دسمبر ۲۰۲۳

فہرست مضامین

دین کا قرآنی تصور

ڈاکٹر محمود حسن | دسمبر ۲۰۲۳ | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے خاص مقصد کے تحت نبیوںؑ کو مبعوث فرماتا ہے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنے نبیوںؑ کو بشیر و نذیر بنایا ہے۔ انھیں معلّم و مزکی کی حیثیت دی ہے۔ عدل و قسط قائم کرنا بھی ان کے مقصد ِ بعثت میں شامل ہے۔ ہدایت ِ الٰہی کے تحت پاک چیزوں کو حلال کرنا اور ناپاک چیزوں کو حرام کرنا بھی ان کا منصب ہے۔ غرض کہ نبی اپنی پوری زندگی انھی مرضیاتِ الٰہی کا پابند ہوتا ہے جن کی تفصیل قرآن میں بیان کردی گئی ہے۔

  • بعثتِ انبیاؑ کی غرض و غایت:انبیاؑ کی بعثت کا یہ مقصد قرآن میں کہیں متفرق طور سے بیان ہوا ہے اور کہیں جامع طور سے۔ یہاں سورئہ شوریٰ کی آیت پیش کی جارہی ہے جو دین کے جملہ گوشوں کو شامل ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ دین اور اس کی وسعت کیا ہے؟ نیز یہ کہ تمام انبیاؑ اس پورے دین کو قائم کرنے پر مامور تھے۔ اس تشریح سے ان شاء اللہ اس مغالطہ کا ازالہ ہوجائے گا جو دین کی تعریف اور اس کی تشریح کے بارے میں بعض ذہنوں میں پایا جاتا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ جب مسلمانوں کے تعلق سے لفظ ’دین‘ کا اصطلاحی لفظ استعمال فرماتا ہے تو اس سے مراد کیا ہوتی ہے؟ارشادباری تعالیٰ ہے:

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۝۰ۭ (شوریٰ۴۲: ۱۳) اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰیؑ کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو۔

اس آیت میں تین باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ دین کو قائم کرنا تمام انبیاؑ اور رسولوںؑ کی ذمہ داری رہی ہے۔ دوسری یہ کہ دین ہرزمانے میں ایک رہا ہے، اور تیسری بات یہ کہ اگر دین نہ قائم کیا گیا تو لوگ متفرق اور منتشر ہوجائیں گے۔

اس آیت میں ان جلیل القدر انبیاؑ کا نام لیا گیا ہے جن کو رسالت اور شریعت تفویض کی گئی تھی۔ابوالبشر حضرت آدمؑ کے بعد حضرت نوحؑ پہلے صاحب ِ شریعت نبی ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ ابوالانبیاؑ اور صاحب ِ کتاب نبی ہیں۔ بنواسماعیل اور بنواسرائیل دونوں کا سلسلۂ نسب آپ ہی تک پہنچتا ہے۔ آپ کی نسل سے بے شمار پیغمبر ہوئے جن کی ذات کو اللہ نے نُورِ ہدایت بنایا۔ حضرت موسٰی و عیسٰی ؑ بنی اسرائیل کے جلیل القدر انبیاؑ اور صاحبانِ کتاب و شریعت ہیں۔ حضرت عیسٰی ؑ نے واضح طور پر  یہ بات فرمائی ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب کو منسوخ کرنے آیا ہوں، منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین نہ ٹل جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے۔ پس جو کوئی ان چھوٹے چھوٹے حکموں میں سے کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کو سکھائے گا، وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گا۔ لیکن جو ان پر عمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائے گا‘‘ (متی۵: ۱۷ تا ۱۹)۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحب ِ کتاب و شریعت ہونا تو ہمارے ایمان کی اساس ہے۔

اللہ نے انسان کو خلیفہ بنایا ہے اور خلیفہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرے۔یہ تحکیم بالحق بھی دراصل اقامت ِ دین کا جزو ہے۔ اس طرح ثابت ہوا کہ حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیاؑ آئے وہ تمام کے تمام اللہ کی طرف سے اقامت ِ دین کے منصب پر مامور رہے ہیں۔

