انبیائے کرام ؑکی بعثت ہوتی ہی اس زمانے میں ہے، جب کہ حق و باطل میں امتیاز، وحی الٰہی کی رہنمائی کے بغیر ناممکن ہوجاتا ہے اور عملاً تمام نظامِ زندگی، حق کی جگہ باطل کے قبضہ میں آچکتا ہے۔ ایسے زمانے میں حق صرف نبی کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ اس کے دائرے سے باہر حق کے کچھ اجزا تو پائے جاسکتے ہیں، لیکن پورے حق کا پایا جانا ناممکن ہے۔ اس وجہ سے اگر انبیائے کرام ؑ ابتدا ہی میں لوگوں کو اس طرح مخاطب کریں کہ ’’اے کافرو! ایمان لائو، اے مشرکو! توحید اختیار کرو‘‘، تو صورتِ واقعہ کے اعتبار سے ان کا یوں دعوت دینا بے جا نہیں ہوسکتا، کیونکہ واقعہ یہی ہے کہ ان کے دائرے سے باہر جو کچھ ہے وہ صرف کفروشرک ہی ہے۔
جن لوگوں نے حضرات انبیائے کرامؑ کی تاریخ پڑھی ہے، وہ جانتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کرتے بلکہ وہ لوگوں کو ’’اے انسانو! اے لوگو! اے میری قوم! اے اہل کتاب! اے وہ لوگو! جو یہودی ہوئے، اے وہ لوگو! جو نصرانی ہوئے، اے وہ لوگو! جو ایمان لائے‘‘ وغیرہ خطابات سے مخاطب کرتے ہیں اور ان کا یہی طرزِ خطاب اس وقت تک باقی رہتا ہے، جب تک قوم ان کو اپنی ضد اور ہٹ دھرمی اور حق دشمنی سے اس قدر مایوس نہ کردے کہ ان کے لیے قوم سے علیحدگی اور ہجرت کا وقت آجائے۔
جب قوم اپنی حق دشمنی میں اس حد تک آگے بڑھ جاتی ہے کہ اہل حق کا وجود اپنے اندر کسی طرح گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی اور تائید ِحق کی بڑی سے بڑی دلیل بھی اس کی ضد کے آگے بیکار ہوکے رہ جاتی ہے۔ اس وقت انبیائے کرامؑ اپنی قوم کو چھوڑتے ہیں اور یہی وقت ہوتا ہے کہ وہ صاف صاف الفاظ میں ان لوگوں کے لیے کافرومشرک وغیرہ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، جو اپنے کفروشرک پر اَڑے رہتے ہیں۔
یوں تو یہ حقیقت ہرنبیؑ کی دعوت میں واضح ہے،لیکن خصوصیت کے ساتھ حضرت ابراہیمؑ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مختلف مدارج پر جس شخص کی نظر ہوگی، وہ اس حقیقت کا کسی طرح انکار نہیں کرسکتا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے باپ کو، اپنی قوم کو اور اپنے عہد کے بادشاہ کو، جن الفاظ سے خطاب کیا ہے، ان میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ وہ مخاطب کو ایک کافرو مشرک کی حیثیت سے مخاطب کر رہے ہیں۔ لیکن جب دعوت و تبلیغ پر ایک مدت گزر گئی اور دلائل و معجزات کی ساری قوت قوم کی ضد کے مقابل میں نہ صرف بے اثر رہی بلکہ یہ ضد اس قدر بڑھ گئی کہ پوری قوم ان کی جان کے دَرپے ہوگئی۔ اس وقت انھوں نے قوم سے علیحدگی کا اعلان کیا اور ایسے الفاظ میں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قوم کے کفروشرک کے ساتھ رواداری کی جو آخری حد تک ہوسکتی تھی وہ اب ختم ہوچکی ہے، اور اب نہ صرف یہ کہ وہ ان کے کفروشرک کا اعلان کرنا چاہتے ہیں بلکہ قوم کے ساتھ اس وقت تک کے لیے اپنی نفرت و عداوت کا بھی اعلان کرنا چاہتے ہیں، جب تک وہ توحید پر ایمان نہ لائے:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ۰ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّـا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِـمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ (الممتحنہ ۶۰:۴) تمھارے لیے بہترین نمونہ تو ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھیوں میں ہے، جب کہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور ان سے، جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، بالکل بَری ہیں۔ ہم نے تمھارا انکار کیا اور ہمارے اور تمھارے مابین ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بیزاری آشکارا ہوگئی تاآنکہ تم اللہ وحدہٗ (لاشریک لہٗ) پر ایمان لائو۔
ٹھیک یہی حال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا ہے۔ قربِ ہجرت سے پہلے کی کسی سورۃ میں بھی یہ بات نہیں مل سکتی کہ آپؐ نے اپنی قوم کو یا اہلِ کتاب کو صریح طور پر کافرومشرک یا منافق وغیرہ کے الفاظ سے مخاطب کیا ہو۔ بالکل ابتدائی سورتوں میں زیادہ تر خطاب یا تو يٰٓاَيُّہَا الْاِنْسَانُ کے الفاظ سے يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ یا ، یَقْومِ کے الفاظ ہیں۔ اسی طرح اہل کتاب کے لیے يٰٓااَھْلَ الْکِتَابِ کے یا اس کے ہم معنی الفاظ ہیں۔ یہاں تک کہ منافقین کے لیے بھی فتح مکہ کے بعد تک وہی عام لفظ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کا استعمال ہوتا رہا اور صراحت کے ساتھ ان کو ’اے منافقو‘ کے الفاظ سے کہیں خطاب نہیں کیا گیا۔
لیکن جب ایک مدت کی دعوت و تبلیغ کے بعد قوم پر اللہ کی حجت پوری ہوگئی اور نہ ماننے والوں نے نہ صرف یہ کہ مانا نہیں بلکہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کرلیا۔ اس وقت آپؐ نے ہجرت فرمائی اور کفّارِ قریش کو صاف صاف’اے کافرو‘ کے الفاظ سے مخاطب کیا گیااور ان سے اور ان کے دین سے اپنی علیحدگی کا اعلان کیا۔ اسی ہجرت کے موقعے پر یہ سورۃ نازل ہوئی جو قریش سے اعلانِ برأت بلکہ اعلانِ جنگ کی سورۃ ہے:
قُلْ يٰٓاَيُّہَا الْكٰفِرُوْنَ۱ۙ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۲ۙ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۳ۚ وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ۴ۙ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۵ۭ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ۶ۧ (الکافرون۱۰۹: ۱-۶) کہہ دو: اے کافرو! نہ میں پوجوں گا جن چیزوں کو تم پوجتے ہو اور نہ تم پوجنے کے جسے میں پوجتا ہوں اور نہ میں پوجنے والا ہوں جن کو تم نے پوجا۔ اور نہ تم پوجنے والے ہوئے جسے میں پوجتا آرہا ہوں۔ تمھیں تمھارا دین اور مجھے میرا دین۔
