بڑے پیمانے پر رپورٹس آ رہی ہیں، خاندانوں کے بارے میں جو مارے جا چکے ہیں۔ ایک خاندان کے نو افراد ،دوسرے خاندان کے ۱۰ افراد بشمول بچے وغیرہ۔ میں نہیں چاہتا کہ کسی بھی شہری کو تکلیف پہنچے ، خواہ فلسطینی ہو ں یا اسرائیلی ، لیکن سوال یہ ہے کہ اسے ختم کیسے کیا جائے؟ کیا یہ غزہ کی پٹی پر دوبارہ حملہ کرنے سے ختم ہو جائے گا؟ اسرائیل اس سے پہلے غزہ پر پانچ جنگیں۱۱ کرچکا ہے، جن میں سے ایک ۵۱ دن تک جاری رہی۔ جس میں انھوں نے سب کچھ تباہ کردیا تھا۔ اس سے حماس نہیں رکی، مزاحمت نہیں رکی۔ کسی بھی قسم کے تشدد کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اسرائیلی قبضے کو ختم کرنا اور یہ کہ امریکا اس میں منصفانہ کردار ادا کرے۔ وہ یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ اسرائیل کو تو اپنے دفاع کا حق ہے مگر ہم فلسطینیوں کو اپنے دفاع کا حق حاصل نہیں ہے۔ میں آپ کو شیرین ابو عاقلہ کا معاملہ یاد دلاتا ہوں، جو نہ صرف فلسطینی بلکہ ایک امریکی شہری بھی تھی۔ ایک انتہائی پُرامن صحافی، جسے اسرائیلی سنائپر نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ کیا کسی پر فرد جرم عائد کی گئی؟ کیا کسی کو عدالت میں لے جایا گیا؟ نہیں۔ ۵۲ دیگر صحافی بھی مارے گئے۔ ہمارے ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے والوں پر گولیاں چلائی جاتی ہیں، ہمارے ڈاکٹروں کو گولیاں ماری جاتی ہیں، اسے رُکنا چاہیے۔ اور اسے روکنے کا واحد طریقہ اسرائیل کو بتانا ہے کہ آپ کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنا ہوگا۔ آپ کو اس ناجائز قبضے کو ختم کرنا ہوگا اور فلسطینیوں کو برابر کے انسانوں کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔
کیا ہم اسے روک سکتے ہیں جو اب ہو رہا ہے؟ ہاں، بلاشبہ تمام اسرائیلی جو اس وقت غزہ میں ہیں کل رہا ہو سکتے ہیں بشمول عام شہری، حتیٰ کہ اسرائیلی فوج کے جرنیلوں کو بھی رہا کیا جا سکتا ہے اگر اسرائیل بھی ہمارے ۵۳۰۰ فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دے، جو اسرائیلی جیلوں میں بند ہیں۔ جن میں وہ ۱۲۶۰ فلسطینی بھی شامل ہیں، جو یہ جانے بغیر کہ ان کا جرم کیا ہے نام نہاد ’انتظامی حراست‘ میں ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ انھیں کیوں گرفتار کیا گیا؟ ان پر کوئی فردِ جرم عائد نہیں کی گئی، ان کے وکلا کو نہیں معلوم کہ انھیں کیوں گرفتار کیا گیا اور یہی وہ زندگی ہے، جو ہم نے دیکھی ہے۔ ہم نے ساری زندگی قبضے میں گزاری ہے۔ میرے والد قبضے میں رہتے تھے، میری بیٹی قبضے میں رہ رہی ہے۔ ہم ایک ایسا وقت چاہتے ہیں، جب ہم فلسطینی آزاد ہوں گے۔
حماس ۳۰ سال پہلے یا ۴۰ سال پہلے نہیں تھی، لیکن اس سے پہلے پی ایل او کو دہشت گرد قرار دیا جاتا تھا۔ جو فلسطینی اپنے حقوق یا آزادی کے لیے جدوجہد کرتا ہے اسے دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے اور یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں آزادی کی جدوجہد کا حق ہے؟ کیا ہمیں حقیقی جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے کا حق ہے؟ کیا ہمیں عام جمہوری انتخابات کرانے کا حق ہے، جس کی بدقسمتی سے اسرائیل اور امریکا حمایت نہیں کرتے؟ ہم اس کے حق دار ہیں، لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اگر ہم عسکری جدوجہد کرتے ہیں تو ہم دہشت گرد ہیں۔ اگر ہم غیر متشدد طریقے سے جدوجہد کرتے ہیں تو اس کے باوجود ہمیں متشدد قرار دیا جاتا ہے۔ اگر ہم الفاظ کے ساتھ مزاحمت بھی کرتے ہیں تو ہمیں ’اشتعال انگیز‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اگر آپ فلسطین کی حمایت کرتے ہیں اور آپ غیر ملکی ہیں تو وہ آپ کو ’یہود مخالف‘ قرار دیتے ہیں۔ اور اگر آپ یہودی ہیں ،اور بہت سے ایسے یہودی ہیں جو فلسطینی مقدمہ کی حمایت کرتے ہیں ،تو وہ اسے خود سے نفرت کرنے والا یہودی کہتے ہیں۔ یہ سفاکانہ کھیل ختم ہونا چاہیے۔ یہ بالکل بے معنی ہے۔ ہم سب کو یکساں زندگی گزارنی چاہیے۔ ہم سب کو امن میسر ہونا چاہیے، ہم سب کو انصاف میسر ہونا چاہیے اور ہم سب کو عزت سے رہنا چاہیے۔ اس کو حاصل کرنے کا بنیادی طریقہ یہ ہے کہ نسلی عصبیت کی شکل میں اس قبضے کو ختم کیا جائے، جس پر مجھے یقین ہے کوئی بھی یہودی فخر نہیں کرسکتا۔ اس کا وقت آگیا ہے۔ اور انصاف اور آزادی کا وقت آگیا ہے۔ اگر ہم یہ حاصل کرلیتے ہیں تو کوئی تشدد نہیں ہو گا اور کسی کو تکلیف نہیں پہنچے گی۔
_______________
حواشی
۱- حماس: اردو میں اسلامی مقاومت تحریک، عربی میں حركة المقاومة الإسلامية اور انگریزی میں Islamic Resistance Movement کہا جاتا ہے۔ فلسطینی سنی اسلامی سیاسی اور فوجی تنظیم ہے، جس کی بنیاد فلسطینی امام احمد یاسین نے۱۹۸۷ ء میں پی ایل او اور ’اوسلوا کارڈ‘ کی مخالفت میں رکھی، جو آج کل مقبوضہ فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی کی حکومتی اور فوجی تنظیم سنبھالے ہوئے ہے۔ حماس کے ۲۰۱۷ء کے چارٹر کے مطابق وہ ۱۹۶۷ ء کی فلسطینی ریاستی حدود کو تسلیم کرتا ہے ،اسرائیل کو تسلیم کیے بغیر۔
۲- اسماعیل ہانیہ ۲۰۱۷ ء میں حماس کے سیاسی امیر بنے۔ اس سے پہلے وہ ۱۹۹۷ ء میں حماس کی تنظیم سے وابستہ ہوئے اور ۲۰۰۶ ءکے الیکشن کے نتیجے میں فلسطین کے وزیر اعظم بھی بنے،جن کو صدر محمود عباس نے ۲۰۰۷ ء میں دفتر سے فتح-حماس کشیدگی کی وجہ سے نکال دیا۔ اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے غزہ کی پٹی پر حکمرانی جاری رکھی۔
۳- مصطفیٰ البرغوثی ایک طبیب اور سیاست دان ہیں، جو کہ فلسطینی قومی اقدام عربی میں: المبادرة الوطنية الفلسطينية اور انگریزی میں Palestinian National Initiative نام سے جانی جاتی ہے کے بانیوں میں سے ہیں۔ ۲۰۰۷ ء میں مصطفیٰ فلسطین کی یکجا حکومت میں اطلاعات کے وزیر بھی رہے ہیں۔
۴- یہ اسرائیلی قبضہ سے پاک بقیہ فلسطینی ریاست کا نام ہے۔ اسے عربی میں السلطة الوطنية الفلسطينية اور انگریزی میں Palestinian National Authority یا Palestinian Authority یا State of Palestineبھی کہا جاتا ہے۔
۵- ’فلسطینی قومی اقدام پارٹی‘ ۲۰۰۲ ء کو وجود میں آئی، جس کے آج کل امیر مصطفیٰ البرغوثی ہیں۔ یہ اپنے آپ کو فلسطینی سیاست میں فتح ، جسے یہ کرپٹ اور غیر جمہوری پارٹی اور حماس ، جسے یہ بنیاد پرست اور انتہا پسند پارٹی سمجھتے ہیں کے بعد ،تیسری بڑی جمہوری طاقت قرار دیتی ہے ۔
۶- فتح ، سابقہ فلسطینی نیشنل لبریشن موومنٹ ،عربی میں:حرکت التحریر الوطنی الفلسطینی، فلسطینی نیشنلسٹ اور سوشلسٹ سیاسی جمہوری پارٹی ہے۔ فلسطینی اتحاد کے صدر محمود عباس فتح کے چیئرمین ہیں۔ یہ یاسرعرفات کو اپنی پارٹی کا بانی مانتے ہیں۔
