ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے نام ایک عرب قاری کے خط کا ترجمہ ترجمان القرآن (دسمبر ۲۰۰۱ء) میں شائع ہوا جس میں فلم سازی کے اسلامی ادارے کے قیام پر زور دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں‘ میں ریڈیو کے حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
ریڈیو‘ فلم کی نسبت زیادہ وسیع‘ کشادہ اور موثر ذریعہ ابلاغ ہے۔ اس کی اہمیت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بھی محسوس کرتے تھے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ میں ریڈیو پاکستان میں ملازم تھا۔ ۱۹۷۸ء میں مجھے خیال آیا کہ ملک میں ۱۹۷۷ء میں ملک گیر تحریک نظام مصطفیٰؐ برپا ہوئی لیکن یہ بات واضح نہ ہو سکی کہ نظام مصطفیٰؐ کیا ہے اور عملاً کیسے برپا ہوگا؟ چنانچہ میں نے مولانا مودودیؒ سے اس موضوع پر انٹرویو لینے کا اہتمام کیا۔ انٹرویو لینے والوں میں کوہستان کے عبدالوحید خان بھی تھے۔انٹرویو کے آخر میں میں نے مولانا سے سوال کیا کہ نظام مصطفیٰؐ کے نفاذ کے سلسلے میں ریڈیو کو ہم کیونکر استعمال کر سکتے ہیں؟
مولانا نے فرمایا: ’’ریڈیو کو استعمال کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو تلاش کیا جائے جو ایک ایک موضوع پر تیاری کر کے ریڈیو پر آکر تقریر کریں‘ مثلاً کچھ لوگ ایسے ہونے چاہییں جن کا آپ سوچ سمجھ کر اس کام کے لیے انتخاب کریں کہ وہ اسلام کے ایمانیات کی تشریح کریں اور طرح طرح سے ان کے ہر پہلو کو لوگوں کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کریں۔ ایک ہی آدمی یہ کام کرے گا تو لوگ اُکتا جائیں گے اور مختلف قابلیتوں کے لوگ اپنے اپنے طریقے پر بات سمجھائیں گے تو سننے والے دل چسپی کے ساتھ ان کی تقریریں سنیں گے۔ اسلامی اعتقادات کو دماغوں میں اُتار دینا سب سے پہلا اور سب سے بڑا بنیادی کام ہے جس سے مسلمانوں کی ذہنی حالت بدلی جا سکتی ہے اور انھیں اسلام کے دوسرے حقائق کو سمجھنے کے لیے تیار کیاجا سکتا ہے۔ کچھ دوسرے لوگ ایسے منتخب کرنے چاہییں جو اسلامی عبادات کی اہمیت ان کے بے شمار دینی اور دُنیاوی فوائد اور ان کو چھوڑ دینے کے نقصانات دل نشیں انداز میں طریقے طریقے سے سمجھائیں‘‘۔
مولانا نے فرمایا کہ ریڈیو پر اس طرح کی تقریروں کا سلسلہ اگر جاری ہو جائے اور موزوں آدمی اثر آفرینی کے ساتھ کام کریں تو آپ دیکھیں گے کہ چھ مہینے میں فرق عظیم واقع ہوجائے گا۔ ریڈیو تعلیم دینے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ آج کسان کھیت میں ہل تک نہیں چلا تا جب تک ٹرانسسٹر اس کے پاس نہ ہو۔
پروگراموں کی نوعیت کے بارے میں مولانا نے فرمایا: ’’ان کے اندر دل چسپی پیدا کرنے کے لیے آغاز عہدِرسالتؐ، عہدِخلافت اور عہدِصحابہؓ کے کچھ واقعات اور صالحین کی حکایات سے کریں۔ جب عوام کو صحیح طریقے سے دین سمجھایا جائے گا اور انھیں دل چسپ اور دل نشیں طریقے سے بتایا جائے گا تو وہ گانے کے رسیا نہ رہیں گے اور انھیں باہر کے ریڈیو سے بھی گانا سنتے وقت یہ یاد آ جائے گا کہ قیامت کے روز ان کے کان گواہی دیں گے کہ یہ لوگ ان سے کیا چیزیں سننے کا کام لیتے رہے ہیں‘‘۔
ان ہدایات کے پیش نظر میں نے اپنی نشریاتی زندگی کا یادگار پروگرام مرتب کیا جس کا عنوان تھا: ’’رسول کریمؐ کی تربیت کے شاہکار‘‘۔ اس نصف گھنٹے کے پروگرام میں اولیں دور کا احاطہ کیا گیا‘ یعنی رسول کریمؐ سے حضرت علیؓ تک کے تمام ادوار پر علامہ علاء الدین صدیقی‘ ڈاکٹر اسرار احمد‘ جناب سلیم تابانی‘ مرزا محمد منور اور سید سجاد رضوی کی جامع تقاریر کروائی گئیں اور مظفر وارثی کی نعت و حمد سے انھیں مزین کیا گیا۔ اب یہ پروگرام ریڈیو پاکستان کے ’’آواز خزانہ‘‘ کا حصہ ہے اور سال میں کئی بار نشر مکرر کے طور پر نشر کیا جاتا ہے اور نہایت دل چسپی کے ساتھ سنا جاتا ہے۔
