ایس احمد پیرزادہ | جولائی ۲۰۱۷ | اخبار اُمت
ایک طرف اقوام متحدہ نے مواصلاتی بریک ڈاؤن کو کشمیریوں کے لیے اجتماعی سزا قرار دے کر ایسی پابندیوں کو عالمی قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیاہے، دوسری جانب بھارت کی مختلف ریاستوں میں مزید ڈھٹائی کے ساتھ کشمیریوں کا ذہنی ٹارچر اور جسمانی تعذیب کے نت نئے حربے بروے کار لائے جارہے ہیں۔ اور ایسا کر تے ہوئے تمام اخلاقی اور انسانی اقدار کے ساتھ ساتھ ملکی آئین اور بین الاقوامی قانون کو پیروں تلے روندا جارہا ہے۔ یہاں کے اخبارات کے مطابق ایک اندوہ ناک خبر یہ ہے کہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک مریضہ کاپی جی آئی، چندی گڑھ میں ڈاکٹر نے صرف اس بناپر علاج کرنے سے انکار کردیا کہ وہ کشمیر سے تعلق رکھتی ہیں۔
نسرین ملک نامی اس مریضہ کے بیٹے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا:’’ میں اپنی والدہ کو علاج کی غرض سے پی جی آئی، چندی گڑھ لے گیا، جہاں منوج تیواڑی نامی ڈاکٹر نے ابتدا میں ہم سے اچھا سلوک کیا۔ لیکن جب انھوں نے صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے نسخہ جات اور کاغذات دیکھے، جن سے انھیں پتا چل گیا کہ ہم کشمیری ہیں تو وہ آگ بگولا ہوگئے‘‘۔ ڈاکٹرصاحب نے ہم سے کہا: ’’ تم لوگ وہاں کشمیر میں ہمارے( فوجی ) جوانوں کو پتھر مارتے ہو اور پھر یہاں علاج کرانے آتے ہو‘‘۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر نے ہمارے تمام کاغذات پھینک دیے اور مریضہ کا علاج کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اگر چہ ڈاکٹر نے ہمیں براہ ِراست ہسپتال سے چلے جانے کے لیے تو نہیں کہا، البتہ اُنھوں نے ہم سے کہا: ’’ علاج پر ۱۵ لاکھ روپے خرچ آئے گا‘‘۔ حالاں کہ جس بیماری میں میری والدہ مبتلا ہیں، اُس کا وہاں پر زیادہ سے زیادہ ۸۰؍ہزار روپے خرچ آتا ہے۔ اس طرح ہمیںوہاں نسلی تعصب اور بیمار سوچ کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی ایک فرد نے بھی از راہ ِ انسانیت ہماری رہنمائی نہیں کی، بالآخر ہسپتال انتظامیہ کے بہت ہی بُرے برتاؤ کی وجہ سے ہمیں بغیر علاج کے واپس لوٹنا پڑا۔‘‘ ازاں بعد جب اس افسوس ناک واقعے کو تشہیر ملی تو پی جی آئی، چنڈی گڑھ کی انتظامیہ نے تحقیقات کرکے قصور وار ڈاکٹر کے خلاف ضابطے کی ’کارروائی‘ کی یقین دہانی کرائی ہے، مگر آثار وقرائین سے لگتا ہے کہ یہ محض زبانی جمع خرچ ہے اور ان’تحقیقات‘ کا حشر بھی کشمیر میں کسی نوجوان کے قتل پر انکوائری بٹھانے کے عمل جیسا ہو نا طے ہے۔
