پروفیسر خورشید احمد | جولائی ۲۰۱۷ | تاریخ و تذکیر
انسان بہت زود اثر واقع ہوا ہے ۔ اس کی نگاہ بڑی محدود ہے۔ ذرا سی بات بھی اگر خلافِ توقع ہو جائے تو اس کے دل ودماغ پر تاریکیوں کے بادل چھا جاتے ہیں۔ ایک معمولی سا واقعہ بھی اسے کبھی نااُمیدی کی پستیوں میں گرا دیتا ہے اور کبھی مسرت کی اوجِ ثریا پر پہنچا دیتا ہے۔ اسلام نام ہی اس کیفیت سے سرشار رہنے کا ہے کہ خوشی اور ناخوشی دونوں صورتوں میں اعتدال وصداقت پر انسان قائم رہے، لیکن فطرت کے ہاتھوں مجبور انسان صبر کم ہی کرتا ہے۔ اور جہاں ذرا بھی توقعات کا طلسم ٹوٹا، اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ ؎
کس طرف جائوں ، کدھر دیکھوں ، کسے آواز دوں
اے ہجوم نااُمیدی ، جی بہت گھبرائے ہے
بلکہ اگر چوٹ ذرا بھی سخت ہو تو عالم یہ ہو جاتا ہے ع
کہ دامانِ خیالِ یار چُھوٹا جائے ہے مجھ سے
یہ انسانی فطرت کا ایک عجیب وغریب پہلو ہے۔ فرد کتنا ہی سمجھ دار ہو، لیکن اپنے ارد گرد رُونما ہونے والے واقعات سے پیہم اثر لیتا ہے۔ جس چیز سے جتنا زیادہ متعلق ہوتا ہے ، اور جتنا گہرا تعلق ہوتا ہے، وہ اس سے اتنا ہی شدید اثر بھی قبول کرتا ہے۔ جہاں توقعات جتنی زیادہ ہوں، وہاں ان کے ٹوٹنے پر شد ّتِ تاثر بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک نہیں ہزاروں مواقع ایسے آتے ہیں، جب بظاہر امیدوں کے چراغ گل ہوتے نظر آتے ہیں اور اضطراب ومایوسی انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ۔ سمجھ دار سے سمجھ دار اور حقیقت آشنا شخص بھی فوری طور پر تو ایک دھچکا محسوس کرتا ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ دنیا نام ہی امیدوں کے ٹوٹنے اور توقعات کے پامال ہونے کا ہے۔ یہاں کا چلن ہمیشہ سے یہی ہے اور اس زمانے میں جب ہرطرف مادہ پرستی اور ذاتی منفعت طلبی کا دور دورہ ہے، جب ہر اخلاقی قدر پامال ہو رہی ہے، اور دولت و منصب اور شہرت کا حصول کامیابی کا اصل پیمانہ بن گئی ہے، تو شکایت بھی کچھ بے جا سی نظر آتی ہے ؎
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود غرضی کے اس سیلاب کے باوجود کچھ مقامات ومناصب ایسے ہیں کہ انسانی فطرت ان سے توقعات وابستہ کرنے پر اپنے کو مجبور پاتی ہے۔ ہزار معیارات بدل جائیں، لیکن ماں باپ سے ، استاد اور معلم سے، دوست اور ساتھی سے، معاشرے کے شریف اور مقتدر لوگوں سے، علما اور فضلا سے ، قاضی اور منصف سے انسان بہترین توقعات وابستہ کرنے پر اپنے کو مجبور پاتا ہے۔ ماں باپ کتنے ہی شقی ہوں لیکن اولاد کی امیدوں کا مرکز رہیں گے۔ استاد کتنا ہی گیا گزرا ہو، طالب علموں کی توقعات کا محور رہے گا۔ معاشرے کے مقتدر لوگوں کے ہاتھوں کتنے ہی چرکے لگیں، لیکن پھر نگاہ انھی کی طرف اٹھے گی۔ منصف اور جج کتنی ہی بُری مثال قائم کرے، پھر بھی مظلوم انسان ظلم کی دادرسی اور حق وانصاف کے حصول کی امیدیں انھی سے وابستہ کریں گے۔ ارباب حکومت اور قائدین و محافظ خواہ کیسی ہی زیادتیاں اور بے قاعدگیاں کریں، لیکن ان سے رشتۂ اُمید کُلی طور پر منقطع نہ ہوگا___
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انسانی معاشرے میں اُمیدوں کا گویا ایک قانون ثقل جاری وساری ہے۔ توقعات آپ سے آپ کچھ مقامات اور مناصب کی طرف کھنچتی اور مرکوز ہوتی ہیں۔ بلالحاظ اس کے کہ ان کا استقبال کس طرح ہو اور پھر جب اپنے مرجع پر جا کر وہ لوٹ آتی ہیں یا پاش پاش ہوجاتی ہیں تو دل پر ناقابلِ برداشت چوٹ لگتی ہے۔ احساس کے تاروں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے، مایوسی اور ناامیدی کی تاریکی چھانے لگتی ہے___ لیکن یہ بھی ایک عجب حقیقت ہے کہ نااُمیدی کے انھی بادلوں میں سے پھر توقعات کے نئے آفتاب وماہتاب رُونما ہوتے ہیں ،اور انھی کے سہارے زندگی اپنا راستہ طے کرتی چلی جاتی ہے۔
یہ واقعہ بھی ایک ایسے ہی دن کا ہے ! صبح ہی جو پہلی خبر مجھ کو ملی وہ توقعات کے بہت سے گھروندوں کو توڑ دینے والی تھی، ذہنی کش مکش تو شروع ہی سے تھی۔ کبھی دل توقعات وابستہ کرتا اور اُمیدوں کے چراغ روشن کرتا تھا اور کبھی ان پر شک کے پردے ڈالتا تھا ۔ اسی پیچ وتاب میں ذہن ناامیدی کی طرف جھک گیا، لیکن پھر ایک خیال اُبھرا ؎
وہ اور پاس خاطر اہلِ وفا کرے
اُمید تو نہیں ہے، مگر ہاں ، خدا کرے
اس ’ہاں خدا کرے‘ نے پھر توقعات کے رشتے استوار کر لیے اور میں اسی چنیں اور چناں میں تھا کہ وہ اطلاع مل گئی جس کا خطرہ تھا ،لیکن جسے ماننے کے لیے دل تیار نہ ہورہا تھا۔ ذہن کو ایک جھٹکا سا لگا ___ جھوٹی اُمیدوں اور مصنوعی توقعات کا طلسم بھی بڑا حسین اور طرح دار ہوتا ہے، مگر جب وہ طلسم ٹوٹتا ہے تو اس کے جلو میں تاریکیوں کا ایک سیلابِ بلاخیز اُمڈا چلا آتا ہے۔ میں بھی ایک لمحے کے لیے سکتے میں آ گیا ع
جن پہ تکیہ تھا ، وہی پتّے ہوا دینے لگے
پھر وہ چوٹ اور بھی سخت ہوتی ہے، جب ایسا سلوک ایک حق دار کے ساتھ کیا جائے، جب چرکے پر چر کے اس مظلوم کو لگیں، جو حق وانصاف پر ہواور جس کے حقوق پامال ہو رہے ہوں ۔ جب ایسا مستحق محروم کیا جاتا ہے تو اس کا زخم بڑا گہرا ہوتا ہے!
