جہادِ اکبر اور جہادِ اصغر سے متعلق گفتگو میں‘ اکثر لوگ بحث کو غلط رخ دے دیتے ہیں۔ یہاں دو چیزوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔
۱- اس گفتگو اور بحث کا مقصد‘ ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم تزکیہ نفس کی اہمیت اور افادیت کا انکار کریں‘ اور نفس کے فتنوں کے بارے میں‘ چوکنا نہ رہیں اور نفس کے شر سے پناہ نہ مانگیں۔ البتہ یہ بات یاد رہے کہ قرآن مجید نے‘ جہاد نفس کے بجائے‘ تزکیہ نفس کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اصطلاحات کے بارے میں‘ ہمیں بہت محتاط رہنا چاہیے۔ یہ دلیل کافی نہیں ہے کہ ؎
الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
قرآن مجید کی روشنی میں انسانی نفس سرکش ہو کر الٰہ بن سکتا ہے (الفرقان ۲۵:۴۳)۔ قرآن مجید نے ہمیں ان لوگوں کی (بالخصوص ایسے حکمرانوں کی) اطاعت سے روکا ہے‘ جن کا قلب غافل ہے‘ جو خواہشاتِ نفس کے غلام ہیں اور جن کے اوامر و احکامات‘ اعتدال کی راہ سے ہٹ کر افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ (الکہف۱۸:۲۸)
۲- کافروں سے جہاد ہی‘ جہادِ اکبر ہے۔ اس جہاد کو‘ جہادِ اصغر کہنا ایک عظیم فتنہ ہے۔ ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد کے حالات میں‘ مغرب نے جس طرح‘ جہادِ اسلامی کے خلاف‘ اپنے الیکٹرونک میڈیا پر مہم شروع کر رکھی ہے اور مختلف مسلمان ممالک میں‘ اسلامی تحریکوں کا دائرہ تنگ کرنے کے لیے ہرقسم کی سازشیں روا رکھی جارہی ہیں‘ وہ کسی باخبر‘ غیرت مند مسلمان سے مخفی نہیں۔ ان حالات میں‘ ہمارے مسلمان حکمرانوں کو (حیرت ہے وہ بھی مسلمان فوجی حکمرانوں کو) ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو انھیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر‘ ضعیف اور موضوع مواد فراہم کرتے ہیں‘ تاکہ نصوصِ قطعیہ (قرآن و سنت صحیحہ) کی تخفیف اور تحقیر ہو سکے اور دین کے مسلمات اور مہمات اختلافی بن جائیں۔
اس موضوع پر‘ سب سے اچھی اور سیرحاصل بحث‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (المتوفی ۷۲۸ھ) نے کی ہے‘ جو ان کے فتاویٰ جلد ۱۱‘ صفحہ ۱۹۷ تا ۲۰۱ پر دیکھی جا سکتی ہے۔
امام ابن تیمیہؒ نے‘ دلائل نقل و عقل سے‘ ثابت کیا ہے کہ مندرجہ بالا روایت کی کوئی اصل نہیں ہے (لاَ اَصْلَ لَہٗ) اور اہل علم و دانش میں سے کسی نے بھی‘ اس کو حضورؐ کے اعمال و اقوال کے طور پر روایت نہیں کیا ہے۔ جہادِ کفار ہی‘ جہادِ اکبر ہے اور یہی اعظم اور افضل اعمال میں سے ہے۔
امام ابن تیمیہؒ کے دلائل حسب ذیل ہیں:
۱- قرآن نے واضح طور پر‘ قاعدین پر مجاہدین کی فضیلت بیان کی ہے (النساء ۴: ۹۵)
۲- جہاد‘ حاجیوں کو پانی پلانے اور خانہ کعبہ کی تعمیر سے بھی افضل ہے (التوبہ ۹:۱۹)
۳- امام صاحبؒ نے کئی احادیث نقل کی ہیں‘ جن سے جہاد کی افضلیت اور برتری ثابت ہوتی ہے۔ خوفِ طوالت سے انھیں درج نہیں کیا جا رہا ہے۔
عصرِحاضر کے عظیم محدث علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۴۲۰ھ) نے اپنے مشہور سلسلے کی جلد ۵‘ حدیث نمبر ۲۴۶۰ میں اس کی تخریج کی ہے اور اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔ الفاظ کے جزوی اختلاف کے ساتھ‘ اس کی دو سندیں ہیں‘ جس کا ذکر ملا علی قاریؒ کے حوالے سے مارچ کے ترجمان القرآن(’’مدیر کے نام‘‘)میں پہلے ہو چکا ہے۔
