سوال: وطن عزیز میں خاصے عرصے سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ جب کوئی پارٹی برسرِاقتدار آتی ہے تو مختلف سرکاری ملازمتوں میں اس مخصوص پارٹی کے لوگوں کی بھرتی شروع ہو جاتی ہے‘ اور ملک کے عام شہری جو کہ صلاحیت اور قابلیت کی بنا پر ان ملازمتوں کے زیادہ اہل ہوتے ہیںمحض سیاسی وابستگی نہ ہونے کی وجہ سے ان سرکاری ملازمتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ کسی بھی پارٹی کے عہدے داروں کو اگر اس ناانصافی کی طرف متوجہ کیا جائے تو ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ پارٹی ورکرز نے اتنی قربانیاں دی ہیں اگر انھیں نوکریاں نہیں ملیں گی تو پھر کسے ملیں گی؟
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حکومت چلانے کے لیے ضروری ہے کہ پارٹی ورکرز کو نوکریاں دی جائیں تاکہ وہ اپنی سرکاری حیثیتوں میں رہ کر پارٹی مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ بعض پارٹیوں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے لوگ بہت ایمان دار اور دیانت دار ہوتے ہیں لہٰذا اگر سرکاری ملازمتوں میں ایسے افراد کو موقع دیا جائے تو سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے؟ اس مقصد کے لیے وہ میرٹ اور مروجہ اصول و ضوابط کونظرانداز کرنے میں بھی کوئی برائی نہیں سمجھتے۔
براہ مہربانی قرآن و سنت اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ سرکاری ملازمتوں پر برسراقتدار پارٹی کے ورکرز یا عہدے داران کا کتنا اور کیسا استحقاق ہوتا ہے؟ اور پارٹی ورکرز کو سرکاری ملازمت دینے کے لیے مروجہ قواعد و ضوابط اور میرٹ کو نظرانداز کرنا کیسا فعل ہے؟
جواب: قرآن کریم نے مناصب اور ذمہ داریوں پر افراد کے تعین کے سلسلے میںبنیادی اصول سورۃ النساء میں یوں بیان فرمایا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا م بَصِیْرًا o (۴:۵۸) ’’مسلمانو‘اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘ اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے‘‘۔گویا کسی منصب یا ذمہ داری پر تعین کرنے والوں اور متعین ہونے والوں دونوں پر یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ جب کسی کو ذمہ داری دی جائے تو وہ پوری واقفیت رکھتا ہو۔ یہ نہ ہو کہ ایک میڈیکل ڈاکٹر کو وزیر دفاع یا مالیات یاقاضی القضاۃ بنا دیا جائے‘ جب کہ وہ ان شعبوں کی الف با سے بھی واقفیت نہ رکھتا ہو اور اس کی پہچان صرف یہ ہو کہ وہ سربراہِ مملکت یا کسی اعلیٰ افسر کا قریبی عزیز‘ دوست یا اس کی جماعت کا کارکن ہے۔ اس سلسلے میں جتنی جواب دہی اولی الامر کی ہے اتنی ہی مامور کی بھی ہے۔ اگر ایک شخص یہ جانتا ہو کہ وہ ایک منصب کی شرائط پوری نہیں کرتا اور وہ اس منصب کو قبول کرتا ہے تو وہ عدل کے منافی ظلم کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس کا اپنا فرض ہے کہ وہ ایسے منصب کو قبول نہ کرے۔ قرآن کریم نے سورۃ المومنون میں اہل ایمان کی بنیادی خصوصیات میں اس پہلو پر خاص توجہ دی ہے اور فرمایا ہے: وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ o (المومنون ۲۳:۸) ’’اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں‘‘۔ ظاہر ہے ایک شخص اگر غلط منصب قبول کرتا ہے تو وہ نہ صرف اس منصب کے ساتھ زیادتی اور ظلم کرتا ہے بلکہ خود اپنے ساتھ بھی ظلم کرتا ہے اور اُمت مسلمہ کے بھی مفاد (مصلحت عامہ) کے خلاف ایسا کام کرتا ہے۔
اس اصول کی روشنی میں اگرکوئی سیاسی یا مذہبی جماعت ایسے افراد کی سیاسی تقرریاںکرتی ہے جو اس منصب کے اہل نہیں ہیں اور ان شرائط کو پورا نہیں کرتے جو اس سے تعلق رکھتی ہیں تو یہ بددیانتی‘ ظلم اور اُمت مسلمہ کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ہاں‘ اگر کسی سیاسی جماعت کی فکر اور نظریے سے ہم آہنگ افراد ان شرائط پر معروضی طور پر پورے اترتے ہوں اور مروجہ ضوابط کے تحت بغیر کھینچا تانی کے qualifyکرتے ہوںتو اس میں کوئی قباحت نہیں ہوگی۔ یہی شکل مذہبی و سیاسی جماعتوںکے اندر مناصب کی ہے۔ اگر کسی جماعت کی سربراہی کے لیے ایسے فرد کو ذمہ داری سونپ دی جائے جو اس کی فکر اور مطلوبہ کردار کا حامل نہ ہو تویہ سراسر ظلم اور عدل کے منافی ہوگا۔
تحریکات اسلامی کا امتیاز ہی یہ ہے کہ خود تحریک کے اندر ذمہ داریوں پر تعین کا معاملہ ہو یا تحریکات اسلامی کے برسراقتدار آنے کے بعد مختلف شعبہ ہاے حیات میںافراد کا تعین ہو‘ وہ اپنے آپ کو مصلحت عامہ اور مروجہ ضوابط سے آزاد نہیں کرتیں۔ البتہ انھیں اس کا پورا حق پہنچتا ہے کہ دستوری ذریعے کا استعمال کرتے ہوئے شرائط و ضوابط میں ان پہلوئوں کو شامل کریں جن کا تعلق افراد کے کردار‘ دیانت اورفنی صلاحیت سے ہواور پھر کھلے اور شفاف طریقے سے ان حضرات کو متعین کریں جو ان شرائط پر پورے اُترتے ہوں۔
پارٹی کے نام پر محض کارکنوں کو نوازنا‘ اسلام کا مدعا ہے نہ عدل سے مناسبت رکھتا ہے۔ سورۃ الانفال میں امانت کا حق ادا نہ کرنے کو خیانت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَتَخُوْنُوْا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o (الانفال ۸:۲۷) ’’جانتے بوجھتے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو‘ اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو‘‘۔
مسلم کی جامع الصحیح میں کتاب الامارۃ میں حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ایک امیر جو ایک منصب قبول کرتا ہے اور اخلاص کے ساتھ اپنی مقدور بھر کوشش نہیں کرتا وہ کبھی جنت میں داخل نہ ہو سکے گا ۔ گویا منصب چاہے سیاسی وجوہات کی بنا پر ہو یا مسلکی اور مذہبی بنیاد پر‘ جب تک اصل بنیاد اہلیت اور صلاحیت کی نہ ہو‘ شرعی نقطہء نظر سے ظلم ہے۔
یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ پاکستان اور بہت سے مسلم ممالک میں اعلیٰ ترین مناصب تک عموماً تقرری کی بنیاد کسی کی سفارش ‘ رشتہ داری یا سیاسی تعلق ہوتا ہے۔ عدل اور صلاحیت کو کبھی معیار نہیںبنایا جاتا حتیٰ کہ عوام بھی ایسے افراد کو ووٹ دینا زیادہ پسندکرتے ہیں جو برسرِاقتدار آکر بجائے عدل و انصاف کے ان کو ذاتی فائدہ پہنچا سکیں۔ جب تک ہم بحیثیت ایک اُمت اس کلچر کو تبدیل نہیں کریں گے‘ اُمت مسلمہ اعلیٰ قیادت اور اصول پرستی سے محروم رہے گی۔ ذاتی‘ گروہی اور مسلکی مفادات کے نتیجے میں جو افراد بھی مناصب پر آئیں گے وہ امانتوں کو پامال کرنے میں اپنے سے پہلے والوں سے دو قدم آگے ہی نکلتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے گھر کو اپنے ہاتھوں تباہ کرنے سے بچائے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
س : قرآن کی باترجمہ تدریس کرتے ہوئے کئی مقامات ایسے آتے ہیں جہاں سن بلوغت کے معاملات کا تذکرہ ہوتا ہے۔ ۹ سے ۱۶ سال کی عمر زندگی کے حیاتیاتی حقائق کے سلسلے میں تجسس کی ہوتی ہے۔ کیا ان آیات سے ذہنوں پر منفی اثرات نہیں پڑیں گے؟
مغرب تو جنس کے معاملے میں تمام حدیں توڑ گیا ‘ تاہم قرآن کے حوالے سے خیال ہے کہ شاید ایک غیر محسوس انداز میں قرآن اپنے پڑھنے والے کو حقائق سے آگاہ کرتا ہے۔ گویا ایک طرح کی صنفی تعلیم کا فطری سا نظام قائم ہے۔ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ اسلامی نظامِ تعلیم کے حکمت کار نصابیات میں بالکل غیر محسوس انداز میں افزایش نسل کے معاملات کے احسن پہلوئوں کو شامل کردیں؟ کیا علماے کرام اسلام کے شرم و حیا کے معیار کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی اجازت دے دیں گے؟
ج : آپ کے سوال کا تعلق ایک اہم عملی مسئلے سے ہے اور جدید تعلیمی تصورات میں اسے بنیادی اہمیت دی جا رہی ہے۔ بلاشبہہ قرآن کریم تمام انسانوں کے لیے جامع ترین ہدایت ہے اور قیامت تک کے لیے اس میں انسان کی فلاح کا سامان موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم انسان کی پیدایش کے مراحل اور پیدایش کے بعد نشوونما و تربیت کے بارے میں اصولی ہدایات فراہم کرتا ہے۔ البتہ اس کا اسلوب نہ کسی علم الاجسام کی کتاب کا ہے نہ کسی صنفی معلومات کی انسائیکلوپیڈیاکا بلکہ یہ اعلیٰ ترین اخلاقی تصور کے ساتھ ہر عمر کے انسانوں کو بنیادی انسانی ضروریات کی اخلاقی تکمیل کے ذرائع سے آگاہ کرتا ہے۔
اس سلسلے میں بلوغت کے مسائل ہوں یا عائلی معاملات‘ شوہر اور بیوی کا تعلق ہو یا ایک ۱۳ سالہ نوجوان کے طہارت کے مسائل‘ ان تمام معاملات پر قرآن کریم نے روشنی ڈالی ہے تاکہ بچپن ہی سے ایک فرد کو برانگیختہ کیے بغیر ٹھنڈے انداز میں بنیادی معلومات فراہم کر دی جائیں۔
