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں اور ہر ملک میں کچھ اچھے نفوس بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس لیے مسلم اُمت کی دفاعی اور جنگی دونوں حکمت عملیوں کی بھی ایک امتیازی شان ہونی چاہیے اور عمومی تباہی کبھی ہمارا طریقہ نہیں ہو سکتا۔ شرمحض کا کوئی وجود نہیں اور خیر جہاں بھی ہو اور جس درجے میں ہو اس کو ہمیں اپنا اثاثہ بنانا چاہیے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی حکمت عملی‘ جنگی نقشہ کار اور سفارت کاری میں ہمیں مقابلے اور مذاکرے کا ایک حکیمانہ امتزاج نظر آتا ہے۔ اسے آج بھی ہماری حکمت عملی کا امتیاز ہونا چاہیے۔

کثیر جہتی حکمت عملی

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ امریکہ جس طرح آج اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہ بھی کوئی یک رخی (one dimensional) جنگ نہیں ہے۔ بلاشبہہ اس کی عسکری قوت اور فوجی بالادستی اس نقشہ جنگ میں مرکزی اہمیت رکھتی ہے۔ آج امریکہ کی فوجی قوت دنیا کے باقی تمام ممالک کی مشترک فوجی استعداد سے بھی زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ جس ملک پر چاہتا ہے‘ چڑھ دوڑنے کے لیے تیار ہے اور ایک کے بعد دوسرے کو نشانہ بنانے کے منصوبے بنا رہا ہے اور اقوامِ متحدہ کو بھی اپنی باندی سے زیادہ وقعت نہیں دیتا۔ لیکن یہ سمجھنا بہت بڑی غلطی ہوگی کہ یہ جنگ بس ایک عسکری معرکہ ہے۔ نئے استعمار کے دوسرے رُخ --- فکری‘ معاشی‘ تہذیبی اور اعلامی بھی اتنے ہی اہم اور نئی غلامی کی زنجیروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے مقابلے کی حکمت عملی کو بھی کثیرجہتی (multi-dimensional) ہونا چاہیے ورنہ جس یلغار کی زد میں ہم ہیں اس کا مقابلہ ممکن نہیں ہوگا۔

ہماری حکمت عملی میں ان دونوں پہلوئوں کا پورا پورا لحاظ رکھا جانا ضروری ہے۔   ہماری نگاہ میں پاکستان اور اُمت مسلمہ کو آج جس حکمت عملی کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے  اس کے تین پہلو ہیں--- ۱- نظریاتی اور اخلاقی ۲- تزویری (structural) ۳- اطلاقی (operational) ۔ ہم ان تینوں کے بارے میں چند گزارشات پیش کر رہے ہیں:

نظریاتی اور اخلاقی

ہماری حکمت عملی کی اساس محض مفاد اور وقتی مصالح نہیں ہو سکتے۔ ملک کا مفاد‘ اُمت کا مفاد‘ بلکہ انسانیت کا مفاد بلاشبہہ اس کا ایک اہم حصہ ہے اور وقتی مصالح سے بھی صرف وہی صرفِ نظر کرسکتا ہے جس کے پائوں زمین پر نہ ہوں۔ لیکن کسی مسلمان‘ کسی مسلمان ملک اور بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ان کی حکمت عملی کی اساس ان کا ایمان‘ ان کا نظریہ‘ ان کا تہذیبی مشن اور ان کی اخلاقی استعداد ہو۔ اس لیے ہم جو بھی راستہ اختیار کریں اور جو بھی منصوبہ کار تیار کریں اس میں سب سے پہلی چیز اللہ سے تعلق‘ اپنے خلیفۃ اللہ ہونے کا شعور اور خیراُمت کی حیثیت سے اپنے تاریخی رول کا ادراک ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اُمت مسلمہ کی بقا اور اس کے احیا کے لیے جو حکمت عملی بھی وضع کی جائے گی اس کا اولیں نکتہ استعانت باللّٰہ ہے۔ اقبال نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے یہ حقیقت الم نشرح ہو جاتی ہے کہ اس پوری تاریخ میں مسلمانوں نے اسلام کو نہیں بچایا بلکہ اسلام نے مسلمانوں کو بچایا ہے۔ مادی قوت‘ فکری محرک‘ عسکری اور سائنسی طاقت سب ضروری ہیں لیکن سب سے اہم چیز اللہ سے تعلق‘ اللہ کی مدد اور اسلام کی رسّی کو تھامنا ہے۔ نقطۂ آغاز ایک اور صرف ایک ہے:

الذین اذا اصابتھم … ا نا للّٰہ وانا الیہ راجعون (البقرہ ۲:۱۵۶)

جب ان پر تکلیف دہ مصیبت حملہ آور ہوتی ہے تووہ کہتے ہیں --- بے شک ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

اور حقیقت بھی یہی ہے کہ

ان ینصرکم اللّٰہ ……… فلیتوکل المومنون (آل عمران ۳: ۱۶۰)

اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکے گا اور اگر وہ تمھیں چھوڑ دے تو اس کے بعدکون ہے جو تمھاری مدد کرے؟ اور اللہ ہی پر ایمان والوں کو بھروسا کرنا چاہیے۔

دوسری چیز اصلاح ذات ہے۔ اُمت کی ترقی کا کوئی راستہ محض وسائل کی فراوانی سے استوار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کوئی میکانکی عمل نہیں۔ اس میں اصل قوتِ کار مسلمان مرد اور مسلمان عورت ہے۔ ان کی حیثیت عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والی اینٹوں کی ہے۔ اگر یہ اینٹیں کمزور اور خستہ ہوں گی تو عمارت مضبوط کیسے ہوگی؟

واضح رہے کہ ذات کی فکر اس معنی میں نہیں ہے کہ ہم تنومند ہو جائیں اور مال دار بن جائیں۔ بلاشبہہ اچھی صحت اور مالی قوت بھی درکار ہے‘ لیکن اصل قوت راسخ ایمان اور مضبوط کردار کی ہے۔ انفرادی تزکیے اور سیرت سازی کے ذریعے ہی اس اُمت کا ہر فرد اُمت کی قوت کا ذریعہ بن سکتا ہے  اور پھر یہ گروہ ایک ایسا گروہ بن سکتا ہے جو لوہے کے چنوں کی مانند ہوں کہ کوئی آپ کو چبا نہ سکے اور کوئی چبانے کی کوشش کرے تو اپنے دانت تڑوا بیٹھے۔

تیسری چیزدعوت الی اللّٰہ ہے۔ دعوت الی اللہ ہی اُمت کو بیدار اور متحرک کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے اور اس کے ذریعے ہم دنیا کے دوسرے لوگوں تک ایک پیغام کے علم بردار بن کر پہنچ سکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس کو اختیار کر کے اُمت میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا رواج ہو سکے گا اور معاشرے کی اصلاح واقع ہو سکتی ہے۔ اس سے تعلیمی ترقی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ معاشرے کو متحرک اور تیار کیے بغیر مسلمان عسکری‘ سیاسی اور معاشی چیلنج کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتے۔ خاندان‘ معاشرہ اور اجتماعیت ان سب کی قلب ماہیت اگر ہو سکتی ہے تو دعوت الی اللہ کو مرکز و محور بنا کر ہی ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن سے ربط و تعلق اور اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا کرنا اور سیرت پاکؐ سے نسبت اور حضورؐ کی محبت اور اطاعت کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ کام باہر نکلے اور لوگوں تک پہنچے بغیر انجام نہیں دیا جا سکتا۔ قرآن اور سیرت نبویؐ سے جو سبق ہم سیکھتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے عوام تک پہنچیں۔ انھیں بیدار کرنے اور ان کے اخلاق سنوارنے کے لیے سب مل جل کر کام کریں۔ جب تک ہم سب دعوت کے اس عمل میں مصروف اور متحرک نہیں ہو جاتے‘ اُمت کو وہ قوت میسر نہیں آسکتی جس سے وہ بیرونی خطرات کا مقابلہ کر سکے۔

اس سلسلے کی چوتھی چیز آپس میں رواداری اور اخوت کا پیدا کرنا اور اختلافات کے سلسلے میں برداشت اور تکثر(plurality) کی حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ہے۔ لازمی ہے کہ ہم اپنے دینی‘ سیاسی اور تہذیبی اختلافات کو حدود میں رکھنا سیکھیں اور اختلاف مسلک کو جنگ و جدال اور تصادم کا رنگ نہ دیں۔ ضروری ہے کہ یہ احساس پیدا کیا جائے دین کے دائرے میں بھی فطری اختلافات لائق احترام ہیں۔ دوسرے الفاظ میں برداشت‘ افہام و تفہیم‘ ایک دوسرے کو قبول کرنا ہمارا طریقہ ہو۔ اس لیے کہ اُمت کی وحدت اگر قائم ہو سکتی ہے تو وہ ایمان کے بعد ایک دوسرے کو قبول کرنے سے اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے سے ہو سکتی ہے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب مسلم قیادت‘ اپنی ذات سے بلند ہو کر اختلاف کوحدود میں رکھناسیکھے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے درمیان تین روایات کو پروان چڑھانا ہوگا یعنی اختلاف کے باوجود باہم متحد رہنے کا جذبہ‘ دوسرا افہام و تفہیم کے جذبے سے مسلسل مکالمہ اور تبادلہ خیال اور تیسرے مشاورت اور نصیحت کے نظام کا احیاء مشاورت کا دائرہ صرف اپنے تک ہی محدود نہ رہے بلکہ مشاورت کے دائرے کو زندگی کے تمام شعبوں میں رواج دیں۔

