جولائی ۲۰۱۷

فہرست مضامین

جدید فرعون کی جیل میں

محمد حامد ابوالنصر /ترجمہ: حافظ محمد ادریس | جولائی ۲۰۱۷ | یادداشت

Responsive image Responsive image

میں نے اپنی قید و بند کے دوران مختلف جیلوں میں وقت گزارا ہے، اور جیل نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ جیل کے تجربات بڑے کٹھن اور صبرآزما بھی تھے، مگر اس کے ساتھ ہی بڑے مفید اور ایمان افروز بھی۔ سزا سنائے جانے کے فوراً بعد ہمیں لیمان طرہ بھیجنے کا فیصلہ ہو گیا۔ مصری جیل خانے سختی اور بدبختی اور قیدیوں کے ساتھ ظلم و ستم کی وجہ سے بہت بدنام ہیں۔ جب انگریزوں نے اپنے سامراجی دور میں یہ جیل خانے تعمیر کیے، اس وقت بھی ان کی یہی شہرت تھی، مگر اُن سے آزادی حاصل کرنے کے بعد تو ان کی حالت اور بھی بدتر ہو گئی ہے۔ مصر میں جیلوں کے قوانین   (جیل مینؤل) اتنے غیر مہذب بلکہ غیر انسانی ہیں کہ کسی متمدن ملک میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قیدی کو بلاوجہ قدم قدم پر روحانی اور جسمانی اذیت پہنچانا ان بدنام قواعد و ضوابط کی اصل روح ہے۔

مصر کی جیلوں میں سیاسی قیدی کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے ہی حالات اور ایسے ہی  جیل خانوں سے ہمیں سابقہ پیش آیا، مگر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا مہربان اور مظلوموں کی پکار سننے والا اور ظلم سے نجات دینے والا ہے۔ اس نے اپنی خصوصی رعایت سے اسی تنگی میں فراخی پیدا فرما دی۔ کئی مرتبہ میں نے محسوس کیا جیسے رحمت خداوندی جیل خانے سے کہہ رہی ہو:  کُوْنِیْ بَرْداً وَّسَلَاماً عَلَی الْاِخْوَانِ الْمُسْلِمِیْنَ،’’یعنی اے جیل اخوان المسلمین کے لیے ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی کی جگہ بن جا‘‘۔

لیمان طرہ جیل کے صدر دروازے پر ہمارے کپڑے اتروا کر ہمیں جیل کا مخصوص لباس پہنا دیا گیا۔ یہ سیاہ رنگ کا پرانا لباس تھا جو جیل کے اندر تیار کیا گیا تھا۔ کثرت استعمال سے پھٹ چکا تھا اور سائز میں اتنا چھوٹا تھا کہ ستر بمشکل ڈھانپ سکتا تھا۔ ہمیں یہ بھی حکم دیا گیا کہ اپنی کوٹھڑیوں میں داخل ہونے سے پہلے اپنے جوتے اتار دیں، چنانچہ ہم ننگے پائوں داخل ہوئے۔

 ہمیں ایک ہی بلاک میں رکھا گیا مگر تین تین کی ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ میں اسے اپنی خوش قسمتی اور سعادت سمجھتا ہوں کہ مجھے جناب مرشد عام حسن الہضیبی اور جناب عبدالعزیز عطیہ کے ساتھ ایک کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا۔ یہ دونوں بزرگ عمر رسیدہ تھے۔ مجھے  اللہ تعالیٰ نے ان کی خدمت کا موقع عطا فرمایا۔ اس جیل میں اسیوط کے لوگوں نے جس محبت اور خلوص کے ساتھ اخوانی قیدیوں کی عزت و تکریم کی اسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ اسیوط کے یہ لوگ جیل میں دیگر مقدمات میں قید بھگت رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جزاے خیر دے کہ ان مشکل اور نازک گھڑیوں میں انھوں نے اللہ کے سپاہیوں کی عزت و تکریم کی۔ کچھ دنوں کے بعد جیل میں ہماری مشقت کا فیصلہ ہو گیا۔ ہمیں پتھر کوٹنے کی مشقت دی گئی۔ اخوان نے اس مشقت میں بھی حسن اور خیر پیدا کردیا۔ پتھر کوٹتے ہوئے وہ عجیب لے میں تلاوت قرآن کا اہتمام کرتے۔ کبھی کبھار جرأت و حمیت سے مملو اشعار اور ترانے پڑھتے۔

