ریاست جموں و کشمیر میں جن اصحاب عزیمت نے تحریک مولانا اسلامی اور جدوجہد آزادی دونوں کی آبیاری اپنے خون اور پسینے سے کی‘ ان میں ایک نمایاں ترین شخصیت مولانا حکیم غلام نبی کی تھی جو ۳فروری ۲۰۰۲ء کو تقریباً ۸۰ سال کی مجاہدانہ زندگی گزار کر رب حقیقی سے جا ملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!
قسمت نگر کہ کشتۂ شمشیر عشق یافت
مر گے کہ زاہداں بہ دعا آرزو کنند
عشق و محبت کی شمشیر سے گھائل ہونے والے کی خوش قسمتی دیکھیے کہ اُسے موت ایسی نصیب ہوئی جس کی آرزو زاہد کرتے ہیں۔
غلام نبی وادیٔ کشمیر کے ایک چھوٹے سے خوب صورت گائوں مولوچترگام (ضلع پلوامہ) میں ایک معروف دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان رشد و ہدایت کا سرچشمہ تھا۔ نوجوان غلام نبی نے بھی علم دین کے حصول ہی کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ کشمیر میں ابتدائی تعلیم کے بعد دہلی اور دیوبند کے علمی سرچشموں سے ۱۵ سال پیاس بجھائی۔ دیوبند سے سندفضیلت حاصل کی اور دہلی سے طب و جراحت کی ڈگری لی۔ اس کے ساتھ جدید تعلیم کے زیور سے بھی اپنے آپ کو آراستہ کیا اور ایف اے کی سند امتیازی شان سے حاصل کی۔ اس طرح نوجوان غلام نبی مولانا حکیم غلام نبی بن کر وادیٔ کشمیر لوٹا۔ عربی‘ انگریزی‘ فارسی اور اُردو پر عبور اور اس پر مستزاد صاف ستھرا علمی اور ادبی ذوق--- تقریر اور تحریر دونوں پر قدرت‘ بلکہ تقریر کا تو یہ عالم کہ: وہ کہیں اور سنا کرے کوئی!
علم دین‘ انگریزی تعلیم اور طب اور جراحی کی سندوں سے آراستہ یہ نوجوان دنیوی اعتبار سے ابھی اپنا مقام تلاش ہی کر رہا تھا کہ ایک اور ہی انقلاب اس کا منتظر تھا--- جموں و کشمیر میں تحریک اسلامی کی دعوت پہنچ چکی تھی اور چند سرپھرے نہ صرف خود دُنیا کو بدلنے کا خواب دیکھ رہے تھے بلکہ ہر مضطرب روح کو اس آدرش کی خدمت کے لیے سرگرم کرنے کو کوشاں تھے۔ مولانا غلام احمد احرار کے ذریعے مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب خطبات اور دوسرے رسائل سے آشنا ہوئے۔ دیوبند کا یہ فارغ التحصیل پہلے تو اُردو کے ان رسالوں کی طرف ملتفت نہ ہوا لیکن جب ایک بار مطالعہ شروع کیا تو دل و دماغ میں ایک تلاطم برپا ہو گیا اور بقول حکیم صاحب:’’ان چھوٹی چھوٹی کتابوں نے تو میری کایا ہی پلٹ دی‘‘۔ مولانا سعدالدین امیر جماعت تھے۔ حکیم صاحب نے اپنے کو رکنیت کے لیے پیش کر دیا اور وہ دن اور ۳ فروری ۲۰۰۲ء کا دن‘ پوری زندگی تحریک اسلامی کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔
جماعت اسلامی کے قائم کردہ پرائمری اسکول کی مدرسی سے لے کر جماعت کی امارت اور تحریک آزادیٔ کشمیر کی قیادت تک--- ہر خدمت خلوص‘ تندہی اور استقامت سے‘ اور ہر معرکہ حکمت‘ جرأت اور مجاہدانہ شان سے سر کیا۔ ایثار اور قربانی کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی‘ پوری زندگی فقر کے عالم میں گزاری‘ اپنے پورے گھرانے کو دین اور تحریک کا خادم بنایا‘ ایک جوان بیٹے ذبیح اللہ نے جام شہادت نوش کیا‘ باقی چار بیٹے اور دو بیٹیاں اپنے اپنے انداز میں تحریک میں سرگرم ہیں۔ جس طرح اپنے گھرانے کی فکر کی اسی طرح کشمیر کے ہر گھر کو دعوت اسلامی کے نور سے منور کرنے کے لیے شب و روز سرگرم رہے اور ایک نسل کو اسلام کی خدمت اور آزادی کے حصول کے لیے بیدار کر دیا۔
حکیم صاحب نے دعوت و تبلیغ‘ سیاسی جدوجہد اور بھارت کے تسلط سے آزادی کے جہاد میں نمایاں کردار ادا کیا۔ قیدوبند کی صعوبتوں کو خوشگواری سے انگیز کیا۔ پہلی گرفتاری ۱۹۶۲ء میں سیدعلی شاہ گیلانی کے ساتھ ہوئی اور پھر یہ سلسلہ ۱۹۹۰ء کے عشرے تک چلتا رہا۔ آخری زمانے میں بیماری کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور تھے مگر تحریک کو پیش آنے والے ہر معرکے اور ہر آزمایش میں استقامت کا پہاڑ بنے رہے۔
مجھے حکیم صاحب کے ساتھ ایک بڑے نازک مرحلے پر چند دن گزارنے کا موقع ملا۔ جن چیزوں کا نقش دل پر قائم ہے ان میں ان کا صاف ستھرا علمی ذوق‘ سادہ طبیعت‘ حسن اخلاق‘معاملہ فہمی اور تدبر‘ تحریکی اور سیاسی حالات کا گہرا ادراک‘ بڑے سے بڑے خطرے کو انگیز کرنے کی ہمت اور داعیہ اور یہ سب کچھ کمال درجے کے انکسار کے ساتھ۔ ان کی زندگی میں کشمیر کی اسلامی تہذیب کی پوری تصویر دیکھی جا سکتی تھی۔
حکیم غلام نبی صاحب نے جماعت اسلامی کی دعوت کو گھر گھر پھیلایا‘ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف رہے‘ اور بڑے نازک اور پرخطر حالات میں صبر واستقامت اور حکمت و تدبر سے اپنی ذمہ داریاں ادا کیں اور قدم قدم پر بیش بہا قربانیاں پیش کیں۔ قیدوبند‘ فقروفاقہ‘ گھر بار اور باغ و کھلیان کی تباہی‘ اولاد کی شہادت--- وہ کون سا زخم ہے جسے انھوں نے ہنستے ہوئے اور شکر کے جذبات کے ساتھ جسم کا زیور نہ بنایا:
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
مولانا حکیم غلام نبی کے انتقال کی خبر پوری ملت کشمیر پر بجلی کی طرح گری اور ہر گھر سوگوار اور ہر چشم اشکبار تھی۔ ہزاروں افراد نے اس عالم دین‘ تحریک اسلامی کے قائد اور جدوجہد آزادی کے مجاہد کو اس شان سے الوداع کہا کہ جنازے کا جلوس ان عزائم اور اہداف کے حق میں ایک استصواب بن گیا جن کے لیے حکیم صاحب نے زندگی بھر جدوجہد کی تھی:
ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے