مضامین کی فہرست


دسمبر ۲۰۲۳

آج پاکستان جس نوعیت کے معاشی ، معاشرتی، سیاسی اور ابلاغی بحران سے گزر رہا ہے سابقہ سات دہائیوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔اس بحران کے گہرے اثرات ،ریاستی اداروں میں ہی نہیں بلکہ ایک عام شہری کی زندگی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔وہ کوئی تاجر ہو یا سرکاری ملازم، طالب علم اور معلم ہو یا طبیب یا کاشت کار ذہنی کش مکش نے اسے ایک شدید ذہنی انتشار (confusion ) اور سماجی تقسیم (social polarization ) میں مبتلا کر دیا ہے۔خاندان کے افراد ہوں یا ایک بازار میں ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی روابط رکھنے والے دکاندار ،جامعات کے طلبہ و اساتذہ ہوں یا فنی ماہرین ہر جگہ ایک واضح تقسیم نظر آتی ہے، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی نظر نہیں آرہی۔ اس صورت حال پر بلاکسی تاخیر کے، سنجیدگی کے ساتھ غور اور اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔اگر اس بے چینی کو بڑھنے دیا گیا، جو پاکستان دشمن قوتوں کی خواہش ہے، تو یہ بین الصوبائی کش مکش کی حد تک جا سکتی ہے جو ملکی استحکام اور یک جہتی کے لیے زہر کی حیثیت رکھتی ہے۔

ملک میں polarization یا تقسیم کا ایک ردعمل، ایک گونہ مایوسی، نا اُمیدی اور فرار کی صورت نظر آتا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ہزارہا نوجوان جو آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں، ملک سے باہر حصولِ روزگار کی تلاش میں جا رہے ہیں۔یہ عمل ملک میں ذہنی افلاس اور نااُمیدی میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔حالیہ نگران حکومت اور اس سے قبل سیاسی اتحاد کی حکومت معیشت، سیاست، معاشرت، ابلاغ عامہ، ہر سطح پر سخت ناکام رہی ہے۔ عبوری حکومت نواز شریف کو دوبارہ برسرِ اقتدار لانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ برسرِ اقتدار طبقے کو شاید زمینی حقائق کا اندازہ نہیں ہے ۔ ابلاغ عامہ پر مکمل قابو پانے کے باوجود، سابق وزیر اعظم جیل میں ہونے کے باوجود رائے عامہ کے جائزوں میں دیگر جماعتوں سے آگے نظر آتے ہیں ۔

 ملّی یک جہتی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات اعلان کردہ تاریخ یعنی ۸فروری ۲۰۲۴ ء کو منعقد ہوں اور انھیں متنازعہ نہ بننے دیا جائے ۔ عوام کے فیصلے کا احترام کیا جائے اور اداروں کے احترام کو بحال ہونے کا موقع دیا جائے ۔ اداروں پر عدم اعتماد اور ان کے بارے میں یہ تاثر کے ان کی امداد و حمایت کے بغیر کوئی سیاسی جماعت کامیاب نہیں ہوسکتی، ملکی اداروں کی ساکھ کو تباہ کر دیتا ہے ، اس لیے اداروں کی ساکھ کی بحالی کے بغیر کوئی سیاسی عمل مطلوبہ نتائج نہیں پیدا کرسکتا۔ ان حالات میں جن چند اہم امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ان کا ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے:

  • دستور کی بالادستی :موجودہ سیاسی حالات میں تحریک سے وابستہ افراد کے بیانیے میں دستور کی بالا دستی کو سرفہرست ہونا چاہیے۔ دستور کے دائرئہ کار میں رہتے ہوئے سیاسی جدوجہد کے ذریعے تبدیلیٔ قیادت ہماری تحریک کا معروف موقف ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام غیر دستوری ذرائع کو رَد کرتے ہوئے مثبت طور پر پُر امن دستوری جدوجہد ہی مطلوبہ نتائج پیدا کر سکتی ہے۔

اس وقت کچھ تحریکی کارکن ابلاغ عامہ کے منفی کردار اور ملک میں پھیلی ہوئی بے یقینی کے زیر اثر یہ سوچنے لگے ہیں کہ انتخابات کا کیا فائدہ ؟جو مراکز ِقوت کچھ عرصہ سے سیاسی تبدیلیاں لا تے رہے ہیں، ان کی غیر رسمی حمایت کے بغیر تحریک اسلامی سیاسی عمل میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔اس منفی فکر کو ذہنوں سے نکالنے کی ضرورت ہے اورپورے اعتماد کے ساتھ اس عزم کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی کوشش کے نتائج صرف اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے رب سے عبادات میں زیادہ کثرت اور انہماک کے ساتھ اللہ پر توکّل کرتے ہوئے ایسی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے جو دستورِ جماعت میں درج طریقۂ کار سے پوری مطابقت رکھتی ہو۔

جو بنیادی حقوق ہمیں دستور دیتا ہے، ان کے احیا اور ان پر عمل کرتے ہوئے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے، چاہے حکمت عملی کی بنا پر کسی سیاسی گروہ کو فائدہ پہنچے یا نقصان اور چاہے اس عمل میں تحریک کو ایک طویل عرصہ تبدیلی ٔقیادت کا انتظار کرنا پڑے۔

  • تحریکِ اسلامی اور اخلاقی سیاست:تحریک اسلامی کی ایک پہچان یہ ہے کہ تحریک اپنے نصب العین کے حصول کے لیے دستوری اور اخلاقی ذرائع کا استعمال کرتی ہے۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ تحریک اسلامی ایک اصولی اصلاحی جماعت ہے جو دین کے مکمل قیام کو ہی مسائل کے حل کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ اور ماضی کے انتشار اور    عدم استحکام کا اصل سبب وہ اخلاقی بحران ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں سرایت کر گیا ہے،چنانچہ سیاست ہو یا معیشت و معاشرت، صالح اخلاق کی غیر موجودگی ہی فساد اور انتشار کا حتمی سبب ہے۔اس لیے اخلاقی انقلاب، تعمیر سیرت و کردار اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے احیا کے بغیر ملک و ملت نہ قرضوں سے نکل سکتا ہے اور نہ سیاسی شفافیت اور معاشرتی فلاح کا قیام ہو سکتا ہے۔اسلام اپنے قرآنی اور نبویؐ اخلاقی اصولوں ہی کے ذریعے باطل ،طاغوت و گمراہی ،شرک و لذت پرستی اور اقتدار پرستی پر غالب آیا ۔یہ اسلام کی اخلاقی برتری تھی جس نے اپنے سے بڑی عددی قوت رکھنے والے باغیانہ معاشروں کو زیر کیا اور وہ اسلام کی اخلاقی بر تری کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوئے۔

اسلامی اخلاق کا مقصد فرد، معاشرہ اور ریاست میں توحید ووحدانیت کا قیام ہے۔ گویا فرد کی زندگی کا ہر عمل توحید کا عکس ہو اور اس کا جسم اور دل و دماغ ہر معاملے میں وہی فیصلہ کرے جو خالق حقیقی کو خوش کرنے والا ہو۔معیشت کے میدان میں وہی سرگرمی اختیار کی جائے جو حلال اور نافع ہو اور ہر اس سرگرمی سے بچا جائے جو استحصالی سودی نظام، خود غرضی اور نفع خوری پر مبنی ہو۔ ہرمیدانِ عمل میں حاکمیت نہ عوام کی ہو، نہ پارلیمنٹ کی، نہ عدلیہ کی، نہ انتظامیہ کی بلکہ صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی ہو۔جس بات کو قرآن و سنت نے جائز قرار دیا ہو وہی سیاست، معیشت، معاشرت غرض یہ کہ ہر شعبہ کی زبان قرار پائے۔

جب بھی اللہ کی رضا کی جگہ کسی بیرونی طاقت کی غلامی اور حمایت کو اپنا رب بنایا جائے گا، اندرونی خلفشار اور طوائف الملوکی کی کیفیت کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہوگا۔آج ملک کے کئی صوبوں میں بیرونی دشمنوں کی مدد سے جو باغیانہ ماحول پیدا کیا جا رہا ہے اس کا حل صرف فوج کے استعمال سے نہیں ہو سکتا ۔ اصل چیز باہمی اعتماد کی بحالی اور مقامی مسائل پر خلوصِ نیت کے ساتھ مشاورت کے ذریعے دیرپا حل کا اختیار کرنا ہے ۔ بلاشبہہ مالی اور دیگر وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کا مسئلہ بھی اہم ہے لیکن اصل مسئلہ اخلاقی زوال اور اخلاص کے فقدان کا ہے۔یہ اخلاقی فساد اور افلاس صرف وہ تحریک ہی دُور کر سکتی ہے جس کی بنیاد رضائے الٰہی پر ہو ۔جو اپنے کارکنوں میں ایمان، تقویٰ، احسان اور ایثار و قربانی اور بے غرضی کی خوبیوں کی بنا پر ممتاز ہو۔ جس کے مخالفین بھی اس کی قیادت اور اس کے عام کارکن کے بارے میں یہ شہادت دیں کہ وہ مالی معاملات میں ایماندار ہیں، ان کا دامن بد معاملگی سے پاک ہے، وہ اپنے گھر میں اہل خانہ کے ساتھ محبت کا رویہ رکھتے ہیں، وہ اپنے مخالف کو بھی سخت زبان سے مخاطب نہیں کرتے، نہ کسی پر طنز و استہزا کے تیرچلاتے ہیں، نہ کسی کا نام بگاڑتے ہیں، نہ کسی کو چور اور بداخلاق کہتے ہیں بلکہ انبیا ؑ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے ان کا ہر قول قولِ صادق ہے۔ایک عام شہری تحریک کے کارکن کے بارے میں یہ شہادت دینے پر آمادہ ہو کہ وہ حق کی حمایت کرتا ہے چاہے حق بات کہنے میں اس کے سیاسی مخالف کو فائدہ پہنچتا ہو۔

تحریک کے عام کارکن کی یہ اخلاقی برتری ہی تحریک کا سرمایہ اور اس کا بیانیہ ہے۔ یہ بیانیہ جتنا مضبوط ہوگا، تحریک کی جڑیں عوام میں اتنی ہی گہری ہوں گی۔اس کے مقابلے میں اگر تحریک کا عوام کی نگاہ میں تصور یہ ہو کہ یہ بھی ایک مسلکی جماعت ہے جو اسلام کے نام پر حصولِ اقتدار کی جدوجہد کر رہی ہے، تو چاہے تحریک کا ووٹ بینک وسیع ہو جائے، اس کی اکثریت اس کی کامیابی کی ضامن نہیں ہوسکتی۔ گویا تحریک کا بیانیہ اس کا وہ مخلصانہ اصولی اور اخلاقی عمل ہے جو خدمت خلق، اعلائے کلمۃ اللہ اور اخلاقی اصولوں کی سختی سے پیروی کرنے کی شکل میں عوام کے دل و دماغ میں پیوستہ ہو۔یہ اس لیے ضروری ہے کہ تحریک اسلامی ایک سیاسی یا محض ایک تبلیغی جماعت نہیں ہے بلکہ اخلاقی، اصلاحی اور اصولی تحریک ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ اقامت دین محض عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام اُمور میں اللہ کی اطاعت کو عملا ًنافذ کر دینے کا نام ہے۔

اب چند لمحات کے لیے اس کی جانب توجہ کی ضرورت ہے کہ اس وقت تک ملک کا منظرنامہ کیا ہے اور اس منظر نامہ میں تحریک کے کرنے کے کام کیا ہیں؟

یہ بات نقشِ دیوار کی طرح نمایاں ہے کہ ملک ایک بڑی مجموعی تبدیلی کا متقاضی ہے۔ یہ محض حکمرانوں کی تبدیلی نہیں چاہتا بلکہ نظم و نسق اور اداروں میں ایک بنیادی تبدیلی (strategic change)کی ضرورت ہے۔اصلاح، جزوی تبدیلی سے نہیں ہو سکتی۔ قومی اجماع اور قومی یک جہتی کے بغیر نئے چہروں کو لانا مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ ملک و ملت کو اس کے مقصد ِوجود کے پیش نظر ایک جامع اصلاحی عمل سے گزرنا ہو گا تاکہ ہر ادارہ اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے وسیع تر قومی یک جہتی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا فریضہ انجام دے سکے۔

  • اصولی سیاست کا فروغ: تحریک کا بیانیہ عوام میں یہ احساس پیدا کرے کہ اس کا اصل مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہے جو ایک مجموعی عمل ہے۔ نماز بلاشبہہ اوّلین اہمیت رکھتی ہے، مگر تحریک کا ہدف محض نماز کا قیام نہیں ہے بلکہ زندگی سے دو رخی پر مبنی طرزِ عمل کو چھوڑ کر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حاکمیت کو نہ صرف مسجد بلکہ معاشی، معاشرتی ،قانونی ، ثقافتی ، تعلیمی اور سیاسی معاملات میں عملاً نافذ کرنے کا نام ہے ۔ ایک معمولی عقل رکھنے والا فرد بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ اگر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ حاکمِ کل، خالقِ کائنات اور العزیز ہے، تو کیا یہ بات معقول ہو گی کہ اس کی حاکمیت کا مسجد میں تو اہتمام کے ساتھ ،اس کا نام بلند کیا جائے۔ اس کے برعکس پارلیمان میں قرآن و سنت کے خلاف بل پاس ہوتے رہیں؟ ملکی معیشت اور بین الاقوامی معاشی نظام کے سودی کاروبار میں شرکت جاری رہے بلکہ گریہ و زاری کر کے عالمی مہاجنی اداروں سے سودی قرض کے حصول کی درخواستیں کی جاتی رہیں تاکہ ملک پر جو قرضے ہیں صرف ان پر واجب سود کی ادائیگی کی جاسکے۔ یہ دو عملی اللہ کو راضی نہیں کرسکتی۔ رضائے الٰہی کا ایک ہی طریقہ ،ہرجگہ حاکمیت الٰہی کا قیام ہے۔
  • مثالی نمایندے:اصولی سیاست کا مطالبہ ہے کہ نہ صرف نظری طور پر بلکہ عملاً تحریک جس فرد کو ایوان نمایندگان کی کسی نشست کے لیے تجویز کرے وہ اپنی سیرت و کردار میں مثالی اوصاف رکھتا ہو۔ وہ اپنی علمی اور فنی قابلیت میں صاحب رائے ہو اور اس کا تعلق جس شہر سے ہو وہ وہاں پر عوامی فلاح کے کاموں کا تجربہ رکھتا ہو اور کسی کے دباؤ میں آکر یا کسی ذاتی منفعت کے لیے مفاہمت کا قائل نہ ہو۔ صرف بے غرض ،خلوصِ نیت اور آخرت میں جواب دہی کا احساس رکھنے والے امیدوار ہی تحریک کے نمایندے ہو سکتے ہیں۔یہاں یہ بات واضح ہو کہ ہمارا مقصود محض نشستوں کا حصول نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اس نشست کا استعمال ہونا چاہیے۔ حدیث شریف میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ نیت دین کی بنیاد ہے اور عہدے کی طلب کرنے والے کسی فرد کو موقع دینا سنت نبویؐ کے خلاف ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ سیکڑوں نمایندگان والی پارلیمنٹ میں ایسے تین چار افراد نےجو اپنے کردار کی بنا پر پہچانے جاتے ہوں، دوسری جماعتوں کی زیادہ تعداد پر اپنے اخلاقی اور اصولی موقف کی بنا پر کامیابی حاصل کی اور خصوصا ً ۱۹۷۳ء کے دستور کی مہم میں اور بعد میں سیاسی جدوجہد میں قلّت ِتعداد کے باوجود تحریک کے باصلاحیت، مخلص اور دیانت دار نمایندوں نے قومی سطح پر سیاسی فیصلوں کے باب میں کلیدی کردار ادا کیا۔اصل قوت، ایمان و کردار کی قوت ہے جو ہرمحاذ پر تحریک کو کامیاب کرتی ہے۔

  • معاشی فلاح و نجات:ملکی معیشت اور شہریوں کے معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ تحریک معاشی ماہرین کی مدد سے قرضوں سے نجات کا ایک قابل عمل منصوبہ قوم کے سامنے پیش کرے۔ اسے گلی گلی عام کرے ۔اس سلسلے میں بیرون ملک پاکستانیوں کو اپنا حصہ ڈالنے پر آمادہ کیا جائے اور ملک کے اندر سادگی اور اشیائے تعیش کے درآمد اور فروخت پر پابندی اور ملکی مصنوعات کے فروغ کے لیے تجارت اور زراعت دوست پالیسی قوم کے سامنے لائی جائے۔
  • جدید سائنسی ذرائع کا استعمال:آیندہ پانچ برسوں میں عالمی سطح پر مصنوعی ذہانت کے استعمال کے ذریعے صنعت و تجارت، تعلیم، ابلاغ عامہ اور معاشرت میں غیر معمولی تبدیلیوں کا امکان ہے۔تحریک کو ماہرین کی مدد سے مستقبل کے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے بغیر کسی تاخیر کے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو جدید علوم سے پیشہ ورانہ واقفیت رکھتے ہیں اور بیرونِ ملک یا ملک میں موجود ہیں ، انھیں خصوصی دعوت پر ایک مجلس فکری میں مدعو کر کے ایک جامع معاشی منصوبہ کو قوم کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ ہم قرضوں کی معیشت سے نکل سکیں۔
  • نوجوان قیادت کی ہمت افزائی:ملک کی ۷۰ فی صد کے لگ بھگ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جنھیں آیندہ ۵۰سال اس ملک میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہے۔ اس نعمت سے فائدہ اسی وقت اٹھایا جا سکتا ہے جب نوجوان تعلیم یافتہ افراد کو ایسی فکری غذا فراہم کی جائے جو ان امیں اعتماد ، پُر اُمیدی اور نظریہ پاکستان سے وابستگی پیدا کرنے کے ساتھ ان کی صلاحیتوں کو نشوو نما دے ۔اس غرض کے لیے نوجوانوں کے فکری حلقے، کھیلوں کے مقابلے اور اصلاحِ معاشرہ کے کاموں میں ان کی شرکت کے ذریعے ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو جلا بخشی جائے، تاکہ وہ آیندہ ۱۰برس میں تحریک کو بالغ نظر ،تصورِ پاکستان کے محافظ فراہم کر سکیں۔اس غرض سے ملک کی تمام جامعات میں تحریری اور تقریری مقابلوں، یوتھ اسمبلیوں اور خصوصاً فلسطین اور کشمیر پر ابلاغی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جائے، تو ایسے افراد کو باآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یہی نوجوان قیادت فراہم کریں گے۔
  • باحیا ثقافتی مہم: ملک کو درپیش سنگین اخلاقی خطرات میں سر فہرست ٹرانس جینڈر کے نام پر معاشرے میں بنیادی فساد و فحاشی پھیلانے کا عالمی منصوبہ شامل ہے جسے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں مغرب و مشرق میں عالمی معاشی اہداف SDG's کی شکل میں ۲۰۰ سے اوپر ممالک پر مسلط کیا جا رہا ہے ۔اس فتنے کو حقوق انسانی کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ وہ افراد اپنی جنس کا تعین خود کرنے کا حق استعمال کرتے ہوئے خواتین کے غسل خانے میں یہ کہہ کر گھس جائیں کہ   ان کے خیال میں وہ عورت ہیں، گو جسم مرد کا ہے۔ اسی طرح اَزدواجی نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے ان کا یہ حق تسلیم کیا جائے کہ وہ پیدائشی طور پر جس جنس کے ساتھ پیدا ہوئے انہیں اس کی مخالف جنس کہلانے کا حق ہے اور وہ جس طرح چاہیں اپنی جنسی تسکین کر سکیں۔اس تصور کو بچوں کے کارٹون ،بزرگوں کے ٹی وی مباحثوں ،پارلیمنٹ میں ان کی نمایندگی، حتیٰ کہ عدلیہ اور تعلیمی اداروں اور فوج میں ان کی نمایندگی کے بہانے اخلاق کے تمام الہامی اصولوں کو نظر انداز کر کے ایک اندھی لذت پرست اقلیت کو اللہ کی مخلوق پر مسلط کر نے کے منصوبہ پر عمل کیا جا رہا ہے ۔ اس فتنے کی مخالفت نہ صرف ملک گیر بلکہ عالمی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے، کہ تحریک ایک اصولی جماعت ہے اور اس کی بنا پر اگر انتخابات میں کچھ ووٹوں سے ہاتھ دھونے پڑیں تو اسے اس بات کو خوشی اور   فخر سے برداشت کرنا چاہیے۔
  • نظام صدقات و  انفاق فی سبیل اللہ:تحریک کو اپنی دستوری انتخابی مہم میں عوام کے سامنے ایک قابل عمل منصوبہ پیش کرنا چاہیے جسے ماہرین معاشیات تیار کریں اور جس میں اعداد و شمار کی مدد سے دکھایا جاسکے کہ اگر صرف زکوٰۃ،صدقات، قرضِ حسن اور انفاق فی سبیل اللہ کی مہم کو ایمانداری سے چلایا جائے اور زکوٰۃ کی رقوم کو قابل اعتماد ادارے وصول کریں اور تحقیق کی بنیاد پر مستحقین کو ان کا حق دیں، تو ملک کو درپیش معاشی مسائل کو بڑی حد تک حل کیا جاسکتا ہے اور ملک سے بے روزگاری، فاقہ کشی اور بہت سی اموات کو روکا جا سکتا ہے جو معاشی بدحالی کی بنا پر واقع ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب مدینہ اکنامکس ایک بڑی مفید پیش کش ہے، جو معاشی اصلاح کا ایک واضح نقشۂ کار پیش کرتی ہے۔
  • نوجوان رضاکاروں کی قوت:ملک میں نو عمر افراد کی ایک بڑی تعداد زندگی کے مقصد سے عدم آگہی ، صحیح رہنمائی اور صحیح تربیت نہ ہونے کی بنا پر بے راہ روی اور نشہ آور اشیا کے استعمال کی عادی بنتی جا رہی ہے ۔ان نوجوانوں کو اصلاح معاشرہ کے پروگرام میں بطور رضاکار شامل کر کے ان کی کونسلنگ اور ان کی قوت کارکردگی کو مثبت اور تعمیری کاموں میں لگا کر انھیں نشے اور دیگر اخلاقی خرابیوں سے بتدریج ایک نفسیاتی اور اسلامی حکمت عملی کے ذریعے نکال کر ایک بامقصد اور تعمیری زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھانے کی ضرورت ہے ۔ اس مقصد کو شہروں اور گاؤں میں نوجوانوں کے سوشل ورک کے ذریعے  حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تعلیم ، صفائی، صحت اور امداد باہمی کی مہم کے ذریعے بنیادی مسائل کے حل میں ان کی امداد کی جا سکتی ہے ۔ یہی نوجوان تحریک کو نیا خون اور ولولہ فراہم کریں گے۔
  • دستوری جدوجہد ، ووٹ کی حیثیت:تحریک کو ووٹ کی شرعی اہمیت اور ووٹ کے ذریعے اپنی آزاد رائے کا استعمال کرنے پر عوامی مہم چلانی چاہیے تاکہ لوگ انتخاب کی اہمیت سے آگاہ ہوں۔ ان میں یہ اعتماد پیدا ہو کہ اگر وہ کسی صحیح اور سچے امیدوار کے لیے ووٹ کا استعمال کریں گے تو ان کا یہ عمل دنیا اور آخرت میں اجر کے حصول کا ذریعہ ہوگا ،اور پر امن اصلاحی تبدیلی میں مددگار ہوگا۔
  • دین و سیاست:اس معاملے کو جہاں کہیں ضرورت ہو اٹھانا چاہیے کہ دین اور سیاست دو الگ دائرے نہیں ہیں۔ دین اور سیاست کے یک جا تصوّر سے عوام کو آگاہ کرنا ایک دینی فریضہ ہے ۔ یہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا عملی استعمال ہے ۔اس لیے پرانے نظام سے پیدا ہونے والی مایوسی کی جگہ پر اُمیدی کے ساتھ حق رائے دہی کو استعمال کیا جائے تاکہ ملک میں نظامِ عدل کے قیام کو یقینی بنایا جا سکے۔
  • صبر و تحمل اور  قولِ حسن کا اہتمام:سیاسی مہم میں عموما ًعقل پر جذبات غالب آجاتے ہیں، اس لیے تحریک سے وابستہ افراد کو خصوصاً اپنے ایک ایک لفظ کو سوچ سمجھ کر اور قرآن و سنت کے بتائے ہوئے اصولوں یعنی حُسنِ ظن، قول معروف ،شہادت حق اور اکرام مسلم کے پیش نظر وہ اسلوب اختیار کرنا چاہیے جو تحریک کی اصل پہچان ہے۔ماضی کے تلخ تجربات کو نظر انداز کرتے ہوئے تحریکی کارکنوں کو اُمید کے چراغ روشن کرنے اور رضائے الٰہی کے لیے جدوجہد کرنے میں نتائج سے بے پرواہ ہونے کے جذبہ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ تحریک دیگر شعبوں اور تنظیموں سے ممتاز ہو۔ اس جدوجہد میں اللہ تعالیٰ کے حضور راتوں کے لمحات میں اور دن کی روشنی میں ہر لمحہ استعانت کی درخواست ، استقامت کی دعا اور دین کی سربلندی کی استدعا کرنا ایک انتہائی اہم کام ہے۔اسباب و وسائل کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے لیکن اصل کامیابی دینے والا صرف اور صرف رب کریم ہے،اسی کی طرف رجوع کرنا اور اسی کی امداد طلب کرنا ہی تحریک کا شعار ہے۔
  • قومی انتخابات کا ناگزیر تقاضا:جماعت اسلامی وہ جماعت ہے جس نے اپنا مفصل منشور انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے پہلے ہی شائع کر دیا ہے۔ اس منشور میں جو پروگرام اور ہدف قوم کے سامنے رکھا گیاہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی بنیاد اسلامی نظریۂ حیات ہے اور اس کی ریاست اور معاشرے کی تعمیر کا اصل ہدف اسلامی نظریے کی روشنی میں زندگی کے ہرشعبے کی تشکیل و تعمیر نو ہے۔ یہی بات پاکستان کے دستور میں صاف الفاظ میں کہی گئی ہے اور اس کا ہر رکن اسمبلی حلف اُٹھاتا ہے۔ گوبدقسمتی سے اس سے سب سے زیادہ غفلت اور انحراف حکومتوں اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں ہی نے کیا۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ ووٹر ۸فروری ۲۰۲۴ء کو منعقد ہونے والے انتخابات میں اپنا ووٹ بہت سوچ سمجھ کر استعمال کریں اور ایک ایسی قیادت کو منتخب کریں جو ملک و ملّت کی حقیقی اسلامی تشکیل کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہو۔ آج اگر ووٹر اپنے اس حق کو ٹھیک ٹھیک استعمال نہیں کرتا تو حالات کو بدلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔

اسلامی نظریے کی تشکیل ہی کا یہ پہلو بھی ہے کہ ملک میں ایک جمہوری اور عوام دوست اور عوام کا معتمدعلیہ نظام قائم ہو جس میں انفرادی آزادی، انسانی حقوق کی پاسداری اور معاشرتی فلاح کا پورا اہتمام ہو۔ اس امر کا بھی پورا لحاظ رکھا جائے کہ ملک کے عسکری ادارے اور اسٹیبلشمنٹ اپنی تمام توانائیاں ملک کی سیکورٹی پر مرکوز کریں اور سیاست میں مداخلت سے مکمل اجتناب کریں۔ اسی طرح ملک کے جن علاقوں میں غربت، وسائل کی عدم فراہمی اور قومی سطح پر احساسِ محرومی کا احساس ہے، ان کی شکایات کو دُور کیا جائے اور انھیں قومی دھارے میں واضح کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس کے ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں معاشی اور سیاسی ہردواعتبار سے مکمل خودانحصاری (self-reliance) کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔ عالمی بلاکس سے اپنے کو آزاد رکھا جائے اور سب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر خارجہ اُمور کو طے کیا جائے۔ پاکستان کے لیے کشمیر کا مسئلہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی میں اسے مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے اور تحریک ِ آزادیٔ کشمیر کی ہرممکن مدد و معاونت کی جائے۔ عالمی سطح پر فلسطین کے مسئلہ اور اس کے منصفانہ حل کو بھی اُجاگر کرنے، اور خصوصیت سے اسرائیل کے مکمل عالمی معاشی بائیکاٹ کے لیے مؤثر کوشش کی جائے۔ان سب کے ساتھ ایک اہم مسئلہ ملک میں ہرسطح پر کرپشن کا سیلاب ہے جس نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ پاکستان میں عورتوں کو وہ تمام حقوق بلاکم و کاست دیئے جائیں، جو اسلام انھیں دیتا ہے، اور جن میں سے بیش تر سے وہ محروم ہیں۔ان تمام اُمور پر فوری توجہ وقت کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کا انحصار ۸فروری ۲۰۲۴ء کو ہونے والے الیکشن کے صاف و شفاف اور منصفانہ ہونے اور ووٹر کے اپنے حق کو صحیح صحیح استعمال کرنے پر ہے۔ ہم عوام سے اس فیصلہ کن مرحلے میں الیکشن میں بھرپور شرکت اور ووٹ کے استعمال کی اپیل کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں جماعت اسلامی کا کردار ملک گیر اور ہمہ پہلو ہونا چاہیے۔ اس کام کا مکمل نقشہ مرتب کیا جائے اور اس کو گھر گھر پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں کا بھرپور استعمال ازبس ضروری اور فیصلہ کن ہے۔

انبیائے کرام ؑکی بعثت ہوتی ہی اس زمانے میں ہے، جب کہ حق و باطل میں امتیاز، وحی الٰہی کی رہنمائی کے بغیر ناممکن ہوجاتا ہے اور عملاً تمام نظامِ زندگی، حق کی جگہ باطل کے قبضہ میں آچکتا ہے۔ ایسے زمانے میں حق صرف نبی کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ اس کے دائرے سے باہر حق کے کچھ اجزا تو پائے جاسکتے ہیں، لیکن پورے حق کا پایا جانا ناممکن ہے۔ اس وجہ سے اگر انبیائے کرام ؑ ابتدا ہی میں لوگوں کو اس طرح مخاطب کریں کہ ’’اے کافرو! ایمان لائو، اے مشرکو! توحید اختیار کرو‘‘، تو صورتِ واقعہ کے اعتبار سے ان کا یوں دعوت دینا بے جا نہیں ہوسکتا، کیونکہ واقعہ یہی ہے کہ ان کے دائرے سے باہر جو کچھ ہے وہ صرف کفروشرک ہی ہے۔

جن لوگوں نے حضرات انبیائے کرامؑ کی تاریخ پڑھی ہے، وہ جانتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کرتے بلکہ وہ لوگوں کو ’’اے انسانو! اے لوگو! اے میری قوم! اے اہل کتاب! اے وہ لوگو! جو یہودی ہوئے، اے وہ لوگو! جو نصرانی ہوئے، اے وہ لوگو! جو ایمان لائے‘‘ وغیرہ خطابات سے مخاطب کرتے ہیں اور ان کا یہی طرزِ خطاب اس وقت تک باقی رہتا ہے، جب تک قوم ان کو اپنی ضد اور ہٹ دھرمی اور حق دشمنی سے اس قدر مایوس نہ کردے کہ ان کے لیے قوم سے علیحدگی اور ہجرت کا وقت آجائے۔

جب قوم اپنی حق دشمنی میں اس حد تک آگے بڑھ جاتی ہے کہ اہل حق کا وجود اپنے اندر کسی طرح گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی اور تائید ِحق کی بڑی سے بڑی دلیل بھی اس کی ضد کے آگے بیکار ہوکے رہ جاتی ہے۔ اس وقت انبیائے کرامؑ اپنی قوم کو چھوڑتے ہیں اور یہی وقت ہوتا ہے کہ وہ صاف صاف الفاظ میں ان لوگوں کے لیے کافرومشرک وغیرہ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، جو اپنے کفروشرک پر اَڑے رہتے ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام  کا اُسوہ

یوں تو یہ حقیقت ہرنبیؑ کی دعوت میں واضح ہے،لیکن خصوصیت کے ساتھ حضرت ابراہیمؑ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مختلف مدارج پر جس شخص کی نظر ہوگی، وہ اس حقیقت کا کسی طرح انکار نہیں کرسکتا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے باپ کو، اپنی قوم کو اور اپنے عہد کے بادشاہ کو، جن الفاظ سے خطاب کیا ہے، ان میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ وہ مخاطب کو ایک کافرو مشرک کی حیثیت سے مخاطب کر رہے ہیں۔ لیکن جب دعوت و تبلیغ پر ایک مدت گزر گئی اور دلائل و معجزات کی ساری قوت قوم کی ضد کے مقابل میں نہ صرف بے اثر رہی بلکہ یہ ضد اس قدر بڑھ گئی کہ پوری قوم ان کی جان کے دَرپے ہوگئی۔ اس وقت انھوں نے قوم سے علیحدگی کا اعلان کیا اور ایسے الفاظ میں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قوم کے کفروشرک کے ساتھ رواداری کی جو آخری حد تک ہوسکتی تھی وہ اب ختم ہوچکی ہے، اور اب نہ صرف یہ کہ وہ ان کے کفروشرک کا اعلان کرنا چاہتے ہیں بلکہ قوم کے ساتھ اس وقت تک کے لیے اپنی نفرت و عداوت کا بھی اعلان کرنا چاہتے ہیں، جب تک وہ توحید پر ایمان نہ لائے:

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ فِيْٓ  اِبْرٰہِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ۝۰ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّـا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِـمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ (الممتحنہ ۶۰:۴) تمھارے لیے بہترین نمونہ تو ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھیوں میں ہے، جب کہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور ان سے، جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، بالکل بَری ہیں۔ ہم نے تمھارا انکار کیا اور ہمارے اور تمھارے مابین ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بیزاری آشکارا ہوگئی تاآنکہ تم اللہ وحدہٗ (لاشریک لہٗ) پر ایمان لائو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کا اُسوہ

ٹھیک یہی حال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا ہے۔ قربِ ہجرت سے پہلے کی کسی سورۃ میں بھی یہ بات نہیں مل سکتی کہ آپؐ نے اپنی قوم کو یا اہلِ کتاب کو صریح طور پر کافرومشرک یا منافق وغیرہ کے الفاظ سے مخاطب کیا ہو۔ بالکل ابتدائی سورتوں میں زیادہ تر خطاب یا تو يٰٓاَيُّہَا الْاِنْسَانُ کے الفاظ سے  يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ یا ، یَقْومِ  کے الفاظ ہیں۔ اسی طرح اہل کتاب کے لیے  يٰٓااَھْلَ الْکِتَابِ کے یا اس کے ہم معنی الفاظ ہیں۔ یہاں تک کہ منافقین کے لیے بھی فتح مکہ کے بعد تک وہی عام لفظ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا  کا استعمال ہوتا رہا اور صراحت کے ساتھ ان کو ’اے منافقو‘ کے الفاظ سے کہیں خطاب نہیں کیا گیا۔

 لیکن جب ایک مدت کی دعوت و تبلیغ کے بعد قوم پر اللہ کی حجت پوری ہوگئی اور نہ ماننے والوں نے نہ صرف یہ کہ مانا نہیں بلکہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کرلیا۔ اس وقت آپؐ نے ہجرت فرمائی اور کفّارِ قریش کو صاف صاف’اے کافرو‘ کے الفاظ سے مخاطب کیا گیااور ان سے اور ان کے دین سے اپنی علیحدگی کا اعلان کیا۔ اسی ہجرت کے موقعے پر یہ سورۃ نازل ہوئی جو قریش سے اعلانِ برأت بلکہ اعلانِ جنگ کی سورۃ ہے:

قُلْ يٰٓاَيُّہَا الْكٰفِرُوْنَ۝۱ۙ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ۝۲ۙ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۳ۚ وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ۝۴ۙ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ۝۵ۭ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ   دِيْنِ۝۶ۧ (الکافرون۱۰۹: ۱-۶) کہہ دو: اے کافرو! نہ میں پوجوں گا جن چیزوں کو تم پوجتے ہو اور نہ تم پوجنے کے جسے میں پوجتا ہوں اور نہ میں پوجنے والا ہوں جن کو تم نے پوجا۔ اور نہ تم پوجنے والے ہوئے جسے میں پوجتا آرہا ہوں۔ تمھیں تمھارا دین اور مجھے میرا دین۔

