جولائی ۲۰۱۷

فہرست مضامین

نصیحت بے اثر کیوں؟

ڈاکٹر طاہر مسعود | جولائی ۲۰۱۷ | بحث و نظر

Responsive image Responsive image

عہد حاضر میں جدید تہذیب اور جدید طرزِ زندگی نے آج عموماً ہمارے اصلاح پسند لوگوں میں جو خرابیاں پیدا کردی ہیں، ان میں تین بیماریاں سب سے مہلک ہیں جو خود دینی روح کی نفی کرتی ہیں۔ ان میں ایک تو خود رائی اور انانیت، دوسرے مصلحت پسندی، اور تیسرے دوسروں سے بے گانگی و بے حسی ہے۔

یہ عوارض انسانی معاشرت کے لیے ضرررساں ہیں۔ انھی روّیوں سے معاشرے کا امن و سکون درہم برہم ہی نہیں ہوتا، بلکہ کش مکش اور تصادم کی ایسی فضا ہموار ہوتی ہے، جس میں ہرفرد اپنی ذات اور اپنے مفادات کا اسیر ہوجاتاہے، اور وہ اعلیٰ اقدار و روایات جن سے کسی معاشرے کا حُسن قائم ہوتاہے، بتدریج مٹ جاتی ہیں۔اگر یہ خامیاں نہ ہوں تو باہمی میل جو ل اور تعلقات میں محبت، رواداری اور برداشت و تحمل کی اعلیٰ صفات اور خوبیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پرانی معاشرت میں وضع داری، انسانی تعلق کا پاس و لحاظ، ایثار و محبت اور رواداری کی خوبیوں کا توازن مثبت پلڑے میں تھا، جن کی وجہ سے اُس زمانے میں نفسا نفسی اور آپی دھاپی کی ویسی فضا نہ تھی جس کا تماشا ہم آج کی نئی معاشرت میں آئے دن دیکھتے رہتے ہیں۔

جن عوارض کا ذکر کیا گیا، ان کے اسباب کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس صورت حال کا بھی ادراک کرنا ہوگا، جو آج کے انسان کا جبر ہے۔ نئی معاشرت اور نئی جدید تہذیب، یہ سب سائنس و ٹکنالوجی کے فراہم کردہ وسائل و تعیشاتِ زندگی سے عبارت ہے۔ یہ تہذیب بنیادی طور پر مشینوں پر انحصار کرنے کی وجہ سے ایک مشینی اور میکانکی تہذیب ہے، جو خود اپنی اقدار پیدا کرتی ہے۔ اقبال نے اسی لیے مشینوں کی حکومت کو’دل‘کی موت سے تعبیر کیا تھا۔

مشینیں احساسات و جذبات سے عاری ہوتی ہیں۔ جدید تہذیبی زندگی کا انحصار جیسے جیسے مشینوں پر بڑھتا جاتاہے اور انسان ان مشینوں سے حاصل ہونے والی سہولتوں اور آسائشات سے زیادہ سے زیادہ سے بہرہ ور ہونے کے لیے ان کو اپنی ذات اور خاندان کے لیے ناگزیر تصور کرنے لگتا ہے، وہ مجبور ہوجاتاہے کہ ان کے حصول کے لیے اپنی دولت اور آمدنی میں ا ضافے کے لیے خود مشین بن جائے۔ آج کار، ایئرکنڈیشنڈ، واشنگ مشین، فریج، مائیکرو یو اوون، ٹیلی وژن، کمپیوٹر، اور اس نوع کی دوسری مشینیں جو زندگی میں آسانیاں پیدا کرتی ہیں، بنیادی اور ضروری   بن چکی ہیں۔ ان کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور محال ہوتا جارہاہے۔

ان وسائل کی موجودگی سے جہاں سہولتیں اور آسانیاں حاصل ہوتی ہیں، وہیں ان کے حصول کے لیے آدمی کو کسب معاش کی تدابیر کرنی پڑتی ہیں کہ معاشرے میں انھی سے اس کا سماجی مرتبہ اور ’اسٹیٹس‘متعین ہوتاہے۔ جب جدید شہری معاشرہ دولت اور اسٹیٹس کی دوڑ میں شریک ہوجاتا ہے تو اس میں کامیابی کے لیے اسے اعلیٰ اقدار و روایات جو دوسروں کے لیے خیر خواہی ، ایثار و قربانی ، محبت و مروت، تحمل و برداشت وغیرہ سے عبارت ہوتی ہیں، بدقسمتی سے انھیں خیر باد کہنا پڑتا ہے۔چوں کہ اس ساری مسابقت و مقابلے کا محور و مرکز اپنی ذات اور اپنا گھرانا اور اس کے مفادات ہوتے ہیں،ا س لیے مقابلے میں جیتنے کی شرط ہی خود غرضی، مفاد پرستی ، بے حسی و بے گانگی وغیرہ ہوتی ہے۔

چناںچہ، ہمیں جو اقدار و روایات آج بھی چھوٹے شہروں اور قصبات میں نظر آتی ہیں، ان کے مظاہر بڑے شہروں کی مصروف و مشینی زندگی میں ناپید دکھائی دیتے ہیں۔ گویا جن عوارض کو آج کے انسانوں میں ہم نے ’مہلک بیماری‘سے تعبیر کیا، وہ آج کی شہری زندگی کی مجبوری بھی ہے اور مقدر بھی۔ چھوٹے شہروں اور قصبات و دیہات میں آج بھی لوگوں کے پاس وقت کی فراوانی ہے، اور مہرو محبت اور خلوص کے جذبات ہیں جن کا اظہار مہمان نوازی اور تواضع کی صورت میں وہاںکیاجاتاہے۔ ایسی مہمان نوازی ، دل داری اور تواضع کی توقع آج کے شہری آدمی سے نہیں کی جاسکتی۔ گویا انسان اپنے ماحول کا اسیر ہوتاہے اور یہ ماحول کا جبر ہوتاہے جس میں انسان اپنی خوبیوں یا خامیوں کی نشوونما کرتاہے۔

