ڈاکٹر طاہر مسعود


عہد حاضر میں جدید تہذیب اور جدید طرزِ زندگی نے آج عموماً ہمارے اصلاح پسند لوگوں میں جو خرابیاں پیدا کردی ہیں، ان میں تین بیماریاں سب سے مہلک ہیں جو خود دینی روح کی نفی کرتی ہیں۔ ان میں ایک تو خود رائی اور انانیت، دوسرے مصلحت پسندی، اور تیسرے دوسروں سے بے گانگی و بے حسی ہے۔

یہ عوارض انسانی معاشرت کے لیے ضرررساں ہیں۔ انھی روّیوں سے معاشرے کا امن و سکون درہم برہم ہی نہیں ہوتا، بلکہ کش مکش اور تصادم کی ایسی فضا ہموار ہوتی ہے، جس میں ہرفرد اپنی ذات اور اپنے مفادات کا اسیر ہوجاتاہے، اور وہ اعلیٰ اقدار و روایات جن سے کسی معاشرے کا حُسن قائم ہوتاہے، بتدریج مٹ جاتی ہیں۔اگر یہ خامیاں نہ ہوں تو باہمی میل جو ل اور تعلقات میں محبت، رواداری اور برداشت و تحمل کی اعلیٰ صفات اور خوبیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پرانی معاشرت میں وضع داری، انسانی تعلق کا پاس و لحاظ، ایثار و محبت اور رواداری کی خوبیوں کا توازن مثبت پلڑے میں تھا، جن کی وجہ سے اُس زمانے میں نفسا نفسی اور آپی دھاپی کی ویسی فضا نہ تھی جس کا تماشا ہم آج کی نئی معاشرت میں آئے دن دیکھتے رہتے ہیں۔

جن عوارض کا ذکر کیا گیا، ان کے اسباب کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس صورت حال کا بھی ادراک کرنا ہوگا، جو آج کے انسان کا جبر ہے۔ نئی معاشرت اور نئی جدید تہذیب، یہ سب سائنس و ٹکنالوجی کے فراہم کردہ وسائل و تعیشاتِ زندگی سے عبارت ہے۔ یہ تہذیب بنیادی طور پر مشینوں پر انحصار کرنے کی وجہ سے ایک مشینی اور میکانکی تہذیب ہے، جو خود اپنی اقدار پیدا کرتی ہے۔ اقبال نے اسی لیے مشینوں کی حکومت کو’دل‘کی موت سے تعبیر کیا تھا۔

مشینیں احساسات و جذبات سے عاری ہوتی ہیں۔ جدید تہذیبی زندگی کا انحصار جیسے جیسے مشینوں پر بڑھتا جاتاہے اور انسان ان مشینوں سے حاصل ہونے والی سہولتوں اور آسائشات سے زیادہ سے زیادہ سے بہرہ ور ہونے کے لیے ان کو اپنی ذات اور خاندان کے لیے ناگزیر تصور کرنے لگتا ہے، وہ مجبور ہوجاتاہے کہ ان کے حصول کے لیے اپنی دولت اور آمدنی میں ا ضافے کے لیے خود مشین بن جائے۔ آج کار، ایئرکنڈیشنڈ، واشنگ مشین، فریج، مائیکرو یو اوون، ٹیلی وژن، کمپیوٹر، اور اس نوع کی دوسری مشینیں جو زندگی میں آسانیاں پیدا کرتی ہیں، بنیادی اور ضروری   بن چکی ہیں۔ ان کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور محال ہوتا جارہاہے۔

