مارچ ۲۰۰۲

فہرست مضامین

پاکستان : اسلامی یا سیکولر ریاست؟

پروفیسر خورشید احمد | مارچ ۲۰۰۲ | اشارات

Responsive image Responsive image

معاملہ افراد کے درمیان ہو یا اقوام کے‘ اس کے ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں‘ ایک خالص قانونی اور سیاسی اور دوسرے دعوتی اور نظریاتی۔ قانون اور سیاست کا دائرہ متعین ہے۔ ہر فرد اور ہر قوم کے لیے لازم ہے کہ اگر وہ تصادم‘ ٹکرائو اور جنگ و جدل کے راستے سے بچنا چاہتی ہے‘ تو ان دائروں کے اندر اپنے معاملات کو طے کرے۔ رہا معاملہ دعوتی اور نظریاتی میدان کا‘ تو اس میں تبلیغ‘ تذکیر‘ مذاکرہ اور افہام و تفہیم کے نہ ختم ہونے والے امکانات ہیں‘ بشرطیکہ ایک فریق دوسرے پر محض قوت اور اپنی بالادستی کے زعم میں اپنی رائے مسلط کرنے اور دوسروں کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے مجبور نہ کرے۔ نظریاتی میدان میں بھی تصادم اس وقت رونما ہوتا ہے جب آزادیٔ فکرونظر اور افہام و تفہیم کے دروازوں کو بند کیا جائے یا دلیل اور ترغیب کی جگہ قوت اور تلوار لے لے۔

قرآن نے  لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج (البقرہ ۲: ۲۵۶) (دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات‘ غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے) کے ابدی اصول کے ذریعے اہل ایمان ہی کے لیے نہیں تمام انسانوں اور اقوام کے لیے ردوقبول ‘ اختیار و انکار‘ افہام و تفہیم اور جذب و انجذاب کا ایک ابدی ضابطہ مقرر کر دیا ہے ۔ پھر فرد اور قوم دونوں کو حدود انصاف کے احترام کا پابند کر کے انسانی معاشرے کو ایک طرف ترقی کے نہ ختم ہونے والے امکانات سے سرفراز کیا ہے۔ دوسری طرف ’’جنگل کے قانون‘‘ کے دور کو ختم کرکے انسانوں اور اقوام کو مہذب زندگی‘ مبنی بر انصاف امن اور ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کی ادایگی کے لیے معروضی نظام کار فراہم کر دیا ہے:

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ (النحل ۱۶:۹۰)

اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے ۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ م بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ ۵:۸)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

مخالف سے بھی عدل اور اپنوں سے بھی‘ خواہ اس کی زد کسی پر بھی پڑتی ہو۔

وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی ج (الانعام ۶:۱۵۲)

اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو۔

افراد اور قوموں کے درمیان فتنہ و فساد اور ظلم و زیادتی کے در آنے کا بہت بڑا دروازہ یہی قوت کا بے جا استعمال اور عدل و انصاف سے روگردانی ہے۔ آج اگر دُنیا میں ظلم و طغیان کا دور دورہ ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے۔

قیام پاکستان کے مقاصد؟

تاریخ پر نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہر دور میں استعماری قوتوں نے ان اصولوں کو پامال کیا تھا۔ ماضی میں ان استعماری قوتوں نے قوموں پر غلبہ پانے اور غلام بنانے کا ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا تھا۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں آزادی کی تحریکیں برگ و بار لائیں۔ استعماری طاقتوں نے اس لہر کا سامنا اس طرح کیا کہ اپنی مرضی سے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے‘ ان کے جغرافیے کو تبدیل کر دیا۔ اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی نام نہاد قومی ریاستوں میں اپنی مرضی کے ایسے حکمرانوں کو مسلط کرنے کا راستہ اختیار کیا جنھیں اپنے عوام کی آزادی‘ ترقی اور تہذیبی استحکام کے بجائے مغربی آقائوں کی خوشنودی کی زیادہ فکر رہی۔ اور اب اکیسویں صدی کے آغاز میں یہی قوتیں ان ریاستوں کے نظریاتی اہداف متعین کرنے اور ان کے ایمان و ایقان کی وضع قطع ’’حسب ضرورت‘‘ بنانے کا کارنامہ انجام دے رہی ہیں۔ اسی حوالے سے گذشتہ چند مہینوں سے خصوصاً امریکی صدر‘ وزیرخارجہ‘ برطانوی وزیراعظم‘ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تک قیام پاکستان کے مقاصد کی حسب توفیق تشریح کر رہے ہیں۔ وزرا اور سفرا کے ساتھ دانش ور‘ اہل قلم اور صحافی بھی مصروف جہاد ہیں‘ صدر بش صاحب افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد‘ اب نت نئے ’’برائی کے چکر‘‘ ((axis of evil کی تلاش میں ہیں۔ مارگریٹ تھیچر صاحبہ بھی آنکھیں ملتی ہوئی بیدار ہو گئی ہیں اور ۱۲ فروری ۲۰۰۲ء کے امریکی برطانوی اخبارات میں ایک مقالہ خصوصی کے ذریعے ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘ کو سردجنگ کے آغاز سے ’’اشتراکی خطرے‘‘ کا ہم پلہ قرار دے رہی ہیں۔ اس عالمی فضا میں پاکستان پر خاص نگاہ ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک لیڈر اہل پاکستان کو پاکستان کے اصل مقصد اور خصوصیت سے اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے تصور پاکستان کا درس دینا اپنا فرض منصبی سمجھ رہا ہے اور پھر اس سارے وعظ و نصیحت کی تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ پاکستان کے لیے ترقی کا ایک ہی راستہ ہے وہ ہے۔ فعال‘ روشن خیالی‘ جدید اور سیکولر یعنی ’’غیر مذہبی پاکستان‘‘۔

امریکہ کی ہر سطح کی قیادت اس کارخیر میں سب سے پیش پیش ہے۔ وہ سینہ زوری سے کام لیتے ہوئے جمہوریت اور حقوق انسانی کے عالمی مشن کے نام پر دوسری قوتوں اور افراد پر اپنے تصورات مسلط کرنے کے درپے ہے اور اس طرح عالم گیر پیمانے پر مختلف اقوام کو سیاسی و معاشی محکومی میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مسلمان ممالک بالخصوص اس ستم کا نشانہ ہیں اور پاکستان ’’نزلہ برعضو ضعیف‘‘ کے مصداق  خصوصی التفات کا ہدف ہے۔

یہ بات بالکل نئی بھی نہیں۔ ان اقوام کا رویہ ہمیشہ ہی سے معاندانہ تھا۔ برطانیہ نے قیام پاکستان کے وقت تقسیم ہندکے فارمولے میں عدم دیانت کا مظاہرہ کر کے مسئلہ کشمیر اور پانی کی غیرمنصفانہ تقسیم جیسے مسئلے کھڑے کر دیے۔ اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر پر سخت غیر منصفانہ کردار ادا کیا۔ امریکہ نے جمہوریت کے نام پر ایک طرف تو پاکستان میں آمریتوں کی سرپرستی کی‘ اور دوسری طرف پاکستان کی معیشت کو اپنے کھلے چھپے ایجنڈے کی آکاس بیل سے چوس کر رکھ دیا اورقرضوں کے ایسے جال میں جکڑ دیا کہ اس مریض کو زندگی کے لیے مزید قرضوں کی ضرورت ہے۔ لیکن ۱۱؍ستمبر کے تناظر میں مسلم دُنیا‘ اسلامی تحریکات اور خصوصیت سے پاکستان ایک بار پھر مرکز توجہ بن گئے ہیں۔ ایک طرف سیاسی‘ معاشی اور عسکری گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف ایسی نظریاتی بحثیں شروع کر دی گئی ہیں جن کا تعلق مسلمانوں کے تصور دین اور مذہب‘ ریاست اور ملت کے سیاسی تصورات سے ہے۔ وہ تصورات جن سے ہمارا نظریاتی وجود ہے۔