تمام قیدی اخوان کو بڑی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ بعض ملازمین بھی   اخوان کے بڑے قدرشناس تھے۔ میں جیل میں قید کے دوران میں کھیلوں میں بھی حصہ لیا کرتا تھا۔ جوڈو کراٹے کے فن سے بھی واقف تھا۔ ان کھیلوں کے دوران میں اپنے سر پر اپنے علاقے کے مخصوص انداز میں بڑی سی پگڑی باندھ لیتا تھا اور دائیں اور بائیں پھرتی سے حرکت کرتا تھا۔ میرے ساتھ کھیل میں حصہ لینے والے قیدی بھی میری مہارت کے قائل تھے اور جناب مرشد عام بھی بڑے شوق اور محبت سے میرا کھیل دیکھتے اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ جہاں جیل میں کبھی کبھار کچھ نرمی ہو جاتی تھی وہاں سختی اور شدت کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ ان سب حالات میں تمام اخوان اور خاص طور پر مرشد عام بڑی پامردی سے آزمایش کا مقابلہ کرتے رہے۔

اس صورتِ حال میں جیل کے حکام ہمیں لوہے کی بیڑیاں پہنا دیا کرتے تھے۔ یہ بیڑیاں بڑی تکلیف دہ ہوتی تھیں۔ لوہے کا ایک بڑا سا حلقہ میری کمر میں ڈال دیا جاتاتھا، جس کے ساتھ دونوں جانب دو سلاخیں ہوتی تھیں۔ ان دونوں سلاخوں کے نچلے سرے پر بیڑیاں ہوتی تھیں، جنھیں پائوں میں ڈال دیا جاتا تھا۔ جیلوں کے اندر بیڑیاں خطرناک مجرموں ہی کو پہنانے کی اجازت تھی، جن کے بھاگ جانے کا خطرہ ہو یا جو جیل کے اندر بھی مختلف اخلاقی و قانونی جرائم کے مرتکب ہوتے ہوں مگر اخوان کے ساتھ یہ معاملہ انتقاماً کیا گیا۔

لیمان طرہ میں چھے مہینے گزارنے کے بعد ہمیں بیرونی قید خانے میں منتقل کر دیا گیا۔ ہمارے ساتھ قتل کے جرم میں قید کئی زندانیوں کو بھی منتقلی کا حکم دیا گیا۔ یہ خارجی جیل مغربی صحرا کے وسط میں اسیوط سے تقریباً ۲۴۰ کلومیٹر دور تھی۔ یہ جیل پختہ عمارت کے بجاے خیموں پر مشتمل تھی۔ قیدی بھی خیموں میں رکھے جاتے تھے اور جیل حکام کی قیام گاہیں بھی خیموں سے ہی بنائی گئی تھیں، تاہم باہر کی چاردیواری بلند و بالا فصیل کی شکل میں بنائی گئی تھی، جس میں مناسب فاصلوں پر نگرانی کے لیے برج بنے ہوئے تھے۔ پہلی رات جب ہم اس جیل میں پہنچے تو داروغہ جیل نے حکم دیا کہ ’’اخوان کو لوہے کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے تاکہ وہ جیل سے بھاگ نہ سکیں۔‘‘ ہم نے زنجیروں میں جکڑے جانے پر احتجاج کیا اور زنجیریں پہننے سے بالکل انکار کر دیا۔ ہم نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو اس حکم کی تعمیل نہیں کریں گے۔ جب یہ صورت حال پیدا ہوئی تو جیل میں موجود افسروں نے اپنے بالائی حکام سے رابطہ قائم کیا تو انھوں نے جواب میں کہا کہ زنجیریں پہنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس طویل و عریض صحرا میں دور دور تک نہ کوئی آبادی ہے نہ کوئی  آدم زاد۔ اگر کوئی قیدی اس جیل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائے تو وہ بھاگ کر کہیں نہیں پہنچ سکتا۔ داروغہ جیل نے عذر پیش کیا کہ اسے وزارت داخلہ کی طرف سے یہ احکام موصول ہوئے ہیں۔   اس پر علاقے کے گورنر نے وزیرداخلہ زکریا محی الدین سے رابطہ قائم کیا اور اسے اطمینان دلایا کہ اس جیل سے کسی کے بھاگنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس طرح یہ بلاے ناگہانی سر سے ٹل گئی۔