۷- یہ ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ ءکے حماس کے اسرائیل پر حملے کی طرف اشارہ ہے، جس کی وجہ سے حماس کی اسرائیل سے ایک بڑی جنگ چھڑ گئی ہے جو کہ غزہ کی پٹی میں لڑی جا رہی ہے۔
۸- فلسطینی تحریک آزادی (عربی: منظمة التحریر الفلسطينية، انگریزی: Palestine Liberation Organization) ایک فلسطینی قومی متحدہ محاذ ہے، جو بین الاقوامی سطح پر فلسطینی عوام کے آفیشل وکیل کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ ۱۹۶۴ ءمیں تشکیل دی گئی۔ ابتدائی طور پر اس نے پورے فلسطینی علاقے پر ایک عرب ریاست قائم کرنے کی کوشش کی اور اسرائیل کی ریاست کو ختم کرنے کی تجویز دی۔ تاہم،۱۹۹۳ ء میں، پی ایل او نے ’اوسلوا کارڈ‘ کو تسلیم کیا، اور اب صرف مغربی کنارے اور غزہ کے علاقے میں ایک عرب ریاست چاہتی ہے۔
۹- نیتن یاہو۲۰۲۲ء سے اب تک کے اسرائیلی وزیراعظم ہیں، جو پہلی دفعہ ۱۹۹۶ء تا ۱۹۹۹ء وزیراعظم رہے پھر ۲۰۰۹ء تا ۲۰۲۱ ء وزیراعظم رہے۔ انھوں نےامریکا کے ایم آئی ٹی سے تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد اسرائیلی فوج میں بھی ملازمت کی ۔سیاست میں آنے سے پہلے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل مندوب بھی رہے۔وہ دائیں بازو کی سیاسی پارٹی لیکود کے صدر بھی ہیں۔ نیتن یاہو کے سابق امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ خاص مراسم تھے، جس کی بدولت کئی عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور سرکاری تعلقات استوار کیے۔
۱۰- یہ شام کے سرحدی علاقے کی پہاڑی چوٹیاں ہیں، جس کا ایک بڑا حصہ ۱۹۶۷ ء کی چھ دن کی جنگ کے دوران اسرائیل نے قبضہ میں لے لیا ۔ جس کو اس نے اپنی ریاست میں ۱۹۸۱ ء میں ضم کر لیا ۔
۱۱- ۲۰۰۵ ء میں اسرائیل کے غزہ سے انخلاء کے فوراً بعد حماس انتخابات جیت گئی اور تب سے اب تک حماس اور اسرائیل پانچ جنگیں لڑ چکے ہیں۔ پہلی جنگ ۲۰۰۸ -۲۰۰۹ء میں ۲۳ دن جاری رہی، دوسری ۲۰۱۲ ء میں ۸ دن جاری رہی، تیسری ۲۰۱۴ء میں ۵۰ دن جاری رہی، چوتھی ۲۰۲۱ ء میں گیارہ دن جاری رہی، اور پانچویں اب ۷؍ اکتوبر سے تاحال جاری ہے، جسے مہینے سےزیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔
۱۲- بزلائی یول سموٹرچ مذہبی انتہا پسند دائیں بازو کے سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والا وکیل اور رہنما ہے، جو کہ ۲۰۲۲ء سے اب تک اسرائیل کا وزیر خزانہ ہے۔وہ مغربی کنارے کی ایک آباد کاری کدومیم جو کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق غیر قانونی ہے میں رہتا ہے۔
۱۳- اتمار بن گویر مذہبی انتہا پسند دائیں بازو کی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والا سیاست دان اور وکیل ہیں، جو ۲۰۲۲ء سے اسرائیل کے وزیربرائے قومی سلامتی ہیں ۔ وہ مغربی کنارے میں غیر قانونی آبادکاری میں رہتا ہے اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز زبان استعمال کرنے کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس پر کئی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کا الزام ہے اور وہ انتہا پسندانہ صیہونی نظریہ رکھتا ہے۔