مولانا حکیم عبدالمجید سوہدروی۔ مسلم پبلی کیشنز، ۲۵-ہادیہ حلیمہ سنٹر ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات:۳۳۸۔ قیمت: درج نہیں۔
سیرتِ النبیؐ کے بحرِ ناپیدا کنار موضوع پر لکھنا ایک مسلمان کے لیے سعادت اور خوش بختی کا باعث ہے۔ بعض سیرت نگار، بجا طور پر اِسے آخرت میں نجات کا ذریعہ بھی کہتے ہیں۔ مولانا حکیم عبدالمجید سوہدروی نے رہبرِکامل کے عنوان سے سیرت پر جو کتاب لکھی، اُسے اُن کے فرزند مولانا محمد حکیم محمد ادریس فاروقی نے حواشی اور تخریج کے ساتھ شائع کیا۔ اب ان کے بیٹے (اور مصنّف کے پوتے) جناب نعمان فاروقی اسے مزید اضافوں کے ساتھ منصہ شہود پر لائے ہیں۔
مصنّف ِعلّام نے دیباچے میں ایک جگہ لکھا ہے: ’’یسوع مسیح، مہاتما گوتم بدھ، کرشن جی، گروگوبندسنگھ، بابا نانک صاحب، رام چندر جی انسانی زندگی کا مکمل نمونہ ہیں۔وہ بے شک بزرگ ہیں، قابلِ احترام ہیں مگر ضروریاتِ زندگی اور دنیوی معراج و ترقی کے متعلق اپنی زندگی میں کوئی سبق نہیں رکھتے‘‘(ص۳۳)۔ دیگر اکابر کے بارے میں تو ممکن ہے، یہ بات صحیح ہو مگر حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ’’انسانی زندگی کا مکمل نمونہ نہیں تھے، یا ضروریاتِ زندگی اور دنیوی معراج و ترقی کے متعلق اپنی زندگی میں کوئی سبق نہیں رکھتے‘‘، درست نہیں ہے۔
زیرنظر کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اِس میں واقعاتِ سیرت کے ساتھ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ۱۹مختلف حیثیات (شوہر، باپ، مبلّغ، تاجر، فاتح، حکمران، زاہد، عابد، منصف، طبیب، سخی، شہری، پیرومُرشد، معلّم، خوش مذاق، مصلح) پر ایک ایک باب باندھا گیا ہے اور ان حیثیات سے آپ کی انفرادیت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ کتاب اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔تقریظ پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم نے لکھی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
محمد انور حیات محمد۔ ناشر: بلیسنگ پبلشرز، لالہ زار، لاہور۔ فون: ۴۲۱۷۹۲۵-۰۳۲۱۔ صفحات: ۲۱۶۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔
مصنف نے یہ کتاب اپنے تئیں ’کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے تعلیم یافتہ افراد کے لیے جدید اسلوب‘ میں لکھی ہے کیوں کہ ’ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی‘ جو ’کئی کتابوں سے بے نیاز کردے‘(ص ۱۳-۱۴)۔ مگر ہماری راے میں اگر اسے سیرت کی ایک مربوط اور مکمل کتاب سمجھ کر پڑھا جائے گا تو مایوسی ہوگی۔
ولادت سے وفات تک آں حضوؐر کی زندگی کے اہم واقعات کو صرف گیارہ صفحات میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ آں حضوؐر پر فقط ایک سوانحی مضمون ہے، جب کہ باقی پوری کتاب متفرقات و متعلقاتِ سیرت پر مشتمل ہے، مثلاً چند عنوانات : lقرآن میں آپؐ کا مقام l ختمِ نبوت پر دلائل lعلامہ اقبال کا خراجِ تحسین l نپولین اور دیگر نام وَر غیرمسلم اکابرین کا خراجِ تحسین۔ (اِسی ضمن میں یوسف ایسٹس کا ۱۶ صفحات کا انگریزی مضمون ۔اُردو کتاب میں اس کی شمولیت کا کوئی محل نہیں ہے)۔ آخر میں قرآنِ مجید کے ’خالص اسلامی موضوعات اور مضامین‘ اور مضامینِ قرآنِ حکیم (ایک اشاریہ) جس سے پتا چلتا ہے کہ قرآن میں کہاں کہاں اسلام کی مطلوبہ خوبیوں (سچائی، صبروتحمل، درگزر، رحم، مہربانی، شکرگزاری، مسائل کا حل، اسلامی حکومت وغیرہ) کا ذکر ملتا ہے۔