حکمت عملی کے نظریاتی اور اخلاقی یہ چار ستون ہیں جنھیں اساسی مقام دینا ناگزیر ہے۔

تزویری دائرہ

حکمت عملی کا دوسرا دائرہ تزویری (structural) ہے جس سے ہماری مراد یہ ہے کہ ہر مسلمان ملک اور بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ کو اپنے نظام میں بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ ان پہلوئوں کو محض وسطی مدت یا لمبی مدت کی اصلاحات کے نام پر معرض تعویق میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ ان اصلاحات کی فوری ضرورت ہے اور اس باب میں ایک ایک دن کی تاخیر بھی ملک و ملت کو بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔

اس سلسلے کی سب سے پہلی ضرورت آزادی اظہار اور بنیادی انسانی حقوق کا‘ جن کی ضمانت اسلام دیتا ہے‘ غیر مشروط تحفظ ہے۔ ہر وہ معاشرہ جو سوچنے‘ سمجھنے والے ذہنوں پر قفل لگاتا ہے‘ اظہارِ خیال‘ افہام و تفہیم‘ بحث و مذاکرے کے مواقع سے اپنے ہی لوگوں کو محروم رکھتا ہے اور اصل حقائق اور رجحانات کو جاننے‘ سمجھنے اور ان کی روشنی میں صحیح رویے اختیار کرنے سے احتراز کرتا ہے وہ قوم کی تخلیقی اور تعمیری قوتوں کو مضحمل کر رہا ہے‘ اور جھوٹے استحکام کے نام پر فرد اور قوم دونوں کی ترقی کی راہیں مسدود کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تزویری اصلاحات کے باب میں یہ پہلی ضرورت ہے۔

دوسری چیز دوسروں کے مقابلے میں اپنی قوم پر اعتماد‘ اس کو پالیسی سازی میں شریک کرنا‘ حقیقی شورائی اور جمہوری نظام کی ترویج اور تمام قومی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں informed debate کی روایت کا قیام ہے۔ کسی ایک فرد پر انحصار ہماری سب سے بڑی اور خطرناک غلطی ہوگی۔ مجالس دانش (think tanks) کا قیام‘ کھلی بحث اور اجتماعی احتساب ہی میں ہماری ترقی اور قوت کا راز مضمر ہے۔

تیسری چیز تعلیم‘ تحقیق‘ ایجادو انکشاف اور مادی وسائل اور ٹکنالوجی کے میدان میں نہ صرف ترقی بلکہ مقابلے کی ترقی ازبس ضروری ہے۔

چوتھی چیزاصولی طور پر تو ہر دور میں لیکن خالص عملی اعتبار سے آج کی دنیا میں‘ خصوصیت سے عالم گیریت کے ایسے طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے جو ہمیں ہماری معیشت اور ہماری تہذیب کو جڑ سے اکھاڑ دینے پر تلی ہوئی ہے‘ وہ کچھ دائروں میں ہر مسلمان ملک اور بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ کی خودانحصاری ہے۔ خودانحصاری کے معنی ہر میدان میں خودکفالت نہیں کہ یہ قدرت کی تقسیم وسائل اور صلاحیتوں کے تنوع کے نظام سے مطابقت نہیں رکھتی۔ نہ اس کے معنی دنیا سے کٹنا اور تجارت‘ معیشت‘ مالیات‘ ثقافت وغیرہ کے میدانوں میں دنیا سے الگ ہوجانے کے مترادف ہے۔ خود انحصاری کا اصل مفہوم یہ ہے کہ ایک قوم اپنے بنیادی‘ معاشی‘ مالیاتی‘ سیاسی اور ثقافتی فیصلے کسی دبائو اور مجبوری کے تحت نہیں بلکہ اپنے تصورات‘ اقدار‘ اصولوں اور منصفانہ مفادات کی بنیاد پر کر سکے اور اپنے اندر ایسی فکری‘ معاشی اور عسکری قوت فائق ہو کہ دوسرے اس کے فیصلوں پر ناروا انداز میں اثرانداز نہ ہو سکتے ہوں۔ اس کے برعکس سامراجی نظام کا خاصا یہ ہے‘ خواہ کسی شکل میں بھی ہو‘ کہ وہ دوسروں کو دنیا کا محتاج بناتا ہے اور ان کو فیصلے کی آزادی سے محروم کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غلامی شخصیت کی نفی کے مترادف ہے اور تاریخ کا سبق بھی یہی ہے کہ جو قوم اپنے پائوں پر کھڑی نہ ہو سکے اور اس کے وجود کا انحصار دوسروں پر ہو‘ وہ کبھی عزت کا مقام حاصل نہیں کر سکتی۔ اُمت مسلمہ کو بھی زمین و آسمان کے خالق نے جو مشن دے کر زمین پر برپا کیا ہے وہ ہے:  شھداء علی الناسکا مقام۔

