زیربحث موضوع کے دیگر پہلوئوں کی وضاحت یا اختلافی نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے لیے رسالے کے اوراق حاضر ہیں۔ اسلامی بنکاری کی مناسبت سے اہل علم و فن، عملی اور اطلاقی صورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے، اصلاحِ احوال کی شکلیں بیان فرمائیں۔ ادارہ]
اسلامی بنکاری پر شائع ہونے والی میری معروضات ترجمان القرآن (نومبر ۲۰۲۳ء) پر بعض قارئین نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کے خیال میں ’’اس قسم کی تحریروں سے اسلامی بنکاری کی ساکھ خراب ہوتی ہے، لوگوں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے اور صارفین اس نظام کی اسلامی حیثیت کے بارے میں مخمصے اور شکوک وشبہات کا شکار ہوتے ہیں‘‘۔
عرض یہ ہے کہ ہم نے اپنے مضمون میں جن خامیوں کا ذکر کیا ہے ان کی اصلاح اور نظام میں بہتری مقصود ہے نہ کہ اس نظام کا انہدام۔ اگر خرابیوں کی نشاندہی نہ کی جائے تو اصلاح کی طرف توجہ کیسے جائےگی؟ اس لیے تجزیہ، تنقید یا خامیوں کی نشاندہی اصلاح کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔
درج ذیل تحریر اسی پس منظر میں نذر قارئین ہے:
بنکاری آج کے دور کے معاشی و مالیاتی نظام کا لازمی جزو ہے۔ عصرحاضر میں اس کے بغیر کاروبارِ حیات کا چلنا ناممکن دکھائی دیتا ہے ،اگرچہ مغرب کی بنکاری سودی ہے۔ مسلمان کا ایمان سودی بنکاری کے متبادل کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ایمان اسے سود کے ساتھ جینے اور رہنے کی اجازت نہیں دیتا۔
قرآنی حکم کی روشنی میں ہماری ضرورت بنکاری نہیں، اسلامی بنکاری ہے۔ ہم ربِّ کائنات اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس سراسر خسارے والی جنگ میں ہم مغرب کے ملحدانہ سودی بنکاری نظام کی وجہ سے بادل نخواستہ پھنسے ہوئے ہیں۔
ربِّ کائنات اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انسانیت کی تباہی کی جنگ سےنکلنے کے لیے بجاطور پر اسلامی بنکاری کا تصور پیش کیا گیا۔ مگربدقسمتی یہ ہے کہ آج اسلامی بنکاری کی رائج شکل اصل تصور کاعشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تصور پیش کرنے والوں اور اس کو عملی شکل دینے والوں کی فکر، سوچ اور مقصد میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔
ترقی کے دعوؤں اور خوش کن اعداد وشمار کے باوجود تلخ سچ یہ ہے کہ دنیا بھر کےدرجنوں مسلم اور غیرمسلم ممالک میں اسلامی بنکاری نظام اب تک کہیں بھی وہ پذیرائی اور قبولیت حاصل نہیں کرسکا، جو اسے حاصل ہونی چاہیے تھی۔لوگوں کی بڑی تعداد کے اس نظام کے عملی پہلوؤں پر بنیادی نوعیت کے تحفظات اور اعتراضات ہیں۔
دوسری طرف عام آدمی، بنک صارفین اور علمائے کرام کی اکثریت نے اس نظام کی عملی صورت سے مطمئن نہ ہونے کے باوجود سود کے وبال سے بچنے کے لیے ممکن حد تک میسر متبادل کے طور پر اس کو کسی نہ کسی حد تک قبول کرلیا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں، رائج اسلامی بنکاری کے ساتھ تعلق کے لحاظ سے لوگوں کی تین اقسام ہیں:
۱- وہ جن کے خیال میں ’اسلامی بنکاری‘ اور ’سودی بنکاری‘ میں کوئی فرق نہیں، صرف نام الگ ہیں۔یہ لوگ بنک سے لین دین میں صرف اپنی سہولت کو دیکھتے ہیں، بنک کے اسلامی یا سودی ہونے کو نہیں!
