بحث و نظر


جہادِ اکبر اور جہادِ اصغر سے متعلق گفتگو میں‘ اکثر لوگ بحث کو غلط رخ دے دیتے ہیں۔ یہاں دو چیزوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔

۱- اس گفتگو اور بحث کا مقصد‘ ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم تزکیہ نفس کی اہمیت اور افادیت کا انکار کریں‘ اور نفس کے فتنوں کے بارے میں‘ چوکنا نہ رہیں اور نفس کے شر سے پناہ نہ مانگیں۔ البتہ یہ بات یاد رہے کہ قرآن مجید نے‘ جہاد نفس کے بجائے‘ تزکیہ نفس کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اصطلاحات کے بارے میں‘ ہمیں بہت محتاط رہنا چاہیے۔ یہ دلیل کافی نہیں ہے کہ    ؎

الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

قرآن مجید کی روشنی میں انسانی نفس سرکش ہو کر الٰہ بن سکتا ہے (الفرقان ۲۵:۴۳)۔ قرآن مجید نے ہمیں ان لوگوں کی (بالخصوص ایسے حکمرانوں کی) اطاعت سے روکا ہے‘ جن کا قلب غافل ہے‘ جو خواہشاتِ نفس کے غلام ہیں اور جن کے اوامر و احکامات‘ اعتدال کی راہ سے ہٹ کر افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ (الکہف۱۸:۲۸)

۲- کافروں سے جہاد ہی‘ جہادِ اکبر ہے۔ اس جہاد کو‘ جہادِ اصغر کہنا ایک عظیم فتنہ ہے۔ ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد کے حالات میں‘ مغرب نے جس طرح‘ جہادِ اسلامی کے خلاف‘ اپنے الیکٹرونک میڈیا پر مہم شروع کر رکھی ہے اور مختلف مسلمان ممالک میں‘ اسلامی تحریکوں کا دائرہ تنگ کرنے کے لیے ہرقسم کی سازشیں روا رکھی جارہی ہیں‘ وہ کسی باخبر‘ غیرت مند مسلمان سے مخفی نہیں۔ ان حالات میں‘ ہمارے مسلمان حکمرانوں کو (حیرت ہے وہ بھی مسلمان فوجی حکمرانوں کو) ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو انھیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر‘ ضعیف اور موضوع مواد فراہم کرتے ہیں‘ تاکہ نصوصِ قطعیہ (قرآن و سنت صحیحہ) کی تخفیف اور تحقیر ہو سکے اور دین کے مسلمات اور مہمات اختلافی بن جائیں۔

اس موضوع پر‘ سب سے اچھی اور سیرحاصل بحث‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (المتوفی ۷۲۸ھ) نے کی ہے‘ جو ان کے فتاویٰ جلد ۱۱‘ صفحہ ۱۹۷ تا ۲۰۱ پر دیکھی جا سکتی ہے۔

امام ابن تیمیہؒ نے‘ دلائل نقل و عقل سے‘ ثابت کیا ہے کہ مندرجہ بالا روایت کی کوئی اصل نہیں ہے (لاَ اَصْلَ لَہٗ) اور اہل علم و دانش میں سے کسی نے بھی‘ اس کو حضورؐ کے اعمال و اقوال کے طور پر روایت نہیں کیا ہے۔ جہادِ کفار ہی‘ جہادِ اکبر ہے اور یہی اعظم اور افضل اعمال میں سے ہے۔

امام ابن تیمیہؒ کے دلائل حسب ذیل ہیں:

۱-  قرآن نے واضح طور پر‘ قاعدین پر مجاہدین کی فضیلت بیان کی ہے (النساء ۴: ۹۵)

۲-  جہاد‘ حاجیوں کو پانی پلانے اور خانہ کعبہ کی تعمیر سے بھی افضل ہے (التوبہ ۹:۱۹)

۳- امام صاحبؒ نے کئی احادیث نقل کی ہیں‘ جن سے جہاد کی افضلیت اور برتری ثابت ہوتی ہے۔ خوفِ طوالت سے انھیں درج نہیں کیا جا رہا ہے۔

عصرِحاضر کے عظیم محدث علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۴۲۰ھ) نے اپنے مشہور سلسلے کی جلد ۵‘ حدیث نمبر ۲۴۶۰ میں اس کی تخریج کی ہے اور اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔ الفاظ کے جزوی اختلاف کے ساتھ‘ اس کی دو سندیں ہیں‘ جس کا ذکر ملا علی قاریؒ کے حوالے سے مارچ کے ترجمان القرآن(’’مدیر کے نام‘‘)میں پہلے ہو چکا ہے۔

۱- پہلی روایت کا ذکر‘ امام بیہقی  ؒاور امام شافعیؒ نے کیا ہے۔ اس کی سند کے تینوں راوی ضعیف ہیں (ابن حجر)۔ الف: عیسیٰ بن ابراہیم ؒ (البرکی)۔ یہ صدوق ہیں لیکن بسااوقات وہم کا شکار ہو جاتے ہیں‘ جو ان کے ضعف پر دلیل ہے‘  لَیْسَ بِجَیِّدٍ۔ ب:  لیث ابن ابی سلیم اختلاط کی بنیاد پر ضعیف ہیں۔ ج: یحییٰ بن یعلی (الاسلمی) بھی ضعیف ہیں۔ د: البتہ بقیہ راوی ٹھیک ہیں۔

۲- خطیب بغدادیؒ نے تاریخ میں‘ جو روایت نقل کی ہے‘ اس کی سندکے تین راویوں کے متعلق تفصیلات حسب ذیل ہیں:

الف: الحسن بن ہاشم کے بارے میں‘ البانی ؒکو تفصیلات نہیں ملیں۔ یہ گمنام ہیں۔ ب: یحییٰ بن ابی العلا سے مراد‘ شاید یحییٰ بن العلا الکذاب ہے (ظن غالب یہی ہے کہ یحییٰ بن ابی العلا ہی یحییٰ بن یعلی ضعیف ہیں‘ جن کا ذکر اُوپر کی سند میں ہوا ہے)۔ ج: لیث تو ضعیف ہیں ہی‘ جن کا ذکراُوپر ہو چکا ہے۔

عظیم مفکر‘ متکلم‘ مفسر اور الجہاد فی الاسلام جیسی بے مثال کتاب کے مصنف‘ حضرت مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے‘ الحمدللہ اس روایت کو‘ ضعیف ہی قرار دیا ہے‘ صحیح تو قرار نہیں دیا جیساکہ امام بیہقی ؒوغیرہ نے کہا ہے‘ اس میں کیا اشکال ہے؟ کیا مولانا مودودیؒ مرحوم نے‘ اس ضعیف روایت سے‘ (جس کو بعض علما نے باطل اور بعض علما نے منکر اور بعض علما نے لاَ اَصْلَ لَہٗ  کہا ہے) وہ مطلب نکالا ہے‘ جو آج ہمارے بعض فوجی حکمران‘ مغرب کی جنگی قوت اور طاغوتی بالادستی سے مرعوب ہو کر‘ نکال رہے ہیں؟

ایک ایسی ضعیف سند پر مشتمل روایت کی بنیاد پر‘ قرآن و سنت کے محکم نصوص و دلائل کو نظرانداز کر کے‘ افضل چیز کی تحقیر اور تخفیف کرنا‘ دین کے بنیادی مزاج میں تحریف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے اور مسلم حکمرانوں اور بالخصوص فوجی افسران کو‘ قرآن اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں‘ جہادکے صحیح تصور کو سمجھنے اور اس پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


عاصم نعمانی

اس حدیث کو مولانا مودودیؒ نے وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ط (الحج ۲۲:۷۸) کے تحت متن کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے معارف القرآن میں اسی آیت کے تحت متن کے ساتھ حدیث بیان کی ہے اور امام بیہقی  ؒکا حوالہ دیا ہے‘ نیز یہ بھی لکھا ہے کہ امام بیہقی  ؒ نے فرمایا ہے کہ اس حدیث میں ضعف ہے۔کنز العمال میںمتذکرہ حدیث دو جگہ بیان ہوئی ہے: حدیث نمبر ۱۱۲۶۰ و نمبر ۱۱۷۷۹۔ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ البغداد میں ۵۲۳‘ ۵۲۴‘ ج ۱۳ پر نقل کی ہے۔ امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطی ؒنے الدرر المنتثرہ میں اسے درج فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ تفسیرکشاف زمخشریؒ، تفسیر الکبیر امام الفخر الرازی‘ اور تفسیر بیضاویمیں بھی اس حدیث کو درج کیا گیا ہے۔ اسے باطل قرار دینا مناسب نہیں۔


عتیق الرحمٰن صدیقی

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیم القرآن‘ جلد سوم میں یہ حدیث یقینا نقل کی ہے مگر اس کے استنادی پہلو پر کچھ بھی نہیں کہا بلکہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد یہ لکھا ہے کہ’’ اس کے بعد جہاد کا وسیع تر میدان پوری دنیا ہے‘ جس میں کام کرنے والی تمام بغاوت کیش اور بغاوت آموز اور بغاوت انگیز طاقتوں کے خلاف دل اور دماغ اور جسم اور مال کی ساری قوتوں کے ساتھ سعی و جہد کرنا وہ حق جہاد ہے جسے ادا کرنے کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے‘‘ (ص ۲۵۴)۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے جس مفہوم میں اس حدیث کا ذکرکیا تھا مولانا مودودیؒ کی مذکورہ وضاحت اس فلسفے کی نفی کرتی ہے۔

 

ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے نام ایک عرب قاری کے خط کا ترجمہ ترجمان القرآن (دسمبر ۲۰۰۱ء) میں شائع ہوا جس میں فلم سازی کے اسلامی ادارے کے قیام پر زور دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں‘ میں ریڈیو کے حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

ریڈیو‘ فلم کی نسبت زیادہ وسیع‘ کشادہ اور موثر ذریعہ ابلاغ ہے۔ اس کی اہمیت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بھی محسوس کرتے تھے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ میں ریڈیو پاکستان میں ملازم تھا۔ ۱۹۷۸ء میں مجھے خیال آیا کہ ملک میں ۱۹۷۷ء میں ملک گیر تحریک نظام مصطفیٰؐ برپا ہوئی لیکن یہ بات واضح نہ ہو سکی کہ نظام مصطفیٰؐ کیا ہے اور عملاً کیسے برپا ہوگا؟ چنانچہ میں نے مولانا مودودیؒ سے اس موضوع پر انٹرویو لینے کا اہتمام کیا۔ انٹرویو لینے والوں میں  کوہستان کے عبدالوحید خان بھی تھے۔انٹرویو کے آخر میں میں نے مولانا سے سوال کیا کہ نظام مصطفیٰؐ کے نفاذ کے سلسلے میں ریڈیو کو ہم کیونکر استعمال کر سکتے ہیں؟

مولانا نے فرمایا: ’’ریڈیو کو استعمال کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو تلاش کیا جائے جو ایک ایک موضوع پر تیاری کر کے ریڈیو پر آکر تقریر کریں‘ مثلاً کچھ لوگ ایسے ہونے چاہییں جن کا آپ سوچ سمجھ کر اس کام کے لیے انتخاب کریں کہ وہ اسلام کے ایمانیات کی تشریح کریں اور طرح طرح سے ان کے ہر پہلو کو لوگوں کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کریں۔ ایک ہی آدمی یہ کام کرے گا تو لوگ اُکتا جائیں گے اور مختلف قابلیتوں کے لوگ اپنے اپنے طریقے پر بات سمجھائیں گے تو سننے والے دل چسپی کے ساتھ ان کی تقریریں سنیں گے۔ اسلامی اعتقادات کو دماغوں میں اُتار دینا سب سے پہلا اور سب سے بڑا بنیادی کام ہے جس سے مسلمانوں کی ذہنی حالت بدلی جا سکتی ہے اور انھیں اسلام کے دوسرے حقائق کو سمجھنے کے لیے تیار کیاجا سکتا ہے۔ کچھ دوسرے لوگ ایسے منتخب کرنے چاہییں جو اسلامی عبادات کی اہمیت ان کے بے شمار دینی اور دُنیاوی فوائد اور ان کو چھوڑ دینے کے نقصانات دل نشیں انداز میں طریقے طریقے سے سمجھائیں‘‘۔

مولانا نے فرمایا کہ ریڈیو پر اس طرح کی تقریروں کا سلسلہ اگر جاری ہو جائے اور موزوں آدمی  اثر آفرینی کے ساتھ کام کریں تو آپ دیکھیں گے کہ چھ مہینے میں فرق عظیم واقع ہوجائے گا۔ ریڈیو تعلیم دینے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ آج کسان کھیت میں ہل تک نہیں چلا تا جب تک ٹرانسسٹر اس کے پاس نہ ہو۔

پروگراموں کی نوعیت کے بارے میں مولانا نے فرمایا: ’’ان کے اندر دل چسپی پیدا کرنے کے لیے آغاز عہدِرسالتؐ، عہدِخلافت اور عہدِصحابہؓ کے کچھ واقعات اور صالحین کی حکایات سے کریں۔ جب عوام کو صحیح طریقے سے دین سمجھایا جائے گا اور انھیں دل چسپ اور دل نشیں طریقے سے بتایا جائے گا تو وہ گانے کے رسیا نہ رہیں گے اور انھیں باہر کے ریڈیو سے بھی گانا سنتے وقت یہ یاد آ جائے گا کہ قیامت کے روز ان کے کان گواہی دیں گے کہ یہ لوگ ان سے کیا چیزیں سننے کا کام لیتے رہے ہیں‘‘۔

ان ہدایات کے پیش نظر میں نے اپنی نشریاتی زندگی کا یادگار پروگرام مرتب کیا جس کا عنوان تھا: ’’رسول کریمؐ کی تربیت کے شاہکار‘‘۔ اس نصف گھنٹے کے پروگرام میں اولیں دور کا احاطہ کیا گیا‘ یعنی رسول کریمؐ سے حضرت علیؓ تک کے تمام ادوار پر علامہ علاء الدین صدیقی‘ ڈاکٹر اسرار احمد‘ جناب سلیم تابانی‘ مرزا محمد منور اور سید سجاد رضوی کی جامع تقاریر کروائی گئیں اور مظفر وارثی کی نعت و حمد سے انھیں مزین کیا گیا۔ اب یہ پروگرام ریڈیو پاکستان کے ’’آواز خزانہ‘‘ کا حصہ ہے اور سال میں کئی بار نشر مکرر کے طور پر نشر کیا جاتا ہے اور نہایت دل چسپی کے ساتھ سنا جاتا ہے۔

مکتوب نگار عرب قاری نے فلم سازی کے معاملے میں مصر کا ترجیحاً ذکر کیا ہے حالانکہ پاکستان کا یہ ذریعہ ابلاغ بھی بہت مستحکم ہے۔ ہمارے ہاں چھوٹی اسکرین اور بڑی اسکرین کے ضمن میں قلم سے لے کر فلم تک سب کچھ فراوانی کے ساتھ موجود ہے۔ کہانی نویس بھی ہیں‘ گیت نگار بھی‘ صدا کار اور اداکار بھی۔ کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے والے فن کار بھی اور اداکاروں سے کام لینے والے ہدایت کار بھی۔ ضرورت صرف صالح نیت‘ موقع اورسرمائے کی ہے۔ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ذرائع ابلاغ‘ یعنی فلم اور ٹی وی کے ماحول کو سازگار بنایا جائے۔ معاشرتی بدعات کے خلاف قلمی اور فنی جہاد کیا جائے۔ اس کام کے لیے کچھ مناسب سرپرستی لازمی ہے۔ ہم اپنی روایتی اور دینی ثقافت پر مبنی بہترین ڈرامے اور فلمیں بنا سکتے ہیں اور اپنی حقیقی ثقافت کا احیا کر سکتے ہیں۔

میں نے مولانا سے ایک مرتبہ عرض کیا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ میں اسلامی اقدار کے مخالفین بہت کھل کھیل رہے ہیں‘ تو انھوں نے فرمایا تھا کہ ’’کسی سے تعرض مت کرو اور اپنا کام کیے جائو‘‘۔ ان کی اس نصیحت پر عمل کیا اور ریٹائر ہونے تک ریڈیو کے ذریعے دین اور ملک کی خدمت کرتا رہا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ریڈیو میں رہ کر جو تھوڑا بہت کام کیا اس پر قلبی اطمینان ہے۔ حقیقت ہے کہ اگر ایک آدمی بھی خلوص کے ساتھ کہیں بھی دین کا کام کرنا چاہے تو کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتا ہے اور اس کو نصرت الٰہی بھی میسر آتی ہے۔

مطلوبہ فلموں کی تیاری کے ضمن میں ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری علمی اور ادبی تاریخ بھری پڑی ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی زندگی کے ہر پہلو سے متعلق تاریخ میں جگمگاتے کردار اور واقعات کہانی نویسی کی دعوت عام دے رہے ہیں۔ قصص القرآن سے بھی کہانیاں اور ڈرامے اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اگر مشرکین The Message اور Ten Commandmentsقسم کی فلمیں بنا سکتے ہیں تو ہم personification سے بچتے ہوئے دیگر واقعات پر مبنی فلمیں کیوں نہیں بنا سکتے۔ ہماری تو حربی تاریخ بھی شان دار روایات و واقعات سے بھری پڑی ہے۔ علاوہ ازیں اولیں دور سے بھلے دنوں تک ہمارے اسلاف نے اخلاقیات کے علم لہرائے ہیں۔ کیا ہم ان موضوعات کو لے کر چھوٹی بڑی اسکرینوں پر فنی لحاظ سے کارنامے نہیں کر سکتے۔ مغربی مفکرین اور سیاست دانوں نے حقوقِ انسانی وغیرہ کا ڈھونگ رچا رکھا ہے‘ کیا ہم قرآن و سنت کے مطابق انسان کی تکریم و تحریم اور آزادی پر مبنی تاریخی حقائق کو آج کی زندگی پر منطبق نہیں کر سکتے۔

اسلامی فلمی ادارہ قائم کرنے کے لیے کردار کا استعمال اولین شرط ہے۔ ایک مسئلہ خواتین کی شمولیت کا بھی ہے کیونکہ بغیر اس کے معاشرتی فلم تو نہیں بن سکتی۔ ہمارے ہاں تو جہاد میں بھی عورتوں کی شمولیت آن ریکارڈ ہے‘ مثلاً حضرت خولہ بنت ازور‘ بھائی کی خاطر میدانِ جہاد میں کود پڑیں اور شمشیرزنی کے وہ ہاتھ دکھائے کہ پرائے پریشان اور اپنے حیران کہ ضرارؓ تو دشمن کی قید میں ہے لیکن اس مجاہد کا اندازِ شمشیرزنی وہی ہے۔ وہ مجاہد جب حضرت خالدؓ بن ولید کے سامنے لایا گیا تو راز کھلا کہ یہ تو ہے خولہ ؓبنت ازور‘ جناب ضرارؓ کی ہمشیرہ۔ میں جب یہ منظر پڑھ رہا تھا تو گویا فلم بھی دیکھ رہا تھا۔ ہماری تاریخ تو ایسے مناظر سے بھری پڑی ہے۔

اللہ نے ہمیں عقل و شعور‘ علم و ہنر‘ صورت و سیرت سب کچھ عطا کیا ہوا ہے۔ اگر ہم فلمی شعبے کی طرف بھی توجہ دیں تو بلامبالغہ ہم اس فن کی دُنیا میں بھی انقلاب برپا کر سکتے ہیں بلکہ مغربی دُنیا کو سبق سکھا سکتے ہیں کہ تعیش‘ نمود و نمایش‘ عریانی و فحاشی اور گناہ اور غنا کے علاوہ بھی سبق آموز فلمیں اور ڈرامے اور رزمیے تیار ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم اس میدان کی طرف بھی ایمان اور ایقان سے رجوع کریں تو اللہ ضرور ہمیں کامیابی سے سرفراز کرے گا۔ ان شاء اللہ!

