یہ ۸ سے ۱۲مارچ ۱۹۵۴ء کے دوران پانچ روزہ ’کامیاب‘ جمہوریت کش مشقیں تھیں، جب عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں ’جگتو فرنٹ‘ کے نام سے الیکشن لوٹنے کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس معرکے میں نسل پرستی، جھوٹ، کانگریسی سرپرستی اور پولنگ اسٹیشن پر دھونس و دھاندلی کا مطلب عوامی لیگ کی کامیابی قرار پایا۔ ۷۰سال پر پھیلی تاریخ میں، عوامی لیگ کے فاسد خون میں یہی بیماری پلٹ پلٹ کر اُمڈتی ہے اور سیاسی درندگی کی ایک نئی منزل عبور کرلیتی ہے۔
پچھلے پندرہ برسوں کے دوران حسینہ واجد کی نام نہاد قیادت میں، بھارتی ایجنسی ’را‘ نے کامیابی سے بنگلہ دیش کی جمہوریت کا قلع قمع کرکے ایک گماشتہ ٹولہ مسلط کر رکھا ہے۔ جو قانون شکن ہے، قاتل ہے، فاشسٹ ہے اور جھوٹ کے انبار پر کھڑا ہے۔ بنگلہ دیش سے باہر، بھارتی پشت پناہی میں متحرک این جی اوز پاکستان میں یہ تاثر دیتی ہیں کہ ’’بنگلہ دیش معاشی جنّت بن چکا ہے‘‘۔ لیکن جب بنگلہ دیش میں دیکھتے ہیں تو ظلم، نفرت، قتل و غارت، بے روزگاری اور عدل کا خون بکھرا نظر آتا ہے۔
موجودہ حکمران عوامی لیگی ٹولے نے ۷جنوری ۲۰۲۴ء کو ملک میں ۱۲ویں پارلیمانی الیکشن کا اعلان کیا ہے، لیکن اس شکل میں کہ گذشتہ کئی برس سے بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں یعنی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اورجماعت اسلامی کو مفلوج کرکے رکھا ہے، بلکہ اپنے طور پر انھیں کچل کر رکھ دیا گیا ہے۔
اس سب کے باوجود کہ بی این پی کی سربراہ بیگم خالدہ ضیاء مسلسل جیل میں قید ہیں اور انھیں علاج کے لیے بیرونِ ملک جانے تک کی اجازت نہیں۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کی قیادت کو یا تو پھانسیوں پر لٹکا دیا گیا، یا بہت سے قائدین کو جیل کی کال کوٹھڑیوں میں موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا ہے۔ جماعت کو بہ حیثیت سیاسی جماعت الیکشن میں حصہ لینے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن صاحب کو بغیر کسی مقدمے کے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرا، قید کر رکھا ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے رفاہی اور معاشی اداروں کو برباد کردیا ہے۔ لٹریچر کو کتب خانوں سے نکال باہر پھینکا ہے۔ عام عوامی لیگی غنڈوں کو بالکل آر ایس ایس اسٹائل میں جماعت کےکارکنوں، دفتروں اور گھروں پر حملے کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ یہ ہے وہ منظرنامہ، جس میں بنگلہ دیش کے الیکشن کا ڈھول پیٹا جارہا ہے۔
یہ ۱۰ جون ۲۰۲۳ء کی بات ہے، جب دس سال شدید پابندی کے بعد پہلی بار جماعت اسلامی کو ڈھاکہ کے ایک چھوٹے سے ہال میں جلسہ منعقد کرنے کی اجازت ملی۔ اس ہال میں مشکل سے تین سو افراد کی گنجایش تھی لیکن ڈھاکہ نے یہ منظر دیکھا کہ اس اجلاس میں شرکت کے لیے تقریباً ایک لاکھ پُرامن افراد، ڈھاکہ کی شاہراہوں پر کھڑے، جلسہ گاہ جانے یا جلسہ گاہ سے مقررین کی تقاریر سننے کے لیے اُمڈے چلے آرہے ہیں۔ اس منظر نے بنگلہ دیش میں عوامی لیگی، ہندو قوم پرست اور سوشلسٹ اخبارات کے صفحات پر کہرام برپا کردیا اور یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ ’’دس برس میں جماعت اسلامی کو اور اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت طلبہ) ختم نہیں کیا جاسکا، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ انھیں کچل دیا جائے‘‘۔ یہ بیانات اور تجزیے آج بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں یہ نام نہاد الیکشن درحقیقت بھارتی ایجنسی ’را‘ کی ایک انتخابی دھوکا دہی کی مشق ہے۔ اسی لیے بی این پی نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر حسینہ واجد نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفا نہ دیا تو وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے گی، جب کہ جماعت مطالبہ کر رہی ہے کہ:
۱- جماعت اسلامی پر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے عائد پابندی ختم کی جائے۔
۲- حسینہ واجد حکومت ختم کرکے عبوری حکومت قائم کی جائے۔
۳- بی این پی سمیت تمام سیاسی قائدین اور پارٹیوں کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق دیا جائے۔
۴- تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
۵- عوامی لیگی مسلح غنڈوں کو لگام دی جائے۔
۶- قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی مخالفین کچلنے سے منع کیا جائے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام امیر پروفیسر مجیب الرحمان نے ۱۹نومبر ۲۰۲۳ء کے بنگلہ دیشی کنگرو سپریم کورٹ کے فیصلے پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے ڈھاکہ ہائی کورٹ نے یکہ طرفہ طور پر یکم اگست ۲۰۱۳ء کو جماعت اسلامی کی رجسٹریشن غیرقانونی قرار دی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف جماعت نے سپریم کورٹ میں بروقت اپیل کی تھی، مگر دس سال تک اپیل کی کوئی سماعت نہ ہوئی۔ آخرکار جنوری ۲۰۲۳ء کو سپریم کورٹ نے جماعت کے وکلا سے کہا کہ ’’دوماہ کے اندر اندر دوبارہ جامع بیان داخل کریں‘‘۔ جماعت نے مقررہ تاریخ گزرنے سے پہلے درخواست جمع کرادی۔ مگر پانچ ماہ تک پھر کوئی سماعت نہ ہوئی اور اس عرصے میں ۱۰جون کو جماعت کے بندہال میں جلسے کا سن کر ہزاروں لوگوں کی آمد نے حکومت اور کنگرو کورٹ کی عقل کو بٹہ لگادیا۔ ۱۹نومبر ۲۰۲۳ء کو آخرکار سپریم کورٹ نے کیس سننے کے لیے مقرر کیا، مگر سماعت شروع ہوتے ہی کہہ دیا: ’’ہم جماعت کے وکیلوں کی سماعت نہیں کریں گے‘‘ اور درخواست مسترد کردی۔ یہ سب ڈراما پوری دُنیا کے سامنے کھیلا گیا ہے۔
یہ عدالتی ڈراما ابھی انجام کو پہنچا ہی تھا کہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور کریک ڈائون کی سیاہ آندھی پورے بنگلہ دیش میں چلنا شروع ہوگئی۔ جس میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران جماعت اسلامی کے ۲ہزار ۹ سو ۳۷ کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ان قیدیوں میں بزرگ، معذور اور خواتین بھی شامل ہیں۔ تین کارکنوں کو عوامی لیگی غنڈوں نے تیزدھار آلے سے حملہ کرکے شہید کردیا ہے۔ پانچ کارکنوں کو پولیس نے گولی مار کر زخمی کیا ہے۔ ۵۷۳کارکن شدید زخمی حالت میں نجی ہسپتالوں میں پڑے ہیں، کہ سرکاری ہسپتال جماعت کے کارکنوں کو طبّی امداد دینے سے انکاری ہیں۔ ابھی ہم کہہ نہیں سکتے کہ دسمبر کے مہینے میں حسینہ واجد نامی ’کالی ماتا‘ (خونی ماتا) جماعت کے کتنے کارکنوں اور انصاف کا خون پیئے گی!