حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مومن کو اس کی موت کے بعداس کے جو اعمال اور نیکیاں پہنچتی رہتی ہیں وہ یہ ہیں: علم جو اس نے سکھایا اور پھیلایا‘ نیک اولاد جو اس نے چھوڑی‘ قرآن پاک جو اس نے وراثت میں دیا‘ مسجد‘ مسافرخانہ یا نہر جو اس نے تعمیر کی‘ صدقہ جو صحت کی حالت میں اس نے اپنے مال سے نکالا۔ (ابن ماجہ‘ ص ۲۲۔ البیہقی ج ۱‘ ص ۱۰۶)
کسی کو نیکی کے دو بول سکھاکر‘ کوئی کتابچہ پڑھا کر‘ مسجد‘ کنوئیں یا نہر کی تعمیر میں حسب استطاعت حصہ ڈال کر‘ کسی دعوتی و تبلیغی کام میں اعانت کر کے‘ قرآن‘ احادیث اور دینی لٹریچر کی اشاعت میں تعاون کر کے آسانی سے اپنے لیے صدقہ جاریہ کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ اپنے اپنے وسائل کے مطابق ’کم یا زیادہ‘ ہر شخص یہ اجر لے سکتا ہے
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:
جو حج کے لیے نکلا پھر فوت ہو گیا‘اس کے لیے قیامت کے دن تک حاجی کا اجر لکھا جائے گا اور جو عمرے کے لیے نکلا‘ پھر مرگیا‘اس کے لیے قیامت کے دن تک عمرے کا اجر ہے اور جو غازی بن کر نکلا‘ پھر مر گیا اس کے لیے قیامت کے دن تک غازی کا اجر لکھا جائے گا۔ (مشکوٰۃ ‘ ج ۲‘ ص ۹‘ حدیث ۲۵۳۹)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جو دُنیا سے اس حال میں جدا ہوا کہ اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ مخلص تھا‘ نماز قائم کرتا اور زکوٰۃ دیتا تھا (باقی عبادات بھی کرتا تھا) وہ دُنیا سے اس حال میں جدا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو گا۔ (ابن ماجہ ‘ ص ۸‘ الحاکم)
ڈیوٹی کے دوران کوئی فوت ہو جاتا ہے تو اس کے ورثا کو ایک عرصے تک فوت ہونے والے کا مشاہرہ اور دوسری مراعات دی جاتی ہیں۔ مزید اعانت بھی کی جاتی ہے لیکن یہ سب کچھ محدود وقت کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مومن اللہ کی عبادت کے دوران فوت ہوجائے تو قیامت تک وہ آن ڈیوٹی شمار ہوتا ہے۔ حاجی‘ معتمر (عمرہ کرنے والا)‘ نمازی اور غازی قیامت کے دن تک اپنی عبادت کا اجر پاتے رہیں گے۔ قیامت تک اجر پانے کا بہت آسان نسخہ یہ ہے کہ ہر وقت اللہ کی عبادت کی نیت میں رہے کہ میں اللہ کا حکم مانوں گا‘ اس کے مقابلے میں کسی کے احکام نہیں مانوں گا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔ تب اس کا اٹھنا بیٹھنا‘ سونا جاگنا‘ چلنا پھرنا‘ سب عبادت شمار ہوگا۔ اس دوران میں اس کی وفات ہوگئی تو ان لوگوں میں شامل ہوگا جو عبادت کے دوران میں فوت ہو جاتے ہیں۔ یہی معنی ہیں اس آیت کے: وَلاَتَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ ’’تمھیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘۔
حضرت خالد بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت عتبہؓ بن غزوان بصرہ کے گورنر تھے۔ انھوں نے ایک دن ہمیں خطاب کیا۔ حمدوثنا کی‘ پھر کہا دُنیا نے کوچ کا اعلان کر دیا ہے۔ اس نے چلے جانے کے لیے پیٹھ پھیر لی ہے۔ اس کا تھوڑا سا حصہ جتنا برتن کی تہہ میں بچ جایا کرتا ہے‘ بچ گیا ہے۔ تم اس گھر کی طرف منتقل ہونے والے ہو جو لازوال ہے۔ پس تمھارے پاس جو بھلائیاں ہیں انھیں لے کر منتقل ہوجائو۔ ہم سے ذکر کیا گیا کہ وہ پتھر جو دوزخ کے کنارے سے جہنم میں پھینکا جائے گا وہ اس کی گہرائی تک پہنچنے کے لیے ۷۰سال تک گرتا چلا جائے گا۔ اللہ کی قسم! اسے بھر دیا جائے گا۔ کیا تمھیں اس بات میں تعجب ہے؟ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ جنت کے دو کواڑوں کے درمیان ۴۰ سال کی مسافت ہے۔ ایک دن آئے گا کہ وہ اژدہام کی وجہ سے تنگ ہو جائے گا۔