اُردو قارئین کے لیے انگریزی عنوانات بلاضرورت ہیں۔ کتاب کے نام کے ساتھ اندرونی اور بیرونی سرورق پر Supreme Blessing لکھنے کی وجہ ؟ اس طرح عنوانات: Supreme Authority اور Supreme Classic کی ضرورت نہ تھی۔ اشاعتی اور طباعتی معیار اطمینانِ بخش ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
(ترجمہ : محمد نصراللہ خاں خازن ) ۔ ناشر : مکتبہ تعمیر انسانیت، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار ،لاہور۔ فون:۳۷۳۱۰۵۳۰-۰۴۲۔ صفحات : ۳۹۲۔ قیمت : ۴۸۰ روپے۔
مسلم دنیا میں بیداری کی موجودہ لہر میں ،اقبال ،حسن البنا ،مولانا مودودی اور سید قطب شہید کا شمار قائدین کی حیثیت سے ہوتا ہے۔
سیّد قطب بنیادی طور پر ادیب تھے، لیکن ۴۰سال کی عمر میں جب انھوں نے ایمان کی تازگی اور شیفتگی سے قرآن کریم کا مطالعہ کیا تو ان کی زندگی کا رُخ تبدیل ہو گیا۔ پھر ۲۹ اگست ۱۹۶۶ء کو پھانسی کی سزا پانے تک ان کا قلم، ان کا تخیل اور اظہار وبیان کا ہر پیرایا ، اسلام اور صرف اسلام کے پیغام کو عام کرنے کے لیے وقف رہا۔ زیر نظر کتاب میں سید قطب شہید نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں فکر آخرت کو بیدار کرنے اور تازہ رکھنے کے لیے اِس دنیا میں ایمان اور اُس دنیا میں جواب دہی کی ہیبت اور ذمہ دارانہ سوچ کو اس انداز سے مربوط کر کے پیش کیا ہے کہ قرآن کا منشا قرآنی و ادبی پیرایے میں قاری کو جھنجوڑ تا ہے۔
نصراللہ خاں خازن مرحوم نے مصنف کے اسلوب نگارش کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے خاصی محنت سے خدمت انجام دی ہے۔ پہلے پہل اس ترجمے کی اقساط ماہ نامہ چراغِ راہ کراچی میں شائع ہوتی رہیں،بعد میں انھیں یک جا کتابی شکل میں ڈھالا گیا۔ کتاب کا پیش لفظ استاد الاساتذہ ڈاکٹر سیّد محمد عبداللہ نے تحریر کیا ہے: ’’سیّد صاحب مرحوم، مصر جدید ( اور بالواسطہ عالم اسلام ) میں اسلامی انقلاب کے عظیم داعی اور زندگی میں دین کی اہمیت کے فلسفے کے نامور مفکر اور تحریک اسلامی کے بطل جلیل تھے۔ سید صاحب عظیم مجاہد ہونے کے علاوہ بے نظیر و بے عدیل مصنف بھی تھے۔ افسوس کہ الحادی استبداد نے یہ چراغ گل کر دیا۔ لیکن غور کیجیے تو ایسے چراغ درحقیقت گل نہیں ہوا کرتے ، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ خون شہادت اس کی ضیا کی افزونی کا سامان بن جاتا ہے ، اور یہ ضیا پہلے سے زیادہ نُور افگن اور شعاع ریز ہو جاتی ہے‘‘۔ (ص ۱۳-۱۴)
دعوت و تربیت، اور تذکیر کے لیے یہ کتاب ایک قیمتی مآخذ ہے۔ (سلیم منصور خالد )
مرتبہ : پروفیسر عبدالجبار شاکر (ترتیبِ نو : ڈاکٹر خالد ندیم )۔ ناشر : نشریات ، الحمد مارکیٹ ، اُردو بازار، لاہور۔ فون : ۴۵۸۹۴۱۹-۰۳۲۱۔صفحات : ۳۲۷۔ قیمت : درج نہیں ۔