اس واقعے سے واضح ہوجاتا ہے کہ ریاست سے باہر کشمیریوں کے تئیں کیسی مردہ ضمیری اور مریضانہ ذہنیت پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے چشم فلک نے اور چیزوں کے علاوہ وہ دن بھی دیکھا، جب ۴ا۲۰ ء کے تباہ حال سیلاب متاثرہ کشمیریوں کی ا مداد کے لیے بھارت کے ایک تعلیمی ادارے کے پنڈت سربراہ نے امدادی اشیا جمع کرنے کے لیے کیمپ لگایا ۔ دیش بھگتوں نے نہ صرف اسے اُکھاڑپھینکا، بلکہ پرنسپل موصوف پر یہ کہہ کر تشدد کیا کہ وہ کشمیر کے’ ملک دشمنوں‘کے لیے چندا کیوں جمع کر رہے تھے؟ آج کل اس نوع کی مریضانہ ذہنیت چونکہ سیاسی سرپرستی اور سماجی پذیرائی حاصل کر چکی ہے ،اس لیے کشمیر یوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھے جانے کے ان واقعات پر ناک بھوں چڑھانا اور حیرت یا رسمی تشویش ظاہر کر نا حماقت کے مترادف ہے ۔
اہلِ کشمیر کے ساتھ بھارت بھر میں منا فرت ، شکوک وشبہات ،تعصب اور تنگ نظری کی ذہنیت روز بروز اپنی تمام زہر ناکیوں کے ساتھ جا بجا ظاہر ہورہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بھارتی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کی جانب سے کشمیر یوں کے ساتھ ناروا سلوک ترک کیے جانے کی ہدایت ریاستوں کے نا م جا ری کی گئی ہے۔ اُن کایہ سرکاری حکم نامہ او ر بھارتی عوام کے نام یہ تازہ پیغام کہ ان کے یہاں کشمیر ی طلبہ اور مزدوروں وغیرہ کا ’خیرمقدم‘کیا جائے، ا س حقیقت کی تصدیق ہے کہ بھارت کی ریاستوں میں کشمیریوں کے تئیں راے عامہ کس قدر خراب ہے ۔ یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ نوے کے عشرے سے برابر کشمیریوں کو بھارت میں جرم بے گناہی کی پاداش میں ہزارہا تکالیف ، جیلیں ، ہلاکتیں، لوٹ مار، نفرتوں اور تعصبات کا سامنا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ اپنے دور ِ اقتدار میں ریاست جموں و کشمیر کے اُس وقت کے کانگریسی وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کو بھی مجبوراً بھارتی ریاستوں کے آٹھ وزراے اعلیٰ کو ان کی حدود میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ ، تاجروں، مزردوں اورملازمین کوتحفظ دینے کی فہمایش کر نا پڑی تھی ۔ بہرصورت پی جی آئی، چندی گڑھ کا شرم ناک اور قابل صد تشویش واقعہ اہل عالم کے لیے چشم کشامعاملہ ہے کہ اہل کشمیر اپنے گھر اور گھر سے باہر یکساں طور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ہمارے اجتماعی حافظے کی تختی پر کشمیریوں کی ہراسانی اور پریشانی کے ایسے ایسے دل دہلادینے والے واقعات رقم ہیں کہ کتنے ہی کم نصیب کشمیری ہیں جن کو ریاست سے باہر نسلی تعصب اور مذہبی نفرت کا شکار ہونا پڑا ہے ۔ ایسے درجنوں واقعات اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی زینت بن چکے ہیں۔