کافراور مرتکبِ کفر میں فرق

انبیائے کرام علیہم السلام یہ ساری احتیاط صرف اس حد تک برتتے ہیں۔ جہاں تک لوگوں کو کافر و مشرک قرار دینے کا معاملہ ہے، ان کے کافرانہ اور مشرکانہ اعمال کو کفروشرک قرار دینے میں انبیائے کرامؑ کبھی کوئی رعایت نہیں فرماتے۔ اس چیز میں اگر کسی وجہ سے وہ کوئی رعایت کرنا بھی چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو اجازت نہیں دی جاتی اور سخت سے سخت مخالف حالات کے اندر بھی ان کو یہی ہدایت کی جاتی ہے کہ کسی بات کو کفروشرک قرار دینے میں نہ وہ کسی خطرے کی پروا کریں اور نہ کسی مصلحت کا لحاظ کریں۔ اس کا سبب العیاذباللہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ لوگوں کو کافرو مشرک قرار دینا چاہتے ہیں۔ لیکن محض فتنے کے اندیشے یا اس خیال سے کہ لوگ دعوت سے بدک جائیں گے، ایسا کرنے سے احتراز کریں۔

اس طرح کی مصلحت پرستی ان کے ہاں جائز ہوتی تو کفّار جس طرح کے سمجھوتے کی تجویز پیش کیا کرتے تھے وہ بڑی آسانی سے ان کو منظور کرکے سارا جھگڑا ختم کرسکتے تھے۔ لیکن معلوم ہے کہ کسی پیغمبر علیہ السلام نے بھی دین کے بارے میں کبھی اس طرح کی مصلحت کا لحاظ نہیں کیا، خواہ اس کی وجہ سے اس کو کتنے ہی بڑے بڑے خطرات کا مقابلہ کیوں نہ کرنا پڑا ہو ۔ اس وجہ سے یہ سوال قابلِ غور ہے کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ کفروشرک کو کفروشرک قرار دینے کے معاملے میں جو لوگ اتنے بے پروا اور اتنے بے خوف تھے، انھوں نے کفروشرک کے مرتکبین کو کافرومشرک قرار دینے میں اتنی احتیاط کی اور ان سے برأت اور علیحدگی کے اعلان میں اتنی دیر لگائی؟

اس فرق کی دو وجہیں

ہمارے نزدیک انبیائے کرام علیہم السلام، کفروشرک کو کفروشرک قرار دینے کے باوجود ان کے مرتکبین کو کفروشرک قرار دینے اور ان سے اعلانِ برأت میں جو دیر لگاتے ہیں، اس کی دو نہایت اہم وجہیں ہیں:

  • پہلی وجہ:پہلی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بندوں کو جو کچھ سرزنش و ملامت ہے، وہ اتمامِ حجت اور تبلیغِ کامل کے بعد ہے۔اگر اتمامِ حجت اور تبلیغ کے بغیر لوگوں پر گرفت یا ان سے اظہارِ بیزاری جائز ہوتا توا للہ تعالیٰ انبیائے علیہم السلام کو مبعوث ہی نہ فرماتا۔ اس وجہ سے یہ ضروری ہوا کہ انبیائے کرامؑ لوگوں کو کافر قرار دینے اور ان سے اعلانِ برأت کرنے سے پہلے ان کو اتنا موقعہ دیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی حجت پوری ہوجائے۔ اور ان کے انکار کے لیے ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا کوئی اور وجہ باقی نہ رہ جائے۔ یہ کام ایک مدت کی تبلیغ و تعلیم کا محتاج ہے۔ انبیاؑ کے وقفہ کے زمانے میں جو تاریکی چھا جایا کرتی ہے، وہ اتنی سخت ہوتی ہے کہ اس کے اندر خواص کو بھی راہِ حق سُجھائی نہیں دیتی، چہ جائیکہ عوام کالانعام۔ اس وجہ سے ہرگروہ تعلیم و تبلیغ کا محتاج ہوجاتا ہے۔ چونکہ تمام گمراہیاں باپ دادا کی روایات بن کر دلوں میں رچ بس جاتی ہیں، اور ان کے ساتھ کچھ لوگوں کے اغراض بھی وابستہ ہوجاتے ہیں اس وجہ سے اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے مٹانے کے لیے ایک مدت تک جہاد کیا جائے۔ حضرات انبیائے کرامؑ پورے صبرواستقلال کے ساتھ ایک لمبی مدت تک اس جہاد میں سرگرم رہتے یہاں تک کہ حق اس قدر واضح ہوجاتا کہ ان لوگوں کے سوا جن کے باطل کے ساتھ اغراض وابستہ ہوتے تھے، کوئی ا س سے انکار نہیں کرسکتا۔ جب تبلیغ کا حق اس حد تک پورا ہوچکتا، تب انبیاؑکے لیے یہ بات جائز ہوتی کہ وہ منکرین کے کفروشرک کا اعلان کرکے ان سے علیحدہ ہوجائیں۔
  • دوسری وجہ:دوسری وجہ یہ ہے کہ جب پوری سوسائٹی کا نظام حق کی جگہ باطل کی بنیاد ہی پر قائم ہوکر چلنے لگ جاتا ہے تو اُن لوگوں کے لیے بھی حق کی پیروی ناممکن ہوجاتی ہے، جو حق کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت زندگی کے ہر گوشے میں فساد اس طرح گھس جاتا ہے کہ کسی محتاط سے محتاط آدمی کے لیے بھی یہ ممکن نہیں رہ جاتا کہ وہ فساد کے کچھ جراثیم نگلے بغیر سانس لے سکے۔ ایسی صورت میں اگر اس مجبوری کا لحاظ کیے بغیر انبیائے کرامؑ لوگوں پر کفروشرک کے فتوے جڑ کر ان سے براءت کا اعلان کردیتے تو یہ بہتوں پر نہایت شدید ظلم ہوتا۔ اس وجہ سے وہ تکفیر اور اعلانِ براءت سے اپنا کام شروع کرنے کے بجائے اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ ان کی تبلیغ و دعوت سے ایسا ماحول پیداہو کہ اس کے اندر اہل حق اپنے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔

یہ ماحول جب پیدا ہونے لگتا اور زندگی کی وہ راہ کھل جاتی، جس پر حق پرست چل سکتے ہوں، اگرچہ یہ [راہ] ابھی تنگ اور دشوار گزار ہی ہو۔ تب وقت آتا ہے کہ جو لوگ اس کو چھوڑ کر محض اپنی تن پروری اور جھوٹی نمایشوں کی خاطر باطل کی راہ پر بھاگے چلے جارہے ہیں، ان کے کفرکا بھی اعلان کردیا جائے اور ان سے علیحدگی بھی اختیار کرلی جائے۔

موجودہ حالات میں طریقۂ کار

حضرات انبیائے کرامؑ کے اس اسوئہ حسنہ سے اگر ہم موجودہ حالات میں رہنمائی حاصل کریں تو یہ امر بالکل واضح ہے کہ اس پوری دُنیا میں جو حالات ہیں وہ بہت سے اعتبارات سے انبیاؑ کے وقفہ کے زمانے سے اشبہ [اِشْبَاہ/مانند]ہیں۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب آج بے کم و کاست ہمارے اندر موجود ہے۔ اس وجہ سے اس وقت دُنیا کسی نبی کی ہدایت کی محتاج نہیں ہے اور نہ اب قیامت تک کسی نبی کی محتاج ہوگی، لیکن خلق کی رہنمائی اورمسلمانوں کو حق پر استوار رکھنے کے لیے ہمارا شرعی نظام، خلافت کا نظام تھا، جو ایک مدت سے درہم برہم ہوچکا ہے۔

اس وجہ سے اس وقت دُنیا جن خرابیوں اور گمراہیوں میں مبتلا ہوچکی ہے اس کے لیے وہ ایک بڑی حد تک معذور ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کے لیے اب دُنیا پر اتمامِ حجت کا فرض اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر ڈالا ہے اور اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ہی کی بتائی ہوئی صورت یہ ہے کہ مسلمان خلافت کا نظام قائم کریں، جو ایک طرف دُنیا کو نیکی اور بھلائی کے راستہ کی دعوت دے اور دوسری طرف امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے سے مسلمانوں کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھے۔ خلافت کا نظام قائم نہ رہنے کی وجہ سے ان دونوں باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی پوری نہیں ہورہی ہے بلکہ عملاً ساری دُنیا ایک باطل نظام کی گرفت میں آچکی ہے اور باطل ایسی قوت و شوکت کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے کہ حق کے لیے موجودہ نظامِ زندگی میں کوئی جگہ سرے سے باقی ہی نہیں رہ گئی ہے۔

نظامِ تعلیم، نظامِ تمدن، نظامِ معاشرت، نظامِ سیاست ہرچیز حق سے منحرف اور باطل کی مددگار ہے، یہاں تک کہ اس کے زیرسایہ اگر کوئی چھوٹا بڑا کام دین کے نام سے انجام دیا بھی جارہا ہے تو وہ بھی اس وقت کی فضا کی ناسازگاری کی وجہ سے باطل ہی کو تقویت پہنچارہا ہے۔ نیک سے نیک انسان، جو فی الحقیقت نیکی اور سچائی کے راستہ ہی پر چلنا چاہتا ہے، آج چند قدم بھی بغیر  مزاحمت کے حق کے راستے پر نہیں چل سکتا۔ اگر دُور والے اسے تھوڑی دیر کے لیے بخش دیتے ہیں تو قریب والے ہی اس سے اُلجھتے ہیں اور کسی طرح نہیں چاہتے کہ وہ اپنی منتخب کی ہوئی راہ میں دوقدم بھی آگے بڑھ سکے۔

حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایاکہ ’’بدی کی راہ فراخ ہے اور اس پر چلنے والے بہت ہیں، نیکی کی راہ تنگ ہے اور اس کے چلنے والے تھوڑے ہیں‘‘۔ یہ چیز آج آنکھوں سے مشاہدہ کی جاسکتی ہے۔ باطل کی منزل پر پہنچنے کے لیے فراخ سڑکیں ہیں، دو رویہ درختوں کا سایہ ہے، تیزرو سواریاں ہیں۔ حفاظت کے لیے بدرقہ ہے، ہرمنزل پر عیش و آرام ہے۔ آپ جس وقت چاہیں آرام سے منزلِ مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس حق کی راہ پہلے ہی قدم پر رُندھی ہوئی ہے۔ اگر آپ ہمت کرکے اس مزاحمت کو دُور کرلیں تو آگے کی راہ میں ہرقدم پر خطرہ ہے۔ یہاں تک کہ شروع سے لے کر آخر منزل تک خطرے کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔

ایسے نازک اور پُرآشوب ِ زمانہ میں یہ بات ذرا تعجب انگیز نہیں ہے کہ لوگ راہ سے بے راہ ہوگئے۔ تعجب انگیز اگر کوئی بات ہوسکتی ہے تو یہ ہوسکتی ہے کہ گمراہی کے اتنے سروسامان مہیا ہونے اور شیطان کے ایسے عالمگیر تسلط کے باوجود، خدا کے کچھ بندوں کو اللہ کا نام یاد رہ گیا ہے۔  یہ بے چارے داد کے مستحق ہیں نہ کہ ملامت کے اور سینہ سے لگالیے جانے کے لائق ہیں، نہ کہ کاٹ پھینکے جانے کے۔ جن لوگوں نے اتنے نامساعد حالات کے اندر اپنی شمع ایمان زندہ رکھی ہے، اگر ان کو موافق حالات میسر آتے تو وہ بہتر سے بہتر مسلمان ہوتے۔ اس وجہ سے ان کی غلطیوں اور غیرشعوری گمراہیوں یا اضطراری ضلالتوں کی بناپر ان کو ایمان سے محروم قرار دے کر ان سے نفرت کرنے کے بجائے اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ ان میں ایمان و اسلام کے صحیح مقتضیات کا شعور بیدار ہو۔

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے خاص مقصد کے تحت نبیوںؑ کو مبعوث فرماتا ہے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے اپنے نبیوںؑ کو بشیر و نذیر بنایا ہے۔ انھیں معلّم و مزکی کی حیثیت دی ہے۔ عدل و قسط قائم کرنا بھی ان کے مقصد ِ بعثت میں شامل ہے۔ ہدایت ِ الٰہی کے تحت پاک چیزوں کو حلال کرنا اور ناپاک چیزوں کو حرام کرنا بھی ان کا منصب ہے۔ غرض کہ نبی اپنی پوری زندگی انھی مرضیاتِ الٰہی کا پابند ہوتا ہے جن کی تفصیل قرآن میں بیان کردی گئی ہے۔

  • بعثتِ انبیاؑ کی غرض و غایت:انبیاؑ کی بعثت کا یہ مقصد قرآن میں کہیں متفرق طور سے بیان ہوا ہے اور کہیں جامع طور سے۔ یہاں سورئہ شوریٰ کی آیت پیش کی جارہی ہے جو دین کے جملہ گوشوں کو شامل ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ دین اور اس کی وسعت کیا ہے؟ نیز یہ کہ تمام انبیاؑ اس پورے دین کو قائم کرنے پر مامور تھے۔ اس تشریح سے ان شاء اللہ اس مغالطہ کا ازالہ ہوجائے گا جو دین کی تعریف اور اس کی تشریح کے بارے میں بعض ذہنوں میں پایا جاتا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ جب مسلمانوں کے تعلق سے لفظ ’دین‘ کا اصطلاحی لفظ استعمال فرماتا ہے تو اس سے مراد کیا ہوتی ہے؟ارشادباری تعالیٰ ہے:

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۝۰ۭ (شوریٰ۴۲: ۱۳) اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسٰی اور عیسٰیؑ کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو۔

اس آیت میں تین باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ دین کو قائم کرنا تمام انبیاؑ اور رسولوںؑ کی ذمہ داری رہی ہے۔ دوسری یہ کہ دین ہرزمانے میں ایک رہا ہے، اور تیسری بات یہ کہ اگر دین نہ قائم کیا گیا تو لوگ متفرق اور منتشر ہوجائیں گے۔

اس آیت میں ان جلیل القدر انبیاؑ کا نام لیا گیا ہے جن کو رسالت اور شریعت تفویض کی گئی تھی۔ابوالبشر حضرت آدمؑ کے بعد حضرت نوحؑ پہلے صاحب ِ شریعت نبی ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ ابوالانبیاؑ اور صاحب ِ کتاب نبی ہیں۔ بنواسماعیل اور بنواسرائیل دونوں کا سلسلۂ نسب آپ ہی تک پہنچتا ہے۔ آپ کی نسل سے بے شمار پیغمبر ہوئے جن کی ذات کو اللہ نے نُورِ ہدایت بنایا۔ حضرت موسٰی و عیسٰی ؑ بنی اسرائیل کے جلیل القدر انبیاؑ اور صاحبانِ کتاب و شریعت ہیں۔ حضرت عیسٰی ؑ نے واضح طور پر  یہ بات فرمائی ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب کو منسوخ کرنے آیا ہوں، منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین نہ ٹل جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے۔ پس جو کوئی ان چھوٹے چھوٹے حکموں میں سے کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کو سکھائے گا، وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گا۔ لیکن جو ان پر عمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائے گا‘‘ (متی۵: ۱۷ تا ۱۹)۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحب ِ کتاب و شریعت ہونا تو ہمارے ایمان کی اساس ہے۔

اللہ نے انسان کو خلیفہ بنایا ہے اور خلیفہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرے۔یہ تحکیم بالحق بھی دراصل اقامت ِ دین کا جزو ہے۔ اس طرح ثابت ہوا کہ حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیاؑ آئے وہ تمام کے تمام اللہ کی طرف سے اقامت ِ دین کے منصب پر مامور رہے ہیں۔

چونکہ دین اللہ کے نزدیک ایک ہی رہا ہے، اس لیے تمام انبیاؑ کے پیش نظر ایک ہی دین کا قیام مقصود تھا۔ لیکن جیساکہ ہم ابھی دیکھیں گے کہ دین میں شریعت بھی شامل ہے اور شریعتیں ہررسولؑ کی لازماً ایک نہیں تھیں۔ اس لیے عقائدو ایمانیات اور عبادات کے بعد جہاں شریعت کے نفاذ کا سوال پیدا ہوتا ہے، ہر نبیؑ اپنے زمانے کی شریعت پر عمل اور اس کو نافذ کرنے کا مکلف رہا ہے۔

مذکورہ آیت (شوریٰ۴۲:۱۳) کا تیسرا نکتہ یہ تنبیہ ہے کہ آپس میں متفرق نہ ہوجائو۔   اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ اگر دین قائم نہ کیا گیا تو لازماً لوگوں میں اختلاف پیدا ہوجائے گا۔فرمایا:

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ نَزَّلَ الْكِتٰبَ بِالْحَـقِّ۝۰ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِي الْكِتٰبِ لَفِيْ شِقَاقٍؚ بَعِيْدٍ۝۱۷۶ۧ (البقرہ ۲:۱۷۶) یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے تو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی، مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلافات نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دُور نکل گئے۔

وَاَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۴۶ۚ (الانفال ۸:۴۶) اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی، اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

  • اسلام ہی دین ہـے:اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دین قرار دیا ہے: اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۝۰ۣ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹)، اور یہی دین اللہ کے یہاں مقبول ہے کسی اور دین کی اللہ کے یہاں پذیرائی نہیں: وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ۝۰ۚ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۸۵ (اٰل عمرٰن ۳:۸۵)، اور اسی اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونے کا اہل ایمان سے مطالبہ کیا گیا ہے: يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً ۝۰۠ (البقرہ ۲:۲۰۸)۔ اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ دین کیا چیزہے؟
  • دین کا قرآنی مفہوم:دوسری بہت سی اصطلاحات کی طرح دین بھی ایک مخصوص قرآنی اصطلاح ہے۔ دراصل عربی زبان میں یہ لفظ بحیثیت مصدر کے استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں: حساب، ملکیت، قدرتِ حکم، مذہب، ملّت، حالت، عادت، سیرت، تدبیر، نافرمانی، گناہ، مجبوری، پرہیزگاری، فرماںبرداری، بدلہ، قہروغلبہ اور ذلّت وغیرہ۔ قرآن میں یہ لفظ مذکورہ معانی میں سے چند ایک معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے لیکن جہاں دین بحیثیت ایک عملی مطالبہ کے  قرآن میں مذکور ہے وہاں اس کا مفہوم ان تمام مفہومات کا جامع ہوا کرتا ہے جو خوشنودی اور رضائے الٰہی کا سبب ہوا کرتے ہیں اور مراد اس سے اسلام ہے۔ ورنہ تقصیرِ دین لازم آئے گی اور ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً ۝۰۠  کا حق ادا نہ ہوگا۔

لفظ ’دین‘ کا استعمال قرآن کریم میںاس کی مختلف حالتوں میں تقریباً اسّی بار ہوا ہے۔ ان تمام استعمالات میں انسان کے تمام انفرادی اور اجتماعی گوشوں کا احاطہ کرلیا گیا ہے۔ دین کا مفہوم متعین کرنے کے لیے ہم یہاں قرآن میں اس لفظ ’دین‘ کے استعمالات کو ایک ترتیب کے ساتھ بیان کررہے ہیں:

عقائد دین ہیں:قرآن میں دین کو عقیدہ کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے اور عقائد کے اجزاء کے طور پر بھی۔ ارشاد ہے:

لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۝۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۝۰ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۝۰ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۲۵۶  (البقرہ ۲:۲۵۶) دین کے معاملہ میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے)سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔

اس آیت میں اللہ پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ طاغوت سے کفر کا بھی مطالبہ ہے اور ساتھ ہی اس مضبوط سہارا کا واسطہ ہے جو اللہ پر عقیدہ رکھنے کی وجہ سے بندئہ مومن کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے والی آیت، آیت الکرسی ہے جس میں اللہ کی صفات بیان کی گئی ہیں جس سے یہ مفہوم برآمد ہوا کہ اللہ کو ان تمام صفات سے متصف ماننا ضروری ہے جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اللہ کی صفات کا قرآن میں جہاں جہاں تذکرہ آیا ہے، ان سب پر ایمان لانا دین کے مفہوم میں شامل سمجھا جائے گا۔ چونکہ ایسی آیات قرآن میں متفرق طور سے بہت جگہ پائی جاتی ہیں اس لیے ان کا احاطہ کرنا نہ یہاں ممکن ہے نہ مقصود۔ اس کی ابتدا سورئہ فاتحہ کی ابتدائی آیتوں سے ہوتی ہے اور انتہا سورئہ اخلاص پر ہوتی ہے:

قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَۃَ عَنْ يَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ۝۲۹ۧ (التوبہ ۹:۲۹) جنگ کرو اہل کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (اُن سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیںاور چھوٹے بن کر رہیں۔

اس آیت میں لفظ ’دین‘کی تشریح موجود ہے، یعنی ایمان باللہ، ایمان بالآخرت اور اللہ اور رسولؐ کا اختیار تشریع حِلّت و حُرمت کے تعلق سے۔ اسی وجہ سے یہاں لفظ دین ایک وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے جس میں عقائد اور اعمال دونوں کے اجزا شامل ہیں۔

مٰلِکِ یَوْمِ الدِّيْنِ۝۳ۭ   روزِ جزا کا مالک۔

روزِ جزا یعنی آخرت کے لیے لفظ دین کا استعمال قرآن میں بہت سی جگہ پر ہوا ہے، مثلاً :

وَالَّذِيْٓ اَطْمَــعُ اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْۗــــــَٔــتِيْ يَوْمَ الدِّيْنِ۝۸۲ۭ (الشعراء ۲۶:۸۲) اور جس سے میں اُمید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا۔

وَّ اِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَۃَ اِلٰى يَوْمِ الدِّيْنِ۝۳۵ (الحجر۱۵:۳۵) اور اب روزِ جزاتک تجھ پر لعنت ہے۔

وَقَالُوْا يٰوَيْلَنَا ھٰذَا يَوْمُ الدِّيْنِ۝۲۰ (الصّٰفّٰت۳۷:۲۰) اس وقت یہ کہیں گے ہائے ہماری کم بختی، یہ تو یومُ الجزا ہے۔

وَّاِنَّ  عَلَيْكَ   لَعْنَتِيْٓ    اِلٰى  يَوْمِ الدِّيْنِ۝۷۸ (ص۳۸:۷۸) اور تیرے اُوپر یوم الجزا تک میری لعنت ہے۔

قیامت یا آخرت عقائد اسلامی کے ارکانِ ثلاثہ میں سے ایک ہے:

مِنَ الَّذِيْنَ ھَادُوْا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَيَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَيًّۢا بِاَلْسِنَتِہِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّيْنِ۝۰ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ۝۰ۙ وَلٰكِنْ لَّعَنَھُمُ اللہُ بِكُفْرِہِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۴۶ (النساء۴:۴۶) جن لوگوں نے یہودیت کا طریقہ اختیار کیا ہے ان میں کچھ لوگ ہیں جو الفاظ کو ان کے محل سے پھیر دیتے ہیں، اور دین حق کے خلاف نیش زنی کرنے کے لیے اپنی زبانوں کو توڑ مروڑ کر کہتے ہیں: سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا اور اِسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ اور رَاعِنَا۔  حالانکہ اگر وہ کہتے: سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ،اوراِسْمَعْ اور اُنْظُرْنَا تو یہ انھی کے لیے بہتر تھا اور زیادہ راست بازی کا طریقہ تھا۔ مگر اُن پر تو اُن کی باطل پرستی کی بدولت اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے، اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔

اس آیت میں دین کا لفظ واضح طور پر ایمان بالرسالت کے لیے استعمال ہوا ہے کیونکہ یہود اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کا ایمان نہیں تھا اور اسی وجہ سے وہ آپؐ کی شان میں گستاخی کیا کرتے تھے۔ اسی کفر (انکار) کی بنا پر اللہ نے ان کے اُوپر لعنت فرمائی ہے۔

جب بنیادی طور سے عقائد کا دین ہونا ثابت ہوگیا تو اس کی جملہ تفصیلات پر جو قرآن میں دوسری جگہوں پر وارد ہوئی ہیں یا احادیث میں آئی ہیں، ایمان لانا دین کا لازمی تقاضا ہوگا، مثلاً:

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝۰ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَـتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ   ۝۰     ۣ   لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ     ۝۰ۣ (البقرہ ۲:۲۸۵) رسولؐ اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے ربّ کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے۔ اور جو لوگ اِس رسولؐ کے ماننے والے ہیں، انھوں نے بھی اِس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوںؑ کو مانتے ہیں، (اور کہتے ہیں کہ) ہم اللہ کے رسولوںؑ کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔

اس آیت میں اللہ و رسولؐ اور آخرت کے علاوہ فرشتوں اور تمام کتب سماوی پر ایمان لانا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے، اس لیے یہ تمام ایمانیات داخلِ دین ہیں۔

ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۝۲ۙ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِـمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۳ۙ (البقرہ ۲:۳) یہ کتابِ ہدایت ہے ان پرہیزگاروں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نمازقائم کرتے ہیں، اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

مندرجہ بالا آیت میں ایمان بالغیب کا ذکر ہے حالانکہ قیامت، آخرت، جنّت، دوزخ وغیرہ سب غیب ہی پر ایمان کے اجزا ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے غیب پر ایمان لانے کا ذکر الگ سے اس لیے فرمایا ہے کہ انسان کے لیے زندگی کے اور بہت سے حقائق غیب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیر پر ایمان لانا ضروری قرار دیا ہے:

لَا یُؤْمِنُ  عُبْدٌ  حَتّٰی  یُؤْمِنَ بالقدر خیرہٖ وشرہٖ  (الترمذی، باب ماجاءفی الایمان  بالقدر خیرھوشرہ، حدیث: ۲۲۹۴) (کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک خیروشر کی تقدیر پر ایمان نہ لائے)___ اس لیے تقدیر پر ایمان لانا بھی دین کا جز ہے بغیر اس کے ایمان کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔

  • عبادات، دین ہیں:عبادت کی جو تشریح گزر چکی ہے اس کی رُو سے اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت دونوں ہی عبادت میں شامل ہیں۔ یہاں عبادت سے مراد حقوق اللہ یا تعبدی احکام ہیں جن میں اللہ اپنے ساتھ کسی کی بھی شرکت گوارا نہیں کرتا۔ ارشاد ہوتا ہے:

قُلْ اِنَّنِيْ ہَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۝۰ۥۚ  دِيْنًا قِــيَمًا مِّلَّۃَ اِبْرٰہِيْمَ حَنِيْفًا۝۰ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْـرِكِيْنَ۝۱۶۱ قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۶۲ۙ لَا شَرِيْكَ لَہٗ ۝۰ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِـمِيْنَ۝۱۶۳ (انعام ۶: ۱۶۱-۱۶۳)    اے نبیؐ، کہو، میرے ربّ نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیمؑ کا طریقہ جسے یکسو ہوکر اس نے اختیارکیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ کہو، میری نماز، میری قربانی (تمام مراسمِ عبودیت) میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سراطاعت جھکانے والا مَیں ہوں۔

ان دو آیات میں اللہ ربّ العالمین نے دین کی جو منظرکشی کی ہے اس میں حضرت ابراہیمؑ کا پورا اسوہ باحسن طریق آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ جتنی بھی عبادتیں ہیں خواہ بدنی ہوں یا مالی سب دین کے اس دائرے میں شامل ہیں۔ بدنی عبادات میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج سبھی شامل ہیں۔ مزیدبرآں حنیفیت سے مراد اخلاص فی العبادت ہے اور یہ کہ انسان کو اللہ کے واسطے سب کچھ چھوڑ دینا ہے اور یہی اللہ کا سیدھا راستہ ہے:

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوۃَ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَۃِ۝۵ۭ (البینہ۹۸:۵) اور اُن کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں، اپنے دین کو اُس کے لیے خالص کرکے، بالکل یکسو ہوکر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ یہی نہایت صحیح و درست دین ہے۔

اس آیت میں لفظ دین کا استعمال دو بار ہوا ہے۔ ایک بار اخلاصِ عمل کے واسطے اور دوسری بار عبادت کے واسطے۔

معلوم ہوا کہ اللہ کی جملہ عبادات دین میں شامل ہیں لیکن ان عبادات میں شرک کا شائبہ بھی نہ ہونا چاہیے بلکہ پورے اخلاصِ عمل کے ساتھ ان کی ادائیگی ہونی چاہیے اور یہ اخلاصِ عمل اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتا جب تک اللہ کا اس کی جملہ صفات کے ساتھ استحضار نہ ہو اور اس کے رسولؐ پر تمام مناصب کے ساتھ ایمان نہ ہو کیونکہ یہ تمام کام جب تک رسولؐ کا نمونہ موجود نہ ہو انجام ہی نہیں دیئے جاسکتے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونہ بنایا گیا:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًا۝۲۱ۭ (احزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا اُمیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔

تمام انسان اپنے ایمان اور عمل میں یکساں نہیں ہوتے اور ذکر ِ الٰہی اور تلاوتِ کلام پاک پر عبادات کے اہتمام سے اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے جیساکہ ارشاد ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْہِمْ اٰيٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۝۲ۚۖ الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۳ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا۝۰ۭ لَہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ۝۴ۚ (انفال ۸:۲-۴) سچّے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر  لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان  بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے ربّ پر اعتماد رکھتے ہیں۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ اُن کے لیے ان کے ربّ کے پاس بڑے درجے ہیں، قصوروں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی چیز کو حدیثِ جبریل میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے جو بخاری، مسلم ، ترمذی،  نسائی، ابن ماجہ اورمسنداحمد بن حنبل  میں موجود ہے۔ ہم اس حدیث کو صحیح مسلم (کتاب الایمان، باب معرفۃ الایمان، حدیث:۳۴) کے حوالے سے جو صاحب ِ مشکوٰۃ نے نقل کی، درج کر رہے ہیں:

حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے: ہم ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے درمیان ایک شخص آیا، جس کے کپڑے بے انتہا سفید اور بال انتہائی سیاہ تھے۔ اس کے اُوپر سفر کا کوئی اثر نہیں تھا اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا نہیں تھا یہاں تک کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا۔ اپنے دونوں گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا لیے اور اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے زانو پر رکھ لیں اور کہا: اے محمدؐ! مجھے اسلام کے بارے میں بتلایئے۔

آپؐ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور رمضان کے روزے رکھے اور اگر استطاعت نصیب ہو تو بیت اللہ کا حج کرے۔

اس نے کہا کہ آپؐ نے سچ فرمایا۔ ہمیں یہ بات عجیب لگی کہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی تصدیق کرتا ہے۔

 پھر اس نے پوچھا: مجھے ایمان کے بارے میں بتلایئے۔

آپؐ نے فرمایا: یہ کہ تو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی (نازل کردہ تمام) کتابوں پر اور اس کے (بھیجے ہوئے تمام) رسولوںؑ پر اور آخرت کے دن پر اور یہ کہ تو ایمان لائے خیر اور شر کی تقدیر پر۔

اس نے (پھر) کہا آپؐ نے سچ فرمایا۔پھر پوچھا: مجھے احسان کے بارے میں بتلایئے۔

آپؐ نے فرمایا کہ یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت (اس حضورِ قلب کے ساتھ) کرے کہ (گویا) تُو اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر ایسا نہ کرسکے تو (اس طرح گویا) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔

اس نے پوچھا: مجھے قیامت کے بارے میں خبر دیجیے۔

آپؐ نے فرمایا: جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اس بارے میں سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔

اس نے کہا: مجھے اس کی نشانیوں کی خبر دیجیے۔

آپ ؐنے فرمایا: (تو دیکھے گا کہ) لونڈی اپنے مالک کو جنے گی اور تو دیکھے گا کہ عریاں بدن ننگے پیروں والے بکریوں کے مفلس چرواہے اپنی عمارتوں کی بلندی پر فخر کریں گے۔

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ شخص چلا گیا۔ پھر ہم تھوڑی دیر ٹھیرے رہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: اے عمرؓ! کیا تم جانتے ہو کہ سائل کون تھا؟

میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسولؐ زیادہ واقف ہیں۔

آپؐ نے فرمایا کہ یہ جبرئیلؑ تھے، تمھارے پاس تمھارے دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔

اس طویل حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت واضح طور پر ایمانیات اور عبادات کو دین قرار دیا ہے۔ نیز یہ بھی کہ یہ تعلیم خود اللہ کی طرف سے ہے اور اس میں جبرئیلؑ واسطہ ہیں۔

عقائد اور عبادات  دین کی بنیاد ہیں

اسی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عقائد اور عبادات کو دین کی بنیاد قرار دیا ہے۔ بخاری، مسلم، ترمذی،نسائی اور امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں یہ روایت درج کی ہے۔ ہم یہ حدیث بھی صاحب ِ مشکوٰۃ کے حوالے سے نقل کر رہے ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ۔ اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمدؐ اس کے بندے اور رسولؐ ہیں، اور نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔(بخاری، کتاب بدء الوحی،باب قول النبیؐ بنی الاسلام، حدیث:۹؛ مسلم، کتاب الایمان، باب قول النبیؐ بنی الاسلام علٰی خمس، حدیث: ۳۴)

  • حقوق العباد بھی دین ہـے:ہم دیکھ چکے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عقائد اور عبادات کو جو اللہ کا حق ہے دین قرار دیا ہے لیکن اللہ نے قرآن کریم میں اپنے حق سے متصلاً بعض حقوق العباد کا ذکر بھی کیا ہے۔ ان میں سرفہرست والدین کا حق ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عبادات کے علاوہ حقوق بھی دین میں شامل ہیں کیونکہ عبادت تو اللہ کے علاوہ کسی کی جائز ہی نہیں ہے کیونکہ حقوق کے معاملے میں اللہ تعالیٰ بندوں کے حقوق کو نظرانداز نہیں کرتا۔ ذیل میں ہم صرف ایک آیت نقل کرتے ہیں جس سے بندوں کے حقوق پر روشنی پڑتی ہے:

وَاعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْـرِكُوْا بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۝۰ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرَۨا۝۳۶ۙ (النساء۴:۳۶) اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آئو، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمھارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے۔

اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللہِ يَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَيْہِ يُرْجَعُوْنَ۝۸۳ (اٰل عمرٰن ۳:۸۳) اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چاروناچار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم) ہیں اور اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟

غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے جتنی چیزیں پیدا فرمائی ہیں، ان کی زندگی کا ایک قانون مقرر کردیا ہے۔ یہ قانون تکوینی بھی اور تشریعی بھی۔ قانون تکوینی کی مثال ہماری نگاہوں کے سامنے پھیلی ہوئی پوری کائنات ہے۔ اللہ نے اشیائے کائنات کا جو نظام مقرر کردیا ہے، اسی نظام پر وہ عمل پیرا ہیں۔ نہ تو سورج، چاند کو پکڑنے کی قدرت رکھتا ہے اور نہ رات ہی کو دن پر سبقت حاصل ہوسکتی ہے۔ ہر ایک کی گردش اپنے ہی مدار میں ہے (یٰس۳۶:۴۰)۔ انسان کے تمام اعضاء و جوارح بھی اسی بنیاد پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسی قانون تکوینی سے قانونِ تشریعی پر استدلال فرماتا ہے کہ جب آسمان و زمین (اور اس کی تمام مخلوقات) اللہ کے ایک لگے بندھے طریق زندگی میں جکڑی ہوئی ہیں تو تشریعی زندگی کے بارے میں کیسے تم سمجھ لیتے ہو کہ تم آزاد ہو؟ جس طرح تمام موجوداتِ عالم کی تکوینی زندگی ایک دین میں جکڑی ہوئی ہے، تمھاری تشریعی زندگی کو بھی اللہ نے ایک (الہامی) قانون کے تابع کردیا ہے۔

  • حِلّت و حُرمت کا قانون دین ہـے:عقائد اور عبادات کے بعد اللہ تعالیٰ نے جس چیز پر سب سے زیادہ زوردیا ہے وہ اشیا کی حِلّت و حُرمت ہے۔ مشرکین مکہ کے حلّت و حُرمت کے اپنے خودساختہ قوانین تھے۔ ایسے ہی یہودیوں نے اللہ کی نازل کی ہوئی شریعت میں اپنی مرضی اور خواہش سے بہت کچھ کتربیونت کرلی تھی۔ مسیحیت میں دین نے خود کو قانون حِلّت و حُرمت ہی سے آزاد کرلیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو نہ صرف دین میں شامل فرمایا بلکہ کسی بھی چیز کو حرام و حلال کرنے کا حق بھی اپنے لیے مخصوص فرمایا۔ اس بارے میں رسولؐ کو جو آزادی عطا فرمائی گئی وہ دراصل تشریح و تبیین کی تھی۔ بندوں میں سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اللہ کی (یا اس کی متابعت میں رسولؐ کی) حلال کی ہوئی کسی چیز کو حرام یا حرام کی ہوئی کسی چیز کو حلال قرار دے۔

سورئہ مائدہ کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے گھاس چرنے والے چوپایوں (بَھیْمَۃُ الْاَنْعَامِ) کو انسانی غذا کے لیے حلال قرار دیا ہے لیکن ان میں سے چند چیزوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے بقیہ کو حرام قرار دے دیا ہے۔ ارشاد ہے:

تم پر حرام کیا گیا مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلاگھٹ کر، یا چوٹ کھاکر ،یا بلندی سے گر کر، یا ٹکرکھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو___ سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا___ اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی تمھارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو ۔ یہ سب افعال فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمھارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہوچکی ہے، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔(المائدہ۵:۳)

ان لوگوں نے اللہ کے لیے خود اُسی کی پیدا کی ہوئی کھیتیوں اور مویشیوں میں سے ایک حصہ مقرر کیا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے لیے ہے، بزعمِ خود، اور یہ ہمارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے۔ پھر جو حصہ ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا مگر جو اللہ کے لیے ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے۔ کیسے بُرے فیصلے کرتے ہیں یہ لوگ! اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کے قتل کو خوش نما بنادیا ہے، تاکہ ان کو ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنادیں۔ اگر اللہ چاہتا تو یہ ایسا نہ کرتے، لہٰذا انھیں چھوڑ دو کہ اپنی افتراپردازیوں میں لگے رہیں۔ کہتے ہیں یہ جانور اور یہ کھیت محفوظ ہیں، انھیں صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جنھیں ہم کھلانا چاہیں حالانکہ یہ پابندی ان کی خودساختہ ہے۔ پھر کچھ جانور ہیں جن پر سواری اور باربرداری حرام کردی گئی ہے اور کچھ جانور ہیں جن پر اللہ کا نام نہیں لیتے، اور یہ سب کچھ انھوں نے اللہ پر افترا کیا ہے، عنقریب اللہ انھیں  ان افترا پردازیوں کا بدلہ دے گا۔ اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹ میں ہے، یہ ہمارے مردوں کے لیے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام، لیکن اگر وہ مُردہ ہو تو دونوں اس کے کھانے میں شریک ہوسکتے ہیں۔ یہ باتیں جو انھوں نے گھڑ لی ہیں ان کا بدلہ اللہ انھیں دے کر رہے گا۔ یقینا وہ حکیم ہے اور سب باتوں کی اسے خبر ہے۔(الانعام ۶:۱۳۶-۱۳۹)

اسلام نے کافروں کی خودساختہ شریعت کی حلّت و حُرمت کو تسلیم نہیں کیا۔ اسی طرح یہودیوں نے اپنی شریعت میں جو تنگی پیدا کرلی تھی، اسے بھی اس نے سند ِ جواز نہیں عطا کی بلکہ اللہ نے اس بارے میں اپنا قانون واضح طور سے نازل فرمایا اور اسے دین قرار دیا۔ پھر یہ فرمایاکہ آج کافر تمھارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں (المائدہ ۵:۳)۔نیز یہ کہ شیطان نے مشرکین کے لیے ان کے دین (قانونِ حلال و حرام) کو مشتبہ کردیا ہے۔ (الانعام ۶:۱۳۷)

گھر سے آگ کی لپٹیں اٹھ رہی ہوں، والدین، بیوی بچے، بھائی بہن سب جھلس رہے ہوں اور کوئی شخص دور محلے کے کسی گھر میں لگی آگ بجھانے میںمشغول ہو،تو آپ اسے کیا کہیںگے؟ بیوقوفی؟ پاگل پن؟ جہالت؟ اب صورت حال ذرا بدل کر غور کرتے ہیں۔ گھر سے آگ کی لپٹیں اُٹھ رہی ہوں، گھر والے جھلس رہے ہوں اور کوئی شخص ملک بھر کے دورے کرکے آگ بجھانے کی ترکیبوں پر تقریریں کرتا پھرے، تو اسے آپ کیا کہیں گے؟ کاہلی؟ بزدلی؟ یا ذمہ داری سے فرار؟ یہ حرکت کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ کیوں نہ انجام دی جائے، اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص تہجد پڑھنے کے لیے فجر قضا کرنے کو اپنا معمول بنالے۔ یقینا ایسے شخص کو یہی مشورہ دیاجاسکتا ہے کہ ہوسکے تو وہ تہجد اور فجر دونوں کو نبھالے یا پھر تہجد ترک کردے۔

اسلام دینِ فطرت ہے جس میں کوئی ایچ پیچ نہیں ہے اور اس کی حکمتیں بے شمار ہیں۔ وحی الٰہی کی نگرانی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں ہمیں جو تدریج نظرآتی ہے، وہ بھی حکمتوں سے لبریز ہے۔ ختمِ نبوت سے سرفراز کیے جانے کے بعد آپؐ نے سب سے پہلے اپنے قریب ترین لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا۔ پھر خاندان اور قبیلے والوں تک دین کا پیغام پہنچایا اور پھر اہل مکہ کو عمومی دعوت دی۔ اس کے بعد مختلف قبائل تک اسلام کا پیغام پہنچایا، طائف کا سفر کیا اور مدینہ میں اسلام کا پودا لگایا۔ ہجرت کے بعد دعوت کاپیغام جزیرۂ عرب کے کونے کونے تک پہنچانے کااہتمام کیا،  جس کے لیے متعدد دعوتی وفود بھیجے گئے۔ بالآخر دعوتی خطوط کے ذریعے عالم گیر پیمانے پروقت کی عظیم سلطنتوں کو اسلام کے سایۂ عاطفت میں آجانے کی تلقین کی گئی۔

بعض لوگوں کاخیال ہے کہ آپؐ نے کسی اسلامی ریاست کے قیام یا اسلامی نظام کی اقامت کے لیے شعوری کوشش نہیں کی تھی بلکہ اقتدار بطورِ انعام خود بخود ’نازل‘ ہوگیاتھا۔ بالکل اسی طرح بعض لوگ مندرجہ بالا تدریج کو بھی محض اتفاقی امر سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اس کی حکمتوں پرغور کرنا انتہائی آسان ہے۔ مثال کے طورپر دعوت کی اس نبویؐ ترتیب کو اُلٹ دیاجائے اور دعوت کی ابتدا مختلف بادشاہوں کو خطوط بھیجنے سے ہوتو اس کے غیرمنطقی ہونے پر شاید کسی کو تعجب نہ ہو۔ لیکن پتے کی بات تو یہ ہے کہ اگر ایک مرحلے سے پہلے دوسرا مرحلہ آجائے تو یہ بھی کچھ کم نقصان دہ نہیں۔ مثال کے طورپر قریب ترین اور ہمراز لوگوں کو پیغام دینے سے پہلے اگر خاندان اور قبیلے والوں کو دعوت دی جاتی یا خاندان اور قبیلے والوں سے قبل سارے شہر مکہ کو، تو کیا ہوتا؟پہلی صورت میں داعی اعظم ؐ اس اخلاقی تعاون سے محروم ہوجاتے جو حضرت خدیجہؓ،حضرت ابوبکرؓ، حضرت زیدؓاور حضرت علیؓ کی صورت میں آپؐ کو ملا۔ پھر دنیا بھر کی مخالفتوں پر آپؐ کے زخمی دل پر کون مرہم رکھتا؟ بھری محفل میں انتہائی دلگداز انداز میں یہ پوچھنے پر کہ ’کون میرا ساتھ دے گا؟‘ آخر کون اٹھتاکہ ’اللہ کے رسولؐ میں آپ کاساتھ دوںگا‘۔

اسی طرح سامنے کی بات ہے، رشتے داروں میں بھی عام طورپر شادی کا پیغام نہ پہنچنے پر باوجود جاننے کے لوگ شریک نہیں ہوتے کہ بھئی ہمیں تو دعوت نہیں دی گئی۔ خاندان کے معاملے میں دین کا قصہ یہی ہے۔ جب مکہ بھر میں اسلام کاآواز ہ گونج اُٹھتا اور بیرونی ذرائع سے ﴿نہ کہ آپؐ کے ذریعے آپؐ کے خاندان کو اس کی خبر لگتی، تو خاندان بھر کو شکایت ہوتی کہ ہم یہ کیسی اجنبی صدا سن رہے ہیں، آپؐ نے ہمیں تو اس کے بارے میں کبھی بتایا نہیں، اور نہ ہمیں اعتماد میں لیا؟

آپؐ کے اسوے پر چل کر دنیا میں شہادتِ حق کا فریضہ انجام دینے والوں اوراقامتِ دین کی راہ پر چلنے والوں کے لیے تو اس اسوے پر چلنا ناگزیرہے۔ جملۂ معترضہ کے طورپر یہ عرض ہے کہ مراحل کی اس تقسیم میںتسلسل پایا جاتاہے اورقرآن میں ایک نہیں متعدد مقامات پر اہلِ ایمان کو اپنے خاندان کی اصلاح کی طرف متوجہ کیاگیا ہے اور کہیں کہیں اندازِ بیان اتنا خوف ناک ہے کہ دل دہل جاتاہے: ’’اپنے قریب ترین رشتے داروں کو ڈراؤ‘‘۔(الشعراء۲۶:۲۱۴﴾)

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اپنے دادا کی اولاد کو جمع کرکے خطاب فرمایا: ’’اے بنی عبدالمطلب! اے عباس، اے صفیہ ﴿آپؐ کی پھوپھی ﴾ اور اے فاطمہؑ بنت محمدؐ! تم لوگ آگ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کرلو، میںخدا کی پکڑ سے تم کو نہیں بچاسکتا۔ البتہ میرے مال میں سے تم جو چاہو مانگ سکتے ہو‘‘۔ پھر کوہ صفاپر، یاصباہ حاہ  کی صدا بلند فرمائی اور قریش کے ہر قبیلے کو نام بنام آواز دی۔ جب سب جمع ہوگئے تو دریافت کیاکہ ’’اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کی دوسری جانب ایک بھاری لشکر ہے جو تم پر ٹوٹ پڑنا چاہتا ہے تو کیا تم یقین کروگے؟‘‘ لوگوں نے یک زبان ہوکر کہاکہ ’’ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے ہوئے پایا ہے‘‘۔ ان سے یہ اقرار کرالینے کے بعد آپؐ نے کہا: ’’اچھا تو میں خدا کا سخت عذاب آنے سے پہلے تم کو خبردار کرتا ہوں۔ اپنی جانوں کو اس کی پکڑ سے بچانے کی فکر کرو۔ میں خدا کے مقابلے میں تمھارے کسی کام نہیں آسکتا۔ قیامت میں میرے رشتے دار صرف متقی ہوں گے۔ ایسا نہ ہوکہ دوسرے لوگ نیک اعمال لے کر آئیں اور تم دنیا کا وبال سر پر اٹھائے ہوئے آؤ۔ اس وقت تم پکاروگے:’’یا محمدؐ! مگر میں مجبور ہوںگا کہ تمھاری طرف سے منہ پھیرلوں۔ البتہ دنیا میں میرا اور تمھارا خون کا رشتہ ہے اور یہاں میں تمھارے ساتھ ہر طرح کی صلہ رحمی کروںگا‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اپنے اہل وعیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو۔( طہٰ۲۰:۱۳۲﴾)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔(التحریم۶۶: ۶)

مولانا مودودیؒ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ نظامِ فطرت نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اس پر ڈالا ہے، اس کو بھی وہ اپنی حدِاستطاعت تک ایسی تعلیم وتربیت دے جس سے وہ خدا کے پسندیدہ انسان بنیں، اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جارہے ہوں تو جہاں تک اس کے بس میں ہو، ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے۔ اُس کو صرف یہی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے بال بچے دنیا میں خوش حال ہوں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اسے یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کاایندھن نہ بنیں‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۶،ص ۲۹-۳۰)

 نعیم صدیقی لکھتے ہیں: ’’قرآن کریم کے طالب علم کی توجہ اس امر پر بھی جانی چاہیے کہ یہ سورۂ تحریم کی آیت تھی، جس کے شروع میں ازواجِ مطہراتؓ کی طرف سے ایک طرح کی محاذ آرائی کرکے دباؤ ڈالنے کی کوشش کا ذکر ہے۔اسی واقعے کو پس منظر میں رکھ کر مسلم سوسائٹی کو خصوصی توجہ دلائی گئی کہ اگرتم اپنے گھروں کی فضا کو دین کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ نہ کرلوگے تو تمھارے نظامِ معاشرت میں خلل آجائے گا اور تمھارے گھروں میں ہی مخالفانہ محاذ قائم ہوجائیں گے، جو تمھاری قوتوں کو اپنی طرف متوجہ کرکے تمھیں دشمنوں اور شریروں کی سرکوبی کے قابل نہیں چھوڑیں گے‘‘۔

جان رکھو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمائش ہیں۔(الانفال ۸:۲۸﴾)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھاری بیویوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، اُن سے ہوشیار رہو… تمھارے مال اور تمھاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں۔(التغابن۶۴:۱۴-۱۵﴾)

ان آیات کی تفسیر میںمولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:

ہوتایہ ہے کہ شوہر اگر نیک اور ایماندار ہے تو بیوی اور اولاد اُسے ایسی ملتی ہے جو اس کی دیانت و امانت اور راست بازی کو اپنے حق میں بدقسمتی سمجھتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ شوہر اور باپ اُن کی خاطر جہنم مول لے اور ان کے لیے حرام و حلال کی تمیز چھوڑکر ہرطریقے سے عیش و طرب اور فسق و فجور کے سامان فراہم کرے۔ اور اس کے برعکس بسااوقات ایک نیک مومن عورت کو ایسے شوہر سے سابقہ پیش آتاہے، جسے اس کی پابندیٔ شریعت ایک آنکھ نہیں بھاتی، اور اولاد بھی باپ کے نقشِ قدم پر چل کر اپنی گمراہی اور بدکرداری سے ماں کی زندگی اجیرن کردیتی ہے۔ پھر خصوصیت کے ساتھ جب کفرو دین کی کش مکش میں ایک انسان کے ایمان کا تقاضا یہ ہوتاہے کہ اللہ اور اس کے دین کی خاطر نقصانات برداشت کرے، طرح طرح کے خطرات مول لے، ملک چھوڑکر ہجرت کرجائے، یا جہادمیں جاکر اپنی جان تک جوکھوں میں ڈال دے، تو سب سے بڑھ کر اس کی راہ میں اس کے اہل وعیال ہی رکاوٹ بنتے ہیں۔(تفہیم القرآن، ج۵، ص۵۴۴)

انبیاؑ نے اپنے بیوی بچوں کی ذمہ داری کو واقعی آزمائش سمجھاتھا اور ان کی اصلاح وتربیت سے ہرگز غافل نہیں تھے۔ احساسِ ذمہ داری اور احساسِ جواب دہی کی حد یہ تھی کہ بسترِ مرگ پر بھی بے چین تھے۔ ارشاد خداوندی ہے:

جب یعقوبؑ کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے بچوں سے پوچھا:بچّو! میرے بعد تم کس کی بندگی کروگے؟(البقرہ۲:۱۳۲﴾)

قرآن کریم میں اپنے بچوں کے لیے حضرت ابراہیمؑ کی یہ وصیت بھی محفوظ ہے:

میرے بچو! اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند کیا ہے، لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا۔(البقرہ۲:۱۳۱﴾)

 اورلقمان حکیم کی یہ نصیحت بھی :

بیٹا! خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا… وہ باریک بین اورباخبر ہے۔ بیٹا! نماز قائم کر، نیکی کاحکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر… اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر، نہ زمین میں اکڑکرچل… اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ۔(لقمان۳۱:۱۳-۱۹﴾)

خاندان میں دعوت کاکام واقعی کوئی کھیل نہیں، طرح طرح کی رکاوٹوں کاسامنا ہوسکتاہے۔ انسان کو تعلقات کے بگاڑ اور طعنوں کااندیشہ ہوتاہے۔ پہلی بار جھجک محسوس ہوتی ہے، لیکن اس ذمہ داری سے فرار ممکن نہیں۔ مولانا سیّد جلال الدین عمری کہتے ہیں:

روایات سے معلوم ہوتاہے کہ جب آیت وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۝۲۱۴ۙ  (الشعراء ۲۶:۲۱۴) نازل ہوئی تو آپؐ نے محسوس کیاکہ بڑی مشکل ذمہ داری آپؐ پر آن پڑی ہے۔ خاندان کی طرف سے اور قریب ترین افراد کی طرف سے اس کی مخالفت ہوسکتی ہے، لیکن اللہ کے فرشتے جبرئیلؑ نے کہاکہ آپ کو اس حکم پر لازماً عمل کرنا ہوگا، ورنہ اللہ کے ہاں بازپُرس ہوگی۔ اس حکم کے آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر قبیلے کی مختلف شاخوں میں سے ایک ایک کا نام لے کر انھیں جمع کرکے دعوتِ دین پیش کی۔

  • اہلِ خانہ کی تربیت کے عملی تقاضے: اب تک جو باتیں کہی گئیں، ان کی روشنی میں اگر ہم اپناجائزہ لیں تو بہت کچھ کمیوں کا احساس ہوتاہے، جنھیں نظرانداز کرنا مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے ایک واقعہ درج کرتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے: ایک شناسا اور تحریک اسلامی کے سرگرم کارکن سے سرِراہ ملاقات ہوگئی۔ کچھ گفتگو کے بعد میں نے ان سے عرض کیا: ہماری طلبہ تنظیم کا ایک تزکیہ کیمپ ہونے والا ہے، اس میں وہ اپنے بیٹے کو ضرور بھیجیں۔  یہ سنتے ہی انھوںنے ہاتھ کھڑے کرلیے: ’آپ خود کیوں نہیں کہتے؟‘ میں نے کہاتھا ’لیکن مجھے یقین ہے کہ ہر بار کی طرح صرف میرے کہنے پر وہ نہیں آئے گا، آپ اس کے ابّا ہیں، آپ کہیںگے تو وہ نہیں ٹالے گا‘۔ جواب میں فرمانے لگے: ’بھئی میں اس قسم کی باتیںاس سے نہیں کرتا،ایک نہ ایک دن اسے سمجھ آہی جائے گی۔ ویسے بھی دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی تو ہے نہیں، لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ۔ میں نے عرض کیا: ’زبردستی کرنے کو کب کہہ رہاہوں؟ صرف  یہ کہہ رہاہوں کہ آپ صرف ایک بار اچھی طرح کہہ کر دیکھیں‘۔ مگر اُن صاحب نے بات ٹال دی۔ لیکن اصرار پر انھوں نے بیٹے سے کہہ ہی دیا۔ نتیجہ یہ کہ بیٹے نے ﴿اپنے والد کے کہنے پر اس تزکیہ کیمپ میں شرکت کی اور اس کے بعد سے پابندی سے ہماری سرگرمیوں میں حصہ لینے لگا۔

اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۝۲۱۴ۙ  کے ضمن میں مولانا مودودیؒ کا یہ تفسیری نوٹ بھی ملاحظہ فرمایئے: ’’معاملہ صرف اس حد تک نہیںتھاکہ قرآن میں اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۝۲۱۴ۙ   کا حکم آیا اور حضوؐر نے اپنے رشتے داروں کو جمع کرکے بس اس کی تعمیل کردی۔ دراصل اس میں جواصول واضح کیاگیاتھا وہ یہ تھاکہ دین میں نبی اور اس کے خاندان کے لیے کوئی امتیازی مراعات نہیں ہیں جن سے دوسرے محروم ہوں۔ جو چیز زہرِ قاتل ہے وہ سب ہی کے لیے قاتل ہے۔ نبی کا کام یہ ہے کہ سب سے پہلے اس سے خود بچے اور اپنے قریبی لوگوں کو اس سے ڈرائے، پھر ہر خاص و عام کو متنبہ کردے کہ جو بھی اسے کھائے گا، ہلاک ہوجائے گا۔ اور جو چیز نافع ہے وہ سب ہی کے لیے نافع ہے، نبی کا منصب یہ ہے کہ سب سے پہلے اسے خود اختیار کرے اور اپنے عزیزوں کو اس کی تلقین کرے،تاکہ ہر شخص دیکھ لے کہ یہ وعظ و نصیحت دوسروں ہی کے لیے نہیں ہے،بلکہ نبی اپنی دعوت میں مخلص ہے‘‘۔( تفہیم القرآن، ج۳،ص ۵۴۳)

ذہن نشین کرلینے کی بات یہ ہے کہ بچہ آرٹس لینا چاہتاہے اور والدین دھونس جماکر اسے سائنس دلادیتے ہیں اور اسے زبردستی نہیں سمجھتے حالانکہ یہ زبردستی ہے۔ وہ اپنا بزنس کرنا چاہتاہے اسے ایم بی بی ایس میں گھسادیتے ہیں حالانکہ یہ بھی زبردستی ہے۔ لیکن جب وہ تنظیم کے ہفتہ وار پروگرام میں نہیں آتا، دینی مطالعہ نہیں کرتا، نمازوں سے غفلت برتتا ہے تو اس پر ٹوکنے کے بجائے، جھٹ سے لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کی چٹان کے پیچھے جاچھپتے ہیں۔ حالانکہ یہ زبردستی نہیں ان کا فریضہ ہے۔

ایک مسلمان اگر اسلام کے وسیع تصور کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسلامی تحریک سے کسی بھی سطح پرقریب آتاہے، تو اس سے بجاطورپر یہ توقع ہوتی ہے کہ جس طرح وہ اپنے محلے،شہر اور ملک کو اسلامی خطوط پر چلانے کے لیے سعی و جہد کررہاہے، اس عمل میں وہ خاندان سے غفلت نہ برتے بلکہ اس پر خاص توجہ دے کہ اس جدوجہد میں اس کا خاندان اس کا دست و بازو ہو، اس کے پاؤں کی زنجیر نہ بنے۔ ایک مومن کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ خدا نہ کرے کل کو اس کے اپنے ہی قدم صراطِ مستقیم سے بھٹکتے ہیں تو کم از کم بیوی بچّے ایسے ہوں کہ اس گمراہی کا خیرمقدم کرنے کے بجائے، ہاتھ پکڑکر دوبارہ صحیح راستے پر لے آئیں۔ اگر ایسے پچاس ہزار مثالی خاندان ملک میں موجود ہوں کہ ایمان کی پختگی، عمل کی بلندی اور دینی غیرت میں فکروعمل کے بلند مرتبے پر فائز نظر آئیں، تو یہ ممکن نہیں کہ معاشرہ ان سے متاثر نہ ہو۔ ہمارا زور ایک فرد پر نہیں، ایک خاندان پر ہے۔

کوئی نوجوان اگر آج جاہلیت سے لتھڑے اس ماحول میں حق کو پہچان کر نکلتاہے مگر چار پانچ سال گزرنے پر بھی اس کے بھائی بہنوں کو نہیںمعلوم کہ تحریک کس چیز کانام ہے، اس کے والدین کو نظم کی ہوا تک نہیں لگتی، مگر دوسری جانب وہ اپنی ذات میں اقامتِ دین کا سودا سر میں سموئے معاشرے کی اصلاح اور ریاست کی تشکیل کابیڑا اٹھاتا ہے، اپنی تقریروں میں مسلمانوں کو عار دلاتاہے کہ مسلمانوں نے قرآن جیسے نسخۂ کیمیا کو چھپارکھا ہے۔ مگر چراغ تلے اندھیرا وہ خود اپنے بیوی بچوں کو دین کے مکمل تصور سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت نہ سمجھے تو ایسی صورت میں دو میں سے صرف ایک بات کا احتمال ہوسکتا ہے: ﴿۱ن دونوں کو اپنے خاندان سے محبت نہیں ہے، ﴾یا تحریک سے ان کی کمٹمنٹ ناقص ہے۔

یہاں بڑا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہم نہیں چاہتے کہ جب اللہ کو اپنا سب کچھ’قرض‘ میں دے دیں تو بیوی ہماری ’کم عقلی‘ پر ماتم کرنے کے بجائے بالکل ام دحداحؓکی طرح کہے: ’’ابودحداحؓ! یہ تو کافی نفع بخش تجارت رہی‘؟کیا ہم نہیں چاہتے کہ جب خداکی راہ میں نکلنے کا موقع آئے تو بجائے اس کے کہ ہمارے والد اپنے بڑھاپے کا حوالہ دے کر راستہ روکیں، حضرت عمروبن جموحؓکی طرح خود ہی کہیں کہ مجھے بھی ساتھ لے چلو، یا حضرت سعد بن خیثمہؓکے والد کی طرح قرعہ اندازی پر آمادہ ہوجائیں کہ کون پہلے جائے گا؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ زندگی میں اگر عزّت و شہادت کی موت یا گیدڑوں کی زندگی میں سے کسی ایک کو چننے کا موقع آئے تو بوڑھی والدہ پاؤں کی زنجیر بننے کے بجائے حضرت اسماءؓکی طرح ’زرہ بکتر‘ اتار پھینکنے پر اُبھارے کہ یہ ’مردوں‘ کی شان سے فروتر ہے، اور حضرت خنساءؓکی طرح دشمن کی صفوں میں اندر تک گھس جانے کی تلقین کریں؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ جب شیطان ہم پر حاوی ہونے لگے، اور سستی و بے عملی سے آج کاکام کل پر یا صبح کاکام شام پر ٹالنے لگیں تو ہمارا ہی لخت جگر بالکل حضرت عمر بن عبدالعزیزؓکے بیٹے کی طرح معصومیت سے کہے: ’ابّا! کیاآپ کو یقین ہے کہ آپ شام تک زندہ رہیں گے؟‘ اس مثالی خاندان کا اگر واقعی ہم خواب دیکھتے ہیں تو کامیابی کا پہلا زینہ آپ چڑھ چکے ہیں۔ لیکن خواب صرف دیکھ لینے سے سچ نہیں ہوتے۔

اسی مقصد کے لیے تحریک نے ایک اور اہم پروگرام اجتماعِ اہل خانہ کا رکھا ہے۔ یہ بیوی بچوں کی تربیت کی خاطر بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر ہفتے میں کم از کم ایک بار بھی اہلِ خانہ ایک دعوتی اجتماع کے لیے ایک آدھ گھنٹے کے لیے مل بیٹھیں تو پورے خاندان کی فضا پر بہت مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ محترم قاضی حسین احمد کے یہ الفاظ بہت اہم ہیں کہ: ’’اگر گھر میں بھی دعوتِ دین کا ماحول پیداہوجائے تو یہ ایک مسلم گھرانا قائم کرنے کے لیے بہت مددگار ثابت ہوسکتاہے۔ اپنی انفرادی تربیت اور مطالعۂ قرآن و حدیث کے بعد اپنے خاندان کی تعلیم و تربیت ہمارا سب سے اوّلین کام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑے واضح الفاظ میں ہمیں اس کی فکر کرنے کا حکم دیا ہے کہ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ دعوت کی حکمت عملی کے اعتبار سے خاندان کی اصلاح خشتِ اوّل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ درست ہوجائے تو پوری دیوار سیدھی کھڑی ہوتی ہے اور یہ کمزور یا ٹیڑھی رہے تو عمارت میں بھی ٹیڑھ رہے گی۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کام کی تدریج یہ ہے کہ مسلم فرد کی تربیت ہو، مسلم گھرانے کی تعمیر ہو، مسلم معاشرے کی تعمیر ہو اور مسلم حکومت کے ذریعے سے ان سب کو قوت عطا ہو اور انسان تہذیب و تمدن اور خیر و صلاح کا گہوارہ بن جائے گا‘‘۔

دین اسلام کی جستجو کا میرا سفر بچپن ہی سے شروع ہو گیا تھا، کیوں کہ میں ایک ’بڑے معبود‘ پر یقین رکھتا تھا، اگرچہ میں اس وقت تک اسے کوئی مخصوص نام نہیں دے سکاتھا۔ اس معبود کو جاننے کی راہ میںالحاد اور بے دینی کی تعلیم بھی میری فطرت کے لیے کوئی بہت بڑی رکاوٹ نہیں بن پائی۔ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہو گیاتھا کہ اس معبود کی اصلیت سے واقفیت حاصل کی جائے۔ چنانچہ اپنے احباب کے توسط سے میرا تعارف پادری ’الیگزینڈر مین‘ سے ہوا، جن کا تعلق ’آرتھوڈوکس چرچ‘ سے تھا۔ اس طرح عیسائیت کے ساتھ میرا سفر شروع ہوگیا۔ لیکن اس زمانے میں میری مذہبی سرگرمیاں غیر قانونی سمجھی گئیں، اس لیے مجھے مذہبی سرگرمیوں سے روک دیا گیا اور ۱۹۸۲ء میں مجھے تین سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ میں نے قید وبند کے یہ تین سال منگولیا اور چین کی سرحد سے متصل جنوبی سائبیریا میں واقع جمہوریہ توفا میں گزارے۔

۱۹۸۵ء میں ماسکو واپس آیا۔ یہ وہ وقت تھا جب اشتراکی روس کے صدر میخائل گورباچوف [۱۹۳۱ء-۲۰۲۲ء] نے ۱۱مارچ ۱۹۸۵ء میں ملک کی قیادت سنبھالنے کے بعد ’پروسترائیکا‘ یعنی کشادہ روی کی جانب سفر شروع کیا تو بنیادی تبدیلیاں آنے کا آغاز ہوا ،اور مذہبی فرقوں کو کام کرنے کی آزادی دے دی گئی تھی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد ۱۹۹۰ء میں مجھے ریڈیو روس میں ایک مذہبی پروگرام کی نگرانی کے لیے بلایا گیا۔ میرا مطمح نظر اس وقت واقع ہونے والی سیاسی تبدیلیاں نہیں تھا، بلکہ یہ تھا کہ اس پروگرام کے دوران مجھے اپنے عقیدے کے متعلق گفتگو کرنے کی کسی حد تک آزادی حاصل ہے۔

ملک میں بڑی تبدیلیاں واقع ہو گئی تھیں اور کمیونزم کا دور ختم ہو چکا تھا۔ یہ چھوٹا سا ریڈیو اسٹیشن، سرکاری ریڈیو اسٹیشن میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اس کی نشریات روسی فیڈریشن کے اکثر حصوں تک پہنچتی تھیں۔ چنانچہ مجھ سے کہا گیا کہ اس پروگرام کو وسعت دی جائے اور ریڈیو اسٹیشن کے اندر مذہبی پروگراموں کے لیے ایک مکمل سیٹ اَپ قائم کر دیا گیا۔ اب ہم مجبور تھے کہ ایک ایسا مذہبی پروگرام پیش کریں ، جس میں روس کے اندر پائے جانے والے تمام مذاہب کی نمائندگی ہو۔ سرکاری ریڈیو سے پورے روس میں ایک مذہبی پروگرام نشر کرنے کی بنیاد سب سے پہلے میں نے ہی ڈالی۔

اب میں مذہبی پروگراموں کا چیف ایڈیٹراور عیسائی پروگرام پیش کرنے کا ذمہ دار تھا۔ اس مقصد کے لیے مَیں نے کیتھولک ،پروٹسٹنٹ اور بودھ مذہب سے متعلق پروگرام پیش کرنے والوں کی تلاش شروع کر دی۔ لیکن سب سے بڑی مشکل اسلام سے متعلق مذہبی پروگرام پیش کرنے کے سلسلے میں تھی۔ اس لیے کہ ایسے ماہرین کا فقدان تھا، جو ابلاغیات کے پیشے اور دین اسلام کی معلومات سے لیس ہوں۔ اس کے باوجود ہم نے پروگرام کے آغاز کے چھ سال گزر جانے کے بعد محترمہ لیلیٰ حسینوف کی قیادت میں ایک ایسی ٹیم تیار کر لی، جو روس میں اسلام اور مسلمانوں پر مستقل پروگرام تیار کیا کرتی تھی۔ اس طرح روس کی تاریخ میں پہلی بار ہر جمعہ کو ’صوت الاسلام‘ کے نام سے اسلام کے متعلق پروگرام نشر ہوا کرتا تھا۔یہ پروگرام اسلامی حلقوں کی اہم شخصیات سے جن میں اسلامی مفکرین، علما اور مفتیان کرام شامل تھے، روابط اور روس کے بڑے مذاہب میں سے ایک کو ماننے والوں سے متعارف ہونے کا حقیقی ذریعہ تھا۔

  • قسمت نے دست گیری کی! واقعی قسمت نے مجھے اس راستے پر ڈالا تھا۔ میں اپنے پروگرام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے متعلق اور خاص طور سے اسلام سے متعلق پروگرام کو توجہ سے سنتے ہوئے یہ محسوس کرنے لگا تھا کہ اسلام براہِ راست مجھے متاثر کر رہا ہے۔ اس کے بعد ایک واقعے کی وجہ سے معاملہ بالکل تلپٹ ہو گیا۔ ہوا یہ کہ لیلیٰ حسینوف نے پروگرام کی نشریات سے یہ کہہ کر ہاتھ کھینچ لیا کہ ’’مسلسل چھ سال تک اس پروگرام کو پیش کرتے کرتے اُکتا گئی ہوں‘‘۔ اس طرح اسلامی نشریات کا سلسلہ اچانک رُک گیا۔

اس وقت روس کے وزیر اعظم [۹۸-۱۹۹۲ء] وکٹر چرنو میردین نے ریڈیو نشریات کے مدیر سیرجی ڈیوڈ سے رابطہ کر کے ہدایت کی کہ ’اسلامی نشریات‘ کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے۔ ان کا حکم اس بنیاد پر تھا کہ اس پروگرام کے رُک جانے سے روس کی داخلی سیاست پر اس کا منفی اثر پڑسکتا تھا، کیوں کہ روس میں تقریباً ۲کروڑ  مسلمان رہتے تھے [اب ڈھائی کروڑ ہیں]۔ فوری حل  نہ ملا تو مجھ سے کہا گیا کہ میں اپنی آواز بدل کر کسی مجہول نام سے پروگرام پیش کروں۔ فوری طور پر تو میں نے اس پر اعتراض بھی کیا، کہ میں آرتھوڈوکس عیسائیوں کے یہاں اچھی طرح معروف تھا۔ مگر آخرکار تیار ہوگیا اور پروگرام شروع کردیا۔ انڈری حسانوف کے متبادل نام سے میرا اس پروگرام کے شعبے میں تبادلہ ہوگیا۔ میرے لیے اس نام کے انتخاب کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی۔ میرے لیے تو اہم یہ تھا کہ میں ایک طرف اسلام اور دوسری طرف روسی تہذیب کے درمیان پُل کا کام کروں۔

اس مقصد کے لیے مجھے اسلامی تہذیب و ثقافت کے بارے میں بہت زیادہ چھان بین کرنی پڑتی تھی اور پروگرام میں پیش کرنے کے لیے عربی اور اسلامی فنونِ لطیفہ سے بھی واقفیت حاصل کرنی پڑتی تھی۔ اس وسیلے سے اسلامی شخصیات سے مجھے زیادہ سے زیادہ تعارف حاصل ہوا، بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح میں اسلامی ثقافت کے کسی ماہر کی طرح ہو گیا۔ لیکن یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ تمام لوگوں سے آواز کو چھپانا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ گاہے گاہے میرے دوستوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ’’ہمیں یقین ہے کہ تم نے اسلام قبول کر لیا ہے‘‘۔ میں نے قطعی طور پر اس بات سے انکار کیا، کیوں کہ اس وقت تک اسلام قبول کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں نے انھیں سمجھایا کہ میں تو اس طرح اپنی ڈیوٹی ادا کر رہا ہوں جس طرح تاریخ کا کوئی ماہر کیا کرتا ہے۔ لیکن پھر مذہب کی یہ تبدیلی عملی طور پر ۲۰۰۰ء میں اس وقت ہو ہی گئی، جب ایک روز رات کے وقت میرے ذہن میں گھومنے والے افکار کی وجہ سے میرا سر چکرانے لگا۔ اس وقت جو سوال میرے ذہن پر بار بار مسلط ہو رہا تھا، وہ یہ تھا کہ ’’کیا میں واقعی اسلام قبول کر لوں گا؟‘‘

  • اسلام اور عیسائیت کے بارے کش مکش:جیساکہ میں نے ابھی ذکر کیا ہے کہ پروگرام کی تیاری کے سلسلے میں مجھے دین اسلام کا مطالعہ ایک طرح سے گہرائی کے ساتھ کرنا پڑتا تھا۔ اسی مطالعے کے دوران مجھے بہت سے ایسے سوالات کے جوابات مل گئے، جو عیسائیت کے سلسلے میں مجھے پریشان کرتے تھے۔ مثلاً ربّ اور بندے کے درمیان تعلق کی نوعیت، تثلیث کا نظریہ اورحضرت عیسٰی علیہ السلام سے متعلق بہت سے سوالات۔ چنانچہ حضرت عیسٰیؑ سے محبت کے باوجود میں یہ نہیں سمجھ پاتا تھا کہ لوگ انھیں معبود کیوں خیال کرتے ہیں؟