علامہ اقبال نے اسلامی فکر کی اشاعت وترویج کے لیے معروف معنوں میں شعر وسخن کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔ اس ضمن میں فارسی اور اردو شاعری نے عوام الناس میں ایمان کی جوت جگائی اور بیداری کا پیغام عام کیا۔ جس طرح ان کی شاعری کو قبول عام حاصل ہوا، اس طرح نثرِ اقبال کی اشاعت پر زیادہ توجہ نہ دی جاسکی۔ حالاں کہ اقبال کی انگریزی اور اردو نثر میں فکرو رہنمائی کا خزانہ موجود ہے، خصوصاً اُردو میں ان کے مکاتیب، نثراقبال کا نہایت وقیع ذخیرہ ہے۔
زیر نظر کتاب کے سرورق سے قاری یہ تاثر لیتا ہے کہ اقبال کے انتقال کے ۷۹ سال بعد نثرِ اقبال پر شائع ہونے والی یہ کتاب (مکاتیب اقبال کو منہا کر کے) ان کی نثر اُردو کی جامع ہوگی، مگر یہ کتاب ان کی کُل ۱۲ تحریروں پر مشتمل ہے۔ جن میں سے پانچ تو ان کے دیباچے ہیں اور باقی سات چھوٹے بڑے نثرپارے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اردو میں اقبال کا اتنا ہی نثری ذخیرہ ہے؟
شاکر صاحب نے ہر تحریر کا پس منظر واضح کیا ہے اور بڑی محنت سے ہر تحریر کی مختلف اشاعتوں کے گوشوارے مرتب کر کے اختلافاتِ متن کی نشان دہی بھی کی ہے، مگر یہ نہیں بتایا کہ کون سا متن قابلِ ترجیح ہے؟ اور کسے نسبتاً صحیح سمجھا جائے۔
کتاب کی تدوین اور حواشی تعلیقات کے لیے ڈاکٹر خالد ندیم نے خاصی محنت کر کے کتاب کو وقیع بنا دیا ہے ۔ فکر اقبال کی تفہیم میں یہ کتاب معاونت کر سکتی ہے ۔ (سلیم منصور خالد )
حصہ اوّل، تالیف: محمود عالم صدیقی۔ ناشر: زیک بُکس، دکان نمبر۳-۴، مدینہ اپارٹمنٹ، پلاٹ نمبر۱۳-بی، بلاک۲، بی، ناظم آباد۲، کراچی۔ فون: ۳۶۶۰۴۰۵۲- ۰۲۱۔ صفحات: ۶۴۸، قیمت: ۹۰۰ روپے۔
زیرنظر کتاب کا موضوع جماعت اسلامی پاکستان کی تاریخ ہے اور یہ مجموعہ اس سلسلے کے پہلے حصے پر مشتمل ہے، جس میں مولانا مودودی کے دورِ امارت کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔
تاریخ نگاری کے کئی درجے اور متعدد پیمانے ہیں۔ کوئی فرد اپنے مشاہدات کی بنیاد پر وقائع لکھ کر تبصرہ کرتا ہے۔ کوئی محض واقعات کو اپنے ذوق کی مناسبت سے مرتب کردیتا ہے۔ کوئی فرد اُس زمانے کے سیاسی و سماجی احوال کی روشنی میں واقعات و حوادث کو درج کر کے انھیں امتزاج اور تجزیے کی سان پر پرکھتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
زیرنظر کتاب تاریخ نگاری کی دوسری قسم پر مشتمل ہے۔ ۱۹۴۷ء تک کی تاریخ جماعتِ اسلامی کو اسعد گیلانی، آباد شاہ پوری اور چودھری غلام محمد مرحوم نے بخوبی موضوعِ سخن بنایا ہے، جب کہ اس کتاب میں ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۲ء تک کے واقعات اور معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چیدہ چیدہ واقعات کو گردوپیش کی صورتِ حال کے پس منظر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ہرچند کہ معلومات کو یک جا کرنے میں محنت کی گئی ہے لیکن تجزیاتی مطالعے اور امتزاج کی تشنگی محسوس ہوتی ہے۔
پیش کش کو زیادہ بہتر بنانے کی گنجایش موجود ہے۔ تاہم، جماعت اسلامی کراچی مبارک باد کی مستحق ہے کہ متعدد تحقیقی اداروں کی موجودگی کے باوجود اس کی سرپرستی سے یہ منصوبہ رُوبۂ عمل آیا ہے۔کتاب کا پیش لفظ جناب سیّد منورحسن نے تحریر فرمایا ہے۔(سلیم منصور خالد)