۲- وہ لوگ جو خود سے کچھ جاننے کی کوشش کرنے کے بجائے معاملے کو علمائے کرام کی دینی بصیرت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ لوگ علما پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے ’سودی بنک‘ کے مقابلے میں ’اسلامی بنک‘ سے تعلق کو ترجیح دیتےہیں۔
۳- وہ لوگ جو ہر صورت سود اور سود جیسے معاملے سے بچنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ سودی بنک سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ کسی اسلامی بنک سے۔ یعنی بطورِ احتیاط بڑی حد تک بنکاری نظام سے ہی دُور رہتے ہیں۔
اگرچہ اسلامی بنکاری کے بارے میں رائے اور تعلق کے اعتبار سےلوگوں کی مذکورہ بالا تین اقسام ہیں، لیکن بہرحال اکثریت کا خیال ہے کہ مروجہ اسلامی بنکاری محض نام کی اسلامی ہے۔ ان کی رائے میں نتائج اور عمل کے لحاظ سے یہ نظام سودی بنکاری جیسا ہی ہے۔لوگوں کو اگر ایسا لگتا ہے تو اس کی یقینا کچھ معقول وجوہ ہوں گی۔
اسلامی بنکاری کی شکل اور نتائج سودی بنکاری سے مشابہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے نفاذ کے لیے قواعد وضوابط وہی ’مرکزی بنک‘ بناتا ہے، جو اصلاً مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے آلۂ کار سودی بنکاری نظام کا محافظ ہے۔ دوسرے یہ کہ اسلامی بنکاری انھی بنکاروں کے ہاتھوں پروان چڑھ رہی ہے، جو سودی بنکاری کے خوگر اورتربیت یافتہ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر ’مرکزی بنک‘ سودی نظام کا محافظ ہے تو وہ اسلامی بنکاری کے فروغ کے لیے قواعد وضوابط کیوں بنا رہا ہے اور اسلامی بنکوں کو لائسنس کیوں جاری کر رہا ہے؟ اور بنک کیوں اسلامی بنکاری کی خدمات پیش کر رہے ہیں؟
اس سلسلے میں عملی رویوں کو دیکھتے ہوئے عرض ہے کہ حکومت، مرکزی بنک اور تجارتی بنکوں نے سود کے قرآنی احکامات کی تعمیل کے لیے نہیں بلکہ کسی مجبوری اور سیاسی اور مالی ضرورت کے تحت اسلامی بنکاری کو اختیار کیا ہے۔حکومت، مذہبی طبقے کے دباؤ سے بچنے اور کچھ سیاسی فائدے کے لیے اسلامی بنکاری کا نفاذ چاہتی ہے۔
’مرکزی بنک‘ جو کہ بنکوں کے نظامِ کار اور ایک ضابطے میں لانے اور نگرانی کا ادارہ ہے، اسلامی بنکاری کے نفاذ سے اس کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ بنکاری نظام میں شامل ہوں۔ اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ سود کی وجہ سے جو لوگ بنکاری نظام سے باہر تھے، ان کو اس طرح سے بنکاری نظام میں لانے میں اسلامی بنکاری کے ذریعے کچھ کامیابی ملی ہے۔اسی طرح بنکاروں کا مقصد بھی سود کاخاتمہ نظر نہیں آتا۔ وہ بھی محض اپنے گاہک، نفع اور کاروبار بڑھانے کے لیے سودی بنکاری کے ساتھ ساتھ اسلامی بنکاری پراڈکٹس پیش کر رہے ہیں۔
ابتدا میں بیان کردہ تینوں فریقوں کو اسلامی معاشیات یا شریعہ کے باریک مقاصد اور اُصولوں سے کچھ زیادہ سروکار نہیں ہے۔ ان تین فریقوں کے علاوہ اسلامی بنکاری اداروں میں شریعہ سے متعلق مشاورتی خدمات مہیا کرنے والے علما ہیں۔ شریعہ بورڈز میں ممبر کے طور پر شامل علما کا کردار بنک کے اسلامی بنکاری سے متعلق معاملات، پراڈکٹس اور ِخدمات کے شرعی جائزے تک محدود ہے۔ کوئی بھی اسلامی بنکاری پراڈکٹ ان کے فتوے کے بغیر شروع نہیں کی جاسکتی۔ بنکوں سے سود کے خاتمے کے لیے ’شریعہ بورڈز‘ سے جس جرأت مندانہ کردار کی توقع کی جاتی ہے، بدقسمتی سے وہ پوری نہیں ہوئی۔