جنرل مشرف صاحب کا نیوز ویک کو انٹرویو اور قائداعظم ؒکی۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کو پورے شدومد سے انگریزی اخبارات اور ٹی وی کے مباحث میں اچھالنے کا پس منظر وہ سبق ہے جو امریکی دانش ور اور سفارت کار گذشتہ چند مہینوں سے بار بار دہرا رہے ہیں۔

پاکستان کا امریکی وژن

ایک ہی دن (۲۷ جون ۲۰۰۱ء) دو ایسے بیانات سامنے آئے‘ جو اسلام اور مسلمانوں کے دینی اور تہذیبی نقطہ نظر سے پاک امریکی تعلقات پر خصوصی روشنی ڈالتے ہیں۔ ہماری نظر میں ان بیانات کے دور رس مضمرات (implications)ہیں۔ ایک بیان پاکستان میں امریکہ کے سفیر جناب ولیم بی مائیلم کا تھا جو اپنی مدت سفارت پوری کر کے امریکہ واپس جا رہے تھے۔ انھوں نے پاکستان کے بارے میں پہلے کراچی میں اور پھر ۲۷ جون کو لاہور میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا اسلوبِ بیان مسلّمہ سفارتی آداب سے بے نیاز تھا۔انھوں نے فلسفہ و تاریخ کا سہارا لیتے ہوئے پیش گوئی اور پیش بندی کے انداز میں نصیحت کی۔ جس دن مائیلم صاحب لاہور میں گوہر افشانی فرما رہے تھے اسی دن واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے‘ پاکستان کے لیے نامزد سفیرہ وینڈی چیمبرلین اپنے تقرر کی منظوری حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات اور عزائم کا اظہار کر رہی تھیں۔ دونوں تقاریر کا مطالعہ اور تجزیہ پاکستانی عوام کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے کہ ان سے امریکہ کا ذہن اور منصوبہ کار کھل کر سامنے آتا ہے اور صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکی سفارت کاروں اور کالم نگاروں کا قارورہ کس طرح مل رہا ہے۔ اس ’’ہم خیالی‘‘ کے نقش و نگار میں اس کھیل کے سارے کرداروں کے چہرے دیکھے جا سکتے ہیںاور اس سے یہ موقع بھی بجا طور پر پاکستانی قوم کو حاصل ہوتا ہے کہ اپنوں کا محاسبہ کرنے کے ساتھ امریکہ کے رول کا بھی ادراک کر سکے۔ نیز جو میزان انھوں نے پاکستان کو جانچنے کے لیے نصب کی ہے اس پر خود امریکہ کے کردار کو بھی پرکھا جائے ع

ہیں کواکب کچھ‘ نظر آتے ہیں کچھ

سابق سفیر مائیلم صاحب نے پاکستان کو اندر سے جاننے کا دعویٰ کیا کہ ان کا بچپن بھی یہاں گزرا ہے۔ وہ بڑے ہی پرآشوب دور میں وہ یہاں سفیر رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ ’’اسلام اور مذہبی تشدد‘‘ کے موضوع پر تقریریں کر چکے ہیں۔ پاکستان سے رخصتی کے وقت ان کے خطاب کا موضوع تھا: ’’کیا پاکستان ستاروں میں کھو گیا‘‘۔ یہ تقریر محض ایک دوست سفیر کی الوداعی نصیحت نہیں‘ امریکہ کے ایک اہم نمایندے کا ہماری تاریخ‘ کردار اور مستقبل کے بارے میں ایسا بیان ہے جس سے تعرض نہ کرنا ایک قومی جرم ہوگا۔

آیئے پہلے یہ دیکھیں کہ موصوف نے فرمایا کیا تھا؟

۱- امریکہ اور پاکستان دونوں محض جغرافیائی حقیقت نہیں بلکہ وژن رکھنے والی ریاستیں ہیں۔ البتہ وژن ایک عمومی رہنما ہو تو ترقی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں‘ لیکن اگر وژن آپ پر سوار ہو جائے اور اس کی تعبیر بھی کچھ لفظی ہو تو یہ بڑے تباہ کن نتائج نکالتا ہے‘ بلکہ دُنیا میں بڑی بڑی تباہیوں کی جڑ وژن کے ایسے ہی تصور میں تلاش کی جاسکتی ہے۔

۲-  امریکہ جس سامراجی قوت سے لڑ کر وجود میں آیا‘ اسی قوت سے پاکستان نے آزادی حاصل کی تھی۔ امریکہ کا وژن یہ تھا کہ صرف عوام کے نمایندوں کو ٹیکس لگانے کا حق ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تمام انسان برابر ہیں۔ اسی وژن پر ۱۷۷۶ میں آزادی حاصل ہوئی۔ جمہوریت اور دستور کا قیام عمل میں آیا اور ۸۵ سال بعد خانہ جنگی نے اس انقلاب کو مکمل کر دیا۔ اب امریکہ دُنیا میں جمہوریت‘ حقوق انسانی اور مساوات کا علم بردار ہے۔

۳-  پاکستان بھی ایک عظیم جدوجہد کے بعد قائم ہوا۔ اس میں پاکستان کے قائد محمد علی جناح ؒکا وژن یہ تھا کہ مسلمانوں کو ایک ایسا مسکن (homeland)میسر آجائے جہاں ایک جدید ریاست قائم ہو‘ جس کی بنیاد سیکولر قوانین پر ہو اور جہاں غیر مسلموں کے قوانین اور رواج کا احترام کیا جائے۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پاکستان سنی‘ شیعہ‘ عیسائی‘ احمدی‘ پارسی اور دیگر گروہوں کی محنت سے قائم ہوا تھا۔

۴- ان کے خیال میں: ’’ایک قائداعظمؒ کا وژن ہے اور ایک قائد مخالف وژن‘‘۔ جو وژن قائداعظمؒ نے پیش کیا وہ مسلمانوں کے لیے ایک لبرل‘ روادار اور جدید ریاست کا تھا۔ ایسی جدید ریاست جہاں پر کوئی شخص پہلے پاکستانی ہے اور بعد میں کسی مذہب سے متعلق۔ ایک ایسا پاکستان جہاں سیکولر قوانین کی حکمرانی ہو۔ اور جو جناح مخالف وژن ہے‘ وہ قومی سرحدات کو مسترد کرتا ہے اور پاکستان کو عالم گیر مسلم امہ کے لیے ایک روشنی کے مینار اور محافظ اسلام ریاست کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس وژن کے مطابق پاکستان کا مقصد وجود انفرادی اور اجتماعی طور پر ترقی کے مقابلے میں بہت زیادہ وسیع ہے۔ اس لیے کہ مسلمان اکثریت میں ہیں‘اقلیت میں نہیں۔ یہی وژن مسلمانوں کے لیے خطرہ بنتی نظر آنے والی کسی بھی قوت کے خلاف جہاد میں پاکستان کو بطور ہوم بیس فراہم کرتا ہے‘‘۔

۵- ’’پاکستان کی خارجہ پالیسی خصوصاً کشمیر افغانستان میں سمت کے تعین میں جناح مخالف وژن زیادہ طاقت ور دکھائی دیتا ہے۔ ان کے لیے کشمیر ایک مقدس جنگ ہے۔