تفتیشی افسروں کے ذریعے سے اخوان کے اہل و عیال کو بھی بے پناہ آزمایشوں سے گزارا گیا۔ اخوان کے لیے جیل سے نکلنے اور ان مشکلات سے نجات پانے کی ایک ہی سبیل تھی اور وہ یہ کہ ناصر کے حکم کے سامنے سر جھکا دیں مگر اخوان نے اس سے انکار کر دیا۔ سب سے مشکل مرحلہ وہ تھا، جب کہ بعض اخوان کی بیویوں پر دبائو ڈالا گیا اور انھوں نے اپنے شوہروں سے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ اس صورت حال سے نکلنے کے لیے بعض اخوان نے ہتھیار ڈال دیے اور بادل نخواستہ تائیدی بیانات پر دستخط کر دیے، مگر اللہ کا شکر ہے کہ اخوان کی غالب اکثریت اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔

اخوان پر جو مظالم ڈھائے گئے انھیں برداشت کرنا آسان کام نہیں تھا۔ ظلم و طغیان کے سامنے اخوان عزیمت کا پہاڑ ثابت ہوئے۔ طاغوتی قوتیں نہ انھیں جیل کے اندر سرنگوں کر سکیں اور نہ جیل کے باہر ان کے حوصلوں کو شکست دے سکیں۔ اخوان نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس قول کو عملی جامہ پہنا دیا: ’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔‘‘

جیل میں میرے مشاہدات بڑے عجیب و غریب رہے۔ اخوان مشکلات میں بھی مایوس نہیں ہوئے تھے بلکہ وہ موقع و محل کے مطابق لطائف کا تبادلہ بھی کرتے اور تبسم کے پھول بھی کھلاتے۔ میں نے اپنی بیاض میں بعض واقعات درج کیے ہیں۔ جیل میں سرکاری طور پر میلاد النبیؐ کی تقریب منعقد ہوتی تھی۔ اس میں تقاریر کے علاوہ نمایش اور بازار بھی لگتا تھا، جس میں قیدیوں کی بنی ہوئی چیزیں پیش کی جاتی تھیں۔ اخوان بھی ان نمایشوں میں حصہ لیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ   ہم نے اپنا سٹال لگا رکھا تھا جس پر ہماری مصنوعات رکھی ہوئی تھیں۔ داروغہ جیل نمایش میں سے گزرتے ہوئے ہمارے سٹال پر آیا اور مختلف چیزیں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایک نہایت عمدہ تولیہ  اُٹھا کر پوچھنے لگا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ اس وقت وہاں اخوان کے ایک اہم رکن جناب احمد امام کھڑے تھے۔ انھوں برجستہ جواب دیا: ’’یہ تولیہ ہے اور بڑے اعلیٰ معیار کا ہے۔ سر کو یوں صاف کرتا ہے کہ دماغ کا غسل بھی ہو جاتا ہے‘‘۔ ان کی اس بات میں اس جانب اشارہ تھا کہ اخوان کی برین واشنگ کی سرکاری کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں اور نہ کبھی اخوان ناصر کی تائید کر سکتے ہیں۔ ان کا یہ لطیف جواب سن کر سبھی حاضرین محظوظ ہوئے۔