دوسری طرف اسلامی بنکاری کے نظریے کے اصل موجد یا خالق نہ حکومتی عہدے دار تھے، نہ مرکزی بنک اور نہ بنکار کہ وہ اپنے تصور کو حقیقی رنگ دے سکتے۔ مزید یہ کہ یہ کوئی روایتی علما بھی نہیں تھے۔یہ اللہ کا خوف رکھنے والے کچھ مفکرین تھے، جو سودی بنکاری سے اہل ایمان کو نجات دلانا چاہتے تھے۔ پروفیسر خورشید احمد،ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر تنزیل الرحمان، ڈاکٹر عزیر جیسے ماہرینِ اسلامی معاشیات و قانون نے سیّد مودودی علیہ الرحمہ کی اسلامی نظام معیشت ومالیات کی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے سود سے پاک اسلامی مالیاتی اور بنکاری نظام کا نظریہ پیش کیا، اور اس کے لیے درکار بنیادیں بھی فراہم کیں (مصر کےشیخ احمد النجارغالباً واحد مفکر اور بنکار ہیں، جن کو اسلامی بنکاری کے خیال کو کامیاب عملی شکل دینے کا موقع ملا)۔
مذکورہ بالا پس منظر کی روشنی میں رائج ’اسلامی بنکاری‘ کے تعامل کو دیکھ کر توقعات کا پورا ہونا مشکل لگتا ہے۔ اس لیے اسلامی بنکاری کی مروجہ صورت میں جو کچھ بھی میسر ہے، اصلاح کی کوششیں جاری رکھتے ہوئے اس کو غنیمت جاننا چاہیے۔
اس نظام کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک اور حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ یہ نظام صدیوں پرانے طاقت ور سودی بنکاری نظام کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ اس کا مقابلہ بہت مضبوط نظام کے ساتھ ہے۔ مجھے اعتراف ہےکہ اسے سخت مقابلے کی وجہ سے بہت سارے معاملات میں مصالحت اور کچھ اصولوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ متعلقہ جہتوں کو متوجہ کرنے کے لیے خامیوں کی نشاندہی بھی ایک دینی، اخلاقی اور فنی فریضے کے طور پرضروری ہے۔
اسلامی بنکاری سے متعلق افراد، ادارے اور صارفین تنقید پر ناراض ہونے کے بجائے غلطیوں کو درست کرنے پر توجہ دیں، تو نظام میں بہتری آئے گی اور لوگ سودی بنکاری سے تعلق ختم کرکے اسلامی بنکاری سے وابستہ ہوتے جائیں گے۔
یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں کہ اسلامی بنکاری کی مروجہ شکل بعض بنیادی معاملات میں اصلاح کی متقاضی ہے۔لوگ اگر یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ نظام محض نام کی تبدیلی ہے یا یہ سودی بنکاری کا چربہ ہے، تو اس کی سب نہ سہی، کچھ وجوہ تو قابل غور ہیں۔
علمائے کرام کی بڑی اکثریت کو اگر اس کے بعض معاملات پر شرعی اعتراضات ہیں تو اس کے پیچھے یقینا کچھ ایسے ٹھوس اُمور ہیں، جن پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
اگر یہ کہا جاتا ہے کہ حیلہ کاری کا استعمال اس نظام کے مثبت تصور کو مسخ اور انفرادیت کو قائم نہیں ہونے دے رہا ہے اور اس کی افادیت پر اثر انداز ہورہا ہے، تو اس کے پس منظر میں کموڈٹی مرابحہ جیسی بے اصل پراڈکٹس کا کردار ہوسکتا ہے۔
اس نظام پر اگر ’سود‘ کا نام ’نفع‘ رکھنے کا الزام ہے تو اس کا سبب ’نفع کی شرح‘ کو کاروبار کے حقیقی نفع نقصان کے ساتھ وابستہ رکھنے کے بجائے سود کی طرح ڈپازٹ کی رقم کے کم یا زیادہ ہونے سے نتھی کرنے اور نفع کی رقم کو سودکی طرح یقینی بنانے کے عمل سے ہے۔
کم ڈپازٹ پر نفع میں شراکت کی شرح کم اور زیادہ ڈپازٹ پر یہ شرح زیادہ رکھنے سے یہی لگتا ہے کہ سودی بنکاری کی طرح اس نظام میں بھی استحصالی عنصر موجود ہے۔
اس پورے معاملے میں یہ سوال بالکل جائز ہے کہ ’’کیا خامیوں، اعتراضات، خدشات، تنقید، مخالفانہ فتوؤں اور عدالتی فیصلوں کی وجہ سے اس نظام کی بساط لپیٹ دی جائے؟‘‘
’’کیا اسلامی بنکاری کی کچھ خامیوں کی بناء پر اسے منافقت قرار دے کر اس سے تعلق ختم کر کے سودی بنکاری کے ساتھ تعلق جوڑ لینا چاہیے؟‘‘
جی نہیں، بالکل نہیں اور ہرگز نہیں!