کشمیریوں سے بیرون ریاست عام بھارتی شہریوں کی جانب سے تعصب کی ایک اور کہانی گذشتہ سال عوامی احتجاج کے دوران سامنے آئی ۔ اس وقت پیلٹ گن سے متاثر ہونے والے جن چار زخمیوں کو سرکاری سطح پر آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ منتقل کیا گیا تھا ، دو ماہ گزر جانے کے بعد جب وہ وادی میں واپس آئے تو اُنھوں نے یہاں دل دہلادینے والی سرگذشت بیان کی۔ اُن کے مطابق ہسپتال انتظامیہ نے اِن زخمی مریضوں کے ساتھ ناروا رویہ اختیار کیا۔ اُن کے علاج کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی بلکہ چھرّوں سے متاثر ہ ان کی آنکھوں پر صرف میڈیکل تجربات کیے گئے۔ان مریضوں کی وادی واپسی پر یہاں کے ڈاکٹروں نے جب اُن کا معائنہ کیا تو وہ بھی دنگ رہ گئے۔ اُنھوں نے بھی اس بات کا کھلا اعتراف کیا کہ ان مریضوں کی آنکھوں کو ماہرانہ طریقے سے نہیں دیکھا گیا بلکہ اِن پر صرف پیلٹ اثرات کی جانچ کے لیے تجربات کر کے اُن کی حالت کومزید ابتر کیا گیا۔حالاںکہ سری نگر حکومت نے اُن کے علاج معالجے کے حوالے سے اپنی مسیحائی اور غم گساری کا خوب پروپیگنڈا کیا اور اُنھیں تمام سہولیات دستیاب رکھنے کے وعدے بھی کیے تھے۔ دونوں آنکھوں کی بصارت سے محروم ایک متاثرہ فرد نے ذاتی طور پر راقم سے کہا کہ وہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈر آکر صرف ہمارے ساتھ اپنا فوٹو کھینچواتے تھے ،وہاں ہمارا کسی قسم کا کوئی علاج معالجہ نہیں ہوا، اور ہمیں معمولی دوائی تک بازار سے خرید کر لانے کو کہا جاتا تھا۔
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ بیرون ریاست کشمیری طلبہ ، تاجروں اور ضروری کام کاج کے لیے عام کشمیریوں کی جگہ جگہ تذلیل ایک معمول بنا ہوا ہے۔گاڑیوں میں ، مارکیٹ میں، ریل گاڑیوں کے ڈبوں میں کشمیری لوگ تعصب اور تنگ نظری کا شکار بنائے جاتے ہیں۔ اُنھیں طعنے دیے جاتے ہیں اور خوف اور ڈر کے ماحول میں اُن کا جینا دو بھر کردیا جاتا ہے۔ پنجاب پولیس ریل کے سفر کے دوران ہر ڈبے میں جاکر کشمیری مسافروں کو تلاش کرتی رہتی ہے اور ڈرا دھمکاکر اُن سے پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ اس لیے عام کشمیری کے لیے ریاست سے باہر کے سفر میں ہروقت خطرہ لگا رہتا ہے۔ بیرون ریاست کے تعلیمی اداروں میں جنونی فرقہ پرست اور تو اور بھارتی ٹیم کے ہارنے پر سارا غصہ کشمیری طلبہ پر نکالتے ہیں ۔ عدم برداشت کا جذبہ جب مسیحا کہلانے والے ڈاکٹروں تک میں سرایت کرجائے تو سمجھ لیا جانا چاہیے کہ بھارتی معاشرہ شدت پسندی کی کس سطح تک پہنچ چکا ہے۔ڈاکٹر کو آج بھی انسانیت کامسیحا سمجھا جاتا ہے جو اس محترم پیشے میں جاتے وقت عہد کرتا ہے کہ خالص انسانی بنیادوں پر اپنی خدمات انجام دیتا رہوں گا۔ وہ اگر میڈیائی پروپیگنڈے کے ذریعے شدت پسند نظریات اور نفرت کے حامل بن گئے ہوں، تو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگنی چاہیے کہ اس معاشرے سے انسانیت ، ہمدردی اور خدمت کا جذبہ مرچکا ہے۔ بھارت کے عام لوگ نفرت اور تعصب کی عینک ہی سے کشمیرکو دیکھنے کے اس لیے عادی ہوچکے ہیں، کیوںکہ ان کے ’محب ِ وطن‘ سیاست دانوں نے انھیں ایسے موڑ پر لاکھڑا کردیا ہے، جہاں اپنی قوم ، مذہب اور نسل کے بغیر اُنھیں کوئی بھی کشمیری انسان دکھائی ہی نہیں دیتا ہے۔