مرتبہ : انعام الرحمٰن شانگلوی، محمد اسرار مدنی۔ ناشر : مکتبہ حقانیہ، جی ٹی روڈ، اکوڑہ خٹک (کے پی کے) ۔برقی پتا: editor_alhaq@yahoo.com۔ صفحات:۶۱۰۔قیمت :۳۰۰ روپے۔
برطانوی سامراج نے غلام ہندستان میں جہاں بہت سے فتنو ں کو ہوا دی، وہیں ایک بڑا فتنہ قادیانیت کی صورت میں کاشت کیا۔ علماے حق نے ابتدا ہی میں اسے پہچان لیا اور علمی ومکالماتی سطح پر مقدور بھر اس کا رد بھی کیا۔ تحفظ ختم نبوت کے اس شعور نے علما کے ساتھ جدید تعلیم یافتہ دانش وروں کی غیرت دینی کو بھی بیدار کیا۔ جن میں نمایاں ترین نام علامہ محمداقبال کا ہے، جنھوں نے فیصلہ کن انداز میں جعلی نبوت کی تردید فرمائی ۔
زیر نظر کتاب اس اعتبار سے ایک مبارک کاوش ہے کہ جس میں شمالی پاکستان (خیبر پختونخوا) کے معروف دارالعلوم کی ان علمی ،تحقیقی ،مجلسی اور صحافتی سرگرمیوں کو یک جا پیش کر دیا گیا ہے، جن میں ختم نبوت کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ہر اہم لمحے کے دوران بروقت گواہی دی گئی۔
کتاب کے سات ابواب میں قادیانیت کی مذہبی، سیاسی اور سازشی حرکات کی مدلل طریقے سے تردید کی گئی ہے اور مثبت انداز سے قوم کی رہنمائی کی گئی ہے کہ وہ اس حساس مسئلے کو کن پہلوئوں سے سمجھیں اور بیدار رہیں۔
زیر نظر کتاب میں بعض ایسی معلومات افزا تفصیلات درج ہیں جن سے آج کے بیش تر قاری ناواقف ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ کیجیے: عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر عبدالولی خاں نے ۱۹۸۵ء میں کہنا شروع کیا کہ ’’ہم قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے حامی نہیں تھے‘‘۔ حالاںکہ ان کا یہ دعویٰ غلط بیانی ہے، کیوںکہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے سے متعلق جو ترمیمی بل ستمبر ۱۹۷۴ء میں پاکستانی پارلیمنٹ میں پاس ہوا، اس پر عبدالولی خاں پارٹی کے نمایندے غلام فاروق خاں صاحب نے پارٹی کی نمایندگی کرتے ہوئے دستخط کیے تھے۔ انگریز حکومت، قادیانیت کی سرپرستی اس نسبت سے کرنے میں سرگرم تھی کہ اس کے ہاتھوں جہاد کو منسوخ کرنے کا جھوٹ گھڑ کر برطانوی سامراج کو مذہبی حوالے سے قابلِ قبول بنانے میں رول ادا کرے۔ ہندستان ٹائمز (یکم جنوری ۱۹۸۶ء) نے لکھا تھا کہ خان عبدالغفار خاں (باچاخان) کے والد بہرام خاں نے ۱۸۵۷ ء کی جنگ آزادی میں حُریت پسندوں کے مقابلے میں انگریزوں کا ساتھ دیا اور اس کے بدلے میں بھاری جاگیر حاصل کی (ص ۵۷۸) ۔ انھی کے پڑپوتے اسفندیار آج خیبر پختونخوا میں پشتون قوم پرستی اور سیکولرزم کے نعروں کے ساتھ سرگرمِ کار ہیں۔(سلیم منصور خالد )
مصنف: لالہ صحرائی۔ ناشر:لالہ صحرائی فائونڈیشن، ملتان بہ اشتراک نعت ریسرچ سنٹر، کراچی۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۱۰۷۶۔ قیمت: ۱۵۰۰ روپے۔
لالہ صحرائی دورِحاضر کے معروف نثرنگار تھے۔ افسانوی اور غیرافسانوی ادب کی مختلف اصناف میں بیسیوں نگارشات ان کے قلم سے نکلی ہیں۔ آخری عمر میں ان کی بڑی آرزو تھی کہ وہ نعت کے ذریعے آں حضوؐر کو ہدیۂ عقیدت پیش کرسکیں۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ۱۹۹۵ء میں جب وہ عمر کے ۷۰ویں سال میں تھے، اُن پر نعتوں کا نزول ہوا اور پھر انھوں نے اتنی تیزی کے ساتھ نعتیں اور نعتیہ غزلیں، اور نعتیہ مثنویاں اور حمدیں لکھیں کہ تقریباً ہرسال اُن کا ایک مجموعہ تخلیق ہوجاتا تھا۔
