کیا یہ بیان حقیقت ہے یا بے جا مغالطہ انگیزی؟___ ’’اُردو کے نفاذ کا مسئلہ کسی قومی، ملکی، یا نسلی عصبیت کا مسئلہ نہیں ہے کہ ایک زبان کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسری زبان نافذ کر دی جائے، بلکہ یہ دینی، قومی، ملکی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے‘‘۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں۔
ادب انسان کو اچھا انسان بنانے میں مددگار ہوتا ہے۔ مگر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے آنے والی نسلیں اُردو ادب سے کٹتی جا رہی ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اُردو میں لکھے گئے نہایت قیمتی دینی، تہذیبی اور تاریخی لٹریچر سے بھی کٹ جائیں گی۔ یہ اندازہ لگانے کے لیے آدمی کا دانش ور ہونا ضروری نہیں ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی ایسی صورت حال نہیں ہے، لیکن غور کریں تو واقعی ہم اسی طرف تیزی سے جا رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسئلے کے سنگین ہونے سے پہلے اس پر قابو پانے کی کوشش کی جائے۔
کہا جا سکتا ہے کہ ’’قرآن اور احادیثِ نبویؐ میں تو کسی خاص زبان کی ترویج کا حکم نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قرآن و حدیث نبویؐ میں ایسی کوئی صریح ہدایت نہیں ہے۔ البتہ، قرآن میں دو جگہ اس کی طرف اشارے ضرور ملتے ہیں: ایک تو سورۂ حٰم السجدہ کی آیت ۴۴ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (مشرکین کے اعتراض کے جواب میں)’’اگرہم اس قرآن کو عجمی (زبان میں) بھیجتے تو یہ لوگ کہتے، کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں؟ کیا عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مخاطب عرب ہیں‘‘۔ دوسری جگہ سورۂ ابراہیم کی آیت ۴ میں فرمایا گیا ہے: ’’ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے، تاکہ وہ انھیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے‘‘۔ گویا کسی چیز یا موضوع کا ابلاغ متعلقہ لوگوں کی اپنی زبان میں ہی کماحقہٗ ممکن ہے۔ اجنبی زبان میں لوگوں کو صحیح طور پر نہیں سمجھایا جاسکتا۔
پاکستان میں اُردو کا نفاذ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے، اور بدیسی زبان کا نفاذ اسلام کی روح کے بالکل منافی ہے۔ اب سوچ لیجیے کہ اگر قوم کے اوپر غیر ملکی زبان مسلط ہو، جس پر عبور رکھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہ ہوں، تو کیا اس قوم کے نوجوان مروجہ علوم و فنون پر بآسانی صحیح طور پر عبور حاصل کر سکیں گے؟ اپنی زبان کے خاتمے یا کم فہمی کی وجہ سے کیا یہ نوجوان اپنے تہذیبی ورثے سے جڑے رہ سکیں گے؟ اپنی زبان اور ادب سے بے بہرہ یہ نوجوان جب تعلیم و تدریس کے شعبے میں آئیں گے، تو کیا اپنے شاگردوں کو آسان زبان میں موضوع کو سمجھا سکیں گے، یا کسی مذاکرے میں اپنا ما فی الضمیر سہل انداز میں پیش کر سکیں گے؟ کسی موضوع پر کوئی مضمون یا کتاب آسان اور عام فہم زبان میں لکھ سکیں گے؟ ایک حدیث نبویؐکا مفہوم ہے کہ ’’آسانیاں پیدا کرو، مشکلات پیدا نہ کرو‘‘ (یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا، بخاری، حدیث۶۱۹۲، کتاب الآداب)، اور جہاں انگریزی سمجھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہ ہوں، وہاں دفتری امور نمٹانا اور تعلیم حاصل کرنا انگریزی میں آسان ہو گا یا اُردو میں؟