اگر یہ اُمت ہی دوسروں کی ذہنی اور فکری طور پر‘ نظریاتی اور تہذیبی طور پر‘ اسلامی اور ثقافتی طور پر‘ مادی اور سائنسی طور پر‘ سیاسی اور عسکری طور پر دست نگر ہو جائے تو پھر یہ اپنا تشخص کیسے برقرار رکھ سکتی ہے اور اپنا تاریخی کردار کیسے ادا کر سکتی ہے؟ آج پوری دنیا کو اور خصوصیت سے مسلم ممالک کو جو خطرات درپیش ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اگر وہ سب سرجوڑ کر نہیں بیٹھتے اور مل جل کر ایک دوسرے کی قوت کا ذریعہ نہیں بنتے تو ڈر ہے کہ خدانخواستہ ایک ایک کر کے سب پٹ جائیں گے۔ اگر آج عراق نشانہ ہے تو کل ایران ہوگا اور پرسوں پاکستان‘ شام‘ سعودی عرب‘ انڈونیشیا‘ ترکی۔ یہ محض ایک واہمہ نہیں بلکہ آج کی دنیا کے geo-political حالات پر نظر ڈالنے والا ہرشخص اس نقشہ جنگ کو بچشم سر دیکھ سکتا ہے بلکہ یہ نشانہ بازی شروع ہوچکی ہے اور جن ۲۵ ممالک کے شہریوں سے امریکہ میں امتیازی سلوک قانون کے ڈنڈے کے زور سے شروع ہواہے ان میں سے ۲۴مسلمان ملک ہیں اور سرفہرست وہ ہیں جو اپنے کو امریکہ کا حلیف اور تاریخی اعتبار سے دوست سمجھے ہوئے ہیں۔ عراق کے خلاف محاذ محض عراق کے خلاف نہیں بلکہ ایک عالمی جنگ کا نقطۂ آغاز ہے اور سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ ابھی ۱۲ جنوری ۲۰۰۳ء کے واشنگٹن پوسٹ میں صدربش کی دو صفحات پر مشتمل ایک نہایت خفیہ (top secret)دستاویز شائع ہوئی ہے‘ جو ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعہ سے صرف ۶ دن بعد یعنی ۱۷ستمبر کو ضبطِ تحریر لائی گئی تھی اس میں افغانستان کے خلاف جنگ کی ہدایات کے ساتھ وزارتِ جنگ (Pentagon) کے لیے یہ احکام بھی شامل ہیں کہ:

to begin planning military options for an invision of Iraq.

عراق پر حملے کے لیے عسکری متبادلات کی منصوبہ بندی شروع کرنا۔

اور پھر ۱۷ جنوری ۲۰۰۳ء کو اسی واشنگٹن پوسٹ میں یہ بات بھی آگئی ہے کہ مقصد عراق کے نام نہاد تباہی کے اسلحے پر قبضہ نہیں بلکہ عراق پر مکمل فوجی قبضہ اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان پر قبضہ کی طرح امریکی فوج کے حاضر سروس جنرل کے تحت فوجی قبضہ ہے۔

