مارچ ۲۰۰۲

فہرست مضامین

الزام کس پر؟

اسماعیل ابراہیم نواب | مارچ ۲۰۰۲ | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

ترجمہ: مسلم سجاد

میرا یہ مضمون:  The Blame Game جدہ کے اخبار عرب نیوز میں شائع ہوا تو امریکہ کی بعض ویب سائٹوں نے بھی اس کو شائع کیا اور مجھے وہاں کے قارئین کی طرف سے ای-میل کا ایک انبار موصول ہوا۔ عموماً ان میں مسلم نقطۂ نظر کی حمایت تھی لیکن بعض صورتوں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جائز سوالات بھی اٹھائے گئے تھے۔ میرا خیال ہے کہ الحمدللہ میرے مضمون نے اور ایسے ہی بعض دوسرے لوگوں کی تحریروں نے کسی نہ کسی حد تک ذہنوں کو بدلنے اور دلوں کو جیتنے کا کام کیا ہے۔ میں نے اس میں کشمیر‘ چیچنیا اور دوسرے مقامات جہاں مغرب کا موقف واضح ناانصافی پر مبنی ہے‘ جان بوجھ کر ذکر نہیں کیا ہے۔ میں امریکہ کی اسرائیل نواز پالیسیوں اور اقدامات پر حملہ کرنا چاہتا تھا۔ عراق اور فلسطین کے معاملے میں امریکہ اور مغربی حلیفوں کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ان ممالک کے بارے میں اپنی پالیسیوں کے لیے مغرب کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے‘ اور یہاں جو ظلم ہو رہا ہے اس کے وہ براہ راست ذمہ دار ہیں۔


مسلمان اور مغرب اپنے تعلقات میں موجودہ کشیدگی کا الزام ایک دوسرے پر رکھتے ہیں۔ شاید ہمیں جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہر فریق مسائل کی جڑ دوسرے فریق کو قرار دینے کے بجائے اپنے داخلی اور اندرونی مسائل کا جائزہ لے۔ کسی نہ کسی وقت ہر فریق نے دوسرے کے ساتھ زیادتی کی ہے اور آج بھی طاقت ورکم زور کے ساتھ ناانصافی برتتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کی مذمت تو کریں لیکن ہمیں اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ ہم جس دلدل میں اتر گئے ہیں اس کی کچھ ذمہ داری ہمارے اوپر بھی  ہے۔

ہم مسلمانوں کو اپنے حالات کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنے اندرونی مسائل سے نبرد آزما ہونا چاہیے اور ان سب کی وجہ مغرب کی خیالی یا حقیقی میکاولین تدابیر کو قرار نہیں دینا چاہیے۔ مغرب اپنے مخصوص علاقائی‘ اخلاقی‘ اجتماعی‘ معاشی اور سیاسی مسائل سے پریشان ہے۔ اس صورت حال نے خاندانی اقدار کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر دیا ہے اور نسل پرستی‘ غربت‘ جرم اور بے گھر ہونے میں اضافہ کیا ہے۔ وہ انھیں ختم کرنے یا کم از کم‘ کم کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ مسلمانوں کو نصیحت  کرے کہ وہ اپنی زندگی کیسے گزاریں۔ اسی طرح مسلمان اخلاقی‘ اجتماعی‘ سیاسی‘ تعلیمی اور معاشی ناکامیوں کا شکارہیں۔ وہ اس خوف ناک صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے ضروری اصلاحات کے لیے اور وہ جو کچھ کر سکتے ہیں اور جب بھی کر سکتے ہیں‘ کر رہے ہیں۔ اسلام اور اس کی تہذیب کئی صدیوں تک قوموں کے لیے روشنی کا مینارا رہی ہے لیکن اس کے بعد کے زمانے کے پیروکار اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے معاشرے آج کل کے دور میں ان کے اپنے لوگوں کے لیے اور باقی دُنیا کے لیے کوئی روشن مثال ہیں تو وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔ مسلمانوں نے تاریخ میں متعدد چیلنجوں کا مقابلہ کیا ہے اور ان پر قابو پایا ہے۔ جدید دور میں کئی عشروں سے وہ مستقلاً خود احتسابی میں مصروف ہیں لیکن یہ تکلیف دہ مشق تقاضا کرتی ہے‘ خصوصاً دبائو اور بحران کے حالات میں‘ جب کہ فطرتاً انسان تنہائی‘ داخلیت پسندی اور دوسرے کو الزام دینے میں سکون محسوس کرتا ہے کہ اسے جاری رکھا جائے۔ مسلمان اور مغرب‘ دونوں فریقوں کو خود اپنا جائزہ لینے کے لیے اور مسائل کو حل کرنے کے لیے آمادہ ہونا چاہیے۔ الزام بازی ہمیں کہیں کا نہ رکھے گی۔