انبیائے کرام علیہم السلام یہ ساری احتیاط صرف اس حد تک برتتے ہیں۔ جہاں تک لوگوں کو کافر و مشرک قرار دینے کا معاملہ ہے، ان کے کافرانہ اور مشرکانہ اعمال کو کفروشرک قرار دینے میں انبیائے کرامؑ کبھی کوئی رعایت نہیں فرماتے۔ اس چیز میں اگر کسی وجہ سے وہ کوئی رعایت کرنا بھی چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو اجازت نہیں دی جاتی اور سخت سے سخت مخالف حالات کے اندر بھی ان کو یہی ہدایت کی جاتی ہے کہ کسی بات کو کفروشرک قرار دینے میں نہ وہ کسی خطرے کی پروا کریں اور نہ کسی مصلحت کا لحاظ کریں۔ اس کا سبب العیاذباللہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ لوگوں کو کافرو مشرک قرار دینا چاہتے ہیں۔ لیکن محض فتنے کے اندیشے یا اس خیال سے کہ لوگ دعوت سے بدک جائیں گے، ایسا کرنے سے احتراز کریں۔
اس طرح کی مصلحت پرستی ان کے ہاں جائز ہوتی تو کفّار جس طرح کے سمجھوتے کی تجویز پیش کیا کرتے تھے وہ بڑی آسانی سے ان کو منظور کرکے سارا جھگڑا ختم کرسکتے تھے۔ لیکن معلوم ہے کہ کسی پیغمبر علیہ السلام نے بھی دین کے بارے میں کبھی اس طرح کی مصلحت کا لحاظ نہیں کیا، خواہ اس کی وجہ سے اس کو کتنے ہی بڑے بڑے خطرات کا مقابلہ کیوں نہ کرنا پڑا ہو ۔ اس وجہ سے یہ سوال قابلِ غور ہے کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ کفروشرک کو کفروشرک قرار دینے کے معاملے میں جو لوگ اتنے بے پروا اور اتنے بے خوف تھے، انھوں نے کفروشرک کے مرتکبین کو کافرومشرک قرار دینے میں اتنی احتیاط کی اور ان سے برأت اور علیحدگی کے اعلان میں اتنی دیر لگائی؟
ہمارے نزدیک انبیائے کرام علیہم السلام، کفروشرک کو کفروشرک قرار دینے کے باوجود ان کے مرتکبین کو کفروشرک قرار دینے اور ان سے اعلانِ برأت میں جو دیر لگاتے ہیں، اس کی دو نہایت اہم وجہیں ہیں:
یہ ماحول جب پیدا ہونے لگتا اور زندگی کی وہ راہ کھل جاتی، جس پر حق پرست چل سکتے ہوں، اگرچہ یہ [راہ] ابھی تنگ اور دشوار گزار ہی ہو۔ تب وقت آتا ہے کہ جو لوگ اس کو چھوڑ کر محض اپنی تن پروری اور جھوٹی نمایشوں کی خاطر باطل کی راہ پر بھاگے چلے جارہے ہیں، ان کے کفرکا بھی اعلان کردیا جائے اور ان سے علیحدگی بھی اختیار کرلی جائے۔
حضرات انبیائے کرامؑ کے اس اسوئہ حسنہ سے اگر ہم موجودہ حالات میں رہنمائی حاصل کریں تو یہ امر بالکل واضح ہے کہ اس پوری دُنیا میں جو حالات ہیں وہ بہت سے اعتبارات سے انبیاؑ کے وقفہ کے زمانے سے اشبہ [اِشْبَاہ/مانند]ہیں۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب آج بے کم و کاست ہمارے اندر موجود ہے۔ اس وجہ سے اس وقت دُنیا کسی نبی کی ہدایت کی محتاج نہیں ہے اور نہ اب قیامت تک کسی نبی کی محتاج ہوگی، لیکن خلق کی رہنمائی اورمسلمانوں کو حق پر استوار رکھنے کے لیے ہمارا شرعی نظام، خلافت کا نظام تھا، جو ایک مدت سے درہم برہم ہوچکا ہے۔