کشمیریوں پر کیا گزر رہی ہے؟ اس کا اندازہ بھارت میں رہنے والے لوگوں کو نہیں ہوگاکیوںکہ وہ ’حب الوطنی‘ اور ’قومی مفاد‘ کی خود ساختہ عینک اپنی آنکھوں پر چڑھائے ہوئے ہیں۔ اُنھیں فرقہ پرستی کی افیون نے اس قدر مست کردیا ہے کہ کشمیر میں جاری زیادتیوں کے نتیجے میں یہاں کی سسکتی انسانیت کی چیخیں انھیں سنائی ہی نہیں دیتیں ۔ بھارتی فوج اور اقتدار کی کرسی پر فریفتہ سیاست دانوں نے یہاں مشترکہ طور پر عوام کے خلاف اعلانِ جنگ کررکھا ہے۔ وہ یہاں لاشیں گرا کراپنی کرسیوں کو دوام بخشتے ہیں۔ وہ یہاں معصوم بچوں کی زندگیاں اُجاڑ رہے ہیں اور اس کے ردعمل میں جب قفس کا پنچھی بنا عام کشمیری اپنے دفاع میں معمولی احتجاج کرنے کی جسارت کرتا ہے تو وہ ٹی وی چینل سے لے کر پنڈال تک ہر جگہ دنیا کا ’بدترین ‘انسان اور ’خونخوار دہشت گرد‘ کہلاتا ہے۔
تصویر کا یہ رُخ بھی دیکھیے کہ ہم سیلاب میں خو د دردر کی ٹھوکریں کھاتے رہے، لیکن غیرریاستی مزدروں ، کاریگروں ، یاتریوںاور سیاحوں بلکہ وردی پوشوںکو بھی بچاتے اور کھلاتے پلاتے رہے۔ اُنھیں اپنے گھروں میں جگہ فراہم کرتے رہے۔ وہ وردی پوش جو ہمارے نونہالوں کو گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں۔ کیا ہمارے ہی نوجوانوں نے سیلاب کے دوران اُنھیں سیلابی پانی سے نکال کر محفوظ مقام تک نہیں پہنچایا؟ جن کشمیریوں پر بھارت کی فیکٹریوں میں بننے والا بارود فوجی بے دریغ برساتے ہیں، ۲۰۱۶ء میں وہی کشمیری بجبہاڑہ میں یاتری بس کو پیش آنے والے حادثے میں نہ صرف زخمی یاتریوں کو نکال کر ہسپتال پہنچا دیتے ہیں بلکہ وہاں ان کی زندگی بچانے کے لیے اپنا خون بھی دیتے ہیں۔ کشمیریوں نے ہمیشہ بھارت کو انسانیت، اخوت ، ہمدردی اور دل جوئی کا سبق دیا ہے، مگر بدلے میں اُنھیں تعصب، تنگ نظری اور نفرت ہی ملی ہے۔ ہم نے اُنھیں انسان دوستی کا پیغام دیا ہے، اُنھوں نے ہمیں نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھا ہے۔
بھارت میں جو نسل پرستانہ سیاست اپنے جوبن پر ہے، دنیا اسے بُری نگاہ سے دیکھتی ہے۔ نسل پرستی کے جنون میں کسی مظلوم قوم کو اس کے سیاسی نظریات کی بنیاد پر دُھتکارناانسانی اصولوں کے سراسر منافی ہے۔ ایسی مظلوم قوم کے مریضوںکا علاج اپنے ہسپتالوں میں نہ ہونے دینا انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے۔ یہ کام تو اسرائیل محصور شدہ غزہ کی پٹی میں بھی نہیں کرتا۔ بایں ہمہ اگر پنجرے میں مقید اس قوم کو طبی سہولیات تک سے محروم رکھنا بھارت کی حب ِ وطن کا لازمہ ہے تو کھول دیجیے سری نگر راولپنڈی روڈ اور پھر دیکھیں کشمیر کے بیماروں کے علاج معالجے کی جدید ترین سہولیات کن کن ممالک سے یہاں پہنچتی ہیں۔