ان وسائل کی موجودگی سے جہاں سہولتیں اور آسانیاں حاصل ہوتی ہیں، وہیں ان کے حصول کے لیے آدمی کو کسب معاش کی تدابیر کرنی پڑتی ہیں کہ معاشرے میں انھی سے اس کا سماجی مرتبہ اور ’اسٹیٹس‘متعین ہوتاہے۔ جب جدید شہری معاشرہ دولت اور اسٹیٹس کی دوڑ میں شریک ہوجاتا ہے تو اس میں کامیابی کے لیے اسے اعلیٰ اقدار و روایات جو دوسروں کے لیے خیر خواہی ، ایثار و قربانی ، محبت و مروت، تحمل و برداشت وغیرہ سے عبارت ہوتی ہیں، بدقسمتی سے انھیں خیر باد کہنا پڑتا ہے۔چوں کہ اس ساری مسابقت و مقابلے کا محور و مرکز اپنی ذات اور اپنا گھرانا اور اس کے مفادات ہوتے ہیں،ا س لیے مقابلے میں جیتنے کی شرط ہی خود غرضی، مفاد پرستی ، بے حسی و بے گانگی وغیرہ ہوتی ہے۔

چناںچہ، ہمیں جو اقدار و روایات آج بھی چھوٹے شہروں اور قصبات میں نظر آتی ہیں، ان کے مظاہر بڑے شہروں کی مصروف و مشینی زندگی میں ناپید دکھائی دیتے ہیں۔ گویا جن عوارض کو آج کے انسانوں میں ہم نے ’مہلک بیماری‘سے تعبیر کیا، وہ آج کی شہری زندگی کی مجبوری بھی ہے اور مقدر بھی۔ چھوٹے شہروں اور قصبات و دیہات میں آج بھی لوگوں کے پاس وقت کی فراوانی ہے، اور مہرو محبت اور خلوص کے جذبات ہیں جن کا اظہار مہمان نوازی اور تواضع کی صورت میں وہاںکیاجاتاہے۔ ایسی مہمان نوازی ، دل داری اور تواضع کی توقع آج کے شہری آدمی سے نہیں کی جاسکتی۔ گویا انسان اپنے ماحول کا اسیر ہوتاہے اور یہ ماحول کا جبر ہوتاہے جس میں انسان اپنی خوبیوں یا خامیوں کی نشوونما کرتاہے۔

لہٰذا، شہری زندگی اور مسائل میں گھرے ہوئے آدمی کی جانچ پرکھ کے لیے ان عوامل کو نظر میں رکھا جانا چاہیے۔ آج کا ایک عام شہری جو روزگار کی مجبوری میں صبح گھر سے نکلتا ہے، طویل فاصلے کو طے کرکے، ٹریفک کے ہجوم اور بدنظمی سے ذہنی کوفت و اذیت کو جھیلتے ہوئے دفتر یا کاروبار کے لیے پہنچتا اور پھر شام تک سر کھپا کر واپس ایسی ہی اذیتوں کو سہتے ہوئے گھر لوٹتا ہے، جہاں پہلے سے اُلجھنیں اور پریشانیاں اسے گھیرنے کے لیے تیار بیٹھی ہوتی ہیں۔ ایسے پریشاں حال آدمی سے اعلیٰ اخلاقی صفات کی اُمید رکھنا بجاے خود کم فہمی ہے۔

اس لیے آج کے شہری انسان کو نصیحتوں اور مشوروں کی نہیں، مدد کی ضرورت ہے ۔ پہلے اسے ان بکھیڑوں اور الجھنوں سے نجات دلانے کی ضرورت ہے، جن میں اُلجھ کر وہ دانستہ یا نادانستہ اپنی اخلاقی صفات کھو  بیـٹھا ہے یا ان کی نشوونما کرنے اور انھیں اُبھارنے کی طرف سے غافل ہے۔ آج کا شہری انسان ’مظلوم‘ہے۔ اسے ’ظلم‘ کے شکنجے سے نکالے بغیر اس سے اچھا انسان بننے کی توقع ایسی ہی ہے، جیسے ایک کمزور و بیمار انسان کو بستر پر پڑا دیکھ کر اسے کاہلی اور بے عملی کا طعنہ  دیا جائے۔ جب وجود کی بقا ایک سوال بن جائے تو انانیت اور خود رائی کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ جب آسایشات اور ضروریات ہی زندگی کی مجبوری یا اوّلین ترجیح بن جائیں تو مصلحت و مفاد پرستی پر اعتراض کو وزن دینے کے لیے کوئی آمادہ نظر نہیں آتا۔ جب تہذیب و معاشرت میں ترقی کے لیے یکساں مواقع، عدل و انصاف اور سیاسی و معاشی نظام میں انسانی ہمدردی، خیر خواہی اور مساوات کے اصول و ضابطے ناپید ہوجائیں، تو افراد اور معاشرے میں بے حسی اور بے گانگی کا پیدا ہوجانا کوئی تعجب خیز امر نہیں رہتا۔