بنکوں کے معاملات میں شریعہ کی پابندی کو یقینی بنانا بنکوں کے شریعہ بورڈوں کی ذمہ داری ہے۔ بنکوں کو مشاورتی خدمات مہیا کرنے والے ماہرین شریعہ اور علمائے کرام کے اخلاص پر شک کی گنجایش نظر نہیں آتی مگر نظام کی خامیاں کسی نہ کسی قانونی، سیاسی یا معاشی مجبوری کا نتیجہ ہو سکتی ہیں۔
اصلاح کی گنجایش تو بہترین سے بہترین نظام میں بھی موجود رہتی ہے۔ اس لیے ہمارے گردوپیش میں رائج اسلامی بنکاری بھی اصلاح کی ضرورت سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
سود سے ملکی معیشت کی مکمل نجات تو مستقبل قریب میں بوجوہ ممکن نظر نہیں آتی۔ لیکن بنکاری نظام میں سنجیدہ کوششوں کے ذریعے سود سے بچنے کی جزوی کامیابی بہرحال ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ یہ جزوی کامیابی اسلامی بنکاری کے فروغ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
اگر اسلامی بنکاری کی قبولیت عامہ بڑھانی ہے تو اصلاح طلب امور کی طرف توجہ دینا ہوگی۔اس سلسلے میں بہتری اور اصلاح کے لیے درج ذیل نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے:
۱- شریعہ کے محافظین یعنی بنکوں کے شریعہ بورڈوں کے ممبران کو اکٹھے بیٹھ کر اعتراضات کی ایک فہرست مرتب کرنی چاہیے۔
۲- اسلامی بنکاری نظام پر منفی اثرات ڈالنے والےاعتراضات کی درجہ بندی کی جائے۔
۳- پھر ان کی درجہ بندی اس طرح کی جائے کہ کس معاملے کو شریعہ بورڈوں کی سطح پرہی آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے اور کن معاملات میں دیگر فریقوں ملکی یا بین الاقوامی قوانین اور اداروں کی وجہ سےمشکلات پیش آئیں گی اور وقت لگے گا۔
آسانی کے لیےکچھ اعتراضات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے:
۱- نفع کی تقسیم کی شرحوں کو تمام ڈپازیٹرز کے لیے یکساں رکھنا۔
۲- مضاربہ ، وکالہ اور مشارکہ میں نفع کوسود سے مشابہ بنانے والے عوامل سے احتراز۔
۳- کموڈٹی مرابحہ جیسی بےاصل پراڈکٹس کا خاتمہ۔
۴- سودی بنکوں سے کسی بھی صورت تعاون یاتعلق ختم کرنے کا معاملہ۔
۵- صکوک خصوصاً اجارہ صکوک کے لیے حساس ملکی اثاثہ جات (ایئرپورٹس، موٹر ویز وغیرہ) کی برائے نام فروخت(notional sale)جیسے معاملات ۔
۶- کاروباری ضرورت یا زیادہ سے زیادہ نفع کے حصول کی خاطر شریعہ کے بنیادی اصولوں سے صرفِ نظر اور رعایتوں اور ان پر ذیلی اصولوں کو ترجیح دینا۔
۷- بعض شرعاً ناقابلِ قبول ذرائع تمویل کو قابلِ قبول بنانے کے لیےحیلوں کے استعال کا معاملہ وغیرہ وغیرہ۔
قصۂ مختصر،یہ کہ قارئین کی رائے میں:
۱- تنقید سے صارفین کے ذہن اسلامی بنکاری بارے شکوک وشبہات کا شکار ہوتے ہیں اور اس سے اسلامی بنکاری کو نقصان پہنچتا ہے۔
۲- اسلامی بنکاری جیسی بھی ہے اس کو چلنے دینا چاہیے۔
۳- اگر اسے ختم کردیا تو سود سے بچنے کاجو تھوڑا سا موقع میسر ہے وہ بھی ضائع ہوجائے گا۔
تیسرے نکتے سے مکمل اوردوسرے نکتے سے جزوی اتفاق ہے مگر پہلے نکتے سے اتفاق نہیں ہے۔وجہ یہ ہے کہ بامقصد تنقید اصلاح کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نظام میں بہتری کی کوششیں ایک مسلسل عمل ہے، اس کا جاری رہنا خود نظام کے حق میں اچھا ہے۔