 

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا گراں قدر مقالہ ’’معاصر اسلامی فکر: چند غور طلب پہلو‘‘ (اکتوبر‘ نومبر ۲۰۰۱ء) دراصل ان مسائل کی عکاسی کرتا ہے جو تحریک اسلامی کو خاص طور پر اور عالم اسلام کو عام طور پر درپیش تھے اور ہیں۔ اس کو گوشوارئہ مسائل بھی کہا جا سکتا ہے اور ریسرچ پروجیکٹس بھی۔ اس میں انھوں نے مختلف مکاتب فکر کے مختلف میدانوں میں موقف کو بڑے اچھے انداز میں بیان کیا ہے۔ یہ سب حل طلب فکری اور عملی مسائل ہیں۔

مجھے ان میں بعض مسائل کی کمی بہت کچھ کھٹکی۔ مثال کے طور پر معاشی میدان میں کئی کئی بلین ڈالر کی زرکاری کی راہیں‘ وسائل اورذرائع جو فی الحال حصص کے بازاروں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں__ یہ گھمبیر مسئلہ ہے۔ اس کا حل ناگزیر ہے۔

ایک دوسرا مسئلہ‘ میرے نزدیک‘ عصرحاضر کے امن اور جنگ کے وہ مسائل ہیں جو براعظموں کو عبور کرنے والے میزائل‘ بایالوجیکل جنگ اور کیمیکل جنگ کے زیر سایہ اُبھر آئے ہیں۔ یہ سب کے سب کلی جنگ کے تصور کا نتیجہ ہیں جس میں پوری قوم شریک ہوتی ہے۔ اس سے کسی قوم کے کسی گروہ یا طبقے کو مستثنیٰ قرار دینا تقریباً ناممکن ہے۔ ان ہتھیاروں کی پیداوار ‘ان کی دیکھ ریکھ اور متعلقہ ریسرچ کے لیے مستقبل کی کسی اسلامی معیشت کو اتنا بڑا اور پیداواری (productive)ہونا چاہیے کہ وہ ان بے تحاشا اخراجات کو برداشت کرسکے۔ ظاہر بات ہے کہ مستقبل کی اسلامی ریاست کو ان مستقبل کے ہتھیاروں سے مسلح ہونا ہے۔ اس لیے عورتوں کا نجی پیداواری سرگرمیوں میں‘ شرعی حدود کے اندر حصہ دار بننا ازحد ضروری ہے۔ اس ضمن میں پردہ‘ تعلیم نسواں‘ آزادی نسواں‘ زن و شو کے حقوق وغیرہ کے مسائل ازخود ظاہر ہو کر ہم سے حل کا مطالبہ کرتے ہیں۔

امن و جنگ کے مسائل کے ضمن میں اور ان کی ہمہ گیری کی وجہ سے ایک نئی فقہ کی‘ جس کو     ’’الفقہ الاستراتیجی‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے‘ بنیاد ڈالنے کی ضرورت ہے جو ہمہ گیر نقطۂ نظر اور پہلوئوں سے ہرمیدانِ فکروعمل میں طویل المیعاد لائحہ عمل تیار کر سکے۔ اگر ہم واقعی ۲۱ ویں صدی میں داخل ہونا‘زندہ رہنا اور آگے بڑھنا چاہتے ہیںتو فکروعمل کی یہ ہمہ گیر حکمت عملی اُمت مسلمہ کی اشد ضرورت ہے۔

ایک قدم آگے بڑھیے تو فتویٰ صادر کرنے والوں__ خصوصاً جنگ و امن کے بارے میں فتویٰ صادر کرنے والوں کو نئی ضروریات اور صلاحیتوں اور تخصص کی طرف خاص توجہ دینا ہوگی ورنہ بار بار افغانستان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افغان مسئلہ دراصل قرونِ وسطیٰ کی ذہنیت کے علما کے فتوئوں کا نتیجہ ہے جن کو بین الاقوامی کش مکش کا کچھ بھی علم نہیں تھا اور نہ آج ہے۔ اس لیے ان امور میں فتویٰ صرف اور صرف استراتیجی فکر پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ حکام وقت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے۔ اس سلسلے میں جنگ و امن کی عام اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ’’الفقہ الاستراتیجی‘‘ کو ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت کی پکار ہے۔

اب‘ جب کہ جاپان میں شرح سود تقریباً صفر ہے تو کوئی ایسا وسیلہ دریافت کریں جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس شرح سود سے پہلے زرکاری اور بچت اور منصوبوں کے نفع نقصان کے کیا پیمانے جاپان میں تھے اور اب کیا ہیں اور آیندہ کیا ہو سکتے ہیں؟ اسی قسم کے اشارات محدود یا وسیع پیمانے پر امریکہ‘ یورپ اور دوسرے علاقوں اور ملکوں میں شرح سود کے مسلسل گھٹائے جانے کے نتیجے میں بھی مطالعہ کیے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی سود اور غیابِ سود کے نتائج کے گہرے مطالعے کا سنہری موقع ہے۔ اس پر خاص اور فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ عالم اسلام کے دانشور اس طرف بھرپور توجہ دے کر کوئی لائحہ عمل بروے کار لائیں گے۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اپنے مقالے میں جن اہم موضوعات پر قلم اٹھایا ہے‘ ان پر کام کی ضرورت کل بھی تھی اور آج بھی ہے۔ آنے والے کل میں تو اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ متحرک اسلام (dynamic Islam) کا تصور اس کے مختلف پہلوئوں کے ساتھ ہر وقت پیش کیا جاتا رہے تاکہ مولانا مودودیؒ کی تعبیرات کو حرفِ آخر سمجھ کر ان بے شمار مشکلات کو پیدا ہونے سے روکا جا سکے جن کی طرف خود مولانا مودودیؒ نے صاف صاف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: ’’میں نے جو کچھ بھی لکھ دیا ہے اس کو تمام حالات کے لحاظ سے اگر حرفِ آخر سمجھ لیا گیا تو بے شمار مشکلات پیدا ہوں گی‘‘ (اسلام‘ معاشیات اور ادب‘ نجات اللہ صدیقی‘ ص ۵۵)۔ یہ ان کے بڑے پن کی ناقابل انکار دلیل ہے۔ یہی ایک کامیاب قائد کی شان بھی ہے!!

اس ضمن میں مولانا علی میاں ؒ کا تبصرہ آنکھیں کھولنے والا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’آپ نے بڑے اہم سوالات اٹھائے ہیں جن کو زیادہ دنوں تک نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور ان کونظرانداز کرنے کی اس عالم اسباب میں اکثر وہی سزا ملتی ہے جو متعدد آزاد ہونے والے ممالک اور مسلم معاشرے کو اس دور میں بھی ملی ہے‘ اور وہ زیادہ تر اسلامی تحریکوں اور ان کے قائدین کے حصہ میں آئی ہے‘‘۔ اس کا آخری فقرہ‘ تو آج خصوصاً طالبان کے اسلام کے تصور کے تناظر میں سو فی صد صحیح ہے۔

اس سلسلے میں‘ صرف پردے کے سلسلے میں مردوں کے ’’مردانہ اسلام‘‘ کا ذکر کروں گا جس کی رُو سے آیاتِ حجاب کی تفسیر مردانہ نقطۂ نظر سے کی گئی ہے۔

یہی معاملہ عورتوں کی تعلیم کا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ میدان تعلیم و تحقیق میں خواتین کے عنصر کو نظرانداز نہ کیا جائے۔اسلامی تحریک کو مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی خدمات کی بھی ضرورت ہے۔ میری تجویز ہے کہ اس اہم مسئلے پر تحریک سے وابستہ مفکرین اور دیگر اہل قلم و دانش کو دعوت تحریر دینا چاہیے۔

جماعت اسلامی میں اجتہادی فکر اور الفقہ الاستراتیجی کے رواج کی ضرورت ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ محض روایت پسندی یا علما کی تقلید ہی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ جدید تقاضوں کے پیش نظر    قرآن و سنت کی روشنی میں اجتہاد کی راہ اپنائی جائے۔ محض تقلید جمود ہے۔ جمود ترقی معکوس ہے اور تنزل کی راہ ہے۔ علما کو بھی جدید تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے روایتی موقف پر نظرثانی کرنی چاہیے اور تقلید محض کی روش کو ترک کرنا چاہیے۔ ماضی میں بھی جماعت اسلامی اجتہادی فکر کی علم بردار رہی ہے اور آج بھی اسے اس میدان میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ایک مثبت‘ طویل المیعاد پروگرام اور لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ محض وقتی مسائل کی بنا پر لائحہ عمل اور حکمت عملی اپنانا دانش مندی نہیں۔ علماے کرام کو بھی ان امور کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور نئے حالات کا ادراک کرتے ہوئے وسیع تر تناظر میں رہنمائی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔

یہ علمی و تحقیقی کام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے غفلت خودکشی کے مترادف ہے!

 

ترجمہ:  محمد ظہیر الدین بھٹی

عصرِحاضر میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت‘ ضرورت اور افادیت سے انکار نہیں کیاجا سکتا۔ افغانستان پر ہونے والی امریکی جارحیت کو اگر الجزیرہ چینل نمایاں طور پر پیش نہ کرتا تو دنیا اس بھیانک تباہی سے آگاہ نہ ہو سکتی جو امریکہ نے برپا کی‘ نہ افغانوں کی ترجمانی ہی ہو سکتی۔ ایک عرب قاری نے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں فلم سازی کے اسلامی ادارے کے قیام پر زور دیا ہے۔ دراصل اس کا خطاب احیاے اسلام کے لیے کام کرنے والی سب تحریکوں سے ہے۔ ہم ہفت روزہ  المجتمع کے شکریے کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

آپ نے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں کہا ہے کہ آپ دو ادارے قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں: ۱- عالم اسلام کے نمایاں طلبہ کی قائدانہ تربیت کے لیے ادارہ --- یہ چند ماہ قبل‘ آپ کے دورئہ دبئی کے موقع پر عملاً قائم ہو چکا ہے۔ ۲-مسلم علما کا ایسا ادارہ جو تمام مسلمانوں کے لیے علمی مرجع ہو۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ایک اور ادارہ قائم کیا جائے جس کی اُمت کو سخت ضرورت ہے‘ اوروہ ہے ’’فلم سازی کے لیے اسلامی ادارہ ‘‘۔ یہ ادارہ تمام بصری ابلاغیات کی تدوین و تشکیل کا ذمہ دار ہو‘ جیسے فلمیں‘سلسلہ وار ڈرامے‘ پروگرام‘ متحرک تصاویری فلمیں‘ باتصویر نغمے اور ویڈیو فلمیں وغیرہ۔

اس ادارے کے قیام کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس میں جیتی جاگتی زندگی کی عکاسی کی جاتی ہے جس کا ناظرین پر فعال اور بھرپور اثر پڑتا ہے۔ سینما اور ٹیلی وژن کے فروغ کے بعد اخبارات اور مجلات کے اثرات نے ثانوی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ مصنوعی سیاروں کے ذریعے سیٹلائٹ چینلز نے اس پر سونے پہ سہاگے کا کام کیا ہے۔ ڈاکٹر اسماعیل الشطی نے کس قدر برمحل کہا ہے: ’’ابلاغیات محض اخبار یا رسالہ نکال لینے کا نام نہیں ہے۔ ابلاغیات تو ٹیلی وژن کا قسط وار ڈراما‘ فکری و ثقافتی پروگرام‘ اسلامی تھیٹر اور ڈرامے پیش کرنا ہے جن سے عوام کو سرور اور تفریح بھی ملے اور فکری و اخلاقی راہنمائی بھی‘‘۔

عالمی پروڈیوسر مصطفی العقادمسلم اقوام کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’آپ لوگ مجھے ایک جنگی طیارے کی رقم دیں تو میں اسلام کے بارے میں‘ آپ کو‘ پوری دنیا کی رائے تبدیل کر کے دوںگا‘‘۔ العقاد کی اس سے مراد فلم سازی ہے۔ انھوں نے عرب ممالک کے کئی ذمہ داروں سے مل کر اپنی خدمات ’’اسلامی ہالی وڈ‘‘ کے قیام کی خاطر پیش کی تھیں مگر کسی نے توجہ نہ دی۔ انسانی عقل کی تشکیل میں فلم سازی کے اہم کردار کے پیش نظر‘ عہدِحاضر کو فلم سازی کا دور کہا جاتا ہے۔ فلم کے اثرات معاشرے کے ثقافتی‘ اخلاقی‘ سماجی اور نفسیاتی پہلوئوں پر پڑتے ہیں۔ سابق سوویت یونین کا صدر خروشیف‘ امریکی میزائلوںسے اتنا نہیں ڈرتا تھا جتنا ہالی وڈ سے ڈرتا تھا۔

اس ادارے کے قیام میں پہلے قدم کے طور پر ‘ کسی معروف اسلامی شخصیت کی سرپرستی کی ضرورت ہے تاکہ اُمت اس ادارے پر اعتماد کر سکے۔ آں جناب (ڈاکٹر یوسف القرضاوی) اس کے موزوں سرپرست ہو سکتے ہیں۔ آپ اہل ثروت کو اس ادارے کے قیام میں‘ حصہ لینے پر آمادہ بھی کرسکتے ہیں۔

اس قسم کے ادارے کے لیے سب سے پہلے ایک مضبوط بنیادی زیریں ڈھانچہ کھڑا کرنا ہوتا ہے جس میں قابل و ماہر پروڈیوسروں‘ اداکاروں‘ کیمرہ مینوں اور کہانی لکھنے والوں کی ایک ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ شاید پوچھا جائے کہ ایسے ماہرین کہاں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے لیے سچے عزم و ہمت کی ضرورت ہے۔ عالم اسلام اور دنیاے عرب میں زیریں ڈھانچہ پہلے سے ہی موجود ہے۔ فلم سازی کی صنعت اور پروڈکشن کے میدان میں کافی تجربہ بھی ہے۔ مجوزہ منصوبے پر کام شروع کرتے وقت ان تمام تجربات اور مہارتوں سے فائدہ اٹھانا ممکن ہے۔ اداکاری کے لیے ان ذمہ دار نوجوانوں کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں جو دوران تعلیم کامیاب ڈرامے کر کے اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اگر پیشہ ور سابقہ فن کاروں کو جو فلمی زندگی سے تائب ہو چکے ہیں--- اس ادارے میں کام پر آمادہ کیا جا سکتا ہے‘ جیسے حسن یوسف‘ محمد العربی وغیرہ تاکہ وہ باصلاحیت نوجوانوں کو اداکاری کی تربیت دیں۔ کافی مالی وسائل مہیا ہونے کے بعد متعلقہ ماہرین کی فراہمی مشکل نہ ہوگی۔ ادبی تخلیق کے لیے پیشہ ورکہانی نویسوں کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ اسلامی ادب کی عالمی تنظیم (رابطۃ الادب الاسلامی العالمیۃ) کی راہنمائی میں کہانیاں لکھیں۔ اس کے لیے عصری اور تاریخی واقعات کو سینمائی تشکیل دی جائے۔ مارکیٹ میں اس وافر لوازمہ سے ادبی تخلیق کے لیے استفادہ کیا جائے جو اسلامی تصورات کے منافی نہ ہو۔

مجھے اعتراف ہے کہ ان تیار کردہ فلموں اور ڈراموں کی مارکیٹنگ میں کئی رکاوٹیں ہوںگی مگر نئے اداروں کی پیش کش کو عوامی مقبولیت حاصل ہونے کے بعد یہ ساری رکاوٹیں دُور ہو جائیں گی۔ مختلف سیٹلائٹ چینلز کا وجود‘ مارکیٹنگ کے مسئلے کی شدت کم کر دے گا۔ بہت سے ایسے چینلز ہیں جو ایسے پروگراموں کو ترجیح دیتے ہیں جو بیک وقت سنجیدہ بھی ہوں اور تفریحی بھی۔

مجھے امید ہے کہ عالم اسلام میں اس وقت فلم کے شائقین ہی اس ادارے کی فلموں کے ناظرین بنیںگے‘ خصوصاً جب وہ دیکھیںگے کہ تائب اداکار کام کررہے ہیں۔ سنجیدگی اور اعلیٰ فنی ذوق کی موجودگی ان شائقین کو اس ادارے کی پروڈکشن دیکھنے پر آمادہ کرے گی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں‘ اردن یونی ورسٹی کے شریعت کالج کے ہال میں ’’الہجرۃ‘‘ ڈراما دیکھنے گیا جس میں کچھ ذمہ دار نوجوان کام کر رہے تھے۔ ان میں ابو راتب گلوکار بھی شامل تھا۔ داخلہ مفت نہ تھا مگر ہال کے گیٹ پر بہت زیادہ رش تھا۔ یہ ڈراما بہت مقبول تھا اور رش آخر تک جوں کا توں تھا۔

اس ادارے کے لیے مناسب مرکز کا انتخاب مشکل نہیں ہے۔ اس کے لیے موزوں ملک مصر ہے جہاںتائب فنکار موجود ہیں جو اس ادارے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مجوزہ ادارہ مسلمانوں کے مختلف مسائل پر اسلامی تصور کے مطابق فلمیں بنائے‘ جن میں تفریح کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور فکری رہنمائی بھی ہو مگر اسلامی چھاپ نمایاں ہو۔ اس وقت عالمی سینما  زیادہ تر یہودی گرفت میں ہے۔ یہودی غلبے کے خاتمے کے لیے فلم سازی کو اسلامی رنگ میں ڈھالنا ہوگا مگر اس کے لیے وعظ اور براہ راست تعلیمی طریقے سے بچنا ہوگا تاکہ ناظرین اُکتا نہ جائیں۔ ایسے موضوعات سے بھی اجتناب کرنا ہوگا جن سے مسلمانوں میں اختلافات اُبھریں یا حکومتوں سے تصادم ہو بلکہ سیاست سے بھی دُور رہنا ہوگا تاکہ یہ ادارہ اپنی بقا اور تسلسل کی حفاظت کر سکے۔

اس ادارے کی تشکیل میں ایک اہم عنصر مال ہے۔ اس مقصد کے لیے کسی بھی تجارتی کمپنی کے حصص کے طریقے پر مال جمع کیا جائے۔ ’’اسلامی بنک‘‘ کا نظریہ کامیاب رہا ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں یہ بنک قائم ہیں۔اسی طرح فلم سازی کا یہ ادارہ بھی کامیاب ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ مسلمان پہلے سے زیادہ فلم کی اہمیت محسوس کریںگے۔

حالیہ ایرانی فلموںنے عالمی سینما میں نہایت اہم مقام پا لیا ہے۔ اس نے عالمی میلوں میں متعدد انعامات جیتے ہیں۔ حالانکہ وہ جنس اور تشدد سے مکمل طور پر پاک ہے‘ جب کہ یہ دونوں چیزیں امریکی سینما کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ امید ہے کہ مجوزہ ادارہ عالمی سینما کے مقابلے میں جلد موزوںمقام حاصل کرلے گا۔

اس خط کا مخاطب آپ کو بنانے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ پیش کردہ امور میں ایک فقیہہ کی سخت ضرورت ہوگی تاکہ وہ شرعی رہنمائی کر سکے۔ آپ یہ فریضہ بہتر طور پر سرانجام دے سکتے ہیں۔

