نصیحت تو یہی کی جاتی ہے کہ سارے جہاںکا درد نہ پالو لیکن مسلمان کا مسئلہ یہ ہے کہ اُمت میں کسی جگہ بھی تکلیف ہو تو اس کا دل اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ آج کل جس مسلمان ملک کے احوال دیکھے جائیں‘ ہر جگہ امریکی ایجنڈا نظر آتا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد تو سب پردے ہٹ گئے اور ہر کارروائی بلا جھجک و شرم کھلم کھلا کی جا رہی ہے۔ مصر کی حالت ہم سے مختلف نہیں‘ بلکہ اب تو پاکستان کو مصر کی راہ پر چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہمارے حکمران کو انوارالسادات سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ سو ایک نظر مصر کی طرف بھی!
مصر کے وزیر داخلہ نے سرکاری رسالہ المصور (۲۸ دسمبر ۲۰۰۱ء) کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ مصر نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں امریکہ کی بھرپور مدد کی ہے‘ اور اسے بہت سی معلومات فراہم کر دی ہیں۔ اس کے باوجود امریکی ذرائع ابلاغ اور ارکان کانگریس مصر کے خلاف الزام تراشی اور اظہار نفرت سے باز نہیں آرہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گو مصری حکمران‘ امریکی خوشنودی کے لیے کسی سے پیچھے رہ جانے پر تیار نہیں‘ مگر مصر بہرحال مسلمانوں کا ملک ہے اور امریکیوں کی نظر میں اس سے بڑھ کر عیب کیا ہو سکتا ہے۔ مصری حکمران امریکہ کی اشیرباد حاصل کرنے کے لیے اپنی ہی قوم کے اسلام اور جمہوریت کے حامیوں کو کچل کر‘ اپنے عوام کی نفرت و حقارت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں لیکن امریکی بھی ان سے خوش نہیں ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے مصر کو ’’کوڑے کرکٹ کا ڈھیر اور منافق‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ تعاون نہیں کر رہا۔ مصر کا فرض ہے کہ وہ امریکہ کے عالمی نظام کی کڑی بن جائے اور عرب ازم کے نظریے اور اپنے دیگر بوسیدہ افکار سے چھٹکارا پائے‘ یا پھر انجامِ بد کے لیے تیار ہو جائے (۱۶ اکتوبر ۲۰۰۰ء)۔ امریکی کانگریس کے کئی ارکان نے مصر کو جدید میزائل دینے کے معاہدے پر بھی اعتراض کیے ہیں۔ امریکہ‘ مصر پر زور دے رہا ہے کہ وہ ’’دہشت گردی کے سرچشمے‘‘ خشک کرے۔ چنانچہ مصر نے تعمیرمساجد پر ۱۰ شرطیں عائد کر دی ہیں اور جامع ازھر سے امریکہ مخالف اساتذہ کو برطرف کر دیا ہے۔ مصر پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ یاسر عرفات کو‘ یہودیوں کے ساتھ معاہدۂ امن کرنے پر مجبور کرے۔
امریکی جیلوں میں مصری: مصری وزارتِ خارجہ کے ذرائع کے مطابق ۱۱ ستمبر کے بعد ۵۰سے ۲۰۰ تک مصری شہری امریکی جیلوں میں بند پڑے ہیں۔ بار بار کے مطالبات کے باوجود امریکی حکام گرفتار شدہ مصریوں کی نہ تو تعداد بتا رہے ہیں اور نہ ان سے رابطہ کرنے کی ہی اجازت دے رہے ہیں۔ مصری وزیرخارجہ نے اپنے گذشتہ امریکی دورے کے دوران‘ گرفتارشدگان کی تعداد معلوم کرنا چاہی مگر ناکام رہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے سفارت خانے میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ہمیں گرفتار شدگان کی تعداد اور ان پر لگائے گئے الزامات کا علم نہیں ہو جاتا‘ سکون نہیں آسکتا۔