اسلام میں جو عمر نماز اور روزے کی فرضیت یا ایک ذمہ دارانہ زندگی کے آغاز کے لیے ہے وہی عمر ایسے معاملات کی بھی ہے جن میں ایک نوجوان کو عالم خواب میں انزال یا جسم کے طبعی نظام کے نتیجے میں ایک لڑکی کو ایام کے واقع ہونے کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان تمام معاملات سے اگر روایتی شرم کی بنا پر اغماض برتا جاتا تو ہدایت کہاں سے ملتی؟ اس لیے کتاب ہدایت نے ان معاملات کا ذکر کیا لیکن ایسے انداز میں کہ جس کو یہ مسائل پیش آئیں نہ اسے احساس جرم ہو نہ احساس محرومی و شرمندگی۔ چنانچہ نماز سکھاتے وقت والدین کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ وضو‘ غسل اور طہارت کے مسائل کیا ہیں؟ اس سلسلے میں فقہی کتب کا سہارا لینا پڑتا ہے جو ان مسائل کو سادہ انداز میں پیش کرتی ہیں۔ اکثر کتب ایسی تفاصیل بیان نہیں کرتیں جو نوعمر افراد کے لیے شرم کا باعث ہوں۔ ہمارا فرض ہے کہ ان معاملات پر سادہ اور آسان طریقے سے معلومات فراہم کریں۔
اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو مغرب زدہ اور مغربی تعلیمی تصورات سے متاثر حضرات جنسی تعلیم کے عنوان سے ہماری نوجوان نسل کو جنسی جنون کی طرف لے جائیں گے اور ناقص تعلیم کے ذریعے ان کے اخلاق کو پامال کرنے کی کوشش کریں گے۔ آج دُنیا کے تمام تعلیمی ادارے ’’محفوظ تعلق‘‘ جیسی شرم ناک اصطلاح معصیت اور فحاشی کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اسی کو جنسی تعلیم سے تعبیر کرتے ہیں۔
اگر قرآن و سنت کی مدد سے یہ بات بچپن ہی سے ذہن نشین کرا دی جائے کہ جنس مخالف سے صرف اور صرف ایک ہی رشتہ جائز ہو سکتا ہے اور وہ عقد نکاح کے ذریعے ممکن ہے تو مغرب کی جنسی بے راہ روی کے غبارے سے ساری ہوا نکالی جاسکتی ہے اور آنے والی نسلوں کو مہلک اخلاقی اور جسمانی امراض سے بچایا جا سکتا ہے۔
آپ نے علما سے اجازت مانگی ہے۔ میرے خیال میں اگر آپ مطالعہ فرمائیں تو حدیث اور فقہ کی ہر کتاب کا آغاز ہی ان مسائل سے ہوتا ہے جن کا تعلق ایمان‘ طہارت و پاکیزگی سے ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کتب کے اسلوب کو دور جدید کے مطالبات کی مناسبت سے مزید سہل بنایا جائے اور ادب و شرم و حیا کے ساتھ ان معاملات پر بات کی جائے جو بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی‘ روحانی اور جسمانی صحت کے لیے ضروری ہیں اور جن پر قرآن و حدیث اور فقہ نے خود توجہ دی ہے۔ (ا - ا)
س : گرمیوں کی تعطیلات میں بالخصوص اور سال بھر عموماً مختلف عمروں اور جماعتوں کے بچوں کو پڑھاتا ہوں۔ حضرت انسؓ کے سلسلے میں روایات میں آتا ہے کہ رسولؐ اللہ کی خدمت میں وہ جتنا عرصہ بھی رہے۔ آپؐ نے کبھی ان کی مذمت نہیں کی اور نہ سزا دی‘ سرعام کبھی سرزنش نہیں کی کہ یہ کیوں کیا اور یہ کیوں نہیں کیا۔ ادھر تعلیم میں یہ معاملہ ہے کہ غیرحاضری سے تعلیم کا تسلسل ٹوٹتا ہے جو استاد اور شاگرد اور ہم جماعت طلبہ کے لیے پریشانیوںکا سبب ہے۔ اسی طرح ہوم ورک کے کرنے اور نہ کرنے سے بڑا فرق پڑتا ہے۔ پھر ٹیسٹ سسٹم ہے۔ اب ان معاملات میں مختلف سزائیں نافذ نہیں کی جاتیں توکام کرنے والے بچوں کی نفسیات پر اس کا واضح اثر پڑتا ہے۔ بچپن ناسمجھی کا دور ہوتا ہے اور کھیل کود اور دیگر مشاغل کی طرف توجہ مبذول رہتی ہے۔ سزا کے بغیر فہمایش تو کم ہی کام کرتی ہے۔ والدین کی طرف سے الگ شکایات کہ پڑھایا نہیںجاتا۔ بچوں کو سزا بھی دیتا ہوں اور ڈرتا بھی رہتا ہوں۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے کہ والد کو اولاد کی تادیب کے لیے ہاتھ میں لکڑی رکھنی چاہیے۔ کیا استاد بھی اس سلسلے میں کسی قسم کا اختیار رکھتا ہے؟ اور وہ بچوں کی تعلیمی کارکردگی برقرار رکھنے اور اُن کی استعداد میں اضافے کے لیے کس حد تک جا سکتاہے۔
ج: کسی بات کی اجازت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اسے لازماً کیا جائے۔ حضرت انسؓ ۱۰ سال کی عمر میں حضور نبی کریمؐ کے خادم کی حیثیت سے گھر کے افراد میں شامل ہوئے اور ۱۰ سال تک آپؐ کی خدمت کرتے رہے۔ اس عہد میں ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں ان کے ہاتھ سے کوئی برتن ٹوٹا لیکن ایسے مواقع پر ہاتھ کے استعمال کی جگہ آپؐ نے ام المومنین سیدہ عائشہؓ کو متوجہ فرمایا کہ وہ درگزر فرمائیں۔ اس سب کے باوجود حدیث میں صاف ذکر آتا ہے کہ اپنے بچے کو سات سال کی عمر سے تعلیم و تربیت دی جائے اور ۱۰ سال کے بعد اگر نماز نہ پڑھے تو تادیب کی جائے۔ اس لیے یہ بات تو شبہے سے بالاتر ہے کہ والدین کو تادیب کا حق دیا گیا ہے اور کوئی بچہ اس بنا پر ان کے خلاف مقدمہ نہیں کر سکتا کہ انھوں نے اس پر قوت کا استعمال کیا ہے لیکن خود والدین سے کس قسم کا کردار متوقع ہے‘ اس پر تفصیلی بات کی ضرورت نہیں۔ اگر ۱۰ سال میں حضرت انسؓ نے اُف تک نہ سنا تو ایک باپ‘ استاد یا بڑا بھائی ایک بچے کو کس طرح لکڑی یا ہاتھ سے مار کر زخمی کر سکتا ہے!
اسلام میں ایک حق کا ہونا اور اس حق کی لفظی پیروی کرتے ہوئے شدت سے استعمال کرنا‘ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ ( ا - ا)
س: ہمارے ہوسٹلوں میں ایک طلبہ تنظیم نے کافی کمروں پر قبضہ کر رکھا ہے جو کہ ان کا حق نہیں۔ دین میں اس بارے میں کیا حکم ہے؟ داعی کا کردار ہر دھبے سے پاک ہونا ضروری ہے۔ ان کے اس عمل سے بہتری کے بجائے بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ اس کی بہتری کی کیا صورت ہے؟
ج: آپ کے سوال کا تعلق جامعات میں اقامت گاہوں کے استعمال سے متعلق ہے۔ ہوسٹل کا دعوتی استعمال ایک مطلوب عمل ہے لیکن ہوسٹل پر بغیر کسی قانونی حق کے قابض ہو جانا ہر لحاظ سے غلط ہے۔ ان تحریکات کے لیے جو خود کو اصلاحی‘ دعوتی اور تعلیمی تحریکات کہتی ہوں ایسا کرنا مزید قابل اعتراض ہے۔ تحریک اسلامی کے کارکنوں کا فرض ہے کہ وہ اعلیٰ اسلامی کردار کا نمونہ پیش کریں‘ نہ کسی کا حق ماریں اور نہ ناجائز قبضے کے مرتکب ہوں۔ اس کی اصلاح کی طرف فوری طور پر توجہ کرنی چاہیے‘ مقامی اور مرکزی نظم کو اس سلسلے میں مناسب ہدایات جاری کرنی چاہییں۔ ( ا - ا)