جب کسی معاشرے میں ماحول اور مسائل کے جبر کے تحت انسان زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجائے تو اس کی شخصیت دولخت ہوجاتی ہے۔ وہ اعتقادات کی سطح پر ایک الگ زندگی اور معاملات کی سطح پر ایک بالکل مختلف و متضاد طرز عمل اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج معاشرے میں عقیدہ و عمل میں تضاد پیدا ہوگیا ہے۔ ہم جو عقیدہ اور اخلاقی تصورات اپنے ذہن میں رکھتے ہیں، ان عقائد اور اخلاقی تصورات کی روشنی میں معاملات کرناچاہیں بھی تو نہیں کرپاتے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ جو لوگ درس قرآن ، درس حدیث اور وعظ و تلقین کی مجلسوں میں اچھے اور نیک خیالات سن کر اپنے اندر سے اپنے ذہن ، ضمیر اور دل سے ان سچائیوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ مدرس کے حکیمانہ نکتوں پر ’واہ واہ،سبحان اللہ‘ کے ڈونگرے بھی برساتے ہیں، لیکن ان پاکیزہ جذبات سے سرشار مجلسوں سے نکل کر بھی اکثر ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں، اور چند استثنائی مثالوں کے سوا ان کے عملی معاملات میںکوئی واضح اور قابلِ ذکر تبدیلی جڑ نہیں پکڑتی۔ اس حقیقت کو سمجھے بغیر یہ بات قابلِ فہم نہیں ہوسکتی کہ اگر محض وعظ و تلقین سے انسان بدلے جاسکتے تو آج سارے انسان نیکوکار ہوتے۔ یہ بات کہنے کا مقصد وعظ ، تلقین اور تبلیغ کی افادیت اور اہمیت کا انکار نہیں، بلکہ ان کے ساتھ دیگر پہلوئوں کی جانب توجہ دلانا مقصود ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ انسان اندر سے بھی بدلتا ہے اور باہر سے بھی۔ اگر معاشرتی ، معاشی اور سیاسی نظام اَبتر و مایوس کن ہو تو ایسے نظام کے زیر اثر دکھ، اذیت اور ظلم سہتے انسان کو محض اچھی توقعات کے بَل پر اچھا نہیں بنایا جاسکتا۔ ایسے انسان کو مشورے سے زیادہ ، مدد کی ضرورت ہے۔ مدد کے بغیر مشورہ دینا اور نصیحت کرنا کم فہمی کے ساتھ خود ناصح کی بے حسی ہے کہ جن مریضوں کو وہ ناصحانہ دوائیں تجویز کررہا ہے ، ان کے مرض کے اصل اسباب سے ہی بے خبر ہے یا انھیں جاننے میں وہ غلطی کا مرتکب ہورہا ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایک سب سے اہم اور بڑا مسئلہ مذہب یا دین کے احکامات اور تعلیمات کا فرد کی زندگی میں عملی نفاذ ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ قولی سطح پر مسلمان کہلانے کے باوجود عملاً ہمارے معاملات، دین او ر اس کی تعلیمات کی پیروی کی ترجمانی نہیں کرتے۔ز بان اور قول و قرار سے تو بلاشبہہہم یہ ثابت کرتے ہیں کہ اپنے دین سے ہماری محبت اور عقیدت بہت زیادہ ہے۔ ایک مذہبی اور دین دار آدمی کی شخصیت کو دوسروں کی نگاہوں میں جتنا پسندیدہ ، بلکہ محبوب ہونا چاہیے، بہ ظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ بسااوقات وہ خود بھی عام لوگوں کے درمیان کسی قدر اجنبی ہوجاتاہے۔ ایسا کیوں ہے؟ آئیے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جب بندہ آزادی سے مذہب یا دین کو اختیار کرلیتا ہے تو دراصل وہ اپنی آزادی سے دست بردار ہوکر خود کو الٰہی احکامات کے تابع بنانے کا عہد کرلیتا ہے ۔ کلمہ پڑھنے کا یہی مطلب ہے کہ بندہ ’عبد‘ ہے اور اللہ ’معبود‘ ہے۔ ’عبد‘ کے معنی غلام کے بھی ہیں اور بندے کے بھی۔ اسی لیے جب غلام خود کو آقا کے تابع فرمان بنائے تو پھر آقا کے احکامات کی تعمیل اس پر لازم ہوجاتی ہے۔

 بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ غلام، آقا کو آقا بھی تسلیم کرے، عبد ، معبود کو معبود بھی مانے اور ماننے کے باوجود غلام، آقا کے احکامات پر عمل پیرانہ ہواور عبد، معبود کی عبادت نہ کرے؟ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ یہ ماننے کے باوجود کہ ’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ‘‘ اللہ کی عبادت سے ارادی یا غیر ارادی گریز کیا جارہا ہے۔ دراصل یہ ’ماننا‘ حقیقی معنوں میں ماننا ہے ہی نہیں۔  اس لیے کہ یہ اقرار و اعلان ایک طرح سے ایک عہد اور ایک وعدہ ہے، جسے ہر صورت میں وفا    ہونا چاہیے لیکن اگر اعلان کرنے والا خود اپنے ہی وعدے کو وفا نہیں کرتا تو پھر یہ بے عملی ہے،  غفلت بھی ہے اوردین کے احکامات کو ماننے سے عملاً انکار و انحراف بھی۔

کیا ایسے بندے یا غلام کی بندگی اور غلامی مستند اور لائقِ اعتنا ہے؟ یقینا نہیں۔

یہاں قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ بندہ زبان سے اقرار و اعتراف کرکے اور دل سے اللہ کی بڑائی اور معبود کو لائقِ عبادت ماننے کے باوجود اپنے عمل سے اس کی گواہی کیوں نہیں دیتا؟ اس کا عمل اس کے قول کی تصدیق کیوں نہیں کرتا؟

اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان میں ایک کمزوری نسیان، یعنی بھول جانے کی ہے کہ وہ    جو وعدہ یا عہد کرتا ہے، اسے بھول بھی جاتاہے۔ بھولنے کی وجہ اس کے بشری تقاضے ہیں مثلاً بھوک، شہوت، عیش و آرام کی زندگی ، وہ چیزیں جن سے لذّت اور مسرت ملتی ہے جیسے شہرت،  اختیار و اقتدار وغیرہ۔ جب انسان اپنے بشری تقاضوں کو اپنے ذہن ، اپنے جذبات و احساسات میں رچابسا لینے پر خود کو مجبور پاتاہے اور وہ ان تقاضوں کی جائز یا ناجائز طریقوں سے تکمیل میں    لگ جاتاہے تو وہ فطری طور پر اس وعدے یا عہد کو بھول جاتاہے، جو اس نے کلمہ پڑھ کر خود کو  دین میں داخل کیا تھا اور خود کو یہ کہہ کر اپنے دین، اپنے اللہ اور اپنے پیغمبرؐ کے حوالے کیا تھا کہ    وہ اپنی عبادات اور اپنے معاملات میں ان احکامات کی پابندی کرے گا۔