جناب لالہ صحرائی اِس اعتبار سے خوش قسمت انسان تھے کہ انھیں ستّر برس کی عمر میں نعت گوئی کی توفیق ارزانی ہوئی۔ پھر وہ خوش بخت ہیں کہ اُن کے لائق بیٹے ڈاکٹر نویداحمد صادق اور جاوید احمد صادق اپنے والد کی شاعری کو کتابی شکل میں شائع کرنے کا اہتمام کرتے رہے۔ اب اس جملہ شعری ذخیرے کو کلیاتِ لالہ صحرائی کے عنوان سے مرتب کر کے انھوں نے شائع کر دیا ہے۔
چند برس پہلے لالہ صحرائی کی شخصیت اور ان کے فکروفن پر مضامین کے دو مجموعے یادنامۂ لالہ صحرائی ، تذکرۂ لالہ صحرائی شائع ہوچکے ہیں۔ زیرنظر کلیات میں پندرہ کتابیں شامل ہیں۔ لالہ صحرائی کا ایک مجموعہ نعت و ہُلارے پنجابی میں ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی شاعری کی۔ گل ہاے حدیث، ایک سو سے زائد منتخب اور مختصر احادیث کا منظوم ترجمہ ہے۔ یہ سب چیزیں زیرنظر کلیات میں شامل ہیں۔ اِس طرح یہ کلیات بقول ’’پیش گفتار نویس (ڈاکٹر خورشیدرضوی) لالۂ صحرائی کی شعری متاع کی بھرپور نمایندگی کرتی ہے‘‘۔معروف نعت گو اور نقاد ڈاکٹر ریاض مجید نے دیباچے میں لکھا ہے: ’’زیرنظر کلیات میں بیک کتاب، ان کی ساری مساعی اور کارِ نعت کا حجم دیکھ کر ان کی شعری قدوقامت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ کلیات سے اُن کی نعت کے فکری اور فنی محاسن کے مطالعات کے نئے نئے زاویے سامنے آئیں گے‘‘۔
اہم بات تو یہ ہے کہ لالہ صحرائی مرحوم و مغفور کی ذاتی زندگی اسلام کی سربلندی کے لیے تگ و دو کرنے والے ایک پُرخلوص مسلمان کی زندگی تھی۔ اِسی لیے اُن کی نعت میں آں حضوؐر کی محبت میں ایک والہانہ پن نمایاں ہے۔ اُردو نعت گوئی کے ذخیرے میں یہ مجموعہ ایک قابلِ لحاظ اضافے کا موجب ہوگا۔ کلیات بڑے اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
ڈاکٹر امیرفیاض پیرخیل۔ ناشر: شعیب سنزپبلشرز اینڈ بک سیلرز، مینگورہ، سوات۔ صفحات: ۲۳۲۔ قیمت: ۲۳۰ روپے۔
سوات کے ڈاکٹر امیرفیاض پیرخیل قبل ازیں قلم ہے تلوار نہیں کے عنوان سے کالموں کا مجموعہ شائع کرچکے ہیں۔ زیرنظر دوسرا مجموعہ ہے۔ مقدمے میں کہتے ہیں: ’’میں کتاب لکھوں یا کالم، میرا مقصد صرف رضاے الٰہی ہوتا ہے۔میں اپنا قلم نیک نیتی سے استعمال کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ میری رہنمائی فرمائے‘‘۔
قارئین اندازہ کرسکتے ہیں کہ امیرفیاض صاحب نے کتنی ذمہ داری، خلوصِ نیت اور احتیاط سے یہ کالم لکھے ہیں۔ ان کا زاویۂ نظر مثبت اور اسلامی ہے۔ کالموں کے موضوعات وہی ہیں جن پر معاصر صحافت میں لکھا جارہا ہے، مثلاً چند عنوانات: امریکا پاکستان کا دوست اور اسلام دشمن، اسرائیل سے خوف زدہ عرب حکمران اور ان کا علاج، ملکی ہیروز: زیرو، جہانزیب کالج کا المیہ، جماعت اسلامی کا قصور کیا ہے؟ملالہ نے سواتیوں کو ملال کیا، عابدشیر کو لگام دی جائے، وغیرہ۔ یہ کتاب صحافتی ادب میں اس لیے بھی ایک قابلِ توجہ اضافہ ہے کہ لکھنے والے کا تعلق سیاست و صحافت کے مراکز سے نہیں بلکہ ایک دُورافتادہ خطے سے ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