ویسے بھی دلی، چندی گڑھ یا کسی اور جگہ علاج کی سہولیات فراہم کرکے کشمیریوں پر کوئی احسان نہیں کیا جاتا۔ نہ وہ مفت علاج کرانے اتنا دُور دراز سفر اختیارکرتے ہیں، بلکہ اس کے عوض بھارتی ڈاکٹر اور ہسپتال، کشمیریوں سے بھاری معاوضے وصول کرتے ہیں۔ بھارت کے میڈیکل شعبے نے کاروباری حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اس لیے بھارت کے تمام نامی گرامی ہسپتالوں نے وادیِ کشمیر میں ہر جگہ اپنے ایجنٹ پھیلا رکھے ہیں، جو مریضوں کی کونسلنگ کرکے اُن کا علاج اپنے ہسپتالوں میںکروانے کے لیے اُنھیں ذہنی طور پر تیار کرتے ہیں ۔ بنابریں کشمیری اپنی جیب سے پیسہ خرچ کرکے علاج کروانے پنجاب، دلی یا کسی اور جگہ جاتے رہتے ہیں،لیکن چنڈی گڑھ کے زیر بحث واقعے نے کشمیریوں کو بہت زیادہ مایوس کیا ہے۔
اہلِ کشمیر کے خلاف اناپ شناپ پھیلا کر بھارتی میڈیا نفر ت اور شکوک کے زہریلے بیج بوتا ہے۔ پرائم ٹائم میں چلنے والے ٹاک شوز میں فرقہ پرست ذہنیت کے حامل لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے، جو کشمیر اور کشمیریوں کے خلاف زہر اُگلتے رہتے ہیں۔میڈیا پر چلنے والے ان پروگراموں نے بھارتی عوامی ذہنوں کو اس قدر مسخ کررکھا ہے کہ اکثریتی آبادی میں خود بخود کشمیریوں کے تئیں نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر اس میں کچھ کسر باقی رہ گئی تھی تو وہ آر ایس ایس کے سیاست دان پوری کرتے جارہے ہیں۔ بھارتی میڈیا اور فرقہ پرست اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ کشمیر میں آج بھی انسانیت کا بول بالا ہے۔ اسی لیے غیرریاستی مزدوروں اور کاریگروں سمیت طلبہ اور تاجر لاکھوں کی تعداد میں یہاں بلاخوف وخطر اپنا کام کاج کر تے ہیں۔ جو رویہ بھارت کی دیگر ریاستوں میں کشمیریوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے، اگر خدانخواستہ وہی رویہ کشمیری بھی غیر ریاستیوں کے ساتھ اختیار کر یں تو کیا انسانیت کا گلستان بھسم نہیں ہو گا؟
کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے۔ یہاں کے لوگ سیاسی جدوجہد کرکے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کررہے ہیں اور حصولِ تعلیم ، علاج یا تجارت کی غرض سے جو کشمیری دیگر ریاستوں کو جاتے ہیں، یہ اُن کا حق ہے۔ دلّی یہاں کے وسائل کو دلِ بے رحم سے ہڑپ کر رہا ہے ۔ اس کے بدلے میں کشمیریوں کو سواے اس کے کیا ملتا رہا ہے کہ یہاں کے طالب علم، تاجراور مریض بیرون ریاست مجبوریوں کے تحت جب دیگر ریاستوں میںجاتے ہیں تو وہاں سے اگر صحیح سلامت لوٹیں بھی تو بھارت کے مریضانہ تعصب اور تنگ نظر جنونیوں کے تعصب کا سامنا کرکے ہی لوٹتے ہیں۔ اس بیمار ذہنیت کے لوگ اپنی گھٹیا ذاتی اغراض کے لیے یہ گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں۔