یہ توفیق خداوندی ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کو دین حق کی خدمت کا راستہ دکھائے۔ خدمت ِدین سے وابستہ تمام ہی افراد‘ اُمت مسلمہ کا نہایت قیمتی سرمایہ ہیں۔ انھی نفوس میں ایک عظیم نام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء) کا ہے۔
پروفیسر افتخار احمد نے حیات مودودیؒ کے تشکیلی دور ‘ جدوجہد کے مختلف مرحلوں اور فکر کے مختلف گوشوں اور کارناموں پر روشنی ڈالنے کی کامیاب کوشش کی ہے‘ تاہم خود مؤلف کو یہ احساس ہے کہ: ’’مولانا کی شخصیت اور ان کی علمی اور سیاسی مصروفیات کا نہایت ہی محدود پیمانے پر تحقیقی انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ مولانا کی ہمہ گیر شخصیت کے بے شمار پہلو ایسے ہیں‘ جو طوالت کے ڈر سے تشنہ چھوڑ دیے گئے ہیں‘ یا انھیں سرے سے چھیڑا ہی نہیں گیا‘‘ (ص ۱۴)۔ یہ مصنف کی کسر نفسی ہے۔ انھوں نے ایک مختصر کتاب میں بنیادی موضوعات کو سمونے کی خاصی کامیاب کوشش کی ہے‘ تاہم کتاب پڑھنے پر ھل من مزید کی کیفیت برقرار رہتی ہے شاید اس لیے کہ حکایت لذید ہے۔
چند امور توجہ طلب ہیں: مصنف کا اسلوب عمدہ اور شستہ ہے مگر جب ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر آتا ہے تووہ واحد غائب کا اسلوب اختیار کرلیتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ متعدد مقامات پر مولانا مودودیؒ کی تقریروں اور تحریروں کے طویل اقتباسات پر انحصار کرتے ہیں۔ اسی طرح صحیح نام منظور احمد نعمانی نہیں‘ محمد منظور نعمانی ہے۔
مصنف نے لکھاہے: ’’آرنلڈ کی کتاب Preaching of Islam کا ترجمہ بھی مولانا ]مودودی[ نے قیام دہلی کے دوران کیا تھا‘ اس کا کیا بنا؟ کچھ پتا نہیں‘‘ (ص ۱۲۷)۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ مولانا مودودیؒ نے مذکورہ کتاب کے مختلف حصوں کی تلخیص اور حاصل مطالعہ کو متعدد قسطوں میں اخبارالمجعیۃ دہلی میں شائع کیا تھا جسے بعد میں شہیر نیازی اور حفیظ الرحمن احسن نے اسلام کا سرچشمہ قوتکے نام سے کتابی شکل میں طبع کرایا۔ اگرچہ مرتبین نے اس کا ذکر اس انداز میں نہیں کیا‘ تاہم یہ آرنلڈ ہی کی کتاب سے ماخوذ اور اپنے مطالعے کی بنیاد پر لکھے جانے والے مختصر مضامین ہیں۔
زیرنظر کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے تحریر کیا ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ مولانا کی ہمہ گیر شخصیت کے جو پہلو خود مصنف کے خیال میں تشنۂ تحقیق رہ گئے ہیں‘ یا بعض مباحث ‘طوالت کے خوف سے انھوں نے چھیڑے ہی نہیں‘آیندہ ایڈیشن میں وہ اُن پر بھی روشنی ڈالیں اور کتاب میں موجود کمیوں کو حتی الوسع پوراکرنے کی کوشش کریں۔ (س - م - خ)
ص ۶۹۲ پر آخری جملہ : ’’بفضلہ تعالیٰ معارف الحدیث کا مبارک سلسلہ اس جلد پر تمام ہوا‘‘، اس تبصرے کا نقطہء آغاز ہے۔ دینی حلقوں میں معارف الحدیث کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اس کی پہلی جلد ۱۳۷۵ھ میں شائع ہوئی۔ زیرنظر آخری جلد مولانا منظور نعمانی ؒ کی رحلت کے چار سال بعد شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کا ایک حصہ ان کا اپنا لکھا ہوا ہے لیکن بعد میں ان کے حکم پر زکریا سنبھلی صاحب نے اسے مکمل کیا۔