لہٰذا، شہری زندگی اور مسائل میں گھرے ہوئے آدمی کی جانچ پرکھ کے لیے ان عوامل کو نظر میں رکھا جانا چاہیے۔ آج کا ایک عام شہری جو روزگار کی مجبوری میں صبح گھر سے نکلتا ہے، طویل فاصلے کو طے کرکے، ٹریفک کے ہجوم اور بدنظمی سے ذہنی کوفت و اذیت کو جھیلتے ہوئے دفتر یا کاروبار کے لیے پہنچتا اور پھر شام تک سر کھپا کر واپس ایسی ہی اذیتوں کو سہتے ہوئے گھر لوٹتا ہے، جہاں پہلے سے اُلجھنیں اور پریشانیاں اسے گھیرنے کے لیے تیار بیٹھی ہوتی ہیں۔ ایسے پریشاں حال آدمی سے اعلیٰ اخلاقی صفات کی اُمید رکھنا بجاے خود کم فہمی ہے۔

اس لیے آج کے شہری انسان کو نصیحتوں اور مشوروں کی نہیں، مدد کی ضرورت ہے ۔ پہلے اسے ان بکھیڑوں اور الجھنوں سے نجات دلانے کی ضرورت ہے، جن میں اُلجھ کر وہ دانستہ یا نادانستہ اپنی اخلاقی صفات کھو  بیـٹھا ہے یا ان کی نشوونما کرنے اور انھیں اُبھارنے کی طرف سے غافل ہے۔ آج کا شہری انسان ’مظلوم‘ہے۔ اسے ’ظلم‘ کے شکنجے سے نکالے بغیر اس سے اچھا انسان بننے کی توقع ایسی ہی ہے، جیسے ایک کمزور و بیمار انسان کو بستر پر پڑا دیکھ کر اسے کاہلی اور بے عملی کا طعنہ  دیا جائے۔ جب وجود کی بقا ایک سوال بن جائے تو انانیت اور خود رائی کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ جب آسایشات اور ضروریات ہی زندگی کی مجبوری یا اوّلین ترجیح بن جائیں تو مصلحت و مفاد پرستی پر اعتراض کو وزن دینے کے لیے کوئی آمادہ نظر نہیں آتا۔ جب تہذیب و معاشرت میں ترقی کے لیے یکساں مواقع، عدل و انصاف اور سیاسی و معاشی نظام میں انسانی ہمدردی، خیر خواہی اور مساوات کے اصول و ضابطے ناپید ہوجائیں، تو افراد اور معاشرے میں بے حسی اور بے گانگی کا پیدا ہوجانا کوئی تعجب خیز امر نہیں رہتا۔

جب کسی معاشرے میں ماحول اور مسائل کے جبر کے تحت انسان زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجائے تو اس کی شخصیت دولخت ہوجاتی ہے۔ وہ اعتقادات کی سطح پر ایک الگ زندگی اور معاملات کی سطح پر ایک بالکل مختلف و متضاد طرز عمل اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج معاشرے میں عقیدہ و عمل میں تضاد پیدا ہوگیا ہے۔ ہم جو عقیدہ اور اخلاقی تصورات اپنے ذہن میں رکھتے ہیں، ان عقائد اور اخلاقی تصورات کی روشنی میں معاملات کرناچاہیں بھی تو نہیں کرپاتے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ جو لوگ درس قرآن ، درس حدیث اور وعظ و تلقین کی مجلسوں میں اچھے اور نیک خیالات سن کر اپنے اندر سے اپنے ذہن ، ضمیر اور دل سے ان سچائیوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ مدرس کے حکیمانہ نکتوں پر ’واہ واہ،سبحان اللہ‘ کے ڈونگرے بھی برساتے ہیں، لیکن ان پاکیزہ جذبات سے سرشار مجلسوں سے نکل کر بھی اکثر ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں، اور چند استثنائی مثالوں کے سوا ان کے عملی معاملات میںکوئی واضح اور قابلِ ذکر تبدیلی جڑ نہیں پکڑتی۔ اس حقیقت کو سمجھے بغیر یہ بات قابلِ فہم نہیں ہوسکتی کہ اگر محض وعظ و تلقین سے انسان بدلے جاسکتے تو آج سارے انسان نیکوکار ہوتے۔ یہ بات کہنے کا مقصد وعظ ، تلقین اور تبلیغ کی افادیت اور اہمیت کا انکار نہیں، بلکہ ان کے ساتھ دیگر پہلوئوں کی جانب توجہ دلانا مقصود ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ انسان اندر سے بھی بدلتا ہے اور باہر سے بھی۔ اگر معاشرتی ، معاشی اور سیاسی نظام اَبتر و مایوس کن ہو تو ایسے نظام کے زیر اثر دکھ، اذیت اور ظلم سہتے انسان کو محض اچھی توقعات کے بَل پر اچھا نہیں بنایا جاسکتا۔ ایسے انسان کو مشورے سے زیادہ ، مدد کی ضرورت ہے۔ مدد کے بغیر مشورہ دینا اور نصیحت کرنا کم فہمی کے ساتھ خود ناصح کی بے حسی ہے کہ جن مریضوں کو وہ ناصحانہ دوائیں تجویز کررہا ہے ، ان کے مرض کے اصل اسباب سے ہی بے خبر ہے یا انھیں جاننے میں وہ غلطی کا مرتکب ہورہا ہے۔