جولائی ۲۰۱۷

فہرست مضامین

مدیر کے نام

ظہور احمد خان، سالوڈھیر، مردان | جولائی ۲۰۱۷ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

عالمی ترجمان القرآن ( مئی ۲۰۱۷ء) میں ایک مختصر مضمون: ’یہ بیانیہ سازی کا کھیل‘ بہت اہم سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کامیاب کوشش ہے۔ خیر خواہی کے جذبے سے لکھی گئی یہ تحریر متلاشیانِ حق کے لیے یقینا باعث ہدایت و اطمینان ہوگی۔ لیکن جو لوگ اَنا پرستی کے غلام ہیں، و ہ شاید اس سے کوئی فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔

آخری پیراگراف کا یہ جملہ ’’ایسی وعدہ معاف دانش کی عمر مچھر کی زندگی سے زیادہ حقیر ہے‘‘، پڑھ کر ایک واقعہ یاد آیا ۔ اس ’بیانیہ ساز‘ گروہ کے ایک رکن نے چند سال پہلے کالم میں پاکستانی مسلم معاشرے کے دینی اور علمی ذوق کا ماتم کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ: مجھے تلاش کے باوجود پاکستان بھر کے کتب خانوں، علمی اور تعلیمی اداروں میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن صاحب کی کوئی کتاب دستیاب نہ ہو سکی۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن، سابق صدر فیلڈ مارشل   ا یوب خان کے مذہبی بیانیہ ساز تھے اور جو اسلام کا ایساایڈیشن پیش کر رہے تھے جو سیکولر اقلیت کو قابلِ قبول ہو۔ اسی ذہن کو مطمئن کرنے کے لیے ایوب خان نے پاکستان کے نام سے ’اسلامی جمہوریہ‘ کا لفظ ہٹانے اور ایک سیکولر آئین نافذ کرنے کی بھرپور کوشش کی، مگر بالآخر منہ کی کھائی۔ یاد رہے، اَناپرستی کے جذبے کے تحت تخلیق کیا گیا ’اسلام‘ کبھی قبول نہیں کیا گیا۔ مسلم اجتماعی ضمیر ایسے خیالات اور فلسفوں کو تھوڑے ہی عرصے کے اندر ردی کی ٹوکری کا رزق بنا دیتے ہیں۔

ترجمان میں مضمون نگار نے لکھا ہے کہ: ’’بیانیہ ساز، سیّد قطب شہید کے عہد کے جبر کو نہیں جان سکتے اور نہتے کارکنوں کی قتل و غارت گری کا ادراک نہیں کر سکتے، نیز ناصر اور جنرل سیسی کی جیلوںمیںسسکتی انسانیت اور صلیبوں پر لٹکتے لاشے اور جیل میں کتوں کے جبڑوں میں بھنبھوڑی جاتی عفت مآب خواتین کی آواز  ان کے کانوں سے نہیں ٹکراتی‘‘۔ میں اختلاف کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ یہ لوگ سیّدقطب شہید ؒکے عہد کے جبر سے ہرگز لا علم نہیں ہیں ۔ ناصر اور سیسی کی جیلوں  میں  سسکتی انسانیت سے بھی    یہ خوب اچھی طرح واقف ہیں، جیلوں میں عفت مآب خواتین کی چیخیں بھی ہر روز ان کے کانوں سے ٹکراتی ہیں۔ مگراس کے باوجود یہ لوگ اس ظلم و جور کے طرف دار اور پشتی بان ہیں۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں سامراجی قوتوں اور حریت اور آزادی پسند مظلوموں کے درمیان برپا کش مکش میں یہ لوگ کس کے ساتھ ہیں؟ فلسطین میں قبلہ اول کی آزادی کے لیے بروے کار شیخ احمد یاسین شہید کے وارثوں کے ساتھ ہیں، یا اسرائیل اور امریکا کے مقرر کردہ محمودعباس کے ساتھ ؟ یہ لوگ مصر میں حسن البنا شہید، ڈاکٹر عبدالقادر عودہ شہید، سیّد قطب شہید، زینب الغزالی،جیل میں قید اخوان المسلمون کے موجودہ مرشدعام،    اور منتخب جمہوری صدر ڈاکٹرمحمد مرسی کے ساتھ ہیں، یا اپنے آپ کو فرعون کا وارث اور عرب قوم پرستی کی جاہلیت کا علَم بردار قرار دینے والے سابق صدر ناصر، حسنی مبارک اور موجودہ آمر اور غاصب فرعون جنرل سیسی کے ساتھ ہیں؟ یہ لوگ، افغانستان کے مظلوم عوام اور ان کی غیرت مند قیادت کے ساتھ ہیں، یا وہاں پر ناٹو افواج کے متعین کمانڈروں کے ساتھ؟ کشمیر میں اپنی ملّی اور قومی آزادی کے لیے سر ہتھیلی پر رکھے بزرگ حُریت پسند لیڈرسید علی گیلانی اور آسیہ اندرابی کے ساتھ ہیں، یا سات لاکھ قابض بھارتی افواج اور اُس کی مقرر کردہ نام نہاد ’سیکولر‘ انتظامیہ کے ساتھ؟ بنگلہ دیش میں بھارت کی طفیلی قاتلہ حسینہ واجد کے ساتھ ہیں، یا۸۰، ۹۰ سال کے پھانسی پانے والے مطیع الرحمٰن، نظامی شہید، علی احسن مجاہد شہید، محمد قمر الزماں شہید،عبدالقادر مُلّاشہید، میرقاسم علی شہید، صلاح الدین قادر چودھری شہید کے ساتھ، جنھوں نے ۱۹۷۱ء میں ڈھاکہ پر قابض بھارتی افواج کو خوش آمدید کہنے سے انکار کیا تھا؟ مجھے یقین ہے کہ یہ بیانیہ ساز اپنا وزن سامراجی قوتوں اور سفّاکوں کے پلڑے میں ڈالیں گے،اور یہی کام یہ گذشتہ ۳۰برسوں سے ایک تسلسل کے ساتھ کر رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ’بیانیہ ساز‘ ظلم پر آنکھیں بند رکھنے اور سامراجی ظالموں کے لیے جواز تلاش کرنے میں آخر کس ضمیر کے ساتھ سرگرم رہتے ہیں؟

یہ ’بیانیہ ساز‘ اہلِ پاکستان کی کیا رہنمائی کریں گے، وہ تو بھارت کے ایک خان صاحب کے ہم نوا   بن کر جہاد کے فلسفے کی نفی کے پرچارک ہیں۔ یہ سیکولر این جی اوز زدہ گروہ، اسلام کے چودہ سو سالہ علمی اور  فقہی تاریخ میں طے شدہ اور متفق علیہ اُمور میں کیڑے ڈالنے اور نادرحیلے بہانے گھڑنے میں ہرآن مصروف ہے۔ علّامہ حمید الدین فراہیؒ اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے ساتھ ان بیانیہ سازوں کا کوئی تال میل اور کسی   طور پر نسبت نہیں ہے۔ ان بزرگانِ دین نے تو اپنی زندگی میں علم دین، اقامت دین ،دعوت و تبلیغ ، تزکیہ و اصلاح نفس کے لیے بھر پور کوششیں کی ہیں، اور حق کی گواہی دی ہے۔

میں ان ’بیانیہ ساز‘ حضرات سے اپیل کروں گا کہ آخرت میں جواب دہی کی فکر کریں اور ٹھنڈے  دل ودماغ سے غور کریں کہ وہ خود کون سی دلدل میں دھنسے چلے جارہے ہیں۔