فلم ناظرین کی عقل کی تشکیل و راہنمائی کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔ دنیا پر اثرانداز ہونے میں ہالی وڈ‘ وہائٹ ہائوس سے ذرا بھی کم نہیں۔ اگر وہائٹ ہائوس سیاسی اور عسکری راہنمائی کرتا ہے تو ہالی وڈ اخلاقی‘ سماجی‘ ثقافتی بلکہ سیاسی راہبری بھی کرتا ہے۔

ہم مسلمان جو دنیا کی سب سے بڑی تہذیب کے خالق ہیں‘ کیا ہم اپنے گھروں میں‘ ذہنی غسل دینے والی فلموں اور ڈراموں کی خوف ناک یلغار کا مقابلہ کرنے اور ان کا متبادل پیش کرنے سے قاصرہیں؟

 

۷- فوج داری قوانین کا مسئلہ: اسلام کے فوج داری قوانین پر عربی میں اچھا کام ہوا ہے‘ جس میں سے بعض چیزیں اردو میں منتقل بھی کی جا رہی ہیں۔ بعض مخصوص شرعی سزائوں کے سلسلے میں مختلف پہلوئوں کی مزید تحقیق و وضاحت درکار ہے۔ کیوں کہ جرم و سزا کے بارے میں جدید فلسفوں اور جدید انسان کے مزاج نے حدود شرعیہ کی نسبت سے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کر دیے ہیں۔ اس وضاحت کا ایک پہلو خود فلسفوں کے تنقیدی جائزے اور اس بارے میں اسلامی فکر کے بیان اور ان حقائق کی یاد دہانی سے تعلّق رکھتا ہے جن کی طرف پہلے دو مسائل کے بیان میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔ دوسرا پہلو ہر شرعی سزا پر علیحدہ تفصیلی بحث کا متقاضی ہے۔ چور‘ زانی‘ زنا کی تہمت لگانے والے اور برسرِجنگ باغیوں کی سزا قرآن میں مقرر کر دی گئی ہے‘ لیکن معاصر اسلامی مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سزائیں اسلامی معاشرہ برپا ہو جانے کے بعد ہی نافذ کی جانی چاہییں۔ اس اتفاق رائے کی بنیاد یہ ہے کہ ابتدا میں بھی یہ قوانین اسلامی معاشرے کے برپا ہونے کے بعد نافذ کیے گئے تھے۔ نیز سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ غیر معمولی حالات میں بعض شرعی سزائوں کا نفاذ روک دیا گیا تھا۔ اس اجمالی موقف کی مزید تشریح کے طور پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دورِ جدید میں ان سزائوں کا نفاذ کن شرائط کی تکمیل کے بعد کیا جا سکے گا۔

قرآن کریم میں شراب پینے والے کو سزا دینے کا ذکرنہیں‘ مگر یہ بات سنت سے ثابت ہے کہ یہ قابل سزا جرم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شراب خور کو سزا دینا ثابت ہے مگر سزا کی جو کیفیت اور مقدار فقہ مرتب میں بیان ہوئی ہے‘ اس کی بنیاد خلفاے راشدین کا عمل اور صحابہؓ کا فیصلہ ہے۔ مذکورہ بالا مباحث کی روشنی میں یہ امر قابل غور ہے کہ جدید اسلامی قانون سازی میں اس بارے میں کیا موقف اختیار کرنا چاہیے۔

شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کا ذکر قرآن کریم میں نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن متعین مجرموں کے سلسلہ میں یہ طریقہ اختیار کیا‘ ان کے جرم کی نوعیت کی ازسرنو تحقیق درکار ہے تاکہ یہ بات صاف ہو سکے کہ یہ سزا صرف احصان کے باوجود زنا کے ارتکاب کی تھی یا جرم کی نوعیت زیادہ پیچیدہ تھی۔ پھر یہ امر بھی تحقیق طلب ہے کہ اصل سزا سزائے موت ہے یا یہ مخصوص طریقہ سزا بھی شرعی حیثیت رکھتا ہے۔

قرآن کریم میں مرتد کی سزا نہیں بیان ہوئی ہے۔ مرتد کی جو سزا سنت سے ثابت ہے‘ اس کے ساتھ ہی حضرت عمرؓ کے ایک مشہور اثر کی بنا پر اکثر فقہا مرتد کو تین دن تک توبہ کی مہلت دینے اور اس طرح اس کے شکوک و شبہات کا ازالہ کر کے اسے اسلام کی طرف واپس لانے کی کوشش کو واجب یا کم از کم مستحب قرار دیتے ہیں۔ آزادی ضمیر کی ضمانت دینے کے باوجود ارتداد کو قابل سزا جرم قرار دینا اور اس جرم کی ایک ایسی سزا دینا جو آیندہ اصلاح کے مواقع ختم کر دے‘ بہت نازک مسئلہ ہے۔ فساد عقیدہ اور بنیادی امور میں اختلاف نیز اہل قبلہ کی تکفیر کے بارے میں موجودہ علما کا طرزِعمل اس مسئلے کی سنگینی میں اور اضافہ کر دیتے ہیں‘ کہ مرتد کی تعریف کیا ہوگی اور اس کو کن شرائط کی تکمیل پر سزا دی جا سکے گی؟ اس صورت میں کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا جب ملزم کو اس بات پر اصرار ہو کہ وہ مرتد نہیں ہوا ہے؟

ترک اسلام کے ساتھ اسلامی ریاست سے بغاوت اور اسلام دشمنی کا مسئلہ علیحدہ ہے۔ نازک تر مسئلہ‘ مجرد تبدیلی دین اور ترک اسلام کی سزا کا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ قتل اس جرم کی آخری سزا ہے یا واحد سزا۔ کیا وجہ ہے کہ مرتد کے شکوک و شبہات دُور کرنے کے لیے تین ہی دن کا موقع دیا جائے‘ مزید وقت دینے میں کون سی دلیل شرعی مانع ہے؟ اور ایک جدید اسلامی ریاست اس بارے میں کوئی قانون بناتے وقت اس حقیقت کو کتنا وزن دے گی کہ اسلامی نظام عرصہ سے معطل رہا ہے اور عہدجدید کے انسان پر حجت اس طرح نہیںتمام ہوئی ہے جس طرح اہل عرب پرہوئی؟

۸- اقدار کا موضوع:  اسلامی تعلیمات کامدار اخلاقی قدروں پر ہے‘ شریعت انھی قدروں کی تحصیل متعین احکام و ہدایات کے ذریعے کرتی ہے‘ اور یہی قدریں زندگی کے نت نئے مسائل میں انسان کی صحیح رہنمائی کر سکتی ہیں۔

انفرادی اور اجتماعی کردار کی تعمیر‘ سماجی اداروں کی تشکیل اور جدید مسائل میں نئی اسلامی قانون سازی میں ان قدروں کی رہنما اہمیت مسلم ہے۔پھر یہی قدریں نظام تعلیم و تربیت میں مقاصد کا درجہ رکھتی ہیں اور مطالعۂ حیات میں اسلامی ادیب کے لیے روشنی کے مینار ہیں۔ اخلاقی قدروں کی اس کلیدی اہمیت کے پیش نظر ان کے مطلق یا اضافی ہونے کی بحث بہت اہم ہے۔ اسلامی مفکرین جب اخلاقی قدروں کے مطلق ہونے پر زوردیتے ہیں تو ان کی مراد کیا ہوتی ہے؟ کیا اخلاقی قدروں کا مفہوم احوال وظروف کی تبدیلی کے ساتھ نہیں بدلتا اور ان قدروں کے عملی اظہار کے طریقوں میں تبدیلی نہیں ہوتی؟ کیا انھی باتوں کی تعبیر اس طرح مناسب نہ ہوگی کہ اخلاقی قدروںکے تصور میں ارتقا ہوتا رہتا ہے اور اس ارتقا کے امکانات لامحدود ہیں؟ دورِ جدید میں نظام تعلیم‘ قانون‘ ادب اور سماجی علوم کی تشکیل جدید کے ضمن میں اس بنیادی بحث کا حق نہیں اداکیا گیا ہے۔

۹- فلسفہ تاریخ:  اسلام کے نظام فکروعمل میں اخلاقی قدروں کی اہمیت کے ضمن میں یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ اسلامی مبصر کی نگاہ میں تاریخ انسانی میں اصل کارفرما قوتیں کیا ہیں جن کے حوالے سے ماضی کی توجیہ و تعبیر اور مستقبل کی تعمیر میں رہنمائی حاصل کی جا سکے؟

اسلامی فلسفہ تاریخ کی ترتیب تاریخ انسانی کو ایک مخصوص رخ پر لے جانے کی کوشش کرنے والی اسلامی تحریک کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل ہی اس کے طریق کار میں حقیقت پسندی‘ خود اعتمادی اور اس کی صفوں میں اپنی بالآخر کامیابی کا یقین پیدا کر سکتی ہے۔ اسلامی فلسفہ تاریخ کی ترتیب اور اس کی روشنی میں پوری انسانی تاریخ کی نئی تدوین اس لیے بھی ضروری ہے کہ معاصر فکری مزاج کی تشکیل میں تاریخ کی مادی تعبیر نے اہم حصہ لیا ہے۔ آج تاریخ کا مطالعہ انسانی تاریخ میں روحانی قوتوں اور اخلاقی مقاصد کے عمل سے غفلت برتتا ہے اور ثانوی درجہ کے دوسرے عوامل ہی کو فیصلہ کن اہمیت دیتا ہے۔ تاریخ کے اس مطالعہ کو ردّ کر کے ایک نیا تاریخی شعور حاصل کیے بغیر انسانوں سے کسی تہذیبی انقلاب کی توقع لاحاصل ہے۔ افسوس کہ اس عظیم کام کے سلسلہ میں جو ابتدائی کوششیں کی بھی گئی ہیں‘ ان کا بہت کم نوٹس لیا گیا ہے اور بظاہر اس کام کے آگے بڑھنے کے کوئی آثار نہیں نظرآتے۔ اسلامی مفکرین کی توجہات زیادہ تر ان مسائل پر مرکوز ہیں جو مخصوص سیاسی یا کلامی فضا کی وجہ سے فوری اہمیت حاصل کر گئے ہیں۔ مگر جب تک اسلامی انقلاب کی اس جیسی بنیادی فکری ضرورتوں کو نہیں پورا کیا جاتا‘ عصرحاضر کے مزاج کی اصلاح ناممکن ہوگی۔

معاشرتی مسائل

۱- پردہ: معاشرے میں عورت کے مقام اور اس کے سیاسی اورسماجی حقوق کے سلسلے میں تحریک اسلامی کے صف اوّل کے مفکرین کے درمیان بھی بنیادی اختلافات موجود ہیں۔

الاخوان المسلمون کے رہنما مصر و شام کے دوسرے علما کی طرح‘ عورت کے لیے اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ کھلا رکھنے کو جائز سمجھتے ہیں اور یہی ان کے نزدیک اصل شرعی حکم ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنما صرف ضرورت کی بنا پر ایسا کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور عام حالات میں چہرے کے پردے کے قائل ہیں۔ جو لوگ اس اختلاف سے واقف ہیں ان کے لیے یہ بڑا دشوار ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے علما کی رائے کو خدا کی شریعت کا درجہ دیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر شخص خود کتاب وسنت سے مسئلے کی پوری تحقیق نہیں کر سکتا ہے۔

یہ مسئلہ بہت اہم ہے اور عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعلیمی‘ سماجی اور بسااوقات معاشی ذمہ داریوں اور سرگرمیوں نے اسے اور زیادہ اہم بنا دیا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ دونوں رائیں اپنے دلائل کے ساتھ سامنے آئیں۔ اسلامی تحریکیں بالخصوص اور مسلمان معاشرہ بالعموم ایک ایسا مزاج اختیار کرے جو مخلص مسلمانوں کو اختلافی مسائل میں اس بات کی پوری آزادی دے کہ وہ جس رائے کو زیادہ وزنی پائیں اسے عمل کی بنیاد بنائیں۔ رواج کے قہر یا سماج کے دبائو کے ذریعے کسی ایک رائے کا نفاذ اسلامی تحریک اور مسلمان معاشرے کے لیے نہ صرف نتیجے کے اعتبار سے مہلک ہوگا بلکہ دینی اعتبار سے بھی غلط ہوگا۔

اس سیاق میں یہ بات قابل افسوس ہے کہ مسلمانوں کی کسی دینی یا اصلاحی تحریک نے اپنی قوتوں کا کوئی قابل لحاظ حصہ اس اہم کام پر نہیں صرف کیا کہ ایسی صاحب علم خواتین تیار کرے جو پوری ذمہ داری کے ساتھ ان جیسے مسائل پر غوروفکر اور تحقیق کا حق اداکر سکیں اور کسی ایک رائے تک پہنچنے میں مدد کر سکیں۔ جب تک یہ کمی پوری نہیں ہوتی ان مسائل پر غوروفکر کرنے والوں کی ایک مخصوص ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ دورِ جدید کی مسلمان عورت کی علمی‘ معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی ضروریات اور حوصلوں کی پوری رعایت ملحوظ رکھیں۔

۲- عورت کے سیاسی حقوق: عورت کے سیاسی حقوق پر غور کرتے وقت ہم اس ضرورت کو زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔ مسلم ممالک میں تحریک اسلامی کے مفکرین نے اس مسئلے میں مختلف موقف اختیار کیے ہیں۔

انتخابات میں رائے دہی‘ مجالس قانون سازی کی رکنیت‘ مناصب حکومت پر تقرر‘ ہر مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے اور گذشتہ ۵۰ برسوں میں تبدیلی رائے کی بھی دل چسپ مثالیں ملتی ہیں۔ مسئلے کو سلجھانے کے لیے چندبنیادی امور پر ازسرِنو غور ضروری ہے۔ مثلاً یہ کہ آیت قرآنی  امرھم شورٰی بینھم میں ھم کی ضمیر صرف مسلمان مردوں کی طرف راجع ہے یا مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف۔ یہی سوال قرآن و سنت کے بعض دوسرے نصوص کی تعبیر کے سلسلے میں بھی پیدا ہوگا۔ عہد نبوت اور خلافت راشدہ کا تعامل بھی تحقیق طلب ہے۔ اور یہ مسئلہ بھی تنقیح کا محتاج ہے کہ اگر اجتماعی امور پر مشورے میں مردوں کی نسبت عورتوں کی شرکت کم رہی تھی تو اس کے اسباب مقامی اور عارضی تھے یا شارع جل شانہ کے کسی دائمی منشا کی تکمیل کے لیے ایسا کرنا ضروری سمجھا گیا تھا۔

یہی سوال اس دور کے سیاسی‘ سماجی ‘معاشی اورزندگی کے بعض دوسرے مظاہر کی نسبت سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ اتنے اہم مسائل جن کا تعلّق انسانوں کی نصف تعداد کے اہم حقوق سے ہو‘ بڑی ذمہ داری اور باریک بینی کے متقاضی ہیں‘ اور یہ ضروری ہے کہ ہمارے فیصلے کا مدار کتاب و سنت ہو۔ اگر کوئی مفکرنفسیاتی‘ حیاتیاتی‘ مطالعے کی روشنی میںاور متعلقہ مصالح کے ذاتی فہم کی بنا پر کوئی رائے رکھتا ہے تو اس رائے کو صرف اس دائرے میں کوئی وزن دیا جاسکتا ہے جس میں کتاب و سنت سے کوئی واضح رہنمائی نہ ملتی ہو۔ ہمارے نزدیک اس مسئلے اور متعلقہ مسائل پر غوروبحث کے دوران میں یہ فرق ملحوظ نہیں رکھا جا سکا ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ مزید بحث و تحقیق کے ذریعے کسی رائے تک پہنچا جائے۔

جیسا کہ ہم اُوپر لکھ چکے ہیں‘ اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ اس غوروبحث میںمرد علما اور اصحاب رائے کے ساتھ صاحب علم و بصیرت‘ دین دار خواتین بھی پورا حصہ لیں۔ اگرآج ایسی خواتین کی کمی ہے تو ہمیں ان کی ضرورت و اہمیت محسوس کر کے ایسے اقدامات کرنے چاہییں کہ یہ کمی جلد از جلد پوری ہو۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر اس ضرورت کی عدم تکمیل کے سبب ہم نے اسلامی معاشرے کو اس انداز پر تشکیل دینا چاہا جسے خود دین دارخواتین بھی دل سے نہ قبول کرتی ہوں تو خطرناک نتائج رونما ہو سکتے ہیں۔ ان خطرات کے سدّباب کا واحد محفوظ طریقہ عورتوں میں علم و بصیرت پیدا کرنا اور ان مسائل کی بابت کیے جانے والے فیصلوں میں ان کی شرکت ہے۔

۳- عائلی قوانین میں اصلاح:  اسلام کی عائلی قوانین یا پرسنل لا کی جو دفعات کتاب و سنت سے ماخوذ اور متفق علیہ ہیں ان کی حکمتوں اور مصالح کے بیان پر‘ نیز ان پر مغرب کی جانب سے کیے جانے والے اعتراضات کے جواب میں اردو اور عربی میں خاصا لٹریچر موجود ہے‘ جو کسی حد تک جدید ذہن کو مطمئن بھی کر سکتا ہے۔ مگر جوچیز کھٹکتی ہے وہ وہ اختلاف ہے جو جزئی امور میں اصلاح و ترمیم‘ اور ریاست کی مداخلت اور نئی ضابطہ بندی کے ذریعے عدل و انصاف کی ضمانت دینے کے باب میں تحریک اسلامی کے مفکرین کے درمیان پایا جاتا ہے۔کسی حد تک اختلاف سے تو مفر نہیں‘ مگر جتنا اختلاف اس باب میں نظر آتا ہے وہ بہت کچھ کم ہوجاتا اگر ایک دوسرے کی رایوں سے واقف ہوکر بحث و مذاکرے کے ذریعے اختلافات میں کمی کی کوشش کی جاتی۔

یہاں تفصیل کا موقع نہیں صرف اشارہ کیا جاسکتا ہے‘ مثلاً پاکستان میں علما اور جماعت اسلامی نے جو موقف اختیار کیا وہ اپنی تفصیلات میں اس موقف سے بہت مختلف ہے جو مصر‘ شام اور مراکش وغیرہ کے بعض علما اور الاخوان المسلمون کے رہنمائوں نے اختیار کیا ہے۔ چونکہ یہ مسئلہ غیر مسلم ممالک کے مسلمانوں کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے‘ اس لیے اس کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ تعدد ازدواج کے حق کی تحدید اور ضابطہ بندی‘ طلاق کے اختیار کو بعض آداب کا پابند بنانا‘ حق خلع کی تجدید‘ مطلقہ کے حقوق‘ ایک ساتھ تین طلاقوں کا مسئلہ‘ صغیرہ کے نکاح‘ ولایت اجبار‘ اور خیار بلوغ کے مسائل‘ نیز یتیم پوتے کی وراثت کے ضمن میں جبری وصیت کا مسئلہ اس دائرے کے چند ایسے مسائل ہیں جن پر غوروفکر ضروری ہے۔

۴- غیر مسلموں کے سیاسی حقوق: دورِ جدید میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے سیاسی اور مدنی حقوق کا مسئلہ بھی نازک اور اہم ہے۔ اگرچہ تحریک اسلامی کے رہنمائوں نے اس بارے میں خاصا حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا ہے مگر عام ذہنوں پر مغرب کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا کافی اثر ہے۔