چونکہ دین اللہ کے نزدیک ایک ہی رہا ہے، اس لیے تمام انبیاؑ کے پیش نظر ایک ہی دین کا قیام مقصود تھا۔ لیکن جیساکہ ہم ابھی دیکھیں گے کہ دین میں شریعت بھی شامل ہے اور شریعتیں ہررسولؑ کی لازماً ایک نہیں تھیں۔ اس لیے عقائدو ایمانیات اور عبادات کے بعد جہاں شریعت کے نفاذ کا سوال پیدا ہوتا ہے، ہر نبیؑ اپنے زمانے کی شریعت پر عمل اور اس کو نافذ کرنے کا مکلف رہا ہے۔

مذکورہ آیت (شوریٰ۴۲:۱۳) کا تیسرا نکتہ یہ تنبیہ ہے کہ آپس میں متفرق نہ ہوجائو۔   اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ اگر دین قائم نہ کیا گیا تو لازماً لوگوں میں اختلاف پیدا ہوجائے گا۔فرمایا:

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ نَزَّلَ الْكِتٰبَ بِالْحَـقِّ۝۰ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِي الْكِتٰبِ لَفِيْ شِقَاقٍؚ بَعِيْدٍ۝۱۷۶ۧ (البقرہ ۲:۱۷۶) یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے تو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی، مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلافات نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دُور نکل گئے۔

وَاَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۴۶ۚ (الانفال ۸:۴۶) اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی، اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

  • اسلام ہی دین ہـے:اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دین قرار دیا ہے: اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۝۰ۣ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹)، اور یہی دین اللہ کے یہاں مقبول ہے کسی اور دین کی اللہ کے یہاں پذیرائی نہیں: وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ۝۰ۚ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۸۵ (اٰل عمرٰن ۳:۸۵)، اور اسی اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونے کا اہل ایمان سے مطالبہ کیا گیا ہے: يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً ۝۰۠ (البقرہ ۲:۲۰۸)۔ اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ دین کیا چیزہے؟
  • دین کا قرآنی مفہوم:دوسری بہت سی اصطلاحات کی طرح دین بھی ایک مخصوص قرآنی اصطلاح ہے۔ دراصل عربی زبان میں یہ لفظ بحیثیت مصدر کے استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں: حساب، ملکیت، قدرتِ حکم، مذہب، ملّت، حالت، عادت، سیرت، تدبیر، نافرمانی، گناہ، مجبوری، پرہیزگاری، فرماںبرداری، بدلہ، قہروغلبہ اور ذلّت وغیرہ۔ قرآن میں یہ لفظ مذکورہ معانی میں سے چند ایک معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے لیکن جہاں دین بحیثیت ایک عملی مطالبہ کے  قرآن میں مذکور ہے وہاں اس کا مفہوم ان تمام مفہومات کا جامع ہوا کرتا ہے جو خوشنودی اور رضائے الٰہی کا سبب ہوا کرتے ہیں اور مراد اس سے اسلام ہے۔ ورنہ تقصیرِ دین لازم آئے گی اور ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً ۝۰۠  کا حق ادا نہ ہوگا۔

لفظ ’دین‘ کا استعمال قرآن کریم میںاس کی مختلف حالتوں میں تقریباً اسّی بار ہوا ہے۔ ان تمام استعمالات میں انسان کے تمام انفرادی اور اجتماعی گوشوں کا احاطہ کرلیا گیا ہے۔ دین کا مفہوم متعین کرنے کے لیے ہم یہاں قرآن میں اس لفظ ’دین‘ کے استعمالات کو ایک ترتیب کے ساتھ بیان کررہے ہیں:

عقائد دین ہیں:قرآن میں دین کو عقیدہ کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے اور عقائد کے اجزاء کے طور پر بھی۔ ارشاد ہے:

لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۝۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۝۰ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۝۰ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۲۵۶  (البقرہ ۲:۲۵۶) دین کے معاملہ میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے)سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔

اس آیت میں اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ طاغوت سے کفر کا بھی مطالبہ ہے اور ساتھ ہی اس مضبوط سہارا کا واسطہ ہے جو اللہ پر عقیدہ رکھنے کی وجہ سے بندئہ مومن کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے والی آیت، آیت الکرسی ہے جس میں اللہ کی صفات بیان کی گئی ہیں جس سے یہ مفہوم برآمد ہوا کہ اللہ کو ان تمام صفات سے متصف ماننا ضروری ہے جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اللہ کی صفات کا قرآن میں جہاں جہاں تذکرہ آیا ہے، ان سب پر ایمان لانا دین کے مفہوم میں شامل سمجھا جائے گا۔ چونکہ ایسی آیات قرآن میں متفرق طور سے بہت جگہ پائی جاتی ہیں اس لیے ان کا احاطہ کرنا نہ یہاں ممکن ہے نہ مقصود۔ اس کی ابتدا سورئہ فاتحہ کی ابتدائی آیتوں سے ہوتی ہے اور انتہا سورئہ اخلاص پر ہوتی ہے:

قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَۃَ عَنْ يَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ۝۲۹ۧ (التوبہ ۹:۲۹) جنگ کرو اہل کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (اُن سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیںاور چھوٹے بن کر رہیں۔

اس آیت میں لفظ ’دین‘کی تشریح موجود ہے، یعنی ایمان باللہ، ایمان بالآخرت اور اللہ اور رسولؐ کا اختیار تشریع حِلّت و حُرمت کے تعلق سے۔ اسی وجہ سے یہاں لفظ دین ایک وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے جس میں عقائد اور اعمال دونوں کے اجزا شامل ہیں۔

مٰلِکِ یَوْمِ الدِّيْنِ۝۳ۭ   روزِ جزا کا مالک۔

روزِ جزا یعنی آخرت کے لیے لفظ دین کا استعمال قرآن میں بہت سی جگہ پر ہوا ہے، مثلاً :

وَالَّذِيْٓ اَطْمَــعُ اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْۗــــــَٔــتِيْ يَوْمَ الدِّيْنِ۝۸۲ۭ (الشعراء ۲۶:۸۲) اور جس سے میں اُمید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا۔

وَّ اِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَۃَ اِلٰى يَوْمِ الدِّيْنِ۝۳۵ (الحجر۱۵:۳۵) اور اب روزِ جزاتک تجھ پر لعنت ہے۔

وَقَالُوْا يٰوَيْلَنَا ھٰذَا يَوْمُ الدِّيْنِ۝۲۰ (الصّٰفّٰت۳۷:۲۰) اس وقت یہ کہیں گے ہائے ہماری کم بختی، یہ تو یومُ الجزا ہے۔

وَّاِنَّ  عَلَيْكَ   لَعْنَتِيْٓ    اِلٰى  يَوْمِ الدِّيْنِ۝۷۸ (ص۳۸:۷۸) اور تیرے اُوپر یوم الجزا تک میری لعنت ہے۔

قیامت یا آخرت عقائد اسلامی کے ارکانِ ثلاثہ میں سے ایک ہے:

مِنَ الَّذِيْنَ ھَادُوْا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَيَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَيًّۢا بِاَلْسِنَتِہِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّيْنِ۝۰ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ۝۰ۙ وَلٰكِنْ لَّعَنَھُمُ اللہُ بِكُفْرِہِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۴۶ (النساء۴:۴۶) جن لوگوں نے یہودیت کا طریقہ اختیار کیا ہے ان میں کچھ لوگ ہیں جو الفاظ کو ان کے محل سے پھیر دیتے ہیں، اور دین حق کے خلاف نیش زنی کرنے کے لیے اپنی زبانوں کو توڑ مروڑ کر کہتے ہیں: سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا اور اِسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ اور رَاعِنَا۔  حالانکہ اگر وہ کہتے: سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ،اوراِسْمَعْ اور اُنْظُرْنَا تو یہ انھی کے لیے بہتر تھا اور زیادہ راست بازی کا طریقہ تھا۔ مگر اُن پر تو اُن کی باطل پرستی کی بدولت اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے، اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔

اس آیت میں دین کا لفظ واضح طور پر ایمان بالرسالت کے لیے استعمال ہوا ہے کیونکہ یہود اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کا ایمان نہیں تھا اور اسی وجہ سے وہ آپؐ کی شان میں گستاخی کیا کرتے تھے۔ اسی کفر (انکار) کی بنا پر اللہ نے ان کے اُوپر لعنت فرمائی ہے۔