ا س سے پتا چلا کہ انسان کا کیا ہوا وعدہ کچھ لفظوں کا مجموعہ ہوتاہے اور اس کے بشری تقاضے زندہ اور حقیقی وجود رکھتے ہیں۔ وعدے کی خلاف ورزی سے اسے کسی فوری نقصان کے پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جب کہ بشری تقاضوں کو پورا نہ کرنے سے اسے یا اس سے وابستہ افراد کو بھوک، پیاس، بیماری، موت، عزّت و شہرت اور دولت یا اس طرح کی دوسری محرومیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور پڑتا بھی ہے۔ ویسے بھی انسان کے وجود کی ساخت ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ اکثر وبیش تر اعمال :اپنی خواہشات اور اس کے تقاضوں کے زیرِ اثر کرتاہے۔ انسان عموماً کسی قول و قرار کا پابند ہوکر زندگی نہیں گزارتا ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں تمام ہی مذاہب کے ماننے والوں کی اکثریت ماننے کے باوجود اپنے مذاہب کی تعلیمات کے چند ایک اجزا پر تو عمل کرتی ہے (اور یہ عمل بھی خود کو یہ یقین دلانے کے لیے ہوتا ہے کہ وہ مذہبی ہے، لامذہبی نہیں) لیکن اپنے مذہب اور دین کے تمام تو کیا زیادہ تر احکامات اور تعلیمات سے دور یا لاتعلق یا بے خبر ہوتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسی صورت حال جس میں انسان ہمیں کم زور ، بے بس، اور بے عمل نظر آتاہے ، اگر اسے دین کی طرف لانے کی کوشش کی جائے تو وہ کیا طریقے ہوسکتے ہیں، جن کو اختیار کرکے اسے دین یا مذہب کی طرف لایا جاسکتاہے۔

وعظ و نصیحت اور تلقین سے الحمدللہ ایک بڑی تعداد میں لوگ راہِ راست پر آتے ہیں۔ دینی عبادات، مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ پر عمل کرتے ہیں اور ایک تعداد اپنی وضع قطع میں بھی مذہبی حوالے سے مثبت تبدیلی لے آتی ہے۔لیکن حیرت انگیز طور پر ان میں سے بہت سوں کے باقی معاملات اسی دنیاوی (سیکولر) طریقے کے مطابق چلتے رہتے ہیں۔ ان میں وہ اوصاف پیدا نہیں ہوپاتے جن سے یہ پتا چلتا ہو کہ اپنی خواہشات کو چھوڑ کر اللہ کے احکامات اور پیغمبر کی تعلیمات کے مطابق انھوں نے اپنے معاملات کو استوار کرلیا ہے۔

ایسے مذہبی لوگوں سے کوتاہی فرض عبادات میں تو مشکل ہی سے ہوتی ہے اور ہوتی بھی ہے تو وہ اس کی تلافی کرلیتے ہیں ۔ اصل کو تاہی اور خواہشات کی اطاعت وہاں ہوتی ہے، جہاں ان کا واسطہ بندوں سے پڑتا ہے۔ خواہ وہ باپ اور بیٹے ، ماں بہن اور بیوی کی حیثیت میںہو، رشتے داروں سے رشتہ داری نبھانے کا معاملہ ہو، پڑوسی کی حیثیت سے پڑوسی کے ساتھ سلوک و برتاؤ کی صورت ہو، ملازم کی حیثیت سے اپنے دفتری فرائض اور تاجر کے طور پر کاروباری تقاضوں کا تعلق ہو، یاایک شہری کی حیثیت سے اپنے قوم و ملک کے حقوق ادا کرنے کے تقاضے ہوں۔ وہ ہرحیثیت میں اپنی خواہشات اور ترغیبات کو ترجیح دینے پر آمادہ نظر آتا ہے اور یہ آمادگی اکثر صورتوں میں، ان معاملات میں وہ اللہ کے احکامات اور پیغمبر کی تعلیمات کو فراموش کرنے پر جاپہنچتی ہے۔