۶- مسٹر مائیلم نے اپنے استدلال کی بنیاد قائداعظمؒ مرحوم کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء والی اسی تقریر پر رکھی‘ جو آج تک سیکولر حلقوں کے دعوے کی بنیاد ہے۔ لیکن موصوف ایک اور دور کی کوڑی لائے ہیں‘ جو دانش وروں کے اس طائفے کے لیے ایک نئی دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ وہ حلف ہے جو قائداعظمؒ نے بحیثیت گورنر جنرل اُٹھایا تھا۔ ان کا پیغام صاف ہے یعنی یہ کہ صحیح حلف وہی تھا جو تاج برطانیہ کے نمایندے کے طور پر دستور کے بننے سے پہلے بحیثیت گورنر جنرل لیا گیا کہ:

میں‘ محمد علی جناح‘ حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ بحیثیت گورنر جنرل پاکستان میں اپنے مقتدر شاہ جارج ششم کی پوری دیانت داری سے خدمت کروں گا‘ اور یہ کہ میں کسی خوف اور دبائو وغیرہ کے بغیر پاکستان کے قوانین اور رسم و رواج کے مطابق ہر طرح کے لوگوں سے صحیح سلوک کروں گا۔

انھیں بڑاصدمہ ہے کہ اب پاکستان کے صدر کے منصب کا حلف نامہ بھی اس سے بہت مختلف ہو گیا ہے جو جناح نے اٹھایا تھا۔

ہم ممنون ہیں کہ سفیر والامقام نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی اور سیکولرزم کا کیس کسی مصلحت اور ملمع سازی کے بغیر پیش کر دیا۔ ہم نے اس تقریر کو اس لیے بھی ذہنوں میں تازہ کیا ہے کہ بعد کے واقعات نے اس کی اہمیت کو دوبالا کر دیا ہے۔ جنرل پرویز صاحب کی ۱۲؍ جنوری ۲۰۰۲ء کی تقریر اور اس کے معاً بعد نیوز ویککو انٹرویو‘ اس سے پہلے افغان پالیسی پر یو ٹرن (U-turn)اور اب کشمیر پالیسی‘ دینی مدرسوں اور مسجدوں کی ضابطہ بندی اور جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی لن ترانی ان سب سے اصل معنویت  واضح ہو جاتی ہے۔ نیز جو خیالات آج گردش کر رہے ہیں ان کا شجرہ نسب سامنے آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کی ضرورت محسوس کی کہ اصل ماخذ پر بھی نگاہ ڈال لی جائے اور جہاں سے یہ ’’وحی‘‘ نازل ہو رہی ہے اس سرچشمے پر کھل کر بات کی جائے۔

امریکی سفیر کے فرمودات کا جائزہ

اس تقریر کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ : اب امریکہ کی دل چسپی محض جمہوریت اور بنیادی حقوق میں نہیں ہماری نظریاتی اساس میں بھی ہے۔ اس کی ناخوشی کا تعلق محض نیوکلیر صلاحیت اور الیکشن کے کاروبار سے نہیں‘ پاکستان کے مقصد وجود اور اس قوم کے اپنے بارے میں وژن ہی سے ہے۔ اس کی نگاہ میں مقبوضہ جموں وکشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت کی پامالی اور وہاں پر بھارتی فوج کے ریاستی مظالم سے جمہوری اقدار اور انسانی حقوق پر کوئی حرف نہیں آتا__ بلکہ اصل خطرہ ان مجبور انسانوں سے ہے جو ظلم کے خلاف اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ انسانی مساوات‘ جمہوری اصولوں‘ اور قوموں کی آزادی کے یہ معنی نہیں کہ وہ اپنے عقائد اور اپنے تاریخی اور نظریاتی تشخص کی روشنی میں اپنا مستقبل طے کریں‘ بلکہ وہ امریکہ کے لیے قابل قبول صرف اس صورت میں ہو سکتے ہیں‘جب وہ اپنے دین و عقیدے اور اپنی تہذیب و روایات کو مکمل طور پر سیکولر نظام کے تابع کر دیں۔ ان کی خارجہ پالیسی ان کے اپنے قومی مفاد کی عکاس نہ ہو بلکہ ایک روایتی نیشن اسٹیٹ ]قومی ریاست[کی حدود میں رہ کر بس اپنے روٹی کپڑے کی فکر میں لگے رہیں۔

دوسروں کو جمہوریت اور سیکولرزم کا درس دینے والے یہ ناصح بھول جاتے ہیں کہ یہی وہ ذہنیت اور پالیسی ہے‘ جسے استعمار(imperialism) کی روح اور مظہر کہا جاتا ہے۔ اگر آپ نے اپنے لیے سیکولرزم کو پسند کیا ہے تو بڑے شوق سے اس پر کاربند رہیے‘ لیکن دوسروں پر سیکولرزم کو مسلط کرنے کا آپ کو کیا حق ہے؟ ہمیں ڈر ہے کہ آج سیکولرزم ایک ایسی آئیڈیالوجی کا روپ اختیار کر چکا ہے جو لوگوں کے عقیدے اور اپنے تصورات کے مطابق ایک نظام زندگی تشکیل دینے کی آزادی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ کیا اس سیکولرزم کے نام پر شخصی آزادی کے علم بردار مغربی ممالک میں مسلمان عورت کو سرڈھانپنے تک کی آزادی ہے؟ کیا ترکی میں اسی سیکولرزم کے نام پر عوام کے منتخب وزیراعظم کو بیک بینی و دوگوش اقتدار سے محروم نہیں کر دیا گیا تھا؟ بظاہر تو سیکولرزم انسانوں کو آزادی دلانے کا مدعی تھا‘ مگر اب وہ خود ایک استبدادی نظریہ بن کر انسانی آزادیوں اور اصول مساوات کا گلا گھونٹنے کی دھونس جما رہا ہے۔ دن کی روشنی میں دیکھا جائے تو امریکہ کا ہدف جمہوری آزادیوں اور حقوق انسانی کا فروغ نہیں‘ بلکہ سیکولرزم کا تسلط ہے اور سب اقوام کو مغرب کے فکری اور تہذیبی رنگ میں رنگنا ہے۔ یہ امپریلزم کی تازہ ترین یلغار ہے۔

پھر امریکی سفارت کار نے جس طرح قائد کے وژن اور مخالف جناح وژن کا تانا بانا بنا ہے‘ وہ علمی بددیانتی کی ایک منفرد مثال ہے۔ اس حلف (oath of office)کو جو: dominion statusکے لیے ایک سامراجی نظام کے لیے وضع کیا گیا تھا‘ اور جو آزادی کی طرف سفر کے دوران عبوری (transitional) لمحوں کے لیے ایک ناگزیر ضرورت تصور کیا گیا تھا۔ایک آزاد ملک کی جانب سے اپنا دستور بنا لینے کے بعد بھی‘ اسی حلف کو قائد کا ماڈل قرار دینے کی مضحکہ خیز جسارت وہی انسان کر سکتا ہے‘ جو اپنے تعصبات سے مغلوب ہو۔ پھر اس مسئلے کو اگر خالص قانونی انداز میں لیا جائے تو کیا یہ مطلب لیا جانا چاہیے کہ جوچیز ۱۹۴۷ء میں سامراجی ورثے میں دستور و روایات کا درجہ رکھتی تھی‘ وہی چیز پاکستان کا دستور اور اس کے تحت بننے والے قوانین بن گئی۔ اس سامراجی جبر کا قائداعظمؒ کے تصور پاکستان سے کیا تعلق؟ کیا اس حلف کا draft(مسودہ)قائداعظمؒ نے بنایا تھا؟ کیا وہی حلف بھارت میں لارڈ مائونٹ بیٹن نے نہیں اٹھایا تھا؟ اور کیا آسٹریلیا اور کینیڈا کے گورنر جنرلوں کے حلف ان کے دساتیر بننے سے پہلے اس سے مختلف تھے؟ کاش خارجہ تعلقات کے اس ماہر نے ایسی مضحکہ خیز بات کرنے سے پہلے ان پہلوئوں پر غور کرلیا ہوتا اور ہمیں یہ کہنے کی زحمت نہ ہوتی کہ:

پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
پسلی پھڑک اٹھی نگہِ انتخاب کی

پھر انھوں نے بھی تمام سیکولر عناصر کی طرح قائداعظمؒ کی ۱۱ ؍اگست والی تقریر پر پورا قصر دانش تعمیر کیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اپنے تصور پاکستان کے بارے میں قائداعظم ؒنے صرف یہی ایک تقریر کی تھی؟قیامِ پاکستان سے پہلے اور قیامِ پاکستان کے بعد سو سے زیادہ مواقع پر قائداعظمؒ نے کیا اپنے تصور پاکستان کے خدوخال بیان نہیں کیے تھے؟ آخر کس دلیل کی بنیاد پر محض اسی ایک تقریر کے چند جملوں کو‘ جن کا تعلق تقسیم ملک کے وقت رونما ہونے والے غیر انسانی فسادات کے پس منظر میں‘ نئے ملک کے تناظر میں شہریت کے اصول اور اقلیتوں کو ان کے حقوق کی ضمانت سے ہے‘ پورے وژن کا نمایندہ قرار دیا جائے؟

اقلیتوں کے حقوق اور مساوی شہری حقوق کی بات کوئی متنازع امر نہیں ہے۔ یہ خود اسلام کا تقاضا ہے‘ جیسا کہ قائداعظم ؒنے بار بار فرمایا ہے۔ لیکن کیا اقلیتوں کے حقوق کے یہ معنی بھی ہیں کہ اقلیت‘ اکثریت پر اپنے تصورات کو مسلط کرے اور اکثریت کے اس حق کو مسترد (ویٹو) کر دے کہ وہ اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق اجتماعی زندگی کی صورت گری کرے؟ اور وہ بھی ایسی اکثریت جس نے ایک ملک گیر جمہوری جدوجہد محض اسی بنیاد پر برپا کی ہو کہ ہم اپنا جداگانہ نظریاتی‘ تہذیبی اور دینی تشخص رکھتے ہیں اور اس تشخص کی حفاظت اور ترقی کے لیے ہمیں اپناآزاد مسکن درکار ہے۔

انھی صاحب نے ایک اور دعویٰ کیا ہے کہ: ’’پاکستان عیسائیوں‘ احمدیوں ‘ پارسیوں اور دوسری اقلیتوں کی محنت سے قائم ہوا تھا‘‘۔ شکر ہے کہ انھوں نے ہندوئوں اور سکھوں کا ذکر نہیں کیا‘ حالانکہ قیام پاکستان کے وقت سب سے بڑی اقلیت تو ہندو تھے‘ جو مشرقی پاکستان میں آبادی کا پانچواں حصہ تھے۔ قیام پاکستان کی تحریک ایک نظریاتی تحریک تھی۔ اس تحریک کو برعظیم جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں نے اپنے خون سے سینچا۔ اس میں وہ مسلمان بھی شریک تھے جن کو پاکستان میں نہیں آنا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس‘ غیر مسلم ہندکی نمایندہ تھی اور آل انڈیامسلم لیگ‘ مسلم ہند کی نمایندگی کرتی تھی۔ یہ تھی بنیادی اور بالکل واضح صف بندی۔ اس میں عیسائیوں‘ احمدیوں اور پارسیوں کا کردار موصوف نے کہاں سے تلاش کر لیا۔ عیسائی تو بالعموم برطانوی سامراج کا ساتھ دے رہے تھے۔ پارسیوں نے کانگریس میں شرکت کی‘ اور مسلم لیگ کی تحریک میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ احمدی (قادیانی) بھی برطانوی سامراج کی ٹیم کا حصہ تھے۔ پاکستان کا قیام مسلمانان پاک و ہند کی جدوجہد کا حاصل ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران اور قیام پاکستان کے فوراً بعد بھی‘ قائداعظمؒ ہی نے نہیں بلکہ پوری قوم نے کہا کہ تحریک آزادی میں جس کا جو بھی رول رہا ہو‘ دو آزاد مملکتوں کے قیام کے بعد اکثریت اور اقلیت سبھی کو قانون کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے اور جو بھی نئی مملکت سے وفاداری کا راستہ اختیار کرے اسے بطور شہری برابری اور ترقی کے مساوی مواقع کا حق ہے‘ لیکن نظام حکومت عوام کی اکثریت کے عقائد اور تصورات کے مطابق مرتب کیا جائے گا جس میں اقلیتوں کے حقوق کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا۔

قائداعظمؒ کا وژن

قائداعظم ؒکے ساتھ اس سے بڑا ظلم کوئی اور نہیں ہو سکتا کہ ان کی اس تقریر کے چند جملوں کو توڑ مروڑ کر سیکولر ریاست کی تشکیل اور مذہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کرنے کی بنیاد بنایا جائے۔ قائداعظمؒ، مسلم لیگ کی پوری قیادت‘ اور سب سے بڑھ کر برعظیم کی ملّت اسلامیہ نے اپنی منزل اور مقصود کا اظہار بالکل واشگاف الفاظ میں کیا تھا۔ یہی وہ آدرش تھے جن کے حصول کے لیے ساری جدوجہد کی گئی اور بیش بہا قربانیاں دی گئیں۔ سیکولر قوانین کی بات کرنے والے کیا اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبے میں جو استدلال پیش کیا تھا‘ اس کی بنیاد ہی دین و دُنیا کی وحدت پر ہے۔ ان کا دعویٰ ہی یہ ہے کہ اسلام کا ایک ایسا دین ہے جس کا اپنا اجتماعی نظام ہے‘ اس اجتماعی نظام کے بغیر وہ دین نامکمل اور مسلمان اس کی برکتوں سے محروم رہتے ہیں۔ قائداعظمؒ کے نام ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں اقبال نے صاف لفظوں میں لکھا تھا:

اس ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ اور ترقی ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر ناممکن ہے۔ مجھے اس پر دیانت داری سے کئی برسوں سے مکمل یقین رہا ہے‘ اور میں اب بھی یہی یقین رکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے روٹی کا مسئلہ حل کرنے اور ایک پرامن انڈیا کی خدمت کرنے کے لیے یہی ایک واحد راستہ ہے۔

گویا کہ امن اور روٹی دونوں کے لیے آزاد مسلم ملک کا قیام اور شریعت کا نفاذ ضروری ہے۔ یہی  اصل ایشو تھا اور خود قائداعظمؒ نے اسے بار بار واضح کیا:

پاکستان کا مطلب صرف آزادی اور خودمختاری نہیں ہے بلکہ مسلم نظریے کا تحفظ بھی ہے جو ایک قیمتی تحفے اور خزانے کے طور پر ہمیں ملا ہے‘ اور ہمیں امید ہے کہ دوسرے اس میں ہمارے ساتھ تعاون کریں گے۔

دیکھیے‘ بات صرف مسلم نظریے ہی کی نہیں اس کے تحفظ و ترقی کی بھی ہے۔ مقصد اس کی تبلیغ اور دوسروں تک اس کو پہنچانا ہے‘ قائداعظمؒ جس کا اعلان کر رہے ہیں۔ سفیر صاحب اسی بات کو ’’مخالف جناح خارجہ پالیسی‘‘ کہہ رہے ہیں۔

