’’اشارات‘‘ (فروری ۲۰۰۲ء) میں جہاداکبر اور جہاد اصغر پر بحث کی گئی ہے۔ اس بارے میں قول کو حدیث نہیں سمجھنا چاہیے۔ مشہور حنفی عالم ملا علی قاری ؒ (المتوفی ۱۰۱۴ھ) نے اپنی کتاب ’’الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ‘‘ المعروف بالموضوعات الکبری میں تمام جھوٹی حدیثوں کو جمع کیا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک باطل حدیث نمبر ۲۱۱ ہے جس کے الفاظ ہیں: ’’ہم چھوٹے جہاد (جہاد اصغر) سے بڑے جہاد (جہاد اکبر) کی طرف لوٹے ہیں۔ لوگوں نے پوچھا: جہاد اکبر کیا ہے؟ تو فرمایا: ’’یہ جہادِ قلب ہے‘‘۔ اس باطل حدیث کے بارے میں‘ حافظ ابن حجر عسقلانی تسدید القوس میں کہتے ہیں: ’’یہ لوگوں کی زبانوں پر چڑھی ہوئی ہے لیکن یہ حدیث رسولؐ نہیں ہے بلکہ ابراہیم بن ابی عیلۃ کا قول ہے (جن کا انتقال ۱۵۲ھ میں ہوا تھا)۔
ملا علی قاری ؒ فرماتے ہیں: ’’حافظ عراقی وغیرہ نے تو اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے‘ لیکن میں تو اس کو باطل سمجھتا ہوں‘ اس لیے کہ یہ ایک اہم ترین فریضے کی شان میں کمی کرتی ہے جس کو رسولؐ اللہ نے ذروۃ سنام الاسلام (اسلام کی بلندی) کا نام دیا ہے۔ میں نے ایک رسالہ جہاد پر لکھا ہے‘ جس میں اس باطل روایت کے بطلان کی طرف اشارہ کیا ہے‘‘۔
’’چمن کی فکر کر نادان‘‘ (فروری ۲۰۰۲ء) کے ذریعے طلسم سامری کے بت کو پاش پاش کر دیا گیا ہے۔ حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کر دیا گیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے جہاد اصغر اور جہاداکبر کے الفاظ اور علامہ اقبالؒ کے کلام سے جو مغالطے ملت میں پھیلائے تھے‘ وہ دُور کر دیے گئے ہیں۔ اُن لوگوں کی آنکھیں کھل جانا چاہییں جو اپنی سادگی میں سرکاری موقف کی تائید کرتے ہیں۔
’’مسلکی منافرت اور تشدد‘‘ (فروری ۲۰۰۲ء) میں بہت اچھے انداز سے اسلام کا مطلوب واضح کیا گیا ہے‘ اور مسلکی اختلافات کی وجوہات اور اُن کے حل کی تدابیر کے لیے عملی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں ان مسائل سے بچائو کس طرح ہو اور دینی قوتوں کو توسیع و دعوت کی بہترین حکمت عملی کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے؟ اگر قرآن اہل کتاب کو کلمۃٍ سوائٍ کی طرف دعوت دیتا ہے تو ہمارے علماے کرام چند فروعی مسائل سے صرفِ نظر کر کے اتحاد اُمت کامظاہرہ کیوں نہیں کر سکتے۔