مسئلۂ توحید اور حضرت عیسٰیؑ سے اس کے تعلق نے بھی اُسی طرح میری نیند اُڑا دی تھی، جس طرح یہ مسئلہ دوسرے بہت سے عیسائیوں کی نیند حرام کیے رہتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ اسلام کے اندر یہ تمام مسائل انتہائی ہلکے پھلکے اور قابلِ فہم انداز سے بیان کیے گئے ہیں اور ان کے بیان میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ مجھے ان تمام سوالوں کا واضح جواب مل گیا تھا۔ اسلام کی دوسری بات جو مجھے بہت اچھی لگی، وہ اس کا طریقۂ عبادت اور خاص طور سے حالت ِسجدہ ہے۔ سجدے کے بارے میں میرا تصور پہلے سے ہی یہ تھا کہ سجدہ، اللہ کے سامنے اپنی بندگی کے اظہار کی معراج ہے۔ جس وقت آپ اللہ کے سامنے اپنی پیشانی ٹیکنے کے لیے گھٹنوں کے بل زمین پر سر جھکاتے ہیں اور اپنے وجود کو اس کے حوالے کر دیتے ہیں، وہ بڑا شاندار تجربہ اور مشاہدہ ہوتا ہے۔

میرے اندر برپا شعوری کش مکش کے باوجود اسلام قبول کرنے کا سوال میرے اُوپر بار بار مسلط ہو رہا تھا، کہ اسی دوران مجھے نیند آگئی۔ نیند کی حالت میں کسی پکارنے والے کی آواز سنائی دی جو کہہ رہا تھا: ’’ تیرا یہ سوال غلط ہے، کیوں کہ تیرے اندر اتنی ہمت نہیں ہے کہ تواسلام قبول کر سکے، وہ تو اسلام ہے جس نے تجھے قبول کر لیا ہے اور اپنا بنا لیا ہے‘‘۔ اتنی بات سننے کے بعد ہی میری آنکھ کھل گئی، اور میری زبان سے نکلا: ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں‘‘۔میری سمجھ میں آگیا کہ وہ صرف اللہ ہی ہے، جو کسی کے دل کو اسلام کے لیے کشادہ کر دیتا ہے۔

  • سفر جاری تھا: ایسا نہیں کہ معاملہ یہیں پر ختم ہو گیا ہو۔ کیوں کہ معاشرے کی طرف سے اس پر جو ردعمل آسکتا تھا، میں اس سے ڈرا ہوا تھا۔ آرتھوڈوکس عیسائی حلقے میں میری حیثیت ایک معروف شخصیت کی تھی۔ روس کے پیٹریارک ’الیکسی دوم‘ سے میرے براہِ راست تعلقات تھے، بلکہ میں نے مذہبی پروگرام کا آغاز بھی انھی کی محترم شخصیت کو مدعو کر کے کیا تھا۔ اس طرح اُوپر تلے بہت سے سوالات مجھے پریشان کرنے لگے۔ لیکن میںنے اپنے دل میں یہ فیصلہ کرلیا کہ زندگی کا روحانی پہلو قابل ترجیح ہے۔ رہے دوسرے مسائل ، تو میں انھیں زمانے اور دنیا کے رحم وکرم پر چھوڑتا ہوں۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ علی بلوسین سے مشورہ کیا جائے، جو کہ مجھ سے پہلے اسلام قبول کرچکے تھے۔ وہ خود ایک معروف مذہبی شخصیت تھے، آرتھوڈوکس چرچ میں پادری رہ چکے تھے اور ایک مفکر کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ان کی اور میری صورت حال یکساں تھی۔ انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اپنے قبول اسلام کا اعلان نہ کروں اور اس کے لیے مناسب وقت کا انتظار کروں۔

 اس دوران میں نے اپنے دینی فرائض کی ادائیگی شروع کر دی۔ باوجود اس کے کہ میرے اکثر دوستوں نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا تھا، میرے اندر تبدیلی کا عمل مسلسل جاری رہا۔ البتہ سفر حج، جس کا پروگرام میں نے پہلے سے نہیں بنا رکھا تھا، اس نے میری نفسیات پر گہرا اثر ڈالا، کیوں کہ وہاں مجھے متعدد شخصیات سے ملنے کا موقع ملا۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے، جنھوں نے اسلام قبول کررکھا تھا۔ اور یہ اللہ کی توفیق اور اس بات کا پیغام تھا کہ میں اس راہ کا تنہا راہی نہیں ہوں۔

  • راہ کٹھن تھی:حقیقت میں انفرادی اور اجتماعی، دونوں پہلو سے اسلام قبول کرنا میرے لیے بہت مشکل تھا۔ کیوں کہ میں نسلی اعتبار سے روسی ہوں، شاعر بھی ہوں، روسی زبان سے مجھے محبت ہے، اسی زبان میں لکھتا اور اپنے وطن سے بھی محبت کرتا ہوں۔ نفسیاتی اعتبار سے یہ میرے لیے مشکل تھا کہ ایک ہی لمحے میں ان تمام چیزوں کو خیرباد کہہ دوں اور ایک ایسی تہذیب سے وابستہ ہوجائوں، جو اُس تہذیب کے بالمقابل ہے کہ جو تہذیب میری جانی پہچانی اور جس سے مجھے محبت ہے۔

اگر درست ترتیب قائم کروں تو وہ یہ ہے کہ میں نے اسلا م قبول نہیں کیا تھا بلکہ اسلام نے مجھے قبول کیا تھا۔ اس بات سے میں نے یہ سمجھا کہ مجھ سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ میں دونوں تہذیبوں کے درمیان موازنہ کروں۔ میں مسلمان ہوں، لیکن بیک وقت قومیت، مزاج اور تہذیب کے اعتبار سے روسی بھی ہوں۔ میرا دل اس بات پر مطمئن ہو گیا کہ مجھ سے یہ مطالبہ نہیں کیا جا رہا ہے کہ میں اپنی اُس تہذیب سے دست کش ہو جائوں، جس میں رہ کر میری پرورش ہو ئی ہے۔ کیوں کہ اسلام قبول کرنے والوں میں اگر عرب کے رہنے والے صحابہ کرامؓ تھے تو دوسری طرف فارس کے سلمانؓ، حبشہ کے بلالؓ اور روم کے صہیبؓ بھی تھے۔ ان میں سے ہر شخص الگ الگ تہذیب سے آیا تھا۔ مسلمان سے تو صرف یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے دین میں گم ہو جائے تاکہ اپنی قوم کے درمیان اسلام کو اس کی اسی زبان میں پیش کر سکے، جسے اس کی قوم کے افراد سمجھتے ہیں۔(المجتمع)

زیربحث موضوع کے دیگر پہلوئوں کی وضاحت یا اختلافی نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے لیے رسالے کے اوراق حاضر ہیں۔ اسلامی بنکاری کی مناسبت سے اہل علم و فن، عملی اور اطلاقی صورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے، اصلاحِ احوال کی شکلیں بیان فرمائیں۔ ادارہ]

اسلامی بنکاری پر شائع ہونے والی میری معروضات ترجمان القرآن (نومبر ۲۰۲۳ء) پر بعض قارئین نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کے خیال میں ’’اس قسم کی تحریروں سے اسلامی بنکاری کی ساکھ خراب ہوتی ہے، لوگوں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے اور صارفین اس نظام کی اسلامی حیثیت کے بارے میں مخمصے اور شکوک وشبہات کا شکار ہوتے ہیں‘‘۔

عرض یہ ہے کہ ہم نے اپنے مضمون میں جن خامیوں کا ذکر کیا ہے ان کی اصلاح اور نظام میں بہتری مقصود ہے نہ کہ اس نظام کا انہدام۔ اگر خرابیوں کی نشاندہی نہ کی جائے تو اصلاح کی طرف توجہ کیسے جائےگی؟ اس لیے تجزیہ، تنقید یا خامیوں کی نشاندہی اصلاح کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔

درج ذیل تحریر اسی پس منظر میں نذر قارئین ہے:

بنکاری آج کے دور کے معاشی و مالیاتی نظام کا لازمی جزو ہے۔ عصرحاضر میں اس کے بغیر کاروبارِ حیات کا چلنا ناممکن دکھائی دیتا ہے ،اگرچہ مغرب کی بنکاری سودی ہے۔ مسلمان کا ایمان سودی بنکاری کے متبادل کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ایمان اسے سود کے ساتھ جینے اور رہنے کی اجازت نہیں دیتا۔

قرآنی حکم کی روشنی میں ہماری ضرورت بنکاری نہیں، اسلامی بنکاری ہے۔ ہم ربِّ کائنات اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس سراسر خسارے والی جنگ میں ہم مغرب کے ملحدانہ سودی بنکاری نظام کی وجہ سے بادل نخواستہ پھنسے ہوئے ہیں۔

ربِّ کائنات اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انسانیت کی تباہی کی جنگ سےنکلنے کے لیے بجاطور پر اسلامی بنکاری کا تصور پیش کیا گیا۔ مگربدقسمتی یہ ہے کہ آج اسلامی بنکاری کی رائج شکل اصل تصور کاعشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تصور پیش کرنے والوں اور اس کو عملی شکل دینے والوں کی فکر، سوچ اور مقصد میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔

ترقی کے دعوؤں اور خوش کن اعداد وشمار کے باوجود تلخ سچ یہ ہے کہ دنیا بھر کےدرجنوں مسلم اور غیرمسلم ممالک میں اسلامی بنکاری نظام اب تک کہیں بھی وہ پذیرائی اور قبولیت حاصل نہیں کرسکا، جو اسے حاصل ہونی چاہیے تھی۔لوگوں کی بڑی تعداد کے اس نظام کے عملی پہلوؤں پر بنیادی نوعیت کے تحفظات اور اعتراضات ہیں۔

دوسری طرف عام آدمی، بنک صارفین اور علمائے کرام کی اکثریت نے اس نظام کی عملی صورت سے مطمئن نہ ہونے کے باوجود سود کے وبال سے بچنے کے لیے ممکن حد تک میسر متبادل کے طور پر اس کو کسی نہ کسی حد تک قبول کرلیا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں، رائج اسلامی بنکاری کے ساتھ تعلق کے لحاظ سے لوگوں کی تین اقسام ہیں:

            ۱-         وہ جن کے خیال میں ’اسلامی بنکاری‘ اور ’سودی بنکاری‘ میں کوئی فرق نہیں، صرف نام الگ ہیں۔یہ لوگ بنک سے لین دین میں صرف اپنی سہولت کو دیکھتے ہیں، بنک کے اسلامی یا سودی ہونے کو نہیں!

            ۲-         وہ لوگ جو خود سے کچھ جاننے کی کوشش کرنے کے بجائے معاملے کو علمائے کرام کی دینی بصیرت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ لوگ علما پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے ’سودی بنک‘ کے مقابلے میں ’اسلامی بنک‘ سے تعلق کو ترجیح دیتےہیں۔

            ۳-         وہ لوگ جو ہر صورت سود اور سود جیسے معاملے سے بچنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ سودی بنک سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ کسی اسلامی بنک سے۔ یعنی بطورِ احتیاط بڑی حد تک بنکاری نظام سے ہی دُور رہتے ہیں۔

اگرچہ اسلامی بنکاری کے بارے میں رائے اور تعلق کے اعتبار سےلوگوں کی مذکورہ بالا تین اقسام ہیں، لیکن بہرحال اکثریت کا خیال ہے کہ مروجہ اسلامی بنکاری محض نام کی اسلامی ہے۔ ان کی رائے میں نتائج اور عمل کے لحاظ سے یہ نظام سودی بنکاری جیسا ہی ہے۔لوگوں کو اگر ایسا لگتا ہے تو اس کی یقینا کچھ معقول وجوہ ہوں گی۔

اسلامی بنکاری کی شکل اور نتائج سودی بنکاری سے مشابہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے نفاذ کے لیے قواعد وضوابط وہی ’مرکزی بنک‘ بناتا ہے، جو اصلاً مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے آلۂ کار سودی بنکاری نظام کا محافظ ہے۔ دوسرے یہ کہ اسلامی بنکاری انھی بنکاروں کے ہاتھوں پروان چڑھ رہی ہے، جو سودی بنکاری کے خوگر اورتربیت یافتہ ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر ’مرکزی بنک‘ سودی نظام کا محافظ ہے تو وہ اسلامی بنکاری کے فروغ کے لیے قواعد وضوابط کیوں بنا رہا ہے اور اسلامی بنکوں کو لائسنس کیوں جاری کر رہا ہے؟ اور بنک کیوں اسلامی بنکاری کی خدمات پیش کر رہے ہیں؟

اس سلسلے میں عملی رویوں کو دیکھتے ہوئے عرض ہے کہ حکومت، مرکزی بنک اور تجارتی بنکوں نے سود کے قرآنی احکامات کی تعمیل کے لیے نہیں بلکہ کسی مجبوری اور سیاسی اور مالی ضرورت کے تحت اسلامی بنکاری کو اختیار کیا ہے۔حکومت، مذہبی طبقے کے دباؤ سے بچنے اور کچھ سیاسی فائدے کے لیے اسلامی بنکاری کا نفاذ چاہتی ہے۔

’مرکزی بنک‘ جو کہ بنکوں کے نظامِ کار اور ایک ضابطے میں لانے اور نگرانی کا ادارہ ہے، اسلامی بنکاری کے نفاذ سے اس کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ بنکاری نظام میں شامل ہوں۔ اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ سود کی وجہ سے جو لوگ بنکاری نظام سے باہر تھے، ان کو اس طرح سے بنکاری نظام میں لانے میں اسلامی بنکاری کے ذریعے کچھ کامیابی ملی ہے۔اسی طرح بنکاروں کا مقصد بھی سود کاخاتمہ نظر نہیں آتا۔ وہ بھی محض اپنے گاہک، نفع اور کاروبار بڑھانے کے لیے سودی بنکاری کے ساتھ ساتھ اسلامی بنکاری پراڈکٹس پیش کر رہے ہیں۔

ابتدا میں بیان کردہ تینوں فریقوں کو اسلامی معاشیات یا شریعہ کے باریک مقاصد اور اُصولوں سے کچھ زیادہ سروکار نہیں ہے۔ ان تین فریقوں کے علاوہ اسلامی بنکاری اداروں میں شریعہ سے متعلق مشاورتی خدمات مہیا کرنے والے علما ہیں۔ شریعہ بورڈز میں ممبر کے طور پر شامل علما کا کردار بنک کے اسلامی بنکاری سے متعلق معاملات، پراڈکٹس اور ِخدمات کے شرعی جائزے تک محدود ہے۔ کوئی بھی اسلامی بنکاری پراڈکٹ ان کے فتوے کے بغیر شروع نہیں کی جاسکتی۔ بنکوں سے سود کے خاتمے کے لیے ’شریعہ بورڈز‘ سے جس جرأت مندانہ کردار کی توقع کی جاتی ہے، بدقسمتی سے وہ پوری نہیں ہوئی۔

دوسری طرف اسلامی بنکاری کے نظریے کے اصل موجد یا خالق نہ حکومتی عہدے دار تھے، نہ مرکزی بنک اور نہ بنکار کہ وہ اپنے تصور کو حقیقی رنگ دے سکتے۔ مزید یہ کہ یہ کوئی روایتی علما بھی نہیں تھے۔یہ اللہ کا خوف رکھنے والے کچھ مفکرین تھے، جو سودی بنکاری سے اہل ایمان کو نجات دلانا چاہتے تھے۔ پروفیسر خورشید احمد،ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر تنزیل الرحمان، ڈاکٹر عزیر جیسے ماہرینِ اسلامی معاشیات و قانون نے سیّد مودودی علیہ الرحمہ کی اسلامی نظام معیشت ومالیات کی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے سود سے پاک اسلامی مالیاتی اور بنکاری نظام کا نظریہ پیش کیا، اور اس کے لیے درکار بنیادیں بھی فراہم کیں (مصر کےشیخ احمد النجارغالباً واحد مفکر اور بنکار ہیں، جن کو اسلامی بنکاری کے خیال کو کامیاب عملی شکل دینے کا موقع ملا)۔

مذکورہ بالا پس منظر کی روشنی میں رائج ’اسلامی بنکاری‘ کے تعامل کو دیکھ کر توقعات کا پورا ہونا مشکل لگتا ہے۔ اس لیے اسلامی بنکاری کی مروجہ صورت میں جو کچھ بھی میسر ہے، اصلاح کی کوششیں جاری رکھتے ہوئے اس کو غنیمت جاننا چاہیے۔

اس نظام کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک اور حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ یہ نظام صدیوں پرانے طاقت ور سودی بنکاری نظام کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ اس کا مقابلہ بہت مضبوط نظام کے ساتھ ہے۔ مجھے اعتراف ہےکہ اسے سخت مقابلے کی وجہ سے بہت سارے معاملات میں مصالحت اور کچھ اصولوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ متعلقہ جہتوں کو متوجہ کرنے کے لیے خامیوں کی نشاندہی بھی ایک دینی، اخلاقی اور فنی فریضے کے طور پرضروری ہے۔

اسلامی بنکاری سے متعلق افراد، ادارے اور صارفین تنقید پر ناراض ہونے کے بجائے غلطیوں کو درست کرنے پر توجہ دیں، تو نظام میں بہتری آئے گی اور لوگ سودی بنکاری سے تعلق ختم کرکے اسلامی بنکاری سے وابستہ ہوتے جائیں گے۔

یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں کہ اسلامی بنکاری کی مروجہ شکل بعض بنیادی معاملات میں اصلاح کی متقاضی ہے۔لوگ اگر یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ نظام محض نام کی تبدیلی ہے یا یہ سودی بنکاری کا چربہ ہے، تو اس کی سب نہ سہی، کچھ وجوہ تو قابل غور ہیں۔

علمائے کرام کی بڑی اکثریت کو اگر اس کے بعض معاملات پر شرعی اعتراضات ہیں تو اس کے پیچھے یقینا کچھ ایسے ٹھوس اُمور ہیں، جن پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

اگر یہ کہا جاتا ہے کہ حیلہ کاری کا استعمال اس نظام کے مثبت تصور کو مسخ اور انفرادیت کو قائم نہیں ہونے دے رہا ہے اور اس کی افادیت پر اثر انداز ہورہا ہے، تو اس کے پس منظر میں کموڈٹی مرابحہ جیسی بے اصل پراڈکٹس کا کردار ہوسکتا ہے۔

اس نظام پر اگر ’سود‘ کا نام ’نفع‘ رکھنے کا الزام ہے تو اس کا سبب ’نفع کی شرح‘ کو کاروبار کے حقیقی نفع نقصان کے ساتھ وابستہ رکھنے کے بجائے سود کی طرح ڈپازٹ کی رقم کے کم یا زیادہ ہونے سے نتھی کرنے اور نفع کی رقم کو سودکی طرح یقینی بنانے کے عمل سے ہے۔

کم ڈپازٹ پر نفع میں شراکت کی شرح کم اور زیادہ ڈپازٹ پر یہ شرح زیادہ رکھنے سے یہی لگتا ہے کہ سودی بنکاری کی طرح اس نظام میں بھی استحصالی عنصر موجود ہے۔

اس پورے معاملے میں یہ سوال بالکل جائز ہے کہ ’’کیا خامیوں، اعتراضات، خدشات، تنقید، مخالفانہ فتوؤں اور عدالتی فیصلوں کی وجہ سے اس نظام کی بساط لپیٹ دی جائے؟‘‘

’’کیا اسلامی بنکاری کی کچھ خامیوں کی بناء پر اسے منافقت قرار دے کر اس سے تعلق ختم کر کے سودی بنکاری کے ساتھ تعلق جوڑ لینا چاہیے؟‘‘

جی نہیں، بالکل نہیں اور ہرگز نہیں!

  • توجہ طلب اُمور: اسلامی نظام بنکاری اپنی خامیوں اور جوہری نقائص کے باوجود سودی بنکاری سے بہتر اور ’بنکاری سود‘ سے بچنے کا واحد دستیاب راستہ ہے۔ کسی بھی صورت اس کے مقابلے میں سودی بنکاری کو ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ کسی مسلمان شخص یا ادارےکے لیے اسلامی بنکاری کی خامیوں کو جواز بناکر سودی بنک سے لین دین کرنا جائز نہیں ہوسکتا۔ البتہ عدم اطمینان کم کرنے اورقبولیت عامہ بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام کو شریعت کے اصولوں کی حقیقی پاس داری کا آئینہ بنایا جائے، اور اس بنکاری نظام کو شریعہ اور اسلامی معاشی نظام کے مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنایا جائے۔

بنکوں کے معاملات میں شریعہ کی پابندی کو یقینی بنانا بنکوں کے شریعہ بورڈوں کی ذمہ داری ہے۔ بنکوں کو مشاورتی خدمات مہیا کرنے والے ماہرین شریعہ اور علمائے کرام کے اخلاص پر شک کی گنجایش نظر نہیں آتی مگر نظام کی خامیاں کسی نہ کسی قانونی، سیاسی یا معاشی مجبوری کا نتیجہ ہو سکتی ہیں۔

اصلاح کی گنجایش تو بہترین سے بہترین نظام میں بھی موجود رہتی ہے۔ اس لیے ہمارے گردوپیش میں رائج اسلامی بنکاری بھی اصلاح کی ضرورت سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

سود سے ملکی معیشت کی مکمل نجات تو مستقبل قریب میں بوجوہ ممکن نظر نہیں آتی۔ لیکن بنکاری نظام میں سنجیدہ کوششوں کے ذریعے سود سے بچنے کی جزوی کامیابی بہرحال ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ یہ جزوی کامیابی اسلامی بنکاری کے فروغ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

اگر اسلامی بنکاری کی قبولیت عامہ بڑھانی ہے تو اصلاح طلب امور کی طرف توجہ دینا ہوگی۔اس سلسلے میں بہتری اور اصلاح کے لیے درج ذیل نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے:

            ۱-         شریعہ کے محافظین یعنی بنکوں کے شریعہ بورڈوں کے ممبران کو اکٹھے بیٹھ کر اعتراضات کی ایک فہرست مرتب کرنی چاہیے۔

            ۲-         اسلامی بنکاری نظام پر منفی اثرات ڈالنے والےاعتراضات کی درجہ بندی کی جائے۔

            ۳-         پھر ان کی درجہ بندی اس طرح کی جائے کہ کس معاملے کو شریعہ بورڈوں کی سطح پرہی آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے اور کن معاملات میں دیگر فریقوں ملکی یا بین الاقوامی قوانین اور اداروں کی وجہ سےمشکلات پیش آئیں گی اور وقت لگے گا۔

آسانی کے لیےکچھ اعتراضات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے:

            ۱-         نفع کی تقسیم کی شرحوں کو تمام ڈپازیٹرز کے لیے یکساں رکھنا۔

            ۲-         مضاربہ ، وکالہ اور مشارکہ میں نفع کوسود سے مشابہ بنانے والے عوامل سے احتراز۔

            ۳-         کموڈٹی مرابحہ جیسی بےاصل پراڈکٹس کا خاتمہ۔

            ۴-         سودی بنکوں سے کسی بھی صورت تعاون یاتعلق ختم کرنے کا معاملہ۔

            ۵-         صکوک خصوصاً اجارہ صکوک کے لیے حساس ملکی اثاثہ جات (ایئرپورٹس، موٹر ویز وغیرہ) کی برائے نام فروخت(notional sale)جیسے معاملات ۔

            ۶-         کاروباری ضرورت یا زیادہ سے زیادہ نفع کے حصول کی خاطر شریعہ کے بنیادی اصولوں سے صرفِ نظر اور رعایتوں اور ان پر ذیلی اصولوں کو ترجیح دینا۔

            ۷-         بعض شرعاً ناقابلِ قبول ذرائع تمویل کو قابلِ قبول بنانے کے لیےحیلوں کے استعال کا معاملہ وغیرہ وغیرہ۔

قصۂ مختصر،یہ کہ قارئین کی رائے میں:

            ۱-         تنقید سے صارفین کے ذہن اسلامی بنکاری بارے شکوک وشبہات کا شکار ہوتے ہیں اور اس سے اسلامی بنکاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

            ۲-         اسلامی بنکاری جیسی بھی ہے اس کو چلنے دینا چاہیے۔

            ۳-         اگر اسے ختم کردیا تو سود سے بچنے کاجو تھوڑا سا موقع میسر ہے وہ بھی ضائع ہوجائے گا۔

تیسرے نکتے سے مکمل اوردوسرے نکتے سے جزوی اتفاق ہے مگر پہلے نکتے سے اتفاق نہیں ہے۔وجہ یہ ہے کہ بامقصد تنقید اصلاح کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نظام میں بہتری کی کوششیں ایک مسلسل عمل ہے، اس کا جاری رہنا خود نظام کے حق میں اچھا ہے۔

اسرائیل کی وحشت ناک بمباری کے بعد، جس نے ۴۹دنوں میں تقریباً۱۵ہزار افراد کو ہلاک کردیا، جس میں چھ ہزار کے قریب بچے اور چار ہزار خواتین شامل ہیں، ایک عارضی جنگ بندی نے فلسطینی خطہ کی غزہ کی پٹی کے مکینوں کو سانس لینے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ اس خطے میں لگاتار ہورہے موت کے رقص کے دوران، لوگ کس طرح زندگی گزار رہے تھے؟ فری لانس صحافی صفاء الحسنات کا کہنا ہے کہ بس اُدھار کی زندگی جی رہے تھے اور یہ پتہ نہیں تھا کہ اگلے ایک منٹ کے بعد زندہ ہوں گے یا نہیں۔ ان ۴۹ دنوں کے دوران، جب اسٹوری یا تفصیلات جاننے کے لیے کبھی ان کو فون کرنے کی کوشش کرتا، یا تو کال ہی نہیں ملتی تھی یا مسلسل گھنٹی کے باوجود وہ فون نہیں اٹھاتی تھیں۔ جنگ بندی کے اگلے دن ان سے رابطہ ہوا اوراس سے قبل شکایت کے لیے لبوں کو حرکت دیتا، کہ انھوں نے کسمپرسی کی ایسی ہوش ربا دردرناک داستان بیان کی،جس نے ہو ش اُڑا دیئے۔

شمالی غزہ کی مکین الحسنات کے شوہر ۷؍اکتوبر سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔ وہ ابھی سوگ کی حالت میں ہی تھیں، کہ جنگ شروع ہوگئی اور اسرائیل نے شمالی غزہ کو خالی کرنے کا فرمان جاری کردیا۔ چار یتیم بچوں کو لے کر وہ جنوبی غزہ کی طرف روانہ ہوگئیں، جہاں وہ کسی کو نہیں جانتی تھیں۔ خیر کسی نے ان کو مہمان بنالیا۔ مگر اسی رات ان کے پڑوس میں شدید بمباری ہوگئی اور وہ کسی دوسرے ٹھکانے کی تلاش میں نکل پڑیں۔ دوسرا ٹھکانہ تو مل گیا، مگر صبح سویرے اس مکان پر بھی بمباری ہوگئی اور بڑی مشکل سے بچوں کے ساتھ وہ جان بچاکر ملبہ سے باہر آپائیں۔ اس دوران ان کے ایک بچے کو چوٹ بھی آگئی۔ اس وقت زخم کو کون دیکھتا، زندگی بچ گئی تھی۔ مگر اب کوئی ٹھکانہ نہیں رہ گیا تھا۔ رات گئے تک وہ غزہ کی سڑکوں پر گھوم پھر کر اپنے اور بچوں کے لیے چھت تلاش کرتی رہیں۔ خیر سلطان محلہ میں ایک کمرہ میں جگہ مل گئی، جہاں تین خاندان پہلے ہی رہ رہے تھے۔ پناہ تو مل گئی، مگر پیٹ کی آگ بھی بجھانی تھی۔ان کی کہنا تھا کہ صبح سویرے بچوں کو الوداع کرکے بیکری کے باہر ایک لمبی قطار میں روٹی کا انتظار کرنا پڑتا تھا اور کسی وقت باسی روٹی ہی مل پاتی تھی، جس پر پھپھوندی جمی ہوئی ہوتی تھی۔ ہمہ وقت اسرائیلی بمباری کا خطرہ ہوتا تھا۔

اکثر اسرائیلی بمبار طیارے اسی طرح کے ہجوم کو نشانہ بناتے تھے۔ خیر روٹی کے ملنے کے بعد پانی کی ایک بوتل ڈھونڈنے کا مرحلہ طے کرنا ہوتا تھا۔ چونکہ گیس یا دیگر ایندھن کے ذرائع مسدود کردیئے گئے تھے، اس لیے پرانے زمانے کے مٹی کے چولہے پر کھانا بنانے اور روٹی کو گرم کرنے کے لیے لکڑی اور کوئلہ کی تلاش میں سرگرداں ہونا پڑتا تھا۔

 الحسنات کہہ رہی تھیں کہ صبح سویرے جب بچوں کو الوداع کرتی تھی، تو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ واپس روٹی، پانی اور لکڑی لے کر آؤں گی یا میری لاش ان کے پاس پہنچے گی۔ جس گھرمیں کسی عزیز کی لاش پہنچتی تھی، وہ بھی اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتے تھے، کہ انھوں نے عزیز کا جنازہ پڑھا۔ ورنہ بمباری سے ملبہ کے اندر ہی لاشیں دب جاتی تھیں یا ان کی شناخت ہی نہیں ہوپاتی تھی اور پھر گھر والوں کو لاش ڈھونڈنے کی تگ ودو کرنی پڑتی تھی۔ وہ بتا رہی تھیں کہ ’’گھر سے نکلتے وقت اکثر مجھے لگتا تھا کہ شاید آخری وقت بچوں کا چہرہ دیکھ رہی ہوں۔کیا پتہ اس دورا ن اسرائیلی بمباری سے یہ ٹھکانہ بھی مسمار ہو جائے۔ یہ بچے حال ہی میں یتیم ہو گئے تھے اوران کی آنکھیں اور اُداس معصوم چہرے بتاتے تھے کہ اب وہ ماں کے آنچل سے اتنی جلدی محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔ کھانا حاصل کرنے کی اس تگ و دو کے بعد صحافتی ذمہ داریاں بھی نبھانی تھی اور پھر اسٹوری حاصل کرنے کے لیے میدان میں آنا پڑتا تھا۔ یہ میرے پورے ایک دن کی سرگزشت تھی۔ اس لیے اگر میں نے اس دورا ن فون نہیں اٹھایا یا کال کا جواب نہیں دیا،، تو مجھے معافی ملنے کا پورا حق ہے‘‘۔

اس گفتگو کے بعد پھر کون شکایت کرتا۔ یہ نہ صرف الحسنات، بلکہ پورے ۲۰لاکھ غزہ کے مکینوں کی کہانی تھی۔ اسرائیلی بمباری کے سائے میں ۴۹دن انھوں نے کم و بیش اسی طرح گزارے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس عارضی جنگ بندی کو لاگو کروانے اور اس پر اسرائیل کو راضی کروانے کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے درمیان ۱۳ بار فون پر بات چیت کے دور ہوئے اور اس کے علاوہ امریکی صدر نے مسلسل قطر کے امیر تمیم بن حماد الثانی کے ساتھ رابطہ رکھا۔ انقرہ، دوحہ اور بیروت میں مقیم مذاکرات کاروں نے راقم کو بتایا کہ قطر نے گو کہ اس معاہدے کی ثالثی میں اہم کردار ادا کیا، مگر اس میں ایران، مصر اور ترکیہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ چھ صفحات پر مشتمل جنگ بندی دستاویز میں اسرائیلی فوجی سرگرمیاں بند کرنے، جنوبی غزہ پر اسرائیلی پروازوں پر پابندی اور شمالی فضائی حدود میں کارروائیوں کو محدود کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔اس کے علاہ قیدیوں کے تبادلہ کا نظم بھی وضع کردیا گیا۔ اس کا ابتدائی ڈرافٹ ۲۵؍ اکتوبر کو قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمٰن الثانی اور وائٹ ہاؤس کے مشرق وسطیٰ کے کوآرڈی نیٹر بریٹ میک گرک کے ساتھ طے پایا تھا۔

عالمی سطح پر احتجاج اور عرب ممالک خاص طور پر اس کے حکمرانوں سے تعلقات کی مجبوری نے امریکا کو اسرائیل پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے پر مجبور کردیا۔ ان مذاکرات پر نظر رکھنے اور جلد فیصلہ لینے کے لیے، قطر، امریکا اور اسرائیل کے نمایندوں کا ایک ’سیل‘ ترتیب دیا گیا۔ اس میں امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز،قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، اور میک گرک، اسرائیل کے موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا شامل کیے گئے۔ قطر کے امیر نے وزیر اعظم عبدالرحمٰن الثانی کو ’سیل‘ کے لیے نامزد کردیا، تاکہ فیصلہ سازی میں آسانی ہو۔ بعد میں اس عمل میں ترک وزیرخارجہ حکان فیدان،جو ایک سابق اینٹلی جنس سربراہ ہیں، اور مصری انٹیلی جنس کے سربراہ عباس کامل نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ اس سے قبل ۲۰ اور ۲۵؍اکتوبر کے درمیان، بارنیا نے برنز کے ساتھ کئی بار بات چیت کی، اور بائیڈن نے اس عرصے کے دوران نیتن یاہو سے چار بار بات کی تاکہ معاہدے کا خاکہ تیار کیا جا سکے، جس کے بعد ۲۵؍اکتوبر کو قطر کو ہری جھنڈی دی گئی۔

اس سے پہلے کہ مذاکرات کوئی سنجیدہ موڑ لیں، دوحہ، استنبول اور بیروت میں حماس کی سیاسی قیادت کو کہا گیا کہ وہ زمین پر اور عسکری قیادت پر اپنی گرفت کو ثابت کریں، تاکہ بعد میں معاہدہ کے بعد ان کی زمینی قیادت ا س سے انکاری نہ ہو۔ اس کامظاہرہ کرنے کے لیے، حماس نے ۲۱؍ اکتوبر کو امریکی شہریوں جوڈتھ اور نٹالی رانان کو رہا کردیا، جس سے قطر کی ثالثی کی صلاحیتوں پر اعتماد بڑھ گیا اور حماس کی سیاسی قیادت پر اعتماد قائم ہوگیا۔ تاہم، یہ مذاکرات دو بار تعطل کا شکار ہوگئے۔ پہلی بار جب اسرائیلیوں نے ۲۹؍ اکتوبر کو زمینی حملہ کیا اور دوسری بار ۱۵ نومبر کو جب اسرائیل نے غزہ کے الشفا ہسپتال کا محاصرہ کرلیا۔ لیکن سی آئی اے کے سربراہ نے قطری وزیر اعظم اور موساد کے سربراہ کو بات چیت جاری رکھنے پر آمادہ کرلیا۔ذرائع کے مطابق بائیڈن کی قطر کے امیر کے ساتھ براہِ راست فون کال نے بھی بات چیت کی بحالی میں مدد کی۔ تل ابیب میں میک گرک نے اسرائیلی قیادت کو بائیڈن کا پیغام پہنچایا۔ الشفا ہسپتال پر اسرائیلی حملے کے بعد جب روابط دوبارہ منقطع ہو گئے، تو اس کو بحال کرنے میں دودن لگ گئے۔ اس طرح ۱۸ نومبر کو میک گرک اور برنز نے ایک مسودہ کے ساتھ قطری وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ قطری وزیراعظم نے اس مسودے پر حماس کے رہنماؤں سے کئی گھنٹے تک بات چیت کی۔اجلاس میں حماس کے سربراہ اسماعیل حانیہ، سابق سربراہ خالد مشعل اور دیگر اہم پولٹ بیورو کے ارکان بھی شامل تھے، تاکہ بعد میں کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔

 ایک طویل اعصاب شکن بات چیت کے بعد بالآخر سی آئی اے کے سربراہ برنز اور قطری وزیر اعظم نے چھ صفحات پرمشتمل معاہدہ اسرائیل کے حوالے کرنے کے لیے تیار کرلیا۔ اگلے دن میک گرک نے قاہرہ میں مصری انٹیلی جنس چیف عباس کامل سے ملاقات کی، جس نے کچھ باقی ماندہ خلا کو پُر کرنے میں مدد کی۔اس دوران دوسرے ٹریک پر ایران بھی سرگرم تھا، جس کی وجہ سے تھائی لینڈ اور فلپائن کے قیدیوں کو رہائی مل گئی۔ حتمی تجویز اسرائیل کے سامنے پیش کی گئی تھی، مگر اس نے  شمالی سرحد پر حزب اللہ کے بارے میں خدشات ظاہر کیے اور لبنان بارڈر پر بھی جنگ بندی پر زور دیا۔ اس کے جواب میں ۲۳نومبر کو بیروت میں حماس کے لیڈروں اسامہ ہمدان اور خلیل الحیا ء نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصرا للہ سے ملاقات کی۔حزب اللہ نے حماس کو بات چیت اور فیصلہ کرنے کا کلی اختیار دے دیا اور یہ باور کرادیا کہ حماس، جو معاہدہ کرے گا، وہ اس کی پاسداری کرے گا۔ اس تگ ودو کے بعد ہی غزہ کے مکینوں کو راحت کی چند سانسیں لینے کا موقع ملا۔ مگر کب تک؟ جب تک فلسطین کے مسئلہ کا کوئی پائیدار حل عمل میں نہیں لایا جائے گا، تب تک جنگ بندی عارضی ہی رہے گی۔ پائیدار حل ہی میں اسرائیل کی سلامتی بھی ہے، مگر ان کو کون سمجھائے!