غیرمسلم اکثریت اور غیر اسلامی نظریہ اگر مسلمانوں پر مسلط کیا جائے تو یہ کیسی جمہوریت ہوگی‘ خود قائداعظمؒ کے الفاظ میں سن لیجیے:

مجھے بتایا گیا کہ میں اسلام کو نقصان پہنچانے کا مجرم ہوں۔ اس لیے کہ اسلام تو جمہوریت میں یقین رکھتا ہے۔ جہاں تک میں نے اسلام کو سمجھا ہے‘ اسلام ایسی جمہوریت کی وکالت نہیں کرتا جو مسلمانوں کی تقدیر کا فیصلہ غیر مسلموں کی اکثریت کے ہاتھ میں دے دے۔ ہم ایک ایسا نظام حکومت قبول نہیں کر سکتے جس میں غیر مسلم محض اپنی عددی اکثریت کی بنا پر ہم پر غالب ہوں اور حکمرانی کریں۔ (تقریر علی گڑھ یونی ورسٹی‘ ۶ مارچ ۱۹۴۰ء)

لیکن مذکورہ امریکی ڈپلومیٹ اور ان کی ہم نوا سیکولر لابی کا تو دعویٰ یہ ہے کہ مسلمان ملک میں مسلمانوں کی اکثریت کے عقائد اور تصورات کو ترک کر کے ‘ محض غیرمسلم اقلیت کی خاطر ان پر سیکولرزم  مسلط کر دیا جائے۔ یہ ہے جمہوریت کی تازہ ترین تعبیر!

قائداعظمؒ نے بار بار فرمایا کہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے‘ مسلمان ایک عقیدے اور دین پر مبنی قوم ہیں‘ قرآن ان کا قانون حیات ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حقیقی قائد اور قانون دینے والے ہیں‘  قرآن و سنت مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی کرنے والی قوت ہیں__ سیکولرزم اور یہ تصور حکمرانی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ قائداعظمؒ کے نام پر ان کے تمام عہدوپیمان اور خطبات و ارشادات کو نظرانداز کر کے سیکولرزم کی بات کرنا‘ نرم سے نرم لفظوں میں‘ ایسی کھلی بددیانتی ہے جس کا ارتکاب بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

تحریک پاکستان کے قائدین نے ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء قرارداد مقاصد پوری یکسوئی کے ساتھ منظور کی جوپاکستان کے دستور نظام حکمرانی اور اجتماعی پالیسی کی بنیاد ہے۔ اسے پوری قوم کی تائید حاصل ہے۔ قائداعظمؒ نے بہت صاف الفاظ میں یہ اصول بیان کر دیا تھا کہ پاکستان کا دستور کسی ایک شخص کی مرضی کا مظہر نہیں ہوگا پوری ملت اسلامیہ پاکستان اپنی دستور ساز اسمبلی کے ذریعے اسے طے کرے گی۔ ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء ہو یا ۱۲ جنوری ۲۰۰۲ء‘ کوئی فرد نہ دستور سے بالا ہے اور نہ دستور کو اپنی آواز بازگشت تصور کر سکتا ہے۔ دیکھیے قائداعظمؒ نے قوم سے کیا عہد کیا تھا:

جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے شبہہ ہونے لگتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ہے جب کہ ہم نے تیرہ سو سال پہلے جمہوریت سیکھ لی تھی۔ آپ پاکستان کے طرزحکومت کے بارے میں میری ذاتی رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں تو یہ کہتا ہوں کہ دستور ساز اسمبلی جیسے بااختیار ادارے کے فیصلے سے پہلے کوئی ذمہ دار شخص اپنی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کرسکتا اور نہ اسے کرنا چاہیے۔ پاکستان کے لیے دستور بنانا‘ دستور ساز اسمبلی کا کام ہے‘‘ (پریس کانفرنس‘ ۱۴ جولائی ۱۹۴۷ء)

یہی وہ دستور ساز اسمبلی ہے جس نے ۱۲؍ مارچ کو قرارداد مقاصد منظور کر کے ریاست کے کردار کو ہمیشہ کے لیے طے کر دیا اور قانون کی زبان میں وہ بات ادا کر دی جس کا عہد قائداعظمؒ نے مسلمانان پاک و ہند سے کیا تھا:

مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے‘ نہ وطن‘ نہ نسل۔ جب ہندستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا‘ وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور کیا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرک کیا تھا؟ اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری تھی نہ انگریزوں کی چال __ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔ (مسلم یونی ورسٹی‘ علی گڑھ‘ خطاب ۸؍مارچ ۱۹۴۶ء)

قائداعظمؒ نے کراچی بار ایسوسی ایشن کو خطاب کرتے ہوئے ۲۵؍ جنوری ۱۹۴۸ء کو (اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کے پانچ مہینے بعد) یہ فرمایا تھا:

اسلام محض رسوم و روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ نہیں‘ اسلام ہر مسلمان کے لیے ضابطہ حیات بھی ہے‘ جس کے مطابق وہ اپنی روز مرہ زندگی‘ اپنے افعال و اعمال حتیٰ کہ سیاست اور معاشیات اور دوسرے شعبوںمیں بھی عمل پیرا ہوتا ہے۔ اسلام سب انسانوں کے لیے انصاف‘ رواداری‘ شرافت‘ دیانت اور عزت کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ صرف ایک خدا کا تصور اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ اسلام میں انسان انسان میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات‘ آزادی اور اخوت اسلام کے اساسی اصول ہیں۔

۱۹۴۸ء ہی کی ایک تقریر میں انھوںنے اسلامی حکومت کے تصور کو بھی ان الفاظ میں بیان کر دیا تھا:

اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع اللہ کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کر سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول و احکام کی حکومت ہے‘‘۔

اگر قائداعظمؒ نے یہ سب صاف لفظوں میں کہا تو پھر بتایا جائے کہ ان کے وژن میں سیکولرزم کہاں سے آگیا؟ جس تصور کو سفیر صاحب ’’خلاف جناح تصور‘‘ کہہ رہے ہیں‘ قائداعظمؒ تو چیخ چیخ کر اس کا اعلان کر رہے ۔ہیں وہ تصور ہی قرار داد پاکستان کی سطر سطر سے عیاں اور نمایاں ہے اور پورا دستور اس کا آئینہ دار ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ عوام کی مرضی‘ تحریری دستور کے واضح احکام اور قوم کی تاریخی روایات تو ایک ’’متشدد اقلیت‘‘ اور ’’خلاف جناح وژن‘‘ قرار پائیں اورایک غیر ملکی اور چند سیکولر دانش وروں کی یاوہ گوئی ‘جناح کا تصور پاکستان بن جائے۔

قائداعظمؒیا اقبالؒ کے تصور پاکستان کو اپنے من پسند مفہوم میں پیش کرنے والے سیکولر حضرات جو بھی استدلال برتتے ہیں‘ وہ اپنے داخلی تضاد کی وجہ سے بے نقاب ہو جاتا ہے۔ ایک جانب تووہ جمہوریت کے اصول کا علم بلند کرتے ہیں مگر دوسری جانب ایک تقریر‘ یا کسی ایک اقتباس کی بنیاد پر پوری قوم کے عزم اور willکو مسترد کرنے کا شاہانہ اختیار استعمال کرنے کی دہائی دیتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ حلقے جمہوریت کے ساتھ مخلص ہیں یا کسی ایک قوم کی بنیاد پر پوری قوم کی جدوجہد اور عزائم کو اپنی من پسند تعبیر کی سولی پرلٹکانے کے طرف دار۔ اس مسئلے پر بات کرنے سے پیشتر یہ اصولی بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ایک مسلمان کے لیے بنیادی سرچشمہ ہدایت اور آخری معیار حق‘ قرآن اور سنت ِرسولؐ ہے۔ دیگر محترم سے محترم اور فاضل سے فاضل شخصیات کا مقام نہ صرف لازمی طور پر ان کے بعد میں آتا ہے‘ بلکہ ان کی آرا‘ افکار اور فیصلوں کو قرآن و سنت ہی کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔

سیکولرزم ‘ اقبالؒ اور قائداعظمؒ

مفتیان مغرب نے اسلامی احیائی تحریک کے بارے میں سب سے پہلے تو ’’بنیاد پرست‘‘ کی اصطلاح وضع کر کے مغالطہ پیدا کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ بتایا گیا ہے‘ جو فرد: ’’ترقی کا دشمن ہو‘ دور حاضر کے تقاضوں کو نظرانداز کرنے والا ہو یا اسلام کی کسی ایسی تعبیر سے چپکا ہو‘ جس کی بنا پر اسلام وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ نہ کر سکے‘ وہ بنیاد پرست ہے‘‘۔امر واقعہ کے اعتبار سے یہ انتہائی غلط‘ یک رخا‘ بدنیتی پر مبنی اور مبالغہ آمیز پروپیگنڈاہے۔ البتہ اب سے تین عشرے پہلے مغرب کے مستشرقین (orientalists)نے ایسے لوگوں کے لیے ’’مسلمان بنیاد پرست‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی: ’’جو یہ چاہتے ہیں کہ اسلام جیسا کہ وہ ہے اور جیسا کہ مسلمان اس کو سمجھتے ہیں‘ اسے اس کی بنیادی روح کے مطابق نافذ کر دیا جائے‘‘۔

مغرب یہ چاہتا ہے کہ اسلام کا نام تو چاہے رہے‘ جس طرح کہ عیسائیت کا نام باقی ہے لیکن فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ کی کتاب‘ الہامی ہدایت اور اسوہ رسولؐ آخر الزماںؐ کو حاصل نہ ہو۔ بلکہ انسان اپنی ذاتی مرضی‘ بدلتے ہوئے اغراض و مقاصد کی روشنی میں ان معاملات کو مغربی پیمانۂ فکر کے مطابق طے کرے۔ نیز یہ کہ جس چیز کو اہل مغرب پسند کرتے ہیں‘ بس آنکھیں بند کر کے وہ قبول کی جائے۔ اسی کے اندر مسلمان ڈھل جائے تو یہ ’’ترقی پسندی‘ تعمیر پسندی‘ دانش مندی اور میانہ روی‘‘ ہے۔ اور اگر قرآن و سنت کی بنیاد پر مسلمان اپنے اصول‘ اپنے نظریے‘ اپنی روایات‘ اپنی تاریخ اور خود اپنی تہذیب پر عمل کرنا چاہے تو یہ ’’بنیاد پرستی‘‘ ہے۔ یہ بات مغربی دانش وروں کی ان تمام تحریروں میں نمایاں ہے‘ جو آج مغرب سے آ رہی ہیں۔ مشہور مستشرق پروفیسر منٹگمری واٹ نے حال ہی میں بہت کھل کے یہ بات کی ہے: ’’دراصل جو لوگ اسلام کے اس روایتی تصور کو غالب کرنا چاہتے ہیں جو قرآن اور نبی پاکؐ نے پیش کیا ہے‘ وہی لوگ بنیاد پرست ہیں۔ اور جو لوگ اسلام کو مغرب کے معیار پر بدلنے اور ڈھالنے کے لیے تیار ہیں‘ وہ لبرل ہیں اور وہی ہمارے اصل دوست ہیں‘‘۔

اب یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناح ؒکا موقف اس ذیل میں کیا تھا؟ علامہ اقبالؒ نے جدید اور قدیم دونوں علوم کے مآخذ سے استفادہ کیا اور پوری قوت ایمانی کے ساتھ یہ بات کہی کہ اسلام حق ہے اور مغرب جس بنیاد پر قائم ہے یعنی سیکولرازم ‘ نیشنلزم‘ ریشنلزم‘ سائنس پرستی… یہ بنیاد‘ بنیاد خام ہے۔

علامہ محمد اقبال نے اسلام کو ایک انقلابی تصور کی حیثیت سے پیش کیا۔ اس سلسلے میں اگر آپ اقبال  کی شاعری کو جو ان کے فکر کے اظہار کا اصل ذریعہ ہے‘ نظراندازبھی کر دیں تب بھی ان کا یکم جنوری ۱۹۳۸ء کا سال نو کا پیغام دیکھ لیجیے۔ اس میں انھوں نے کہا ہے کہ:

’’اس زمانے میں ملوکیت کے جبرواستبداد نے: جمہوریت‘ قومیت‘ اشتراکیت‘ فسطائیت اور نہ جانے کیا کیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں۔ ان نقابوں کی آڑ میں دُنیا بھر میں حریت اور شرف انسانیت کی اقدار کی اس طرح مٹی پلید ہو رہی ہے کہ تاریخ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے‘ جو رنگ‘ نسل اور زبان سے بالاتر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت‘ اس ناپاک قوم پرستی اور ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو مٹایا نہ جائے گا‘ جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے الخلق عیال اللّٰہ کے اصول کا قائل نہ ہو جائے گا‘ جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا‘ اس وقت تک انسان اس دُنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کرسکے گا اور یہ تصور اسلام کا تصور ہے‘‘۔

علامہ محمد اقبال نے اپنی کتاب The Reconstruction of Religious Thought in Islamکے آخری خطبے میں جدید قانون سازی اور قانون ساز اسمبلیوں پر اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔ اس کے آخری حصے میں انھوں نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر برملا کہا ہے کہ ’’انسانیت کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مغرب ہے۔ اور یورپ کے دیے ہوئے تصورِحیات سے جب تک انسان نجات نہیں پاتا‘ انسانی مسائل حل نہیں ہو سکتے اور اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق کائنات کی نئی اخلاقی تعبیر‘ صاحب ایمان فرد کی دریافت اور اجتماعی عدل پر معاشرے کی تعمیر‘ یہ وہ بنیادیں ہیں جن پر دنیا کو قائم کرنا چاہیے‘‘۔ یہی علامہ اقبالؒ کا مشن تھا۔

اسی طرح بلاشبہہ قائداعظمؒ کا ایک دور وہ بھی تھا‘ جب وہ نہ صرف انڈین نیشنل کانگریس میں سرگرم عمل تھے‘ بلکہ اس کے مرکزی قائدین میں سے تھے۔ تب وہ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے۔ گاندھی جی اور مدن موہن مالویہ کے رفیق خاص تھے۔ لیکن اس کے بعد جب قائداعظمؒ نے برہمنی ذہنیت کا قریب سے مشاہدہ کرلینے کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم نوکی اور ۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۰ء تک مسلم انڈیا کے حالات کا بے لاگ تجزیہ کیا‘ تب وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان اپنے دین کی بنیاد پر‘ اپنے اخلاق‘ اپنے عقیدے‘ اپنی تاریخ اور اپنی تہذیب و تمدن کی بنیاد پر ایک الگ قوم ہیں‘ محض ایک اقلیت نہیں ہیں۔ اور فکر اقبال کی روشنی میں ہندستان میں مسلمانوں کے مسئلے کا حل اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے‘ وہاں ان کی آزاد اسلامی ریاست قائم ہو اور مسلمان اس ریاست کو اسلام کی بنیادوں پر اوراسلام کے دیے ہوئے اصولوں کے مطابق قائم کریں۔ میں اس سلسلے میں قائداعظمؒ کی آخری پانچ برس  کی تقریروں کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں‘ جس سے معلوم ہوگا کہ قائداعظمؒ کا اس معاملے میں کیا موقف تھا۔