موجودہ موقف یہ ہے کہ رائے دہندگی اور مجالس قانون ساز کی رکنیت نیز دوسرے مدنی حقوق میں ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ برتا جائے گا‘ البتہ یہ مجالس ازروے دستور اس بات کی پابند ہوں گی کہ وہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتیں۔اسلامی ریاست کا صدر مملکت لازماً مسلمان ہوگا اور اس کی شوریٰ صرف مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ غیر مسلموں سے جزیہ لینا ضروری نہیں اور انھیں فوجی خدمات سے مستثنیٰ رکھنا مناسب ہوگا۔ ان میں سے پہلی بات یعنی صدر ریاست کا مسلمان ہونا متفق علیہ اور ہر ایک کے لیے قابل فہم ہے۔ لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جس دستوری پابندی کے تحت مجالس قانون ساز میں غیرمسلموں کی شرکت روا رکھی گئی ہے‘ اسی دستوری پابندی کے تحت کابینہ یا شوریٰ کی کسی دوسری شکل میں ان کی شرکت کیوں نہیں روا رکھی جا سکتی ہے؟ فوجی خدمات کوکسی حالت میں بھی غیر مسلمانوں کے لیے لازمی نہ قرار دینا ایک معقول بات ہے۔ لیکن اگر وہ خود کو اس خدمت کے لیے پیش کریں تو ان کے لیے اس کا دروازہ بند کرناضروری نہیں معلوم ہوتا۔ یہ بات زیادہ موزوں معلوم ہوتی ہے کہ فوجی خدمت اور دوسرے مناصب پر تقرر کا معیار دستور سے وفاداری کو بنایا جائے اور اس اصولی موقف کے ساتھ عملی طور پر انتخاب یا تقرر میں متعلقہ غیر مسلم افراد کے واقعی رجحانات اور کردار کو بھی نظرمیں رکھا جائے۔ اس طرح مسلمانوں اور اسلام کے کسی اہم مفاد کو مجروح کیے بغیر غیر مسلموں کو ان تمام سیاسی اورمدنی حقوق کی ضمانت دی جا سکتی ہے جو دورِجدیدکی کسی ریاست کے شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں یا جن کا شمار مجلس اقوام متحدہ نے بنیادی انسانی حقوق میں کیاہے۔ اپنے موقف کی تعیین اور اس کے بیان میں مزاج عصر کی رعایت رکھنے میں اس حد تک کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا جس حد تک نہ کسی متعین شرعی حکم کی خلاف ورزی لازم آتی ہو‘ نہ اسلام اور مسلمانوں کا کوئی اہم مفاد مجروح ہوتا ہو۔

اس بارے میں مسلم ممالک میں اٹھنے والی اسلامی تحریکوں کے موقف کی تعیین میں دنیا کی رائے عامہ اور غیر مسلم ممالک میں بسنے والی مسلمان اقلیتوں کے مفاد و مصالح کی رعایت رکھنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ دنیا میں اسلام کے مجموعی مفاد کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کو جملہ سیاسی اور مدنی حقوق اوراسلام کی طرف دعوت دینے کے آزادانہ مواقع حاصل ہوں۔ زیرغور مسئلہ میں‘ شریعت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے فراخ دلانہ پالیسی اختیار کرنے اور اس کو مزاج عصر سے مناسبت رکھنے والے انداز میں سامنے لانے سے اس مفاد کے تحفظ میں مدد ملے گی۔

۵- مسلمان اقلیتوں کا سیاسی مسلک :  غیر مسلم اکثریت والے آزادممالک میں بڑی تعداد میں رہنے والے مسلمانوں کے اپنے ملک کے سیاسی نظام سے تعلّق کی نوعیت بھی مذکورہ بالا مسئلے سے کم اہم نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تعلّق ان کی سیاسی قوت اور اس کے نتیجے میں ان کی تعلیمی اور معاشی حالت پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ ان مسلمانوں کی سیاسی قوت‘ تعلیمی اور معاشی حالت کی اس داعیانہ کردار کے لیے بھی اہمیت ہے جو انھیں ان ملکوں میںاختیار کرنا چاہیے۔ اب تک یہ سمجھا گیا ہے کہ انسانوں کو حاکمیت الٰہ کی طرف دعوت دینا اس بات کو مستلزم ہے کہ جس ملک میں حاکم اعلیٰ جمہور کو قرار دیا گیا ہو اس کے سیاسی نظام سے کنارہ کش رہا جائے۔ یہ موقف نظرثانی کا محتاج ہے۔ قانون سازی‘تشکیل حکومت اور انتظام ملکی میں فعال حصہ لے کر اپنی سیاسی قوت میں اضافہ اور تعلیمی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے علاوہ خود ملک کی رائے عامہ پر اثرانداز ہونا زیادہ آسانی سے ممکن ہوگا۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حاکمیت الٰہ کا عقیدہ اور اس کی طرف دعوت اصولی طور پر ایسا کرنے میں مانع ہے۔ اس مسئلے پر کھل کر بحث و مذاکرہ ہونا چاہیے اور کوئی وجہ نہیں کہ یہ بحث مسلم ممالک کے اسلامی مفکرین کی شرکت سے محروم رہے۔ اگر مستقبل میں اسلامی تحریکوں کا منتہائے نظر صرف مسلم ممالک میں اسلامی نظام کا قیام نہیں بلکہ پوری دنیا میں اسلامی انقلاب ہے تو اس مسئلے کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔

معاشی مسائل

۱- اسلام اور معاشی ترقی: اگرچہ معاصر اسلامی فکر کے بعض توجہ طلب پہلوئوں کی نشان دہی میں ہم معاشی مسائل کا ذکر سب سے آخر میں کر رہے ہیں۔ مگر یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ دورِجدید میں ان مسائل کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

بہت سے جدید ذہنوں کی اسلام اور اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں بے دلی یا مخالفت ان مسائل سے وابستہ ہے۔ بہت سے مسلم دانش ور یہ احساس رکھتے ہیں کہ بعض اسلامی تعلیمات معاشی ترقی کے لیے ناسازگارہیں اور اسلام تیز رفتار معاشی ترقی کے لیے ایجابی طور پر سازگارفضا نہیں پیدا کر سکتا۔ مسلمان ماہرین معاشیات نے اپنے مغربی اساتذہ سے یہ سیکھا ہے کہ صنعتی ترقی کا ایک لازمی نتیجہ اور تیز رفتار ترقی کی ایک شرط روایتی سماج کے شیرازے کا منتشر ہونا ہے۔ ان دانش وروں کا تصور اسلام روایتی مذاہب کے تصور سے زیادہ نہیں ہے‘ اور اسلا م کے مطالعے کی کمی کے سبب وہ مشرق کے مسلمان ممالک کے روایتی سماج ہی کو اسلامی سماج سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ان کا ذہن یہ بات بھی تقریباً قبول کر چکا ہے کہ اسلام تیزرفتار معاشی ترقی کے صدمات نہ سہہ سکے گا۔

اگر تحریک اسلامی کو نئے اسلامی معاشرے کی تشکیل میں اپنے ماہرین معاشیات کا تعاون حاصل کرنا ہے تو ان کی ان غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے۔ معاشی ترقی کے حقیقی تقاضوں کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور اسلام کے حرکی رجحانات کی مخفی قوتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ واضح کرنا چاہیے کہ کس طرح وہ معاشی ترقی کے لیے سازگار فضا بناتے ہیں۔ قدرتی طور پر ہمیں ان امور سے بھی بحث کرنی ہوگی کہ اسلام میں ترقی آخری مقصود کا نہیں بلکہ فلاح انسانی کا درجہ رکھتی ہے۔ اس ذیل میں بیش از بیش سامان حیات پیدا کرنے‘ معیار زندگی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ چاہنے‘ انسانی ضروریات میں بے تحاشا وسعت پیدا کرتے چلے جانے اور فردِانسانی کو مزید سامانِ حیات کی کبھی نہ تشفی پانے والے طلب کے دبائو کے تحت مصروف محنت رکھنے کے معاصر مقاصد و مناہج پر تنقید بھی ضروری ہوگی۔ زندگی کے روحانی‘ اخلاقی اور جمالیاتی پہلوئوں کے اہم تقاضوں پر زور دیتے ہوئے معاشی ترقی کے سلسلے میں ایک ایسا معتدل نقطۂ نگاہ سامنے لانا ہوگا‘ جو مقام انسانیت کے شایان شان ہو۔

اسلام کے مجموعی نظام اقدار کے پس منظر میںمعاشی قدروں کے صحیح مقام کی تعیین کے بعد یہ بات واضح کرنی ہوگی کہ اسلام مطلوبہ معاشی ترقی کے لیے قوی محرکات فراہم کرتا ہے اور اس کا اجتماعی نظام اس کے اہتمام کا ذمہ دار ہے۔ اس موضوع پر اب تک بہت کم لکھا گیا ہے۔ موجودہ لٹریچر عام لوگوں کے لیے کچھ مفید ہو سکتا ہے مگر معاشیات کے ماہرین کے لیے تشفی بخش نہیں ہے۔

۲- پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کی بحث:  دورِ جدید میںمعاشی ترقی‘معاشی عدل کے قیام اور فی الجملہ زندگی کی تنظیم میں انفرادی اور نجی کوششوں کی اہمیت روز بروز کم ہوتی جاتی ہے اور تعاون باہمی پر مبنی اداروں نیز ریاست کا دائرہ عمل وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کسی مخصوص فلسفے کا اثر نہیں بلکہ جدید ٹکنالوجی کا نتیجہ ہے جو اشیا کی پیداوار کے لیے بڑے پیمانے پر اہتمام‘ طویل عرصہ پیداوار اور اس کے تقاضے کے طور پر پیداواری منصوبہ بندی اور کامیاب منصوبہ بندی کے لیے رسد اورطلب نیز خام اشیا اور تیار شدہ سامانوں کی قیمتوں میںیک گونہ استقرار کی طالب ہے۔ ایک اسلامی معیشت میں پبلک سیکٹر‘ کوآپریٹو سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر کے اضافی مقامات پر اور صنعتوںکو قومی ملکیت میں لینے یا نہ لینے کے مسئلے پر غور کرتے وقت انفرادی حقوق اور شورائی نظام کے تقاضوں کے ساتھ جدید ٹکنالوجی کے ان تقاضوں کو بھی پوری طرح سامنے رکھنا ہوگا۔ متعلقہ عملی مسائل میں فیصلہ کا مدار مصالح کو بنانا چاہیے اور یہ ظاہر ہے کہ اکثر اوقات بالاتر مصالح کے حصول کے لیے کم تر مصالح کی قربانی یا ان کے تحفظ کے لیے دوسری تدابیر اختیار کرنا بھی لازم آئے گا۔

اس مسئلے پر جو لٹریچر ہمارے سامنے ہے‘ اس کا بیش تر حصہ مستقبل کی اسلامی ریاست کے متوقع مسائل کو سامنے رکھ کر تیار نہیں ہوا ہے‘ بلکہ غیر اسلامی معاشی نظاموں کے ردّ میں تیار ہوا ہے۔ اصل ضرورت ایک ترقی پذیر اسلامی ریاست کے لیے موزوں معاشی پالیسی مرتب کرنے کی ہے‘ اور اس مسئلے میں اصل اہمیت اصطلاحوں کے ترک و قبول کی نہیں‘ بلکہ پالیسی کے ایسے رہنما اصول وضع کرنے کی ہے جو قومی ملکیت میں لینے‘ تحدید ملکیت‘ مسئلہ ملکیت زمین‘ آزادی کاروبار کے حدود اور معاشی منصوبہ بندی جیسے امور میں موزوں فیصلوں کی بنیاد بن سکیں۔

بلاشبہ اس کام کا حق تو اس وقت ادا کیا جا سکے گا‘ جب کسی ملک میں اسلامی نظام عملاً قائم ہو جائے۔ مگر خودایسا ہونا اب اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مسلمان دانش وروں اور ماہرین معاشیات کو خصوصاً اور دورِجدید کے انسان کو عموماً اس بات پر مطمئن کر سکیں کہ اس سلسلے میں تحریک اسلامی ایک واضح‘ حقیقت پسندانہ اور حرکی موقف اختیار کرتی ہے۔

۳- غیر سودی معیشت: اسلا م میں سود کی حرمت اور معاصر معاشی نظاموں میں سود کی کلیدی اہمیت اکثر جدید تعلیم یافتہ افراد کو الجھن میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سود کو مکمل طور پر ممنوع قرار دینے کے بعد بنک کاری‘ نظام زر و کریڈٹ‘ تجارت خارجہ‘ بین الاقوامی مالی تعلّقات کن بنیادوں پر منظم کیے جا سکیں گے۔ بہت سے مسلمان بھی یہ خیال رکھتے ہیں کہ بنک کا سود ان خرابیوں سے پاک ہے جو قرآن کے حرام کیے ہوئے ربا میں پائی جاتی ہیں۔ اس غلط فہمی کے ازالے‘ حرمت سود کی حکمتوں کے بیان اور مذکورہ بالا امور کی تنظیم کے لیے متبادل بنیادوں کی وضاحت پر جو کام اب تک کیا گیا ہے وہ ابتدائی معیار کا ہے۔ مزید تفصیلات پر غور اور متبادل نظام کی فنی وضاحت درکار ہے۔ اس بات کی بھی شدید ضرورت ہے کہ تاریخ انسانی میں بالعموم اور معاصر دنیا میں بالخصوص سود کے کردار اور اس سے پیدا ہونے والی حق تلفیوں‘ عدم توازن اور فساد پر گہرا تجزیاتی اور معلوماتی کام کیا جائے۔ ساتھ ہی سود کی وضاحت کرنے والے اور اس کا جواز فراہم کرنے والے علمی نظریات پر علمی تنقید کا کام بھی آگے بڑھانا چاہیے۔

۴- انشورنس : صنعتی دَور میں انشورنس ایک اہم کاروباری ضرورت ہے۔ انشورنس کارخانہ دار کے لیے یہ ممکن بنا دیتی ہے کہ وہ ایک متعین سالانہ صرفہ برداشت کر کے ناگہانی خطرات کے مالی عواقب سے  بے نیاز ہو جائے۔ اس تحفظ کے بغیر وسیع پیمانے پر صنعتی پیداوار کی تنظیم دشوار ہے۔ یہی ضرورت زندگی کے دوسرے دائروں میں بھی پیش آتی ہے۔ موت کے وقت کے عدم تعین کے سبب افراد زندگی کی انشورنس کے ذریعے موت کے مالی عواقب سے تحفظ چاہتے ہیں۔ ان تمام صورتوں میں تحفظ کی بنیاد یہ فنی حقیقت فراہم کرتی ہے کہ جس خطرے کا وقوع افراد کے لیے مجہول اور غیر متعین ہوتا ہے اسی خطرے کا افراد کے ایک بہت بڑے مجموعے میں وقوع حسابی طور پر معلوم اور متعین ہوتا ہے۔ اس بنیاد پرتعاون باہمی کے اصول پر افراد کے مجموعے خطرات کے مالی عواقب برداشت کرنے اور فردِ واحد کے لیے ان کی شدت کم کرنے کا اہتمام کر سکتے ہیں اور اسی بنیاد پر تجارتی کمپنیاں بڑی تعداد میں افراد سے انشورنس کے معاہدے کر کے مذکورہ بالا مقاصد حاصل کرنے کے ساتھ خود نفع کماتی ہیں ‘اور اسی بنیاد پر اجتماعی نظام سوشل انشورنس کی مختلف صورتیں اختیار کر سکتا ہے۔

ان حقائق کے پیش نظر اسلامی معاشرے کے لیے چند بنیادی سوالات غور طلب ہیں: پہلا سوال یہ ہے کہ وہ اس ضرورت کو زندگی کے تمام دائروں میں اجتماعی نظام کے زیراہتمام پورا کرے گا یا بعض دائروں میں ایسا کرے گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ہر دائرے میں اس ضرورت کی تکمیل کا اہتمام ریاست کے سپرد نہ کیاجاسکتا ہو تو ایسے دائروں میں صرف تعاون باہمی پر مبنی اداروں کو روا رکھا جائے گا یا تجارتی انشورنس کو بھی بعض دائروں میں گوارا کیا جائے گا؟

انشورنس کا موجودہ نظام سود سے ملوث ہے مگر سود کے بغیر انشورنس کی تنظیم جدید اس سے کہیں زیادہ آسان ہے‘ جتنی بنک کاری کی تنظیم جدید۔اس حقیقت کو سامنے نہ رکھنے اور بڑی حد تک انشورنس کمپنی کی فنی بنیادوں سے ناواقفیت کی وجہ سے اس موضوع پر ظاہر کی جانے والی آرا میں بہت کم وزن ہے۔ اردو میںاس پر کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا ہے۔ گذشتہ برسوں میں عربی میں اس پر کئی مقالات لکھے گئے ہیں ‘ مگر اب تک مسئلہ صاف نہیں ہوا ہے۔ انشورنس کمپنی کی فنی بنیادوں کے پیش نظر بعض علما کی یہ رائے کہ اس میں قمار پایا جاتا ہے نظرثانی کی محتاج معلوم ہوتی ہے۔ مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر اس کی مزید تحقیق اور جامع بحث کی ضرورت ہے۔

۵- نظام محاصل : دورِ جدید کی اسلامی معیشت کے نظام محاصل پر کسی جامع کام کی ضرورت ہے۔ اگرچہ متعدد معاصر فقہا و مفکرین نے مال کی نئی قسموں مثلاً کمپنیوں کے حصص‘ مشینوں اور کارخانوں اور کرایہ پر دیے جانے والے مکانات وغیرہ کے سلسلے میں زکوٰۃ کے وجوب پر روشنی ڈالی ہے‘ مگر ابھی اس سلسلے کے تمام مسائل کا احاطہ نہیں کیا جا سکا‘ اور زیرغور مسائل میں اختلاف رائے کم کرنے کے لیے بحث و فکر کی رفتار بہت سست ہے۔ مثال کے طور پر یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ کاروباری پیمانے پر کی جانے والی زراعت کے سلسلے میں شرعی محصول کیا ہوگا؟ عشر و زکوٰۃ کے مصارف اور جدید حالات میں ان کے مطابق عمل کی صورتیں کیا ہوں گی؟ اس بارے میں بھی مزید غوروبحث کی ضرورت ہے۔ اس سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ شرعی محاصل اور مزید محاصل‘ مالیاتی پالیسی (fiscal policy) اور سماجی تحفظ پر روشنی ڈالتے ہوئے غیر سودی اسلامی معیشت کے پس منظر میں ایک جامع نظام تجویز کیا جائے۔

۶- تحدید نسل:  آج کل کم ترقی یافتہ ممالک کی معاشی پالیسی میں تحدید نسل نے بھی ایک اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔ انفرادی سطح پر ضبط ولادت کا مسئلہ قومی پیمانے پر آبادی کو کنٹرول کرنے کے مسئلے سے بڑی حد تک علیحدہ ہے‘ لیکن اس موضوع پر معاصر بحث و مذاکرہ اول الذکر مسئلے کے زیرسایہ شروع ہوا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض مفکرین اس بارے میں غیر معمولی شدت اختیار کر رہے ہیں۔

جہاں تک پہلے مسئلے کا سوال ہے اس پر اس بڑے مسئلے کے پس منظر میں غور کرنا چاہیے جس کا ذکر معاشی ترقی کے تصور اور مقاصد پر گفتگو کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔ مسئلے کے دونوںپہلوئوں پر مزید تحقیقی کام کی اور بحث و مذاکرے کے ذریعے موجودہ اختلاف رائے کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔

 