  • مستقبل کے امکانات: ۷؍اکتوبر کو فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے حملے کے جواب میں،  جس طرح اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر قہر برسانا شروع کیا تو ہر حساس ذہن میں سوال اُٹھا کہ کیا حماس کی کارروائی واقعی ا س قدر ضروری تھی ، کہ اتنی ہلاکتوں کا بار اٹھا سکے؟ غزہ میں بچوں اور خواتین کی لاشیں دیکھ کر اور ان مظلوم عوام کے نالے سن کر تو آسمان شق ہو جاتا ہے۔ ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کےلیے میں نے حماس کے کئی چوٹی کے راہنماؤں ،تنظیم کے بین الاقوامی امور کے سربراہ موسیٰ ابو مرزوق اور پولٹ بیورو کے رکن اسامہ ہمدان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ اسامہ ہمدان نے انٹرویو کےلیے ہامی تو بھرلی، مگر انتہائی مصروفیت کی وجہ سے وقت نکال نہ سکے۔وہ اسی دن روس کے دورہ سے واپس آئے تھے، جہاں انھوں نے روسی لیڈروں کو اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ کے بارے میں بریف کیا تھا۔

اسامہ ہمدان اس وقت مزاحمتی تنظیم کے کور گروپ کے ممبر ہیں۔ ان کے خاندان کا تعلق یبانہ قصبہ سے ہے، جو اب اسرائیل کی ملکیت میں ہے۔ ۱۹۴۸ء میں ان کے والدین کو گھر سے  بے گھر کردیا گیا اور وہ مصر کی سرحد سے ملحق غزہ کے رفح کے علاقہ کے ایک ریفوجی کیمپ میں منتقل ہوگئے۔ وہ اسی کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم غزہ میں مکمل کرنے کے بعد انھوں نے کنسٹرکشن مینجمنٹ میں امریکا کی کولاریڈو یونی ورسٹی سے ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی۔

 میں نے چھوٹتے ہی ان سے پوچھاکہ ۷؍اکتوبر کو حماس نے دنیاکی ایک مضبوط ترین فوج سے ٹکراکر اسے حیران و پریشان تو کردیا، مگر جس طرح اسرائیل نے اب جوابی کارروائی کی ہے، جس طرح عام شہری اور بچے مارے جا رہے ہیں ، کیا یہ کارروائی اس قابل تھی، کہ اتنی قیمت دی جاسکے ؟ ابو مرزوق نے کہا ’’ فلسطینیوں پر مظالم یا فلسطین کی کہانی ۷؍ اکتوبر کو شروع نہیں ہوئی۔ اس کی جڑ عشروں پر پھیلی ہے، جس کے دوران سیکڑوں قتل عام کیے گئے۔ اسرائیل روزانہ ہمارے لوگوں کو بغیر کسی مزاحمت کے مارتا ہے۔ غزہ کی پٹی کا محاصرہ ۱۷ سال پرانا ہے، اور یہ ایک سخت محاصرہ ہے۔ جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے، اور نوجوانوں کی اکثریت کا مستقبل تباہ ہو گیاہے۔ آپ مجھے بتایئے، کیا ہتھیار ڈالنا یا اسرائیل کے سامنے خود سپردگی کرنا کوئی حل ہے ؟ جن لوگوں نے ہتھیار ڈالے کیا اسرائیلیوں کو وہ قابل قبول ہیں ، کیا ان کے خلاف کارروائیاں کم ہوئی ہیں ؟ اسرائیلی صرف فلسطینیوں کو قتل کرنا اور ان کو اپنی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں جو نقشہ لہرایا، اس نے تو ان کے عزائم کو واضح کردیا ہے۔ ہم آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں اور مغربی ممالک کے حمایت یافتہ قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ہم صرف آزادی چاہتے ہیں کیونکہ ہم اسرائیلی قبضے کے تحت نہیں رہنا چاہتے۔ جس طرح ہندستان نے برطانوی قبضے کو مسترد کر کے آخر کار اسے نکال باہر پھینکا، ہم بھی ویسی ہی جنگ آزادی لڑ رہے ہیں۔ کیا ۱۸۵۷ء کی جنگ جس میں ہزاروں افراد مارے گئے وہ کوئی نا جائز جنگ تھی ؟ اس کا دفاع کیا جاسکتا ہے، ، تو ہماری جدوجہد بھی جائز ہے۔ اگر کوئی اُس وقت کہتا کہ یہ عظیم قربانیاں ہم نہیں دینا چاہتے ، تو آج تک برصغیر پر برطانیہ قابض ہوتا۔

 میں نے دوسراسوال پوچھا :’’مگر آپ نے تو نہتے اور عام اسرائیلی شہریوں کو قتل کیا، اس کاکیا جواز ہے؟‘‘ ابو مرزوق نے جواب دیا :”شہریوں کی ہلاکتوں کے بارے میں اسرائیلی موقف ہی غلط ہے۔ خود کئی اسرائیلیوں نے گواہی دی ہے، کہ ہمارے عسکریوں نے ان کو نشانہ نہیں بنایا۔ ایسی شہادتیں بھی ہیں کہ اسرائیلی شہریوں کو مارنے والوں میں ان کی اپنی فوج ہی ملوث تھی، کیونکہ فوج نے جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کےلیے بد حواسی میں رہایشی علاقوں پر بمباری کی، جس میں درجنوں شہری مارے گئے۔ ہمارے جنگجوؤں کے پاس ہلکے ہتھیار اورزیادہ سے زیادہ ہلکے مارٹرز تھے۔ جن اسرائیلی علاقوں کی تباہی اور بربادی کو ٹی وی پر دکھاکر ہمارے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے، کسی بھی ماہر سے اس کا معائنہ کروالیں ، وہ بکتر بند گاڑیوں کے گولوں اور بھار ی ہتھیاروں سے تباہ ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس اس طرح کے ہتھیار ہی نہیں تھے۔ جہاں تک اس میوزک فیسٹیول کا تعلق ہے جو اسرائیلی پروپیگنڈے کے ذرائع استعمال کر رہے ہیں اور واویلا کیا جا رہا ہے کہ وہاں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ پہلے تو یہ کہ ہمیں بالکل معلوم نہیں تھا کہ اس علاقہ میں کوئی میلہ لگا ہوا ہے۔ جب ہمارے جنگجو وہاں پہنچے، وہاں اسرائیلی فوج سے جم کر مقابلہ ہوا۔ ان کو نکالنے یا راہداری دینے کے بجائے اسرائیلی فوج نے ان کی آڑ لی۔ یہ علاقہ وار زون بن گیا۔ اسرائیلی فوج نے تو اس علاقے میں میزائل داغے۔ جب ہمارے جنگجوؤں نے سرحد عبور کی، تو وہ سخت مقابلہ کی توقع کر رہے تھے، ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ عسقلان تک ان کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بارڈر پوسٹ پر اسرائیلی گارڑز نے ہتھیار ڈال دیئے یا بھاگ گئے۔ جس کی وجہ سے خاصی افراتفری مچ گئی۔ جب سرحد کی باڑ ٹوٹ گئی، تو غزہ کی پٹی سے سیکڑوں شہری اور دیگر افراد دھڑا دھڑ اسرائیلی مقبوضہ علاقوں میں داخل ہوئے۔ یہ نظم و نسق کا معاملہ تھا، مگر ایسے وقت میں اس کو سنبھالنا مشکل تھا۔ ہماری منصوبہ بندی میں ایسی صورت حال کی عکاسی نہیں کی گئی تھی۔ ان شہریوں نے اپنے طور پر کئی اسرائیلیوں کو یرغمال بنالیا۔ ہم نے تمام متعلقہ فریقوں کو مطلع کیا ہے کہ ہم عام شہریوں اور غیر ملکیوں کو رہا کر دیں گے، اور ان کو پکڑکر رکھنا ہمارے منشور میں نہیں ہے۔ ہم ان کی رہائی کےلیے مناسب حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ غزہ کی پٹی پر شدید بمباری کے وجہ سے یہ مشکلات پیش آرہی ہیں ‘‘۔

 میں نے ان سے پوچھا :” کیا آپ کے حملے کا ایک مقصد ’ابراہیمی معاہدہ‘ یا عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے میں رکاوٹ پیدا کرنا تھا ؟” انھوں نے کہا کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان نارملائزیشن کے معاہدوں کو سبوتاژ کرنے کےلیے حماس کے حملے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ عرب عوام تو پہلے ہی ان کو مسترد کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر، مصراور اُردن نے اسرائیل کے ساتھ ۴۰ سال قبل امن معاہدے کیے تھے، لیکن ان کے عوام نے ان کو مسترد کر دیا ہے۔ ان ممالک کو بھی معلوم ہے کہ اس کے جواب میں ان کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اس لیے ہم اس ’ابراہمی معاہدہ‘ سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ وہ خود اپنی موت آپ مرجائے گا۔

میں نے ابو مرزوق کی توجہ دلائی کہ دنیا بھر میں مسلح مزاحمتی تحریکوں کی اب شاید ہی کوئی گنجایش باقی رہ گئی ہے۔ ان گروپوں کو اب دہشت گردوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ جیسا آپ نے خود ہی دیکھا ، پورا مغرب اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہو گیا ہے۔ کیا اس نئے ماحول میں آپ پُر امن تحریک کی گنجایش نہیں نکال سکتے ہیں ؟ تو انھوں نے جواب دیا ’’۳۰ سال تک انھوں نے پُرامن راستہ آزمایا۔ الفتح تحریک نے اوسلو معاہدے پر دستخط بھی کیے۔ ۳۰ سال بعد کیا نتیجہ نکلا؟ ہمیں فلسطینی ریاست نہیں ملی جیسا کہ انھوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اور مغربی کنارہ الگ تھلگ جزیرہ کی طرح رہ گیا ہے۔ یہودی بستیوں نے اسے ہڑپ کر لیا ہے، اور غزہ کا محاصرہ کر لیا گیا ہے۔ دونوں فلسطینی علاقوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لوگ اب صرف پرامن حل اور جدوجہد پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم ’جامع مزاحمت‘ پر یقین رکھتے ہیں جس میں مسلح مزاحمت اور عوامی مزاحمت بھی شامل ہے۔ ہمارے لوگوں نے عظیم مارچ میں شرکت کی اور سیکڑوں ہزاروں لوگ روزانہ غزہ کی سرحد پر محاصرہ توڑنے اورمغربی کنارہ کے ساتھ رابط کرنے کا مطالبہ کرتے تھے، مگر اس پُر امن جدوجہد کا کیا نتیجہ نکلا؟ جدوجہد کو پُرامن رکھنا یا اس کو پُرتشدد بنانا ، قابض قوت کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اگر وہ پُر امن جدوجہد کو موقع دے، تو یہ پُرامن رہ سکتی ہے‘‘۔

 ایک اور اہم سوال میرے ذہن میں تھا کہ ۲۰۰۶ء میں حماس غزہ میں برسراقتدار آگئی۔ مغربی کنارہ کے برعکس اس خطے کے پاس سمندری حدود تھیں اور اگر گورننس پر توجہ دی گئی ہوتی تو اس کو علاقائی تجارتی مرکز میں تبدیل کرکے مشرق وسطیٰ کے لیے ہانگ کانگ یا سنگاپور بنایا جاسکتا تھا۔ اس طرح سے خطے میں مثالی علاقہ بن جاتا، مگر حماس نے اس کو میدان جنگ بنادیا۔ ابو مرزوق نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ الزام سن کر ہی عجیب لگتا ہے کہ غزہ کو ہم نے میدان جنگ بنادیا۔

 حماس ۱۹۸۷ء میں قائم ہوئی۔ ہم نے ۲۰۰۶ء میں اقتدار سنبھالا، اور اسی کے ساتھ ہی ہمارا محاصرہ کیاگیا تاکہ ہم اچھی طرح حکومت نہ کر سکیں۔ اسرائیل، امریکا، اور ظالم مغربی دنیا نے ہمیں ناکام بنانے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پھر بھی ہم ثابت قدم رہے۔ اسرائیل نے جان بوجھ کر ہمیں تباہ کرنے کے لیے منظم طریقے سے نشانہ بنایا۔ اس صورت حال میں ہم کیسے ایک معیشت کو ترتیب دے سکتے تھے؟ کیا سنگاپور یا ہانگ کانگ کو اسی طرح کی صورت حال کا کبھی سامنا کرنا پڑا؟ خوش حالی کا پہلا قدم نظم و نسق اور مجرموں سے نجات اور پھر ریاست کی تعمیر ہے۔ اسرائیلی قبضے سے قبل ہم واقعتاً خطے کے سب سے ترقی یافتہ علاقوں میں سے ایک تھے۔ جب قبضہ ہوا تو ہم پر جنگیں، نقل مکانی ٹھونس دی گئی۔ ہمارے آدھے لوگ فلسطین سے باہر پناہ گزین ہوگئے۔ ہم ترقی اور خوش حالی کی زندگی جینا چاہتے ہیں۔ مگر کیا قبضے میں رہتے ہوئے ہم خوش حال ریاست بنا سکتے ہیں؟

میں نے پوچھا، خیر آپ نے تو اب جنگ شروع کردی ہے، اس کا انجام کیا ہوگا؟ ; ابومرزوق نے جواب دیا کہ جنگ تو انھوں نے شروع کی ہے، جنھوں نے سرزمین پر قبضہ کیاہے۔ ’’حماس کے مجاہد خطے کی سب سے مضبوط فوج کو بے بس کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ہم اپنی مزاحمت اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک کہ ہم اپنی آزادی حاصل نہیں کر لیتے، اور ہماری آزادی ہی اس جنگ کا انجام ہے‘‘۔

 عرب ممالک ہمیشہ ہی حماس سے خائف رہتے ہیں۔ کیونکہ حماس کو اخوان المسلمون کی ایک شاخ تصور کیا جاتا ہے۔ ایران نے اس کی بھر پور مدد کی ہے۔ میں نے جب ان کی توجہ   اس طرف دلائی، تو ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی مزاحمت ایرانی انقلاب سے پہلے موجود تھی۔ ’’ایران ہمیں مدد فراہم کرتا ہے، اور ہم اس کے لیے اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ، اور ہم مختلف جماعتوں اور ملکوں سے ہر قسم کی حمایت حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عرب عوام ان کے ساتھ ہیں ، اور یہ ان کا بڑا سرمایہ ہے۔

 میں نے پوچھا کہ کیا مشرق وسطیٰ میں امن کی خاطر اسرائیل اور فلسطین کا ایک ساتھ رہنا ممکن ہے ؟حماس کے لیے یہ قابل قبول کیوں نہیں ہے؟انھوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ بھیڑ کے بچے سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں کہ تم بھیڑیے کے ساتھ رہنے پر راضی ہوجائو؟ آپ کو یہ سوال بھیڑیئے سے کرنا چاہیے ، جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور مشرق وسطیٰ میں انتہائی جدید ترین فوج کا مالک ہے۔ جہاں تک ہم فلسطینیوں کا تعلق ہے، ہم نے اوسلو میں مذاکرات کیے، دو ریاستی حل کی راہ بھی ہمیں دکھائی گئی۔ پھر کیا ہوا، کیا ہمارے علاقے خالی کیے گئے؟کیا ہمیں ریاست بننے دیا گیا ؟درحقیقت اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو فلسطینیوں کے ذہنوں سے فلسطینی ریاست کے قیام کے تصور کو کھرچنا چاہتے ہیں۔ کیا ایسے افراد یا ایسے نظریہ کے ساتھ رہنا ممکن ہے؟ کیا ان لوگوں کے ساتھ رہنا ممکن ہے جو یہ مانتے ہیں کہ ایک اچھا فلسطینی مردہ فلسطینی ہی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا کہ ا یک تاثر یہ بھی ہے کہ فلسطینی خود بکھرے ہوئے اور منقسم ہیں۔ دنیا میں کوئی منقسم تحریک کے ساتھ معاملات طے کرنا پسند نہیں کرتا ہے ؟ انھوں نے کہا یہ ایک مضحکہ خیز دلیل ہے۔ حماس تو ۲۰۰۶ء میں غزہ میں برسراقتدار آئی۔ یعنی اسرائیل کے قیام کے چھ دہائیوں بعد، تو پھر ان دہائیوں کے دوران دنیا نے فلسطینی عوام کو آزادی کیوں نہیں دلائی؟آج دنیا فلسطینیوں کے منقسم ہونے کا بہانہ ڈھونڈ رہی ہے تاکہ فلسطینیوں پر الزام دھرا جا سکے۔ ان کی بین الاقوامی پوزیشن مشکوک بنائی جائے۔ آزادی کے عمل کے دوران ہر ملک میں الگ الگ موقف اور رائے رہی ہے، کیا آپ کو برصغیر کی آزادی کی تحریک کی تاریخ معلوم نہیں ہے؟ مگر اس سے عمومی تحریک کی نفی نہیں کی جاسکتی ہے۔ وہ بہرحال برحق ہے۔

  • فرید زکریا: الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق حماس۱ کے رہنما اسماعیل ہانیہ۲ نے اس جارحیت کی تمام تر ذمہ داری فلسطینی سرزمین کے اسرائیلی ناجائز قبضے پر عائد کی ہے۔ ایک مختلف فلسطینی نقطۂ نظر کے لیے میں ڈاکٹر مصطفیٰ برغوثی۳ کا موقف سامنے لانا چاہتا ہوں۔ وہ فلسطینی حکومت کے سابق وزیراطلاعات ہیں، جس کا مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر کنٹرول ہے لیکن غزہ پر ان کا عمل دخل تمام تر نہیں ہے۔ مصطفیٰ برغوثی خوش آمدید! میں ایک بار پھرناظرین پر یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ فلسطینی اتھارٹی۴ حماس کی مخالف رہی ہے۔ لہٰذا آپ کسی بھی طرح سے حماس کے طرف دار نہیں ہیں، آپ فلسطینی اتھارٹی کی نمایندگی کرتے ہیں، جس کا مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر کنٹرول ہے۔ مصطفیٰ برغوثی صاحب آپ نے اب تک جو کچھ دیکھا ہے اس پر آپ کا ردعمل کیا ہے؟
    • مصطفیٰ البرغوثی:سب سے پہلے تو یہ واضح کر دوں کہ اس وقت میں فلسطینی اتھارٹی کا حصہ نہیں ہوں۔ در حقیقت میں ’فلسطینی قومی اقدام‘۵ کے نام سے ایک جمہوری فلسطینی تحریک کی نمایندگی کرتا ہوں، جو فتح۶ اور حماس سے ایک تنظیم ہے اور… یقیناً میں حماس سے وابستہ نہیں ہوں، لیکن سمجھتا ہوں کہ یہ صورت حال جو ابھی سامنے آئی ہے۷ یہ سب، جدید تاریخ کے طویل ترین قبضے کے تسلسل کا براہِ راست نتیجہ ہے جو کہ ۱۹۶۷ء سے فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کی صورت میں شروع ہوا۔ ۵۶ سال سے جاری یہ قبضہ نسلی عصبیت کے نظام میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ جنوبی افریقہ کی  نسلی عصبیت سے کہیں زیادہ بدترین ہے۔ ہاں، بلاشبہہ حماس نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے، لیکن پی ایل او ۸ نے کیا اور فلسطینی اتھارٹی نے تسلیم کیا۔ انھیں کیا ملا؟ کچھ نہیں۔ ۲۰۱۴ ء سے اسرائیلی حکومتیں فلسطینیوں سے یکسر ملاقات تک گوارہ نہیں کر رہی ہیں۔ اور آج آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ کئی چیزوں کا ردعمل ہے۔ سب سے پہلے، آبادکاروں نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر دہشت گردانہ حملے کیے جنھوں نے نسل کشی کے اس عمل میں ۲۰ برادریوں کو پہلے سے ہی بے دخل کر دیا ہے۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج اور صہیونی آباد کاروں کے ہاتھوں ۲۴۸ فلسطینی ہلاک ہوئے، جن میں ۴۰ بچے بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے مقدس مقامات پر حملے۔ نیز نیتن یاہو۹ کا یہ اعلان کہ وہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لاکر فلسطینیوں کے حقوق اور فلسطینی مقدمہ کا خاتمہ کردے گا۔ اور اس نے اقوام متحدہ میں جانے کی بھی ہمت کی اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کا نقشہ پیش کیا جس میں پورا مغربی کنارہ، پورا غزہ، پورا یروشلم اور گولان۱۰ کی پہاڑیاں شامل تھیں۔ اس نے مقبوضہ علاقوں کے الحاق کا اعلان کیا۔ تو یقیناً فلسطینیوں نے مزاحمت کی طرف رُخ کیا، کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے لیے اپنے حقوق حاصل کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ یہاں سوال فلسطینیوں کو غیر انسانی بنانے(تحقیر کرنے)، جو کہ ہو رہا ہے اور انھیں دہشت گرد قرار دینے کا نہیں ہے۔ سوال اس بارے میں ہے کہ کیوں امریکا یوکرین کی حمایت کرتا ہے جسے وہ روسی قبضہ کہتا ہے، جب کہ یہاں وہ قابض اسرائیل کی حمایت کررہا ہے جو ہم پر قابض ہے؟
  • فرید زکریا:لیکن کیا یہ وہی تمثیل ہے جو آپ بیان کر رہے ہیں کہ جو کچھ حماس کر رہی ہے  وہ اسرائیلی شہریوں، عورتوں، بچوں، دادیوں کو نشانہ بناکر قتل عام کر رہی ہے؟
    • مصطفیٰ البرغوثی: وہ نہیں کر رہے قتل عام!
  • فرید زکریا: کیا یہ روایتی دہشت گردی نہیں ہے؟ وہ اسرائیلی حکومت سے نہیں لڑ رہے، وہ عام لوگوں سے لڑ رہے ہیں۔
    • مصطفیٰ البرغوثی:یہ آپ کی گفتگو کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ سچ نہیں ہے۔ میرے خیال میں حماس نے بنیادی طور پر فوجی نظام، فوجی تنصیبات پر حملہ کیا۔ اور جن لوگوں کو انھوں نے گرفتار کیا ہے اور قیدی بنا لیا ہے ان میں سے زیادہ تر جنگی قیدی ،فوجی لوگ ہیں۔ میں کسی شہری پر حملے کو قبول نہیں کرتا۔ میں یہ نہیں تسلیم کرتا کہ اسرائیل ہمارے شہریوں پر حملہ کرے، لیکن دیکھئے کہ اسرائیلی طیارے ابھی غزہ میں کیا کر رہے ہیں؟ وہ گھروں پر بمباری کر کے گھروں کو  زمین بوس کر رہے ہیں اور آپ نے بھی دیکھا ہے کہ پورے کے پورے اپارٹمنٹس، پوری پوری بلند و بالا عمارتیں زمین بوس کر دی گئی ہیں۔

بڑے پیمانے پر رپورٹس آ رہی ہیں، خاندانوں کے بارے میں جو مارے جا چکے ہیں۔ ایک خاندان کے نو افراد ،دوسرے خاندان کے ۱۰ افراد بشمول بچے وغیرہ۔ میں نہیں چاہتا کہ کسی بھی شہری کو تکلیف پہنچے ، خواہ فلسطینی ہو ں یا اسرائیلی ، لیکن سوال یہ ہے کہ اسے ختم کیسے کیا جائے؟ کیا یہ غزہ کی پٹی پر دوبارہ حملہ کرنے سے ختم ہو جائے گا؟ اسرائیل اس سے پہلے غزہ پر پانچ جنگیں۱۱ کرچکا ہے، جن میں سے ایک ۵۱ دن تک جاری رہی۔ جس میں انھوں نے سب کچھ تباہ کردیا تھا۔ اس سے حماس نہیں رکی، مزاحمت نہیں رکی۔ کسی بھی قسم کے تشدد کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اسرائیلی قبضے کو ختم کرنا اور یہ کہ امریکا اس میں منصفانہ کردار ادا کرے۔ وہ یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ اسرائیل کو تو اپنے دفاع کا حق ہے مگر ہم فلسطینیوں کو اپنے دفاع کا حق حاصل نہیں ہے۔ میں آپ کو شیرین ابو عاقلہ کا معاملہ یاد دلاتا ہوں، جو نہ صرف فلسطینی بلکہ ایک امریکی شہری بھی تھی۔ ایک انتہائی پُرامن صحافی، جسے اسرائیلی سنائپر نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ کیا کسی پر فرد جرم عائد کی گئی؟ کیا کسی کو عدالت میں لے جایا گیا؟ نہیں۔ ۵۲ دیگر صحافی بھی مارے گئے۔ ہمارے ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے والوں پر گولیاں چلائی جاتی ہیں، ہمارے ڈاکٹروں کو گولیاں ماری جاتی ہیں، اسے رُکنا چاہیے۔ اور اسے روکنے کا واحد طریقہ اسرائیل کو بتانا ہے کہ  آپ کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنا ہوگا۔ آپ کو اس ناجائز قبضے کو ختم کرنا ہوگا اور فلسطینیوں کو برابر کے انسانوں کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔

  • فرید زکریا:میں آپ سے اس کی عملی حقیقت کے بارے میں پوچھتا ہوں کہ آپ کو معلوم ہے کیونکہ آپ اس سے گزر چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل میں دائیں بازو کی قوتیں مضبوط ہورہی ہیں، جو کہتی ہیں کہ کوئی رحم نہ کیا جائے۔ آپ جانتے ہیں زبردست فوجی ردعمل،  غالباً مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں کی زندگی مشکل تر ہو جائے گی، مزید فوجی چوکیاں بنیں گی۔ کیا یہاں اس سب کا عملی اثر عام فلسطینیوں کے لیے زیادہ خراب نہیں ہو گا؟
    • مصطفیٰ البرغوثی:بدقسمتی سے جو آپ نے بیان کیا ہے بالکل وہی ہے ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔ آج پورا مغربی کنارہ ۵۶۰ فوجی اسرائیلی چوکیوں کی وجہ سے مفلوج ہے اور یہ چوکیاں پچھلے ۳۰ برسوں سے وہاں موجود ہیں۔ ہم اس دیوار سے دوچار ہیں جو ہماری ہی زمین پر بنائی گئی ہے۔ پورا مغربی کنارہ ۲۲۴ چھوٹے چھوٹے محلوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے سے الگ ہو چکا ہے اور آباد کار ہر جگہ فلسطینیوں پر حملے کر رہے ہیں۔ آپ اسرائیل میں دائیں بازو کی حکومت کے بارے میں بات کرتے ہیں، اسرائیل پر پہلے سے ہی دائیں بازو کی حکومت ہے، اسرائیل اپنی حکومت میں پہلے سے ہی فسطائیت رکھتا ہے۔ 'سموٹرچ ۱۲ جو کہ ایک آباد کار بھی ہے، اس نے کہا: ’’فلسطینیوں کے پاس تین میں سے ایک آپشن ہے: یا تو ہجرت کریں، یا اسرائیلیوں کے سامنے محکومی کی زندگی قبول کریں، یا مر جائیں‘‘۔ یہ اسرائیلی وزیر خزانہ ہے۔ نیتن یاہو نے کبھی ان بیانات کی نفی نہیں کی۔ سموترچ اوربن گویر۱۳ دونوں نے کہا کہ ’’ہمارا منصوبہ مغربی کنارے کو اسرائیل کے قبضے میں لینے کا ہے‘‘۔

 کیا ہم اسے روک سکتے ہیں جو اب ہو رہا ہے؟ ہاں، بلاشبہ تمام اسرائیلی جو اس وقت غزہ میں ہیں کل رہا ہو سکتے ہیں بشمول عام شہری، حتیٰ کہ اسرائیلی فوج کے جرنیلوں کو بھی رہا کیا جا سکتا ہے اگر اسرائیل بھی ہمارے ۵۳۰۰ فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دے، جو اسرائیلی جیلوں میں بند ہیں۔ جن میں وہ ۱۲۶۰ فلسطینی بھی شامل ہیں، جو یہ جانے بغیر کہ ان کا جرم کیا ہے نام نہاد ’انتظامی حراست‘ میں ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ انھیں کیوں گرفتار کیا گیا؟ ان پر کوئی فردِ جرم عائد نہیں کی گئی، ان کے وکلا کو نہیں معلوم کہ انھیں کیوں گرفتار کیا گیا اور یہی وہ زندگی ہے، جو ہم نے دیکھی ہے۔ ہم نے ساری زندگی قبضے میں گزاری ہے۔ میرے والد قبضے میں رہتے تھے، میری بیٹی قبضے میں رہ رہی ہے۔ ہم ایک ایسا وقت چاہتے ہیں، جب ہم فلسطینی آزاد ہوں گے۔

 حماس ۳۰ سال پہلے یا ۴۰ سال پہلے نہیں تھی، لیکن اس سے پہلے پی ایل او کو دہشت گرد قرار دیا جاتا تھا۔ جو فلسطینی اپنے حقوق یا آزادی کے لیے جدوجہد کرتا ہے اسے دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے اور یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں آزادی کی جدوجہد کا حق ہے؟ کیا ہمیں حقیقی جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے کا حق ہے؟ کیا ہمیں عام جمہوری انتخابات کرانے کا حق ہے، جس کی بدقسمتی سے اسرائیل اور امریکا حمایت نہیں کرتے؟ ہم اس کے حق دار ہیں، لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اگر ہم عسکری جدوجہد کرتے ہیں تو ہم دہشت گرد ہیں۔ اگر ہم غیر متشدد طریقے سے جدوجہد کرتے ہیں تو اس کے باوجود ہمیں متشدد قرار دیا جاتا ہے۔ اگر ہم الفاظ کے ساتھ مزاحمت بھی کرتے ہیں تو ہمیں ’اشتعال انگیز‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اگر آپ فلسطین کی حمایت کرتے ہیں اور آپ غیر ملکی ہیں تو وہ آپ کو ’یہود مخالف‘ قرار دیتے ہیں۔ اور اگر آپ یہودی ہیں ،اور بہت سے ایسے یہودی ہیں جو فلسطینی مقدمہ کی حمایت کرتے ہیں ،تو وہ اسے خود سے نفرت کرنے والا یہودی کہتے ہیں۔ یہ سفاکانہ کھیل ختم ہونا چاہیے۔ یہ بالکل بے معنی ہے۔ ہم سب کو یکساں زندگی گزارنی چاہیے۔ ہم سب کو امن میسر ہونا چاہیے، ہم سب کو انصاف میسر ہونا چاہیے اور ہم سب کو عزت سے رہنا چاہیے۔ اس کو حاصل کرنے کا بنیادی طریقہ یہ ہے کہ نسلی عصبیت کی شکل میں اس قبضے کو ختم کیا جائے، جس پر مجھے یقین ہے کوئی بھی یہودی فخر نہیں کرسکتا۔ اس کا وقت آگیا ہے۔ اور انصاف اور آزادی کا وقت آگیا ہے۔ اگر ہم یہ حاصل کرلیتے ہیں تو کوئی تشدد نہیں ہو گا اور کسی کو تکلیف نہیں پہنچے گی۔

 _______________

حواشی

۱-         حماس: اردو میں اسلامی مقاومت تحریک، عربی میں حركة المقاومة الإسلامية اور انگریزی میں  Islamic Resistance Movement کہا جاتا ہے۔ فلسطینی سنی اسلامی سیاسی اور فوجی تنظیم ہے، جس کی بنیاد فلسطینی امام احمد یاسین نے۱۹۸۷ ء میں پی ایل او اور ’اوسلوا کارڈ‘ کی مخالفت میں رکھی، جو  آج کل مقبوضہ فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی کی حکومتی اور فوجی تنظیم سنبھالے ہوئے ہے۔ حماس کے ۲۰۱۷ء کے چارٹر کے مطابق وہ ۱۹۶۷ ء کی فلسطینی ریاستی حدود کو تسلیم کرتا ہے ،اسرائیل کو تسلیم کیے بغیر۔

۲-         اسماعیل ہانیہ ۲۰۱۷ ء میں حماس کے سیاسی امیر بنے۔ اس سے پہلے وہ ۱۹۹۷ ء میں حماس کی تنظیم سے وابستہ ہوئے اور ۲۰۰۶ ءکے الیکشن کے نتیجے میں فلسطین کے وزیر اعظم بھی بنے،جن کو صدر محمود عباس نے ۲۰۰۷ ء میں دفتر سے فتح-حماس کشیدگی کی وجہ سے نکال دیا۔ اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے غزہ کی پٹی پر حکمرانی جاری رکھی۔

۳-         مصطفیٰ البرغوثی ایک طبیب اور سیاست دان ہیں، جو کہ فلسطینی قومی اقدام عربی میں: المبادرة الوطنية الفلسطينية اور انگریزی میں Palestinian National Initiative نام سے جانی جاتی ہے کے بانیوں میں سے ہیں۔ ۲۰۰۷ ء میں مصطفیٰ فلسطین کی یکجا حکومت میں اطلاعات کے وزیر بھی رہے ہیں۔

۴-         یہ اسرائیلی قبضہ سے پاک بقیہ فلسطینی ریاست کا نام ہے۔ اسے عربی میں السلطة الوطنية الفلسطينية اور انگریزی میں Palestinian National Authority یا  Palestinian Authority یا State of Palestineبھی کہا جاتا ہے۔

۵-         ’فلسطینی قومی اقدام پارٹی‘ ۲۰۰۲ ء کو وجود میں آئی، جس کے آج کل امیر مصطفیٰ البرغوثی ہیں۔ یہ اپنے آپ کو فلسطینی سیاست میں فتح ، جسے یہ کرپٹ اور غیر جمہوری پارٹی اور حماس ، جسے یہ بنیاد پرست اور انتہا پسند پارٹی سمجھتے ہیں کے بعد ،تیسری بڑی جمہوری طاقت قرار دیتی ہے ۔

۶-         فتح ، سابقہ فلسطینی نیشنل لبریشن موومنٹ ،عربی میں:حرکت التحریر الوطنی الفلسطینی، فلسطینی نیشنلسٹ اور سوشلسٹ سیاسی جمہوری پارٹی ہے۔ فلسطینی اتحاد کے صدر محمود عباس فتح کے چیئرمین ہیں۔ یہ یاسرعرفات کو اپنی پارٹی کا بانی مانتے ہیں۔

۷-         یہ ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ ءکے حماس کے اسرائیل پر حملے کی طرف اشارہ ہے، جس کی وجہ سے حماس کی اسرائیل سے ایک بڑی جنگ چھڑ گئی ہے جو کہ غزہ کی پٹی میں لڑی جا رہی ہے۔

۸-         فلسطینی تحریک آزادی (عربی: منظمة التحریر الفلسطينية، انگریزی: Palestine Liberation Organization) ایک فلسطینی قومی متحدہ محاذ ہے، جو بین الاقوامی سطح پر فلسطینی عوام کے آفیشل وکیل کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ ۱۹۶۴ ءمیں تشکیل دی گئی۔ ابتدائی طور پر اس نے پورے فلسطینی علاقے پر ایک عرب ریاست قائم کرنے کی کوشش کی اور اسرائیل کی ریاست کو ختم کرنے کی تجویز دی۔ تاہم،۱۹۹۳ ء میں، پی ایل او نے ’اوسلوا کارڈ‘ کو تسلیم کیا، اور اب صرف مغربی کنارے اور غزہ کے علاقے میں ایک عرب ریاست چاہتی ہے۔

۹-           نیتن یاہو۲۰۲۲ء سے اب تک کے اسرائیلی وزیراعظم ہیں، جو پہلی دفعہ ۱۹۹۶ء تا ۱۹۹۹ء وزیراعظم رہے پھر ۲۰۰۹ء تا ۲۰۲۱ ء وزیراعظم رہے۔ انھوں نےامریکا کے ایم آئی ٹی سے تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد اسرائیلی فوج میں بھی ملازمت کی ۔سیاست میں آنے سے پہلے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل مندوب بھی رہے۔وہ دائیں بازو کی سیاسی پارٹی لیکود کے صدر بھی ہیں۔ نیتن یاہو کے سابق امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ خاص مراسم تھے، جس کی بدولت کئی عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور سرکاری تعلقات استوار کیے۔

۱۰-      یہ شام کے سرحدی علاقے کی پہاڑی چوٹیاں ہیں، جس کا ایک بڑا حصہ ۱۹۶۷ ء کی چھ دن کی جنگ کے دوران اسرائیل نے قبضہ میں لے لیا ۔ جس کو اس نے اپنی ریاست میں ۱۹۸۱ ء میں ضم کر لیا ۔