جیل کے پُرآشوب دور میں برادر محترم عمر تلمسانی کی مضبوط شخصیت اخوان کے لیے بڑا سہارا تھی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی پُرتاثیر زبان عطا فرمائی تھی کہ آپ کے درس قرآن اور لیکچر ہمیشہ ہمارے سامنے امید کی شمع روشن رکھتے اور ہمیں ثابت قدمی کی قوت فراہم کرتے تھے۔ آپ نے اخوان کے دلوں میں یہ بات راسخ کر دی تھی کہ ظلم کی تائید کسی صورت بھی نہیں کی جا سکتی۔  ناصر کو جناب تلمسانی سے خاص طور پر چڑ تھی، چنانچہ آپ کی ۱۵سالہ مدتِ قید پوری ہو گئی تو بھی  آپ کو رہائی نہ ملی۔ آپ کی فائل پر ناصر نے سرخ قلم سے لکھ رکھا تھا کہ اسے ہرگز رہا نہ کیا جائے۔ آپ پوری سزا بھگتنے کے بعد بھی کئی سالوں تک جیل میں رہے۔ ناصر کی وفات کے ایک سال بعد دیگر اخوانیوں کے ساتھ آپ کو رہائی ملی۔

محاریق کے جیل خانے میں داروغہ جیل کا بنگلہ جیل کے بالکل درمیان میں تعمیر کیا گیا تاکہ وہ دن رات اخوان پر کڑی نظر رکھے اور ان کے بھاگنے کا کوئی امکان نہ رہے۔ حکومت نے اخوان کو مشقت میں مبتلا رکھنے کے لیے جیل کے قریب ہی ایک بہت بڑا زرعی فارم قائم کیا۔ اخوان کو ہرروز اس فارم پر مشقت طلب زرعی کام کرنے پڑتے تھے۔ اخوان صبح و شام فارم پر جاتے اور واپس آتے ہوئے کسیاں اور کدال اپنے کندھوں پر اٹھائے نظر آتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اس محنت و مشقت پر نہ کبھی ہم نے شکوہ کیا نہ اسے اپنی توہین سمجھا۔ ہم نے پامردی کے ساتھ اسے برداشت کیا۔ وہ دور اس لحاظ سے یادگار دور ہے کہ ہم مشقت بھی کرتے تھے اور قرآن مجید کی تلاوت اور حفظ کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ اسی دوران ایک دن ایک دل چسپ واقعہ پیش آیا۔ کھیتوں میں ہمارے اوپر سرکاری نگران مقرر ہوتے تھے۔ ایک دن ایک نگران نے مشہور عالم دین جناب شیخ احمد شریت سے کہا: ’’حضرت! کہاں آپ کا مقام ِرفیع اور کہاں یہ ذلت آمیز مشقت؟ وہ جو مشہور مثل ہے کہ جس ملک میں بچھڑے کی پرستش ہوتی ہو وہاں بچھڑے ہی کو پوجنا چاہیے‘‘۔    یہ بات سن کر شیخ شریت غصے سے لال سرخ ہو گئے اور جواب دیا: ’’ذرا منہ سنبھال کر بات کرو۔ میں ان لوگوںمیں سے نہیں ہوں جو ہوا کے رخ چلتے ہیں۔ میں اس بچھڑے کا سر نہ کاٹ دوں  جس کی پرستش کا مجھے حکم ملے۔‘‘ یہ مکالمہ عبدالناصر تک پہنچا تو بہت غضب ناک ہوا اور شیخ شریت کے بارے میں اس نے خصوصی احکامات جاری کیے، چنانچہ آپ پندرہ سال کی سزا کاٹنے کے بعد بھی جیل سے رہا نہ کیے گئے۔ آپ کا جنازہ جیل ہی سے اٹھا۔ اللہ آپ کو اپنی وسیع رحمت سے ڈھانپ لے اور آپ کے درجات بلند کرے، آمین!