افسوس کہ ہمارے کمانڈو صدر ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کا افغانستان اور عراق سے‘ اور عراق کا ایران‘ پاکستان اور سعودی عرب سے تعلق (linkage) دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اور اس خودفریبی میں مبتلا ہیں کہ ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی‘ اپنی نبیڑ تو!‘‘ ہمیں اس خواب سے اب بیدار ہو جانا چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ خودانحصاری اور اُمت مسلمہ کی وحدت کے سوا کوئی راستہ کسی کے لیے بھی بچائوکا راستہ نہیں۔ ہم مل کر ایک قوت بن سکتے ہیں اور الگ الگ ہر ایک پٹ جائے گا اور خدانخواستہ وہی ہوگا جو دولت عثمانیہ کے انتشار‘ تقسیم اور علاقائیت کے ہاتھوں سو سال پہلے ہوا یا شمالی عربوں‘ اور حجازیوں اور یمنی عربوں کی باہمی آویزش اور داخلی نزاعات کے نتیجے میں سات سو سال پہلے اندلس (اسپین) میں ہوا تھا۔ یہ اتحاد دین و ایمان اور نظریے اور تہذیب کا تقاضا تو ہے ہی‘ لیکن آج تو یہ بقاے باہمی کے لیے ایک ناگزیر ضرورت بن گیا ہے۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں اور ارباب ثروت کا اپنا مفاد اس میں مضمر ہے کہ وہ امریکہ پر انحصار کو کم کریں اور اپنے معاملات اور اپنے وسائل اپنے تصرف میں لائیں اور مسلم ممالک میں مقابلے کی قوت پیدا کریں۔ ستم ہے کہ اس وقت مسلم ممالک کا ۳.۱ ٹریلین یعنی ایک ہزار تین سو ارب ڈالر کا سرمایہ امریکہ اور یورپی ممالک میں لگا ہوا ہے اور اب اس رقم کو آسانی سے امریکہ اور یورپی ممالک سے واپس لانا بھی مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اگر اس رقم کا نصف بھی مسلم ممالک کی معاشی ترقی کے لیے صحیح ترجیحات کے ساتھ استعمال ہو تو چند سال میں مسلمان ممالک ایک عالمی معاشی قوت بن سکتے ہیں۔ جن ممالک اور افراد کا یہ سرمایہ ہے یہ خود ان کے مفاد میں ہے کہ اس کو مغرب کی گرفت سے نکالیں۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ اپنی گردن ان ممالک کے ہاتھ میں دے دیں اور پھر اپنی آزادی اور خودمختاری کا خواب بھی دیکھیں۔ حالات ہمیں اس مقام پر لے آئے ہیں کہ مسلم ممالک میں معاشی‘ مالیاتی‘ تعلیمی‘ سائنسی‘ عسکری غرض ان سب میدانوں میں خودانحصاری کے حصول کو اولیت دی جائے۔ اس کے بغیران ممالک کے آزاد رہنے اور کوئی مثبت عالمی کردار ادا کرنے کا کوئی امکان نہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ نظریاتی اور اخلاقی اساس پر ایک مضبوط معیشت ‘ مادی وسائل کا حصول‘ ٹکنالوجی کے میدان میںمقابلے کی مہارت اور عسکری اعتبار سے اتنی قوت کہ آپ اپنا دفاع موثرانداز میں کر سکیں‘ پوری اُمت کی اجتماعی ضرورت ہے۔ وسائل موجود ہیں۔ امکانات کی کمی نہیں۔ کمی ہے تو وژن کی‘ منصوبہ بندی کی‘ اپنے ہی وسائل کے ٹھیک استعمال کی‘ سمجھ دار اور باصلاحیت قیادت کی۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ اب options کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں اور مسلمانوں کے اتحاد‘ مسلمان عوام کی بیداری اور اُمت میں مقابلے کی قوت کو ترقی دینے کے سوا زندہ رہنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ان بنیادی تبدیلیوں اور تزویری اصلاحات کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ان کا آغاز بلاتاخیر ہو جانا چاہیے لیکن ان کے پورے اثرات رونما ہونے میں ایک وقت لگے لگا۔ فوری تعاون کے راستے بھی اختیار کیے جا سکتے ہیں اور کیے جانے چاہییں لیکن اصل ضرورت یہ ہے کہ تعاون اور ربط باہمی (cooperation and coordination) سے آغاز کر کے اتحاد‘ انضمام اور انحصارباہمی (unity, integration and inter - dependence) کی طرف مراجعت کی جائے تاکہ ہمارا اتحاد محض اوپری انداز کا نہ ہو بلکہ اُمت مسلمہ اپنے تنوع کو باقی رکھتے ہوئے ایک حقیقی وحدت کی شکل اختیار کرلے۔ اگر یورپ صدیوں کے جنگ وجدال اور ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہونے کے باوجود مصالح کی بنیاد پر ایک معاشی اور سیاسی وحدت بن سکتا ہے تو مسلمان اُمت کیوں نہیں بن سکتی۔ آج بھی اُمت کے عوام میں ہم آہنگی اور یگانگت ہے‘ حکمران اور مخصوص مفاد کے پرستار اصل رکاوٹ ہیں۔ لیکن اب یہ خود ان کے مفاد میں ہے کہ اپنے اس خول سے نکلیں اور وہ راستہ اختیار کریں جو اُمت کے اور خود اُن کے حق میں بہتر ہے۔

مسلمان عوام آج بھی ہر مسلم مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں اور جان اور مال سے اس میں شرکت اپنے لیے باعث شرف سمجھتے ہیں۔ ہمارے لیے اس عوامی جذبے کو اجتماعی نظام کی بنیاد بنانا زیادہ آسان ہے۔ اس گئے گزرے دور میںبھی آخر ۱۹۶۵ء کی جنگ کے موقع پر ایران اور عرب ممالک ہی نہیں ‘انڈونیشیا نے بھی بھارت سے اپنے تاریخی تعلقات اورنہروسوئیکارنو دوستی کی روایات کے باوجود کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا تھا اور صرف سفارتی میدان میں ہی نہیں‘  عملی عسکری تعاون کے ذریعے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد پاکستان کی تیل کی ضروریات کو پورا کرنے میں سعودی عرب اور کویت نے جو تعاون کیا ہے وہ بھی محض خیالی چیز نہیں۔ اس کے باوجود صدر صاحب کا جنوری ۲۰۰۳ء میں لاہور کے دانش وروں کی محفل میں یہ ارشاد کہ ’’ہماری مدد کو کون آیا‘‘ ایک غیر حقیقت پسندانہ ارشاد ہے۔