۱۱-      ۲۰۰۵ ء میں اسرائیل کے غزہ سے انخلاء کے فوراً بعد حماس انتخابات جیت گئی اور تب سے اب تک حماس اور اسرائیل پانچ جنگیں لڑ چکے ہیں۔ پہلی جنگ ۲۰۰۸ -۲۰۰۹ء میں ۲۳ دن جاری رہی، دوسری ۲۰۱۲ ء میں ۸ دن جاری رہی، تیسری ۲۰۱۴ء میں ۵۰ دن جاری رہی، چوتھی ۲۰۲۱ ء میں گیارہ دن جاری رہی، اور پانچویں اب ۷؍ اکتوبر سے تاحال جاری ہے، جسے مہینے سےزیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔

۱۲-      بزلائی یول سموٹرچ مذہبی انتہا پسند دائیں بازو کے سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والا وکیل اور رہنما ہے، جو کہ ۲۰۲۲ء سے اب تک اسرائیل کا وزیر خزانہ ہے۔وہ مغربی کنارے کی ایک آباد کاری کدومیم جو کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق غیر قانونی ہے میں رہتا ہے۔

۱۳-      اتمار بن گویر مذہبی انتہا پسند دائیں بازو کی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والا سیاست دان اور وکیل ہیں، جو ۲۰۲۲ء سے اسرائیل کے وزیربرائے قومی سلامتی ہیں ۔ وہ مغربی کنارے میں غیر قانونی آبادکاری میں رہتا ہے اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز زبان استعمال کرنے کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس پر کئی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کا الزام ہے اور وہ انتہا پسندانہ صیہونی نظریہ رکھتا ہے۔

۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس کے ۱۲۰۰؍ اسرائیلیوں کے قتل عام کے بعد امریکی سینٹیرز سے لے کر چلّی کے صدر تک، ناروے کے وزیراعظم سے لے کر اقوام متحدہ کے حکام تک نے ایک جیسا موقف اپنانے کی کوشش کی کہ اگرچہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، تاہم غزہ میں اس کی موجودہ جنگی کارروائی غیرمتناسب اور غیرمتوازن ہے۔ غالباً یہی گروپ مزید ٹارگٹڈ آپریشن کی حمایت کر ے گا۔اگرچہ میں ایک فوجی ماہر ہوں۔ ایک عشرے سے میں غزہ میں فوجی کارروائیوں کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ سوچتا ہوں مزید ٹارگٹڈ آپریشن کیسا ہوگا؟ مجھے کچھ اندازہ نہیں ہے۔

اسرائیل اس سے قبل غزہ میں مزید محدود فوجی کارروائیاں کرچکا ہے۔ ۲۰۱۲ء میں اس نے محدود فضائی مہمیں چلائیں، جیسے آپریشن پلر آف ڈیفنس یا حال ہی میں ۲۰۲۱ء میں آپریشن گارڈین آف دی والز کیا۔ اس نے ۲۰۰۸ء سے ۲۰۰۹ء تک محدود زمینی آپریشن کیے اور ۲۰۱۴ء میں آپریشن پروٹیکٹو ایج بھی کیا۔ ان تمام فوجی مہمات کے دوران اسرائیل کے اقدامات پر تنقید کی گئی جیساکہ اب کی جارہی ہے اور ان زیادہ ٹارگٹڈ فوجی مہموں کو غیرمتناسب قرار دیا گیا۔ اسرائیل کے لیے ان سابقہ تنازعات اور فوجی مہمات سے یہ سبق ملتا ہے کہ ان مہمات کو محدود کرنے سے ناقدین کے غصے کو ٹھنڈا نہیں کیا جاسکتا۔

تاہم،اسرائیل کے نقطۂ نظر سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ محدود مہمات اور آپریشنز کامیاب نہیں ہوسکے۔ اسرائیل، حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ محمدضیف کو سات بار مارنے کی کوشش کرچکا ہے، لیکن ناکام رہا ہے۔ حماس کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف اسرائیل کی کامیابی کی شرح بھی محدود ہی رہی ہے۔ حماس کے راہنما یحییٰ سنوار کا دعویٰ ہے کہ ۲۰۲۱ء میں آپریشن گارڈین آف دی والز میں غزہ میں حماس کے زیرزمین سرنگوں کے جال کو صرف ۵ فی صد نقصان پہنچانے میں کامیابی حاصل ہوسکی تھی۔ اس بات کے ثبوت کے لیے صرف ۷؍اکتوبر کے حملوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ حماس کی عسکری صلاحیت ماضی کے ٹارگٹڈ آپریشنز کے بعد بھی پوری طرح محفوظ اور برقرار ہے۔

مزید برآں جب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کا عملی طور پر کیا مطلب ہے تو اسرائیل کے نام نہاد ٹارگٹڈ آپریشنز اور مہمات جو اَب تک کی گئی ہیں، ان کے درمیان فرق دھندلا ہونے لگتا ہے۔

غزہ کے ۲۰ لاکھ سے زیادہ شہریوں کے درمیان ۲۰۰ سے زیادہ اسرائیلی یرغمالیوں کو بچانا اسرائیل کے لیے ایک بہت پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ہمارا گمان ہے کہ اسرائیل کے پاس یرغمالیوں کے ٹھکانوں کی حساس معلومات بھی موجود ہوں گی۔ اگرچہ اسرائیل کو غزہ کے گھر گھر، گلی گلی اور خفیہ سرنگوں کی پوری طرح چھان مارنے کی ضرورت ہے۔ حماس یقینا اس طرح کی دراندازی کے خلاف مزاحمت کرے گی، جس کے نتیجے میں زمین پر سب سے زیادہ گنجان آباد خطے میں شدید لڑائی چھڑجائے گی۔

تاہم، جب ہم ایک ناگزیر شرط کے طور پر اسرائیل کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ یرغمالیوں کو ان کے صحیح مقامات جانے بغیرطاقت کے ذریعے چھڑانے کی کوشش کرے، تو اس کے نتیجے میں دیگر ناگزیر نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔ اسرائیل کو حماس کو یرغمالیوں کو نامعلوم مقامات پرمنتقل کرنے سے روکنے کے لیے اس بات پر قابو پانے کی ضرورت ہے کہ کون غزہ کو چھوڑ سکتا ہے اور کون نہیں چھوڑ سکتا۔ رسائی پر کنٹرول پانے کے لیے غزہ جانے والے ایندھن پر بھی کنٹرول پانا ہوگا۔ یرغمالیوں کی بازیابی ایک حساس مسئلہ ہے جہاں ایک لمحہ بھی اہمیت رکھتا ہے، اس لیے کہ حماس نے یرغمالیوں کو پھانسی دینے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔

دوسرا ہدف جو سامنے رہنا چاہیے وہ یہ ہے کہ حماس کو ۷؍اکتوبر کی طرح ایک دوسرے حملے سے روکا جائے۔ حماس کے پاس روایتی فوجی اڈے نہیں ہیں۔ اس کے بجائے حماس کی زیادہ تر فوجی صلاحیت زیرزمین ہے، جو ایک اندازے کے مطابق ۵۰۰کلومیٹر زیرزمین سرنگوں کے جال پر مشتمل ہے جو پورے غزہ میں پھیلا ہوا ہے۔ اسرائیلی فوج اور دیگر میڈیا جو ان سرنگوں کی دستاویزی فلمیں بناچکا ہے، کا کہنا ہے کہ بہت سی سرنگیں شہری انفراسٹرکچر بشمول مساجد، ہسپتال اور اسکولوں کے نیچے سے گزرتی ہیں۔ ان سرنگوں کا کھوج لگانا اور انھیں تباہ کرنا بھی اسرائیل کو زمینی حملے پر مجبور کرتا ہے۔

اگرچہ اس نے سرنگوں کا کھوج لگانے کے لیے تکنیکی حل کی ایک رینج کا بھی آغاز کیا ہے۔ تاہم یہ طریقے ناکافی رہتے ہیں اور اکثر فوجیوں کو اپنے اہداف کے نسبتاً قریب ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے آبادی پر مشتمل علاقے میں لڑائی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر یہ سرنگیں  مل بھی جائیں تو ان کو صاف کرنا بھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ فضائی حملہ ان سرنگوں کے اُوپر جو کچھ ہوتا ہے ، اسے تباہ کردیتا ہے۔ اگر فوجی ان سرنگوں کو بارود سے بھر کر تباہ کرنا چاہیں تو وہ چندعمارتیں ہی تباہ کرسکیں گے۔

اب تیسرے اور آخری پہلو کا جائزہ لیتے ہیں، یعنی ۷؍اکتوبر کے حملوں کے ذمہ داروں کو مارنا یا پکڑنا۔ اسرائیل کا اندازہ ہے کہ حملے کے دوران حماس کے تقریباً ۳ہزار عسکریت پسند اور دیگر افراد اسرائیل میں داخل ہوئے۔ ان میں سے کچھ عسکریت پسند اس حملے میں مارے گئے، لیکن بہت سے کارروائی کرنے کے بعد واپس لوٹ گئے۔ مزیدبرآں اگر ہم اسرائیل کے دفاع کے حق میں ان لوگوں کے خاتمے کو بھی شامل کرلیں جنھوں نے حملے کی منصوبہ بندی کی اور اسے منظم کرنے میں مدد دی تو یہ تعداد اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ امریکا کے نیشنل کائونٹر ٹیررازم سنٹر کے اندازے کے مطابق ستمبر۲۰۲۲ء تک حماس کے ارکان کی تعداد ۲۰ہزار سے ۲۵ ہزار تک ہے، جب کہ چھوٹے عسکریت پسند گروپوں کو چھوڑ دیں۔ عملی طور پر ۷؍اکتوبر کے حملے کے ذمہ داروں کو پکڑنے کا مطلب ہزاروں یا ممکنہ طور پر دسیوں ہزار فضائی حملے یا زمینی حملے ہیں، جو پورے غزہ کی پٹی میں پھیل جائیں گے۔گویا یہ ایک بھرپور جنگ ہے۔

غزہ اور فلسطینی آبادی کے لیے اسرائیل کی حکمت عملی پر بالکل جائز تنقید کی جارہی ہے۔ ۷؍اکتوبر کے حملوں سے پہلے مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر اسرائیلی آبادکاروں کے حملے بڑھتے جارہے تھے اور تصادم کو ہوا دے رہے تھے۔ پچھلے ڈیڑھ عشرے سے اسرائیل غزہ میں حماس کے خاتمے کی حکمت عملی پر بڑی حد تک متحرک رہا، جب کہ غربت اور بے روزگاری کے خاتمے اور فرسودہ انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہ کی گئی۔ یہ حالات بھی ۷؍اکتوبر کے حماس کے خونیں حملے کے لیے زرخیز زمین ثابت ہوئے، حتیٰ کہ آج تک اسرائیل کے پاس کوئی ایسا منصوبہ نہیں ہے کہ اگر وہ حماس پر حاوی ہونے میں کامیاب ہوگیا تو غزہ پر کس طرح حکومت کی جائے گی اور اس کی تعمیرنو کیسے ہوگی؟

اس کے باوجود ، یہ ایک ناخوش گوار حقیقت ہے کہ غزہ میں جنگ چھڑ جانے کا مطلب، خواہ یہ کتنی ہی ٹارگٹڈ کیوں نہ ہو، وہی ہوگا جو آج ہم بڑے پیمانے پر دیکھ رہے ہیں، یعنی بڑے پیمانے پر خون ریزی، ہولناک تباہی کا حامل زمینی آپریشن جس کے نتیجے میں بے شمار شہری دوطرفہ گولہ باری کا شکار ہوجائیں گے۔ اس جنگ میں درمیانی راہ کی حامل کوئی بہتر شکل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے حکام، عالمی امدادی تنظیمیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کارروائی کی صرف مذمت ہی کرسکی ہیں۔

اقوام متحدہ کی امدادی سرگرمیوں کے سربراہ مارٹن گریفتھس اور عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈرس ادھانوم گبریسس کا کہنا ہے: ’’ہسپتال میدانِ جنگ نہیں ہیں‘‘ اور یہ کہ ’’نوزائیدہ بچوں، مریضوں، طبّی عملے اور تمام شہریوں کے تحفظ کو دیگر تمام خدشات پر مقدم ہونا چاہیے‘‘۔ جیسے جیسے عالمی تنقید بڑھ رہی تھی، وائٹ ہائوس نے ایک طرف اس کی تردید کی اور دوسری طرف اسرائیل کو فوجی چھاپے یا درست لفظوں میں حملے کرنے کے لیے گرین سگنل دیا۔

الشفا پر حملہ غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے چھٹے ہفتے میں ہوا جس میں ۴۶۰۰ بچوں سمیت ۱۱ہزار۵۰۰ سے زیادہ فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ۱۵ لاکھ سے زائد لوگ جبری نقل مکانی سے دوچار ہوئے ہیں۔ جنگ بندی کے لیے عالمی دبائو کے باوجود، جنگ بندی کی حمایت سے امریکی انکار اسرائیل کے زمینی حملے کو روکنے کی راہ میں حائل ہے۔

اقوام متحدہ میں، سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کرنے کی چار ناکام کوششوں کے بعد،   مالٹا کی طرف سے پانچواں مسودہ پیش کیا گیا جس میں غزہ میں ’کافی دنوں‘ کے لیے ’فوری اور توسیع شدہ انسانی بنیادوں پروقفے‘ کا مطالبہ کیا گیا، تاکہ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور امدادی تنظیموں کو بلاروک ٹوک رسائی کی اجازت دی جاسکے۔اسے پندرہ رکنی سلامتی کونسل کے ۱۲ ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ قرارداد میں حماس کی مذمت نہ ہونے کی وجہ سے امریکا اور برطانیہ نے احتجاجاً اپنا ووٹ استعمال نہ کیا، جب کہ روس نے جنگ بندی نہ کرنے کی وجہ سے اجتناب کیا۔

انسانی بنیادوں پر یہ ’توقف‘ اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی نسل کُشی اور جبری نقل مکانی کے سنگین جرم کی تلافی نہیں کرسکے گا۔ بظاہر عام شہریوں خصوصاً بچوں کے تحفظ کے لیےیہ وقفے غزہ میںانسانی امداد پہنچانے کے لیے صرف تنگ دروازے فراہم کرسکتے ہیں، لیکن چونکہ اسرائیل طویل عرصے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتاچلا آرہا ہے، اس لیے تل ابیب کا قانونی طور پر پابند ہونے کے باوجود اس کی پابندی کا امکان نہیں ہے۔

اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر گیلاداردن نے قرارداد کو ’بے معنی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اس کی تعمیل نہیں کرے گا۔ فلسطینی ایلچی ریاض منصور نے اس قرارداد پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ ’’جس چیز کی ضرورت تھی وہ جنگ بندی اور جنگ کا خاتمہ تھا۔ سلامتی کونسل جنگ کے آغاز سے زمین پر تباہ کن صورتِ حال کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی۔ عالمی برادری غزہ کے عوام کو ناکام بناچکی ہے‘‘۔

اس کے باوجود ،اسرائیل کی جانب سے غزہ میں مہلک بمباری میں اضافہ، مغربی کنارے میں چھاپوں میں شدت اور فلسطینیوں کی ہلاکت میں اضافے کے ساتھ ،وائٹ ہائوس امریکی انتظامیہ کے اندر اختلاف رائے، جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے عوامی مظاہروں اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی بے چینی کی وجہ سے دبائو میں آگیا۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اسرائیل غزہ میں بمباری بند کرے اور بچوں اور خواتین کو قتل کرنا بند کرے۔ جی-۷ میں دراڑیں کینیڈاکے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے اسرائیل کو محصور غزہ کی پٹی میں خواتین، بچوں اور نومولود بچوں کے قتل کو ختم کرنے کے مطالبے سے بھی واضح تھیں۔ امریکا میں رائے شماری کے نتائج کے مطابق دوتہائی سے زیادہ لوگوں نے جنگ بندی کی حمایت کی اور اسرائیل کے لیے حمایت کم ہوتی جارہی ہے۔

جنگ کا ایک اہم پہلو جھوٹی معلومات اور پراپیگنڈا رہا ہے اور اسرائیلی رہنمائوں اور اس کی فوج نے جان بوجھ کر جھوٹ پھیلایا ہے، جس کی بازگشت زیادہ تر مغربی میڈیا میں سنائی دی گئی۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ کچھ اشاعتی اداروں کے استثنا کے ساتھ فلسطینیوں کی ہلاکتوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔

دی اکانومسٹ نے خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے استدلال کیا کہ شہریوں کی ہلاکتوں کی پروا کیے بغیر اسرائیل کو لڑنا چاہیے اور جنگ بندی کو ’امن کا دشمن‘ قرار دیا۔ اشاعتی اداروں نے پناہ گزینوں کے کیمپوں اور ہسپتالوں پر اسرائیل کی بے دریغ، وحشیانہ بمباری کو اس کے اپنے ’دفاع کا حق‘قرار دیا۔

غزہ میں نہ رُکنے والی خونریزی سے جذبات میں اشتعال کے باوجود دُنیابھر کے مسلم عوام مغربی میڈیا کی جانب دارانہ کوریج سے حیران نہیں ہوئے کیونکہ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ان کی شدید مایوسی عرب حکومتوں سے تھی، جنھوں نے رسمی مذمت کرنے کے علاوہ، نسل کشی اور بڑے پیمانے پر ہولناکی اور انسانی تباہی پر تماشائیوں سے بڑھ کر کوئی کردارادا نہ کیا۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ بعض عرب ممالک نے دیگر ریاستوں کی طرف سے تجویز کردہ کم سے کم اقدامات کی مخالفت کی اور انھیں روکا، جس سے اسرائیل اور امریکا پر اہم سفارتی دبائو بڑھ سکتا تھا۔ اس سے صرف عوامی عدم اطمینان میں ہی اضافہ ہوا اور او آئی سی میں نمایندگی کرنے والے عرب اور مسلم حکومتوں کی جانب سے عدم فعالیت کو بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کے ساتھ غداری کے طور پر دیکھا گیا۔ لیکن میںپھر کہوں گا کہ عالمی برادری نے غزہ کے لوگوں کوناکام بنایا ہے۔ انتونیو گوٹیرس نے جسے ’انسانیت کا بحران‘ قرار دیا ہے، اس پر بھرپور عالمی ردعمل دینے میں دُنیا ناکام رہی ہے۔

ریاست فلسطین موجودہ اسرائیل کے کچھ حصوں اور دیگر فلسطینی علاقوں بشمولہ غزہ اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر مشتمل ہے۔ مصر سے شام جانے والے راستےاور بحیرہ روم سے لے کر دریائے اردن کے پار موجود پہاڑی سلسلوں تک سارا علاقہ اس کی عمل داری میں آتا ہے۔

غزہ (عربی : قطعہ)بحیرہ روم کے مشرق اور وادیٔ سینا(مصر) کے شمال مشرق میں واقع ۳۶۳مربع میل پر محیط ساحلی پٹی ہے جس کی لمبائی ۴۱کلومیٹر، جب کہ چوڑائی ۶ سے ۱۲کلومیٹر ہے۔ شمال اور مشرق میں اسرائیل کے ساتھ اس کی سرحد ۵۱کلومیٹر، جب کہ جنوب میں رفح شہر کے نزدیک مصر کے ساتھ اس کی سرحد گیارہ کلومیٹر طویل ہے۔

۲۳لاکھ لوگوں پر مشتمل یہ گنجان آباد علاقہ کئی چھوٹے شہروں اور قصبوں (بشمولہ غزہ شہر، رفح، خان یونس) میں تقسیم ہے اور قانونی طور پر کسی ملک کا حصہ نہیں سمجھا جاتا۔ ۲۰۰۶ء کے انتخابات میں ۱۹۵۰ء سے فلسطین میں متحرک گروہ الفتح کو کرپشن اور بدعنوانی کے باعث حماس نے فیصلہ کن شکست دے دی تھی۔

رفح کی سرحدی راہداری کے علاوہ غزہ میں معیشت، تجارت اور سیاست سمیت ہر شعبۂ زندگی پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ موجودہ حملہ ماضی کے تمام پانچ اسرائیلی محاصروں اور زمینی، فضائی اور میزائل حملوں کی نسبت زیادہ مہلک ثابت ہوا ہے اور اس سے بے شمار شہری خصوصاً عورتیں اور بچے شہید ہوچکے ہیں۔ اس دفعہ گرنے والی لاشوں میں سے ہر تیسری لاش ایک فلسطینی بچے کی ہے۔ غزہ کو دنیا کا سب سے بڑا ’انسانی قید خانہ‘ کہا جاتا ہے۔ اسرائیلی محاصرے اور حماس کے خلاف زمینی جنگ کے باعث دس لاکھ سے زائد فلسطینی اپنا گھر بار چھوڑ کر جنوب کی جانب ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔

مغربی کنارہ (عربی: الضفہ الغربیہ) ۱۹۲۰ءسے ۱۹۴۷ء تک برطانوی قبضے میں رہنے والا فلسطینی علاقہ ہے جو دریائے اردن کے مغرب اور غزہ کے شمال مشرق میں واقع ہے اگرچہ غزہ اور یہ باہم متصل نہیں ہیں۔ مغربی کنارے پر اردن کا دعویٰ ہے اگرچہ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اس پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔ مشرق میں دریائے اردن اور جنوب میں اردن اور بحیرۂ مردار کے علاوہ اس خطے کو ہر طرف سے اسرائیل نے گھیر رکھا ہے۔ مغربی کنارے کا رقبہ تقریباً ۵۶۰۰مربع کلومیٹر، جب کہ آبادی تقریباً ۳۰لاکھ ہے جو گیارہ شہروں مثلاً جنین، نابلس، رملہ، اریحا وغیرہ میں آباد ہے۔ یروشلم اور بیت اللحم منقسم شہر ہیں۔ فلسطین اور اسرائیل دونوں یروشلم (بیت المقدس، القدس) کو اپنا دارالحکومت قرار دیتے ہیں لیکن یہ دونوں دعوے ہی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نہیں ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں بین الاقوامی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں اسرائیلی فوج کو مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قابض قرار دیا تھا۔ اسرائیل نے بیت اللحم(یروشلم سے ۱۰کلومیٹر پر واقع) پر ۱۹۶۷ء میں قبضہ کیا تھا لیکن ۱۹۹۵ء میں اس شہر کو فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دیا۔ اب مغربی کنارے پر الفتح کی حکومت ہے۔

انسانی جغرافیے کے بعد اب آبادی کا ذکر ہو جائے۔ ۲۰۱۷ء میں فلسطین کے تمام علاقوں بشمول اسرائیل، مغربی کنارہ اور غزہ میں عرب آبادی ۷۹ء۵ ملین تھی جس میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔اس میں سے ۸۴ ملین عرب اسرائیل میں رہتے ہیں۔ ۲۰۱۸ء کے اعداد و شمار کے مطابق مغربی کنارے میں شرح پیدائش۲ء۳ ، جب کہ غزہ میں۳ء۹۷ ہے۔ غزہ میں فی مربع کلومیٹر تقریباً چار ہزار لوگ آباد ہیں۔ اس کے برعکس اسرائیل کی کل آبادی۵ء۹ ملین اور قدامت پسند  کٹر یہودیوں کے علاوہ بقیہ آبادی کی شرح پیدائش سرکاری حوصلہ افزائی کے باوجود۲ء۴۷ ہے۔ ان اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ آئندہ سالوں میں عرب آبادی کا ایک سیلاب اسرائیل کو بہا لے جائے گا۔ اس کے علاوہ اگر باقی خطے کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل پہلے ہی ہرطرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے۔

اسرائیل کے سخت گیر حربے مستقبل میں کام نہیں آئیں گے۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:اوّل، آبادی کا توازن اسرائیل کے حق میں نہیں ہے اور نہ کبھی ہو گا۔ نسل در نسل فلسطینی نوجوان، جن میں سے ہر ایک اسرائیلی ظلم و سفاکیت کی کسی نہ کسی داستان کا عینی شاہد ہے، اسرائیلی ریاست کو چین سے جینے نہیں دیں گے۔

دوئم، حماس کا جنم اسرائیل کے ظالمانہ رویے کا براہ راست نتیجہ ہے۔ اس کے خاتمے سے مسئلہ ختم نہیں ہو گا۔ بلکہ مسئلہ تب تک ختم نہیں ہو گا جب تک ناانصافی، فلسطینیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک، ان کی زمینوں پر قبضے اور مسلسل فوجی ظلم کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ ۷۵سال تک ذلت و رُسوائی برداشت کرنے کے بعد مزاج میں جو بے چینی پیدا ہوتی ہے حماس نے ۷؍اکتوبر کو اسی بے چینی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگرچہ کسی بھی جنگ میں بچوں اور خواتین کو نشانہ نہیں بنایا جا سکتا لیکن اس تنازعے میں فریقین ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اسرائیل اپنی طاقت اور دستیابیٔ وسائل کے باعث ساری حدیں پار کر جاتا ہے۔

سوئم، کسی بھی قوم کو جبر کے ذریعے دبایا نہیں جا سکتا۔ تاریخ ہمیں بار بار یہی سبق یا ددلاتی ہے۔ فوجی قبضے اور جابرانہ اقتدار کے ذریعے دلوں میں روشن حریت و خودمختاری کی چنگاریاں بجھائی نہیں جا سکتیں۔ یہودی مذہب کے پیروکار، مغربی ممالک کے لوگ، حتیٰ کے اسرائیل کے اندر بھی باشعور لوگ اس حقیقت سے باخبر ہیں۔ انھیں نیتن یاہو کو بھی اس ناقابلِ فراموش حقیقت کا ادراک کروانے کی ضرورت ہے۔ ہولوکاسٹ کو گزرے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ انسانی وقار کی توہین اور نفرتوں کے سلسلے یونہی جاری رہے تو ارضِ مقدس میں نئے سرے سے ایک ہولوکاسٹ شروع ہوجائے گی۔ حماس نے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اس مسئلے کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے جسے اسرائیل اور اس کے نئے نئے ’ابراہیمی دوست‘ مل کر قصۂ پارینہ بنانے چلے تھے۔

چہارم، حکومتوں کو ایک طرف کر دیا جائے تو اسرائیل کا یہ سخت ترین ردعمل دنیا بھر کے عوام میں اس کیلئے ہمدردیاں پیدا کرنے کا باعث نہیں بنے گا۔ دم توڑتے بچوں اور نوحہ کناں عورتوں کی تصاویر اور وڈیو کلپس جو سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن پر ہمیں ہمہ وقت دکھائی دے رہی ہیں، اسرائیلی بیانیے کو ہمیشہ سے زیادہ کمزور کر دیں گے۔ یوں حماس کو ختم کرنے کی آڑ میں فلسطین کو نابود کرنے کی اسرائیلی کوششیں بھی بے نقاب ہو جائیں گی۔ اس کے اثرات نظر آنے بھی لگے ہیں کیونکہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کم از کم ایک طویل عرصے کے لیے کھٹائی میں پڑ چکی ہے۔ اسرائیلی بمباری سیاسی طور پر تباہ کن ثابت ہوئی ہے اور دنیا بھر میں یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اسرائیل ’دفاع کے حق‘ سے کہیں آگے گزر چکا ہے۔

چنانچہ اسرائیلی ریاست کو جلد یا بدیر مسئلے کی جڑ کی طرف متوجہ ہو نا پڑے گا تا کہ نفرت اور تشدد کے اس گھناؤنے چکر کو ختم کیا جا سکے۔ موجودہ صورتِ حال زیادہ دیر تک چل نہیں سکے گی۔ نیتن یاہو کی سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر غزہ پر زمینی حملہ کر کے قابض ہونے کا اسرائیلی فیصلہ ایک تباہ کن سیاسی اور عسکری غلطی ثابت ہو گا۔ صدر بائیڈن نے ۱۶؍اکتوبر کو اسی امکان کی طرف اشارہ کیا تھا اور امید کی جا رہی ہے کہ وہ جلد اسے روکنے کے لیے خطے کا دورہ بھی کریں گے ۔ حماس کو مکمل تباہ کر بھی دیا جائے تو اس کی راکھ سے حماس جیسے کئی ادارے پیدا ہو جائیں گے۔ مزید آتش زنی کی صورت میں دیگر متعلقین مثلاً حزب اللہ، شام، اردن، اور مصر بھی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ ایران اوردیگر عرب ریاستیں بھی عوامی دباؤ کے تحت دخل اندازی پر مجبور ہوں گی۔ یوکرینی جنگ میں مصروف امریکا و یورپ ایسی صورتِ حال کی کبھی خواہش نہیں کریں گے۔

چنانچہ مستقل امن صرف دو ریاستی حل کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔* فلسطینیوں کو اپنے معاملات کا فیصلہ کرنے کی آزادی ملنے کے بعد جنگ اور نفرت کا یہ کھیل رفتہ رفتہ ختم ہو گا۔ بصورت دیگر یہ خون ریزی شکل بدل بدل کر جاری رہے گی اور بالآخر افغانستان اور عراق کی طرح کمزور فریق کو بھی مقابلہ کرنے کا ہنر آ جائے گا۔ کہا جا سکتا ہے کہ موساد کو بھی ’اندرونی مخبروں‘ کے جال کے باوجود ایسی ناگہانی صورتیں پیش آتی رہیں گی۔

*اس مسئلے کا نام نہاد’دو ریاستی حل‘ فلسطین کے مظلوموں کو ایک نئے گرداب میں پھانسنے کی دوسری دفاعی لائن ہے اور جنگ و بدامنی برقرار رکھنے کا ایک انتظام۔ واحد حل یہ ہے کہ ناجائزاسرائیلی ریاست کے بجائے فلسطین کی ریاست بحال کرنے کا اعلان کیا جائےاور فلسطین میں موجود تمام مذاہب اور رنگ و نسل کے شہریوں کا خود مستقبل کے تعلقاتِ کار طے کرنے کا حق تسلیم کیا جائے۔ اگر نام نہاد ’دو ریاستی‘ حل ٹھونسا گیا تو وہ اس خطے میں نئی جنگوں اور اسلحے کے انبار خریدنے کی ایک اور بدنما دوڑ کا نقطۂ آغاز ہوگا۔ ادارہ

غزہ پر اسرائیلی جارحیت پر مغربی اور امریکی الیکٹرانک میڈیا نے واضح طور پر اسرائیل کی طرف داری کی ہے۔ اس میڈیا وار کی فکری بنیادیں نوم چومسکی اپنی کتاب Manufacturing Consent: The Political Economy of the Mass Media  میں چار عشرے قبل واضح کرچکے ہیں۔ کتاب کے آخر میں وہ (ص۴۰۲ ) اپنے مقدمے کا لب لباب پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکی میڈیا ایک مؤثر اور طاقت ور ادارہ ہے، جو جارحانہ طاقت کے نظام کی معاونت میں پروپیگنڈے کی خدمت انجام دیتا ہے۔ یہ بات انھوں نے ۱۹۸۸ء میں لکھی تھی کہ یہ پروپیگنڈا سسٹم ٹی وی نیٹ ورکس کے ذریعے مزید مؤثر ہوگیا ہے۔

اسرائیلی بمباری کے حوالے سے مغربی میڈیا بہت 'محتاط رہا۔ مثال کے طور پر جب ۱۷؍اکتوبر کو غزہ میں ’الاہلی العربی ہسپتال‘ پر بمباری ہوئی، جس میں ۵۰۰ سے زیادہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نیویارک ٹائمز نے بھی خبر لگائی کہ اسرائیل نے ہسپتال پر بمباری کی۔ اس پر اسرائیل نے وضاحتی بیان جاری کیا کہ ’’یہ ’جہاد اسلامی‘ تنظیم کا گائڈڈ میزائل تھا جو ہسپتال پر گرا ہے، ہم نے کوئی حملہ نہیں کیا‘‘ ۔ ۲۳؍اکتوبر کو نیویارک ٹائمز نے یوٹرن لیتے ہوئے ادارتی نوٹ میں لکھا کہ ہسپتال پر حملے کی خبر حماس کے دعوؤں پر مبنی ہے اور اس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ بعد میں نیویارک ٹائمز میں کم و بیش درجن تجزیے شائع ہوئے جس میں اسرائیل کے دعوے کی حمایت واضح نظر آرہی تھی۔

اسرائیل کے اس جھوٹے دعوے کی تصدیق یا تائید امریکا اور مغربی ممالک کے ابلاغی اداروں اور کارپوریشنوں نے بھی کی، جن میں نیو یارک ٹائمز کے علاوہ، ایسوسی ایٹ پریس،  سی این این، وال سٹریٹ جرنل اور بی بی سی بھی شامل ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ’مہذب مغرب‘ نے پہلے اپنے فارنزک تجزیوں سے حملے کو متنازع بنایا اور بعد میں کھل کر اسرائیلی بیانیے کی حمایت اور تائید کی۔ اگر چہ اسرائیل اپنےدعوے کےلیے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کرسکا، لیکن میڈیا سمیت امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے آنکھیں بند کرکے اس کی تصدیق بھی کرلی۔

جس وقت بمباری ہوئی، اس کی فوٹیج اسی وقت الجزیرہ کے رپورٹر نے بنائی۔ اس فوٹیج کے علاوہ دیگر وڈیو سے الجزیرہ کی سند نے اس پورے واقعے کابہت باریک بینی سے فارنزک تجزیہ کیا اور اسرائیل کے دعوے کو مسترد کردیا۔ یہ وڈیو الجزیزہ کی ویب سائٹ پر Video investigation: What hit al-Ahli Hospital in Gaza? کے عنوان سے موجود ہے۔ قارئین دونوں جانب کے دعوؤں کو دیکھ سکتے ہیں۔

مغربی میڈیا کے واضح جھکاؤ کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا میں جہاں اس کے برعکس موقف پیش ہو رہا تھا اور جو مغرب کی عمل داری سے باہر تھا، انھیں خاموش کرانے کی بھی کوششیں کی گئیں۔ مثال کے طور پراس جنگ میں بڑے میڈیا مراکز اور ذرائع میں الجزیرہ کا کردار غیر معمولی اور بہت نمایاں رہا۔ امریکی سیکرٹری خارجہ ٹونی بلنکن نے تلملا کر قطری حکومت سے خصوصی طور پر ’جنگ کی کوریج کے حجم کو کم کرنے اور 'اعتدال ' سے کام لینے‘ کا کہا۔

دوسری جانب اس جنگ میں سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم رہا۔ سوشل میڈیا آؤٹ لیٹس میں صرف ایکس (سابق ٹوئیٹر) کی پالیسی: فیس بک، لنکڈ ان اور انسٹاگرام وغیرکی بہ نسبت 'سخت ' نہیں تھی۔ اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں ایلون مسک کو’’ ایکس پر اسرائیل -حماس جنگ کی غلط معلومات پھیلانے کی وجہ سے جواب دینے کے لیے ۲۴ گھنٹے کا وقت دیا گیا‘‘۔

یورپی کمشنر برائے انٹرنل مارکیٹ، تھیری بریٹن نے ۱۰؍ اکتوبر کو ایلون مسک کو لکھے گئے ایک خط میں کہا: ’’اس امرکے ’اشارے‘ ملے ہیں کہ ایکس پر غزہ کے حوالے سے غلط معلومات اور ’پُرتشدد‘ مواد پھیلا یا جا رہا ہے، مسک ۲۴ گھنٹوں کے اندراس کی وضاحت کرے‘‘۔ ساتھ یہ بھی کہا گیا: ’’یورپی قانونی ضوابط کی تعمیل نہ کرنے کے نتیجے میں ایکس کی سالانہ آمدنی کا چھ فی صد جرمانہ بھی عائد ہوسکتا‘‘۔

جب اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ میں انٹرنیٹ اور اس کے علاوہ پورا مواصلاتی نظام منقطع ہوگیا تو سوشل میڈیا پر ایک مہم میں ایلون مسک سے مطالبہ کیا گیاکہ وہ غزہ میں اسٹار لنک انٹرنیٹ بحال کرے۔ تاہم، جیسے ہی ٹرینڈنے زور پکڑا، مسک نے اعلان کیا کہ وہ سٹار لنک کے ذریعے غزہ میں کام کرنے والی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ امدادی تنظیموں کےلیے انٹرنیٹ فراہم کرے گا۔ اس کے رد عمل میں اسرائیلی وزیر مواصلات شلومو نے کہا: ’’اسرائیل سٹار لنک کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات منقطع کر دے گا‘‘۔ مسک کو دھمکی بھی دی گئی۔