تبصرہ نگار کے نزدیک معارف الحدیثکی اصل خوبی یہ ہے کہ حدیث کی صرف ضروری تشریح کی جاتی ہے اور اس میں بھی عملی نقطہء نظر سامنے رکھا جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ حدیث بیان کرنے والا پڑھنے والے کے دین و ایمان ‘ سیرت و کردار اور اخروی فوز و فلاح کے لیے فکرمند محسوس ہوتا ہے۔ میرے نزدیک یہی اس سلسلۂ کتب کی اصل کشش ‘ چاشنی اور مقبولیت کا راز ہے۔ اس جلد میں علم‘ کتاب و سنت کی پابندی‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور علامات قیامت کا بیان ہے۔ اس کے بعد کے ابواب آپؐ کی ازواج ‘اولاد اور صحابہ کرامؓ کے فضائل و مناقب کے بارے میں ہیں۔ (مسلم سجاد)
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے سیکڑوں چھوٹی بڑی دینی و علمی تصانیف مرتب فرمائی ہیں۔ مختلف موضوعات پر مولانا کے مواعظ‘ ملفوظات اور مکاتیب کا گراں قدر سرمایہ آج کے حالات میں بھی تہذیب اخلاق اور تزکیۂ نفس کے لیے غیر معمولی افادیت کا حامل ہے۔
مولانا کے ملفوظات کا یہ ذخیرہ ان کی دو کتابوں ملفوظات کمالات اشرفیہ اور الافاضاۃ الیومیہ (۱۰ جلدوں میں) کے خلاصے اور انتخاب پر مشتمل ہے۔ جگہ جگہ فکرانگیز جواہرپارے اور رہنما ہدایات ملتی ہیں۔ مولانا تھانویؒ ارشاد فرماتے ہیں: ’’مسلمانوںکی تباہی و بربادی کا بنیادی سبب بدانتظامی ہے جو بے فکری کی دلیل ہے۔ اسی بے فکری کی بدولت ہزاروں زمین دار‘ رئیس اور نواب بھیک مانگتے پھرتے ہیں حتیٰ کہ اسی وجہ سے سلطنتیں ضائع کر دیں جس سے دنیا کے ساتھ ساتھ دین بھی برباد ہو رہا ہے‘‘ (ص ۲۳۰)۔ ’’اس وقت حالت یہ ہے کہ مسلمان (دشمن سے مقابلے کے سلسلے میں) دوسری تدابیر تو اختیار کرتے ہیں لیکن گناہوں سے باز نہیں آتے اور توبہ نہیں کرتے‘‘ (ص ۲۳۵)۔ ’’انتظام بڑی برکت کی چیز ہے۔ اگر انتظام نہ ہو تو سلطنت بھی باقی نہیں رہ سکتی‘‘ (ص ۲۵۰)۔ موجودہ دور کی درویشی کے متعلق: ’’آج کل درویشی کے لباس میں ہزاروں راہزن اور ڈاکو مخلوق کے دین پر ڈاکا مارتے پھرتے ہیں۔ قسم قسم کے شعبدے اور طلسم دکھا کر لوگوں کو پھنساتے رہتے ہیں۔ ادھر لوگوں میں بھی عقل اور فہم کا اس قدر قحط ہو گیا ہے کہ ایسے ڈاکوئوں کو درویش اور بزرگ سمجھ کر ان کے ہاتھوں اپنے دین و ایمان کو برباد کرتے رہتے ہیں‘‘۔ (ص ۲۹۳)
فرمایا: ’’جو شخص دین کا پابند نہیں‘ دنیاوی معاملات کے سلسلے میں بھی اس کے فہم میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے اور دین دار شخص کو اگرچہ دنیا کا تجربہ نہ ہو لیکن دنیوی امور میں اس کی سمجھ سلیم ہو جاتی ہے۔ حلال روزی میں بھی یہی اثر ہے۔ برخلاف اس کے‘ حرام روزی سے فہم مسخ ہو جاتی ہے‘‘ (ص ۱۳۸)۔ ایک ذاکر شاغل سے فرمایا: ’’تم کمزور ہو۔ ضرب اور جہر چھوڑ دو __ دو چیزوں کا ہمیشہ خیال رکھو: معدے اور دماغ کی تندرستی کا۔ کام کا دارومدار ان دونوں کی حفاظت پر ہے‘‘۔ (ص ۱۵۹)
کتاب کی تدوین و ترتیب کے ذریعے جو علمی و دینی خدمت انجام دی گئی ہے‘ اس سے بیش از بیش استفادہ کیا جانا چاہیے۔ (انیس احمد اعظمی)