اطلاقی دائرہ

حکمت عملی کا تیسرا اور فوری توجہ کا حصہ اطلاقی (operational) ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز امریکہ سے تعلقات پر نظرثانی ہے۔ امریکہ ایک عالمی قوت بلکہ واحد سوپر پاور ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے خلاف محاذ آرائی یا تصادم نہ مطلوب ہے اور نہ یہ کوئی راستہ ہے۔ لیکن وقت آگیا ہے کہ مسلمان ملک فرداً فرداً اور مل کر امریکہ کو ایک پیغام دیں--- ہم دوستی اور تعاون کا راستہ تو اختیار کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی ایسے نظام کو ہرگز قبول نہیں کرسکتے جس میں ایک قوم کی بالادستی سب پر قائم کی جائے۔ شمالی کوریا نے جرأت مندانہ پالیسی کا ایک نمونہ پیش کیا ہے حالانکہ شمالی کوریا ایک غریب ملک ہے جس کی قومی دولت جنوبی کوریا کا بھی صرف چالیسواں حصہ اور تیل اور خوراک دونوں میں باہر کی سپلائی کا محتاج ہے۔ مسلم ممالک اپنے وسائل‘ جغرافیائی محل وقوع‘ معاشی دولت‘ سیاسی وزن (leverage) ہر اعتبار سے کہیں زیادہ موثر قوت بن سکتے ہیں بشرطیکہ وہ ذاتی مفاد کے چکر سے نکل کر اجتماعی قوت اور فلاح باہمی کا راستہ اختیار کریں۔ اس کے لیے عزم اور وژن کے ساتھ مکالمے (dialogue) اور اجتماعی تحفظ کے لیے سدجارحیت (deterrance) کا راستہ بیک وقت اختیار کیا جائے۔ اس وقت امریکہ نے جن ۲۵ ممالک کے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک شروع کیا ہے ان میں سے ۲۴ ممالک مسلمان ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر فوری طور پر پہل قدمی کی ضرورت ہے۔ یہ امریکہ سے تعلقات پر نظرثانی کے لیے ایک مناسب نقطہ آغاز ہے۔ بلاشبہہ ہر ملک کو اپنے تحفظ کا اختیار ہے لیکن دہشت گردی کے خطرے کے سدباب کے نام پر کچھ خاص ملکوں کو نشانہ بنانا اقوامِ متحدہ کے چارٹر‘ انسانی مساوات کے بنیادی اور مسلمہ اصول اور خود امریکی دستور کی پہلی دفعہ کے خلاف ہے۔ اس پر مستزاد کہ یہ پابندی selective اور discriminitary ہے یعنی دنیا کے ۱۹۰ ممالک میں سے صرف ۲۵ کے خلاف جو بظاہر دوست ملک ہیں اور ان کی عالمی سطح پر امریکہ سے کوئی مخالفت نہیں رہتی۔ بین الاقوامی قانون میں وہ نہ برسرِ جنگ ہیں اور نہ alien طاقتوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ اسی طرح یہ پابندی جنس کی بنیاد پر امتیاز کی زد میں بھی آتی ہے کہ صرف ۱۶ سال کی عمر کے مردوں پر اس کا اطلاق ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دوسری جنگ کے بعد دنیا کے سارے ممالک میں اگر کسی ملک میں امریکیوں کے خلاف دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے ہیں تو وہ یونان ہے مگر وہ اس فہرست میں شامل نہیں۔ اگر معاملہ تارکینِ وطن اور خاص طور پر غیر قانونی تارکینِ وطن کا ہے تو امریکہ کے اپنے رپورٹر گواہ ہیں کہ ہر سال امریکہ میں ۳۰۰ ملین افراد باہر سے آتے ہیں جن میں سے ۲ ملین واپس نہیں جاتے۔ ان میںسب سے زیادہ لوگوں کا تعلق میکسیکو‘ یورٹوریکا ‘کیوبا اور دوسرے جنوبی امریکہ کے ممالک سے ہے لیکن یہ سب اس فہرست سے باہر ہیں۔ اس لیے سیاسی اور قانونی دونوں محاذ پر اس قانون اور مسلمانوں پر اس کے اطلاق کے خلاف ایک عالم گیر مہم چلانی چاہیے۔

اسی طرح عراق کی جنگ کا مسئلہ اس لیے اہم ہے کہ عراق تو ایک عالمی استعماری جنگ کے آغاز کا صرف عنوان ہے۔ اصل مسئلہ اصول کا ہے کہ کیا بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر سے بالا ہو کر امریکہ یا اس کے کسی اتحادی ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ محض کسی خیالی خطرے کا سہارا لے کر pre-emptive strike کے نام پر (جس کا بین الاقوامی قانونِ جنگ و صلح میں کوئی مقام نہیں) ایک دوسرے خودمختار ملک پر جو اقوامِ متحدہ کا رکن بھی ہے‘  فوج کشی کر سکتا ہے۔ کیا ملک کی حکومت بدلنے کے لیے کسی دوسرے ملک پر فوج کشی‘ قیادت کے  قتل یا بغاوت کو منظم کرنے کا جواز ہے۔ اسی طرح کیا کسی بھی ملک کو اس بنیاد پر کہ اس کے پاس مہلک ہتھیار ہیں‘ نشانۂ جنگ بنایا جا سکتا ہے۔