دور جدید میں احیاے اسلام کی کوشش‘ یا زیادہ جامع الفاظ میں اسلامی زندگی کو عقیدہ و مسلک‘ اجتماعی رویہ‘ قانون ملکی اور دستور مملکت کی حیثیت سے بہ تمام و کمال برپا کرنے کی کوشش کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تجدید ایمان کا مسئلہ ہے۔ آج پوری دنیا میں اللہ پر ایمان زائل یا ازحد ضعیف ہو چکا ہے‘ اور اس کی ہدایت کی طرف رجوع مفقود یا محض رسمی ہو کر رہ گیا ہے۔ دور جدید کا انسان رسمی طور پر خدا کا اقرار کرنے کے باوجود اپنا نظام زندگی خود وضع کرنے پر مصر ہے۔ اگرچہ ایسا کرنے کے نتائج اچھے نہیں رہے ہیں۔ انسانی ذہن کی نارسائی‘ کوتاہ بینی اور عدم استقرار نے جدید انسان کو اضطراب و حیرانی میں مبتلا کر رکھا ہے مگر ابھی وہ خدا کی طرف رجوع پر آمادہ نہیں۔

تحریک اسلامی کو‘ جو صرف مسلمانوں کی اصلاح کو مقصود نہیں بناتی ہے بلکہ تمام بندگانِ خدا کو خدا کی ہدایت کی طرف بلاتی ہے‘ ایک ایسی فکر سامنے لانا ہے‘ جو انسانیت کو دوبارہ خدا پر سچا ایمان عطا کرنے اور اس کی ہدایت کی طرف واپس لانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ دنیا میں گذشتہ دو سو سال سے جو تہذیب چھائی ہوئی ہے اس نے ایمان بالغیب کی جڑیں ہلا دی ہیں اور یقین کو صرف اسی علم تک محدود کر دیا ہے جو حواس کی مدد سے حاصل کیا جا سکے۔ اس تہذیب نے انسان کا منتہاے نظر دنیوی ترقی اور مادی اقتدار تک محدود کر دیا ہے۔ زندگی کے روحانی تقاضوں کو پس پشت ڈال دیا ہے‘ اور اخلاق کو ان مادی مقاصد کا تابع بنا دیا ہے۔ یہی مرض اس تضاد کی بھی توجیہ کرتا ہے کہ دنیا میں ایک ارب سے زیادہ مسلمان ہیں جن کی اکثریت ۵۰ سے زیادہ ملکوں میں رہتی ہے لیکن کسی جگہ بھی اسلامی نظام زندگی قائم نہیںہے۔ ان مسلمانوں میں ایمان کی کمزوری خدا کے وجود یا محمدصلی اللہ علیہ وسلمکی رسالت سے انکار کی صورت شاذو نادر ہی اختیار کرتی ہے مگر ان کی ۹۹ فی صد اکثریت انسانیت کے مذکورہ بالا مشترکہ مرض میں مبتلا ہونے کے سبب اس پختہ یقین‘ تعلق باللہ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت و رہنمائی پر اس کامل اعتماد سے محروم ہے جو اللہ ہی کو زندگی کے تمام امور میں حکمراں بنانے کے لیے درکار ہے۔

مسلم دانش وروں کی فکری جہت :  مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ پریس اور دوسرے ذرائع سے تہذیب حاضر کی مسلسل تربیت میں رہتا ہے اور معاشی اعتبار سے ان قدروں کا زیادہ واضح شعور رکھتا ہے جو تہذیب حاضر نے انسان کو دی ہیں۔ یہی طبقہ مسلمان قوموں میں سیاسی برتری کا مالک ہے۔ یہ آزاد مسلم ممالک میں حکومت کرتا اور نظام تعلیم‘ پریس‘ ریڈیو‘ ٹیلی ویژن اور سینما کے ذریعے عوام کی تربیت کرتا ہے‘ اور دوسرے ممالک میں مسلمان اقلیتوں کا سیاسی اور ثقافتی رہنما ہے۔ یہ طبقہ ایمان کے غیر معمولی ضعف کا شکار ہے۔ مسلمان دانش وروں میںایک معتدبہ تعداد خدا کے وجود‘ رسالتؐ اور آخرت پر یقین سے محروم یا کم از کم ایسے شک و ریب میں مبتلا ہے جو ان کے ایمان کو بے اثر بنا دینے کے لیے کافی ہے۔

مسلم دانش وروں کی ایک بڑی تعداد ان بنیادی امور پر ایمان رکھنے کے باوجود یہ سمجھتی ہے کہ اسلام کا دائرہ بھی دوسرے مذاہب کی طرح نجی زندگی میں بندہ و خدا کے تعلّق تک محدود ہے۔ ان کا خیال ہے کہ قرآن کی تعلیمات اور رسولؐ کی ہدایات‘ عبادات و اخلاق اور عام انسانی تعلّقات میں ہماری رہنمائی کر سکتی ہیں‘ مگر قرآن و سنت کے احکام و قوانین یعنی ’’شریعت‘‘ اپنے زمانے کے لیے تھی‘ ہمارے زمانے کے لیے نہیں۔ یہ لوگ عام دنیوی امور میں شریعت کی پابندی کے قائل نہیں۔ ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ان امور میں ہم اسلامی تعلیمات کی روح کو سامنے رکھیں گے مگر سود کی حرمت‘ قانون وراثت اور فوجداری قوانین جیسے متعین احکام کی پابندی اس زمانہ میں ممکن نہیں۔ مؤخرالذکر دونوں طبقوں کے رجحانات متعین کرنے میں اگر ایک طرف مغرب کی دی ہوئی فکر اور اس کا نظام اقدار اثرانداز ہوا ہے‘ تو دوسری طرف یہ بات بھی فیصلہ کن رہی ہے کہ ان دانش وروں کو مذکورہ بالا متعین قوانین‘ اور ان جیسے دوسرے قوانین کو آج کی دنیا میں نافذ کرنا عملاً محال نظر آتا ہے۔ جدید زندگی کے احوال وظروف اور جدید انسان کے مزاج کو جیسا کچھ انھوں نے سمجھا ہے اس کی روشنی میں وہ یہ رائے رکھتے ہیں کہ سود کے بغیر معیشت نہیں چل سکتی‘ وراثت‘ گواہی‘ طلاق یا زندگی کے کسی مسئلے میں عورت کے ساتھ مرد سے مختلف سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ حدود شرعیہ کا نفاذ دورِ جدید کے انسان کا مزاج نہیں قبول کر سکتا‘ ایک جدید مملکت میں قانون سازی اور انتظام ملکی میں غیرمسلموں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا‘ وغیرہ وغیرہ۔

جب تک مسلمان معاشروں میں قیادت و سربراہی کے مالک دانش وروں کی ایمانی اور فکری حالت یہ ہے‘ ظاہر ہے کہ ان کے اندر اسلامی انقلاب کی توقع نہیں کی جا سکتی‘ اگرچہ مسلمان عوام میں مذہب کا اثر زیادہ ہے۔ تعلیم کی کمی اور معلوم معاشی پست حالی کے سبب ابھی تہذیب جدید کی فکر اور نظام اقدار ان پر پوری طرح اثرانداز نہیں ہو سکا ہے۔ معاشی ترقی اور جدید تعلیم کے عام ہونے کے ساتھ مذہب کا اثر بھی گھٹتا جا رہا ہے۔ جو اثر ہے وہ زیادہ تر عبادات اور ثقافتی امور تک محدود ہے۔ البتہ زندگی کے مقاصد‘منظور نظر قدریں اور دنیوی زندگی میں خوب و ناخوب کے پیمانے وہی ہیں جو دانش وروں نے اختیار کر رکھے ہیں۔ اپنے لیڈروں کی مذہب سے دُوری پر افسوس کرنے کے باوجود دنیوی امور سے شریعت کی بے دخلی کے معاملے میں مسلمان عوام کی غالب اکثریت اپنے لیڈروں ہی کے پیچھے چل رہی ہے۔

علما و مشائخ کا عمومی رویہ:  ہر مسلمان معاشرے میں ایک طبقہ علما و مشائخ کا بھی ہے جس سے مسلمان عوام خاصا تعلّق رکھتے ہیں۔ ان کے اندر شعائر اسلام کے احترام اور ثقافتی امور میں اسلامی آداب کی پابندی زیادہ تر انھی علما و مشائخ کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے۔ لیکن ان علما و مشائخ کو مسلمان عوام سیاسی اور عام دنیوی امور میں اپنا رہنما نہیں بناتے اور نہ خود علما ومشائخ میں اتنی خود اعتمادی اور اس بات کا حوصلہ ہے کہ وہ ان کی مکمل رہنمائی کریں۔ وہ جدید تہذیب اور مسلمان دانش وروں پر اس کے گہرے اثرات سے بالعموم ناواقف ہیں۔ اگر وہ مرض کی بعض علامتیں دیکھتے بھی ہیں تو اس کے اسباب تک پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں۔ وہ تہذیب جدید اور اس کے تمدن کی مادی بلندی سے مرعوب ہیں اور اس کو جڑو بنیاد سے بدل کر اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کا کوئی داعیہ اپنے اندر نہیں پاتے۔ مسلمان دانش وروں کی بے دینی پر بظاہر تنقید کرنے کے باوجود امور دنیا میں یہ انھی کی قیادت مان رہے ہیں اور وقت پڑنے پر مسلمان عوام کو انھی کی قیادت پر مجتمع کرنے اور ان کی تائید پر کمربستہ کرنے کی خدمت انجام دیتے رہتے ہیں۔

یہ منظر بڑا عبرت انگیزہے کہ جہاں بھی احیاے اسلام کی طاقت ور تحریکیں اٹھیں علما و مشائخ کے ایک طبقے نے ان کی زبردست مخالفت کی اور بڑی حد تک اپنا وزن اس لادینی قیادت کے حق میں استعمال کیا جو ان تحریکوں کو پامال کرنا چاہتی ہے۔ ہمارے نزدیک اس کا سبب صرف گروہی عصبیت اور عوام کی قیادت چھن جانے کا خوف نہیں‘ بلکہ اس مخالفت کی تہہ میں اسلام کے بارے میں ان علما و مشائخ کی فکر کی محدودیت اور احیاے اسلام کے حوصلے کا فقدان ہے۔ ان کا یہ تاریخی وجدان ہے کہ جو کام قرونِ اولیٰ کے بعد پھر ممکن نہ ہوسکا وہ آج کی دنیا میں یکسر ناممکن ہے‘ اور انھیں یہ اندیشہ ہے کہ مکمل اسلامی نظام کے قیام کی کوشش کہیں محدود دائرے میں بھی اسلام کے باقی نہ رہنے کا سبب نہ بن جائے!

اسلامی تحریکیں اور مسلم معاشرے: ایمانی حالت کے اس سرسری جائزے کی روشنی میں احیاے اسلام کی ان کوششوں پر نظر ڈالی جائے‘ جو بیسویں صدی سے دنیاے اسلام کے مختلف علاقوں میں کی جاتی رہی ہیں تو یہ معلوم ہوگا کہ بڑی حد تک اصل مرض کو پہچانا گیا ہے‘ اور اس کا علاج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں ان کوششوں کا جائزہ لینا ممکن نہیں ہے۔ صرف اس حقیقت پر زور دینا چاہتے ہیں کہ ابھی یہ کوششیں ناتمام ہیں۔ اسلامی تحریکوں نے عام انسانوں کو مخاطب بنا کر انھیں کفر و شرک اور حیرانی و اضطراب سے ایمان کی طرف لانے کی کوشش بھی کم کی ہے۔ ان کی بیش تر توجہات مسلمان معاشروں پر مرکوز رہی ہیں۔ لیکن اب بھی مسلمان دانش وروں اور ان کے عوام کا حال وہ ہے جو اُوپر بیان کیا گیا ہے۔ ابھی دنیا میں کہیں بھی ان کوششوں کی ]بظاہر[کامیابی کے آثار نہیں نظر آتے‘ گو گذشتہ نصف صدی کی کوششوں کے نتیجے میں صورت حال بلاشبہ بہتر ہوئی ہے۔

آج مسلمان دانش وروں میں ایک معتدبہ عنصر موجود ہے جو پورے اسلام کو اختیار کرنے کا عزم رکھتا ہے‘ اور شریعت کو نہ صرف واجب العمل سمجھتا ہے بلکہ قابل عمل سمجھتا ہے‘ اور دَورِ جدید میں اسے نافذ کرنے کا عزم بھی رکھتا ہے۔ یہ عنصر متحرک اور فعال ہے اور متعدد مسلمان معاشروں میں اس نے عوام کے ایک بڑے طبقے کا اعتماد حاصل کر کے ان کی قیادت شک و ریب میں مبتلا یا کمزور ایمان رکھنے والے اور دین و دنیا کے درمیان تفریق کرنے والے دانش وروں سے بڑی حد تک چھین بھی لی ہے۔ لیکن ابھی عوام کی غالب اکثریت کی اس نئی اسلامی قیادت کے ساتھ وابستگی زیادہ تر جذباتی ہے جس کے سبب وہ غیر اسلامی قیادت کے تسلط کے خلاف کوئی عملی اقدام کرنے اور اس راہ میں قربانیاں دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ابھی نہ عوام کا نظام اقدار بدلا ہے‘ نہ اس بگڑے ہوئے ’’مذہبی مزاج‘‘ کی اصلاح ہوئی ہے جو اسلام کے نام پر لوگوں کو علما اور اسلامی قیادت کے پیچھے لاکھڑا کرتا ہے‘ مگر معاشی ترقی‘ سیاسی استحکام اور امور مملکت کے نظم و انصرام کے سلسلے میں فیصلہ کن طاقت کا حق دار سیکولر قیادت ہی کو سمجھتا ہے۔

اپنے دانش ور طبقے میں ایمان کی بحالی اور اپنے عوام کو پوری طرح ساتھ لینے کے لیے ابھی اسلامی تحریکوں کو بہت کچھ اور کرنا ہے۔ انھیں عوام میں اسلام کا علم پھیلانے‘ ان کی اصلاحی اور دینی اصلاح اور ایمانی تربیت کے لیے اپنے پروگراموں کو زیادہ جامع بنانا ہے‘ اور ان پر زیادہ مستعدی کے ساتھ عمل کرنا ہے۔ اصلاح صرف قول سے نہیں ہوا کرتی ہے‘ اس سے زیادہ اہمیت کردار کی ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکنوں کو نہ صرف عبادات و اخلاق میں بلکہ معاملات دنیا بالخصوص معاشی وسائل اور سیاسی طاقت کے برتنے میں‘ نیز اپنی معاشرتی زندگی میں للہیت‘ ترجیح آخرت اور اخوت‘ مواساۃ و مرحمت‘ شورائیت اور مساوات کی اسلامی قدروں کے مطابق اعلیٰ اسلامی کردار کا نمونہ پیش کرنا ہے تاکہ مسلمان عوام ان قدروں کو جذب کر سکیں اور اسلامی نظام کے قیام کی راہ ہموار ہو سکے۔ انھیں اپنے عوام کے اندر وہ بنیادی انسانی صفات اُجاگر کرنی ہیں جن کے بغیر کوئی انسانی گروہ زوال سے عروج اور ضعف سے قوت کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ ہماری مراد محنت‘ نظم و ضبط‘ کسی اعلیٰ مقصد کے لیے ایثار و قربانی کے جذبے‘ اور اس مقصد کے لیے ذریعے کے طور پر علوم و فنون میں مہارت کے ذریعے تسخیر کائنات کے حوصلہ سے ہے۔ صرف وعظ و ارشاد کے ذریعے مسلمان عوام سے کاہلی اور جہالت‘ اختلاف اور فرقہ بندی‘ بخل اور کم ظرفی اور پست حوصلگی کی مہلک بیماریاں نہیں دُور کی جا سکتیں۔ ان کے علاج کے لیے وسیع پیمانے پر مسلسل منظم کوششیں درکار ہیں۔

مسلمان دانش وروں کی ایمانی حالت درست کرنے‘ ان کے نظام اقدار میں تبدیلی اور کتاب و سنت کے ساتھ ان کی وفاداری بحال کرنے میں مذکورہ بالا کوششوں کو بھی دخل ہوگا مگر ان کی نسبت سے تحریک اسلامی کو کچھ علمی اور فکری کام بھی کرنے ہیں۔ یہ علمی اور فکری کام عام انسانوں کو دعوت اسلامی کا مخاطب بنانے کے ضمن میں اہمیت کے حامل ہیں‘ اور اس تعلیمی اور تربیتی پروگرام کے لیے بھی اہم بنیادیں فراہم کرتے ہیں جس کا ذکر اُوپر عوام کی اصلاح کے ضمن میں کیا گیا ہے۔

غوروفکر کی جہتیں: یہ مقالہ مخصوص طور پر تحریک اسلامی کے ہمہ جہتی کام کے علمی اور فکری پہلو سے بحث کرتا ہے۔ اس کا مقصد ایسے موضوعات ومسائل کی نشان دہی ہے جن پر کیا جانے والا کام اتنا تشفی بخش نہیں کہ جدید ذہن کو پوری طرح مطمئن کر سکے‘ یا جن کے بارے میں معاصر اسلامی مفکرین کے درمیان پائے جانے والے اختلافات نے مزید بحث و تحقیق کو ناگزیر بنا دیا ہے‘ یا جن کی طرف گذشتہ کئی عشروں میں بہت کم توجہ کی جا سکی ہے۔

ہمارے نزدیک اس طرح کافکری کام‘ جس کے بعض گوشوں کی ذیل میں نشان دہی کی جا ئے گی‘ عصرحاضر میں اسلامی نظام کے قیام کی شرط لازم بن چکا ہے--- جو لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ اسلامی مفکرین فکری کام کا حق ادا کر چکے ہیں اور مسلم دانش وروں کو اسلام کے پوری طرح اختیار کرنے سے روکنے والی چیز صرف ان کی دنیا پرستی ہے‘ یا مسلم عوام اسلامی تحریکوں کی قیادت اور ان کے پروگراموں سے پوری طرح مطمئن ہیں‘ صرف فوجی آمریتیں ان کے اجتماعی ارادے کے عملی اظہار میں مانع ہیں--- ان کے تجزیے کو ہم غیر تشفی بخش سمجھتے ہیں اور اس سے اختلاف رکھتے ہیں۔

ہم اس غلط فہمی کا شکار نہیں کہ جن فکری کاموں کی نشان دہی کی جا رہی ہے‘ وہ انجام پا جائیں تو دَورحاضر کا انسان اسلام کی طرف دوڑ پڑے گا‘ یا مسلمان دانش ور فوج در فوج تحریک اسلامی کی صفوں میں شامل ہونے لگیں گے‘ اور مسلمان عوام کی موجودہ دو رُخی اور ان کا تذبذب دُور ہو جائے گا۔ جیسا کہ ہم نے اُوپر اشارہ کیا‘مسئلے کے دوسرے پہلو بھی اہمیت رکھتے ہیں مگر ہم یہ رائے ضرور رکھتے ہیں کہ جب تک فکری کام آگے نہیں بڑھتا دوسرے کاموں کے باوجود اسلامی تحریکیں اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔

ہمارے نزدیک انسانی دنیا میں فیصلہ کن طاقت افکار و تصورات کی طاقت ہے اور جو چیز دَورحاضر میں اسلام کو اس کا اصل مقام دوبارہ دلوانے والی ہے وہ اسلامی افکار و تصورات کی صالحیت اور دوسرے تمام افکار و تصورات کے مقابلے میں اسلام کے نظریۂ حیات و کائنات کا زیادہ معقول و برتر ہونا ہے۔ شرط یہ ہے کہ باطل افکار و تصورات پر گہری تنقید کے ساتھ اسلامی افکار و تصورات کو ایسے استدلال کے ساتھ پیش کیا جائے جس کو عصرحاضر کا انسان سمجھ سکے۔ کسی صالح تر نظریے کو محض جبرو تشدد سے زیادہ عرصہ نہیں دبایا جا سکتا۔ آج بعض مسلم ممالک میں طاقت ور اسلامی تحریکوں کو جبر کی حکمرانی نے جس طرح دبا رکھا ہے‘ اس سے بہت سے ذہنوں میں یہ سوال اُبھر رہا ہے کہ ایسے حالات میں نظام کی تبدیلی کے لیے اشاعت افکار‘ تعمیر کردار اور اصلاح معاشرہ کے پروگرام کس طرح مقصد براری کر سکتے ہیں؟ طاقت کے جواب میں طاقت کی ضرورت ہے۔