جب یہ ساری کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں اوراسرائیلی موقف اس کے باوجود ناکامی سے دوچار ہوا، تو وہ سوشل میڈیا پر مختلف ذرائع سے اپنا بیانیہ پیش کرنے پر مجبور ہوگیا، جس کےلیے اسرائیل نے کئی ملین ڈالر مختص کیے۔ یہ منصوبہ بھی کامیاب نہ ہوسکا اور پوری دنیا میں لاکھوں لوگ اسرئیلی جارحیت کے خلاف نکلے، تو پچھلے ہفتے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ ہم بھی ۷؍اکتوبر کی وڈیوز جاری کریں گےتاکہ عالمی رائے عامہ میں توازن آجائے۔ لیکن ابھی تک یہ بھی ناکام ہی معلوم ہوتا ہے۔

میڈیا وار میں اب ایک نیا اضافہ یہ ہوا ہے کہ ۱۲ نومبر کو سیمافور (Semafor) نے ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں بتایا گیا کہ وال اسٹریٹ اور ہالی ووڈکے ارب پتی امریکی عوام کو حماس بطور ایک دہشت گرد تنظیم اور اسرائیل کے حق میں مہم چلانے کےلیے ۵۰ ملین ڈالر خرچ کرنے کے منصوبے پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اس منصوبے کے روح رواں بیری سٹرنلچٹ ہے، جس نے یہ مہم ۷؍اکتوبر کے بعد شروع کی۔ سیمافور کے مطابق سٹرنلچٹ نے دنیا بھر کے درجنوں امیر ترین کاروباری لوگوں کو ای میل کیا، جس میں ان میں سے ہر فرد سے دس دس لاکھ ڈالر کے عطیہ کا مطالبہ کیا گیا۔

سٹرنلچٹ نے لکھا کہ ’’سی این این کے مالک اور اینڈی وور (جو کہ ایک بڑا میڈیا گروپ ہے) سے اس کی ’بہت اچھی گفتگو‘ ہوئی ہے اور دونوں اس مہم میں ہمارا ساتھ دینے پر متفق ہیں‘‘۔ سٹرنلچٹ کے مطابق: ’’اس مہم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ غزہ میں ہونے والی اموات کی کوریج کے نتیجے میں اسرائیل عالمی سطح پر ہمدردی اور حمایت کھو رہا ہے اور ہمیں اس نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے اپنا بیانیہ تشکیل دینا چاہیے۔

اس مہم سے رائے عامہ یقیناً تبدیل ہوجائے گی، کیوں کہ فلسطینیوں کےلیے حماس جو پروپیگنڈا کر رہا ہے اس سے اسرائیل کےلیے ہمدردی ختم ہورہی ہے۔ اس لیے اب ہمیں اپنا بیانیہ تشکیل دینے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

یہ ای میل اس نے ۵۰ سے زیادہ لوگوں کو بھیجی ہے، جو دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں، اور جن کا مجموعی نیٹ ورک پانچ سو بلین ڈالر ہے۔

اسرائیل کی تائید کے لیے میدانِ میں اُتر کر میڈیا کو استعمال کرنے کی یہ ایک معمولی سی جھلک ہے۔ یہ بھی صرف وہ خاکہ ہے ، جو سامنے آیا ہے۔ اس بیانیے کےلیے کروڑوں ڈالر خرچ کیے جارہے، سیاسی اور سفارتی دباؤ سے بھی کام لیا جارہا ہے، دھمکیوں سے بھی دریغ نہیں کیا جا رہا، اور خلافِ واقعہ پروپیگنڈا اس کے بہت اہم عنصر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ کوششیں بار آور ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔

فلسطین اور کشمیر دونوں تنازعات، مسلم دنیا کے غیر حل شدہ دیرینہ مسائل ہیں جو عالمی سیاست کا شکار ہیں۔ اگر موجودہ غیر متوازن عالمی طاقت کی شطرنج کی بساط بغیر کسی تبدیلی کے جاری رہی تو مسلم دنیا میں مزید خون بہے گا۔ درحقیقت سلطنت عثمانیہ کے بارے میں اپنے مخصوص تصوّر کے تحت متحد ہونے والی مغربی دنیا انفرادی ملک کی تشکیل یا اجتماعی طاقت سے مسلمانوں کے عروج کو تو گوارا کرتی ہے۔ تاہم، عام دنیا اسلام کو ایک زندہ قوت کے طور پر دیکھتی ہے جو دوبارہ ابھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلام کے دوبارہ غلبہ پانے کا یہ خدشہ پوری دنیا کو اسلام یا اسلام سے مشابہہ کسی ماڈل کے خلاف متحد رکھتا ہے۔اور ان کی یہ منصوبہ بند سوچ، علاقائی، براعظمی، عالمی، جیو پولیٹیکل طور پر ان کی دفاعی دیوار بناتی ہے۔ مسلم دنیا اپنی موجودہ حیثیت کے ساتھ اپنے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کو ناکام بنانے سے قاصر ہے۔

دفاع سے محروم رکھنے کی زندہ مثال فلسطین اور کشمیر کے تنازعات ہیں جو گذشتہ ۷۶ برسوں سے حل طلب ہیں۔ یہاں تک کہ ان دو تنازعات کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے منظور شدہ روڈ میپ کی غالب حقیقت نے بھی عالمی سفارتی قسمت سازوں کو اس بات پر آمادہ نہیں کیا کہ وہ اپنے اخلاقی، سیاسی، سفارتی اثر و رسوخ اور زمینی حقائق کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کردار ادا کریں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو کشمیر اور فلسطین کے پیچیدہ تنازعات کے تصفیے کا اختیار دیا گیا: اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کشمیر میں رائے شماری اور فلسطین کے تنازعہ کا دو ریاستی حل۔

کشمیر کو ایک تنازع کے طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) میں بھارت نے یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو عالمی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے بین الاقوامی تنازع کے طور پر پیش کیا تھا۔سلامتی کونسل نے جموں و کشمیر میں بین الاقوامی استصواب رائے کے لیے ۱۳؍ اگست ۱۹۴۸ء اور ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی قراردادیں منظور کیں جس کا مطلب ہے کہ اس نے جموں و کشمیر پر بھارتی دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔ تاہم، بھارت غلط طریقے سے اس بات پر قائم ہے کہ کشمیر کے آخری حکمران مہاراجا ہری سنگھ نے ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو کشمیر کا بھارت سے الحاق کیا تھا۔

یہ دعویٰ تاریخ کی کسوٹی پر پورا نہیں اُترتا کیونکہ مہاراجا نے اسی سال اکتوبر کے شروع میں اپنی آمرانہ حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کے نتیجے میں اپنی راجدھانی سری نگر چھوڑ کر جموں میں پناہ لی تھی۔ وہ کسی عہدے پر نہیں تھا یا الحاق کے معاہدے پر دستخط کرنے کا حق دار نہیں تھا۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ مہاراجا نے اس سے پہلے ۱۲؍ اگست ۱۹۴۷ء کو حکومت پاکستان کے ساتھ ایک ’تعطل کا معاہدہ‘ (اسٹینڈاسٹل)کیا تھا، یعنی پاکستان جموں و کشمیر کی ریاست کی بالادستی کا ایک جغرافیائی فریق بن گیا تھا اور اس نے سٹینڈ اسٹل معاہدے پر دستخط کیے تھے ۔ دوسری طرف ہندستان نے مہاراجا کی اسی طرح کے اسٹینڈاسٹل معاہدے کی پیش کش کو مسترد کر دیا تھا۔

تاریخی ریکارڈ کے مطابق بھارت کا کشمیر پر کوئی دعویٰ نہیں ہے، لیکن وہ ریاست کے ایک بڑے حصے پر اپنی فوج کے ذریعے زبردستی قابض ہے۔ اس وقت کشمیر کے بھارتی حصے میں ۱۰لاکھ کے قریب پیشہ ور مسلح افواج موجود ہیں۔ کشمیر پر پاکستان کا مقدمہ زیادہ مضبوط ہے لیکن حکومت پاکستان کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ کے اندر یا اس سے باہر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اسٹینڈاسٹل معاہدے کا حوالہ نہیں دیتی جو کہ ایک ٹھوس تاریخی ثبوت ہے۔

فلسطین پر اقوام متحدہ کا دو ریاستی حل کافی حد تک قابل عمل ہے لیکن بھارت کی طرح اسرائیلی غاصبانہ تکبر اقوام متحدہ کے تقسیم کے منصوبے پر عمل درآمد کی راہ میں حائل ہے۔ فلسطین کے روڈ میپ پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے پورے مشرق وسطیٰ میں انسانوں کے خون کے تالاب بڑھ رہے ہیں۔ فلسطینیوں کو ۵ مئی ۱۹۴۸ء سے لے کر ۲۱ نومبر۲۰۲۳ء کی خوں ریزی اور سفاکیت کے نتیجے میں سلسلہ وار قتل و غارت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ان کے اُکھاڑ پچھاڑ کے مصائب میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی فلسطین میں حالیہ جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تازہ منظور کردہ قرارداد ہے جو قانون اور انسانیت کے تمام تقاضوں کے خلاف ایک جنگجوانہ اقدام ہے۔

سلامتی کونسل کی یہ قرارداد مستقبل میں دنیا کے کسی بھی کمزور ملک کے خلاف کسی بھی طاقت ور ملک کے جارحانہ عزائم کو بڑھانے یا قانونی جواز کا باعث ثابت ہوگی۔ یہ قرارداد نہ رُکنے والی جنگوں کا لائسنس ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ عجیب و غریب واقعہ سلامتی کونسل کے تحت کیوں پیش آیا جس کا بنیادی کام امن کی حفاظت کرنا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ فلسطین میں جنگ کے وقفہ کی یہ قرارداد عام دنیا کے لیے اسی تناظر میں موزوں ہے جس کا میں نے اس مضمون کے آغاز میں ذکر کیا تھا۔ نظریاتی طور پر موجودہ دور کی عالمی طاقتیں مسلم دنیا کے حق میں نہیں ہیں۔ یہ عالمی تقسیم بالکل واضح ہے جس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک منڈلاتا ہوا خطرہ ہے جو ایک حقیقت کے طور پر موجود ہے!

دنیا کے دو خطرناک ترین ممالک

___اسرائیل اور بھارت

عمران جان

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور پاکستان ایک جیسی ریاستیں ہیں۔ اس لیے کہ دونوں کو عقیدے کے نام پر بنایا گیا تھا اور ایک مخصوص عقیدے کے پیروکاروں کا گھر قرار دیا گیا تھا، یعنی یہودیوں کے لیے اسرائیل اور مسلمانوں کے لیے پاکستان۔ اس نامعقول دلیل میں وہ جو بات بہت آسانی سے نظرانداز کردیتے ہیں وہ یہ ہے کہ جو لوگ نئے پاکستان کے شہری بنے وہ پہلے ہی یہاں رہ رہے تھے۔ وہ اس سرزمین کے مقامی لوگ تھے۔ وہ یورپ یا سوویت یونین سے بھیجے اور نہیں لائے گئے تھے۔ پاکستان اور ہندستان کے دنیا کے نقشے پر معرضِ وجود میں آنے سے پہلے یہ سرزمین صدیوں تک مسلمانوں اور ہندوؤں کا مسکن تھی۔

اسرائیل کا تصور صہیونیوں کے چالاک ذہنوں کے علاوہ کہیں موجود نہیں تھا۔ یہودیوں کو دنیا کے دوسرے حصوں جیسے یورپ اور سوویت یونین وغیرہ سے وہاں لایا گیا اور انھیں فلسطین میں بسایا گیا جہاں مقامی لوگ رہتے تھے جنھیں فلسطینی کہا جاتا تھا۔ یہ ان کی سرزمین نہیں تھی۔ وہ وہاں نہیں رہتے تھے ۔ اور یہ اب بھی ان کی سرزمین نہیں ہے۔

اگر کوئی بھی دو ریاستیں دنیا کی کسی بھی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں مختلف طریقوں سے ایک جیسی ہیں، تو وہ ہندستان اور اسرائیل ہیں۔ دونوں نے بعض علاقوں کو وحشیانہ و سفاکانہ فوجی قبضے میں رکھا ہوا ہے۔ اگر مغربی کنارے اور غزہ کی صورتِ حال بہت پیچیدہ ہے، تو دوسری طرف کشمیر دنیا کا سب سے گنجان فوجی علاقہ ہے۔ دونوں ممالک چاہیں گے کہ ان کی ریاستیں مذہبی طور پر یکساں ہوں۔ دونوں ایک خاص مذہبی گروہ: مسلمانوں سے دیرینہ نفرت رکھتے ہیں۔

۲۰۱۸ء میں، اسرائیل نے نیشن اسٹیٹ لا کے نام سے ایک قانون نافذ کیا، جس میں کہا گیا کہ دیگر نسل پرست اقدامات کے علاوہ، ووٹ کا حق ’یہودیوں کے لیے مخصوص‘ ہے۔ اس طرح اسرائیل کے تمام عرب شہریوں کو قومی خود ارادیت کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اسرائیل کی ۹۰لاکھ آبادی میں عرب اس کا پانچواں حصہ بنتے ہیں۔ اس کے بعد اسرائیل کی ڈروز کمیونٹی ہے، جوکہ تقریباًایک لاکھ ۲۰ ہزار کا ایک چھوٹا گروپ ہے اور وہ عام طور پر جنگ کے لیے فرنٹ لائنز پر ہوتے ہیں، جو ایک ایسے ملک کے لیے اپنی جانیں قربان کرتے ہیں جو انھیں مساوی شہری کے طور پر قبول نہیں کرتا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اسرائیل کی نوزائیدہ ریاست کے ساتھ بدنام زمانہ ’خون کے معاہدے‘ پر دستخط کیے تھے۔ تقریباً ۸۰ فی صد ڈروز مرد اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوتے ہیں۔ صرف ڈروز خواتین مستثنیٰ ہیں۔

اسی طرح بھارت نے ایک قانون وضع کیا ہے جسے سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ  (CAA) کہتے ہیں، جو پڑوسی ریاستوں جیسے پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے مذہبی اقلیتوں کو امیگریشن کی اجازت دیتا ہے لیکن ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے: تارکین وطن کا غیر مسلم ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی ریاست آسام میں لاکھوں مسلمان تارکین وطن ہیں جو وہاں کئی دہائیوں سے غیرقانونی طور پر مقیم ہیں لیکن انھیں ہندستانی شہریت نہیں دی جاتی کیونکہ وہ یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ وہ بنگلہ دیش کے ایک خودمختار ملک کے طور پر قیام سے پہلے ہندستان آئے تھے اور اس لیے بھی کہ وہ مسلمان ہیں۔ درحقیقت اس کے نتیجے میں پڑوسی ریاستوں سے آنے والے غیرمسلم تارکین وطن آسام کی ریاست میں بڑی تعداد میں آ جائیں گے کیونکہ اس کی سرحد بنگلہ دیش سے ملتی ہے۔ ان تارکین وطن کے لیے ہندستانی شہری بننے کے لیے ایسی کوئی سخت شرائط نہیں ہیں۔

مذکورہ بالا اسرائیلی اور ہندستانی دونوں قوانین کا مقصد اپنے معاشروں کو بالترتیب مکمل طور پر یہودی اور ہندو بنانا ہے۔ اسرائیل امریکی حکومت پر دبائو ڈالنے کے لیے اور اسے اس یہودی ریاست کے خلاف کام کرنے سے روکنے کے لیے جبری دبائو،پروپیگنڈا، لابنگ اور ان کی حیثیت کو مقامی پولیس والے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ہندستان چین کے خلاف مقامی پولیس اہلکار بننے کی اپنی صلاحیت اور امریکی کارپوریشنوں کے لیے ایک بہت بڑی منڈی ہونے کی وجہ سے امریکی حکومت کو اسی طرح دبائو میں رکھنے کے لیے اپنی افادیت کا استعمال کرتا ہے۔ اسرائیل کسی بھی سنیما یا نشریاتی کام کو روکتا ہے جو بے گناہ فلسطینی شہریوں کے خلاف کی جانے والی جارحیت کے لیے اہم ہو سکتا ہے۔ بھارت نے گرفتاریوں کی دھمکیاں، واٹس ایپ کے ذریعے پروپیگنڈا، بڑے پیمانے پر عوامی دباؤ اور دیگر دباؤ کے حربے___ یہاں تک کہ نیٹ فلیکس اور ایمیزون پرائم ویڈیو کو سیلف سنسرشپ پر قائل کیا۔ جب تک ان خطرناک ریاستوں کے ساتھ انکل سام اپنے مفادات کے لیے تعاون کرتے رہیں گے، دُنیا کو سکون نہیں مل سکے گا۔ (ایکسپریس ٹریبون، ۲۳ نومبر ۲۰۲۳ء)

یہ ۸ سے ۱۲مارچ ۱۹۵۴ء کے دوران پانچ روزہ ’کامیاب‘ جمہوریت کش مشقیں تھیں، جب عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں ’جگتو فرنٹ‘ کے نام سے الیکشن لوٹنے کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس معرکے میں نسل پرستی، جھوٹ، کانگریسی سرپرستی اور پولنگ اسٹیشن پر دھونس و دھاندلی کا مطلب عوامی لیگ کی کامیابی قرار پایا۔ ۷۰سال پر پھیلی تاریخ میں، عوامی لیگ کے فاسد خون میں یہی بیماری پلٹ پلٹ کر اُمڈتی ہے اور سیاسی درندگی کی ایک نئی منزل عبور کرلیتی ہے۔

پچھلے پندرہ برسوں کے دوران حسینہ واجد کی نام نہاد قیادت میں، بھارتی ایجنسی ’را‘ نے کامیابی سے بنگلہ دیش کی جمہوریت کا قلع قمع کرکے ایک گماشتہ ٹولہ مسلط کر رکھا ہے۔ جو قانون شکن ہے، قاتل ہے، فاشسٹ ہے اور جھوٹ کے انبار پر کھڑا ہے۔ بنگلہ دیش سے باہر، بھارتی پشت پناہی میں متحرک این جی اوز پاکستان میں یہ تاثر دیتی ہیں کہ ’’بنگلہ دیش معاشی جنّت بن چکا ہے‘‘۔ لیکن جب بنگلہ دیش میں دیکھتے ہیں تو ظلم، نفرت، قتل و غارت، بے روزگاری اور عدل کا خون بکھرا نظر آتا ہے۔

موجودہ حکمران عوامی لیگی ٹولے نے ۷جنوری ۲۰۲۴ء کو ملک میں ۱۲ویں پارلیمانی الیکشن کا اعلان کیا ہے، لیکن اس شکل میں کہ گذشتہ کئی برس سے بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں یعنی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اورجماعت اسلامی کو مفلوج کرکے رکھا ہے، بلکہ اپنے طور پر انھیں کچل کر رکھ دیا گیا ہے۔

اس سب کے باوجود کہ بی این پی کی سربراہ بیگم خالدہ ضیاء مسلسل جیل میں قید ہیں اور انھیں علاج کے لیے بیرونِ ملک جانے تک کی اجازت نہیں۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کی قیادت کو یا تو پھانسیوں پر لٹکا دیا گیا، یا بہت سے قائدین کو جیل کی کال کوٹھڑیوں میں موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا ہے۔ جماعت کو بہ حیثیت سیاسی جماعت الیکشن میں حصہ لینے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن صاحب کو بغیر کسی مقدمے کے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرا، قید کر رکھا ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے رفاہی اور معاشی اداروں کو برباد کردیا ہے۔ لٹریچر کو کتب خانوں سے نکال باہر پھینکا ہے۔ عام عوامی لیگی غنڈوں کو بالکل آر ایس ایس اسٹائل میں جماعت کےکارکنوں، دفتروں اور گھروں پر حملے کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ یہ ہے وہ منظرنامہ، جس میں بنگلہ دیش کے الیکشن کا ڈھول پیٹا جارہا ہے۔

یہ ۱۰ جون ۲۰۲۳ء کی بات ہے، جب دس سال شدید پابندی کے بعد پہلی بار جماعت اسلامی کو ڈھاکہ کے ایک چھوٹے سے ہال میں جلسہ منعقد کرنے کی اجازت ملی۔ اس ہال میں مشکل سے تین سو افراد کی گنجایش تھی لیکن ڈھاکہ نے یہ منظر دیکھا کہ اس اجلاس میں شرکت کے لیے تقریباً ایک لاکھ پُرامن افراد، ڈھاکہ کی شاہراہوں پر کھڑے، جلسہ گاہ جانے یا جلسہ گاہ سے مقررین کی تقاریر سننے کے لیے اُمڈے چلے آرہے ہیں۔ اس منظر نے بنگلہ دیش میں عوامی لیگی، ہندو قوم پرست اور سوشلسٹ اخبارات کے صفحات پر کہرام برپا کردیا اور یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ ’’دس برس میں جماعت اسلامی کو اور اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت طلبہ) ختم نہیں کیا جاسکا، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ انھیں کچل دیا جائے‘‘۔ یہ بیانات اور تجزیے آج بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔

بنگلہ دیش میں یہ نام نہاد الیکشن درحقیقت بھارتی ایجنسی ’را‘ کی ایک انتخابی دھوکا دہی کی مشق ہے۔ اسی لیے بی این پی نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر حسینہ واجد نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفا نہ دیا تو وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے گی، جب کہ جماعت مطالبہ کر رہی ہے کہ:

            ۱-         جماعت اسلامی پر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے عائد پابندی ختم کی جائے۔

            ۲-         حسینہ واجد حکومت ختم کرکے عبوری حکومت قائم کی جائے۔

            ۳-         بی این پی سمیت تمام سیاسی قائدین اور پارٹیوں کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق دیا جائے۔

            ۴-         تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔

            ۵-         عوامی لیگی مسلح غنڈوں کو لگام دی جائے۔

            ۶-         قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی مخالفین کچلنے سے منع کیا جائے۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام امیر پروفیسر مجیب الرحمان نے ۱۹نومبر ۲۰۲۳ء کے بنگلہ دیشی کنگرو سپریم کورٹ کے فیصلے پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے ڈھاکہ ہائی کورٹ نے یکہ طرفہ طور پر یکم اگست ۲۰۱۳ء کو جماعت اسلامی کی رجسٹریشن غیرقانونی قرار دی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف جماعت نے سپریم کورٹ میں بروقت اپیل کی تھی، مگر دس سال تک اپیل کی کوئی سماعت نہ ہوئی۔ آخرکار جنوری ۲۰۲۳ء کو سپریم کورٹ نے جماعت کے وکلا سے کہا کہ ’’دوماہ کے اندر اندر دوبارہ جامع بیان داخل کریں‘‘۔ جماعت نے مقررہ تاریخ گزرنے سے پہلے درخواست جمع کرادی۔ مگر پانچ ماہ تک پھر کوئی سماعت نہ ہوئی اور اس عرصے میں ۱۰جون کو جماعت کے بندہال میں جلسے کا سن کر ہزاروں لوگوں کی آمد نے حکومت اور کنگرو کورٹ کی عقل کو بٹہ لگادیا۔ ۱۹نومبر ۲۰۲۳ء کو آخرکار سپریم کورٹ نے کیس سننے کے لیے مقرر کیا، مگر سماعت شروع ہوتے ہی کہہ دیا: ’’ہم جماعت کے وکیلوں کی سماعت نہیں کریں گے‘‘ اور درخواست مسترد کردی۔ یہ سب ڈراما پوری دُنیا کے سامنے کھیلا گیا ہے۔

یہ عدالتی ڈراما ابھی انجام کو پہنچا ہی تھا کہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور کریک ڈائون کی سیاہ آندھی پورے بنگلہ دیش میں چلنا شروع ہوگئی۔ جس میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران جماعت اسلامی کے ۲ہزار ۹ سو ۳۷ کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ان قیدیوں میں بزرگ، معذور اور خواتین بھی شامل ہیں۔ تین کارکنوں کو عوامی لیگی غنڈوں نے تیزدھار آلے سے حملہ کرکے شہید کردیا ہے۔ پانچ کارکنوں کو پولیس نے گولی مار کر زخمی کیا ہے۔ ۵۷۳کارکن شدید زخمی حالت میں نجی ہسپتالوں میں پڑے ہیں، کہ سرکاری ہسپتال جماعت کے کارکنوں کو طبّی امداد دینے سے انکاری ہیں۔ ابھی ہم کہہ نہیں سکتے کہ دسمبر کے مہینے میں حسینہ واجد نامی ’کالی ماتا‘ (خونی ماتا) جماعت کے کتنے کارکنوں اور انصاف کا خون پیئے گی!

عوامی لیگی کا رکن، قانون شکن اور بدعنوان شمس الدین احمد چودھری، بنگلہ دیشی عدلیہ کا اصل چہرہ ہے۔ کچھ سال پہلے تک بدنام شہرت کا حامل یہ شخص اپیل کونسل میں منصف کے طور پر شامل ہوکر سپریم کورٹ کا وقار مٹی میں ملا رہا تھا۔ دس سال سے زیادہ عرصہ قبل جب یہ آدمی ہائی کورٹ کا جج تھا تو میں نے بطور شہری اور مدیر روزنامہ امر دیش ،صدر مملکت اور چیف جسٹس کو خط لکھ کر  اس کے خلاف احتسابی کارروائی شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس خط میں اس کی بدعنوانی اور اخلاقی گراوٹ کے کئی واضح اور ناقابلِ تردید ثبوت بھی مہیا کیے گئے تھے۔ لیکن نتیجہ وہی نکلا، جو کسی فسطائی ریاست میں ہو سکتا تھا۔ اس ملزم کو ترقی دے کر اپیل ڈویژن میں بھیج دیا گیا۔ دوسری طرف ایک اختلافی آواز کو دبانے کے لیے مبینہ طور پر وزیر اعظم حسینہ واجد کے حکم پر مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ دورانِ حراست تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کئی دفعہ جان سے مارنے کی کوشش ہوئی، پانچ سال تک قید میں رکھا گیا، اخبار بند کردیا اور چھاپہ خانے کو پولیس نے سربمہر کر دیا۔ ۲۲ جولائی ۲۰۱۸ء کو عدالتی حدود میں ایک دفعہ پھر مجھ پر حکومتی جماعت کے اُجرتی قاتلوں نے حملہ کیا، جس کے بعد ملک چھوڑنے کے سواکوئی چارہ نہ رہا۔

یہی شمس الدین نامی بدمعاش ’جج َ‘ اب ریٹائر ہونے کے بعد چند دن سے دوبارہ خبروں کا حصہ بنا ہوا ہے۔ موصوف نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں بنگلہ دیش سے امریکی سفیر پیٹر حاس کو نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے بنگلہ دیش کی فسطائی حکومت کے چند محدود اور غیر متعین عناصر کے خلاف ویزا پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ بنگلہ دیشی عدلیہ راتوں رات ذلّت کی گہرائی میں جاگری بلکہ ۲۰۰۸ء میں عوامی لیگ کے اقتدار میں آنے کے بعد بنگلہ دیش سے جمہوریت کے خاتمے اور عدل کی زندگی کے قتل کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ ہمارے اخبار امردیش نے ہر طرح کی مخالفت کے باوجود ۲۰۰۹ء میں عدلیہ میں بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت اور بھرتیوں کے خلاف کئی مضامین شائع کیے تھے۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوگیا تھا جب دسمبر ۲۰۰۸ء میں حسینہ واجد، امریکا و بھارت کی مدد سے انتخابات میں کامیابی کے نام پر اقتدار پہ قابض ہوئی تھیں۔ بھارت کے سابق صدر پرناب مکھرجی، جو اُس وقت وزیر خارجہ تھے، اپنی یادداشتوں میں یہ قصہ سناتے ہیں کہ کیسے انھوں نے تب کے بنگالی سپہ سالار جنرل معین کو شیخ حسینہ کے حق میں انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے آمادہ کیا تھا۔ مکھرجی کے بقول انھوں نے بدلے میں جنرل معین کو یقین دہانی کروائی تھی کہ حسینہ کی حکومت میں بنگالی فوج کی سپہ سالاری انھی کے پاس رہے گی۔

۱۰ مئی ۲۰۱۰ء کومیں نے امر دیش  میں ایک کالم بعنوان ’آزادیٔ عدالت کے نام پر دھوکا‘ لکھا تھا۔ اس کے جواب میں توہین عدالت کے دو مقدمے قائم کر کے مجھے چھ ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ ایک لاکھ ٹکا جرمانہ بھی میری سزا میں شامل تھا، جو میں نے یہ کہتے ہوئے ادا نہیں کیا کہ میرا مضمون مکمل طور پر حق اور سچ پر مبنی ہے اور اخلاص کے تحت لکھا گیا ہے۔ نتیجتاً میری سزا میں ایک مہینے کا اضافہ کر دیا گیا۔

میرا مقدمہ عدالت کے فل بنچ کے سامنے لگا تھا۔ اپیلیٹ ڈویژن کے ایک جج نے عدالت میں کہا تھا: اس مقدمے میں لفظ ’’سچ آپ کا دفاع نہیں کر سکتا‘‘۔ میں نے اپنا مقدمہ بغیر کسی وکیل کے جیل سے خود لڑا تھا کیونکہ قید خانے میں کوئی قانونی مدد اور سہولت دستیاب نہیں تھی۔ ان جج صاحب کا نام عبدالمتین تھا، اور ریٹائر ہونے کے بعد اب وہ سول سوسائٹی کا تازہ تازہ حصہ بنے ہیں، اور جب منہ کھول کر عدلیہ کی آزادی پر خطبے دیتے ہیں تو مجھے ہنسی آتی ہے۔ جب میرا مقدمہ چل رہا تھا تو سپریم کورٹ میں ان کا دوسرا نمبر تھا اور وہ خود چیف جسٹس بننے کے امیدوار تھے۔اس عہدے کے لالچ میں وہ حسینہ واجد کی چاپلوسی میں اُلٹے سیدھے ہو رہے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ اس فسطائی حکومت کو خوش کرنے کے لیے مجھے زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے کیونکہ میں نے حکمران خاندان کی بدعنوانیوں اور بنیادی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ مگر سفاک وزیراعظم کے قریب ترین سمجھے جانے والے جسٹس خیر الحق، عبدالمتین کو پیچھے چھوڑ کر چیف جسٹس بن گئے اور بنگلہ دیشی جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل انھی نے ٹھونکی۔

پستی کی طرف بڑھتے بنگلہ دیش کو خبردارکرنے کے لیے میں نے اپنی تحریروں کے ذریعے بین الاقوامی برادری کو باخبر رکھنے کی کوشش کی، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ میں نے تب کی امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں پر بھی کڑی تنقید کی اور ایک مضمون بعنوان ’’گڈگورننس اب امریکی مقاصد کا حصہ نہیں‘‘ ( ۱۷ مئی ۲۰۱۰ء) امر دیش میں شائع کیا۔ ریاستی مشینری اور سیکولرازم کے لبادے میں چھپے اسلام مخالف میڈیا نے، جس کی سربراہی ۹۰ کے عشرے سے پروتھم ایلو اور ڈیلی سٹار  اخبار کے گروپ کر رہے ہیں، مجھے ’اسلامی انتہا پسند‘ قرار دے ڈالا۔ یہ بہتان دنیائے مغرب میں شدید اسلام دشمنی کے لیے کافی خطرناک ہو سکتا تھا۔ اگرچہ اسلام دشمنی کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے حال ہی میں ۱۵ مارچ ’اسلاموفوبیا‘ پراپیگنڈا مہم کے خلاف عالمی دن قرار دیا ہے، جو یقیناً خوش آیند ہے۔ تاہم، ۲۰۱۰ء میں عالمی سیاسی حالات کافی مختلف تھے۔ بظاہر ۲۰۱۰ء میں امریکیوں کو اخبار امردیش کے خلاف ہونے والی فسطائی کارروائیوں پر خوشی ہوتی تھی، جو بنگال کا دوسرا مقبول ترین اخبار تھا اور اس کے برعکس امریکا کا حمایت یافتہ پروتھم ایلو بعد میں آتا تھا۔ میری اور اسلام پسند سمجھے جانے والے ’دشمن‘ عناصر کی تکالیف پر ڈھاکہ میں موجود امریکی سفارت خانہ بھی مطمئن تھا۔

دُنیا کے حاکم اس چیز کو اہمیت نہیں دیتے کہ بندے کی وضع قطع کیا ہے، چاہے وہ کیسی ہی ماڈرن صورت رکھتا ہو، وہ اس کے خیالات اور عمل کی بنیاد پر طے کرلیتے ہیں کہ یہ اسلام پسند ہے اور اسے سیکولر طبقے میں شمار نہیں کرنا۔

عوامی لیگی حکومت کی پشت پناہی میں حریص اور مفادات کے اسیر ججوں اور وکلا کی ایک بڑی جماعت نے جارج آرویل [م: ۱۹۵۰ء]کے ناولوں Animal Farm وغیرہ سے مماثل ایک ظالمانہ ریاست بنانے کی سازش کی تھی، جس میں ’کن ٹٹا باپ (شیخ مجیب کا بھوت)‘ اور ’کن ٹٹی شہزادی (شیخ حسینہ جو خودکو ’سر‘ کہلوانے پر مصر رہتی ہیں)‘ اقتدار اعلیٰ پر قابض ہوں گے۔ عدلیہ کی جانب سے اس سازش میں شریکِ جرم درج ذیل تھے:

۱- سابق چیف جسٹس خیر الحق،۲- سابق چیف جسٹس ایس کے سنہا، ۳- سابق چیف جسٹس مزمل حسین،۴- سابق چیف جسٹس تفضل اسلام، ۵- سابق چیف جسٹس فضل الکریم، ۶-سابق چیف جسٹس سید محمود حسین، ۷- سابق چیف جسٹس حسن فائز صدیقی، ۸-موجودہ چیف جسٹس عبید الحسن، ۹- سابق اپیل ڈویژن جسٹس شمس الدین چودھری، ۱۰- سابق اپیل ڈویژن جسٹس نظام الحق نسیم (جن کے کردار کا پردہ روزنامہ امر دیش اور دی اکانومسٹ نے ’اسکائپ اسکینڈل‘ میں چاک کیا تھاـ)،۱۱- موجودہ اپیل ڈویژن جسٹس عنایت الرحمٰن،۱۲- موجودہ وزیرقانون انیس الحق،۱۳- سابقہ وزیر قانون  شفیق احمد،۱۴- مرحوم اٹارنی جنرل محبوب عالم، ۱۵-غلام عارف ٹیپو ایڈووکیٹ، ۱۶-سیّدریاض الرحمٰن ایڈووکیٹ،۱۷-رانا داس گپتا ایڈووکیٹ، ۱۸- زیاد المعلوم ایڈووکیٹ (مجرم اسکائپ سکینڈل)

ان کے علاوہ جن بے ضمیر ججوں نے اپنے عہدوں کے لالچ اور مراعات کی ہوس کے لیے فسطائی حکومت کے جائز و ناجائز اقدامات کی حمایت کی، ان میں دو شخصیات خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں، ایک اپیل ڈویژن کے جسٹس عبدالمتین اور دوسری سابقہ جسٹس نجم الآراء سلطانہ۔ ان میں سے جسٹس عبدالمتین کا ذکر پہلے ہو چکا جو آج کل پروتھم ایلو اور ڈیلی سٹار کی چھترچھایا کے نیچے نام نہاد سول سوسائٹی کے ارکان کے درمیان ایک بزرگ دانشور اور سیاست دان کے طور پر خود کو پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جسٹس نجم الآراء سلطانہ کے بارے میں یہ بتا دیا جائے کہ انھوں نے جسٹس عبدالوہاب میاں اور جسٹس امام علی کے ساتھ مل کر اس آئینی ترمیم کی بڑی سختی سے مخالفت کی تھی، جس کے تحت نگران حکومتوں کا نظام ختم کر کے بنگلہ دیش میں ایک جماعت کی فسطائی حکومت کا راستہ ہموار کیا گیا۔ جب یہ کیس سپریم کورٹ میں پہنچا تھا تو مذکورہ تین جج اس کے مخالف تھے، جب کہ تین ہی ججوں نے حمایت کی تھی۔ آخر چیف جسٹس خیر الحق نے اس کی حمایت میں فیصلہ دے کر بنگلہ دیش کے آئین میں مہیا کردہ آزادانہ انتخابات کی سب سے بڑی ضمانت ختم کر دی تھی۔ 

 عدلیہ میں موجود عوامی لیگی حواریوں کے جرائم کی ایک فہرست یاددہانی کے لیے پیش ہے:

            ۱-         نگران حکومتی نظام کا خاتمہ کر کے عوامی لیگی شیطانی حکومت کے لیے زمین ہموار کرنا۔

            ۲-         انسانیت کے خلاف ہر طرح کے جرائم مثلاً جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، حراست میں تشدد وغیرہ میں شیخ حسینہ اورپولیس، فوج، راب(RAB) میں موجود اس کے ڈیتھ اسکواڈ کی مدد۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں، آزاد صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی ضمانتوں سے انکار، بنگالی عوام کے بنیادی حقوق پر کھلی ڈاکا زنی۔