پروفیسر سید محمد سلیم ؒ کا تعلق سادات جعفری سے تھا۔ علی گڑھ یونی ورسٹی سے ایم اے اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کیے۔ آپ کے اساتذہ میں مولوی امتیاز علی‘ مولانا عبدالعزیز میمن اور مرزا محمود بیگ جیسے مشاہیر اہل علم و فضل شامل ہیں۔ ساری زندگی تعلیم و تدریس تحقیق و تصنیف میں گزری۔ علمی مقام اتنا بلند تھا کہ مشاہیر اہل علم اس سلسلے میں رطب اللسان ہیں۔ جماعت اسلامی کے رکن تھے۔ شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج (منصورہ‘ سندھ) کے پرنسپل رہے۔ اس ادارے کی تشکیل اور ترقی میں ان کا خون جگر بھی شامل تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تنظیم اساتذہ پاکستان کے ادارہ تعلیمی تحقیق کے ڈائریکٹر رہے اور بیش بہا اسلامی تعلیمی کتب تحریر فرمائیں۔ تنظیم کا ماہنامہ افکار معلم بھی ان کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔ ۲۷ اکتوبر ۲۰۰۰ء کو قرطبہ‘ اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے کل پاکستان اجتماع میں آپ کی وفات ہوئی۔ لاکھوں افراد نے آپ کی نماز جنازہ ادا کی۔ کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں آسودئہ خاک ہوئے۔
پروفیسر سید محمد سلیم کی دل چسپی کے موضوعات متنوع تھے۔ اسلامی تاریخ و تہذیب کے ایک مظہر خط اور خطاطی سے ان کی گہری وابستگی تھی۔ خطاطی اور خوش نویسی کو مسلمانوں کا خاص فن قرار دیتے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے تین چار مختصر کتب تحریر فرمائیں لیکن یہ ضخیم کتاب ان کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے جس میں انھوں نے تحریر اور حروف ابجد کی ایجاد‘ آرامی‘ یونانی‘ عبرانی وغیرہ خطوط کی ایجاد‘ عربی خطوط کی درجہ بدرجہ ترقی اور خط کے مشہور دبستانوں کے متعلق تفصیل سے معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ ساتھ ہی عالم اسلام کے مشہور خطاط اساتذہ کے مختصر حالات زندگی درج کیے ہیں۔ ایک باب خطاطی کے مشہور مرقعات کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ کتاب کے مقدمے میں ڈاکٹر غلام مصطفی خاں پروفیسر امیرے طس سندھ یونی ورسٹی حیدرآباد نے فرمایا ہے: کتاب کے سرسری جائزے سے بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ اُردو میں اپنے موضوع پر یہ ایک منفرد کتاب ہے بلکہ اس قدر جامعیت کے ساتھ نہ صرف اردو بلکہ فارسی‘ عربی اور انگریزی میں بھی کوئی کتاب موجود نہیں۔ (ص ۱۷)
دیباچہ معروف محقق‘ نقاد اور اسکالر ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے لکھا ہے۔ ان کے خیال میں پروفیسر سید محمد سلیم کی یہ کتاب ]خطاطی کے[اس مٹتے ہوئے فن کو زندہ کرنے اور آیندہ نسل تک پرانے علمی سرمائے کو پہنچانے میں بڑی مفید ہے۔ ]انھوں[ نے خطاطی کے موضوع پر یہ مبسوط کتاب لکھ کر اس ضرورت کو کماحقہ پورا کر دیا ہے۔ (ص ۲۲)
سید صاحب نے معلومات کے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ حالانکہ اس کا ایک ایک باب اور بعض جگہ ایک ایک پیراگراف پوری پوری کتاب یا مفصل مقالے کا متقاضی ہے۔ کتاب کے پروف احتیاط سے نہیں پڑھے گئے۔ امید ہے دوسرے ایڈیشن میں اغلاط درست کر دی جائیں گی۔ کتاب مجلد خوب صورت گردپوش سے مزین اور آرٹ پیپر پر چھاپی گئی ہے۔ سید صاحب کو اس کتاب کو مطبوعہ صورت میں دیکھنے کا بڑا ارمان تھا لیکن ان کی زندگی میں مختلف موانع کے باعث چھپ نہ سکی۔ بہرحال اب یہ ان کا ایک صدقہ جاریہ ہے۔ (ملک احمد نواز اعوان)