اس طرح سوچنے والوں کو مذکورہ بالا تاریخی حقیقت پر غور کرکے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ انھیں وقت کے چھائے ہوئے نظام کے مقابلے میں جس طرح کی طاقت کی ضرورت ہے وہ عوام و خواص کے ذہنوں میں صالح فکر کے رسوخ اور ان کے انفرادی اجتماعی کردار پر اس کے گہرے اثر کے نتیجے میں ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ انسانی فطرت جبر کی حکمرانی سے نفرت کرتی ہے‘ مگر اس کی بے پناہ قوتوں کو جبر کے خلاف منظم کوشش پر آمادہ کرنے کے لیے صالح نظریہ اور اس پر گہرا یقین درکار ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ کسی ملک میں بھی اسلام کی راہ کا روڑا صرف اس ملک کا مغرب زدہ طبقہ یا اس کی حکمران قوتیں نہیں بلکہ پوری لادینی تہذیب‘ سرمایہ دارانہ مغرب‘ صلیبیت اور صیہونیت اپنے عالمی پریس‘ اپنے لٹریچر‘ اپنے سفارت خانوں اور برآمد کردہ ماہرین‘ اپنی فوجی اور اقتصادی امداد‘ غرض اپنے جملہ مادی اور ذہنی وسائل کے ساتھ اسلامی نظام کے احیا کی راہ روکنے پر تلے ہوئے ہیں۔

احیاے اسلام کے لیے جہاد کا میدان کوئی ایک ملک نہیں‘ پوری دنیا ہے۔ آج تحریک اسلامی جس مرحلے میں ہے اس میں یہ لڑائی محض مادی قوت کے ذریعے نہیں جیتی جا سکتی ہے۔ ہماری اصل قوت ہمارا صالح نظریۂ حیات ہے‘ جس کی صحیح اور موثر ترجمانی اورعصرحاضر کے ذہن و مزاج کو پوری طرح سمجھ کر کی جانے والی تفہیم --- ایسی ترجمانی اور تفہیم جس کے پیچھے داعی گروہ کے اعلیٰ اسلامی کردار کی سند موجود ہو--- جغرافیائی‘ قومی اور نسلی حدود سے بے نیاز ہو کر انسانوں کے دل و دماغ بدل سکتی ہے۔ یہی کام ہماری اپنی صفوں کو درست کرنے اور مخالف قوتوں کا شیرازہ منتشر کر کے انسانوں کو ان کی قیادت سے اپنی قیادت کی طرف لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ہمیں اپنی توجہات اسی پر مرکوز کر دینی چاہییں۔

ایمان وعقیدہ

۱- شان الوہیت: فکری کاموں میں سرفہرست اللہ تعالیٰ کے وجود‘ اس کی صفات‘ اور شان الوہیت کی تفہیم کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے پر اب تک ایسا لٹریچر نہیں پیش کیا جا سکا ہے جس میں دَورحاضر کے منکرین خدا‘ متشککین (skeptics) اور لاادریین (agnostics)کے خیالات کو پوری طرح سامنے رکھا گیا ہو۔ غالباً اس کی ایک وجہ ہے کہ ہمارے مفکرین مغرب کے انسان کو اپنا مخاطب بنانے کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے‘ اور انھوں نے اپنے عوام کے ایمان باللہ کو ایک مسلّم حقیقت اور اپنے دانش وروں کے شک و ریب کو محض مغرب سے مرعوبیت کا نتیجہ سمجھا۔ افسوس کہ ہمارا مرض زیادہ گہرا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ عصرحاضر کے ائمۂ فکر کے اعتراضات و شبہات کا جائزہ لیتے ہوئے اس موضوع پر کام کیا جائے۔ اس کام میں ایسے مسائل سے بھی تعرض ناگزیر ہوگا جن کا تعلق خدا کے وجود سے نہیں بلکہ اس کی صفات اور ان صفات کے درمیان ہم آہنگی سے ہے۔ مثلاً برٹرنڈرسل اور ٹائن بی جیسے چوٹی کے لاادریین کائنات میں شر(evil) کے وجودکے پیش نظر خداکی صفت رحمت و قدرت کو تسلیم کرنے‘ اور پھر اس بنا پر خود خدا کا وجود تسلیم کرنے کو دشوار پاتے ہیں۔ معاصر اسلامی لٹریچر اس مخصوص مسئلے سے بہت سرسری گزر گیا ہے۔

صفات خداوندی کی قرآن کی روشنی میں تفہیم کی اہمیت ایک مثال سے سمجھی جا سکتی ہے۔ خدا علیم و خیبر ہے اور وہی غیب کا علم رکھتا ہے مگر علم کے باب میں دَورحاضر کا انسان کسی حد کا قائل نہیں اور وہ اس علم و خبر کا بھی مدعی ہے جو ضابطہء حیات وضع کرنے کے لیے درکار ہے۔ اس انانیت میں اعتدال پیدا کرنا شان الوہیت اور مقام عبودیت کے صحیح فہم اور متعلقہ صفات خداوندی کے قرآنی تصور پر اطمینان حاصل کیے بغیر ممکن نہیں۔

اسی طرح شان الوہیت کی ایسی تفہیم درکار ہے جو انسانوں میں عموماً اور مسلمان دانش وروں اور ان کے عوام میں خصوصاً اللہ کی حاکمیت کا تصور بھی اسی طرح راسخ کر دے‘ جس طرح اس کے مسجود و معبود ہونے کا تصور راسخ ہے۔ اسلامی تصورتوحید کی وضاحت میں وحدت الوجودجیسے تصورات کا نوٹس لینا بھی ضروری ہے تاکہ یہ صاف اور سلجھا ہوا حرکی (dynamic)تصور فلسفیانہ الجھائوں سے پاک رہ کر انسانی زندگی پراپنے گہرے اثرات مرتب کر سکے۔ انسان کی روحانی اور نفسیاتی‘ علمی اور فکری‘ اخلاقی اور عملی‘ نیز سیاسی‘ معاشی اور سماجی زندگی کے لیے عقیدہ توحید کے تقاضوں کی وضاحت ہر دور میں ازسرنو ضروری ہوتی ہے۔ دَورحاضر کے احوال و ظروف‘ اس کی ذہنی فضا اور مزاجی کیفیت کی مناسبت سے ایسی وضاحت درکار ہے‘ جو مادی تہذیب کے اثرات سے زندگی کے تمام پہلوئوں کو پاک کر کے انھیں اسلامی اقدار کے مطابق ڈھال سکے۔ عملی زندگی میں توحید کے تقاضوں کی تووضاحت کی گئی ہے‘ مگرعلم و فکر‘ آرٹ اور ادب‘ فنون لطیفہ اور جمالیات کی نسبت سے کم سوچا گیا ہے۔

تمام تہذیبی مظاہر کی آبیاری بالآخر کسی ایک سرچشمہ سے ہوتی ہے جو ان کا مزاج متعین کرتا ہے۔ اسلامی تہذیب کا سرچشمہ تصور توحید ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ کائنات کے مشاہدے و مطالعے میں‘ قوانین فطرت کے اکتشاف اور ان کی تشریح میں یا نفس انسانی‘ سماج اور اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں کے تجزیہ و تحلیل میں اس سرچشمہ سے بے نیازی برت کر اسلامی تہذیب کی تشکیل جدید کی امید کی جا سکے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ وہ دائرے ہیں جو علما دین کی دسترس سے باہر رہے ہیں اور ان کے ماہرین نے شعوری یا لاشعوری طور پر ان دائروں میں خدا کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا ہے جو مغربی تہذیب نے اختیار کیا ہے۔ اس موقف پر نظرثانی کی اور ان دائروں میں توحیدی بصیرت کے ساتھ نئے کام کی ضرورت ہے تاکہ ایک طرف تو یہ واضح ہو سکے کہ کائنات کی سب سے بڑی حقیقت یعنی خدا کے بغیر حقائق کا صحیح فہم اور ان کی تعبیر و توجیہ دشوار ہے‘ دوسری طرف یہ ثابت ہو جائے کہ اس حقیقت کی رہنمائی میں مختلف حقائق کے درمیان ربط قائم کرنا اور ان سے متوازن اور ہم آہنگ استفادہ کرنا ممکن ہے۔

۲- منصب رسالت : الوہیت کے بعد وحی و رسالت کی اہمیت ہے۔ مستشرقین نے وحی کے اسلامی تصور کو مجروح کرنے اور رسالت کے حدود (scope)کو محدود کرنے کی کوشش کی ہے‘ جس کا بعض مسلمان دانش وروں نے خاصا اثر لیا ہے۔

وحی و رسالت کے باب میں ہندو ذہن اور عیسائی ذہن اسلامی ذہن سے یکسرمختلف تصور رکھتا ہے۔ ان مخصوص اجنبی تصورات کا نوٹس لینا بھی ضروری ہے۔ وحی و رسالت کے قرآنی تصور کی وضاحت میں عقل انسانی‘ سائنس اور تاریخ کی رہنمائی کی رسائی کو بھی زیربحث لانا ہوگا۔ نیز فی الجملہ غیب اور ایمان بالغیب کے موضوع پر سیرحاصل بحث کرنی ہوگی جیسا کہ اُوپر اشارہ کیا جا چکا ہے۔ عصرحاضر کا انسان‘ غیب سے کتراتا ہے اور کسی ایسے علم کو جاننے سے پہلو بچاتا ہے جسے عقل و تجربہ کی سند نہ حاصل ہو۔ بیسویں صدی کے متعدد سائنس دانوں اور ماہرین نفسیات نے اس سطحیت اور کوتاہ نظری کے خلاف احتجاج کیا ہے‘ اور معلوم کے بالمقابل مجہول کی وسعتوں پر زور دیا ہے‘ مگر مزاج عصر نے اس کا اثر کم قبول کیا ہے۔ ان کی تحریروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسئلے کی مکمل تنقیح ضروری ہے۔

وحی اور رسالت کی ماہیت اور ان کی وسعتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اس ذہن کو بھی سامنے رکھنا ہوگا جو دین وشریعت کے درمیان تفریق کرتا ہے اور سیاست و معیشت‘ خاندانی زندگی اور جرم و سزا جیسے سیکولر امور میں قانون سازی کے لیے انسانی عقل و تجربہ کو کافی سمجھتا ہے۔ کیا انسان کی نفسیاتی‘ سماجی اور معاشی و سیاسی زندگی کے جملہ امور و متعلقات دائرہ غیب سے باہر اور انسانی علم کی مکمل رسائی میں ہیں؟ اس سوال کا واضح جواب قرآن کی روشنی میں تلاش کرنا ہوگا۔ احکام شریعت کی دائمی حیثیت کی وضاحت اوروکالت کے ضمن میں زمان و مکان کی نسبت سے بعثت محمدیؐ کی حیثیت کا جائزہ لینا ہوگا۔ اس سلسلے میں ختم نبوت کی بھی مزید تفہیم درکار ہے۔ کیوں کہ بعض ذہنوں کے لیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جب عقل و حواس کی نارسائی انسان کی مستقل کمزوری ہے جس کی تلافی کے لیے وحی الٰہی کی رہنمائی درکار ہے تو تاریخ انسانی کے کسی مرحلہ پر اس رہنمائی کا سلسلہ کیوں ختم کر دیا گیا؟ اس سوال اور مذکورہ بالا دوسرے مسائل کا تعلق بالآخر فلسفہ‘ تاریخ‘ مزاج شریعت اور تجدید و اجتہاد کے تاریخی کردار سے جڑ جاتا ہے۔

۳- قرآن اور سائنس :  مقام وحی و رسالت کے ضمن میں مذہب اور سائنس‘ یا زیادہ صحیح الفاظ میں قرآن اور سائنس کے موضوع پر بھی نئے کام کی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر اردو اور عربی میں جو لٹریچر موجود ہے اس پر زیادہ تر انیسویں صدی کی سائنس کی فکر کی چھاپ پڑی ہے اور وہ الا ماشاء اللہ افراط و تفریط کا شکار ہے۔

اس کی ایک مثال حیاتیاتی ارتقا (evolution)کا مسئلہ ہے۔ سائنس کا طالب علم اسے حقیقت مانتا ہے مگر قرآن کا مفسّر یا تو قرآن کی طرف اس کی قطعی تردید منسوب کرتا ہے یا آیات قرآنی سے حیاتیاتی ارتقا کا اثبات کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم بتا چکے ہیںمطالعہ فطرت میں وحی الٰہی سے بے نیازی برتنے یا قرآن اور سائنس کو دو بالکل علیحدہ خانوں میں رکھنے کا رویہ صحیح نہیں ہو سکتا۔مگر یہ بھی ممکن نہیں کہ ایک دائمی کتاب ہدایت سے تمام سائنٹفک حقائق اخذ کیے جا سکیں یا اس کے بیانات کی تفسیر میں بدلتے رہنے والے نظریات کو فیصلہ کن اہمیت دی جائے۔ مسئلے کے ان نازک پہلوئوں کی پوری رعایت ملحوظ رکھتے ہوئے مسئلہ ارتقا اور اس جیسے دوسرے مسائل کی نسبت سے قرآن کے موقف و منہاج کی ازسرنو وضاحت ضروری ہے۔ عصرحاضر کے لیے اس کام کی ضرورت بہت زیادہ ہے کیوں کہ بعض اوقات ایمان باللہ کے باوجود کسی ایک مسئلے میں شک و ریب یا یہ گمان کہ معلوم و مشہود حقیقت وحی و رسالت کے بیان سے ٹکراتی ہے‘ پوری زندگی کو ایمان کے دُور رس اثرات سے محروم کر دیتا ہے اور انسانی ذہن کو مجبور کرتا ہے کہ وہ مذہب کے سلسلے میں ایک غیر عقلی تقلیدی موقف اختیار کرے جس کا لازمی نتیجہ عام انسانی زندگی سے مذہب کی بے دخلی ہے۔

۴- سنت: منصب رسالت کی تفہیم کے لیے دوسرا اہم کام سنت کی تنقیح کا ہے۔سنت اسلامی قانون کا مآخذ اور قرآن کے پہلوبہ پہلو اسلامی تعلیمات کا منبع ہے۔ کسی زیرغورمسئلے میں سنت کی رہنمائی معلوم کرنے کے لیے ہمیں اب جو ذریعہ میسّر ہے وہ احادیث کا ذخیرہ ہے‘ جو صدیوں کی چھان بین اور بحث و تحقیق کے نتائج کے ساتھ ہم تک منتقل ہوا ہے۔ اصولی طور پر اس ذخیرہ سے استفادے میں ماضی کی بحث و تحقیق کو حرف آخرسمجھنے کے بجائے مزید تحقیق و تدبیر کی ضرورت ہمیشہ باقی رہے گی۔ یہ بات روایت و درایت یا تاریخی تحقیق اور قرآن کریم کی رہنمائی میں عقلی جانچ پرکھ دونوں کے بارے میں صحیح ہے۔چند مجموعوں میں درج ہر روایت کو لفظاً و معناً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے اور مستشرقین کی اتباع میں احادیث کے پورے ذخیرہ کی صحت کو مشکوک سمجھنے کے دو انتہا پسندانہ رویوں کے درمیان یہی وہ مسلک اعتدال ہے جو تحریک اسلامی کے رہنمائوں نے اختیار کیا ہے۔ اصل مسئلہ زیرغور مسائل میں اس موقف کو عملاً برت کر دکھانے اور انتہا پسندانہ موقفوں پر علمی تنقید کا ہے۔ یہ کام بھی ازحد تشنہ ہے۔

روایت و درایت کے اعتبار سے احادیث کی ازسرنو تحقیق اور جدید مسائل کی نسبت سے سنت کی تنقیح کی سب سے زیادہ اہمیت ان دستوری‘ سیاسی‘ معاشی اور سماجی مسائل میں ہے‘ جن میں دَور جدید میں اسلامی موقف کی ازسرنو تعیین اس لیے ضروری ہو گئی ہے کہ متعلقہ احوال و ظروف یکسر بدل گئے ہیں۔ اس دائرہ میں متعدد مسائل کے ضمن میں یہ سوال بہت اہم ہو گیا ہے‘ کہ سنت ان مقاصد و مصالح کے اعتبار سے اور ان کے حصول کے لیے مزاج شریعت سے مناسبت رکھنے والے طریقے اختیار کرنے کا نام ہے‘ جن کااعتبار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کی دستوری سیاسی‘ معاشی اور سماجی زندگی کی تطہیر و تنظیم میں کیا تھا‘ یا خود ان متعین قواعد و ضوابط کا نام ہے جو آپؐ نے وضع کیے تھے۔

۵- اسلامی تاریخ: دَور جدید میں احیاے اسلام کی جدوجہد کے سیاق میں تاریخ اسلام کا ازسرِنو مطالعہ اور کتاب و سنت کے دیے ہوئے اسلامی معیاروں پر اس تاریخ کے مختلف اَدوار کی قدروقیمت کا تعیّن (evaluation) نیز ان مختلف انقلابات اور تبدیلیوں کی تعبیر و توجیہ جن سے یہ تاریخ گزری ہے‘ بہت اہم کام ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس تاریخ کے بعض اہم اَدوار کا مطالعہ خاصا اختلافی رہا ہے۔ اس کی ایک مثال حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا دورِ حکومت ہے‘ جس پر گذشتہ چند برسوں میں خاصی بحث رہی ہے۔ اس کام کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ جدید سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی مسائل پر بحث و مذاکرے کے دوران وسیع پیمانے پر تاریخی نظائر پیش کیے جاتے ہیں مگر کسی مستند evaluationکا فقدان اس طرح کے نظائر کا وزن مشکوک بنا دیتا ہے۔

۶- فقہ: معاصر اسلامی مفکرین کے درمیان دورِ جدید کی اسلامی قانون سازی میں حجت ہونے یا رہنما بنانے کے لحاظ سے اس فقہی ذخیرے کے مقام کے بارے میں مختلف رائیں پائی جاتی ہیں‘ جو شروع کی چند صدیوں میں مرتب ہوا تھا۔

اصولی طور پر اللہ نے ہمیں صرف کتاب و سنت کی پابندی کا مکلف بنایا ہے۔ جدید اسلامی قانون سازی میں ہمیں ماضی کے فقہی ذخیرہ سے پورا استفادہ کرنا چاہیے۔ لیکن یہ مخصوص زمان ومکان میں انسانی ذہن کی پیداوار ہے‘ جس کی پابندی کی نہ کوئی شرعی اور عقلی دلیل ہے‘ نہ یہ پابندی عملاً مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر علما کا ایک بڑا طبقہ یہ رجحان رکھتا ہے کہ نئی قانون سازی میں کوئی ایسی راہ نہیں اختیار کی جانی چاہیے‘ جو فقہ کے معروف اسکولوں میں سے کسی اسکول نے نہ اختیار کی ہو۔ تحریک اسلامی کے رہنما عام طور پر صحیح اصولی موقف کے حامل ہیں۔ مگر جب کسی عملی مسئلے پر بحث چھڑ جاتی ہے تو ان کے طرزِفکر پر علما کے غالب رجحان کا گہرا اثر بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس رجحان کے ردّعمل میں احوال و ظروف اور مزاج عصر کی بیش از بیش رعایت رکھنے والے دانش وروں میں شبہ پیدا ہوتا ہے کہ علما کتاب و سنت کے ساتھ سلف صالح کے اجتہادات کو بھی شریعت کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ دونوں طبقے ایک دوسرے کو اپنا موقف سمجھانے کی کوشش کریں اور باہمی تبادلۂ خیال اور بحث و تمحیص کے بعد کسی اعتدال پر مجتمع ہوں۔ بدقسمتی سے ان دونوں طبقوں کے درمیان خوش مزاجی اور انکسار طبع کے ساتھ تبادلہ آرا کا رواج نہیں پڑ سکا اور جو بحثیں ہوتی ہیں ان کامواد اور لہجہ کسی صحت مند نتیجے تک پہنچانے کے لیے سازگار نہیں ہوتا۔