جب بنیادی طور سے عقائد کا دین ہونا ثابت ہوگیا تو اس کی جملہ تفصیلات پر جو قرآن میں دوسری جگہوں پر وارد ہوئی ہیں یا احادیث میں آئی ہیں، ایمان لانا دین کا لازمی تقاضا ہوگا، مثلاً:

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝۰ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَـتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ   ۝۰     ۣ   لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ     ۝۰ۣ (البقرہ ۲:۲۸۵) رسولؐ اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے ربّ کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے۔ اور جو لوگ اِس رسولؐ کے ماننے والے ہیں، انھوں نے بھی اِس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوںؑ کو مانتے ہیں، (اور کہتے ہیں کہ) ہم اللہ کے رسولوںؑ کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔

اس آیت میں اللہ و رسولؐ اور آخرت کے علاوہ فرشتوں اور تمام کتب سماوی پر ایمان لانا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے، اس لیے یہ تمام ایمانیات داخلِ دین ہیں۔

ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۝۲ۙ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِـمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۳ۙ (البقرہ ۲:۳) یہ کتابِ ہدایت ہے ان پرہیزگاروں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نمازقائم کرتے ہیں، اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

مندرجہ بالا آیت میں ایمان بالغیب کا ذکر ہے حالانکہ قیامت، آخرت، جنّت، دوزخ وغیرہ سب غیب ہی پر ایمان کے اجزا ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے غیب پر ایمان لانے کا ذکر الگ سے اس لیے فرمایا ہے کہ انسان کے لیے زندگی کے اور بہت سے حقائق غیب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیر پر ایمان لانا ضروری قرار دیا ہے:

لَا یُؤْمِنُ  عُبْدٌ  حَتّٰی  یُؤْمِنَ بالقدر خیرہٖ وشرہٖ  (الترمذی، باب ماجاءفی الایمان  بالقدر خیرھوشرہ، حدیث: ۲۲۹۴) (کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک خیروشر کی تقدیر پر ایمان نہ لائے)___ اس لیے تقدیر پر ایمان لانا بھی دین کا جز ہے بغیر اس کے ایمان کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔

  • عبادات، دین ہیں:عبادت کی جو تشریح گزر چکی ہے اس کی رُو سے اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت دونوں ہی عبادت میں شامل ہیں۔ یہاں عبادت سے مراد حقوق اللہ یا تعبدی احکام ہیں جن میں اللہ اپنے ساتھ کسی کی بھی شرکت گوارا نہیں کرتا۔ ارشاد ہوتا ہے:

قُلْ اِنَّنِيْ ہَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝۰ۥۚ  دِيْنًا قِــيَمًا مِّلَّۃَ اِبْرٰہِيْمَ حَنِيْفًا۝۰ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْـرِكِيْنَ۝۱۶۱ قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۶۲ۙ لَا شَرِيْكَ لَہٗ ۝۰ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِـمِيْنَ۝۱۶۳ (انعام ۶: ۱۶۱-۱۶۳)    اے نبیؐ، کہو، میرے ربّ نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیمؑ کا طریقہ جسے یکسو ہوکر اس نے اختیارکیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ کہو، میری نماز، میری قربانی (تمام مراسمِ عبودیت) میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سراطاعت جھکانے والا مَیں ہوں۔

ان دو آیات میں اللہ ربّ العالمین نے دین کی جو منظرکشی کی ہے اس میں حضرت ابراہیمؑ کا پورا اسوہ باحسن طریق آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ جتنی بھی عبادتیں ہیں خواہ بدنی ہوں یا مالی سب دین کے اس دائرے میں شامل ہیں۔ بدنی عبادات میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج سبھی شامل ہیں۔ مزیدبرآں حنیفیت سے مراد اخلاص فی العبادت ہے اور یہ کہ انسان کو اللہ کے واسطے سب کچھ چھوڑ دینا ہے اور یہی اللہ کا سیدھا راستہ ہے:

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوۃَ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَۃِ۝۵ۭ (البینہ۹۸:۵) اور اُن کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں، اپنے دین کو اُس کے لیے خالص کرکے، بالکل یکسو ہوکر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ یہی نہایت صحیح و درست دین ہے۔

اس آیت میں لفظ دین کا استعمال دو بار ہوا ہے۔ ایک بار اخلاصِ عمل کے واسطے اور دوسری بار عبادت کے واسطے۔

معلوم ہوا کہ اللہ کی جملہ عبادات دین میں شامل ہیں لیکن ان عبادات میں شرک کا شائبہ بھی نہ ہونا چاہیے بلکہ پورے اخلاصِ عمل کے ساتھ ان کی ادائیگی ہونی چاہیے اور یہ اخلاصِ عمل اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتا جب تک اللہ کا اس کی جملہ صفات کے ساتھ استحضار نہ ہو اور اس کے رسولؐ پر تمام مناصب کے ساتھ ایمان نہ ہو کیونکہ یہ تمام کام جب تک رسولؐ کا نمونہ موجود نہ ہو انجام ہی نہیں دیئے جاسکتے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہ بنایا گیا:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًا۝۲۱ۭ (احزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا اُمیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔

تمام انسان اپنے ایمان اور عمل میں یکساں نہیں ہوتے اور ذکر ِ الٰہی اور تلاوتِ کلام پاک پر عبادات کے اہتمام سے اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے جیساکہ ارشاد ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْہِمْ اٰيٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۝۲ۚۖ الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۳ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا۝۰ۭ لَہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ۝۴ۚ (انفال ۸:۲-۴) سچّے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر  لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان  بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے ربّ پر اعتماد رکھتے ہیں۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ اُن کے لیے ان کے ربّ کے پاس بڑے درجے ہیں، قصوروں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی چیز کو حدیثِ جبریل میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے جو بخاری، مسلم ، ترمذی،  نسائی، ابن ماجہ اورمسنداحمد بن حنبل  میں موجود ہے۔ ہم اس حدیث کو صحیح مسلم (کتاب الایمان، باب معرفۃ الایمان، حدیث:۳۴) کے حوالے سے جو صاحب ِ مشکوٰۃ نے نقل کی، درج کر رہے ہیں:

حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے: ہم ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے درمیان ایک شخص آیا، جس کے کپڑے بے انتہا سفید اور بال انتہائی سیاہ تھے۔ اس کے اُوپر سفر کا کوئی اثر نہیں تھا اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا نہیں تھا یہاں تک کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا۔ اپنے دونوں گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا لیے اور اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے زانو پر رکھ لیں اور کہا: اے محمدؐ! مجھے اسلام کے بارے میں بتلایئے۔

آپؐ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور رمضان کے روزے رکھے اور اگر استطاعت نصیب ہو تو بیت اللہ کا حج کرے۔

اس نے کہا کہ آپؐ نے سچ فرمایا۔ ہمیں یہ بات عجیب لگی کہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی تصدیق کرتا ہے۔

 پھر اس نے پوچھا: مجھے ایمان کے بارے میں بتلایئے۔

آپؐ نے فرمایا: یہ کہ تو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی (نازل کردہ تمام) کتابوں پر اور اس کے (بھیجے ہوئے تمام) رسولوںؑ پر اور آخرت کے دن پر اور یہ کہ تو ایمان لائے خیر اور شر کی تقدیر پر۔

اس نے (پھر) کہا آپؐ نے سچ فرمایا۔پھر پوچھا: مجھے احسان کے بارے میں بتلایئے۔

آپؐ نے فرمایا کہ یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت (اس حضورِ قلب کے ساتھ) کرے کہ (گویا) تُو اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر ایسا نہ کرسکے تو (اس طرح گویا) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔

اس نے پوچھا: مجھے قیامت کے بارے میں خبر دیجیے۔

آپؐ نے فرمایا: جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اس بارے میں سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔

اس نے کہا: مجھے اس کی نشانیوں کی خبر دیجیے۔

آپ ؐنے فرمایا: (تو دیکھے گا کہ) لونڈی اپنے مالک کو جنے گی اور تو دیکھے گا کہ عریاں بدن ننگے پیروں والے بکریوں کے مفلس چرواہے اپنی عمارتوں کی بلندی پر فخر کریں گے۔