جو زخم میرے لگا تھا وہ بھی بڑا سخت تھا ! لیکن یہی وہ مقام ہے جہاںسے خدا پر یقین رکھنے والے اور رب کے دامن کو چھوڑ دینے والے ایک ہی جیسے حالات کا شکار ہو کر بھی دو مختلف راہیں اختیار کرتے ہیں ۔ ہجوم غم اور یورش اضطراب میں میرا دل چوٹ کھانے کے باوجود مایوسی اور بغاوت کا شکار نہ ہوا بلکہ لوحِ حافظہ پر یہ ارشار ربانی ابھرنا شروع ہوا:
وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْط وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo (البقرہ ۲: ۲۱۶ )عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمھارے لیے مضر ہو اور ان باتوں کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے،تم نہیں جانتے۔
اور ___
فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا(النساء۴:۱۹) پس، عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کر و اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی پیدا کرے۔
میں ان آیات کو پڑھتا رہا ___ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے یہ ابھی نازل ہوئی ہیں، جیسے میں نے آج ہی ان کو پایا ہے ۔ زبان ان الفاظ کو خموشی کے ساتھ ادا کرتی رہی ، دل ان کو جذب کرتا رہا، نااُمیدیوں کے بادل چھٹتے رہے ، توقعات کے ٹوٹنے سے جو زخم لگے تھے وہ مندمل ہونے لگے، ایسا محسوس ہوا کہ اس پر اکسیر صفت پھاہا رکھ دیا گیا ہے، جس نے زخم میں فوراً ٹھنڈک ہی نہیں ڈال دی بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھرنے بھی لگے۔
میرا دل پکار اٹھا کہ تقدیر کا عقیدہ یقینا ایک عظیم انسانی ضرورت ہے: والقدر خیرہ وشرِّہ من اللہ تعالٰی میں وہ گہری تاثیر ہے کہ اس کا جواب نہیں ہو سکتا ۔ اس میں قدرت کا خزانہ اور رحمت کا ذخیرہ ہے۔ یہ تصور، جہاں ایک طرف تقدیر کو بنانے کے داعیے اور ذوق عمل کو بیدار کرنے کا کام کرتا ہے تو وہیں نتائج کے بارے میں ایک عدیم المثال بے نیازی بھی پیدا کر دیتا ہے___ انسان محسوس کرنے لگتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے پیچھے ایک حکمت بالغہ کار فرما ہے۔ وہ تنہا نہیں، نتائج اس کے یا کسی اور کے نکالے نہیں نکل رہے۔ اس پر دے کے پیچھے کوئی عظیم الشان قدرت کار فرما ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا کام اپنا فرض ادا کرنا ہے، نتائج اپنی فکر آپ کریں ! جودن میں رات اور رات میں سے دن کو پیدا کرتا ہے، جو زندہ میںسے مُردہ اور مُردہ میں سے زندہ کو نکالتا ہے، جو ہر چیز پر قادر ہے، اس کی تدبیر ہرشے میں کار فرما ہے۔ انسان کیسی ہی چالیں چلے، شیطان کیسے ہی منصوبے بنائے ، اس کی تدبیر کو غیر مؤثر نہیں بناسکتا ؎
اچھا یقین نہیں ہے تو کشتی ڈبو کے دیکھ
ایک تو ہی ناخدا نہیں ظالم ، خدا بھی ہے
یہی وہ احساس ہے جو انفرادی اور اجتماعی دونوں قسم کی ما یوسیوں میں ایک مسلمان کو تخریب پسندی اور شکست ِ ہمت سے بچاتا ہے اور اس میں زندگی کی نئی روح پھونک دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کافر جس مقام پر ما یوس ہو کر خود کشی تک کر لیتا ہے، مسلمان اعتماد الٰہی اور تقدیر خداوندی پر اطمینان کے سہارے اصلاحِ حال کی بیش از بیش محنت اور جدوجہد میں مصروف ہو جاتا ہے۔ کافر جس مقام سے اجتماعی بگاڑ اور فسادوتخریب کی راہ پر لگ جاتا ہے، مومن وہاں سے اصلاح اور تعمیر کے راستے کو اختیار کرتا ہے ۔
خیالات کا یہ سلسلہ نہ معلوم کب تک جاری رہا، زمانی اعتبار سے خواہ اس میںچند منٹ ہی صرف ہوئے ہوں، لیکن معلوم ہوتا تھا جیسے طائر خیال ،زمان ومکان [Time and Space]کی وسعتوں کو کھنگال کر واپس آیا تھا، میری پریشانی اب بڑی حد تک دُور ہو گئی تھی۔ عزم وہمت کا ایک چشمہ سا اُبلنے لگا تھا ،تاریکیاں چھٹ رہی تھیں اور روشنی پھیل رہی تھی___ میں نے کتاب اللہ کو اٹھایا، اسے چوما اور غیرارادی طورپر جو سورت مطالعے کے لیے میرے سامنے کھلی، وہ سورت الفتح تھی:
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا o لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَ منْـبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَھْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا o وَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَصْرًا عَزِیْزًا o (الفتح ۴۸:۱-۳) [اے محمدؐ ! ] ہم نے تم کو فتح دی، فتح بھی صریح اور صاف تا کہ خدا تمھارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے اور تمھیں سیدھے راستے پر چلائے اور خدا تمھاری زبر دست مدد کرے ۔
معلوم نہیں، قرآن سے فال نکالنے والے اسے کیا کہیں گے___میرا نہ یہ ذوق ہے اور نہ میں نے کبھی ایسا کیا ہی ہے، البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس سورۃ کا نکلنا ایک عطیۂ رحمانی ثابت ہوا۔ اس کے مطالعے نے ایک عجیب کیفیت پیدا کر دی ۔ بار بار پڑھتا تھا اور چشم تخیل چودہ سو سال پہلے کے ایک عظیم تاریخی واقعے کا نظارہ کر رہی تھی۔
کعبہ ویسے تو ساری ملت ابراہیمی ہی کا مرکز ومحور ہے، لیکن امت مسلمہ کا تو یہ دل ہے، دھڑکتا ہوا دل ! خدا کی زمین پر خدا کا پہلا گھر، جسے ابوالانبیا حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے صابر وشاکر فرزند نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، خداے واحد کی مناجاتوں کے ساتھ اس کی تعمیر کی، ساری انسانیت کے لیے اسے مسجود بنایا___ یہی وہ کعبہ تھا جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شب وروز عبادتِ الٰہی میں گزارے ، جہاں معبود حقیقی کا کلمہ بلند کرنے پر آپ کو طرح طرح کے مصائب کا نشانہ بنایا گیا۔ جس کے سایے میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دعوتِ اسلامی کے اوّلین ماہ و سال گزارے۔ جہاں سورئہ رحمٰن کی تلاوت کر کے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مار کھائی۔ جہاںابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اعلانِ حق کرکے پٹے۔ جہاں عمر فاروق ؓ نے نماز باجماعت ادا کرا کے اسلام کی حقانیت کا اعلان کیا___ کتنے خوش نصیب تھے وہ اور اپنی اس قسمت پر کتنے نازاں تھے کہ ؎
وہ کعبہ جسے دیکھ لینا عبادت ہے
مسلسل ہے پیش نظر اللہ اللہ
لیکن ظالموں نے اس کعبے کی رفاقت سے اہل ایمان کو محروم کر دیا۔ انھیں مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور کیا اور اس کے بعد اللہ کے اس گھر اور حق کی اس آیت کو ایک نظر دیکھنا تک ان پر حرام کر دیا۔ مسلمانوں کے لیے اس کا طواف بھی ’غیر قانونی‘ قرار دیا گیا۔ اور ایک نہیں کئی واقعات ایسے ہیں، جب خاموشی سے بھی اگر کوئی مسلمان ایمان کے اس محور کی زیارت کو چلا گیا تو اس کے لیے جان بچاکر واپس آنا مشکل ہوگیا۔
اپنے اس ’ محبوبِ نظر ‘ کو دیکھے ہوئے مسلمانوں کو چھے سال بیت گئے۔ ظلم کا قانون ان کے اور ان کے محبوب نظر کے درمیان حائل ہو گیا، اور وہ اسے ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ اس کا تو ایک لمحے کے لیے بھی ان کی نگاہوں سے اوجھل ہونا ان کے دل پر شاق تھا، کجا فرقت میںچھے طویل اور صبر آزما سال گزر گئے۔ جس سے رخصت ہوتے وقت خود پیکر حلم وصفا اور صبروثبات صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ بار بار اس کی طرف نگاہ اُٹھا کر ارشاد فرماتے تھے کہ: ’’خدا کی قسم تو اللہ کی بہترین زمین ہے اور اللہ کی نگاہ میں سب سے بڑھ کر محبوب ہے۔ اگر یہاں سے مجھے نکالا نہ جاتا تومیں کبھی نہ نکلتا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل مکۃ، حدیث: ۳۹۲۵)
تصور کیجیے، پھر چھے سال محرومیِ نظارہ کے بعد آپؐ کا اور آپؐ کے ساتھیوں کی بے قراری کا کیا حال ہوگا؟ ایک خلش تھی جو ہر وقت بے چین کیے رکھتی تھی، ایک چبھن تھی کہ جو بے تاب کیے ہوئے تھی ، ایک بے قراری تھی کہ جو کسی طرح دُور نہ ہوتی تھی اور ایک ٹیس تھی کہ رفیقِ جان بن گئی تھی۔ سب کچھ میسر تھا مگر ایک خلا تھا کہ اسے کوئی شے پر نہ کر سکتی تھی۔ ہر شخص کا عالم یہ تھا کہ ع
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں
حضرت بلال ؓ مکہ میں کتنے ستائے گئے، تپتی ریت پر گھسیٹے گئے ، جلتی سلوں کے نیچے دبائے گئے، جسم اور روح اذیت کا نشانہ بنائے گئے، لیکن محبوب سے تعلق میں ان باتوں سے کب کمی ہوتی ہے! مکہ کی یاد بے کل کیے رہتی ، پہروں اسے یاد کر کر کے روتے اور پکارپکار کر یہ اشعار پڑھتے (بخاری، باب مقدم النبیؐ و اصحاب المدینہ) :
الا لیت شعری ھل أبیتن لیلۃ
بوادٍ وحولی اذخرٌ و جلیلٌ
(کاش! مَیں مکہ کی وادی میں ایک رات بسر کرسکتا اور میرے چاروں طرف اذخر و جلیل ہوتیں)۔(البدایۃ والنہایۃ، ج۳، ص ۲۲۱)
وھل اردن یومًا میاہ مجنہ
وھل یبدون لی شَامَۃ و طفیل
(کاش! ایک دن میں مجنہ کے چشموں سے اُترتا اور شامہ و طفیل (پہاڑوں) کو دیکھ سکتا۔)
یہی مکہ تھا جسے دیکھ لینے کی ایک اُمید پیدا ہو گئی ___کعبے سے، اس محبوب نظر اور مقصود و مسجود کے نظارے سے ، آنکھوں کو پھر شاد کام کرنے کی صورت نکل آئی، حجرِ اَسود کو پھر چوم لینے کا امکان رُونما ہوگیا،بیت اللہ کے گرد پروانہ وار گردش کرنے کی توقع اُبھر آئی، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رویاے مبارکہ دیکھا کہ آپؐ اور آپؐ کے ساتھی (اللہ کی رحمتیں ہوں ان سب پر) عمرے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ ’’پیغمبرؑ کا خواب بھی وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود توثیق فرما دی کہ یہ خواب ہم نے رسولؐ کو دکھایا تھا‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۵، ص ۳۴)
لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہٗ الرُّءْ یَا بِالْحَقِّ ج لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ لا مُحَلِّقِیْنَ رُئُ وْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ لاَ تَخَافُوْنَ ط (الفتح ۴۸:۲۷) فی الواقع اللہ نے اپنے رسولؐ کو سچّا خواب دکھایا تھا جو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق تھا۔ ان شاء اللہ تم ضرور مسجد ِ حرام میں پورے امن کے ساتھ داخل ہوگے، اپنے سر منڈوائو گے اور بال ترشوائو گے اور تمھیں کوئی خوف نہ ہوگا۔