مغرب میں خصوصاً امریکہ میں اب یہ فیشن ہو گیا ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گرد پیدا کرنے کا مجرم قرار دیا جائے جیسے کہ ساری دُنیا کے تمام ملزم دہشت گرد صرف مسلمان ممالک ہی سے آتے ہیں اور جیسے کہ خود مسلمان ممالک تشدد کا ہدف نہیں ہیں۔

کسی مذہب یا ملک کی دہشت گردی پر اجارہ داری نہیں ہے۔یورپ اور امریکہ کے خود اپنے گھر میں طرح طرح کے دہشت گرد پیدا کرنے کا ریکارڈ ناقابل ذکر نہیں ہے۔ ان کو کبھی بھی عیسائی یا یہودی دہشت گرد نہیں کہا جاتا اور ایسا صحیح کہا جاتا ہے___ اور نہ عیسائیت اور یہودیت کو ہی اپنے پیروکاروں کے طرزعمل کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے چاہے یہ ہٹلر ‘ ٹموتھی میکوی‘ ایریل شیرون یا دوسرے مجرمین ہی کیوں نہ ہوں جو قومیت اور تہذیب کا مقدس لبادہ اوڑھ کر انسانیت کے خلاف وحشیانہ اقدامات کرتے ہیں۔

سارے ہی مسلمانوں کو عموماً دہشت گرد قرار دینا نسل پرستانہ‘ خطرناک اور اشتعال انگیز ہے۔ ایک پوری قوم اور تہذیب کی کلی مذمت کا شر اور کھوکھلا پن دورحاضر کے سب سے بڑے کھلاڑی کے اس واقعے میں کھل کر نظر آتا ہے جس نے اپنے خاص انداز میں یہ نغمہ گایا تھا: تتلی کی طرح اُڑتا ہوں اور بھڑ کی طرح کاٹتا ہوں۔ جب محمد علی نیویارک میں ۱۱ ستمبر کے حملوں کی جاے وقوع پر گیا تو ایک صحافی نے ان امریکی دعووں کی بنیاد پر کہ حملہ آور مسلمان تھے‘ اس سے پوچھا کہ آپ کو ایک ایسے مذہب سے وابستہ ہونا کیسے لگتا ہے جس نے ایسے آدی پیدا کیے؟ تتلی کا کاٹنے والا جواب تھا: ’’آپ کو ایسے مذہب سے وابستہ ہونا کیسے لگتا ہے جس نے ہٹلر پیدا کیے؟‘‘

جو بات تعجب انگیز ہے وہ مغرب میں مسلمانوں خصوصاً فلسطین میں کیے جانے والے تشدد اور ناانصافیوں کی ذمہ داری سے سرکاری طور پر انکار کی کیفیت ہے جس پر اس کا پالتو میڈیا کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔ عوامی سطح پر اس کی کوئی آگہی نہیں ہے اور مغرب کی حکومتیں داخلی دبائو اور سیاسی ضروریات کے تحت اپنے عوام سے سچائی کو چھپاتی ہیں۔ یہ حکومتیں اور ان کے طاقت ور میڈیا مشرق وسطیٰ کی دہشت گردی کا‘   جو چند ناراض نوجوان کرتے ہیں ‘تعلق اس کی جڑ میں پائی جانے والی اصل وجوہات سے کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے شہریوں کی توجہ خطرے کی گھنٹیاں بجا کر ہٹاتے ہیں۔

مغرب کے پنڈتوں کی تازہ ترین من گھڑت کہانی مسلمان ممالک کے تعلیمی نظام کے مذہبی حصے پر دہشت گرد پیدا کرنے کا الزام ہے۔ مسلم دُنیا میں تو اسلام پر مبنی یہ نصاب کئی صدیوں سے رائج ہے اور اس نے کبھی دہشت گرد پیدا نہیں کیے۔ کیا مغربی معاشروں کے نصابوں پر اسٹالن‘ ہٹلر‘ میلوسووچ ‘شیرون اور اب میکوی جیسے عفریت پیدا کرنے کا الزام لگایا جا سکتا ہے؟

یہ دہشت گردی کے بین الاقوامی عمل کو اس کے اصل سرچشمے‘ مغربی ناانصافیوں سے کاٹنے کی ایک نمایشی اور پرُخطر کوشش ہے۔ اس سے مغربی سیاست دانوں کی لاپروائی بھی ظاہر ہوتی ہے جن کا اولین مقصد اپنے شہریوں اور قوموں کے مفادات کے تحفظ کے ذریعے قلیل المیعاد انتخابی فوائد حاصل کرنا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی حد تک تو اس سے مغرب کے ماہرین میں سے بیشتر کی اگر بددیانتی نہیں تو واضح عدم واقفیت ظاہر ہوتی ہے جن کی اکثریت عربی نہیں بول سکتی اور نہ اس زبان میں چند جملے لکھ سکتی ہے۔ یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ مسلم دُنیا کے نصابوں نے کئی صدیوں تک دہشت گرد کیوں پیدا نہیں کیے اور ایسا کیوں ہوا کہ اچانک گذشتہ چند عشروں میں ان سے ایسے لوگ نکل رہے ہیں جو مغرب سے اور خاص طور پر امریکہ سے ناراض ہیں۔ جواب کی تلاش میں زیادہ دُور نہیں جانا پڑے گا۔ مسلم دُنیا میں ہر شخص کو بڑا تعجب ہوا جب صدر بش نے سوال اٹھایا کہ وہ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ مجھے ایسے کوئی مسلمان نہیں ملے جو امریکیوں سے بحیثیت فرد نفرت کرتے ہوں لیکن مجھے ایسے لوگ بہت کم ملے ہیں جو امریکی انتظامیہ اور امریکہ کے پیچھے چلنے والی یورپی حکومتوں کی اسلام کے پیروکاروں کے ساتھ پالیسیوں سے نفرت نہ کرتے ہوں۔ عراق کے لاکھوں معصوم فاقہ کش‘ بیمار بچوں‘ عورتوں اور بوڑھوں اور فلسطینیوں کے معاملے میں جنھیں دوسری جنگ عظیم کے بعد طویل ترین غاصبانہ قبضے کا سامنا ہے‘ ظالمانہ اور غیر انسانی پابندیاں نہایت اذیت ناک ہیں۔

بے یارومددگار فلسطینیوں سے‘ جن کے پاس نام کی فوج بھی نہیں ہے‘ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل جو امریکہ کی پشت پناہی سے مشرق وسطیٰ کی علاقائی سوپرپاور ہے اور کیل کانٹے سے لیس ہے‘ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا اسلحہ بشمول جوہری ہتھیار رکھتا ہے اور طاقت کے ذریعے زمینی حقائق کی تشکیل کر دیتاہے ‘زندگی اور موت کے مسائل کو مذاکرات کے ذریعے طے کرے۔ کیا اس طرح کے غیر مساوی فریقوں کے درمیان مذاکرات امن کی طرف لے جا سکتے ہیں؟

امریکہ اس قضیے کو طے کرنے میں اقوام متحدہ کے کردار کا مخالف ہے مگر کشیدگی کے شکار دیگر علاقوں میں جہاں چاہتا ہے اقوام متحدہ کی حمایت حاصل کرتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک ’’دیانت دار دلال‘‘ ہے جومشرق وسطیٰ کے نام نہاد امن مذاکرات کوکامیاب نتائج تک پہنچائے گا۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے حال ہی میں مذاکرات کو مسترد کیا اور جب اس کے اپنے مفادات اور سلامتی کو خطرہ ہوا تو جنگ کا راستہ اختیار کیا‘ اور یہی ’’دیانت داردلال ‘‘ہے جس نے انتفاضہ میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں پر پھولوں کی چادریں چڑھائیں لیکن ان کی انسانی ہمدردی کے سوتے خشک ہوگئے اور وہ تعزیت کے چند الفاظ بھی ان فلسطینی بچوں کے والدین سے نہ کہہ سکے جن کے چیتھڑے اسرائیلی بموں نے اڑا دیے تھے--- ان    شرم ناک جرائم کی جاے وقوع پر جا کر پھول چڑھانا تو دُور کی بات ہے! اگر مسلمان دیانت دار دلالی کے اس تصور پر غضب ناک ہوں اور حیران ہوں تو کیا آپ انھیں قصوروار قرار دے سکتے ہیں؟

اسرائیل نے ۳۰ سال قبل ۱۹۶۷ء میں چھ روزہ جنگ کے دوران فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا‘ اور دُنیا میں کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس کو کیوں چھ دن سے کم میں وہاں سے جانے پر مجبور نہ کیا جا سکے۔ اس راہ میں اقوام متحدہ کی قراردادوں اور دُنیا کے لوگوں کے ضمیر اور رائے کے مقابلے پر صرف امریکہ کھڑا ہے ۔

۱۹۵۶ء کی جنگ سویز کے بعد عرب دُنیا میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے آئزن ہاور نے اسرائیل کو جزیرہ نما سینا سے دست بردار ہونے کے لیے ۴۸ گھنٹے دیے۔ اسرائیل آخری وقت ختم ہونے سے کافی پہلے واپس چلا گیا۔ یہ تھا سیاسی تدبر!  امریکہ کو دوسرا آئزن ہاور کب ملے گا؟

امریکہ جارحیت‘ قبضہ اور فلسطینیوں کو قتل اور دربدر کرنے میں اسرائیل کی مدد عسکری‘ مالی اور سفارتی ہر لحاظ سے کرتا ہے۔ ایک کے بعد ایک امریکی انتظامیہ نے ناواقف امریکی شہریوں کی جیب سے رقم نکال کر اسرائیل کے ریاستی دہشت گردی کے جرائم کے لیے ۱۱۵ ڈالر فی سیکنڈ‘ ۶ ہزار ۷ سو ۷۷ ڈالر فی منٹ اور ایک کروڑ ڈالر فی دن گذشتہ ۲۰ سال سے ادا کیے ہیں۔ امریکی شہریوں کو یہ جان کر صدمہ ہوگا کہ انھوں نے ۱۹۴۹ء سے ۶۰ ارب ڈالر قرضوں اور امداد کی صورت میں ایک ایسی ظالم اور جابر ریاست کو دیے ہیں جو انسانی حقوق کو پائوں تلے روندتی ہے اور بین الاقوامی قانون کی روزانہ خلاف ورزی کرتی ہے۔ اس میں وہ قیمت شامل نہیں ہے جو امریکی خزانے سے اس رقم پر بطور سود ادا کی گئی جو اس نے اسرائیل کو دینے کے لیے قرض لی۔ تعجب ہوتا ہے اس داد و دہش سے امریکی شہریوں کو کیا حاصل ہوا؟ اپنے ملک میں بلاجواز جانوں کا ضیاع اور بیرون ملک بدنامی‘ ساکھ کی خرابی اور ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں میں عام غم و غصہ۔ امریکہ تجھے کیا ہوا ہے!

جب تک اس طرح کی یک طرفہ پالیسیاں جاری رہیں گی اور اس طرح کی غنڈا ریاست سے لاڈ میں بگڑے ہوئے بچے کا سا سلوک کیا جائے گا اور امریکہ اسے عالمی راے عامہ اور بین الاقوامی قانون کے علی الرغم تحفظ دے گا‘ امریکہ اور مسلمانوں میں کشیدگی بڑھتی رہے گی۔ مسلمان امریکہ کے دہرے معیارات کی وجہ سے مایوسی‘ احساس محرومی‘ بے بسی اور تحقیر کا احساس رکھتے ہیں اور بجا طور پر ناراض ہیں۔ انھیں جمہوریت‘ انصاف‘ آزادی کے لیے اور دہشت گردی کی مخالفت میں امریکہ کی حمایت اور زبانی ہمدردی مطلوب نہیں ہے بلکہ جو ناانصافیاں کی جا رہی ہیںان کو دُور کرنے کے لیے وہ ان کے ساتھ فوری اور نظر آنے والے اقدامات چاہتے ہیں۔ امریکہ کی رابطہ عوام کی تمام کوششیں‘ اس کے افسران کی ہمدردانہ تقریریں اور وعدے‘ ٹی وی کے جاری اور آنے والے پروگرام‘ مختلف زبانوں میں وائس آف امریکہ کے پروگرام‘ اس کی ساری مالی امداد (جو بعض وقت رشوت کا دوسرا عنوان ہوتا ہے) سے‘ ان تکالیف کو دُور کرنے کے لیے جو امریکی پالیسیاں مسلم دُنیا کو پہنچا رہی ہیں ‘بالکل کچھ نہیں ہوگا۔

مسلمان جو کچھ چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ امریکہ اپنی غیر منصفانہ پالیسیاں تبدیل کرے۔ انھیں یقین ہے کہ وہ امریکیوں اور عموماً مغرب کے ساتھ جو مشترک روحانی‘ اخلاقی اور انسانی اقدارہیں اور معاشی مفادات رکھتے ہیں‘ ان کی وجہ سے یہ تعلقات اور تصورات میں ایک سمندر جیسی تبدیلی (sea change)لائے گا۔ جس سے نہ صرف مسلمانوں کو فائدہ ہوگا بلکہ امریکہ اور دوسری امن پسند اقوام کے ان حقیقی قومی مفادات کا تحفظ بھی ہوگا جو کرئہ ارض پر پھیلے ہوئے ۳ء۱ ارب مسلمانوں میں ان کے ہیں۔

انصاف اور امن کے آتے ہی الزام لگانے کا کھیل ختم ہوجائے گا!