میں نے اپنے آپ کو اس حال میں بھی دیکھا ہے کہ میں رسولؐ اللہ کے ساتھ ساتواں آدمی تھا۔ ہمارے لیے درختوں کے پتوں کے سوا کھانے کے لیے کوئی چیز نہ ہوتی تھی۔ ہماری باچھیں پتوں کی وجہ سے زخمی ہو گئیں تھیں۔ (یہ حال تھا) میں ایک چادر لایا اور اسے دو حصے کیا‘ ایک حصہ میں نے اور ایک حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے پہنا لیکن آج کے دن ہم میں کوئی آدمی ایسا نہیں جو کسی علاقے کا گورنر نہ ہو۔ میں اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ اپنے آپ کو عظیم سمجھوں اور اللہ کے ہاں چھوٹوں میں شمار ہوں۔ کوئی نبوت نہیں تھی مگر اس میں تغیر پیدا ہوا یہاں تک کہ آخرکار وہ بادشاہت میں ڈھل گئی۔ تم ہمارے بعد آنے والے حکمرانوں کو دیکھو گے اور آزمائو گے۔ (مسلم‘ ۲۹۶۷)
دُنیا کی فنا‘ آخرت کی بقا‘ دوزخ کا خوف‘ جنت کا شوق اور دُنیا میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا احساس ہو تو پھر انسان ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتا ہے۔ تکالیف میں مایوسی کا شکار نہیں ہوتا اور آسودہ حالی میں تکبر و غرور میں مبتلا نہیں ہوتا۔ خلافت میں امرا کی شان کیا ہوتی ہے۔ اس کی جھلک حضرت عتبہؓ بن غزوان کے اس خطبے سے سامنے آتی ہے کہ وہ متواضع اور ذاکر و شاکر ہوتے ہیں۔خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے بعد بادشاہت کا دور ہوتا ہے اور آخرت کے بجائے دُنیا پر نظریں جمنا شروع ہو جاتی ہیں۔
حضرت مالک بن انسؓ کو یہ بات پہنچی کہ عیسٰی بن مریم ؑ کہا کرتے تھے کہ اللہ کے ذکر کے سوا زیادہ باتیں نہ کرو‘ اس سے دل سخت ہو جاتے ہیں۔ سخت دل اللہ سے دُور ہوتا ہے لیکن تم نہیں جانتے۔ لوگوں کے گناہوں پر اس طرح نظر نہ کرو گویا تم ان کے رب ہو بلکہ اپنے گناہوں پر یہ سمجھ کر نظر ڈالو کہ تم غلام ہو۔ لوگ دو طرح کے ہیں: ایک وہ جو آزمایش میں ہیں‘ دوسرے وہ جو عافیت میں ہیں۔ آزمایش والوں کے لیے رحمت کی دعا کرو‘ اور عافیت پر اللہ کا شکر ادا کرو (موطا)۔ اس حدیث کا پہلا حصہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے رسولؐ اللہ سے بھی بیان کیا ہے۔ (ترمذی)
گناہ انسان خود بھی کرتا ہے اور اس کے آس پاس دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں۔ ان گناہوں کو کس نظر سے دیکھا جائے؟ اس حدیث کی یہ بڑی اہم تعلیم ہے کہ دوسروں کو اس طرح نہ دیکھو کہ گویا تم ان کے رب ہو۔ اکثر نیکوکار دوسروں کی اصلاح کے شوق میں اس غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں---
حضرت جابر بن عتیکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن ثابتؓ کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ آپؐ نے انھیں غشی کی حالت میں پایا۔ آپؐ نے انھیں آواز دی تو جواب نہ دیا۔ اس پر آپؐ نے اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور فرمایا: ابوالربیع (ان کی کنیت تھی) ہم آپؐ کے معاملے میں بے بس ہو گئے ہیں۔ یہ سن کر عورتوں نے چیخ و پکار شروع کر دی۔ حضرت جابر بن عتیکؓ نے انھیں خاموش کرنا شروع کردیا۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: اس وقت نہ روکو۔ جب واجب ہو جائے تو پھر کوئی بھی نہ روئے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! واجب ہو جائے گا کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جب فوت ہو جائے۔