اس اشارۂ غیبی سے زندگی کی نئی رو پھوٹ پڑی ، اُمیدوں کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا، سوکھے ہوئے چشمے ابل پڑے ، گرمی وحرارت کی ایک لہر دوڑ گئی، خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے، دل بھر گئے اور آنکھیں نم ہو گئیں___ کعبے کی زیارت کی راہ پیدا ہوتی نظر آئی۔ درحقیقت یہ نرا خواب نہ تھا، بلکہ ایک الٰہی اشارہ تھا، جس کی پیروی کرنا آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ضروری بھی تھا۔
پھر کیا تھا؟ ذوق وشوق سے تیاریاں شروع ہو گئیں۔ کفارِ قریش نے چھے سال سے مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا راستہ بند کر رکھا تھا۔ اس پوری مدت میں کسی مسلمان کو انھوں نے حج اور عمرے تک کے لیے حدودِ حرم میں قدم نہ رکھنے دیا تھا (ایضاً، ص ۳۴)۔ اعلان کر دیا گیا کہ مشرق ومغرب، شمال وجنوب ہر سمت میں اطلاعات بھیج دی گئیں کہ زیارت بیت اللہ کے لیے اللہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی نکلنے والے ہیں۔ جس کے پاس جو کچھ تھا، اس نے اس مقدس سفر کے لیے لاکر پیش کرڈالا ___ چودہ سو مسلمان راہ حق میں نکل کھڑے ہوئے ___کتنی خوش نصیب تھی وہ سرزمین جس سے نبیؐ کی دعوت پر چودہ سو مسلمان اپنے محبوب تک پہنچنے کے لیے سر ہتھیلی پر رکھ کر نکل کھڑے ہوئے:
وَّمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُج(الفتح ۴۸:۱۷) اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبرؐ کے فرمان پر چلے گا ، اللہ اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔
حق کے فدا کاروں کا یہ اعلان جہاں ان کی قوت کا اظہار ، ان کی وحدت اور یک جہتی کا اعلان اور ان کے عزم وجاں فروشی کا آئینہ دار تھا، اور اس سے جہاں سارے عرب کے حق پرستوں میں بجلی کی ایک نئی لہر دو ڑ گئی تھی، وہیں اس خبر نے اہل باطل کے ہوش اُڑا دیے۔ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی، ان کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جسے ہم نے غربت کے عالم میں یہاں سے نکالا، پھر اپنے ساتھیوں کے ساتھ پوری شان سے یہاں داخل ہو___ ہمارے جیتے جی یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اس طرح تو سارے کیے دھرے پر پانی پھر جائے گا۔ ہم نے تو نکالا ہی اس لیے تھا کہ اس کے اثر سے محفوظ ہو جائیں۔
پھر اس کی قوت کا خاتمہ کرنے کے لیے بار بار ہم نے لشکر کشی کی تھی، لیکن کسی طرح اس کی قوت ٹوٹتی ہی نہیں ۔ سب وشتم کا طوفان ہم نے اٹھایا ، سختیاں اور شدائد ہم نے کر لیے ، مارپیٹ ، جیل اور مقاطعہ، غرض ہر حربہ استعمال کر لیا۔ معاملہ قاضی شمشیر کے سپرد بھی کیا، لیکن وہاں بھی بدر کے میدان میں ہمارے ہی جوانوں کی لاشیں تڑپتی نظر آئیں۔ محاصرہ بھی کر دیکھا، لیکن اس چٹان میں کوئی شگاف ہی نہیں پڑا۔ یہ ساری ذلتیںہم نے اٹھائیں لیکن یہ تو بالکل ہی ناقابلِ برداشت ہے کہ ہمارے ہوتے ہوئے وہ مکہ میں قدم رکھے، کعبہ کا طواف کرے، توحید کا کلمہ بلند کرے، ہمارے بتوں کی نفی کرے او ردرو دیوار لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ ، لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ کے نعروں سے گونجیں ___نہیں، یہ نہیں ہو سکتا !
لیکن آہ! ہم بڑی مشکل میں گرفتار ہیں۔ اس نے یہ سفر جنگ کے لیے نہیں، خالص زیارتِ کعبہ کے لیے اختیار کیا ہے۔ عام مہینوں میں نہیں حرام مہینوں میں اختیار کیا ہے، اسلحے سے لیس ہو کر نہیں آرہا___ بجز ایک تلوار ( اور وہ بھی نیام میں ) اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں۔ تمام زائرین حرم کو عرب کے معروف قاعدے کے مطابق سفر کی حفاظتی ضرورت کے لیے ایک تلوار رکھنے کی اجازت تھی، سو اس قاعدے سے تجاوز نہ کیا اور نہ کوئی سامانِ جنگ ساتھ لیا۔اس نے قربانی کے جانور بھی لے لیے ہیں ___قانون کی پوری پابندی کر رہا ہے ، روایات کا مکمل احترام کررہا ہے، کہیں انگلی رکھنے کی گنجایش نہیں۔
اُدھر کفّارِ مکہ اس الجھن میں گرفتار ہوکر رہ گئے کہ اگر ان محترم مہینوں میں ہم ان سے جنگ کرتے ہیں تو ہم برسوں کی روایات کا خون کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر زیارت سے روکتے ہیں تو اہل عرب کے ایک بنیادی اور فطری حق سے، جسے ہر دور میں اور ہر گروہ اور قبیلے نے تسلیم کیا ہے،اگر ان کو محروم کرتے ہیں تو یہ انصاف ، قانون اور روایات کے صریح خلاف مانا جائے گا۔ سب اسے مذہبی اُمور میں مداخلت قرار دیں گے۔ لوگوں کو یقین دلانے کی اپنی سی کوشش بھی کریں، لیکن اسے مانے گا کون ؟
سب اہلِ عرب صاف کہیں گے کہ اگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کے لیے اس قدیمی حق کو پامال کیا جاسکتا ہے تو کل ہمارے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اگر آج ان کے باب میں یہ مذہبی مداخلت اور یہ سیاسی دخل اندازی ہو سکتی ہے، تو پھر دوسروں کے لیے بھی ان حقوق اور ان مہینوں کے محترم رہنے کا کیا امکان ہو گا___ پھر غضب یہ ہے کہ یہ بات چوری چھپے بھی نہیں کی۔ عرب میں اپنے اس سفر اور اس کے مقاصد کا اعلان بھی کر دیا ہے___ یہ سوچ سوچ کر ان کے ذہن مائوف ہورہے تھے کہ کس مشکل میں گرفتار ہو گئے ہیں۔
’’لیکن، کیا ہم اسے آنے دیں؟ نہیں، یہ تو نہیں ہو سکتا۔ ہم کہیں گے کہ زیارت تو محض ایک بہانہ ہے، اصل مقصد تو ہمیں مکہ کے اقتدار سے محروم کرنا ہے۔ یہ صریح طور پر ہمارے خلاف ایک سیاسی انقلاب کا قدم ہے۔ یہ لوگ سماجی قانون ومذہب کے پردے میں ہمارے اقتدار سے کھیلنا چاہتے ہیں۔ ان کی قانون پسندی کے پیچھے قوت کے استعمال کے عزائم موجود ہیں۔ کوئی مانے نہ مانے، ہم یہی سمجھتے ہیں، ہم یہی کہیں گے ، ہمارے حلیف قبائل اس کی تائید کریں گے___ ہم اکیلے ان کے خلاف نہیں لڑیں گے، ہم بھی اپنے تمام حلیفوں کو جمع کریںگے، ان سے ان کے خلاف فتویٰ لیں گے بلکہ ملک بھر میں اس بات کا چرچا کریں گے اور چاہے کچھ ہو جائے مکہ میں ان کو دوبارہ داخل نہ ہونے دیں گے___ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم تو طواف کعبہ کو ان کے لیے ’غیرقانونی‘ قرار دیں اور یہ سیدھے وادی القریٰ میں داخل ہو جائیں‘‘۔
قانون ، روایات ، انصاف ، دلیل وبرہان کو شکست ہوئی اور ضد، ہٹ دھرمی اور سیاسی دھاندلی نے بازی جیت لی ! قریش نے کاروان حق اور زائران حرم کا راستہ روکنے کا فیصلہ کر لیا۔ سارے ملک میں ہرکارے دوڑائے گئے کہ ایک فیصلہ کن جنگ لڑ کر اس تحریک کو اب ختم ہی کر دینا ہے:
اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ (الفتح ۴۸:۲۶) جب کافروں نے اپنے دلوں میں ضد کی ___اور ضد بھی خالص جاہلیت کی۔
ھُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْہَدْیَ مَعْکُوْفًا اَنْ یَّبْلُغَ مَحِلَّہُ ط (الفتح ۴۸:۲۵) یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روک دیا۔ اور قربانیوں کو بھی روک دیا کہ وہ اپنی جگہ پہنچنے سے رک جائیں۔
مخالفین اپنی چالیں چل رہے تھے، قبائل کو جمع کیا جا رہا تھا اور جاہلیت کے نام پر انھیں من مانی کارروائی کے لیے آمادہ کیا جا رہا تھا۔ فوجی تربیت دی جارہی تھی ۔ مکّہ کے نوجوانوں اور سرپھروں کی ٹولیاں مختلف سمتوں سے بھیجی جا رہی تھیں تا کہ کوئی موقع لڑائی کا پیدا ہو جائے اور کوئی واقعہ ایسا رُونما ہو جائے کہ قافلۂ حق پرہاتھ ڈالنے کی صورت نکل آئے ___ اور دوسری طرف ان حرکتوں سے بے نیاز، اللہ کا آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چودہ سو جاں نثاروں کے ساتھ خاموشی اور وقار کے ساتھ سوے حرم رواں تھا۔
جب قافلۂ حق عفان کے پاس پہنچا تو قبیلہ کعب کے ایک شخص نے اطلاع دی کی مکہ سے باہر کے مقام پر قریش اور ان کے حلیف بڑی تعداد میں فوجیں جمع کر رہے ہیں اور خالد بن ولید اور عکرمہ ابن ابو جہل ۲۰۰سواروں کے ساتھ مقدمہ الجیش کے طور پر کُراعُ الغمیم تک آگئے ہیں۔ قبیلہ خزاعہ کے رئیس اعظم بُدَیل بن وَرَقانے صورت حال پر آپؐ کی راے معلوم کی اور اپنی خدمات پیش کیں۔ خدا کے نبی اور قافلۂ زائران کے سردار( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ایک طرف مسلمانوں کو حکم دیا کہ قریش مقام الغمیم تک آگئے ہیں، اس لیے اس راستے کو چھوڑ کر داہنی طرف سے چلو اور دوسری طرف بذیل بن ورقا اپنے چند معتبر ساتھیوں کے ساتھ آپؐ کے پاس آیا، اور پوچھا:
’’آپ کس غرض سے آئے ہیں؟‘‘
آپؐ نے فرمایا: ’’ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے، صرف بیت اللہ کی زیارت اور اس کا طواف ہمارے پیش نظر ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ ایک معین مدّت کے لیے مجھ سے صلح کا معاہدہ کر لیں اور اگر وہ اس پر راضی نہیں ہیں تو :
فَمَا تظَنُّ قریش فَوَاللّٰہِ لَا ازال اجاھد علی الَّذِی بَعثَنِی اللہ بِہٖ حَتّٰی یُظھِرَہُ اللہ اَو تَنْفِرْدَ ھٰذہِ السَّا لِفۃُ ، معلوم نہیں قریش کس گھمنڈ میں ہیں۔ اللہ کی قسم ! میں دین کے لیے اس وقت تک جہاد کروںگا، جب تک اللہ، دین کو غلبہ نہ عطا کر دے یا دستِ اجل مجھ پر قبضہ نہ کر لے۔ (تاریخ الطبری، ج۲، ص ۱۱۷)
عزم وہمت اور یقین اور جاں بازی کے اس اعلان سے قریش میں کھلبلی مچ گئی۔
داعیِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے تدبیر اور حکمت عملی، اظہار عزم اور پختگی دونوں کو بیک وقت استعمال فرمایا۔ ایک طرف صحیح وقت کا انتخاب ، صحیح طریقے کی پابندی ، راے عامہ کی ہمواری ، اصول وقانون کی پابندی ، صلح وسفارت کی پروقار کوششیں ، قدم قدم پر رُونما ہونے والی اشتعال انگیزیوں (provocations ) پر صبر وتحمل___ اور دوسری طرف پختہ عزم اور حق کی خاطر جان لڑا دینے اور آخری بازی تک کھیل جانے کا برملا اظہار!