جہاں تک جدید اسلامی جمہوری ملک کا تعلق ہے‘ اس ضمن میں علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ جس بات کے حامی اور علم بردار تھے اور جس بات کے لیے انھوں نے بھرپور جدوجہد کی وہ قرآن و سنت کی لاثانی اور ابدی ہدایات کی روشنی میں ایک مسلمان معاشرے اور ایک مسلمان ریاست کا قیام عمل میں لانا تھا۔ ایسا معاشرہ جو عمرانی عدل (social justice)کے تقاضوںکو پورا کر سکے اور جس میں اسلام کا قانون جاری و ساری ہو۔ جس میں مسلمان مغربی اقوام کی غلامی اور ان کی نقالی کی بجائے اسلام کو بطور دین ہدایت اور مستقل کلچر کی حیثیت سے پیش کریں‘ یہ تھا بانیانِ پاکستان کا تصور__ وہ لوگ جو اس سے ہٹ کر چل رہے تھے ان پر علامہ اقبال اور قائد اعظمؒ نے گرفت کی اور خصوصیت سے ترکی پر‘ جو اپنے آپ کو یورپ کے سانچے میں ڈھالنے میں مصروف تھا۔

بالکل یہی وہ تصور ہے جس کو جماعت اسلامی نے پیش کیا ہے۔ ہم دراصل قرآن وسنت رسولؐ سے ماخوذ اور اسلام کے تابع فکر اقبال اور قائداعظمؒ کے تصور کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس اعتبار سے ہمارے اور بانیانِ پاکستان کے تصور میں کوئی فرق نہیں۔ بانیانِ پاکستان کے تصور سے وہ لوگ ہٹے ہیں‘ جنھوں نے اس ملک میں بے دینی‘ مادیت‘ مغرب پرستی اور اباحیت کو رواج دیا‘ یا سوشلزم کی راہ ہموار کی یا اس کے حاشیہ بردار رہے جنھوں نے سرمایہ داری کو فروغ دیا‘ اور جنھوں نے جاگیرداری کے ناسور کو بڑھنے اور پھلنے کے مواقع دیے۔ جو یہاں اسلامی قانون سے انحراف کے راستے تلاش کر رہے ہیں جنھوں نے یہاں علاقائی اور لسانی عصبیتیں پیدا کیں۔ ہم تو ان تمام کا مقابلہ اللہ تعالیٰ پر ایمان‘ دلیل اور یقین محکم سے کر رہے ہیں۔ ہم وہی لڑائی لڑ رہے ہیں جو علامہ اقبال اور قائداعظمؒ نے لڑی تھی۔ یوں ہمارے اور بانیان پاکستان کے درمیان کوئی فکری یا عملی تصادم اور تضاد نہیں ہے۔

تھیاکریسی اور اسلام

اسی طرح ایک بات تھیاکریسی کے بارے میں کہی جاتی ہے:

یہ امر واقعہ بھی ہے‘ اور اسی حقیقت کا اظہار علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناحؒ دونوں نے کھل کر کیاہے کہ اسلام تھیاکریسی نہیں ہے۔ کچھ لوگ ان بیانات کا سہارا لے کر یہ بات کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا کہ ہمارے اور ان کے موقف میں فرق ہے۔ حالانکہ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ علامہ اقبال نے اس موضوع پر انگریزی خطبات میں بحث کی ہے۔ چھٹے خطبے میں انھوں نے یہ بات اس معنی میں فرمائی ہے کہ:

گویا بہ حیثیت ایک اصول‘ عمل توحید اساس ہے: حریت‘ مساوات اور حفظ نوع انسانی کی۔ اب اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ازروئے اسلام ریاست کا مطلب ہماری یہ کوشش ہوگا کہ یہ عظیم اور مثالی اصول زمان و مکان کی دُنیا میں ایک قوت بن کر ظاہر ہوں۔ گویا ایک آرزو ہے ان اصولوں کو ایک مخصوص جمعیت بشری میں مشہور دیکھنے کی۔ لہٰذا اسلامی ریاست کو حکومت الٰہیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو انھی معنوں میں۔ ان معنوں میں نہیں کہ ہم اس کی زمام اقتدار کسی ایسے سلطان ظل الٰہی کے ہاتھ میں دے دیں‘ جو اپنی مفروضہ معصومیت کے عذر میں اپنے جور و استبداد پر ہمیشہ ایک پردہ سا ڈال رکھے۔( Reconstruction‘۱۹۸۶ء‘ ص ۲۳-۱۲۲)

یعنی اسلام میں تھیاکریسی ان معنوں میں قطعی طور پر نہیں ہے کہ مذہب میں کوئی طبقہ اجارہ دار ہو اور بس وہی طبقہ اللہ کی مرضی کو جاننے کا واحد ذریعہ ہو۔ اسلامی تعلیمات اور اسلامی مزاج کی روشنی میں یہ فکر تھی علامہ اقبال کی۔

قائداعظمؒ نے یہ بات کہی ہے کہ تھیاکریسی کا میں مخالف ہوں‘ اس لیے کہ اسلام میں کسی ایسے طبقے کا تصور نہیں ہے جو دین کا اجارہ دار ہو جیسا کہ بدھ مذہب‘ عیسائیت‘ ہندومت میں اور یہودیت میں ایسا طبقہ پایا جاتا ہے۔ یہ بات اسی معنی میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اور جماعت اسلامی نے ہمیشہ اسی لہجے میں کہی ہے کہ ’’ہم تھیاکریسی کے مخالف ہیں۔ تھیاکریسی کا کوئی تعلق اسلامی نظام سے نہیں ہے‘‘۔ مولانا مودودی کی کتب سے اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی پڑھا لکھا آدمی پڑھے بغیر محض مغرب کے عطا کردہ الزام‘ اور اتہام کو عین علم قرار دینا چاہتا ہے تو یہ اس کی جہالت اور تنگ نظری کا ثبوت ہے۔

اس نام نہاد جدید طبقہ کی ژولیدہ فکری کا تو یہ حال ہے کہ ایک طرف تھیوکریسی سے برأت کا اعلان ہوتا ہے تو دوسری طرف ارشاد ہوتا ہے کہ جو بھی اور جس طرح بھی مسنداقتدار پر آگیا وہ گویا خود خدا کا فرستادہ ہے اور اس کے لیے وتعز من تشاء  وتذل من تشاء  سے استشہاد کرنے تک کی جسارت میں کوئی باک محسوس نہیں کیا جاتا۔

ہم دعوے سے عرض کریں گے کہ تھیاکریسی کے باب میں بھی علامہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کا موقف ایک ہے۔ جو افراد اس میں اختلاف ڈھونڈنے یا عملی سطح پر رخنہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ علمی دیانت نہیں برت رہے یا ان کی معلومات خام ہیں یا پھر وہ حقائق کا کھوج لگانے کے بجائے سیکولر تعصب میں مبتلا ہیں۔ ایسے عناصر نہ تھیاکریسی کے مفہوم سے آشنا ہیں اور نہ انھیں اسلام کے اجتماعی‘ سماجی‘ معاشی‘ بین الاقوامی اور سیاسی تصورات سے کوئی شناسائی ہے۔ اس پہلو سے انھیں قومی سطح پر بھی اپنے نقطہ نظر کی اصلاح کرنی چاہیے‘ تاکہ جو پیغام علامہ اقبال نے دیا تھا اور جس کے لیے قائداعظمؒ نے جدوجہد کی تھی‘ آج ہم اس کو عملی طور پر ملک میں قائم کر سکیں۔ مولانا مودودی تو فکری سطح پر اس کے موید اور عملی طور پر اس کے نقیب تھے۔