عبدالکریم عابد۔ ناشر : ادارہ معارف اسلامی منصورہ ،لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۴۱۹-۰۴۲۔ صفحات : ۱۲۰۔ قیمت : ۱۶۰ روپے ۔[مصنّف نے اُمت مسلمہ کے زوال وانحطاط کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے مسلم اہل دانش کی آرا اور مغربی دانش وروں کا نقطۂ نظر بیان کیا ہے۔ عام طور پر زوال پر غور کرتے ہوئے مرض اور نتائج مرض کو آپس میں خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ اصل چیز مرض کی صحیح تشخیص ہے۔ اسی غرض کے پیش نظر مفکرین ملت کے افکار کا نچوڑ پیش کیا گیا ہے اور غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے۔]
محمد عبدالغفور۔ ناشر : پاک پبلی کیشنز، آفس نمبر ۵، فلور نمبر ۴، لیگیسی ٹاور، کوہِ نور سٹی ، جڑانوالہ روڈ فیصل آباد ۔ فون: ۸۵۵۷۱۱۷-۰۴۱۔صفحات : ۱۵۶۔ قیمت: بلامعاوضہ۔[اسلام میں نکاح آسان ہے۔ جہیز بارات مہندی، بری وغیرہ محض مقامی رسوم ہیں۔ گھریلو ضروریات کا سامان فراہم کرنا مرد کی ذمہ داری ہے ، نہ کہ دلہن کے گھر والوں کی۔ نبی کریم ؐ نے خود اپنی تمام ازواج مطہرات کو گھر کا سامان فراہم کیا۔ حضرت فاطمہ ؓ کو جہیز دینے کی حقیقت یہ ہے کہ وہ سامان حضرت علیؓ کے پیسوں سے خریدا گیا تھا ۔ بارات کا تصور ہندوانہ ہے۔ ۵۶ سے زائد مسلمان ممالک میں، سواے ہندستان اور پاکستان کے، کہیں بھی بارات کا تصور نہیں پایا جاتا۔ قرآن میں بھی جہیز کا تذکرہ نہیں ہے۔ان نکات پر مشتمل یہ کتاب سنتِ رسولؐ کے مطابق نکاح کو عام کرنے اور اصلاحِ معاشرہ کی غرض سے مرتب کی گئی ہے۔ ]
محمداکرم طاہر۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز، ۴۰-اُردو بازار، الحمدمارکیٹ، لاہور۔ فون: ۳۷۳۵۲۳۳۲۔صفحات: ۲۴۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔[تقریر اور خطابت ایک خدادادفن ہے لیکن کوشش اور محنت سے، ہر ایک کے لیے اس فن میں کامیابی ممکن ہے۔ محنتی مقررین کے لیے پروفیسر محمد اکرم طاہر نے مخصوص موضوعات پر دو درجن سے زائد انگریزی تقاریر کا مجموعہ شائع کیا ہے۔ایک حصے میں مشرق و مغرب کی معروف شخصیات (نبی کریمؐ، حضرت موسٰی ، حضرت یوسفؑ، شیکسپیئر، برک، محمد علی جوہر، سیّد مودودی، ذوالفقار علی بھٹو، جارج بش، ٹونی بلیئر، ہیوگو شاویز، احمدی نژاد) کی تقاریر کے تراجم بھی شامل ہیں۔ اُردو تقریروں کے مجموعے تو بہت ہیں، انگریزی تقاریر کا شاید یہ پہلا مجموعہ ہے۔ تقریری مقابلوں میں حصہ لینے والے طلبہ و طالبات کے لیے یہ کتاب بہت اچھی معاونت کرے گی۔]
سیّدانجم جعفری: حیات و ادبی خدمات، مرتب: سیّد وقاص جعفری۔ ملنے کا پتا: مکان ۲۴-بی، پی سی ایس آئی آر سوسائٹی، فیز I، کینال روڈ، لاہور۔ فون: ۴۲۳۷۰۲۱-۰۳۰۰۔ صفحات:۱۹۸۔ قیمت: درج نہیں۔ [سیّد انجم جعفری معروف شاعر اور نعت گو تھے۔ تعلیم و تعلّم اور درس و تدریس کے ساتھ عمربھر تحریکِ اسلامی سے وابستہ رہے۔ بہت پختہ فکر شاعر اور عمدہ نعت گوتھے۔ سیّدوقاص جعفری نے اپنے والد کی شخصیت اور ادبی خدمات پر مضامین کا مجموعہ شائع کیا ہے۔ یہ خوب صورت مجموعہ یادآوری کی ایک اچھی مثال ہے۔ ]