ہمارے ماضی کے ورثے میں مرتب شدہ فقہ کے ساتھ دینی فکر کے دوسرے اہم اجزا بالخصوص تشریح عقائد‘ علم الکلام اور صوفیانہ لٹریچر اور تصوف کی روایات کی بڑی اہمیت ہے۔ مسلمان معاشرہ آج جیسا ہے اس کی تشکیل میں اس لٹریچر نے‘ ان علما و مشائخ کے توسط سے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے‘ فیصلہ کن حصہ لیا ہے۔ ہمارے نزدیک دینی فکر کے ان دوسرے عناصر کے سلسلے میں تحریک اسلامی کے رہنمائوں کا موقف زیادہ واضح اور صاف رہاہے‘ یعنی انھوں نے اسے بحیثیت مجموعی‘ مخصوص احوال و ظروف اور زمان و مکان کے مخصوص تقاضوں کے تحت قرآن و سنت کے انسانی فہم کا اظہار سمجھا ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ اسے دورِ جدید کے انسان کے لیے حجت نہیں قرار دیتے‘ بلکہ اکثروبیشتر اسے غیر موزوں اور جدید اسلامی ذہن و مزاج کی تشکیل کے لیے مضر سمجھتے ہوئے تمام متعلقہ مسائل پر کتاب و سنت کی روشنی میں‘ آج کے احوال و ظروف اور موجودہ زمان ومکان کے تقاضوں کے پیش نظر ازسرِنو فکر کی دعوت دیتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عام علما اور مشائخ نے ان کے اس موقف کو قبول نہیں کیا ہے‘ اور آج بھی مسلمان عوام کے دینی افکاراور ان کے مجموعی مزاج کی تشکیل انھی غیر موزوں اثرات کے تحت ہوتی ہے۔ یہ چیز ایک طرف تو عوام کی مطلوبہ اصلاح میں زبردست رکاوٹ بنتی ہے اور دوسری طرف پورے مسلم معاشرے میں اس حرکی اقدامی کیفیت کے پیدا ہونے میں مانع ہے جو دورِ جدید میں اسلام کی نشات ثانیہ کے لیے ضروری ہے۔ اس صورت حال کا تقاضا واضح ہے: علما و مشائخ کے غلط موقف پر تنقید‘ نئی دینی فکر کی جامع ترتیب‘ اور مسلمان عوام کی نئی فکری تربیت جو انھیں قدیم کلام اور تصوف کے غیر اسلامی اثرات سے پاک کر کے مطلوبہ مثبت مزاج عطا کر سکے۔ اس تقاضے کی تکمیل اہم اسباب کی بنا پر ابھی نہیں ہوسکی ہے۔

ہر ملک میں اسلامی تحریکوں کو سیکولر دانش وروں کے مقابلے میں اور مسلمان عوام میں نفوذ کے لیے علما و مشائخ کی اہمیت محسوس کر کے ان پر تنقید کا لہجہ نرم کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات سیکولرقیادتوں سے سیاسی کش مکش میں عوامی تائید کی ضرورت نے ان کو اس فکری اصلاح کو نظرانداز یا کم از کم ملتوی کرنے پر مجبور کیا ہے۔ وقتی طور پر یہ طریقہ اختیار کرنا کتنا ہی ناگزیر کیوں نہ نظر آتا ہو ہمارے نزدیک اس اہم کام کے بغیر خود اس مقصد کا حصول دشوار ہے جس کی خاطر اس کام کو پس پشت ڈالا گیا ہے۔ (جاری)

ڈاکٹر عطاء الرحمن کا مقالہ: مرنے کا قانونی حق (مئی ۲۰۰۱ء) اُردو میں اس نوعیت کی پہلی مفصّل تحریر ہے‘ جس میں قرآن‘ احادیث اور مسلم فقہ کی روشنی میں استدلال کر کے ’’قتلِ خیرخواہی‘‘ کو (حسب ِتوقع) ’’قتلِ عمد‘‘ یا ’’خودکشی‘‘ کے زمرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خودکشی کی ممانعت پر اب تک اجماع ہے‘ اور کسی انسان کی زندگی کو اس کی یا اس کے عزیزوں کی رضا سے ختم کر دینا‘ یا اس میں مدد دینا بھی عموماً ’’قتلِ نفس‘‘ ہی کے دائرے میں شامل کیا جاتا ہے‘ لیکن چند تامّلات پر غور کر لینا نامناسب نہ ہوگا۔

  • حضرت ایوب ؑ کا سخت تکلیف اور بیماری کو برداشت کر لینا (اور اپنی سخت اذیت کی زندگی کو ختم نہ کرنا‘ بے شک عزیمت کی راہ ہے‘ اور ایک پیغمبرکا یہی امتیاز ہے‘ لیکن جیسا کہ صاحب ِ مقالہ (بجا طور پر) تفہیم القرآنکے حوالے سے حضرت عمار بن یاسرؓ کے بارے میں اس روایت کا ذکر کرتے ہیں‘ جس کے مطابق ناقا بلِ برداشت اذیت میں انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا بھی کہہ دیا اور کفّار کے جھوٹے معبودوں کا ذکرِ خیر بھی کیا‘ جب کہ اُن کا دل ایمان پر پوری طرح مطمئن تھا‘ تو رسولؐ اللہ نے اس طرزِعمل پر صاد کیا‘ اور فرمایا: اگر پھر یہی صورت پیش آئے تو یہی کرنا۔ یہ امر ایک استثنائی رخصت کے استحسان پر دلالت کرتا ہے۔

توجہّ کے لائق یہ بات ہے کہ شدید اذیت اور تکلیف پر ایک طرزِعمل حضرت ایوب ؑکا ہے‘ ایک رویہّ خود حضرت عمارؓ کے والد حضرت یاسرؓ کا ہے (جو مصائب کو برداشت کرتے ہیں‘ حق پر قائم رہتے ہیں‘ اس کا اعلان کرتے ہیں‘ اور اس پر جان‘ جانِ آفریں کے سپرد کر دیتے ہیں) اور دوسرا ان کے صاحب زادے اور نہایت لائقِ احترام صحابی--- حضرت عمارؓ --- کا‘ اور نبی ؐ ان کے اس فعل کو بھی غلط نہیں--- بلکہ درست قرار دیتے ہیں‘ اور فرماتے ہیں کہ یہ صورت حال ہو‘ تو پھر یہی کرنا۔ اگر اس واقعے اور حکم کو انسانی جان بچانے کے لیے ایک حکم تصور کیا جائے‘ تو پھر حضرت یاسرؓ کا جان بچانے کی کوشش نہ کرنا کیا شمار ہوگا؟ کیا نبیؐ کے حکم کو دفعِ اذیت کا حکم تصور نہیں کیا جا سکتا؟ ایسا حکم جو عام حالات میں ممنوع فعل کی بھی اجازت دے دیتا ہے۔

  •  شدید بھوک پیاس کی حالت میں زندگی بچانے کے لیے حرام کھا لینا ہمارے سبھی فقہا کے نزدیک جائز (بلکہ واجب!) ہے۔ لیکن کیا بھوک کا اضطرار اور اذیت‘ سرطان اور دوسری بیماریوں کی اذیت اور تکلیف سے زیادہ ہیں؟ جب کہ بھوک کی اذیت کو رفع کرنے کے لیے ’’حرام‘‘ کی اجازت دے دی گئی ہے؟
  •  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قتلِ نفس اور خودکشی کو جو فعلِ قبیح قرار دیا ہے‘ وہ عمومی طور پر درست تسلیم کر لینے کے باوجود‘ کیا اس میں کوئی استثنائی صورتیں نہیں ہو سکتیں!
  •  مغربی فکری مغا لطوں میں سے ایک یہ بھی ہے (اور اس کی ابتدا ایمینول کانٹ سے ہوتی ہے) کہ انسانی جان غائی طور پر قا بلِ قدرہے- حُرمتِ نفس انسانی میں اور اس کے قا بلِ قدرہونے میں شک نہیں‘ جن کا مقالے میں مذکورہ آیات سے حوالہ دیا گیا ہے‘ مگر کیا ہر محل اور ہر صورت میں‘ بہرحال ا س کا تحفّظ مطلوب اور راجح ہے؟ اگر یوں ہے‘ تو کسی معرکہء جہاد میں یقینی موت کی طرف پیش قدمی اور بالارادہ جامِ شہادت نوش کرلینا--- ’’مردود خودکشی‘‘ کے زمرے میں آئیں گے؟شاید ایسا نہیں ہے‘ کیوں کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جان دے دینا‘ خودکشی نہیں ہے۔
  •  اس میں شک نہیں کہ حتی الامکان انسانی جان بچانے کی کوشش کرنی چاہیے‘ لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ آیا اس کی کوئی حدُود ہیں یا نہیں‘ اور اس قاعدئہ کلیہ میں کچھ استثنیٰ بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں۔
  • کسی انسان کی شدید اذیت‘ اور پھر آخرکار یقینی موت کو آسان کرنے کی کوشش جس میں ماہر معالجین کی آرا اوراس کے اعزا کا ایما بھی شامل ہوں‘ کیا قتلِ عمدشمار ہوگی؟ کیا زندگی برقرار رکھنے والے آلات کا کسی مرحلے پر سلسلہ منقطع کر دینا کہ بے ہوش مریض کئی ماہ یا کئی سال سے اس حال میں ہے‘ یا جب کہ ’’طبّی موت‘‘ واقع ہو چکی ہے--- انسانی جان کے تلف کر دینے کے مترادف ہوگا؟

یہ اور اس طرح کے بہت سے سوال غوروفکر کے متقاضی ہیں‘ جن پر میری کوئی حتمی رائے نہیں۔ مصائب اور اذیتوں پر جزع و فزع اور موت کی آرزو‘ بے شک ہمّت اور حوصلے کی کمی کے مظہر ہیں اور خودکشی کو (غالباً رومیوں کے علاوہ) کسی نے بھی بہ نظرِ استحسان نہیں دیکھا ہے‘ لیکن کیا پیش آمدہ مسئلے پر اور زیادہ گہرائی سے نظر ڈالنے اور بحث کی گنجایش نہیں ہے؟ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ کوئی تحقیقی ادارہ‘ روایتی اور غیر روایتی علما‘ ماہرین‘ اور اصحابِ فکر کو جمع کرے اور کھلے دل سے بحث و تمحیص کے بعد کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی جائے؟ ]نہ ہوئے کوئی ابوحنیفہؒ![۔ میرے خیال میں قطعیات کے علاوہ (جن کی نص میں وضاحت ہے‘ اور ایسے احکام بہت کم ہیں)ہر قانون سازی‘ زمان و مکان کی اسیر اور حالات و ظروف سے داغ دار ہے:

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

 

اسلام اور مغرب کے درمیان پہلی مڈبھیڑ اُن صلیبی جنگوں ہی سے شروع ہو گئی تھی‘ جو یورپ کے عیسائی حکمرانوں اور اہل کلیسا نے فلسطین میں اپنے مذہبی مقامات کو ’’آزاد کرانے‘‘ کے لیے شروع کیں‘ اور جن میں اقصاے مغرب سے لشکر کے لشکر سیلابوں کی صورت میں وسط ایشیا میں مقاماتِ مقدسہ کی بازیابی کے لیے حملہ آور ہوتے رہے۔ لیکن حال میں مغرب اور اسلام کا یہ ’’رابطہ‘‘ عہدِ نوآبادیات سے شروع ہوا‘ جب انگلستان‘ فرانس‘ ہالینڈ‘ جرمنی‘ اٹلی اور بعض دوسرے ملکوں کے مہم جو جہازرانوں ‘حوصلہ مند تجارتی خانوادوں اور تاجروں نے مشرق کی طرف رُخ کیا‘ اپنے مضبوط بحری بیڑوں‘ آہن و بارود اور منظم اداروں کی مدد سے افریقہ‘ سواحل عرب‘ شرق اوسط‘ برعظیم پاک و ہند اور موجودہ انڈونیشیا اور ملائیشیا تک چھاتے چلے گئے۔

دوسری جنگ عظیم (۴۵-۱۹۳۹ء) کے بعدان مغربی اقوام نے محسوس کیا کہ براہِ راست نوآبادیاتی طریق حکمرانی اب بے ثمر اور دافعِ منفعت (counter productive)ہوتا جا رہا ہے‘ اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان نوآبادیات کو مقامی باشندوں ہی کے حوالے کر دیا جائے۔ ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے براہِ راست لوٹ کھسوٹ کے علاوہ کئی طریقے اور بھی ہیں۔

بیسویں صدی کے وسط سے یہ دَور شروع ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی سابق محکومین اور مستغلبین یعنی سابق غلاموں اور ان کے آقائوں کے درمیان کچھ نئے رشتے بھی استوار ہوتے ہیں۔ اب بہت بڑی تعداد میں نوآبادیات کے حال اور مستقبل کے حکمران‘ اُن کے بچے اور لواحقین اور حوصلہ مند اور جرأت آزما نوجوان اُن ملکوں کی طرف رخ کرتے ہیں‘ جو پہلے ان کی سرزمین کے غاصب اور حکمران تھے۔ وجوہ :تعلیم و تربیت‘ روزگار کے بہتر مواقع‘ ملازمت‘ تجارت اور پھر صنعت وغیرہ میں سرمایہ کاری بھی (اپنے وطن کی لوٹی ہوئی

دولت کی اِن ’’آزاد‘‘ ملکوں میں تخم ریزی سے بہتر امکانات اور کہاں میسر آسکتے تھے!) ۔پھر یہ بھی ہوا کہ آقائوں نے ’’غائبانہ حکمرانی‘‘ کے لیے اپنی سابقہ نوآبادیات سے نوجوان منتخب کیے تاکہ انھیں تعلیم و تربیت دے کر واپس بھیجا جائے اور وہ ان کے لیے کارآمد ثابت ہوں۔ اس کے لیے وظائف اور سہولتیں فراہم کی گئیں۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ شمالی اور وسطی افریقہ‘ شام‘ عراق‘ عرب ریاستوں‘ ایران‘ پاکستان‘ بھارت‘ انڈونیشیا‘ ملائیشیا‘ فلپائن‘ تھائی لینڈ اور بلقان کی ریاستوں کے لاکھوں نوجوان ‘بچے‘ بوڑھے‘ مرد‘ عورت‘ یورپ اور شمالی امریکہ کا رخ کر رہے ہیں (شمالی  امریکہ--- ریاست ہاے متحدہ اور کینیڈا کی براہِ راست نوآبادیاں گو قابل ذکر نہ تھیں‘ لیکن ان ملکوں نے بھی محسوس کر لیا تھا کہ ایک نئے اور مختلف نوآبادیاتی نظام کا دَور شروع ہونے والا ہے‘ جس میں ’’بہت نفع‘‘ ہے)۔ مغرب کی طرف رخ کرنے والے ان افراد میں بعض عارضی اور وقتی ضروریات (تعلیم‘ تربیت‘ تفریح) کے لیے جا رہے تھے‘ اور بعض کی نیت مستقل قیام کی تھی۔ ان مظاہر نے ایک نئے موضوع کے مطالعہ کو جنم دیا ہے‘ اور وہ ہے ’’مطالعہء مغرب اور اسلام‘‘۔

چند سال پہلے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (اسلام آباد) نے اس مطالعے کی اہمیت و ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ایک نہایت معیاری مجلہ ’’مغرب اور اسلام‘‘ (سہ ماہی) کا اجرا کیا‘ جو بلاشبہ اس موضوع پر اُردو میں ایک منفرد اور نہایت مستحسن کوشش ہے۔ مجلے کے ایک حالیہ شمارے (جولائی‘ دسمبر ۲۰۰۰ء) میں ایک جرمن نومسلم ڈاکٹر مراد ولفرڈ ہوف مین کے چار خطبات شائع ہوئے ہیں۔ تین خطبات وہ ہیں‘ جو انھوں نے انسٹی ٹیوٹ کی دعوت پر ’’خرم مراد یادگاری خطبات‘‘ کے طور پر لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد میں دیے۔ ان خطبات کے موضوعات، ’’تہذیبوں کا تصادم--- اکیسویں صدی میں‘‘، ’’اسلام: مغرب کے اندیشے اور مسلم ردِّعمل‘‘ اور ’’اسلام اور دَورحاضر کا نظریاتی بحران‘‘ تھے۔ چوتھا خطبہ انھوں نے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں دیا تھا‘ جس کا عنوان تھا: ’’تہذیب اسلامی کو درپیش علم و دانش کا چیلنج‘‘۔ ساتھ ہی اس مجلے میں پروفیسر خورشید احمد‘ چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے اختتامی کلمات‘ ڈاکٹر رفیق احمد‘ ڈاکٹر ظفراسحق انصاری اور شریف الدین پیرزادہ کے صدارتی خطاب‘ نیز تقاریر پر کچھ سوال و جواب بھی شامل اشاعت ہیں۔ اس طرح یہ مجلہ اسلام اور مغرب کے مابین روابط اور مکالمے کے بارے میں ایک نومسلم ’’مغربی مفکر‘‘ کے خیالات کو سمجھنے کے لیے ایک وقیع دستاویز بن گیا ہے‘ جو بقول پروفیسر خورشید ’’ان موضوعات اور ان کے مختلف پہلوئوں پر بات کرنے کے لیے بہت موزوں اور اہل دانش ور ہیں‘‘۔ (ص ۶)

پروفیسر خورشید نے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے بجا ارشاد فرمایا ہے کہ ’’یہ محض اسلام اور مغرب کے درمیان ربط و تعامل اور کش مکش کا کوئی مسئلہ نہیں ہے‘ بلکہ دو تہذیبوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کا ایسا سوال ہے ‘ جس سے پوری نوع انسانی کا مستقبل وابستہ ہے‘‘۔ (ص ۷)


مسئلے کی اہمیت اور مقرر کی اہلیت پران مختصر گزارشات کے بعد آیئے اُن کے خیالات کا ایک جائزہ لیتے ہیں‘ جن سے نہ صرف آج کی دنیا کے ایک اہم پہلو‘ بلکہ مسلمان اہل دانش کے ایک نمایندہ گروہ کے زاویۂ فکر کو سمجھنے میں بھی کچھ آسانی ہو سکتی ہے۔