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ شخص چلا گیا۔ پھر ہم تھوڑی دیر ٹھیرے رہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: اے عمرؓ! کیا تم جانتے ہو کہ سائل کون تھا؟

میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسولؐ زیادہ واقف ہیں۔

آپؐ نے فرمایا کہ یہ جبرئیلؑ تھے، تمھارے پاس تمھارے دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔

اس طویل حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت واضح طور پر ایمانیات اور عبادات کو دین قرار دیا ہے۔ نیز یہ بھی کہ یہ تعلیم خود اللہ کی طرف سے ہے اور اس میں جبرئیلؑ واسطہ ہیں۔

عقائد اور عبادات  دین کی بنیاد ہیں

اسی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عقائد اور عبادات کو دین کی بنیاد قرار دیا ہے۔ بخاری، مسلم، ترمذی،نسائی اور امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں یہ روایت درج کی ہے۔ ہم یہ حدیث بھی صاحب ِ مشکوٰۃ کے حوالے سے نقل کر رہے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ۔ اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمدؐ اس کے بندے اور رسولؐ ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔(بخاری، کتاب بدء الوحی،باب قول النبیؐ بنی الاسلام، حدیث:۹؛ مسلم، کتاب الایمان، باب قول النبیؐ بنی الاسلام علٰی خمس، حدیث: ۳۴)

  • حقوق العباد بھی دین ہـے:ہم دیکھ چکے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عقائد اور عبادات کو جو اللہ کا حق ہے دین قرار دیا ہے لیکن اللہ نے قرآن کریم میں اپنے حق سے متصلاً بعض حقوق العباد کا ذکر بھی کیا ہے۔ ان میں سرفہرست والدین کا حق ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عبادات کے علاوہ حقوق بھی دین میں شامل ہیں کیونکہ عبادت تو اللہ کے علاوہ کسی کی جائز ہی نہیں ہے کیونکہ حقوق کے معاملے میں اللہ تعالیٰ بندوں کے حقوق کو نظرانداز نہیں کرتا۔ ذیل میں ہم صرف ایک آیت نقل کرتے ہیں جس سے بندوں کے حقوق پر روشنی پڑتی ہے:

وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْـرِكُوْا بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرَۨا۝۳۶ۙ (النساء۴:۳۶) اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آئو، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمھارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔

اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللہِ يَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَيْہِ يُرْجَعُوْنَ۝۸۳ (اٰل عمرٰن ۳:۸۳) اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چاروناچار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم) ہیں اور اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟

غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے جتنی چیزیں پیدا فرمائی ہیں، ان کی زندگی کا ایک قانون مقرر کردیا ہے۔ یہ قانون تکوینی بھی اور تشریعی بھی۔ قانون تکوینی کی مثال ہماری نگاہوں کے سامنے پھیلی ہوئی پوری کائنات ہے۔ اللہ نے اشیائے کائنات کا جو نظام مقرر کردیا ہے، اسی نظام پر وہ عمل پیرا ہیں۔ نہ تو سورج، چاند کو پکڑنے کی قدرت رکھتا ہے اور نہ رات ہی کو دن پر سبقت حاصل ہوسکتی ہے۔ ہر ایک کی گردش اپنے ہی مدار میں ہے (یٰس۳۶:۴۰)۔ انسان کے تمام اعضاء و جوارح بھی اسی بنیاد پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسی قانون تکوینی سے قانونِ تشریعی پر استدلال فرماتا ہے کہ جب آسمان و زمین (اور اس کی تمام مخلوقات) اللہ کے ایک لگے بندھے طریق زندگی میں جکڑی ہوئی ہیں تو تشریعی زندگی کے بارے میں کیسے تم سمجھ لیتے ہو کہ تم آزاد ہو؟ جس طرح تمام موجوداتِ عالم کی تکوینی زندگی ایک دین میں جکڑی ہوئی ہے، تمھاری تشریعی زندگی کو بھی اللہ نے ایک (الہامی) قانون کے تابع کردیا ہے۔