یہ وہ بنیادی ایشوز ہیں جو آج معرضِ خطر میں ہیں۔اگر دنیا کے دوسرے ممالک اور خصوصیت سے مسلم اور عرب ممالک خود کو ان فوجی جولانیوں اور جنگی تباہیوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو آج عراق پر امریکہ کی دست درازی کو روکنا اس کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوری کے وسط میں دنیا کے ۲۵ ممالک میں امریکہ کے جنگی عزائم کے خلاف عوامی مظاہرے ہوئے ہیں اور خود واشنگٹن‘نیویارک‘لاس اینجلز اور سان فرانسسکو جنگ کے خلاف نعروں سے گونج رہے ہیں۔ جرمنی اور فرانس نے بھی موثر احتجاجی آواز بلند کی ہے اور روس اور چین بھی اس صورتِ حال پر مضطرب ہیں۔ صرف اسرائیل اور بھارت اپنے اپنے استعماری عزائم کی وجہ سے بش کا ساتھ دے رہے ہیں۔ امریکہ کے سابق صدر کلنٹن بھی کھل کر اس جارحیت کے خلاف شکایت کناں ہیں لیکن اس جارحیت کا اگلا ہدف بننے والے مسلم ممالک منقارزیر پر ہیں۔ یہ وقت جاگنے‘ احتجاج کرنے اور خارجہ پالیسی کو نئے خطوط پر استوار کرنے کا ہے۔ اس کے لیے پاکستان اور تمام مسلم ممالک کو بروقت اقدام کرنا چاہیے۔

دوسری فوری ضرورت امریکہ اور پوری مغربی دنیا سے معنی خیز مکالمے کا آغاز ہے جس میں صرف حکومتیں ہی نہیں‘ ان ممالک کے تمام موثر عناصر اور عوام مخاطب اور شریک ہوں۔ اس کے لیے میڈیا کی قوت کا استعمال ازبس ضروری ہے۔ آج دنیا کے ذہنوں پر امریکی میڈیا چھایا ہوا ہے جو خود پنجۂ یہود میں ہے۔ الجزیرہ ٹی وی چینل کی ایک ننھی سی آواز ہے جس نے عرب دنیا میں کچھ آگاہی پیدا کی ہے لیکن ضرورت ایک ایسے طاقت ور میڈیا کی ہے جو مسلم ذہن اور عالم اسلامی کے جذبات اور مفادات کا ترجمان ہو لیکن یہ نہ محض سرکاری آواز ہو اور نہ ابلاغ کے جدید ترین اسالیب سے محروم۔ یہ وسائل ہمارے پاس ہیں۔ پاکستان نے حال ہی میں خود اپنا سیٹلائٹ فضا میں آویزاں کیا ہے جو اعلیٰ پیشہ ورانہ انداز میں ہماری آواز پوری دنیا تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہم اپنی سیاسی بازی محض اپنی بے تدبیری اور بے عملی کی وجہ سے ہار رہے ہیں جسے انگریزی محاورہ loosing by default کہا جاتا ہے۔ اس کی تلافی کی فوری ضرورت  ہے اور یہ کام مناسب منصوبہ بندی سے ا نجام دیا جائے تو مہینوں نہیں‘ ہفتوں میں ہوسکتا ہے۔

ہمیں یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ مسلم دنیا کے اتحاد کے ساتھ دنیا کے ان تمام ممالک‘ اقوام اور گروہوں کو ہمیں اپنے ساتھ ملانا چاہیے جو آزادیوں کے تحفظ‘ استعمار کے خلاف جنگ‘ بین الاقوامی قانون کی پاس داری‘ انصاف کے قیام کے مقاصد کے حصول کے لیے ہمارے معاون ہو سکتے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں ان کے لیے کوشاں ہیں۔ اگر انھیں مناسب طور پر منظم اور استعمال کیا جائے تو یہ ساری قوتیں اس جدوجہد میں ہماری حلیف اور ساتھی ہیں اور مزید بن سکتی ہیں۔ مکالمے کا ایک کردار یہ بھی ہے کہ جہاں ہم حکومتوں سے مذاکرات کریں‘ وہیں دوسری سطح پر افہام و تفہیم کا سلسلہ شروع کریں اور اس طرح دنیا کو سب کے لیے ایک زیادہ پُرامن اور منصفانہ بنانے کی خدمت انجام دے سکیں۔

