اس اشاعت سے ان صفحات میں قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر کا ایک سلسلہ شروع ہو رہا ہے۔ ترجمہ جس نوعیت کا ہے اس کے لحاظ سے اسے ترجمہ کہنے کے بجائے ترجمانی کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔ اس میں جس چیز کی کوشش میں نے کی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کو پڑھ کر جو مفہوم میری سمجھ میں آتا ہے اور جواثر میرے قلب پر پڑتا ہے اسے حتی الامکان جوں کا توں اپنی زبان میں منتقل کر دوں‘ اسلوب بیان میں ترجمہ پن نہ ہو‘ عربی مبین میں جو کلام نازل ہوا ہے اس کی ترجمانی جہاں تک ممکن ہے اردوئے مبین میں ہو‘ اصل کلام کا فطری ربط آپ سے آپ ترجمہ میں نمایاں ہوتا جائے‘ اور کلام الٰہی کے شاہانہ وقار‘ زورِبیان‘ اور موقع و محل کے مطابق بدلتے ہوئے لہجے اور اسلوب کو بھی جہاں تک بس چلے اُردو میں منتقل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اِن اغراض کے لیے لفظی ترجمہ کی پابندیوں سے نکلنا بہرحال ناگزیر تھا ‘ اس لیے میں نے ترجمہ کے بجائے ترجمانی کا ڈھنگ اختیار کیا‘ البتہ انتہائی ممکن احتیاط کے ساتھ میں نے اس امر کا التزام کیا ہے کہ اصل عبارت کے الفاظ جس قدر مفہوم کے متحمل ہوں اس سے تجاوز نہ ہونے پائے۔ پھر مجرد ترجمانی سے ایک عام ناظر کے فہم قرآن میں جو کمی باقی رہ جاتی ہے اُسے پورا کرنے کے لیے میں نے مختصر تفسیری حواشی اور ہر سورت کے آغاز میں ایک مختصر مقدمہ کااضافہ کیا ہے ‘ اور ان میں ایک اوسط درجہ کے تعلیم یافتہ آدمی کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر صرف وہ باتیں بیان کر دی ہیں جن کا جاننا قرآن کے معنی و مدعا کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ اسی مناسبت سے میں نے اس کا نام ’’تفہیم القرآن ‘‘ رکھا ہے کیونکہ اس سلسلہ کو شروع کرنے سے میرا مقصد عام لوگوں کو قرآن سمجھانا ہے .....
رسالہ میں اس کی اشاعت کا سلسلہ شروع کرنے سے میری غرض یہی ہے کہ اہل علم و نظر حضرات بالخصوص اور عام ناظرین بالعموم اسے تنقیدی نظر سے ملاحظہ کریں اورجہاںکوئی غلطی یا فروگزاشت‘ یا ترجمانی و تفسیر میں کوئی تشنگی‘ یا کسی اعتراض و شبہ کی گنجایش پائیں ازراہ کرم مجھے اس پر متنبہ فرما دیں تاکہ نظرثانی کے وقت میں ان کے مشوروں سے استفادہ کر کے اس چیز کو زیادہ سے زیادہ صحیح و معتبر اور مفید بنا سکوں۔ سردست اس سلسلہ کو آخری تیار شدہ چیز نہ سمجھا جائے۔ بلکہ محض ایک مسودہ کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ برادرانِ دینی سے میری درخواست ہے کہ وہ اس خدمت کی تکمیل میں میری مدد فرمائیں۔ جو اصحاب بھی اس میں میری اعانت کریں گے میں ان کا شکرگزار ہوں گا اور اگر کچھ لوگ ہمدردانہ مشورہ و اصلاح کی جگہ طعن و تعریض کا طریقہ اختیار کرنا پسند فرمائیں تو ان کے ارشادات میں بھی جہاں کوئی بجااعتراض دیکھوں گا اس سے استفادہ کرنے اور ان کی عنایت کا شکریہ ادا کرنے میں ان شاء اللہ مجھے تامل نہ ہوگا۔ (’’اشارات‘‘، ابوالاعلیٰ مودودیؒ،ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۰‘ عدد ۱‘ محرم ۱۳۶۱ھ‘ مارچ ۱۹۴۲ء‘ ص ۲-۳)