اصول فقہ انتہائی اہم مگر دقیق اور مشکل علم ہے۔ مزید یہ کہ اس موضوع پر قدیم و جدید ذخیرے اور درسی علوم فقہ کو اکثر مشکل بنا کر پیش کیا گیا ہے تاکہ طالب علم مشکل پسندی اور دقائق کو حل کرنے کا عادی ہو جائے۔ اس کے فوائد بھی ہیں مگر نقصان یہ ہے کہ بہت سے طلبہ اس فن کا پورا اور کماحقہ فہم نہیں حاصل کرسکتے۔
علامہ مولانا معین الدین ؒخٹک اپنے دور میں آیۃمن آیات اللّٰہ (اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی) تھے۔ وہ علوم کا بحرذخار تھے‘ تفسیر و حدیث‘ فقہ‘ اصول فقہ اور بہت سے دیگر علوم و فنون کے حافظ تھے۔ انھیں بجا طور پر اپنے دور کا حافظ ابن حجرؒ اور انورشاہ کاشمیریؒ کہا جا سکتا ہے۔ وہ مختلف علوم و فنون پر اس قدر حاوی تھے کہ ان کا بیان کردہ مضمون ہر طالب علم کے دل و دماغ میں اترتا جاتا تھا‘ اور مولانا کے انتہائی مشکل لیکچر میں بھی وہ حلاوت اور ذہنی اطمینان اور قلبی سرور حاصل کرتے تھے۔
زیرنظر مجموعہ ان شاہکار خطبات پر مشتمل ہے جو مولانا ؒنے ۳ اگست تا ۲۵ ستمبر ۱۹۶۶ء ادارہ معارف اسلامی کراچی میں دو ماہ سے بھی کم عرصے میں دیے تھے۔ یہ خطبات پروفیسر نورورجان نے بڑی محنت کے ساتھ ٹیپ سے اخذ کر کے مرتب کر دیے ہیں۔ اصول فقہ کے تمام مباحث کا احاطہ کرتے ہوئے قرآن پاک اور سنت کی زبان و بیان سے متعلق قواعد کو پہلے حصے میں رکھا گیا ہے‘ اور جن مباحث کا تعلق سنت‘ اجماع‘ قیاس اور اجتہاد سے ہے وہ دوسرے حصے میں ہیں۔ یہ درس نظامی کی تمام نصابی کتب (جنھیں دوسرے سال سے لے کر ساتویں سال تک پڑھایا جاتا ہے) پر حاوی ہیں اور اس قدر سلیس اور عام فہم ہیں کہ دینی مدارس کے طلبا کے علاوہ کالج اور یونی ورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ بھی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ اپنے مضامین و موضوعات کی وسعت کے لحاظ سے دینی مدارس کے ہر سطح کے طلبہ اور اساتذہ‘ یونی ورسٹی کے پروفیسروں‘ عدالتوں کے وکلا اور ججوں کے لیے گراں قدر تحفہ ہے۔
مولانا حافظ محمد عارف نے دیباچے میں فقہ اور اصول فقہ کی تاریخ اور اہم کتب کا تعارف کرایا ہے۔ آغاز میں مولانا معین الدینؒ خٹک کا تعارف ہے اور ان کا ایک مقالہ ’’فقہ کیسے وجود میں آئی؟‘‘ بھی شامل ہے۔ پروفیسر نورورجان نے سلسلہ ہاے فقہا ے عظام کا نقشہ پیش کیا ہے اور کتاب کے آخر میں تفسیر‘ حدیث‘ فقہ اور اصول فقہ کی قدیم و جدید کتب کی جامع فہرست بھی دی ہے۔ کتاب کا ایک ایک لفظ قیمتی ہے اور اس کی قدروقیمت کا صحیح اندازہ پوری کتاب کے مطالعے سے ہو سکتا ہے۔
کتب فقہ کی عبارات کے نقل میں بہت سی جگہ غلطیاں راہ پا گئی ہیں۔ آیندہ ایڈیشن میں ان کی اصلاح ضروری ہے۔ اس پیش کش پر ادارہ معارف اسلامی کراچی‘ پروفیسر نورورجان اور ناشر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ میں تمام مدارس کے ذمہ داروں سے عرض کروں گا کہ اس کتاب کو نصاب میںشامل کر کے اس فن کی تعلیم کو معیاری بنانے میں حصہ لیں۔ (مولانا عبدالمالک)