قریش شدید پریشانی اور خلفشار میں مبتلا ہوگئےاور باطل کی قوتیں سخت کش مکش کا شکار۔ ایک گروہ کہتا کہ ’’ہم لڑے بغیر نہیں مانیں گے۔ ہماری آنکھوں میںخون اترا ہوا ہے اور اس تحریک کو مٹائے بغیر ہماری پیاس نہیں بجھے گی‘‘۔ یہ گروہ نہ صرف سب کو جنگ کرنے اور قانون کو پامال کرنے پر اُکسا رہا تھا، بلکہ خود اپنی ہی تحریک پر ایسی حرکتیں بھی کر رہا تھاکہ کسی طرح لڑائی کی آگ بھڑک اٹھے ۔ اس اونٹنی کو مار دیاگیا، جس پر سوار ہو کر حضرت خراش شہر میں گئے تھے۔
ایک دستے نے مسلمانوںسے چھیڑ چھاڑ کی اور پتھر اور تیر تک پھینکے، لیکن مسلمانوں نے لڑنے کے بجاے ان کو گرفتار کر لیا، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو رہا کر دیا لیکن اس کے باوجود یہ گروہ جنگ کی آگ کو بھڑکانے کے لیے بے چین تھا، اور سارے حقوق وروایات کو پامال کرنے کے در پے۔ دوسرا گروہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر تو قائم تھا لیکن اس تبدیل شدہ صورتِ حال نے اس کی پریشانی کو چند در چند کر دیا تھا، اور حضوؐر کی حکمت عملی اور عزم وثبات نے اس کے قدموں کو متزلزل کر دیا تھا۔ پھر قبائل میں سے ایسے بھی تھے جو قریش سے مفاد کی وابستگی اور دوستی کے معاہدے کی وجہ سے جمع تو ہو گئے تھے، لیکن ان کے دل مطمئن نہ تھے اور وہ برابر ضمیر کی چبھن محسوس کر رہے تھے۔ تاہم، قریش بحیثیت مجموعی اپنی ہٹ پر قائم تھے اوران کا اصرار تھا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کبھی داخل نہیں ہو سکتے۔
ضد وہٹ دھرمی ومفاد طلبی اور باطل پرستی کے اس ماحول میںایک واقعہ ایسا بھی رُونما ہوا، جس نے بُرے حالات میں بھی رفقا کو بچا لیا۔ قریش کی صفوں میں ایک سے ایک شقی اور دشمن حق تھا اور وہ قافلۂ حق کا راستہ روکنے کے لیے ہر اوچھی سے اوچھی حرکت کرنے کے لیے بھی تلا ہوا تھا ___لیکن انھی صفوں سے احابیش کا سردار حُلیس بن عَلقمہ بھی نکل کر سامنے آیا۔
حُلیس کے سامنے جب بدیل بن ورقا نے یہ شہادت پیش کی، پھر مکر زبن حفض نے بھی اس امر سے مطلع کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے ساتھی قانون پسند اور پُرامن ہیں اور جنگ کرنے نہیں بلکہ زیارت حرم کے لیے آئے ہیں، تو اس کے ضمیر نے قریش کی زیادتی ، قانون کی خلاف ورزی اور فطری انصاف اور صدیوں کی روایات کی پامالی پر سرزنش کی۔ اور وہ کہتا ہے کہ میں تحقیقِ حال کے لیے جاتاہوں۔ پھر جب اس غیر مسلم نے زائرین کعبہ کو دیکھا اور اسے اپنے سامنے، زائرین کے لائے ہوئے قربانی کے اونٹ نظر آئے، تو اس نے مفاد پرست قریش اور ان کے ناجائز دبائو کے خلاف بغاوت کی اور قریش کے سامنے ان کی افواج کی موجودگی میں پوری ہمت اور قوت کے ساتھ اعلان کیا کہ :
محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تو زیارت کے لیے آئے ہیں ۔ تمھیںان کو اس حق سے محروم کرنے کا اختیار کب ہے؟ میں نے قربانی کے اونٹ اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں___قانون کی خلاف ورزی تم کررہے ہو، وہ نہیں___[اس پر قریش کے سر پھرے نوجوان مذاق اڑانے لگے___اسے دیکھو ! دیہاتی آدمی ہے ! یہ ان باتوں کو کیا جانے۔]
حُلیس کوئی معمولی آدمی نہ تھا۔ عرب کے مشہور تیر اندازوں میں سے تھا۔ اس کا قبیلہ تیراندازی میں اپنا نام رکھتا تھا۔ اس وقت مختلف قبیلوں کی فوج کا سردار تھا۔ اس بے ہودگی پر اسے سخت غصہ آیا اور اس نے صاف اعلان کر دیا ___
اے قریش ! قسم ہے معبود کی، ہم نے تم سے اس بات پر عہد نہیں کیا ہے اور نہ ہم نے قسم کھائی ہے کہ جو شخص خانہ کعبہ کی زیارت کو آئے ہم اس کو روک دیں___سم ہے خدا کی جس کے قبضے میں حلیس کی جان ہے___ یا تو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو زیارت کرنے دو، ورنہ میں ایک دم میں اپنا تمام لشکر لے کر چلا جاتا ہوں ۔(سیرت ابن ہشام، ص ۴۵۰)
تھی تو یہ ایک ہی آواز ! لیکن قریش میں کھلبلی مچ گئی ۔ سب سکتے میں آگئے ۔ انھوں نے پریشان ہو کر کہا :’’ٹھیرو تو ! غصہ کاہے کاہے ؟ ہم ذرا اطمینان تو کر لیں‘‘۔
اس کشیدگی کو دُور کرنے کے لیے ایک تجربہ کار آگے بڑھا __ یہ تھا عروہ بن مسعود ثقفی۔
عروہ نے کہا : کیوں قریش ، کیا میں تمھارا باپ اور تم میرے بچے نہیں ؟
بولے :ہاں، بلاشک۔
عروہ : میری نسبت تمھیں کوئی بدگمانی تو نہیں۔
سب نے کہا : نہیں۔
عروہ : اچھا تو مجھے اجازت دو کہ میں خود جا کر معاملہ طے کروں۔
محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے صلح کی معقول شرطیں پیش کی ہیں ___ھچائو کم ہوا ___ور سفارت کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ۔
ادھر سفارت اپنا کام کر رہی تھی اور ادھر شرپسند خاموش نہ تھے ۔ وہ کسی طرح لڑائی شروع کرا دینا چاہتے تھے۔ بار بار اشتعال انگیزی کی کوشش کرتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی ٹولیاں مسلمانوں کے پڑائو میں گھستی تھیں، پتھر پھینکتے تھے، تیر چلاتے تھے ___لیکن قافلۂ حق کے راہی صبرو تحمل کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ قائد صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرما دی تھی کہ: ہمیں ہر زیادتی کو برداشت کرنا ہے اور لڑائی سے حتی الامکان بچنا ہے، اِلّا یہ کہ ہم مجبور کر دیے جائیں___کیا مجال تھی کہ مسلمان اس ہدایت سے سرمو انحراف کریں۔ ہر شخص پوری ہوشیاری اور سمجھ داری کے ساتھ اس بنیادی ہدایت کی روشنی میں ہر نئی صورت حال کا مقابلہ کر رہا تھا۔
یہی حلم ، تدبر، حکمت ، صلح پسندی، صبر وثبات اور اطاعت امر کا جذبہ تھا، جس کی وجہ سے مخالفین حق اپنی ایک زبردست چال میں ناکام ہوگئے اور ان کی ساری فتنہ انگیزیاں بے نتیجہ رہیں۔
لیکن کیا یہ صلح پسندی اور تحمل وبرداشت کسی کمزوری کا نتیجہ تھا ؟ یا اس سے اہل حق کے عزم میں کوئی کمی واقع ہو گئی تھی ؟___نہیں، ان کا جذبۂ سر شاری اپنے عروج پر تھا، حق کی حمیت اپنے حقیقی رنگ میں موجود تھی، فدا کاری کا داعیہ ہر ہر عمل سے نمایاں تھا___اور پھر تحمل وبرداشت کی بھی ایک حد تھی۔ داعی اپنے اصلی عزم کا اظہار بر ملا کر رہا تھا اور حق کی خاطر جینے اور حق کی خاطر جان دے دینے کا جذبہ پورے کاروان حق میں کار فرما تھا۔
اور اس کا اعلیٰ ترین مظہر،بیعت رضوان ہے !