تنظیم الاساتذہ کے خلاف عدالتی کارروائی: اخوان المسلمون کے خلاف قائم فوجی عدالت نے اپنی کارروائی شروع کر دی ہے۔ گذشتہ چھ برسوں میں یہ چوتھی فوجی عدالت ہے۔ گرفتار شدہ ’’ملزموں‘‘ کی تعداد ۲۲ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور مشہور ڈاکٹر ہیں۔ قاہرہ کے مشرق میں--- قاہرہ اسماعیلیہ شاہراہ--- پر واقع ہایکستب چھائونی میں عدالتی کارروائی شروع ہوئی۔ ملزموں کی حمایت و تائید کے لیے ۲۰۰ وکلا موجود تھے۔ ان میں سے کئی سابق جج تھے۔ حقوقِ انسانی کی بین الاقوامی تنظیموں کے نمایندے بھی حاضر تھے۔ الزامات یہ عائد کیے گئے: دستور و قوانین کو معطل کرنا‘ مملکت کے اداروں کو اپنا کام کرنے سے روکنا‘ اخوان المسلمون کی سرگرمیوں کے ازسرنو احیا کے لیے کام کرنا‘ اخوان کے عناصر کو تیار کرنے کے لیے خفیہ ملاقاتیں کرنا‘ جماعت کی مالی مدد کے لیے لائحہ عمل بنانا‘ عوام کو متحرک کرنے کے لیے طریق کار وضع کرنا‘ طلبہ کو اپنے ساتھ ملانا‘ ریاستی اداروں پر قبضہ کرنے کے لیے غوروفکر کرنا‘ جماعت کے اغراض و مقاصد کو عام کرنے کے لیے مطبوعات و دستاویزات تیار کرنا۔
یاد رہے کہ تنظیم الاساتذہ کے گرفتار شدہ ارکان میں میڈیکل‘ ایگریکلچرل اور ٹریننگ کالجوں کے آٹھ اساتذہ ہیں۔ اس سے پہلے ۶۰ سے زائد اخوان پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا چکے ہیں۔ مصر کی فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف کہیں اپیل نہیں ہو سکتی۔ سیاسی مبصرین کے بقول: مصری حکمران‘ اخوان کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کو راستے سے ہٹانے کے منصوبے پر عمل پیرا رہے ہیں۔
تعمیر مساجد پر پابندیاں: ’’دہشت گردی‘‘ کی تعریف کیے بغیر‘ اس کے خلاف عالمی سطح پر امریکی کارروائی صرف اس تک محدود نہیں ہے کہ ’’دہشت گرد‘‘ ملکوں اور جماعتوں کے خلاف فوجی اقدامات کیے جائیں بلکہ دین اور اہل دین پر بھی حملے شروع ہو چکے ہیں۔ امریکہ نے قانون بنایا ہے جس کی رُو سے مساجد میں نماز پڑھنے والوں کے خلاف جاسوسی کی جا سکے گی اور وفاقی خفیہ ایجنسیوں کے اہل کار مسجدوں میں گھسنے اور نمازیوں کی حرکات کی نگرانی کرنے کے مجاز قرار دیے گئے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ باقاعدگی سے مسجدوں میں نماز پڑھنے والوں پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگا دیا جائے۔ امریکی تجزیہ نگار تھامس فریڈمن نیویارک ٹائمز میں مسجدوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے کی دعوت دیتے ہوئے لکھتا ہے:
۱۱ ستمبر کا دن فی الحقیقت تیسری عالمی جنگ کا یوم آغاز ہے۔ ہمیں اس جنگ کا مقصد سمجھ لینا چاہیے۔ ہمیں صرف دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑنے کے لیے جدوجہد نہیں کرنا‘ دہشت گردی تو فقط ایک آلہ ہے۔ ہم تو آئیڈیالوجی کو شکست دینے کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔ کسی دینی جماعت کے خلاف صرف فوجوںسے لڑائی نہیں لڑی جا سکتی بلکہ مدرسوں اور مسجدوں میں بھی لڑائی ہونی چاہیے۔ ائمہ اور علما کا تعاون حاصل کیے بغیر آئیڈیالوجی کو شکست نہیں دی جا سکتی‘‘۔ (نومبر ۲۷‘ ۲۰۰۱ء)
دہشت گردوں کے خلاف یہ مہم اب صرف امریکہ تک محدود نہیں بلکہ کئی مسلم اور عرب ممالک نے بھی دین اور اہل دین کے خلاف یہ لڑائی شروع کر دی ہے تاکہ ایک طرف تو امریکہ کو خوش رکھا جائے اور دوسری طرف اپنے سیاسی مخالفین کو--- جو زیادہ تر دینی جماعتیں ہیں--- کچلنے کے اس ’’سنہری موقع‘‘ سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔ جنرل پرویز مشرف نے مساجد و مدارس کے خلاف جس مہم کا آغاز کیا ہے وہ اسی امریکی پالیسی کا پھیلائو ہے۔ اس لیے تعمیرمساجد پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مصر میں تعمیر مساجد پر عائد کردہ ۱۰ پابندیاں وزارتِ اوقاف نے نہیں بلکہ مجلس وزرا نے لگائی ہیں۔
پابندیاں یہ ہیں: ۱- رہایشی عمارت کے نیچے مسجد بنانا ممنوع ہے‘ ۲- مسجد کا رقبہ ۱۷۵ مربع میٹر سے کم نہ ہو‘ ۳- مسجد کی تعمیر شروع کرنے سے پہلے‘ بطور ضمانت کسی بھی بنک میں ۵۰ ہزار گنی (۱۱ ہزار ڈالر) کی رقم جمع کروائی جائے‘ ۴- علاقے کو مسجد کی حقیقی ضرورت ہو‘ ۵- نئی تعمیر ہونے والی مسجد کا پہلے سے تعمیرشدہ کسی مسجد سے فاصلہ ۵۰۰ میٹر سے کم نہ ہو‘ ۶- وزارتِ اوقاف کے واضح اجازت نامے کے بغیر کوئی بھی مسجد تعمیر نہ کی جائے‘ ۷- مسجد انتظامیہ‘ وزارتِ اوقاف کے جاری کردہ احکام و ہدایات پر عمل درآمد کی پابند ہوگی‘ ۸- صحت‘ سماجی اور خدماتی امور کی سرانجام دہی کے لیے‘ مسجد کے نیچے کمرے تعمیر کرنے ہوں گے‘ ۹-اگر دریاے نیل کے کنارے پر مسجد یا خانقاہ تعمیر کرنا ہو تو اس کے لیے وزارتِ آبپاشی سے بھی اجازت نامہ لینا ہوگا‘ ۱۰- کسی بھی غضب کردہ یا متنازعہ جگہ پر مسجد تعمیر نہ کی جائے۔
مصر میں مساجد کی روز افزوں تعداد سے حکومت خائف ہے۔ وزارت اوقاف نہ تو اتنی زیادہ مساجد کے لیے ائمہ و خطبا کا تقرر کر سکتی ہے اور نہ سیکورٹی فورسز ہی ان مساجد کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتی ہیں۔ لہٰذا مسجدیں مختلف اسلامی جماعتوں اور انجمنوں کے زیرانتظام ہوتی ہیں۔ حکومت مصر کے نزدیک اس سے ’’دہشت گردوں‘‘ کو فروغ ملتاہے۔ جمعہ کے خطبات میں‘ سرکاری پالیسیوں کی مخالفت کی جاتی ہے۔
آج ہر مسلمان ملک میںاس نوعیت کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ مسجدیں تک آزاد نہ رہیں تو دشمنوں کو اور کیا چاہیے۔