ایک لامذہبی اور ملحد شخص اگر ایسا کرے تو اسے صرف بُرا آدمی، خود غرض ، مفادپرست ، لالچی او ر منافق کہہ کر اس کے بارے میں ایک راے قائم کرلی جاتی ہے اور اسی راے کی روشنی میں اس سے معاملہ کیا جاتاہے ۔ لیکن جب ایک پابند ِ صوم و صلوٰۃ انسان جس نے حج بھی کررکھا ہو اور وضع قطع بھی مذہبی انسان کی ہو، جب ان معاملات میں کہ جن کا تعلق بندوں سے ہوتاہے: اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات اور احکامات کو چھوڑ کر جب اپنی خواہشات کی اطاعت کرتاہے، تو ایسا آدمی دوسروں کی نظر میں بُرا تو ٹھیرتا ہی ہے مگر اس سے بڑھ کر وہ اس مذہب یا دین کا بھی غلط نمایندہ   بن جاتا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اس فرد کے دائرۂ تعارف میں لوگ پہلے اس مذہبی آدمی سے بیزار ہوتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ یہ راے قائم کرلیتے ہیں کہ اگر مذہب انسان کو اچھا انسان بناسکتا تو سارے یا واضح طور پر اکثر مذہبی لوگوں کو اچھا ہی ہونا چاہیے تھا۔

مراد یہ ہے کہ صحیح معنوں میں مذہبی آدمی وہ ہے یا اسے ہونا چاہیے، جو بہ حیثیت انسان بھی اچھا ہو۔ اگر مذہبی آدمی میں مطلوب انسانی خوبیاں نہ ہوں تو اس کی مذہبیت ،معاشرے پر مثبت طریق سے اثرانداز نہیں ہوسکے گی، بلکہ اُلٹا دین اور مذہب کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے گی۔ اس لیے آج کے معاشرے میں وہ لوگ کہ جن کی پہچان دین کے حوالے سے ہے، انھیں سوچنا چاہیے کہ  ان پر کتنی بھاری ذمّہ داریاں عاید ہوتی ہیں ۔ ان کے لیے دو ہی راستے باقی رہ جاتے ہیں:

اول: مذہبی ہونے کے ساتھ ہی اچھے انسان بننے کی شعوری اور عملی کوشش شروع کردیں۔  دین، باطن او رظاہر دونوں کا مجموعہ ہے۔ پھل میں جو اہمیت گودے کی ہوتی ہے وہی باطن کی ہوتی ہے۔

دوم: دینی احساسات کے تحت خود کو اچھا انسان بنائیں ، بندوں کے حقوق ادا کرنے کے معاملے میںمحتاط، حساس اور چوکنا ہوجائیں۔

یورپ میں ایک ہزا ر سال تک عیسائیت کا غلبہ رہا۔ لیکن عیسائیت کی نمایندگی کرنے والوں نے اپنی غلط کاریوں سے اپنے مذہب کو وہ نقصان پہنچایا کہ لوگ خود مذہب ہی سے بیزار ہوگئے۔ نتیجے میں اہلِ مغرب نے اپنے اجتماعی معاملات سے اپنے مذہب کو نکال کر گرجا گھروں کی حد تک محدود کردیا اور مذہب کو ایک ایسی پرائیویٹ چیز بنادیا کہ جس کی پابندی ضروری نہیں رہی۔ اندیشہ ہے کہ اگر ہمارے ہاں مذہبی پیروکاروں اور نمایندگی کے دعوے داروں نے اس منظرنامے سے سبق نہ سیکھا تو (خدا نہ کرے) یہاں بھی وہی تاریخ دہرائی جائے گی۔