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارت ہی کے سلسلے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ بھیجا ۔ ان کے جانے کے بعد یہ خبر اڑ گئی کہ: ’’قریش نے ان کو شہید کر دیا ہے‘‘۔یہ وہ ظلم تھا جسے ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہ کیا جا سکتا تھا۔ حضوؐر اور آپؐ کے ساتھی سب زیادتیوں کو گوارا فرما رہے تھے لیکن اعلیٰ مقصد کے لیے___ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جو حضوؐر کے سفیر تھے، شہید کردیا گیاہے، تو یہ کھلا کھلا اعلان جنگ ہے۔ امن پسندی اور عفوورحم اسلام کا شعار ہے لیکن ظالم جب ساری حدود کو پھاند جانے کے در پے ہو تو پھر انصاف کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ ظالم کا ہاتھ پکڑ لیا جائے اور جو تلوار مظلوموں پر اٹھی ہے اسے توڑ ڈالاجائے۔
آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سارے ساتھیوں کو جمع کیا اور ان سے حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے کی بیعت کی۔ یہ بیعت مرنے مٹنے کے وعدے پر تھی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’عثمانؓ کے خون کا قصاص لینا فرض ہے ‘‘۔ ایک ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ کر آپؐ نے صحابہؓ سے جاں نثاری اور آخری سانس تک لڑنے کی بیعت لی۔ اس بیعت میں مردوزن سبھی شامل تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے جوش اورولولے کا یہ عالم کہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں اور بے چین اور بڑھ چڑھ کر آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کرتے گئے۔ خدا قرآن میں اس کا ذکر اس طرح کرتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ(الفتح ۴۸:۱۰) اور جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے ۔
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ(الفتح ۴۸:۱۸) اے پیغمبرؐ ، جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے، تو خدا ان سے خوش اور راضی ہوا اور جو( صدق وخلوص ) ان کے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کر لیا اور ان پر سکینت اور اطمینان نازل فرمایا۔
دعوتِ اسلامی کی خصوصیت ہے کہ آزمایش کے وقت اس کے پیروکاروں کے جذبۂ عمل اور شوقِ قربانی میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے، فدا کاری کی ایک لہر صرف افراد کے سراپے ہی میں نہیں، بلکہ ان کی اجتماعیت تک میں دوڑ جاتی ہے، حق کے لیے جان کی بازی لگادینے کا ولولہ ہر فرد میں پیدا ہوجاتا ہے___ اور یہ وہ ادا ہے جو حق تعالیٰ کو بے حد پسند ہے۔ اس نے ایسے لوگوں کے لیے اپنی رضا مندی اور جنت لکھ دی ہے ؎
نگاہ یار جسے آشناے راز کرے
وہ اپنی خوبیِ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
محبوب کی رضا طلبی کی خواہش اور اس کی خوشی پر فخر ونازہی کی کیفیت میں حضرت براء رضی اللہ عنہ نے محبت میں ڈوبے ہوئے تاریخی الفاظ کہے تھے جو بخاری میں مرقوم ہیں:
’’ تم فتح مکہ کو فتح سمجھتے ہو اور ہم بیعت رضوان کو (اصل فتح ) سمجھتے ہیں‘‘۔
اس بیعت نے مسلمانوں کے جذبات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا تھا۔ ہر شخص کفن سر سے باندھے، حق کے لیے جان کی بازی کھیل جانے کے لیے تیار تھا اور اس میں کیف وسرشاری محسوس کر رہا تھا ؎
دست از طلب ندارم تاکار من برآید
یاتن رسد بہ جاناں یا جاں زتن برآید
عزم واستقلال کے اس مظاہرے نے قریش کے ہوش اڑا دیے___ اپنی ساری اکڑفوں اور کبرواستکبار کے باوجود وہ صلح پر آمادہ ہو گئے۔
لیکن، مسلمانوں کے لیے ابھی کچھ اور آزمایشیں بھی تھیں ۔ دارورسن کے لیے تو وہ آمادہ وتیار تھے ہی۔ لیکن نئی آزمایش ایک اور ہی نوعیت کی تھی!
اب انھیں ایک ایسی صورت کے لیے تیار ہونا تھا جس میں کمزوری اور شکست خوردگی کی سی کیفیت کا نمایاں اظہار تھا، جس کی وجہ سے کعبۃ اللہ کے دیدار سے آنکھوں کے مشرف ہونے کا جو امکان پیدا ہو گیا تھا، اس سے محرومی تھی۔ جذبۂ جہاد میں جو قدم آگے بڑھے تھے، ان کو حکمت الٰہی کے تحت پیچھے ہٹانا تھا___
یہ آزمایش جان لٹانے سے بھی زیادہ سخت تھی !
دعوت اسلامی کی اخلاقی قوت
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر غلط نکلی ! عروہ بن مسعود ثقفی قریش کے نمایندے کی حیثیت سے آیا اور صلح کی گفت وشنید کی۔ بظاہر عروہ بہت رکھ رکھائو سے معاملات طے کر رہا تھا۔ قریش کا سراُونچا رکھنے ، ان کی ضد پر پردے ڈالنے اور ان کی مٹی میں ملتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کے لیے اس نے ہر ممکن جتن کیے۔ اپنی بڑائی کو ظاہر کرنے کے لیے بہت سی نازیبا حرکتیں بھی کیں ۔ کبارصحابہ ؓ سے، جن میں حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت مغیرہ ؓ شامل تھے بدزبانی تک سے باز نہ آیا لیکن داعیانِ حق کے اس کیمپ میں جو منظر اس نے دیکھا، اس نے اس کے دل کو مسخر کر لیا ۔ کم تعداد اور نہتے مسلمانوں کا رعب اس کے دل ودماغ پر قائم ہو گیا، اور قریش کو شرائط پر آمادہ کرنے کے لیے اس نے ہر ممکن کوشش کی اور بالآخر کامیاب رہا۔
وہ کیا چیز تھی جس نے اس کے دل ودماغ کو مائوف کر دیا ؟ وہ کون سی قوت تھی جس کے آگے اس نے ہتھیار ڈال دیے ؟ صحابہ کرامؓ کی وہ کون سی خصوصیت تھی، جس نے مخالفین کو بھی خاموشی کے ساتھ مسخر کر لیا؟ عروہ ہی کی زبانی سنیے۔ قریش میں واپس جا کر وہ کہتا ہے:
اے قریش ، میں نے کسریٰ اور قیصر اور نجاشی جیسے باد شاہوں کے دربار دیکھے ہیں ۔ مگر خدا کی قسم! میں نے اصحابِ محمدؐ کو جس طرح محمدؐ کا فدائی دیکھا ہے، ایسا منظر کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے ہاں نہیں دیکھا۔ ان لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ جب محمدؐ وضو کرتے ہیں تو صحابہؓ آپؐ کے وضو کے پانی کی ایک بوند بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے___ پس، اب تم لوگ سوچ لو کہ تمھارا مقابلہ کس سے ہے؟ (سیرت ابن ہشام ، ص ۴۵۱)
قریش کے ہاں سنّاٹا چھا گیا ___ وہ کہنے لگے: ’’اے چچا ، جیسے تم مناسب سمجھتے ہو کرو‘‘۔
دیکھیے ! وہ کیا چیز ہے جس نے دلوں کو فتح کر لیا، مادی قوت نہیں، اسلحے کی سج دھج نہیں ، فوج کی تعداد نہیں ، ظاہری رعب ودبدبہ نہیں___ وہ چیز ہے اخلاقی قوت ، باہمی محبت___ یک رنگی، وحدت اور نظم واطاعت ! اخلاق کی قوت مادی طاقت اور ابلیسی سیاست پر غالب آئی اور بحث کے لیے صفحۂ تاریخ پر یہ فیصلہ ثبت کر گئی کہ :’’آخر ی فتح اخلاق ہی کی قوت کو حاصل ہوتی ہے ‘‘۔
رسولؐ اللہ ، کیا یہ الفاظ مٹائے سے مٹ جائیں گے !
اب آزمایش کا ایک دوسرا ورق کھلتا ہے۔ انسان کی نگاہ چند قدم ہی تک دیکھتی ہے لیکن حکمت الٰہی کے لیے زمان ومکان کی کوئی حد اور قید نہیں۔ انسان اپنی سمجھ اور خواہشات اور تمنّائوں کے مطابق فیصلے چاہتا ہے، لیکن مشیّت ربانی کی جو حکمت بالغہ کار فرما ہے وہ ہماری تمنّائوں کی پابند نہیں۔
مسلمانوں کا دل اب صلح سے زیادہ معرکے اور زیارت بیت اللہ کے لیے بے تاب تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کسی اور ہی طرف اشارہ کر رہی تھی۔
مسلمانوں کے لیے ایک بڑا ہی دل پاش پاش کر دینے کا لمحہ آیا، آزمایش نے ایک نیا رُوپ دھارا۔ صلح کی شرائط طے ہو گئیں، قریش کی طرف سے سُہیل بن عَمرو، ایک وفد کے ساتھ آیا اور حضوؐر سے گفت وشنید کے بعد منجملہ اور چیزوں کے یہ طے پایا کہ:
۱- دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی، اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ یا علانیہ کوئی کارروائی نہ کی جائے گی۔
۲- اس دوران میں قریش کا جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کے پاس جائے گا، اسے آپؐ واپس کردیں گے، اور آپؐ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا، اسے وہ واپس نہ کریں گے۔
۳- قبائلِ عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا، اسے اس کا اختیار ہوگا ۔
۴- محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] اس سال واپس جائیں گے اور آیندہ سال وہ عمرے کے لیے آکر تین دن مکّہ میں ٹھیر سکتے ہیں، بشرطیکہ نیاموں میں صرف ایک ایک تلوار لے کر آئیں، اور کوئی سامانِ جنگ ساتھ نہ لائیں۔ ان تین دنوں میں اہلِ مکّہ، ان کے لیے شہر خالی کردیں گے (تاکہ تصادم نہ ہو) مگر واپس جاتے ہوئے وہ یہاں کے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے جانے کے مجاز نہ ہوں گے۔
ان شرائط پر مسلمانوں میں ایک خاموش اضطراب ، ایک دبی ہوئی بے چینی اور ایک شدید گھٹن کی سی فضا پیداہوگئی تھی۔ کوئی شخص ان مصلحتوں کو نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ جنھیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دُور رس نگاہیں دیکھ رہی تھیں۔ پھر جب معاہدہ لکھنے کا آغاز ہوا توحضرت علی ؓ نے لکھنا شروع کیا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
سہیل نے کہا: ’’ہم اس کو پسند نہیں کرتے باسمِکَ اللّٰھم لکھو ‘‘۔
آپؐ نے فرمایا: ’’اچھا یہی سہی‘‘ ___
دوسرا جملہ تھا: من محمد رسول اللہ ___ سہیل نے پھراختلاف کیااور کہا: ’’اگر ہم آپ کو رسول اللہ مانتے تو جھگڑا ہی کیا تھا، ’’محمد بن عبداللہ ‘‘ لکھیے۔ مسلمانوں کے لیے یہ اعتراض ناقابلِ برداشت تھا۔ ان کی بے چینی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔
حضور ؐ نے حضرت علی ؓ سے کہا کہ ’رسول اللہ کے لفظ مٹا دو‘___ لیکن حضرت علی ؓ کے ہاتھوں کی جنبش رُک گئی۔ حضوؐر نے حکم دیا، مگر علی ؓ تعمیل نہیں کر پاتے ! آہ! محبت میں ایک ایسا مقام بھی آتا ہے کہ محبوب کی عزت اور مقامِ نبوت کی عظمت وعصمت کی خاطر اطاعت کیش ہاتھ پائوں بھی رُک گئے___ یہ عدم اطاعت نہیں تقدیس اور عظمت وعقیدت کا وہ نازک مقام ہے کہ جہاں اطاعت بھی محبت کے آگے سپر ڈال دیتی ہے۔ علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ ان الفاظ کو، جن کے لیے ساری دنیا کو چھوڑا تھا، کیسے مٹا سکتے تھے؟
حضوؐر اس پر خفا نہیں ہوئے، اپنے دست مبارک سے وہ الفاظ مٹا دیے اور محمد بن عبداللہ لکھ دیا۔ یہ تھی نبی برحق کی حکمت عملی ___ !
باطل پرستوں کی نادانی پر زمین وآسمان کی قوتیں خندہ زیرلب کے ساتھ گویا تھیں کہ ان الفاظ کے مٹانے سے کہیں حق مٹ سکتا ہے ! یہ تو محض ایک قانونی وسیلہ ہے تمھاری اس چھچھوری حرکت پر، اس میں کیا فرق پڑجائے گا۔ ایسے قانونی کرتب کہیں دعوت اسلامی کو بھی متاثر کرتے ہیں!
زمین وآسمان کے اس اعلان پر حق تعالیٰ نے خود شہادت دی:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ(الفتح ۴۸:۲۹ ) محمد، اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفّار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔
یہ زور دار اعلان قریش کی اوچھی حرکت کی کلّی تردید ہے ! قرآن کے ان تین اہم ترین مقام میں سے ایک، جہاں نام لے کر حضور ؐ کی رسالت کا اثبات واظہار نہایت قوت وتہدی کے ساتھ کیا گیا ہے ۔
لیکن یہ ساری باتیں تو کچھ بعد کی ہیں، فوری طور پر تو مسلمانوں کے جذبات میں شدید ارتعاش پیدا ہو گیا ۔ ان کی نگاہیں مستقبل کے دھندلکوں میں پوشیدہ کامیابیوںکو دیکھنے سے قاصر تھیں۔ وہ ان حکمتوں سے بھی ناواقف تھے، جو اللہ کے فیصلوں میں پوشیدہ ہوتی ہیں ___ ان کے سامنے تو غلبے کی اُمید کے بعد ظاہری کم زوری یا کھلے لفظوں میں ناکامی کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ وہ تو زیارتِ کعبہ کی توقعات کو ہوا میں تحلیل ہوتا دیکھ رہے تھے۔ وہ تو ظالموں کی بات کے وقتی طور پر بظاہر حاوی ہوجانے پر مضطرب تھے۔ وہ اپنی امیدوں کے ٹوٹنے پر پریشان اوربے چین تھے___ وہ آئے تو اس ارادے سے تھے کہ متکبروں کی اکڑی ہوئی گردن کو جھکا دیں گے یا قلم کر دیں گے ___ لیکن بظاہر انھیں نظر ا ٓ رہا تھا کہ اس گردن کے خم میں تو کچھ اور بھی کجی رُونما ہو گئی ہے۔
ابھی صلح نامہ پر آخری دستخط نہ ہوئے تھے کہ ایک مسلمان حضرت ابو جندل ؓ آئے۔ وہ مسلمان ہو چکے تھے۔ سہیل ان پر سخت مظالم کر رہا تھا۔ اس وقت بھی ہاتھ اور پائوں میں زنجیریں تھیں اور انھوں نے مسلمانوں کے سارے مجمعے کے سامنے اپنے زخم اور دھنکی ہوئی کمر دکھائی___ یہ منظر دیکھ کر سب کے دل دہل گئے، خون جوش میں آگیا۔ حضوؐر نے ابو جندل ؓ کو معاہدے سے مستثنیٰ کرانے کی بہترین کوشش کی، لیکن سہیل بن عَمرو اڑ گیا۔ بالآخر آپؐ نے معاہدے کی پابندی کی اور فرمایا:
’’ابو جندلؓ ، چند روز اور صبر کرو، اجر کی اُمید رکھو، عنقریب اللہ تعالیٰ تمھارے اور دوسرے مظلوموں کے لیے کشادگی پیدا کرے گا۔ میں مجبور ہوں کہ میں نے عہد کر لیا ہے اور عہد کے خلاف نہیں کر سکتا ‘‘۔ اور حضرت ابو جندلؓ کو پابہ زنجیر واپس جانا پڑا ۔
یہ آزمایش مسلمانوں کے لیے بہت کڑی تھی___ ذلت گوارا کریں اور پھر اپنے بھائیوں کو آنکھوں دیکھے ظالموں کے ہاتھ میںدے دیں۔
ہم دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں ؟
ان واقعات پر سب ہی مضطرب تھے، لیکن زبان کھولنے کی ہمت کسی میں نہیں ہورہی تھی، بالآخر حضرت عمر ؓ کو ضبط کا یارانہ رہا اور وہ بے چین ہوکر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اور بوجھل دل سے کہا: ’’کیا حضوؐر، اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟ پھر آخر ہم اپنے دین کے معاملے میں یہ ذلّت کیوں اختیار کریں؟‘‘
ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا: ’’اے عمر، وہ اللہ کے رسولؐ ہیں ، اور اللہ ان کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا‘‘۔
حضرت عمرؓ کا اضطراب ختم نہ ہوا، اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے :
عمر ؓ : یا رسولؐ اللہ ! کیا آپ پیغمبرؐ برحق نہیں ہیں؟
حضور ؐ نے فرمایا : ہاں، ہوں۔
عمر ؓ : کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟
فرمایا : ہاں، ہم حق پر ہیں۔
عمر ؓ : تو ہم دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں؟
فرمایا : میں خدا کا پیغمبرؐ ہوں اور خدا کے حکم کی نافرمانی نہیں کر سکتا ، خدا میری مدد کرے گا۔
عمرؓ: کیا آپؐ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم لوگ کعبہ کا طواف کریں گے؟
فرمایا: ہاں، لیکن یہ تو نہیں کہا تھا کہ اس سال ہی کریں گے۔ (بخاری، سیرت النبی ؐ ، از شبلی نعمانی، ص ۴۵۵-۴۵۶)
معاہدے کی تکمیل کے بعد آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ یہیں قربانی کی جائے لیکن جو کعبہ کی زیارت کی ولولہ انگیزتوقعات کے ساتھ نکلے تھے، جوببول تلے ابھی جاں نثاری کی بیعت کر چکے تھے، جو شہادت کو چشم تصور سے دیکھ رہے تھے اور خوش ہو رہے تھے، جو پرشوق اُمیدوں کے سہارے تخیل ہی تخیل میں معلوم نہیں کتنی بار کعبہ کا پروانہ وار طواف کر چکے تھے___ سکتے کے عالم میں تھے ___ ہر شخص دل شکستہ ، ہر جانباز پژمُردہ اور نااُمید ___ حضوؐر نے قربانی کے لیے کہا، مگر کوئی نہیں اٹھا ۔ تین بار زبانِ رسالتؐ سے اس خواہش کا اظہار ہوا ہے، لیکن پرستارانِ حق اور عازمین حرم کی توقعات ابھی بالکل نہیں ختم ہوئی تھیں۔ وہ ابھی تک سوچ رہے تھے کہ شاید اب بھی زیارت کی کوئی صورت نکل آئے ! حضوؐر بے چین ہوکر اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔ اُم المومنین حضرت اُمِ سلمہؓ سے فرمایا: میرے ان ساتھیوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ حضرت اُمِ سلمہؓ نے مشورہ دیا کہ آپؐ کچھ خیال نہ فرمائیں بلکہ خود اپنی قربانی کر دیں اور احرام اتارنے کے لیے بال منڈوا لیں۔ آپ نے باہر نکل کر اپنی قربانی کر دی___ اب آخری توقع بھی ٹوٹ گئی اورسب کو یقین ہوگیا کہ خدا کا فیصلہ آ چکا ہے۔ ہماری توقعات وخواہشات کچھ بھی ہوں لیکن اس سال ہم اپنے محبوب کی زیارت سے محروم ہی رہیں گے ___ ابھی کچھ دن اور صبر کرناہوگا، ابھی ہجر کی کچھ اور گھڑیاں باقی ہیں۔ زیارت محبوب کی تمنّا کو ابھی سوزِ قلب کی بھٹیوں میںاور پکانا ہوگا ؎
نالہ ہے بلبل شوریدہ، ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
جب یہ یقین ہو گیا تو اطاعت کا دریا پھر جوش میں آگیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے بعد سب نے اپنی اپنی قربانیاں پیش کر دیں اوراحرام اتار دیے۔
یہاں پر یہ گمان نہ ہو کہ اس نازک لمحے میں جاں نثارانِ محمد ؐ میں عدم اطاعت کا مرض پیدا ہوگیاتھا۔ ہرگز نہیں، اطاعتِ رسولؐ تو ان کا ایمان اور ان کی معراج تھی۔ اس کی وجہ صرف اضطراب اور پریشانی کے عالم میں زیارت کعبہ کی ایک آخری امید تھی___ توقعات ٹوٹ رہی تھیں، اضطراب بڑھ رہا تھا، لیکن اس اُمید شکن ماحول میں بھی بار بار یہ خواہش ابھر رہی تھی کہ کاش! کوئی صورت نکل آئے ___ اور اسی لیے قربانی کرنے میں ہچکچاہٹ تھی۔ لیکن جب یہ توقع بالکل ختم ہو گئی تو اس کے باوجود اطاعت میں کوئی کمی نہ رہی۔
ان سخت صبر آزما حالات میںبھی اطاعت کی مثال اگر دیکھنی ہے تو صلح نامہ پر دستخط کرنے والوں کی فہرست پر نگاہ ڈالیے۔ جب حضوؐر کی مہر اس پر ثبت ہوئی تو وہی عمر ؓ جو سخت مضطرب تھے، انھوں نے ایک اشارے پر اس معاہدے پر بطورِ گواہ دستخط کر دیے ہیں۔کیا اس اطاعت شعاری کا کوئی جواب ہو سکتا ہے!