۱- پہلی روایت کا ذکر‘ امام بیہقی ؒاور امام شافعیؒ نے کیا ہے۔ اس کی سند کے تینوں راوی ضعیف ہیں (ابن حجر)۔ الف: عیسیٰ بن ابراہیم ؒ (البرکی)۔ یہ صدوق ہیں لیکن بسااوقات وہم کا شکار ہو جاتے ہیں‘ جو ان کے ضعف پر دلیل ہے‘ لَیْسَ بِجَیِّدٍ۔ ب: لیث ابن ابی سلیم اختلاط کی بنیاد پر ضعیف ہیں۔ ج: یحییٰ بن یعلی (الاسلمی) بھی ضعیف ہیں۔ د: البتہ بقیہ راوی ٹھیک ہیں۔
۲- خطیب بغدادیؒ نے تاریخ میں‘ جو روایت نقل کی ہے‘ اس کی سندکے تین راویوں کے متعلق تفصیلات حسب ذیل ہیں:
الف: الحسن بن ہاشم کے بارے میں‘ البانی ؒکو تفصیلات نہیں ملیں۔ یہ گمنام ہیں۔ ب: یحییٰ بن ابی العلا سے مراد‘ شاید یحییٰ بن العلا الکذاب ہے (ظن غالب یہی ہے کہ یحییٰ بن ابی العلا ہی یحییٰ بن یعلی ضعیف ہیں‘ جن کا ذکر اُوپر کی سند میں ہوا ہے)۔ ج: لیث تو ضعیف ہیں ہی‘ جن کا ذکراُوپر ہو چکا ہے۔
عظیم مفکر‘ متکلم‘ مفسر اور الجہاد فی الاسلام جیسی بے مثال کتاب کے مصنف‘ حضرت مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے‘ الحمدللہ اس روایت کو‘ ضعیف ہی قرار دیا ہے‘ صحیح تو قرار نہیں دیا جیساکہ امام بیہقی ؒوغیرہ نے کہا ہے‘ اس میں کیا اشکال ہے؟ کیا مولانا مودودیؒ مرحوم نے‘ اس ضعیف روایت سے‘ (جس کو بعض علما نے باطل اور بعض علما نے منکر اور بعض علما نے لاَ اَصْلَ لَہٗ کہا ہے) وہ مطلب نکالا ہے‘ جو آج ہمارے بعض فوجی حکمران‘ مغرب کی جنگی قوت اور طاغوتی بالادستی سے مرعوب ہو کر‘ نکال رہے ہیں؟
ایک ایسی ضعیف سند پر مشتمل روایت کی بنیاد پر‘ قرآن و سنت کے محکم نصوص و دلائل کو نظرانداز کر کے‘ افضل چیز کی تحقیر اور تخفیف کرنا‘ دین کے بنیادی مزاج میں تحریف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے اور مسلم حکمرانوں اور بالخصوص فوجی افسران کو‘ قرآن اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں‘ جہادکے صحیح تصور کو سمجھنے اور اس پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس حدیث کو مولانا مودودیؒ نے وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ط (الحج ۲۲:۷۸) کے تحت متن کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے معارف القرآن میں اسی آیت کے تحت متن کے ساتھ حدیث بیان کی ہے اور امام بیہقی ؒکا حوالہ دیا ہے‘ نیز یہ بھی لکھا ہے کہ امام بیہقی ؒ نے فرمایا ہے کہ اس حدیث میں ضعف ہے۔کنز العمال میںمتذکرہ حدیث دو جگہ بیان ہوئی ہے: حدیث نمبر ۱۱۲۶۰ و نمبر ۱۱۷۷۹۔ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ البغداد میں ۵۲۳‘ ۵۲۴‘ ج ۱۳ پر نقل کی ہے۔ امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطی ؒنے الدرر المنتثرہ میں اسے درج فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ تفسیرکشاف زمخشریؒ، تفسیر الکبیر امام الفخر الرازی‘ اور تفسیر بیضاویمیں بھی اس حدیث کو درج کیا گیا ہے۔ اسے باطل قرار دینا مناسب نہیں۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے تفہیم القرآن‘ جلد سوم میں یہ حدیث یقینا نقل کی ہے مگر اس کے استنادی پہلو پر کچھ بھی نہیں کہا بلکہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد یہ لکھا ہے کہ’’ اس کے بعد جہاد کا وسیع تر میدان پوری دنیا ہے‘ جس میں کام کرنے والی تمام بغاوت کیش اور بغاوت آموز اور بغاوت انگیز طاقتوں کے خلاف دل اور دماغ اور جسم اور مال کی ساری قوتوں کے ساتھ سعی و جہد کرنا وہ حق جہاد ہے جسے ادا کرنے کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے‘‘ (ص ۲۵۴)۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے جس مفہوم میں اس حدیث کا ذکرکیا تھا مولانا مودودیؒ کی مذکورہ وضاحت اس فلسفے کی نفی کرتی ہے۔