بیٹی نے اپنے باپ کو مخاطب کر کے کہا: اللہ کی قسم! مجھے تو امید تھی کہ آپ شہید ہوں گے۔ آپ نے اپنا سامان جہاد تیار کیا تھا۔ رسولؐ اللہ نے سنا تو فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان کی نیت کے مطابق ان کے لیے اجر رکھ دیا ہے۔ تم شہادت کس چیز کو سمجھتے ہو؟صحابہؓ نے عرض کیا: اللہ کی راہ میں قتل کیے جانے کو۔ آپؐ نے فرمایا: قتل فی سبیل اللہ کے علاوہ بھی سات آدمی شہید ہیں۔ طاعون کی بیماری والا‘ جل کر فوت ہونے والا‘ ڈوب کر مرنے والا‘ ذات الجنب(نمونیے) کی بیماری والا‘ اسہال کی بیماری والا‘ جو کسی چیز کے نیچے دب کر فوت ہو‘ عورت جو ولادت کے موقع پر فوت ہو جائے۔ یہ سب شہید ہیں۔ (موطا‘ ابوداؤد ‘ نسائی)
موت واقع ہونے سے پہلے رونے کی اجازت ہے‘ موت کے بعد اونچی آواز سے رونا نوحہ ہے جو ممنوع ہے۔ نبی کریمؐ کی شفقت دیکھیے کہ جہاں رونے کی گنجایش ہے وہاں روکنے سے منع کرتے ہیں۔ بیٹی کے غم کو کہ باپ جہاد میں شریک ہو کر شہید نہ ہو سکے‘ ہلکا کر رہے ہیں‘ کہ نیت کے مطابق وہ شہید ہے۔ پھر دوسری مختلف نوعیت کی اموات کے بارے میں شہادت کی اطلاع دے کر کس کس کو اطمینان و سکون فراہم کر دیا۔سبحان اللہ! ایسی رؤف و رحیم نبی کی اُمت کو رحیم ہونا چاہیے۔ شریعت نے جہاں گنجایش رکھی ہو وہاں سختی کے بجائے گنجایش دینا چاہیے اور جہاں سختی کی ہے وہاں سختی کرنا چاہیے لیکن اتنی‘ جتنی شریعت کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہو۔
حضرت مصعبؓ بن سعد اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے بیان کرتے ہیں‘ میںنے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کن لوگوں پر زیادہ آزمایش آتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: انبیا‘ پھر نیک لوگ‘ پھر درجہ بدرجہ۔ انسان کی اس کے دین کے مطابق آزمایش کی جاتی ہے۔ اگر اس کے دین میں مضبوطی ہو تو اس کی آزمایش زیادہ ہوتی ہے اور دین میں کمزوری ہو تو آزمایش میں بھی تخفیف ہوتی ہے۔بندے پر آزمایش رہتی ہے یہاں تک کہ وہ زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی خطا نہیں ہوتی۔ (الفتح الربانی)
آزمایش محبت کی ہے۔ جو محبت میں آگے ہوں گے ان کی آزمایش بھی زیادہ ہے اور جو محبت میں پیچھے ہیں ان کی آزمایش بھی آسان ہے۔ آزمایش درجات کی بلندی کے لیے ہے‘ سزا نہیں ہے۔ آج بھی اُمت مسلمہ ایک بڑی آزمایش سے دوچار ہے۔ نظر آ رہا ہے کہ جن کے مرتبے زیادہ ہیں ان کی آزمایش بھی زیادہ ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس کے ساتھ اللہ بھلائی کاارادہ کرتے ہیں اسے مصیبت سے دوچار کرتے ہیں۔ (الفتح الربانی)
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مجھے اللہ کی خاطر اس وقت بھی ایذادی گئی جب کسی کو ایذا نہیں دی جاتی تھی اور مجھے اللہ کی خاطر خوف زدہ کیا گیا‘ جب کہ کسی کو خوف زدہ نہیں کیاجاتا تھا ۔ (الفتح الربانی)
ایک دور وہ تھا جب آزمایشوں اور ڈراووں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تنہا تھے۔ لیکن یہ آزمایشیں اور ڈراوے آپؐ کو راہ حق سے پیچھے نہ ہٹا سکے۔ آزمایشیں تنزلی نہیں بلکہ ترقی کا سامان ہیں۔ اسلام کی تاریخ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اس بات کی گواہ ہے۔