جسے تم ذلّت سمجھ رہے ہو !
مسلمانوں کا یہ اضطراب حق کے جوش اور اس کی محبت میں تھا ، کسی جاہلی جذبے کی بنا پر نہیں تھا۔ اس لیے دیکھیے حق تعالیٰ اس پر نکیر فرمانے کے بجاے کس کس پیار سے ان کو سمجھاتا ہے۔ فرمایا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے اور اس میں بے شمار حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ ہم ہی نے تم کو ان کافروں پر فتح یاب کرنے کے بعد سرحد مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے تھے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس کو دیکھ رہا ہے:
وَھُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَھُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْھُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْم بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَکُمْ عَلَیْھِمْ وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاo (الفتح ۴۸: ۲۴) وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے، حالاں کہ وہ ان پر تمھیں غلبہ عطا کر چکا تھا، اور جو کچھ تم کر رہے تھے، اللہ اسے دیکھ رہا تھا۔
پھر سمجھایا جارہا ہے کہ اہل مکہ میںبہت سے چھپے ہوئے مسلمان ہیں جو اس وقت جنگ کی شکل میں مشکل میں پھنس جاتے بلکہ تمھارے ہی ہاتھوں قتل ہو جاتے۔ ہم نے تاخیر اس لیے کی ہے کہ وہ کھل کر دائرۂ حق میں داخل ہو جائیں:
وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَآئٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْھُمْ اَنْ تَطَؤُھُمْ فَتُصِیْبَکُمْ مِّنْھُمْ مَّعَرَّۃٌ م بِغَیْرِ عِلْمٍ ج لِیُدْخِلَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ج (الفتح ۴۸: ۲۵) اگر [مکّہ میں] ایسے مومن مرد و عورت موجود نہ ہوتے جنھیں تم نہیں جانتے، اور یہ خطرہ نہ ہوتا کہ نادانستگی میں تم انھیں پامال کردو گے اور اس سے تم پر حرف آئے گا (تو جنگ نہ روکی جاتی۔ روکی وہ اس لیے گئی) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جس کو چاہے داخل کرلے۔
حضوؐر نے ایک مختصر جملے میں کتنی بلیغ بات ارشاد فرمائی کہ ’’ میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اس سال ہی عمرہ کریں گے‘‘، یعنی خدا کا وعدہ سچا ہے ، لیکن اس کا وقت بھی متعین ہے۔ بے صبری اور جلد بازی اس راہ میں حرام ہے۔ اپنے وقت پر اس کا وعدہ لازماً پورا ہو گا۔ ہمارا یہ کام نہیں کہ خدا کے فیصلوںکے لیے وقت متعین کریں___ وہ اپنے ہر کام کو اس کے مناسب وقت پر خود انجام دیتاہے۔
مسلمانوں کو اس کا یقین دلایا جا رہا ہے کہ تمھاری مدد اور منکرین حق کی تعذیب کے لیے خدا کے لشکر ہر وقت تیار ہیں، پلک جھپکتے میںوہ فیصلہ کر دیں گے___ تاخیر خدانخواستہ کسی کمزوری کی بنا پر نہیں تھی، مصلحت اور حکمت اس کی وجہ تھی اور خدا کی ساری حکمتیں تمھارے سامنے نہیں تھیں:
وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًاo (الفتح ۴۸: ۴) اور آسمان اور زمین کے سب لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ جاننے والا ہے اور حکمت والا ہے۔
پھر بڑے لطیف انداز میں ان کو متوجہ کیا گیا کہ اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے، دنیا میں غلبہ ملانہ ملا___ یہ تو کوشش اور جدوجہد کا زمانہ ہے۔ اس میں نتائج کے بارے میں اتنے نازک طبیعت نہ ہو جائو ۔
ایمان واطاعت کی راہ میں بہت سے مراحل آئیں گے، تمھاری نگاہ ہر مرحلے میں رب کی رضا اور آخرت کی کامیابی پر ہونی چاہیے ___ یہی اصل کامیابی ہے:
لِّیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَیُکَفِّرَ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَکَانَ ذٰلِکَ عِنْدَ اللّٰہِ فَوْزًا عَظِیْمًاo(الفتح ۴۸: ۵) تاکہ مومن مردوں اور عورتوں کو ہمیشہ رہنے کے لیے ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور اُن کی بُرائیاں اُن سے دُور کر دے___ اللہ کے نزدیک بڑی کامیابی ہے۔
سمجھایا جا رہا ہے کہ اسلام نام ہے خوشی اور ناخوشی میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی پیروی کا۔ تمھاری توجہات کا مرکز یہ نہ ہو کہ کیا پایا ؟ یہ ہو کہ حکم کی اطاعت کہاں تک اور کس جذبے سے کی___ اگر تلوار اٹھانے کا حکم ہے تو اس وقت تلوار اٹھانا نیکی ہے،اور اگر تلوار کھینچ لینے کا حکم ہے تو اس وقت تلوار کھینچ لینا نیکی ہے۔ اگر زیارت کے لیے چلنے کا حکم ہے تو محبوب کی زیارت کا شوق دل ونگاہ کی تسکین کا سامان ہے اور اگر حکم مزید انتظار کا ہے تو سکون وراحت کا منبع ہجر اور لذتِ انتظار کو بن جانا چاہیے ع
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
نگاہ ہمیشہ اصل جو ہر پر رہے اور وہ یہ ہے کہ :
وَّمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَنْ یَّتَوَلَّ یُعَذِّبْہُ عَذَابًا اَلِیْمًاo (الفتح ۴۸: ۱۷) جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا، اللہ اسے جنتوں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی اور جو منہ پھیرے گا، اسے وہ دردناک عذاب دے گا۔
اس محبت بھری تفہیم کے بعد یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ تمھارے خلوص کی بنا پر ہم نے تمھارے دلوں پر سکینت نازل کر دی ہے، تا کہ پریشانی اطمینانِ قلب میں بدل جائے اور پھر جمعیت خاطر کی نعمت سے تم مالا مال ہو جائو ۔ یہ خدا کی مددونصرت کا ایک پہلو ہے___ اور نادانو! تم جس چیز کو ذلت سمجھ رہے ہو، وہ صرف تمھاری کوتاہ بینی ہے ، یہ تو ہم نے فتح کے لیے زمین تیار کی ہے۔ دعوت کے پھیلنے کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ غلبے کے امکانات روشن کیے ہیں اور ایک نہیں کئی کئی فتوحات تمھارے لیے مقرر کر دی ہیں ۔ بہت جلد تم کو خیبر میں فتح حاصل ہو گی، مال ودولت بھی ہاتھ آئے گا، اور پھر قریش پر غلبہ بھی حاصل ہو گا:
فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ وَاَثَابَھُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا o وَّمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَّاْخُذُوْنَھَا وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا o (الفتح ۴۸: ۱۸-۱۹ ) اور جو (صدق وخلوص ) ان کے دلوں میں تھا، وہ اس نے معلوم کر لیا تو ان پر تسلی اور سکینت نازل فرمائی اور انھیں جلد فتح عنایت کی___ اور بہت سی غنیمتیں جو انھوں نے حاصل کیں اور خدا غالب اور حکمت والا ہے۔
خلوصِ دل ، اطمینان قلب، دنیوی فتح اور مالی خوش حالی میں جو ربط وتعلق ہے، وہ ان آیات میں پوری طرح ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ توقعات کے حسین تاج محل اس لیے منہدم کیے جاتے ہیں کہ خلوص اور دل کی کیفیت معلوم کر لی جائے۔ اگر اس میں کھوٹ نہیں ہے تو پھر انعامات کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔ دل میں اطمینان القا کیا جاتا ہے، مادی وسائل فراہم کیے جاتے ہیں، اور بالآخر فتح وغلبہ عطا کیا جاتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، اور ہمیشہ رہے گی:
وَلَوْ قٰتَلَکُمْ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوْا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّلاَ نَصِیْرًا o سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا o (الفتح ۴۸: ۲۲-۲۳) اور اگر تم سے انکار کرنے والے لڑتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے پھر کسی کونہ دوست پاتے اور نہ مدد گار ۔ یہی خدا کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے، اور تم خدا کی سنت کو کبھی بدلتے نہ دیکھو گے۔
اپنے پیغمبر ؐ کو اس نے دین حق اور ہدایت دے کر بھیجا ہے اور اس لیے بھیجا ہے کہ اس دین کو تمام نظاموں پر غالب کر دے اور یہ ہو کر رہے گا ۔ حق ظاہر کرنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے:
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًاo(الفتح ۴۸: ۲۸) وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت کی کتاب اور دین حق دے کر بھیجا ہے، تا کہ اس کو تمام ادیان پر غالب کرے اور حق ظاہر کرنے کے لیے اللہ کافی ہے۔
اس لیے وہ چیز جسے مسلمان کمزوری سمجھ رہے تھے اور جس میں دین کی ذلت دیکھ رہے تھے، حق تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے اسے ’فتح مبین ‘قرار دیا:
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا(الفتح ۴۸: ۱) اے نبیؐ، ہم نے تم کو کھلی فتح عطا کردی۔
یعنی وہ صلح جس کو شکست سمجھا جارہا تھا، اللہ کے نزدیک وہ فتح عظیم تھی۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا: ’’آج مجھ پر وہ چیز نازل ہوئی ہے، جو میرے لیے دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ہے‘‘۔ پھر یہ سورت تلاوت فرمائی اور خاص طور پر حضرت عمرؓ کو بلا کر سنایا، کیوںکہ وہ سب سے زیادہ رنجیدہ تھے۔
اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت سن کر حضوؐر سے پوچھا : ’’یارسولؐ اللہ ! کیا یہی فتح ہے ‘‘۔
آپؐ نے فرمایا: ’ہاں ‘۔(ابن جریر)
ایک اور صحابیؓ حاضر ہوئے اور انھوں نے بھی یہی سوال کیا، تو آپؐ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، یقینا یہ فتح ہے‘‘۔(مسنداحمد، ابوداؤد)
یہی ارشاد تھا جس نے مضطرب دل کو مطمئن کر دیا ___ ایمان اور ہے ہی کیا ؟ اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات پر یقین واطمینان ___ اس کی تائید وتصدیق ___اور اس کے وعدے پر اعتماد اور پھر بھروسا!
اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ (یونس ۱۰:۵۵) اللہ کا وعدہ سچا ہے، مگر اکثر انسان جانتے نہیں۔
شکست ، فتح میں بدل گئی
بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ! یہی صلح جو بظاہر ذلت کا نشان معلوم ہوتی تھی دراصل فتح کا سبب ، اس کا پیش خیمہ اور ذریعہ بنی ___ ایک نہیں متعدد فتوحات کا ۔ !
پھر اگلے سال مسلمانوں نے پوری شان وشوکت کے ساتھ عمرہ کیا۔ چودہ سو کے بجاے دوہزار زائرین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے ۔ مشرکین مکہ کو چھوڑ کر چلے گئے اور وہی جنھیں مکہ سے نکالا گیا تھا، سینہ تان کر اور سر حضورِ رب میں جھکا کر لبیک اللّٰھم لبیک لا شریک لک لبیک کہتے ہوئے داخل ہوئے___ اللہ اللہ ، کیا منظر ہوگا! سات سال کے بعد ترسی ہوئی آنکھوں نے بیت اللہ کا دوبارہ نظارہ کیا ہو گا، سوکھے ہوئے ہونٹوں نے حجرِ اسود کو چوما، اورخشک زبانوں نے آب زم زم سے دہن ودل کی پیاس بجھائی ہو گی!
کفار نے یہ افواہ اڑا دی تھی کہ مسلمان کمزور ہو گئے ہیں۔ اسی لیے حکم ہوا کہ طواف میں جب ان مقامات سے گزر و جو مشرکین کے سامنے ہیں تو تیز تیز چلو ، سینہ تان کر چلو، کندھے ہلائو ، اور اپنی قوت اور شان وشوکت کا مظاہرہ کرو ___ آج تک یہ چیز مناسک حج کا جزو ہے ۔
مکہ میں مسلمانوں کا یہ داخلہ فتح مکہ کی ریہرسل تھا___ ایک ہی سال بعد مسلمان فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور اللہ کا وعدہ پورا ہو گیا … اور یہ چھٹی فتح تھی!
فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا(النساء۴:۱۹) عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کر و اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی پیدا کر دے۔
میں سورئہ فتح کا مطالعہ نہیں کر رہا تھا، تاریخ میری آنکھوں کے سامنے گردش کر رہی تھی اور دل ودماغ کے فتح ابواب کا کام انجام دے رہی تھی۔ نئے نئے گوشے میرے سامنے ابھر رہے تھے۔ میں نے ذرا غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سفر زیارت بیت اللہ کے لیے تھا، اسی کا اہتمام تھا، لیکن جو معاہدہ ہوا وہ خالص سیاسی تھا۔ دینی سفر کا سیاسی پہلو، زیارتِ کعبہ اور معاہدۂ صلح؟
اسلام میں دین وسیاست کس طرح ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ طواف کے وقت بھی مسلمانوں کے دبدبے کو قائم کرنے کا خیال___ معروف اصطلاح میں سیاست، لیکن اس مقدس مقام پر بھی اس کا لحاظ ! قربانی کے اونٹ لائے گئے تو ان میں ابو جہل کا اونٹ بھی تھا، تا کہ مسلمانوں کی قوت معلوم ہو اور مشرکین کو کڑھن ہو___کیا اسے بھی سیاست کہیں گے؟___ افسوس ! اسلام کا جو امتیاز تھا، اب اس پر کچھ کور ذہنوں کو وحشت و شرمندگی ہونے لگی۔ نبیِؐ برحق نے تو دین اور سیاست کو ایک وحدت میں اس طرح سمو دیا تھا کہ ان میں کوئی فرق باقی نہ رہا تھا، وہ ایک ہی حقیقت کے دوپہلو بن گئے تھے۔ اور حیرت اس بات پر کہ ’ کم کوشوں ‘ نے اس حقیقت کو گم کر دیا۔
منافقین کا رول اس موقعے پربھی وہی تھا، جیسا ہمیشہ رہا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ کا رسولؐ اور اس کے یہ ساتھی اب کیا واپس آئیں گے ___ خوش ہو رہے تھے___ چلو قصہ ختم ہوا، لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ آئے بھی اور فاتح بھی ہوئے اور منافقین آگ پر لوٹنے لگے۔ مخالفینِ حق کے اندازے اللہ تعالیٰ ہمیشہ غلط کرا دیتا ہے اور بالآخر ان کو ہزیمت اٹھانا پڑتی ہے۔
اہلِ حق کی محبت کا اصل سر چشمہ اللہ اور اس کے آخری رسولؐ کی اطاعت ہے۔ ان کی طاقت باہمی محبت واخوت اور باطل اور ظلم کے لیے سختی میں ہے۔ ان کی کامیابی کا راز اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے ، اس سے مغفرت طلب کرنے اور صرف اسی پر بھروسا کرنے میں ہے۔ فتح کی خوش خبری کے ساتھ ہی ان کے جو اوصاف بتائے جا رہے ہیں، وہ یہی ہیں:
اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْہِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ (الفتح ۴۸: ۲۹) وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں۔ تو ان کو دیکھتا ہے کہ خدا کے آگے جھکے ہوئے سربسجود ہیں اور اللہ کا فضل اور اس کی خوش نودی طلب کر رہے ہیں۔ کثرتِ سجود سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔
یہی وہ ہتھیار ہیں جن سے اہل حق اپنی لڑائی لڑتے اور بالآخر بازی جیتتے ہیں۔
___ ___ ___ ___ __
میں سورۃ الفتح کو پڑھ رہا تھا___ کئی بار اس کی تلاوت کی، میرے ذہن پر سے بوجھ اَب اُتر چکا تھا، تاریکیوں اور مایوسیوں کا ایک ایک پردہ اٹھ گیا اور اجالا پھیلنے لگا۔ میرے دل نے گواہی دی کہ حق کا پیغام باطل پرستوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود پھیلے گا اور ان شا اللہ غالب ہوگا۔ یہ نام کہیں مٹائے سے نہیں مٹتا !___ راہ میں نشیب وفراز تو بہت سے ہیں، لیکن آخری کامیابی حق ہی کی ہے___ اور ایک نہیں بہت سی کامیابیاں ہیں۔
حق سے وابستگی اور اس پر استقامت خود اپنی جگہ ایک کامیابی ہے۔ مایوسیوں کے عالم میں اللہ کی ذات بابرکات پر اطمینان اور اس کی سکینت کا نازل ہونا بھی ایک کامیابی ہے۔ نتائج سے بے پروا ہو کر حق کے لیے ڈٹ جانا ایک کامیابی ہے، پھر غلبۂ حق بھی ایک کامیابی ہے ___ اور سب سے بڑی کامیابی تو اللہ کا راضی ہو جانا ہے۔ اگر وہ حاصل ہو جائے تو سب کچھ حاصل ہو گیا !
غم اورپریشانی کے بادل اَب چھٹ چکے تھے، اطمینان اور سکون کی ایک نئی دولت سے دل مالا مال تھا، فَالْحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذٰلِکَ۔