  • حِلّت و حُرمت کا قانون دین ہـے:عقائد اور عبادات کے بعد اللہ تعالیٰ نے جس چیز پر سب سے زیادہ زوردیا ہے وہ اشیا کی حِلّت و حُرمت ہے۔ مشرکین مکہ کے حلّت و حُرمت کے اپنے خودساختہ قوانین تھے۔ ایسے ہی یہودیوں نے اللہ کی نازل کی ہوئی شریعت میں اپنی مرضی اور خواہش سے بہت کچھ کتربیونت کرلی تھی۔ مسیحیت میں دین نے خود کو قانون حِلّت و حُرمت ہی سے آزاد کرلیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو نہ صرف دین میں شامل فرمایا بلکہ کسی بھی چیز کو حرام و حلال کرنے کا حق بھی اپنے لیے مخصوص فرمایا۔ اس بارے میں رسولؐ کو جو آزادی عطا فرمائی گئی وہ دراصل تشریح و تبیین کی تھی۔ بندوں میں سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اللہ کی (یا اس کی متابعت میں رسولؐ کی) حلال کی ہوئی کسی چیز کو حرام یا حرام کی ہوئی کسی چیز کو حلال قرار دے۔

سورئہ مائدہ کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے گھاس چرنے والے چوپایوں (بَھیْمَۃُ الْاَنْعَامِ) کو انسانی غذا کے لیے حلال قرار دیا ہے لیکن ان میں سے چند چیزوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے بقیہ کو حرام قرار دے دیا ہے۔ ارشاد ہے:

تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلاگھٹ کر، یا چوٹ کھاکر ،یا بلندی سے گر کر، یا ٹکرکھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو___ سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا___ اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو ۔ یہ سب افعال فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمھارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔(المائدہ۵:۳)

ان لوگوں نے اللہ کے لیے خود اُسی کی پیدا کی ہوئی کھیتیوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے لیے ہے، بزعمِ خود، اور یہ ہمارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے۔ پھر جو حصہ ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا مگر جو اللہ کے لیے ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے۔ کیسے بُرے فیصلے کرتے ہیں یہ لوگ! اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کے قتل کو خوش نما بنادیا ہے، تاکہ ان کو ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنادیں۔ اگر اللہ چاہتا تو یہ ایسا نہ کرتے، لہٰذا انھیں چھوڑ دو کہ اپنی افتراپردازیوں میں لگے رہیں۔ کہتے ہیں یہ جانور اور یہ کھیت محفوظ ہیں، انھیں صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جنھیں ہم کھلانا چاہیں حالانکہ یہ پابندی ان کی خودساختہ ہے۔ پھر کچھ جانور ہیں جن پر سواری اور باربرداری حرام کردی گئی ہے اور کچھ جانور ہیں جن پر اللہ کا نام نہیں لیتے، اور یہ سب کچھ انھوں نے اللہ پر افترا کیا ہے، عنقریب اللہ انھیں  ان افترا پردازیوں کا بدلہ دے گا۔ اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹ میں ہے، یہ ہمارے مردوں کے لیے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام، لیکن اگر وہ مُردہ ہو تو دونوں اس کے کھانے میں شریک ہوسکتے ہیں۔ یہ باتیں جو انھوں نے گھڑ لی ہیں ان کا بدلہ اللہ انھیں دے کر رہے گا۔ یقینا وہ حکیم ہے اور سب باتوں کی اسے خبر ہے۔(الانعام ۶:۱۳۶-۱۳۹)

اسلام نے کافروں کی خودساختہ شریعت کی حلّت و حُرمت کو تسلیم نہیں کیا۔ اسی طرح یہودیوں نے اپنی شریعت میں جو تنگی پیدا کرلی تھی، اسے بھی اس نے سند ِ جواز نہیں عطا کی بلکہ اللہ نے اس بارے میں اپنا قانون واضح طور سے نازل فرمایا اور اسے دین قرار دیا۔ پھر یہ فرمایاکہ آج کافر تمھارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں (المائدہ ۵:۳)۔نیز یہ کہ شیطان نے مشرکین کے لیے ان کے دین (قانونِ حلال و حرام) کو مشتبہ کردیا ہے۔ (الانعام ۶:۱۳۷)