            ۳-         فاشسٹ حکمران شیخ حسینہ کی خواہشات کے مطابق اس کے سیاسی مخالفین بشمولہ سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کے خلاف وزارت قانون کی جانب سے تیار کردہ فیصلے بغیر کسی شرم، ہچکچاہٹ کے من و عن سنا دینا اور جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمان کی مسلسل گرفتاری کہ جس میں انھیں نہ ضمانت کا جائز حق میسر ہے، نہ اپنی بزرگی اور بگڑتی صحت کے باوجود علاج کی مناسب سہولت۔

            ۴-         نئی دہلی حکومت کے ایما پر اسلام پسند رہنماؤں کے قتل کے لیے کینگرو عدالتوں کا قیام اور ملکی عدلیہ اور اداروں کی مستقل تباہی۔ اس قتل و غارت گری کے لیے ۱۹۷۱ء کی جنگ کو جواز بنایا جاتا ہے۔ روزنامہ امر دیش اور لندن اکانومسٹ نے ۲۰۱۲ء میں ایک زبردست تحقیقی رپورٹ کے ذریعے اس منصوبے کا پردہ چاک کر دیا تھا۔ یہ رپورٹ آزادی کے بعد کی بنگلہ دیشی صحافت میں اہم مقام رکھتی ہے۔ تاہم، بین الاقوامی برادری اور مغرب کے آزادی ٔ صحافت کے علَم برداروں نے سیاسی مصلحتوں کے تحت ہندستان کو خوش کرنے کے لیے آنکھیں بند رکھنے کا فیصلہ کیا۔

            ۵-         آزادیٔ اظہار پر پابندیوں میں حکومت کے ساتھ اتحاد۔

            ۶-         ملک میں قانون کی حکمرانی مکمل طور پر ختم کرنے میں حکومت کے ساتھ اشتراک۔

پچھلے پندرہ برسوں کے دوران ہونے والے عدلیہ کے یہ جرائم مدتوں یاد رکھے جائیں گے۔ یہ سب انڈیا کی پشت پناہی میں ایک بدعنوان اور ظالم خاتون کی ایما پر کیا گیا ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ عدلیہ میں عوامی لیگ کے مقرر کردہ یہ جلاد ایک دن انصاف کا سامنا کریں گے۔

کیا یہ بیان حقیقت ہے یا بے جا مغالطہ انگیزی؟___ ’’اُردو کے نفاذ کا مسئلہ کسی قومی، ملکی، یا نسلی عصبیت کا مسئلہ نہیں ہے کہ ایک زبان کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسری زبان نافذ کر دی جائے، بلکہ یہ دینی، قومی، ملکی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے‘‘۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں۔

  • دینی پہلو: یہ دینی مسئلہ اس طرح ہے کہ عربی کے بعد سب سے زیادہ اسلامی لٹریچر اُردو میں ہے، لیکن خطرناک حد تک اُردو فہمی آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر استعماری اور غیراستعماری سازش کے تحت یا پھر ہماری نادانی کے سبب اُردو زبان ختم ہو جاتی ہے تو ذرا سوچیے، ہماری آنے والی نسلوں کا کیا بنے گا؟ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اگر ہماری یہی روش رہی تو اُردو کا وجود بس ۲۰، ۲۵ سال کی کہانی ہے (یعنی اُردو یا نیم قسم کی اُردو بس بول چال کا ذریعہ رہ جائے گی، لکھنے پڑھنے اور برتنے کی چیز نہیں ہو گی)۔

ادب انسان کو اچھا انسان بنانے میں مددگار ہوتا ہے۔ مگر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے آنے والی نسلیں اُردو ادب سے کٹتی  جا رہی ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اُردو میں لکھے گئے نہایت قیمتی دینی، تہذیبی اور تاریخی لٹریچر سے بھی کٹ جائیں گی۔ یہ اندازہ لگانے کے لیے آدمی کا دانش ور ہونا ضروری نہیں ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی ایسی صورت حال نہیں ہے، لیکن غور کریں تو واقعی ہم اسی طرف تیزی سے جا رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسئلے کے سنگین ہونے سے پہلے اس پر قابو پانے کی کوشش کی جائے۔

کہا جا سکتا ہے کہ ’’قرآن اور احادیثِ نبویؐ میں تو کسی خاص زبان کی ترویج کا حکم نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قرآن و حدیث نبویؐ میں ایسی کوئی صریح ہدایت نہیں ہے۔ البتہ، قرآن میں دو جگہ اس کی طرف اشارے ضرور ملتے ہیں: ایک تو سورۂ حٰم السجدہ کی آیت ۴۴ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (مشرکین کے اعتراض کے جواب میں)’’اگرہم اس قرآن کو عجمی (زبان میں) بھیجتے تو یہ لوگ کہتے، کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں؟ کیا عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مخاطب عرب ہیں‘‘۔ دوسری جگہ سورۂ ابراہیم کی آیت ۴ میں فرمایا گیا ہے: ’’ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے، تاکہ وہ انھیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے‘‘۔ گویا کسی چیز یا موضوع کا ابلاغ متعلقہ لوگوں کی اپنی زبان میں ہی کماحقہٗ ممکن ہے۔ اجنبی زبان میں لوگوں کو صحیح طور پر نہیں سمجھایا جاسکتا۔

پاکستان میں اُردو کا نفاذ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے، اور بدیسی زبان کا نفاذ اسلام کی روح کے بالکل منافی ہے۔ اب سوچ لیجیے کہ اگر قوم کے اوپر غیر ملکی زبان مسلط ہو، جس پر عبور رکھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہ ہوں، تو کیا اس قوم کے نوجوان مروجہ علوم و فنون پر بآسانی صحیح طور پر عبور حاصل کر سکیں گے؟ اپنی زبان کے خاتمے یا کم فہمی کی وجہ سے کیا یہ نوجوان اپنے تہذیبی ورثے سے جڑے رہ سکیں گے؟ اپنی زبان اور ادب سے بے بہرہ یہ نوجوان جب تعلیم و تدریس کے شعبے میں آئیں گے، تو کیا اپنے شاگردوں کو آسان زبان میں موضوع کو سمجھا سکیں گے، یا کسی مذاکرے میں اپنا ما فی الضمیر سہل انداز میں پیش کر سکیں گے؟ کسی موضوع پر کوئی مضمون یا کتاب آسان اور عام فہم زبان میں لکھ سکیں گے؟ ایک حدیث نبویؐکا مفہوم ہے کہ ’’آسانیاں پیدا کرو، مشکلات پیدا نہ کرو‘‘ (یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا، بخاری، حدیث۶۱۹۲، کتاب الآداب)، اور جہاں انگریزی سمجھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہ ہوں، وہاں دفتری امور نمٹانا اور تعلیم حاصل کرنا انگریزی میں آسان ہو گا یا اُردو میں؟

اسی طرح مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا ۱۹۳۹ء کا یہ فتویٰ بھی موجود ہے: ’’اس وقت اُردو زبان کی حفاظت حسبِ استطاعت واجب ہو گی اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اور سُستی کرنا معصیت اور موجبِ مواخذۂ آخرت ہو گا‘‘ مگر اب تو اُردو کے لیے حالات اور بھی بدتر ہو گئے ہیں۔

  • سیاسی پہلو: اگر قومی، ملکی اور سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو ذرا سوچیے کہ دنیا میں آپ کسی ایک ملک کی بھی مثال نہیں دے سکتے ہیں، جس نے اپنی زبان چھوڑ کر کسی غیر ملکی زبان کو استعمال کر کے ترقی حاصل کی ہو؟ جاپان کے بارے میں تو یہ بات تصدیق شدہ ہے کہ جب دوسری عالمگیر جنگ میں شکست کے بعد فاتح امریکا نے شہنشاۂ جاپان سے پوچھا: ’مانگو کیا مانگتے ہو؟‘ تو دانا اور محبِّ وطن شہنشاہ نے جواب دیا: ’اپنے ملک میں اپنی زبان میں تعلیم‘۔ اس لین دین کا نتیجہ  آج ہمارے سامنے ہے۔ غرض جاپان، جرمنی، فرانس وغیرہ بلکہ دنیا کے جس ملک نے بھی ترقی کی ہے، اپنی زبان میں تعلیم دے کر ہی کی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر غیر ملکی زبان میں تعلیم دی جائے تو طالب علم کی تقریباً ۵۰ فی صد توانائی (بعض اوقات تو ۷۰ اور۸۰ فی صد )دوسری زبان سمجھنے پر خرچ ہوتی ہے اور بقیہ ۲۰ تا ۳۰ فی صد نفسِ مضمون پر۔

دوسری طرف یہ دیکھیے کہ میٹرک اور انٹر میں ہمارے طلبہ و طالبات کی اکثریت کس مضمون میں ناکام (فیل) ہوتی ہے؟ جواب واضح صورت میں سامنے آتا ہے کہ ’انگریزی میں‘۔ پنجاب میں پچھلے ۲۰ سال کے نتائج کے مطابق میٹرک کے اوسطاً ۷۰ فی صد طلبہ انگریزی میں فیل ہوئے اور انٹر کے ۸۷ فی صد۔ ان طلبہ میں کافی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہو سکتی ہے، جو انگریزی کے علاوہ دوسرے مضامین یا شعبوں میں اچھے ہوں اور آگے چل کر دوسرے شعبوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ اس طرح ہماری قوم ہر سال معتد بہ تعداد میں اچھے اذہان سے محروم ہو جاتی ہے۔

  • معاشی پہلو: پاکستان میں اُردو کے نفاذ کا ایک معاشی پہلو یہ بھی ہے کہ ملک میں انگریزی سمجھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ زبان (انگریزی) دراصل ہماری اشرافیہ یا ’گندمی انگریزوں‘ جرنیلوں اور نوکر شاہی کی زبان ہے۔ انگریزی ہی کی بدولت ان لوگوں کا اقتدار اور برتری قائم ہے۔ اگر اُردو پاکستان کی سرکاری زبان بن جاتی ہے، تو ان ’گندمی انگریزوں‘ اور ان کی آیندہ نسلوں کا اقتدار اور برتری ختم ہو جائے گی۔ اگر اُردو ہماری سرکاری زبان نہیں بنتی، تو غریب اور متوسط طبقے کے بچے کلرک، مزدور اور چپراسی ہی بنیں گے، چاہے وہ کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں، اور کلیدی عہدے اور منصب بھی اسی مقتدر طبقے کے بچوں کا مقدر بنیں گے۔ سی ایس ایس کے امتحان اُردو میں نہ کروانے کی بڑی وجہ یہی ہے۔ آج بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امتحانی مراحل اور مصاحبوں (انٹرویو)میں وہی امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جن کی انگریزی اچھی ہوتی ہے، چاہے نفسِ مضمون میں وہ کتنے ہی کم زور کیوں نہ ہوں۔

انگریزوں کی آمد سے قبل ہندستانی مسلمانوں کی تعلیمی حالت کیا تھی؟ اس بارے میں ایک برطانوی اعلیٰ افسر جنرل ولیم ہنری سلیمین کے اپنی کتاب Rambles and Recollections of an Indian Official  (۱۸۴۴ء) میں یہ الفاظ قابلِ توجہ ہیں:’’دنیا میں صرف چند قومیں ایسی ہوں گی جیسی کہ مسلمانانِ ہند ہیں اور جن میں تعلیم اعلیٰ پائے کی ہے اور سیر حاصل ہے۔ جس (بھی)آدمی کی تنخواہ -/۲۰روپے ماہانہ ہے، وہ اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دیتا ہے، جیسی انگلستان کے وزیراعظم کی ہوتی ہے۔ یہ افراد عربی، فارسی کے ذریعے، اس طرح کا علم حاصل کرتے ہیں جیسا ہمارے نوجوان یونانی اور لاطینی کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ ان کا علم اسی پایہ کا ہوتا ہے، جس پایہ کا اوکسفرڈ کے فارغ التحصیل کا۔ یہ عالم بغیر کسی جھجک کے سقراط، ارسطو، افلاطون، جالینوس اور بوعلی سینا کی تعلیمات پر گفتگو کرتا ہے۔ ہم میں سے بہترین یورپی بھی اعلیٰ خاندان کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے سامنے علمی لحاظ سے خود کو کم تر اور پست محسوس کرتے ہیں، بالخصوص جب کوئی سنجیدہ علمی گفتگو ہو‘‘۔

اسی طرح لارڈ میکالے، رکن قانون ساز گورنر جنرل کونسل کے ۲ فروری۱۸۳۵ء کو برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کا درج ذیل اقتباس دیکھیے: ’’میں نے ہندستان کا مکمل دورہ کیا ہے۔ میں نے یہاں نہ کسی کو بھکاری دیکھا ہے اور نہ چور۔ میں نے اس ملک میں اس قدر فارغ البالی، ثروت، اخلاقی اقدار اور نہایت اعلیٰ ظرف کے لوگ دیکھے ہیں کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ ہم اس ملک کو اس وقت تک فتح کرسکتے ہیں جب تک اس قوم کی کمرِ ہمت کو شکستہ نہیں کر دیں، جو دراصل اس کا ثقافتی اور روحانی ورثہ ہے۔ چنانچہ میری تجویز ہے کہ ہم ان کے قدیم نظامِ تعلیم اور ثقافت کو   تبدیل کر دیں تاکہ ہندستانیوں کو یہ یقین ہو جائے کہ جو کچھ باہر سے آرہا ہے اور انگلستانی ہے وہ مستحسن و عظیم ہے بہ نسبت ان کے اپنے ثقافتی نظام کے۔ اس طرح ان کی عزتِ نفس ختم ہوجائے گی، ان کی ثقافت ماضی کی داستان بن کر رہ جائے گی، اور وہ وہی ہوجائیں گے جو ہم اُنھیں بنانا چاہتے ہیں، ایک صحیح طرح سے مغلوب قوم....‘‘۔

 چنانچہ انگریزوں کی آمد کے بعد، اس طرزِ تعلیم میں قطع و برید کی گئی۔ سب سے پہلے علمِ دین کو خارج کیا گیا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ دیگر اجزائے علم اور عربی و فارسی کو عام تعلیم سے خارج کیا گیا، آخرکار طالب علم، علم کے لحاظ سے ناقص، اور صرف سرکاری ملازمت اور اہل کار ہونے کے قابل رہ گئے، تابع فرمان ملازم!

  • معاشرتی پہلو: اُردو اپنے حق کے مطابق اگر رواج نہیں پاسکی ہے تو اس کا ایک معاشرتی نقصان یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کی انگریزی اچھی نہ ہو وہ انگریزی جاننے والوں سے عموماً خود کو کم تر سمجھنے لگتے ہیں اور نتیجتاً اپنی قوتِ کار کو گھٹا لیتے ہیں۔ دوسری طرف انگریزی جاننے اور اس کو اُوڑھنا بچھونا بنا لینے والے خواہ مخواہ احساسِ برتری کا شکار ہو کر دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور اپنی علمیت کا رُعب جھاڑنا ان کی پختہ عادت بن جاتی ہے، اور وہ اپنی زبان بھی بگاڑ لیتے ہیں۔

جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں ۳۰سال تک تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جاتے رہے۔ جن دنوں نام نہاد اسرائیل والے اپنی مُردہ عبرانی زبان کو زندہ کر رہے تھے، ان دنوں ہمارے ہاں تمام تر اعلیٰ سائنسی مضامین بہ شمول ایم بی بی ایس، بی ای (انجینیرنگ)، طبیعیات، کیمیا وغیرہ، الغرض ایک مضمون انگریزی کے سوا تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جارہے تھے۔یہ سلسلہ سقوطِ حیدرآباد تک جاری رہا اور پھر وہاں اُردو ذریعۂ تعلیم کو ختم کر دیا گیا۔ جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی اپنے مضمون پر گرفت اتنی مضبوط تھی کہ برطانیہ میں ایف آر سی ایس وغیرہ کے داخلہ ٹیسٹ سے ان کو مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔ دراصل تخلیقی قوت اپنی ہی زبان سے آتی ہے۔

دوسری طرف آزادی کے بعد پڑوسی مشرک ملک میں جب اسمبلی میں سرکاری زبان کے لیے رائے شماری ہوئی تو اُردو اور ہندی کے ووٹ بالکل برابر ہوگئے۔ اس کے بعد اسپیکر کے فیصلہ کن ووٹ سے ہندی سرکاری زبان بن گئی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ ہرسال اپنی مُردہ زبان سنسکرت کے کچھ الفاظ منتخب کر لیتے ہیں اور پھر میڈیا اور دوسرے ذرائع ان مُردہ الفاظ کو عام کرتے ہیں۔

آپ نے کسی انگریز یا امریکی کو انگلستان یا امریکا میں نمبر (اعداد) اُردو میں بتاتے ہوئے یا اپنی گفتگو میں جابجا اُردو الفاظ استعمال کرتے ہوئے دیکھا یا سنا ہے؟ یقیناً نہیںسُنا ہوگا، مگر افسوس کہ ہمارے ہاں معاملہ بالکل اُلٹ ہوچکا ہے۔ نئی نسل تو ایک طرف خود بڑے بھی، اُردو اعداد (۱،۲،۳،۴) لکھنے کے بجائے رومن یا انگریزی اعداد (4,3,2,1) لکھنا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔ یہاں پر تین واقعات ملاحظہ کیجیے:

  • ایک معالجِ امراضِ ذہنی ڈاکٹر سیّد مبین اخترکہتے ہیں: انھوں نے ایسے انگریزی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں پڑھانے والے بھی انگریز تھے، اگر غلطی سے کوئی اُردو کا لفظ زبان سے نکل جاتا تو بہت شرمندگی اٹھانی پڑتی تھی۔ پھر انٹر میں بھی ذریعۂ تعلیم انگریزی ہی تھی۔ ایم بی بی ایس تو وہاں تھا ہی انگریزی میں۔ اس کے بعد وہ تخصص کے لیے امریکا چلے گئے۔ وہاں پڑوسی ملک میکسیکو (جو کہ امریکا کے بالکل ساتھ واقع ہے)سے بھی ڈاکٹر اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا آئے ہوئے تھے۔ ان ڈاکٹروں کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی انگریزی دانی پر بہت خوش تھے کہ انھیں انگریزی آتی ہے اور وہ گورے امریکیوں کے شانہ بشانہ ہیں، جب کہ میکسیکو کے ڈاکٹروں کو انگریزی نہیں آتی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے چھے ماہ کے اندر میکسیکو کے ڈاکٹروں نے انگریزی میں اتنی استعداد پیدا کر لی کہ اپنا کام بخوبی چلانے لگے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ پھر مجھے بڑا افسوس ہوا کہ جو کام میں چھے مہینے کی محنت سے کر سکتا تھا، اس کے لیے میں نے اپنے آپ کو اپنے تہذیبی ورثے، اقبالؔ، غالبؔ، میرؔ، اکبرؔ ا لٰہ آبادی وغیرہ سے کاٹ لیا تھا کہ اتنی انگریزی پڑھنے کے باوجود انگریزی کی نسبت اُردو میں اظہارِ خیال کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ اُردو میری اپنی زبان ہے۔
  • دوسرا واقعہ انگلستان کے ایک وزیر تعلیم کے دورئہ پاکستان کا ہے۔ ہمارے ’گندمی انگریزوں‘ نے انھیں اپنے انگریزی میڈیم اسکولوں کا دورہ کرایا۔ دورے کے بعد ان سے پاکستانی بچوں کو انگریزی میں تعلیم دیے جانے پر ان کے تاثرات پوچھے گئے۔ ہمارے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ وہ گورے صاحب اس بات سے بہت خوش ہوں گے، لیکن انھوں نے جواب دیا: ’’اگر میں اپنے ملک میں ایسا کرتا کہ کسی غیر ملکی زبان میں طلبہکو تعلیم دلواتا، تو دو جگہوں میں سے ایک جگہ مجھے ضرور جانا پڑتا: پھانسی گھاٹ یا پھر پاگل خانے‘‘۔ بقول ان کے دوسری زبان میں تعلیم دینے سے بچے کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتیں بُری طرح کچلی جاتی ہیں۔
  • اسی طرح فرض کریں، آپ اپنے دوست کے ساتھ جارہے ہیں، آپ کی جیب میں ۲۳۰ روپے ہیں۔ راستے میں آپ کوئی چیز خریدنا چاہتے ہیں جس کی قیمت ۲۴۰ روپے ہے۔  اب اگر آپ دوست سے دس روپے قرض لیتے ہیں تو کیا یہ مناسب ہوگا؟ آپ کہیں گے کہ اس میں کوئی بُرائی نہیں، اور فی الواقع اس میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔ اب ذرا معاملے کو دوسری طرح دیکھیے کہ آپ کو جو چیز خریدنی ہے اس کی قیمت صرف دس روپے ہے۔ جیب میں ۲۳۰روپے رکھتے ہوئے بھی اگر آپ دوست سے دس روپے مانگیں تو کیا یہ کوئی معقول بات ہوگی؟ یقینا نہیں۔   زبان کے مسئلے کو بھی اسی طرح دیکھیے۔ جو الفاظ ہماری اپنی زبان میں ہیں، ان کی جگہ ہمیں دوسری زبان کے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہییں۔ غلط اور بلاضرورت ’لسانی قرض‘ بھی کچھ ایسے ہی منفی اثرڈالتے ہیں، جیساکہ مالیاتی قرضے کمرتوڑتے ہیں۔ بلکہ سچ بات یہ ہے کہ مالی قرض تو واپس ہوسکتا ہے، لیکن لسانی اور تہذیبی قرض کا بوجھ واپس نہیں کیا جاسکتا۔
  • آئینی پہلو: پاکستان میں اُردو کا نفاذسیاسی ہی نہیں ایک اہم دستوری اور آئینی پہلو سے بھی ہے۔ پاکستان کے ہر آئین میں اُردو کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے۔ آئین کسی قوم اور ملک کی نہایت اہم اور مقدس دستاویز ہوتی ہے جس پر عمل ضروری ہوتا ہے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۲۵۱ (۱) میں یہ الفاظ اُردو کے نفاذ کی ضمانت دیتے ہیں:

پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے اور یومِ آغاز سے [یعنی اگست ۱۹۷۳ء] ۱۵برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔

تحریکِ پاکستان کی بنیاد میں دو چیزیں تھیں: ایک اسلام اور دوسری اُردو زبان، کیوں کہ ہندو اکثریت ان دونوں کے در پے تھی۔ آج خلفشار کے اس دور میں بھی یہی دو چیزیں پاکستان کو متحد رکھ سکتی ہیں۔ اُردو کے مخالف جب اُردو پر یہ غلط اور بے بنیاد اعتراض کرتے ہیں کہ اُردو میں سائنسی مضامین نہیں پڑھائے جا سکتے حالانکہ لگ بھگ ۳۰برس تک جامعہ عثمانیہ اور انجینیرنگ کالج رڑکی اور دیگر جگہوں پر اعلیٰ ترین سائنسی مضامین بشمول ایم بی بی ایس، بی ای، اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ اُردو سرکاری یا دفتری زبان نہیں بن سکتی، تو حیدرآباد دکن کا ذکر تو چھوڑیے جہاں سرکاری دفاتر میں تمام کام اُردو میں ہو تا تھا، موجودہ دور میں مقتدرہ قومی زبان جیسا باوقار قومی ادارہ اُردو کو دفتری زبان بنانے کے لیے گذشتہ کئی عشروں سے تیار بیٹھا ہے۔ یہ ادارہ کہتا ہے کہ بس حکم کی دیر ہے، اُردو زبان نافذ ہونے کے لیے بالکل تیار ہے۔ اُردو، جدید اطلاعاتی دور کے شانہ بشانہ چلنے کی بھی اہلیت رکھتی ہے۔  اُردو کے بہی خواہوں کے لیے خوش خبری یہ ہے کہ ’سافٹ ویئر‘ ما ہرین نے اب اِن پیج  ایپلی کیشن کو ’مائکرو سافٹ ورڈ‘ اور ’ایکسل‘ کے ساتھ جوڑ کر اُردو میں کام کرنا بہت آسان بنا دیا ہے، نیز ’اِن پیج‘ کا مواد یونی کوڈ میں تبدیل کرنا ممکن ہے جس کے بعد اُردو مواد کو انٹرنیٹ کے ذریعے برق رفتاری سے ارسال کیا جاسکتا ہے (اس سلسلے میں ایک ویب سائٹ www.urdu.ca سے کلیدی مدد لی جا سکتی ہے)۔

  • صوبائی زبانوں کے لیے اہمیت: پاکستان میں پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو وغیرہ سب زبانیں ہماری اپنی زبانیں ہیں۔ پاکستان کا دستور بھی دفعہ ۲۵۱ (۳) کے تحت انھیں ان الفاظ میں تحفظ دیتا ہے:’’قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کر سکے گی‘‘۔

ملک میں اس وقت اہمیت کے لحاظ سے انگریزی پہلے درجے پر ہے، اُردو دوسرے اور صوبائی زبانیں تیسرے درجے پر۔ جب اُردو سرکاری زبان بن جائے گی تو اہمیت کے لحاظ سے اُردو پہلے درجے پر آ جائے گی، صوبائی زبانیں بہ لحاظ اہمیت تیسرے سے دوسرے درجے پر آجائیں گی، یعنی اُردو کا نفاذ ہماری علاقائی زبانوں کے تحفظ اور ترقی میں بھی ممدومعاون ہو گا۔

  • انگریزی کا مقام: ہم نے انگریزی (بمقابلہ اُردو) کے لیے جو کچھ کہا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انگریزی کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور ہم  انگریزی سے قطع تعلق کر لیں۔ فی زمانہ انگریزی سائنس اور ٹکنالوجی کی زبان ہے، لہٰذا ترقی کے لیے ہمیں انگریزی سیکھنی ہوگی۔ لیکن ہم جس چیز کے مخالف ہیں وہ صرف یہ ہے کہ انگریزی ذریعۂ تعلیم ہو اور انگریزی ہی سرکاری زبان ہو۔ ہم انگریزی کے بطور مضمون پڑھائے جانے کے مخالف نہیں۔ سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیم کے لیے اصل کتب کے اُردو تراجم ہونے چاہییں۔ لیکن یہ کام سرکاری سرپرستی چاہتا ہے۔ یاد رکھیے! ہمارے بعد جو لوگ آ رہے ہیں وہ اس مسئلے کی اہمیت کو بالکل نہیں جانتے۔ یعنی یہ کام اگر ہم نے کر لیا یا کرانے کی کوشش کرتے رہے تو ٹھیک، ورنہ بعد میں یہ کام اور زیادہ مشکل ہو جائے گا اور وقت  نکل جائے گا، جو ابھی ہمارے پاس ہے۔ ذرا سوچیے ہمارا ملک ایک ایسے ملک کے طور پر شناخت کیا جائے گا جس کی زمین، فصلیں، ثقافت، لباس، غذائیں تو اپنی ہوںگی لیکن زبان اپنی نہیں ہوگی۔

اگر آپ کو پاکستان سے محبت ہے تو آپ پاکستان کی قومی زبان اُردو کے تحفظ اور ترقی کے لیے کام کریں۔ آپ کا یہ قدم قوم کی ترقی اور استحکام کا بنیادی قدم ہوگا۔ اس اقدام سے استحصالی نظام کی گرفت بھی کمزور ہوگی، اور ان شاء اللہ اپنے ربّ کے ہاں آپ کو اجر بھی ملے گا۔

یہ ضروری نہیں کہ آپ اپنا ۱۰۰ فی صد وقت اُردو کے نفاذ کے لیے وقف کر دیں۔ نہیں، بلکہ ہمیں اُردو کے نفاذ کی کوششوں کے لیے اپنا ۵۰ فی صد یا ۲۵فی صد بلکہ ۱۰فی صد وقت بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ایک فی صد وقت تو اس کام کا حق بنتا ہے۔ یہ بھی دین اور ملک کی اہم خدمت ہے، بلکہ ایسی خدمت جو اہم ہونے کے باوجود توجہ سے محروم ہے۔

نفاذِ اُردو:کرنے کے کام

  • اللہ تعالیٰ سے باقاعدہ دعا کی جائے کہ نفاذِ اُردو کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچے۔
  • اُردو کے نفاذ کی تنظیمیں متحد اور منظم ہوکر اور اشتراکِ عمل سے کام کریں۔
  •  دستخط انسان کی پہچان ہوتے ہیں، ہمیں اپنے دستخط اُردو میں کرنے چاہییں۔
  •  اپنے اور اپنے اداروں کے تعارفی کارڈ (وزیٹنگ کارڈ)اُردو میں چھپوانے چاہییں۔
  • اپنے چیک اُردو ہندسوں میں لکھیں۔ بنک ایسے چیک قبول کریںگے۔
  •  ہمیں دعوت نامے مادری یا قومی زبان میں چھپوانے چاہییں۔
  • اپنے موبائل فون کی ترتیب اُردو میں رکھنی چاہیے اور مختصر پیغام بھی اُردو میں کرنے چاہییں۔
  • دفاتر اور کاروباری اداروں کو اپنے دفتری اور جملہ اُمور اُردو ہی میں نمٹانے چاہییں۔
  • اپنی دکانوں اور دفاتر کے سائن بورڈ اُردو (یا انگریزی کے ساتھ اُردو) میں لکھوانے چاہییں۔
  • حسب ِاستطاعت اپنے مال کا ایک حصہ نفاذِاُردو کے لیے وقف کرنا چاہیے۔
  • اہل خانہ، دوستوں، پڑوسیوں اور دفتر کے ساتھیوں کو اُردو کے نفاذ کی اہمیت سے آگاہ کریں۔

ان اُمور پر عمل کرنے سے ہمارا قدم آگے بڑھے گا۔

 ایک حدیثِ نبویؐکا مفہوم ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات سے لاتعلق رہا، وہ ہم میں سے نہیں۔ یاد رکھیے، اُردو کے نفاذ کا مسئلہ محض ایک زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک دینی، قومی، ملکی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔ خدانخواستہ ایک دو نسلوں بعد اُردو (بطور زبان) مٹ گئی، تو اس کے ذمہ دار وہ لوگ بھی ہوں گے جو نہ جاننے یا جاننے کے باوجود اپنی مصروفیات میں سے وقت نہ نکال سکے۔ کیا ہم اس اہم مسئلے کے لیے اپنے وقت کا ایک فی صد بھی نہیں نکال سکتے؟

سوال: بعض حضرات ایسی انگوٹھی استعمال کرتے ہیں، جس میں بہ طور نگینہ کوئی پتھر لگاہوتا ہے۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہوتا ہے کہ اس پتھر کے انسانی جسم پر اثرات پڑتے ہیں اور مختلف بیماریوں میں افاقہ ہوتاہے۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں کہ کیا ایسی انگوٹھی کااستعمال درست ہے؟ اور کیا ایسا عقیدہ رکھنا جائز ہے؟

جواب: انگوٹھی کا استعمال زمانۂ قدیم سے ہوتارہا ہے۔ سونے، چاندی اور دیگر دھاتوں کی انگوٹھیاں بنائی اور پہنی جاتی رہی ہیں۔ شرعی طور سے انگوٹھی پہننا مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے جائز ہے۔ ہاں، سونا (Gold)اُمتِ محمدیہؐ کے مردوں کے لیے حرام ہے۔ اس لیے سونے کی انگوٹھی پہننا ان کے لیے جائز نہیں۔ حضرت ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اُحِلَّ الذَّھَبُ وَالْحَرِیْرُ ِلِانَاثِ اُمّٰتِی وَحُرِّمَ عَلَی ذُکُوْرِھَا (نسائی: ۵۱۴۸﴾)سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لیے حلال اور مردوں کے لیے حرام ہے۔

بعض احادیث میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت سے مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع کیاہے۔ (بخاری: ۵۸۶۳، ۵۸۶۴،مسلم:۲۰۶۶﴾)

احادیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی تھی، جس سے آپ ؐمہر کاکام لیاکرتے تھے۔ اس پر ’محمدرسول اللہ‘ کندہ تھا۔یہ انگوٹھی آپ ؐکے وصال کے بعد خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرؓ ، پھر خلیفہ دوم حضرت عمرؓ، پھر خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ کے پاس رہی اور یہ حضرات اسے پہنتے رہے۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں کہیں غائب ہوگئی۔ (بخاری: ۵۸۶۶،مسلم: ۲۰۹۱﴾)

انگوٹھی کانگینہ اسی دھات سے بھی ہوسکتاہے۔ مثلاً چاندی کی انگوٹھی کا نگینہ بھی چاندی کا ہو، اور دوسری دھات کا بھی ہوسکتاہے۔ چنانچہ عقیق، یاقوت اور دیگر قیمتی حجریات بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو انگوٹھی بنوائی تھی، صحیح بخاری میں مذکورہے کہ اس کا نگینہ بھی چاندنی کاتھا (۵۸۷۰﴾) لیکن صحیح مسلم میں روایت کے الفاظ یہ ہیں: کَانَ خَاتَمُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مِنْ وَرَقٍ وَکَانَ فَصُّہ‘ حَبْشِیًّا ﴿(۲۰۹۴﴾)  ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ حبشہ کا بناہواتھا‘‘۔ اس سے اشارۃً معلوم ہوتاہے کہ وہ چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کا تھا۔

جہاں تک حجریات کی تاثیر کا معاملہ ہے تو طب کی کتابوں میں اس کا تذکرہ ملتاہے۔ مختلف حجریات کے بارے میں بتایاگیاہے کہ انھیں اپنے پاس رکھنے، گردن میں لٹکانے یا کسی اور طرح سے اس کے خارجی استعمال سے انسانی جسم پر فلاں فلاں اثرات پڑتے ہیں۔ اس کا تعلق عقیدہ سے نہیں، بلکہ تجربے سے ہے۔ اگر کسی پتھر کا خارجی استعمال طبّی اعتبار سے فائدہ مند ثابت ہو تو اسے انگوٹھی کا نگینہ بنالینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اللہ کے لیے دین کو خالص کرکے اُس کی بندگی کرنی چاہیے کیونکہ خالص اور بے آمیز اطاعت و بندگی، اللہ کا حق ہے۔ دوسرے الفاظ میں، بندگی کا مستحق کوئی دوسرا ہے ہی نہیں کہ اللہ کے ساتھ اُس کی بھی پرستش اور اُس کے احکام و قوانین کی بھی اطاعت کی جائے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کی خالص اور بے آمیز بندگی کرتا ہے تو غلط کرتا ہے اور اسی طرح اگر وہ اللہ کی بندگی کے ساتھ بندگیٔ غیر کی آمیزش کرتا ہے تو یہ بھی حق کے سراسر خلاف ہے......

دُنیا بھر کے مشرکین یہی کہتے ہیں کہ ہم دوسری ہستیوں کی عبادت اُن کو خالق سمجھتے ہوئے نہیں کرتے۔ خالق تو ہم اللہ ہی کو مانتے ہیں اور اصل معبود اسی کو سمجھتے ہیں، لیکن اس کی بارگاہ بہت اُونچی ہے جس تک ہماری رسائی بھلا کہاں ہوسکتی ہے۔ اس لیے ہم ان بزرگ ہستیوں کو ذریعہ بناتے ہیں تاکہ یہ ہماری دُعائیں اور التجائیں اللہ تک پہنچا دیں۔

اتفاق و اتحاد صرف توحید ہی میں ممکن ہے۔ شرک میں کوئی اتفاق نہیں ہوسکتا۔ دُنیا کے مشرکین کبھی اس پر متفق نہیں ہوئے ہیں کہ اللہ کے ہاں رسائی کا ذریعہ آخر کون سی ہستیاں ہیں؟ کسی کے نزدیک کچھ دیوتا اور دیویاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی سب دیوتائوں اور دیویوں پر اتفاق نہیں ہے۔ کسی کے نزدیک چاند، سورج، مریخ، مشتری اس کا ذریعہ ہیں اور وہ بھی آپس میں اس پر متفق نہیں کہ ان میں سے کس کا کیا مرتبہ ہے اور کون اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے؟ کسی کے نزدیک وفات یافتہ بزرگ ہستیاں اس کا ذریعہ ہیں اور ان کے درمیان بھی بے شمار اختلافات ہیں۔ کوئی کسی بزرگ کو مان رہا ہے اور کوئی کسی اور کو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اِن مختلف ہستیوں کے بارے میں یہ گمان نہ تو کسی علم پر مبنی ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کبھی کوئی ایسی فہرست آئی ہے کہ ’فلاں فلاں اشخاص ہمارے مقربِ خاص ہیں، لہٰذا ہم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تم ان کو ذریعہ بنائو‘۔ یہ تو ایک ایسا عقیدہ ہے، جو محض وہم اور اندھی عقیدت اور اسلاف کی بے سوچے سمجھے تقلید سے لوگوں میں پھیل گیا ہے۔ اس لیے لامحالہ اس میں اختلاف تو ہونا ہی ہے۔(’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۳، دسمبر ۱۹۶۳ء)