قائداعظمؒ کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ تقریر قائداعظمؒ نے بہت ہی مخصوص حالات میں کی تھی۔ پوزیشن یہ تھی کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس تھا‘ جس میں قائداعظمؒ کو صدرمنتخب کیا گیا اور اس انتخاب پر اظہارتشکر کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے یہ تقریر کی تھی۔

انھوں نے اپنے دل کے زخم قوم کے سامنے رکھے کہ آج برعظیم میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے‘ انسان‘ انسان کو قتل کر رہا ہے‘ بے گناہ انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے‘ حقوق پامال ہو رہے ہیں اور اس صورت حال میں ہم جو ریاست حاصل کر رہے ہیں‘ اس میں کسی کا کوئی بھی مذہب ہو‘ خواہ وہ اسلام ہو‘خواہ وہ ہندو مذہب ہو‘ ان سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ اس تقریر میں مسئلہ ریاست کی نوعیت کا نہیں‘ بلکہ مسئلہ شہریوں کے حقوق اور جان اور مال کے تحفظ کا ہے۔ شہریت اور جان و مال کے تحفظ کے باب میں اسلام مسلمانوں اور غیر مسلموں کو برابر کا تحفظ اور برابر کے حقوق دیتا ہے۔ یہ روایت سیکولرزم کی نہیں‘ بلکہ اسلام کی ہے۔ اسی طرح قائداعظمؒ کے الفاظ Business of the Stateکو بہت اُچھالا جاتا ہے۔ یہ بھی علمی خیانت ہے کیونکہ بزنس آف دی اسٹیٹ کا مقصود و مطلوب Nature of the State نہیں ہوتا۔ بزنس آف دی اسٹیٹ سے مراد صرف انتظام و انصرام ہے۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی اور تعبیر نہیں کی جا سکتی۔

جو لوگ اس تقریر کو سیکولرزم کے جواز کے لیے استعمال کرتے ہیں ان سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قائداعظمؒ نے اس تقریر سے پہلے اور اس تقریر کے بعد بھی پاکستان کے اسلامی تشخص اپنانے‘ اسلامی قانون کو بنیاد بنانے‘ قرآن و سنت کی روشنی میں یہاں کے نظام کو ترتیب دینے اور اسلامی عدل اجتماعی کی بنیاد پر معاشرے کو استوار کرنے کی ضرورت و اہمیت کو تسلسل کے ساتھ بلاانقطاع بیان فرمایا ہے اور اس سلسلے میں ان کی وہ تقریر حرف آخر ہے جو انھوں نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر جولائی ۱۹۴۸ء میں فرمائی ہے‘ اس میںبھی اور اس سال عید کے پیغام میں بھی انھوں نے کہا ہے کہ ’’ہم ملک میں اسلامی قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں‘‘__ سوال یہ ہے کہ قائداعظمؒ کی محض ۱۱؍اگست والی تقریر ان کے باقی تمام اقوال کو نظرانداز کر کے کیسے لی جا سکتی ہے؟ اور وہ ان کی پہلے اور بعد والی تمام تقاریر و بیانات کو منسوخ کر دینے والی تقریر کیسے بنائی جا سکتی ہے؟ کیا فقط یہی ایک تقریر معتبر ہے اور ان کی باقی تمام تقاریر غیرمعتبر اورغیر متعلق ہیں؟ کسی شخص کے فکر اور تصور کو سمجھنے کے لیے کیا کسی ایک چیز کو اس کے سیاق و سباق سے نکال کر دیکھا جاتا ہے یا فیصلہ کرنے کے لیے اس کی ساری چیزوں کو سامنے رکھا جاتا ہے؟ اور اگر ساری چیزوں کو سامنے رکھا جاتا ہے اور رکھنا چاہیے تو قائداعظمؒ کا تصور اسلامی ریاست بھی بالکل واضح ہے۔

پھر کیا ان لوگوں کی نگاہ میںقائداعظمؒ اتنے بے اصول انسان تھے کہ قوم سے وعدہ تو انھوں نے  اسلامی نظام کا کیا اور کہا کہ میں تمھیں پاکستان کی جدوجہد میں شرکت کی اس لیے دعوت دے رہا ہوں کہ تم ایک نظریاتی قوم کی حیثیت سے‘ اسلامی نظام اور اسلامی قوانین کی علم بردار قوم کی حیثیت سے جدوجہد کرو۔ لیکن ابھی آزادی ملنے میں تین دن باقی ہیں کہ وہ اپنے سارے کیے کرائے کے اوپر پانی پھیر دیں‘ اس سے یک دم پیچھے ہٹنے کا اعلان کر دیں اور یہ کہہ دیں کہ میںتو ایک لادینی اور سیکولر اسٹیٹ کے لیے کام کرتا رہا ہوں۔ پھر اس کے بعد دوبارہ ایسی تضاد بیانی کا شکار ہوں کہ ستمبر ۱۹۴۷ء سے لے کر جولائی ۱۹۴۸ء تک جتنی تقاریر کریں‘ ان میں پھر وہ اسلام ہی کا اعادہ کریں اور پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے دعوے کریں؟

لیکن معاف کیجیے قائداعظمؒ تضاد بیانی کے قائل نہ تھے۔ اسی طرح وہ کوئی بے اصول انسان بھی نہ تھے‘ نہ قائداعظمؒ پر کسی قسم کی ژولیدہ فکری کا الزام لگایا جا سکتا ہے اور نہ ان پر نفاق کی تہمت لگائی جا سکتی ہے۔ وہ ہمیشہ جرأت کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہے‘ جس بات کو درست سمجھا ہے اس کو برملا کہا ہے انھوں نے کبھی متضاد باتیں نہیں کی ہیں۔ قائداعظم ؒ کی اس تقریر کو ان کی باقی تقاریر کے پس منظرمیں دیکھنا ہوگا اور اسی کے مطابق تطبیق اور اس کی تعبیر کرنا ہوگی۔ ان کی یہ بات بالکل درست ہے کہ اسلام میں تھیاکریسی نہیں ہے اور اسلام میں شہریوںکے حقوق برابر ہیں۔ یہ بات اسلام کے مطابق ہے‘ جس میںمسلمان‘ غیر مسلم سب شہری یکساں حقوق کے مالک ہیں بشرطیکہ وہ اپنی شہریت کے تقاضے پورے کریں۔ اس کے ساتھ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ پاکستان ایک سیکولراسٹیٹ ہوگا یا پاکستان ایک ایسی اسٹیٹ ہوگا جس کا مذہب اور دین سے کوئی تعلق نہ ہو یا اسلامی قوانین جاری نہ ہوں __یہ اس تقریر کی غلط تعبیر ہوگی۔

قائداعظمؒ پر میری نگاہ میں یہ ایک الزام اور بہتان ہے۔ ان تمام الزاموں سے بڑا الزام اور بہتان ہے‘ جو قائداعظمؒ کے بڑے سے بڑے ناقد اور مخالف بھی ان پر لگانے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن وہ لوگ جو قائداعظمؒ کی فکر کے علم بردار ہونے کا دعوے کر رہے ہیں‘ وہی دراصل قائداعظمؒ کے کردار کو گہنانے کے لیے یہ کام کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہم قائداعظمؒ کے خیالات کی جو تعبیر کر رہے ہیں‘ یہ وہی تعبیر ہے جو ان کے پورے کردارسے اور ان کے تمام ارشادات سے ہم آہنگ ہے اور جس میں بجا طور پر قائداعظمؒ کی ایک دیانت دارانہ‘ منصفانہ اور خود ان کی اُمنگوں کی ترجمان تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