اپنے پہلے خطبے ’’تہذیبوں کا تصادم--- اکیسویں صدی میں‘‘ کی ابتدا وہ فرانسس فوکویاما کے مضمون ’’تاریخ کا اختتام‘‘ (The End of History)  اور سیموئیل  ہنٹنگٹن کے ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ (The Clash of Civilizations) کے نظریے کے ایک جائزے سے کرتے ہیں۔ یہ دونوں نظریے ‘ نہ صرف مغربی دنیا میں مشہور ہو چکے ہیں‘ اور اُن پر بڑی بحث و تمحیص ہو چکی ہے‘ بلکہ تیسری دنیا کے بھی سبھی خواندہ حضرات ان سے واقف ہو چکے ہیں۔ فوکویاما کا کہنا تھا کہ انسانی تاریخ اپنے ارتقا کے سارے مراحل طے کر چکی۔ اس کا آخری ثمر‘ مغرب کا سیکولر جمہوری نظام اور منڈی کی معیشت ہے۔ اب کوئی نیا نظام نہیں آئے گا۔ جب کہ ہنٹنگٹن کا کہنا تھا کہ مغربی تہذیب‘ جو اس وقت غالب تہذیب ہے‘ اور ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر پوری دنیا کو یک رنگ بنانے کے چکر میں ہے‘ اس کا دوسری تہذیبوں سے تصادم ناگزیر ہے‘ بلکہ یہ تصادم شروع بھی ہو چکا ہے۔ دوسری تہذیبیں اپنا کلچر برقرار رکھتے ہوئے بھی پیداوار کے جدید  طریقے اختیار کر سکتی ہیں‘ اور اس جنگ میں انھیں‘ اور مغرب کے سارے نئے ہتھیاروں کو استعمال کر سکتی ہیں۔ ’’روایت اور جدیدیت‘ لازمی طور پر معاشرے اور کلچر کی متعارض صورتیں نہیں ہیں‘‘۔ (ص ۲۴)

ہوف مین --- اور ایک مسلمان --- کی دل چسپی بنیادی طور پر اس سوال سے ہے کہ کیا اسلامی تہذیب‘ دوسری تہذیبوں --- خصوصاً مغربی تہذیب ---سے مختلف کوئی شے ہے؟ اور اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے‘ تو کیا یہ دونوں ایک ساتھ پرامن بقاے باہمی کے اصول کے ساتھ پروان چڑھ سکتی ہیں؟

میرے خیال میں ان دونوں سوالوں کے بارے میں ہمارے نومسلم دانش ور کا ذہن صاف نہیں‘ اور وہ اپنے تمام خطبات میں ’’تکثیریت‘‘ ]کثرتیت: [pluralism کی جو وکالت کرتے ہیں‘ اور بعض جگہ تہذیب کے فرق ہی کو ماننے سے انکار کرتے ہیں‘ وہ ان کے ذہنی الجھائو کی غمازی کرتا ہے۔ پھر اُن کے خیال میں تمام اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ ترقی ممکن ہے۔ اس طرح گویا ’’توافق للبقا‘‘ ہی مستحسن ہے۔ ساتھ ہی وہ ’’اسلامی تہذیب‘‘ کے کسی منفرد تشخص سے بھی انکار کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ’’ساری مسلم دنیا کے خصوصی مشترک خدوخال سے انکار‘‘ تو نہیں کرتا‘ تاہم ان کا خیال ہے کہ یہ تہذیب ایک ’’مفرد اور غیر مرکب‘‘ تہذیب نہیں ہے‘ بلکہ متنوع ہے۔ مختلف ملکوں میں ’’مسلم اقوام نے کس قدر کامیابی سے سابقہ تہذیبوں کا   بیشتر حصہ ]تاکید راقم الحروف کی [ اپنے اندر سمو لیا ہے‘ اور اس طرح ان کا اپنا اپنا اسلامی کلچروجود میں آیا ہے۔ ...یہی وہ حقیقت ہے کہ جس کی بنا پر میں سمجھتا ہوں کہ اس اَمر کا امکان زیادہ ہے کہ تصادم ایک خاص اسلامی تہذیب سے ہوتوہو‘ بحیثیت مجموعی اسلامی تہذیب سے ہرگز نہیں ہو سکتا‘‘ (ص۲۵)۔ وہ ’’اس مفروضے کو سختی سے مسترد‘‘ کرتے ہیں کہ مسلم ثقافت جوہری اعتبار سے دوسری ثقافتوں سے مختلف ہے۔ (ص ۲۵)

اِن بیانات میں کئی فکری مغالطے پوشیدہ ہیں۔ اگر ہم اس بات کے قائل ہیں کہ ہر تہذیب اپنی ایک منفرد فکری اساس رکھتی ہے‘ اور کچھ بنیادی عقائد (ایمانیات) ہی پر اس کا ڈھانچا استوار ہوتا ہے‘ تو پھر یہ کوئی قابل بحث اَمر نہیں رہتا کہ اسلامی تہذیب مغربی تہذیب‘ ہندو تہذیب‘ قدیم یونانی تہذیب یا رُومی تہذیب سے مختلف کوئی تہذیب ہے یا نہیں۔ ایک قوم (گروہ‘ جماعت‘ اُمت) جو ایک ہمہ مقتدر‘ خالق و مالک اللہ‘ آخرت اور انسان کے لیے آخری حوالے کے طور پر الہامی ہدایت پر یقین رکھتی ہے‘ اپنی فکر اور عمل میں یقینا اس ’’امت‘‘ سے مختلف ہوگی‘ جس کے نزدیک ان کا کوئی وجود نہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام تہذیبوں کے اپنے اپنے منفرد ظہور ہیں‘ جن سے یہ پہچانی جا سکتی ہیں۔

ہوف مین کا دوسرا ذہنی اُلجھائو ’’تہذیب‘‘ اور ’’ثقافت‘‘ کے تصورات میں اُن کا التباس ہے۔ یہ بات تو درست ہے کہ ’’ارب پتی‘ بم دھماکے کرنے والے اور بیلے ڈانسر‘‘ نہ اسلامی تہذیب کی نمایندگی کرتے ہیں‘ نہ اس کی ثقافت کی‘ تاہم اُن کا یہ کہنا محل نظر ہے کہ اسلامی تہذیب ’’ایک مفرد اور غیر مرکب وجود کی حامل نہیں‘ بلکہ متنوع ہے۔ ہندستان‘ ملائیشیا‘ انڈونیشیا‘ مراکش‘ ترکی اور مصر میں یہ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلم اقوام نے کس طرح کامیابی سے سابقہ تہذیبوں کا بیشتر حصہ اپنے اندر سمو لیا ہے‘‘ (ص ۲۵)۔ اِس سلسلے میں وہ غذا‘ لباس‘ معاشرتی اقدار اور زبانوں کے تنوع کی طرف اشارہ کرتے ہیں (ص ۲۵)۔ ہمارا معروضہ یہ ہے کہ مسلم ملکوں میں لباس‘ غذا اور زبان کے اختلاف ان کی ثقافتوں کی رنگا رنگی اور تنوع کو ظاہر کرتے ہیں‘ نہ کہ ’’تہذیب‘‘ کے اختلاف کو۔ انھیں مسلمانوں کی تہذیب کا اختلاف یا ’’تکثیر‘‘ ]کثرتیت[ نہیں کہہ سکتے۔ مسلمان کی تہذیب‘ لباس میں ستر کی پابندی‘ غیر ضروری آرایش‘ نمایش‘ تکلف اور اسراف و تبذیر سے اجتناب‘ زبان کی پاکیزگی اور غذا میں حلال و حرام کی تمیز ہیں۔ یہ اسلامی تہذیب کا خاصہ ہیں‘ اور دوسری تہذیبیں (خصوصاً ’’مغربی تہذیب‘‘ جس کے ساتھ اسلامی تہذیب کے تصادم سے وہ بچنا چاہتے ہیں) اس طرح کے تصورات سے عاری ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ جس تہذیب یا جن ثقافتوں کو بالفعل ’’مسلمان‘‘ اپنائے ہوئے ہیں‘ ان سب کو ’’اسلامی تہذیب‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ گانا بجانا‘ بھنگڑا ڈالنا‘ ترکی کے درویشوں کا رقص‘ نوٹنکی‘ قوالیاں‘ حشیش اور بادام کے آمیزے کے آدابِ شرب‘ حتیٰ کہ حقّہ اور کباب بھی ’’اسلامی تہذیب‘‘ کے نمونے نہیں۔ یہ جائز و ناجائز اعمال اور وظائف‘ سب کے سب‘ کیا اس لیے اسلامی تہذیب کے عنوان کے تحت جمع کر دیے جائیں گے کہ جن ملکوں میں یہ مروج ہیں/ پائے جاتے ہیں‘ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے؟

ہوف مین یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ مستقبل میں عالمی تصادم قومی سرحدوں پر ہوں گے یا سیاسی سرحدوں پر۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تصادم ثقافتی سرحدوں پر ہوں گے‘ مگر انھیں یہ ’’مفروضہ مشکوک لگتا ہے‘‘ (ص ۲۷)۔ کیوں کہ بقول اُن کے گلوبلائزیشن ہی مختلف ملکوںکی قومی اقتصادی پالیسیوں کو کنٹرول کرتی ہے‘ جن میں ’’مالیاتی پالیسی‘ شرح سود‘ ٹیکسوں‘ کم از کم معاوضوں‘‘ وغیرہ کو رکھا جا سکتا ہے (ص ۲۷)۔ اور چونکہ گلوبلائزیشن ایک ایسا عمل ہے جس سے مفر کی کوئی راہ نہیں‘ اس لیے جو مالیاتی بندوبست اور معاشی انتظام اس کے نتیجے میں ترقی یافتہ مغرب کی طرف سے آئے گا‘ تیسری دنیا اور ’’اسلامی دنیا‘‘ اُسے چار و ناچار تسلیم کرنے اور خود کو اس سے وابستہ اور ہم آہنگ کرنے پر مجبور ہو گی۔ کیا خوب! آپ نہ صرف یہ کہ سود لینے یا نہ لینے میں خودمختار نہیں‘ بلکہ اس کی شرح متعین کرنے میں بھی آزاد نہیں۔ اب غیر سودی مالیاتی نظام کس طرح قائم کیا جا سکتا ہے؟ اور اقتصاد کی گلوبلائزیشن کے باوصف ایک منفرد تہذیب کیوں کر باقی رکھی جا سکتی ہے؟ کیا اس فکر میں یہ ہدایت اور مخفی پیغام نہیں کہ نہ صرف مالیاتی انتظام میں ہمیں اسلام کے فرسودہ اصولوں کو تج دینا ہی ہوگا‘ بلکہ کسی ’’متصادم انفرادیت‘‘ سے بھی دست بردار ہونا ہوگا کہ ان کے ساتھ ہم اکیسویں صدی میں گزارا نہیں کر سکتے۔

لیکن اس کے فوراً بعد اگلے نکتے میں وہ کہتے ہیں کہ ’’تاریخ کے ہر دَور میں فوجی تصادم‘ تہذیبی امتیازات یا مختلف ثقافتوں کی باہم ٹکراتی اقدار کی بنیاد پر ہی پیش آئے۔ جنگ عظیم اوّل و دوم صرف برطانوی‘ فرانسیسی اور جرمن قوموں کے درمیان ہی نہ لڑی گئیں‘ بلکہ یہ برطانوی‘ فرانسیسی اور جرمن ثقافتوں کے درمیان بھی تھیں‘ جو آج کے مقابلے میں اُس وقت نمایاں طور پر ایک دوسرے سے مختلف تھیں‘‘۔ (ص ۲۷)

مگر یہ نکتہ چونکہ اُن کے اُس بنیادی مفروضے / دعوے (مختلف تہذیبیں بغیر تصادم کے ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتی ہیں) کے خلاف پڑتا ہے‘ جو ان کے سارے خطبات میں بار بار مختلف زاویوں سے پیش کیا گیا ہے‘ اس لیے وہ پھر ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے نظریے کو ’’چیلنج‘‘ کرتے ہیں (ص ۲۸)‘ اور ایک نسبتاً طویل اور غیر متعلق داستان‘ اسلام اور عیسائیت‘ مشرق اور مغرب کے درمیان مشارکت اور فیض رسانی کی چھیڑ دیتے ہیں کہ بارہویں / تیرہویں صدی میں عیسائی مشنری کس طرح مسلم دنیا میں تبلیغ کے لیے آئے‘ ایک اندلسی مسلمان پوپ کا مشیر بنا،’’کلیلہ ودمنہ‘‘ اور ’’الف لیلہ‘‘ کس طرح یورپ میں مقبول ہوئیں‘ دانتے کی ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ کس طرح واقعۂ معراج کی ایک تشکیل ہے‘ ابن طفیل کے فلسفیانہ ناول ’’حی الیقزان‘‘ ]’’حی بن الیقظان‘‘[ کی ’’رابنسن کروسو‘‘ کیسی نقل ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’موجودہ مغربی تہذیب‘ صرف یہود و نصاریٰ کی تہذیب ہرگز نہیں۔ یہ یہودیت‘ مسیحیت اور اسلام کا آمیزہ ہے‘‘۔ (ص ۲۹)

اس میں شک نہیں کہ مغرب (یورپ) نے مسلمانوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا عقلی رویہ (جس کی بنیادیں یونانی فلسفے میں بھی ملتی ہیں ‘  اور ’’الحکمۃ ضالۃ المؤمن‘‘: حکمت‘ مومن کی اپنی متاع ہے‘ جہاں سے پائے لے لے‘ تو حدیث نبویؐ کے تحت مسلمانوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے!)‘ مشاہدے اور تجربے کے ذریعے استقراء‘ روایت اور درایت کے اصول اور ضابطے‘ توہمّات اور اصنام پرستی کا استرداد اور تفکر اور تدبر پر زور--- لیکن یہ کہنا کہ موجودہ مغربی تہذیب یہودیت‘ مسیحیت اور اسلام کا ’’آمیزہ‘‘ ہے‘ میرے خیال میں زیادتی ہے۔ اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ مغرب اور مغربی تہذیب‘ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ’’بے خدا‘‘ تہذیب ہے۔ اس کی اصل جڑیں مشرک و ملحد (pagan) اور آزاد روش (لبرل) یونان اور ظالم و جابر روم میں پیوست ہیں۔ بقول اقبال:

شفق نہیں مغربی افق پر‘ یہ جوئے خوں ہے یہ جوئے خوں ہے

یہ سفّاک تہذیب‘ جس کے پاس ماورائے انساں‘ کوئی باز پرس کرنے والا نہیں ‘ ’’لا الٰہ‘‘ پر آکر رک جاتی ہے‘ جس کے ہاں نفی ہے‘ اثبات نہیں۔ اور اس کے مطابق چونکہ اس کائنات کا کوئی خالق و مالک نہیں اور نہ آخرت ہے اور نہ انسان (یا انسانی اداروں) کے ماسوا کسی کے آگے جواب دہی کا تصور‘ اس لیے انسان اپنے رویے متعین کرنے میں بالکل آزاد ہے۔ یہ بات تسلیم کرنا دشوار ہے کہ اس تہذیب کو اسلامی تہذیب کے ساتھ کس طرح بقائے باہمی اور پرامن پیش روی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ ۱۳‘ ۱۴ سو سال میں مسلمانوں اور غیر مسلم اقوام میں جو آویزشیں ہوئیں‘ اُن کے بارے میں حتمیّت کے ساتھ یہ کہہ دینا کہ ’’اس سارے عرصے میں جو جنگیں اور تصادم ہوئے‘ اُن کا سبب مفادات کا ٹکرائو تھا یا معاشی اور علاقائی تنازعے‘‘ (ص ۳۰)‘ نیز یہ سوال کرنا کہ’’کیا اس دوران میں ثقافتی ]تہذیبی؟[ تصادم پیش آئے؟ سوال یہ ہے کہ تاریخ کے اس طویل دور میں مسیحی اور اسلامی تہذیبوں کا آپس میں تصادم کب ہوا؟‘‘ (ص ۳۰)--- قابل تعجبّ ہے۔ ایک مسلم (یا کسی بھی غیر مسلم) دانش ور کا یہ انکشاف واقعی حیرت انگیز ہے کہ اس طویل دور میں مسیحی اور اسلامی تہذیبوں کا آپس میں تصادم کب ہوا؟ مسلمانوں اور غیر مسلم اقوام کی ’’ساری جنگیں‘‘ اور مزاحمت‘ مفادات کے ٹکرائو کا نتیجہ تھیں۔ کیا یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اسلام کو پھیلانے کی پہلی دوسری صدی کی تمام کوششیں‘ اٹھارویں‘ انیسویں اور بیسویں صدی میں مغربی استعمار کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت اور جدوجہد‘ برصغیر کی تقسیم‘ کشمیر‘ شیشان‘ کوسووا اور افغانستان میں ساری کشاکش‘ محض ’’معاشی اورعلاقائی تنازعے‘‘ ہیں؟ کیا ہم کہہ دیں کہ ابتدائی مسلم فتوحات /جہاد تو مفاد‘ معاش اور علاقائی تنازعوں کا نتیجہ تھے‘ لیکن دو عالم گیر جنگیں‘ مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کی مقدس آویزش کا نتیجہ تھیں؟

ہوف مین کہتے ہیں کہ اسلام کا دوسرے مذاہب (تہذیبوں) کے ساتھ تصادم اگرچہ فی الوقت ہوا نہیں ہے‘ مگر وہ دیکھ رہے ہیں کہ جس طرح ’’مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر مغربی یورپ اور امریکہ کی طرف نقل مکانی ہوئی‘‘ اور اس کے نتیجے میں ’’اسلام جو ہمیشہ سے عالم گیر آدرش رکھتا ہے‘ دنیا میں پہلی بار [!]بیسویں صدی میں فی الواقع عالم گیر بن گیا۔ اس وقت یورپ میں ۳ کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ لاس اینجلس‘ نیویارک‘ لندن‘ پیرس‘ برسلز‘ ویانا‘ روم اور زغرب جیسے مقامات پر بڑی بڑی مسجدیں تعمیر کی جا چکی ہیں‘ اور انٹرنیٹ پر اسلام پوری طرح موجود ہے‘ ]اس سے پتا چلتا ہے کہ[  ... ہنٹنگٹنکا یہ خدشہ درست ہے کہ مغرب میں اس ثقافتی دھچکے کا ناخوش گوار ردِّعمل ہوگا‘ اور اس لیے وہ مطالبہ کرتا ہے کہ مسلمانوں کی نقل مکانی کو محدود کیا جانا چاہیے‘‘۔ (ص ۳۲)

تاہم ہوف مین اس تجویز کے خلاف ہیں‘ اور پروفیسر رالف بریبانتی کے خیال سے متفق ہیں کہ ’’کیتھولک چرچ سمیت‘ مسیحی چرچوں اور اسلام کے درمیان یقینا مفاہمت اور قربت پیدا ہوگی… ایک مشترکہ مسیحی مسلم پلیٹ فارم… نہ صرف اختلافات کو حل کرنے کا ذریعہ بنے گا‘ بلکہ مغربی دنیا کا تحفظ بھی کرے گا‘‘ (تاکید راقم الحروف کی)۔ (ص ۳۳)

’’مغربی دنیا‘‘ کیا ہے؟ ایک فکر اور تہذیب کی تجسیم‘ اس کی عملی تفسیر‘ اُس کی چلتی پھرتی صورت۔ اب کیا کسی مفاہمت کے ذریعے اس کے تحفظ مطلوب ہے؟ کیا اس کے ترکش میں ’’مفاہمت‘‘ کے علاوہ دوسرے تیر نہیں بچے ہیں؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ جنھیں قند و نبات پیش کر کے فنا کے گھاٹ اُتارا جا سکتا ہو‘ اُن پر زہر ہلاہل کیوں آزمایا جائے؟

’’اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست (ساتھی‘ مددگار) نہ بنائو۔ یہ تو خود ایک دوسرے کے دوست (ساتھی‘ مددگار) ہیں۔ تم میں سے جو بھی اُن میں سے کسی کو دوست (ساتھی‘ مددگار) بنائے گا‘ تو بلاکسی شک کے وہ انھی میں سے ہوگا۔ ظالموں کو اللہ راہِ راست نہیں دکھاتا۔ آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے‘ وہ دوڑ دوڑ کر اُن میں گھسے جا رہے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے‘ ایسا نہ ہو کہ ہم کسی گردش ]اور مصیبت[کا شکار ہو جائیں‘‘۔ (المائدہ ۵:۵۱-۵۲)