مکتوب نگار عرب قاری نے فلم سازی کے معاملے میں مصر کا ترجیحاً ذکر کیا ہے حالانکہ پاکستان کا یہ ذریعہ ابلاغ بھی بہت مستحکم ہے۔ ہمارے ہاں چھوٹی اسکرین اور بڑی اسکرین کے ضمن میں قلم سے لے کر فلم تک سب کچھ فراوانی کے ساتھ موجود ہے۔ کہانی نویس بھی ہیں‘ گیت نگار بھی‘ صدا کار اور اداکار بھی۔ کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے والے فن کار بھی اور اداکاروں سے کام لینے والے ہدایت کار بھی۔ ضرورت صرف صالح نیت‘ موقع اورسرمائے کی ہے۔ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ذرائع ابلاغ‘ یعنی فلم اور ٹی وی کے ماحول کو سازگار بنایا جائے۔ معاشرتی بدعات کے خلاف قلمی اور فنی جہاد کیا جائے۔ اس کام کے لیے کچھ مناسب سرپرستی لازمی ہے۔ ہم اپنی روایتی اور دینی ثقافت پر مبنی بہترین ڈرامے اور فلمیں بنا سکتے ہیں اور اپنی حقیقی ثقافت کا احیا کر سکتے ہیں۔
میں نے مولانا سے ایک مرتبہ عرض کیا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ میں اسلامی اقدار کے مخالفین بہت کھل کھیل رہے ہیں‘ تو انھوں نے فرمایا تھا کہ ’’کسی سے تعرض مت کرو اور اپنا کام کیے جائو‘‘۔ ان کی اس نصیحت پر عمل کیا اور ریٹائر ہونے تک ریڈیو کے ذریعے دین اور ملک کی خدمت کرتا رہا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ریڈیو میں رہ کر جو تھوڑا بہت کام کیا اس پر قلبی اطمینان ہے۔ حقیقت ہے کہ اگر ایک آدمی بھی خلوص کے ساتھ کہیں بھی دین کا کام کرنا چاہے تو کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتا ہے اور اس کو نصرت الٰہی بھی میسر آتی ہے۔
مطلوبہ فلموں کی تیاری کے ضمن میں ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری علمی اور ادبی تاریخ بھری پڑی ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی زندگی کے ہر پہلو سے متعلق تاریخ میں جگمگاتے کردار اور واقعات کہانی نویسی کی دعوت عام دے رہے ہیں۔ قصص القرآن سے بھی کہانیاں اور ڈرامے اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اگر مشرکین The Message اور Ten Commandmentsقسم کی فلمیں بنا سکتے ہیں تو ہم personification سے بچتے ہوئے دیگر واقعات پر مبنی فلمیں کیوں نہیں بنا سکتے۔ ہماری تو حربی تاریخ بھی شان دار روایات و واقعات سے بھری پڑی ہے۔ علاوہ ازیں اولیں دور سے بھلے دنوں تک ہمارے اسلاف نے اخلاقیات کے علم لہرائے ہیں۔ کیا ہم ان موضوعات کو لے کر چھوٹی بڑی اسکرینوں پر فنی لحاظ سے کارنامے نہیں کر سکتے۔ مغربی مفکرین اور سیاست دانوں نے حقوقِ انسانی وغیرہ کا ڈھونگ رچا رکھا ہے‘ کیا ہم قرآن و سنت کے مطابق انسان کی تکریم و تحریم اور آزادی پر مبنی تاریخی حقائق کو آج کی زندگی پر منطبق نہیں کر سکتے۔
اسلامی فلمی ادارہ قائم کرنے کے لیے کردار کا استعمال اولین شرط ہے۔ ایک مسئلہ خواتین کی شمولیت کا بھی ہے کیونکہ بغیر اس کے معاشرتی فلم تو نہیں بن سکتی۔ ہمارے ہاں تو جہاد میں بھی عورتوں کی شمولیت آن ریکارڈ ہے‘ مثلاً حضرت خولہ بنت ازور‘ بھائی کی خاطر میدانِ جہاد میں کود پڑیں اور شمشیرزنی کے وہ ہاتھ دکھائے کہ پرائے پریشان اور اپنے حیران کہ ضرارؓ تو دشمن کی قید میں ہے لیکن اس مجاہد کا اندازِ شمشیرزنی وہی ہے۔ وہ مجاہد جب حضرت خالدؓ بن ولید کے سامنے لایا گیا تو راز کھلا کہ یہ تو ہے خولہ ؓبنت ازور‘ جناب ضرارؓ کی ہمشیرہ۔ میں جب یہ منظر پڑھ رہا تھا تو گویا فلم بھی دیکھ رہا تھا۔ ہماری تاریخ تو ایسے مناظر سے بھری پڑی ہے۔
اللہ نے ہمیں عقل و شعور‘ علم و ہنر‘ صورت و سیرت سب کچھ عطا کیا ہوا ہے۔ اگر ہم فلمی شعبے کی طرف بھی توجہ دیں تو بلامبالغہ ہم اس فن کی دُنیا میں بھی انقلاب برپا کر سکتے ہیں بلکہ مغربی دُنیا کو سبق سکھا سکتے ہیں کہ تعیش‘ نمود و نمایش‘ عریانی و فحاشی اور گناہ اور غنا کے علاوہ بھی سبق آموز فلمیں اور ڈرامے اور رزمیے تیار ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم اس میدان کی طرف بھی ایمان اور ایقان سے رجوع کریں تو اللہ ضرور ہمیں کامیابی سے سرفراز کرے گا۔ ان شاء اللہ!