تیسری ضرورت مکالمے کے ساتھ سیاسی‘ معاشی اور عسکری محاذوں پر ایسی منصوبہ بندی اور تنظیم کی ہے جو کمزور ممالک کے خلاف جنگی یلغار یا انھیں مغلوب کرنے کی چالبازیوں کے مقابلے میں سدجارحیت کا کردار ادا کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نگاہ میں وقت کی اہم ترین ضرورت مغرب پر انحصار کو ختم کرنا‘ مغرب سے موثر اور معنی خیز مکالمہ شروع کرنا اور خودانحصاری کی بنیاد پر اپنی سدجارحیت کی طاقت کو وجود میں لانا ہے۔ یہ کام ٹھوس منصوبہ بندی اور مسلسل جدوجہد کا متقاضی ہے۔ اس کے لیے معاشی اور عسکری قوت اوراپنے وسائل پر اپنی گرفت ضروری ہے۔ نہ ہم اتنے کمزور ہیں کہ یوں گھٹنے ٹیکتے چلے جائیں اور نہ اتنے قوی ہیں کہ فوری تصادم کاخطرہ مول لے سکیں۔ اس لیے استقامت اور حکمت سے راستہ نکالنے ہی میں اُمت کی نجات ہے۔ اس کے لیے جہاں نظریاتی استحکام ضروری ہے وہیں مادی قوت کا حصول اور اس کا صحیح صحیح استعمال بھی ضروری ہے۔ خطرات کا صحیح شعور اولیں شرط ہے لیکن بلاتیاری مقابلہ اور تصادم کے راستے کو اختیار کرنا بھی خود تباہی کا راستہ ہے۔ اس لیے جو بھی نقشہ کار وضع کیا جائے اسے پوری حکمت ‘ دانائی اورمومنانہ فراست سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے کی آخری چیز صحیح معاشی منصوبہ بندی اور مسلم ممالک میں ایک ہمہ گیر معاشی ترقی کا کریش پروگرام ہے۔ جس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی معاشی بحالی کے لیے مارشل لا پلان بنایا گیا تھا اسی طرح اس وقت اسلامی دنیا میں معاشی ترقی‘ جدید ٹکنالوجی میں قوت کے حصول‘ بنیادی صنعتوں اور asset creation کے مقاصد کے لیے فوری اقدام درکار ہیں۔ مسلم سرمایے کو محفوظ کرنے کا بھی یہی ذریعہ ہے کہ وہ مسلم ممالک میں asset creation کے لیے استعمال ہو۔ ترکی کے ایک صاحب نظر سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان کی پہل قدمی پر D-8 کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اب وقت ہے کہ فوری طور پر اس وژن پر عمل ہو اور اسلامی ترقیاتی بنک‘ او آئی سی‘ اسلامک چیمبر آف کامرس اور دوسرے متعلقہ ادارے فوری طور پر ان ممالک میں متقابل فوائد اور تقسیم کار کے معاشی اصولوں کی روشنی میں معاشی ترقی کا ایک ماسٹر پلان بنائیں اور اس پر عمل شروع کریں۔ کم از کم ۸ مسلمان ملک ایسے ہیں جن کے پاس جدید ٹکنالوجی اس حد تک موجود ہے کہ وہ مسلم دنیا کے لیے ایک مضبوط اور وسیع صنعتی اساس تعمیر کرسکتے ہیں اور مسلم ممالک خود وسیع مارکیٹ ہیں جو اس کو معاشی استحکام دے سکتے ہیں۔ آج ایسے صاحب نظر لوگوں کی ضرورت ہے جیسے یورپ کو گائی مولے‘ ڈی گال اور ایدینور کی شکل میں میسرآگئے تھے۔ کسی بھی اطلاقی منصوبے کا یہ ایک بہت نہایت اہم حصہ ہے۔

پاکستانی قیادت کیا کر ے ؟

آخر میں ہم یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور اس کی قیادت ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہ بیٹھے اور امریکہ کی خدمت میں درخواستیں بھیجنے کا رویہ ترک کرے۔ ایک باوقار ملک کی حیثیت سے اور امریکہ کے سابقہ ریکارڈ کی روشنی میں اپنی خارجہ اور معاشی پالیسیوں کی تشکیل نو کرے۔ قوم پر اعتماد کرے اور اکتوبر کے انتخابات (خواہ وہ کیسے بھی خام کیوں نہ ہوں) کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ اور جمہوری اداروں کو طاقت ور کرے۔ انھیں ذریعہ بناتے ہوئے قومی بیداری پیدا کرنے اور دُور رس نتائج کی حامل نئی پالیسیاں تشکیل دینے کا یہ ایک تاریخی لمحہ ہے اور اس کا پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہم یہ کلیدی کردار اسی وقت ادا کرسکتے ہیں جب ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت ذاتی مفادات سے بالا ہو کر افہام و تفہیم کے ذریعے بنیادی امور پر ایک قومی اتفاق رائے پیدا کرے اور پھر دوسرے سارے ممالک کو ایک ایسے مرکزی پروگرام پر مجتمع کرنے کی کوشش کرے جس سے عالم اسلامی اپنی آزادی‘ معاشی وسائل اور نظریاتی تشخص کی قرار واقعی حفاظت کر سکے اور عالمی سطح پر انصاف کے قیام اور ایک ایسے عالمی نظام کے فروغ کے لیے سرگرم ہو سکے جو انسانیت کو جنگ‘ تباہی اور معاشی لوٹ کے موجودہ نظام سے نجات دلا سکے اور سب کے لیے عزت‘ آزادی اور انصاف کا ضامن ہو سکے۔ آج یہ صرف مسلمانوں ہی کی ضرورت نہیں انسانیت کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان اکیسویں صدی کو امن و انصاف کی صدی بنانے کے لیے ایک موثر کردار ادا کر سکتا ہے بشرطیکہ ہماری قیادت اپنے ذاتی مفادات کے خول سے نکلے اور اُمت مسلمہ اور انسانیت کو درپیش خطرات کا استقامت اور حکمت سے مقابلہ کرنے کا راستہ اختیار کرے۔