اس وجہ سے اس وقت دُنیا جن خرابیوں اور گمراہیوں میں مبتلا ہوچکی ہے اس کے لیے وہ ایک بڑی حد تک معذور ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کے لیے اب دُنیا پر اتمامِ حجت کا فرض اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر ڈالا ہے اور اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ہی کی بتائی ہوئی صورت یہ ہے کہ مسلمان خلافت کا نظام قائم کریں، جو ایک طرف دُنیا کو نیکی اور بھلائی کے راستہ کی دعوت دے اور دوسری طرف امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے سے مسلمانوں کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھے۔ خلافت کا نظام قائم نہ رہنے کی وجہ سے ان دونوں باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی پوری نہیں ہورہی ہے بلکہ عملاً ساری دُنیا ایک باطل نظام کی گرفت میں آچکی ہے اور باطل ایسی قوت و شوکت کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے کہ حق کے لیے موجودہ نظامِ زندگی میں کوئی جگہ سرے سے باقی ہی نہیں رہ گئی ہے۔
نظامِ تعلیم، نظامِ تمدن، نظامِ معاشرت، نظامِ سیاست ہرچیز حق سے منحرف اور باطل کی مددگار ہے، یہاں تک کہ اس کے زیرسایہ اگر کوئی چھوٹا بڑا کام دین کے نام سے انجام دیا بھی جارہا ہے تو وہ بھی اس وقت کی فضا کی ناسازگاری کی وجہ سے باطل ہی کو تقویت پہنچارہا ہے۔ نیک سے نیک انسان، جو فی الحقیقت نیکی اور سچائی کے راستہ ہی پر چلنا چاہتا ہے، آج چند قدم بھی بغیر مزاحمت کے حق کے راستے پر نہیں چل سکتا۔ اگر دُور والے اسے تھوڑی دیر کے لیے بخش دیتے ہیں تو قریب والے ہی اس سے اُلجھتے ہیں اور کسی طرح نہیں چاہتے کہ وہ اپنی منتخب کی ہوئی راہ میں دوقدم بھی آگے بڑھ سکے۔
حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایاکہ ’’بدی کی راہ فراخ ہے اور اس پر چلنے والے بہت ہیں، نیکی کی راہ تنگ ہے اور اس کے چلنے والے تھوڑے ہیں‘‘۔ یہ چیز آج آنکھوں سے مشاہدہ کی جاسکتی ہے۔ باطل کی منزل پر پہنچنے کے لیے فراخ سڑکیں ہیں، دو رویہ درختوں کا سایہ ہے، تیزرو سواریاں ہیں۔ حفاظت کے لیے بدرقہ ہے، ہرمنزل پر عیش و آرام ہے۔ آپ جس وقت چاہیں آرام سے منزلِ مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس حق کی راہ پہلے ہی قدم پر رُندھی ہوئی ہے۔ اگر آپ ہمت کرکے اس مزاحمت کو دُور کرلیں تو آگے کی راہ میں ہرقدم پر خطرہ ہے۔ یہاں تک کہ شروع سے لے کر آخر منزل تک خطرے کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔
ایسے نازک اور پُرآشوب ِ زمانہ میں یہ بات ذرا تعجب انگیز نہیں ہے کہ لوگ راہ سے بے راہ ہوگئے۔ تعجب انگیز اگر کوئی بات ہوسکتی ہے تو یہ ہوسکتی ہے کہ گمراہی کے اتنے سروسامان مہیا ہونے اور شیطان کے ایسے عالمگیر تسلط کے باوجود، خدا کے کچھ بندوں کو اللہ کا نام یاد رہ گیا ہے۔ یہ بے چارے داد کے مستحق ہیں نہ کہ ملامت کے اور سینہ سے لگالیے جانے کے لائق ہیں، نہ کہ کاٹ پھینکے جانے کے۔ جن لوگوں نے اتنے نامساعد حالات کے اندر اپنی شمع ایمان زندہ رکھی ہے، اگر ان کو موافق حالات میسر آتے تو وہ بہتر سے بہتر مسلمان ہوتے۔ اس وجہ سے ان کی غلطیوں اور غیرشعوری گمراہیوں یا اضطراری ضلالتوں کی بناپر ان کو ایمان سے محروم قرار دے کر ان سے نفرت کرنے کے بجائے اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ ان میں ایمان و اسلام کے صحیح مقتضیات کا شعور بیدار ہو۔