اس جیل خانے میں کھیتوں سے آنے کے بعد پورا وقت ہمیں کال کوٹھڑیوں میں بند رکھا جاتاتھا۔ ہمارے اوپر بڑی سختیاں کی جاتی تھیں، مگر ہم اللہ کی رحمت کو نازل ہوتے ہوئے اپنی آنکھوںسے دیکھتے تھے۔ جب کبھی ابتلا و امتحان میں اضافہ ہو جاتاتھا نزول رحمت میں بھی تیزی آجاتی تھی۔ ایک مرتبہ سارجنٹ نوبٹ جی درزی خانے میں گیا اور درزی خانے کے انچارج اخوانی ڈاکٹر علی شہوان سے کہا کہ: ’’میرا یہ سوٹ فوراً درست کر دو‘‘۔ انھوں نے جواب دیا کہ: ’’آپ یہ سوٹ یہاں چھوڑ جائیں جب باری آئے گی تو اس کی مرمت کر دیں گے اور چار دن کے بعد یہ تیار ہو گا‘‘۔ سارجنٹ یہ سن کر آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے داروغہ جیل کے سامنے شکایت کر دی۔ داروغہ جیل نے آئو دیکھا نہ تائو فوراً حکم صادر کر دیا کہ قیدی موصوف کو قصوری چکی میں بند کر کے سخت ترین تشدد کی سزا دی جائے۔ جب ہم نے یہ خبر سنی تو ہم نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی التجا پیش کی اور   اس سے دعائیں مانگیں کہ وہ ہمارے بھائی کی حفاظت فرمائے۔ جب آدھی رات کا وقت ہوا تو ہمارے ساتھی ڈاکٹر علی شہوان کی کوٹھڑی کے سامنے جیل کا ایک ملازم آیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ داروغہ جیل کے گھر تک چلیں۔ جب ڈاکٹر صاحب داروغہ کے گھر گئے تو دیکھا کہ اس کا چھوٹا بچہ سخت تشویش ناک حالت میں ہے۔ اس نے اپنی ماں کی دوائی غلطی سے بڑی مقدار میں پی لی تھی اور موت کے منہ میں جا پہنچا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کا علاج کیا اور اللہ تعالیٰ نے بچے کو موت کے منہ سے بچا لیا۔ اگلی صبح داروغہ جیل نے یہ واقعہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے سامنے بیان کیا تو اس نے کہا: ’’کل آپ نے جس اخوانی کو سزا دینے کا حکم صادر کیا تھا شاید اسے قرآن مجید کی کچھ چھوٹی چھوٹی سورتیں یاد تھیں۔ اگر کبھی آپ نے ایسے اخوان کو سزا دے ڈالی جو پورے قرآن مجید کے حافظ ہیں تو پھر آپ کا کیا حال ہوگا؟‘‘ یہ سن کر داروغہ جیل نے کہا: ’’آئو ابھی اسی وقت اخوان سے ملاقات کریں‘‘۔ چنانچہ اسی وقت داروغہ صاحب ہمارے پاس آئے اور ہم سے اپنی غلطی پر معذرت کی۔

اس واقعے کے بعد اس جیل میں ہمارے ساتھ کبھی بدسلوکی نہیں ہوئی۔ اس طرح سے  اللہ تعالیٰ کی رحمت یوں ہمارے شامل حال ہوتی تھی کہ ہم حیران رہ جاتے۔ ہم اس کی راہ میں ماریں کھا رہے تھے، لہٰذا ظاہر ہے کہ وہ خود ہماری مدد کر رہا تھا اور ایسے راستوں سے ہماری مدد فرماتا جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ ہوتے تھے۔ اس نے سرکش جابروں کو ہمارے سامنے سرنگوں کر دیا۔ اس نے ہمارے مانگے بغیر بھی ہمیں نوازا۔ اس کی عطاکا کوئی شمار نہیں اور اس کی نعمتوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔(وادیِ     نیل  کا    قافلہ     سخت    جاں، ص ۲۷۲-۲۸۱)