وقت کی خاص بات تو دیکھیے کہ اس میں تسلسل کے ساتھ تغیر ہے اور یہی تغیر حالات کے بدلنے کا سبب بن جاتا ہے۔ برطانیہ کی وسیع سلطنت پر بھی سورج آخر کار غروب ہو ہی گیا۔ اشتراکی روس جیسی سوپر پاور کا ٹکڑوں میں بکھر جانا، اور ہٹلر اور مسولینی جیسے انسانیت کے قاتلوں کا وقت کی سولی پہ چڑھ جانا ظاہر ہے۔ اسی طرح تحریکوں پر بھی وقت کے بدلنے کے آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔
جموں و کشمیر میں رواں تحریک کو، جو بُرہان مظفر وانی کی شہادت [۸جولائی ۲۰۱۶ء] سے شروع ہوئی، دیکھنے کے دو زاویے ہیں: ایک نقطۂ نظر تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس ایک سال کے دوران بہت سی انسانی جانیں شہادت سے ہم کنار ہوئیں، ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے، جیلیں بھر دی گئیں، سیکڑوں نوجوان اور بچے بینائی سے محروم ہو گئے، اور اربوں کی جایداد کو نقصان پہنچا۔ تجارت اور تعلیم متاثر ہوئی، ٹرانسپورٹ کے ٹھپ ہونے سے گاڑی مالکان کو خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ گویا زندگی کی گاڑی رُک سی گئی۔ ترقی کی رفتار پر ایک ایسا زبردست بریک لگ گیا جس نے زندگی کی گاڑی پٹڑی سے اُتاردی اور زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہو کر رہ گیا۔ ابتدائی پانچ مہینوں تک کشمیری قوم لگاتار احتجاج پر رہی اور ایک بھی دن ناغہ نہ کیا۔ کوئی قوم پانچ مہینے تک گھروں میں محصور ہو کر رہ جائے تو زندگی کی رونقیں پھیکی پڑجاتی ہیں، جذبات سرد پڑ جاتے ہیں، مایوسی انسانوں پر اپنا شکنجہ کَس لیتی ہے۔ ایسے حالات میں انسان ٹوٹ جاتا ہے ۔
مادیت کے اس دور میں ہرلمحے کو تولا اور نفع و نقصان کی گنتی کی جاتی ہے۔ اُس قوم کی حالتِ زار سے ہر کوئی بخوبی واقف ہو سکتا ہے کہ جس کی نئی نسل کے تعلیمی سال ضائع ہورہے ہوں۔ کشمیر کی آبادی کا کثیر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہی نوجوان کسی قوم کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں۔ اگر یہ نسل اسی طرح تعلیم سے دُور ہوتی رہی تو قوم کے مستقبل کا اندازہ لگانا کسی بھی صاحبِ عقل کے لیے کچھ بھی دشوار نہیں۔ یہ سب اعداد و شماراپنی جگہ، لیکن کسی بھی تحریک کو اس طرح دیکھناکوتاہ بینی کو ظاہر کرتا ہے، کیوںکہ بڑے مقاصد کے حصول کے لیے عظیم قربانیاں پیش کرنا ایک ناگزیر حقیقت ہے۔
ہر تحریک کے دو دور ہوتے ہیں: ایک اس تحریک کے نشیب کو ظاہر کرتا ہے تو دوسرا اس کے فراز کو۔ لیکن یہ دونوں دور مل کر ایک کامل تحریک کا روپ دھار لیتے ہیں۔ کوئی بھی تحریک کبھی یکساں طریقے سے نہیں چلتی بلکہ اس میں اتار چڑھاو آتے رہتے ہیں۔ اگر برطانوی تسلط میں ہندستان کی تحریکِ آزادی کی بات کی جائے تو ہمیں اس میں ایک دور وہ بھی ملتا ہے جس میں بھگت سنگھ، جیسے نوجوان مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے غاصب حکومت کے خلاف صف آرا ہوگئے تھے، لیکن حکومت نے نہ صرف ان کی تحریک کو کچل دیا، بلکہ ان نوجوانوں کو تختۂ دار پر لٹکا کر یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کی کہ ہندستان آزادی کا خواب دیکھنا چھوڑ دے۔ حالت تو یہاں تک پہنچ گئی کہ۸؍اگست ۱۹۴۲ءکو Quit India Movement کے نام سے ایک تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک کو بھی انگریزوں نے پوری طاقت کے ساتھ تتربتر کر دیا اور یہ تحریک ۱۹۴۴ء کے اوائل میں ختم ہوکر رہ گئی۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ ہندستان کی آزادی ایک خیالِ خام کے سوا کچھ نہیں، لیکن جلد ہی وہ وقت بھی آگیا کہ قربانیوں نے اپنا رنگ دکھایا اور اگست ۱۹۴۷ء میں آزادی کا سورج طلوع ہوگیا۔
۲۰۰۸ء سے کشمیر کی تحریکِ آزادی نے ایک نیا موڑ لیا ۔ عوامی احتجاجوں نے ظالموں کے پیروں تلے زمین کھسکا دی۔ ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۰ء کی عوامی تحریکوں کے بعد یہ دعوے کیے جانے لگے کہ شاید اس نوعیت کی عوامی تحریک پھر کبھی برپا نہیں ہوسکتی، لیکن ۲۰۱۶ء نے ان تمام بودے دعوئوں کو غلط ثابت کر دیا۔
دراصل، دنیا والوں کو ایک بات ذہن میں بٹھالینی چاہیے کہ آج تحریکِ آزادی کا ایک دور چل رہا ہے، جس میں گیرائی بھی ہے اور گہرائی بھی۔ جس میں قوم کے جذبات اپنے نقطۂ عروج پر ہیں، جذبۂ اطاعت اور جذبۂ ایثار و قربانی حد درجہ دیکھنے کو مل رہا ہے، لیکن کسی بھی وقت یہ تحریک اپنے دوسرے پڑائو کی طرف گامزن ہوسکتی ہے۔
ظلم اور ظلم کے خلاف جدوجہد ،یہ دو الگ الگ طاقتیں ضرور ہیں، لیکن ایک زاویے سے دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں طاقتیں ایک ساتھ پیدا ہوتی ہیں۔ ظلم جدوجہد سے ہی ختم ہو سکتا ہے، لیکن ظالم ہمیشہ اس جدوجہد کو ختم کرنے کے درپئے ہوتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
تاریخ کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ظالم کی طاقت ہر دور میں ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ نہ ہوتا تو نہ ظالم کا ظلم ہی وجود میں آسکتا اور نہ جدوجہد کی کوئی ضرورت ہی باقی رہتی ۔ظلم اور جبر مٹنے کی چیزیں ہیں ۔ ظلم کم ہویا زیادہ، اگر برداشت کی حد کم ہو جائے تو ظلم کے خلاف جدوجہدچھڑ جاتی ہے اور ظلم و جبر کی اُلٹی گنتی شروع ہوجاتی ہے۔ رواں جدوجہد میں ظالم نے ظلم کی تمام حدود توڑ ڈالیں۔ اس ظلم کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ کشمیر میں قبروں کی تعداد بڑھ گئی، زخمیوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہوا جاتا ہے، جیل خانوں میں جگہ کی کمی واقع ہونے لگی ہے۔ دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو خود ظلم بھی اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اب اس کے مٹنے کے دن قریب ہیں۔
ایک چیز تو طے شدہ ہے کہ کشمیری عوام نے خوف سے آزادی پا لی ہے۔اور جو قوم خوف سے آزاد ہوجائے، اس کو غلامی سے نجات مل ہی جاتی ہے، کیوںکہ انسان کی غلامی اور آزادی کے درمیان خوف ہی کا پردہ حائل رہتا ہے۔ خو ف سے آزادی ہی دراصل باقی تمام آزادیوں کے لیے دروازہ کھول دیتی ہے۔ خوف سے بے خوفی کے اس عالم کوشاید لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے، اور جموں و کشمیر سے باہر بسنے والے لوگوں کے لیے اس زمینی حقیقت کو تصور میں لانا تو اور بھی مشکل ہے۔ ذرا تصور میں لایئے وہ منظر، کہ جب نہتے نوجوان قابض فوجی گاڑیوں اور کیمپوں پر بے سروسامانی کی حالت میں دھاوا بول دیتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ آگ اور موت برسانے والی بڑی تعداد میں خونیں بندوقیں انھیں نشانہ بنانے کے لیے تیار ہیں۔ یہ مناظر ہر دیکھنے والے کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں ۔ رواں تحریک میں اس بے خوفی کے رنگ کو ظاہر کرنے کے لیے نئے نئے نعرے لبوں کی زینت بن گئے، مثلاً نعرہ لگتا ہے: ـ’گولی بھی چلے گی ــ‘ تو جواب آتا ہے: ’چلنے دو‘۔ایک کم سن بچہ پکارتا ہے: ’سینے پہ لگے گی‘۔ جواب میں بلندآواز دل دہلا دہتی ہے:’ لگنے دو‘۔تیسرا جوان نعرہ بلند کرتا ہے: ’ پیلٹ بھی چلیں گے‘۔ جواب آتا ہے:’چلنے دو‘۔ بزرگ پوری قوت سے نعرہ بلند کرتا ہے: ’آنکھوں میں لگیں گے‘۔ ہزاروں کا مجمع جواب دیتا ہے:’لگنے دو ‘!
یہ نعرے تمام احتجاجی قافلوں میں فلک شگاف لہجوں میں لگائے جاتے ہیں۔ یہی ہے وہ بے خوفی،جو ظلم کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔جو قوم اُن چیزوں سے بے نیاز ہو جائے، جن سے خوف وجود میں آتا ہے، تو اُس قوم کو آزاد ہونے سے کون سی طاقت روک سکتی ہے؟ اس بے خوفی کا عالم تو یہ ہے کہ مظلوم عوام خصوصاً نوجوانانِ کشمیر اپنے محسن مجاہدین کی جان بچانے کے لیے ’جعلی مقابلوں‘ کی جگہوں (انکائونٹر سایٹس) پر جا جا کر قابض فوج کے خلاف سنگ بازی کرتے ہیں، تاکہ مجاہدین کو فرار ہونے کا موقع مل سکے۔ بھارتی فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے حال ہی میں کشمیری نوجوانوں کو یہ دھمکی دے کر خوف زدہ کرنے کی کوشش کی کہ انکائونٹر سایٹس پر جمع ہونے والوں سے ویسے ہی نبٹا جائے گا جیسا کہ مجاہدین سے۔ اس بیان سے خوف کھاکر کشمیری عوام خصوصاً نوجوان اپنے گھروںمیں محصور ہو کر نہیں رہ گئے، بلکہ اور شدت سے اپنی آزادی کی خاطر جدوجہد میں برسرِ میدان ہیں۔ اس شدت کا اظہار سوشل میڈیا پر ان وڈیوز سے ہوتا ہے، جن میں کشمیری نوجوان بھارتی فوجیوں کو ’گو انڈیا گو بیک‘ کے نعرے لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔
کشمیریوں کی بے خوفی اب سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ ۷لاکھ سے زیادہ فوجیوں کی کشمیر میں تعیناتی دراصل کشمیر کو کھو دینے کے خوف کو ظاہر کرتی ہے۔ بھارتی سفاک حاکم اپنی ناکامی کو جانتے ہیں، جس کا ثبوت فوج کے سربراہا ن کے ان بیانات سے بخوبی ہوتا ہے، جن میں وہ اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ ’’بھارت کشمیر میں ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا ہے‘‘۔ اب بیانات یہاں تک آنا شروع ہوگئے ہیں کہ ’’فوجی تسلط کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں بلکہ مسئلۂ کشمیر سیاسی حل چاہتا ہے‘‘۔
اہلِ کشمیر عرصۂ دراز سے قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔ یہی قربانیاں تحریکوں کو قوت فراہم کرتی ہیں اور ظالموں پرایسا بوجھ بن جاتی ہیں، جن کے نیچے وہ دبتے چلے جاتے ہیں اور آخرکار انھی قربانیوں کا بوجھ انھیں زیر کر دیتا ہے۔