اسی طرح مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا ۱۹۳۹ء کا یہ فتویٰ بھی موجود ہے: ’’اس وقت اُردو زبان کی حفاظت حسبِ استطاعت واجب ہو گی اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اور سُستی کرنا معصیت اور موجبِ مواخذۂ آخرت ہو گا‘‘ مگر اب تو اُردو کے لیے حالات اور بھی بدتر ہو گئے ہیں۔
دوسری طرف یہ دیکھیے کہ میٹرک اور انٹر میں ہمارے طلبہ و طالبات کی اکثریت کس مضمون میں ناکام (فیل) ہوتی ہے؟ جواب واضح صورت میں سامنے آتا ہے کہ ’انگریزی میں‘۔ پنجاب میں پچھلے ۲۰ سال کے نتائج کے مطابق میٹرک کے اوسطاً ۷۰ فی صد طلبہ انگریزی میں فیل ہوئے اور انٹر کے ۸۷ فی صد۔ ان طلبہ میں کافی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہو سکتی ہے، جو انگریزی کے علاوہ دوسرے مضامین یا شعبوں میں اچھے ہوں اور آگے چل کر دوسرے شعبوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ اس طرح ہماری قوم ہر سال معتد بہ تعداد میں اچھے اذہان سے محروم ہو جاتی ہے۔
انگریزوں کی آمد سے قبل ہندستانی مسلمانوں کی تعلیمی حالت کیا تھی؟ اس بارے میں ایک برطانوی اعلیٰ افسر جنرل ولیم ہنری سلیمین کے اپنی کتاب Rambles and Recollections of an Indian Official (۱۸۴۴ء) میں یہ الفاظ قابلِ توجہ ہیں:’’دنیا میں صرف چند قومیں ایسی ہوں گی جیسی کہ مسلمانانِ ہند ہیں اور جن میں تعلیم اعلیٰ پائے کی ہے اور سیر حاصل ہے۔ جس (بھی)آدمی کی تنخواہ -/۲۰روپے ماہانہ ہے، وہ اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دیتا ہے، جیسی انگلستان کے وزیراعظم کی ہوتی ہے۔ یہ افراد عربی، فارسی کے ذریعے، اس طرح کا علم حاصل کرتے ہیں جیسا ہمارے نوجوان یونانی اور لاطینی کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ ان کا علم اسی پایہ کا ہوتا ہے، جس پایہ کا اوکسفرڈ کے فارغ التحصیل کا۔ یہ عالم بغیر کسی جھجک کے سقراط، ارسطو، افلاطون، جالینوس اور بوعلی سینا کی تعلیمات پر گفتگو کرتا ہے۔ ہم میں سے بہترین یورپی بھی اعلیٰ خاندان کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے سامنے علمی لحاظ سے خود کو کم تر اور پست محسوس کرتے ہیں، بالخصوص جب کوئی سنجیدہ علمی گفتگو ہو‘‘۔
اسی طرح لارڈ میکالے، رکن قانون ساز گورنر جنرل کونسل کے ۲ فروری۱۸۳۵ء کو برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کا درج ذیل اقتباس دیکھیے: ’’میں نے ہندستان کا مکمل دورہ کیا ہے۔ میں نے یہاں نہ کسی کو بھکاری دیکھا ہے اور نہ چور۔ میں نے اس ملک میں اس قدر فارغ البالی، ثروت، اخلاقی اقدار اور نہایت اعلیٰ ظرف کے لوگ دیکھے ہیں کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ ہم اس ملک کو اس وقت تک فتح کرسکتے ہیں جب تک اس قوم کی کمرِ ہمت کو شکستہ نہیں کر دیں، جو دراصل اس کا ثقافتی اور روحانی ورثہ ہے۔ چنانچہ میری تجویز ہے کہ ہم ان کے قدیم نظامِ تعلیم اور ثقافت کو تبدیل کر دیں تاکہ ہندستانیوں کو یہ یقین ہو جائے کہ جو کچھ باہر سے آرہا ہے اور انگلستانی ہے وہ مستحسن و عظیم ہے بہ نسبت ان کے اپنے ثقافتی نظام کے۔ اس طرح ان کی عزتِ نفس ختم ہوجائے گی، ان کی ثقافت ماضی کی داستان بن کر رہ جائے گی، اور وہ وہی ہوجائیں گے جو ہم اُنھیں بنانا چاہتے ہیں، ایک صحیح طرح سے مغلوب قوم....‘‘۔
چنانچہ انگریزوں کی آمد کے بعد، اس طرزِ تعلیم میں قطع و برید کی گئی۔ سب سے پہلے علمِ دین کو خارج کیا گیا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ دیگر اجزائے علم اور عربی و فارسی کو عام تعلیم سے خارج کیا گیا، آخرکار طالب علم، علم کے لحاظ سے ناقص، اور صرف سرکاری ملازمت اور اہل کار ہونے کے قابل رہ گئے، تابع فرمان ملازم!
جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں ۳۰سال تک تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جاتے رہے۔ جن دنوں نام نہاد اسرائیل والے اپنی مُردہ عبرانی زبان کو زندہ کر رہے تھے، ان دنوں ہمارے ہاں تمام تر اعلیٰ سائنسی مضامین بہ شمول ایم بی بی ایس، بی ای (انجینیرنگ)، طبیعیات، کیمیا وغیرہ، الغرض ایک مضمون انگریزی کے سوا تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جارہے تھے۔یہ سلسلہ سقوطِ حیدرآباد تک جاری رہا اور پھر وہاں اُردو ذریعۂ تعلیم کو ختم کر دیا گیا۔ جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی اپنے مضمون پر گرفت اتنی مضبوط تھی کہ برطانیہ میں ایف آر سی ایس وغیرہ کے داخلہ ٹیسٹ سے ان کو مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔ دراصل تخلیقی قوت اپنی ہی زبان سے آتی ہے۔
دوسری طرف آزادی کے بعد پڑوسی مشرک ملک میں جب اسمبلی میں سرکاری زبان کے لیے رائے شماری ہوئی تو اُردو اور ہندی کے ووٹ بالکل برابر ہوگئے۔ اس کے بعد اسپیکر کے فیصلہ کن ووٹ سے ہندی سرکاری زبان بن گئی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ ہرسال اپنی مُردہ زبان سنسکرت کے کچھ الفاظ منتخب کر لیتے ہیں اور پھر میڈیا اور دوسرے ذرائع ان مُردہ الفاظ کو عام کرتے ہیں۔
آپ نے کسی انگریز یا امریکی کو انگلستان یا امریکا میں نمبر (اعداد) اُردو میں بتاتے ہوئے یا اپنی گفتگو میں جابجا اُردو الفاظ استعمال کرتے ہوئے دیکھا یا سنا ہے؟ یقیناً نہیںسُنا ہوگا، مگر افسوس کہ ہمارے ہاں معاملہ بالکل اُلٹ ہوچکا ہے۔ نئی نسل تو ایک طرف خود بڑے بھی، اُردو اعداد (۱،۲،۳،۴) لکھنے کے بجائے رومن یا انگریزی اعداد (4,3,2,1) لکھنا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔ یہاں پر تین واقعات ملاحظہ کیجیے:
پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے اور یومِ آغاز سے [یعنی اگست ۱۹۷۳ء] ۱۵برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔
تحریکِ پاکستان کی بنیاد میں دو چیزیں تھیں: ایک اسلام اور دوسری اُردو زبان، کیوں کہ ہندو اکثریت ان دونوں کے در پے تھی۔ آج خلفشار کے اس دور میں بھی یہی دو چیزیں پاکستان کو متحد رکھ سکتی ہیں۔ اُردو کے مخالف جب اُردو پر یہ غلط اور بے بنیاد اعتراض کرتے ہیں کہ اُردو میں سائنسی مضامین نہیں پڑھائے جا سکتے حالانکہ لگ بھگ ۳۰برس تک جامعہ عثمانیہ اور انجینیرنگ کالج رڑکی اور دیگر جگہوں پر اعلیٰ ترین سائنسی مضامین بشمول ایم بی بی ایس، بی ای، اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ اُردو سرکاری یا دفتری زبان نہیں بن سکتی، تو حیدرآباد دکن کا ذکر تو چھوڑیے جہاں سرکاری دفاتر میں تمام کام اُردو میں ہو تا تھا، موجودہ دور میں مقتدرہ قومی زبان جیسا باوقار قومی ادارہ اُردو کو دفتری زبان بنانے کے لیے گذشتہ کئی عشروں سے تیار بیٹھا ہے۔ یہ ادارہ کہتا ہے کہ بس حکم کی دیر ہے، اُردو زبان نافذ ہونے کے لیے بالکل تیار ہے۔ اُردو، جدید اطلاعاتی دور کے شانہ بشانہ چلنے کی بھی اہلیت رکھتی ہے۔ اُردو کے بہی خواہوں کے لیے خوش خبری یہ ہے کہ ’سافٹ ویئر‘ ما ہرین نے اب اِن پیج ایپلی کیشن کو ’مائکرو سافٹ ورڈ‘ اور ’ایکسل‘ کے ساتھ جوڑ کر اُردو میں کام کرنا بہت آسان بنا دیا ہے، نیز ’اِن پیج‘ کا مواد یونی کوڈ میں تبدیل کرنا ممکن ہے جس کے بعد اُردو مواد کو انٹرنیٹ کے ذریعے برق رفتاری سے ارسال کیا جاسکتا ہے (اس سلسلے میں ایک ویب سائٹ www.urdu.ca سے کلیدی مدد لی جا سکتی ہے)۔
ملک میں اس وقت اہمیت کے لحاظ سے انگریزی پہلے درجے پر ہے، اُردو دوسرے اور صوبائی زبانیں تیسرے درجے پر۔ جب اُردو سرکاری زبان بن جائے گی تو اہمیت کے لحاظ سے اُردو پہلے درجے پر آ جائے گی، صوبائی زبانیں بہ لحاظ اہمیت تیسرے سے دوسرے درجے پر آجائیں گی، یعنی اُردو کا نفاذ ہماری علاقائی زبانوں کے تحفظ اور ترقی میں بھی ممدومعاون ہو گا۔
اگر آپ کو پاکستان سے محبت ہے تو آپ پاکستان کی قومی زبان اُردو کے تحفظ اور ترقی کے لیے کام کریں۔ آپ کا یہ قدم قوم کی ترقی اور استحکام کا بنیادی قدم ہوگا۔ اس اقدام سے استحصالی نظام کی گرفت بھی کمزور ہوگی، اور ان شاء اللہ اپنے ربّ کے ہاں آپ کو اجر بھی ملے گا۔
یہ ضروری نہیں کہ آپ اپنا ۱۰۰ فی صد وقت اُردو کے نفاذ کے لیے وقف کر دیں۔ نہیں، بلکہ ہمیں اُردو کے نفاذ کی کوششوں کے لیے اپنا ۵۰ فی صد یا ۲۵فی صد بلکہ ۱۰فی صد وقت بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ایک فی صد وقت تو اس کام کا حق بنتا ہے۔ یہ بھی دین اور ملک کی اہم خدمت ہے، بلکہ ایسی خدمت جو اہم ہونے کے باوجود توجہ سے محروم ہے۔
نفاذِ اُردو:کرنے کے کام
ان اُمور پر عمل کرنے سے ہمارا قدم آگے بڑھے گا۔
ایک حدیثِ نبویؐکا مفہوم ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات سے لاتعلق رہا، وہ ہم میں سے نہیں۔ یاد رکھیے، اُردو کے نفاذ کا مسئلہ محض ایک زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک دینی، قومی، ملکی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔ خدانخواستہ ایک دو نسلوں بعد اُردو (بطور زبان) مٹ گئی، تو اس کے ذمہ دار وہ لوگ بھی ہوں گے جو نہ جاننے یا جاننے کے باوجود اپنی مصروفیات میں سے وقت نہ نکال سکے۔ کیا ہم اس اہم مسئلے کے لیے اپنے وقت کا ایک فی صد بھی نہیں نکال سکتے؟