سوال: میں ایک عام سی لڑکی ہوں البتہ اللہ سے قرب کی خواہش رکھتی ہوں۔ مجھے گناہ پر ندامت ہوتی ہے لیکن تقویٰ پر عمل کی کوشش کے باوجود نہ چاہتے ہوئے بھی مجھ سے گناہ یا خداکی نافرمانی ہو جاتی ہے‘ تاہم احساسِ ندامت پر پھر پلٹنے کی کوشش ضرور کرتی ہوں۔ مجھے اطمینان نہیں ہے اور راہ خدا میں استقامت سے محروم ہوں۔ مجھے خدشہ ہے کہ اللہ مجھ سے ناراض ہے۔ جو گر کر سنبھل جائے اس سے تو اللہ راضی ہو جاتا ہے لیکن جو بار بار گرے‘ اس کے لیے نجات کہاں ہے۔ البتہ میں بچنے اور سنبھلنے کی کوشش ضرور کرتی ہوں۔ کوئی ایسا شارٹ کٹ چاہتی ہوں کہ اللہ کے ہاں نجات کی ضمانت مل جائے۔ جہاد بالنفس مشکل امر ہے۔ آخر افغانستان یا کشمیر میں جہاد بالسیف کر کے شہید ہو کر میں رب کی یقینی رضا کیوں حاصل نہیں کر سکتی؟ صرف اس لیے کہ میرا قصور یہ ہے کہ میں ایک لڑکی ہوں۔ میں مایوسی کا شکار ہوتی جا رہی ہوں۔ مجھے کوئی ایسا آسان راستہ‘ طریقہ اور عمل بتایئے کہ میں اپنے رب کا قرب حاصل کر لوں۔ مجھے خدشہ ہے کہ میں تصوف یا رہبانیت کی راہ پر نہ چل نکلوں۔ میری رہنمائی کیجیے۔
جواب: آپ اگر یہاں سے سوچنا شروع کریں کہ اللہ سے قریب ہونے کا وہ راستہ کیا ہے جو خود اللہ نے بتایا ہے تو اُمید ہے کہ آپ کی اُلجھنیں دُور ہو سکیں گی اور اللہ تعالیٰ آپ کو اطمینان بخش دے گا۔ اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے وہ آپ سے کیا چاہتا ہے: اس سے قریب ہونے کی خواہش (اور ارادہ)‘ اور اس مقصد کے لیے بحد استطاعت و اختیار کوشش (اور عمل)۔ اس آرزو اورجستجو‘ خواہش اور کوشش کی نذر جو زندگی ہو جائے ‘ وہی اس کے نزدیک مقبول ہے‘ وہی اس کو مطلوب ہے۔
کیا کوشش اور عمل مطلوب ہے؟
اول‘ جب اس کا قرب مطلوب ہے تو ہر کام اسی کے لیے کرنا‘ اس کی رضا پر نگاہ جما کے رکھنا‘ اپنے ارادے اور اختیارسے کسی اور محبوب کو مقصود نہ بنانا۔ ارادے کے بغیر‘ اختیار سے باہر‘ وسوسوں کی وجہ سے‘ آمیزش ہو جائے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں‘ اگرچہ احساسِ ندامت ہونا چاہیے۔ ارادے اور اختیار سے ہوجائے‘ تو بھی استغفار سے ہر داغ دھل جاتا ہے۔ بس ندامت و خطاکاری کے آنسو ہوں‘ رحمت و مغفرت کی طمع ہو‘ پکڑ کا خوف ہو‘ آیندہ نہ کرنے کا شعوری عزم ہو۔ خواہ سو مرتبہ ہو‘ ہر مرتبہ اس کی آغوش رحمت کھلی ہو گی۔
دوسرے‘ جو اس نے کرنے کو کہا ہے وہ حسب استطاعت کرنے میں لگے رہنا‘ یعنی اطاعت اور عمل۔
تیسرے‘ جو نہ کرنا چاہیے وہ کر بیٹھو‘ جو کرنا چاہیے وہ نہ کرو‘ یعنی گناہ و خطا ہو جائے تو نادم و شرم سار ہو کر اسی کے در پر آکر ہاتھ پھیلا دینا‘ اور رو رو کے گڑگڑا کر معافی مانگنا‘ یعنی توبہ اور استغفار۔
چوتھے‘ اس سے اُمید کامل رکھنا کہ وہ ہاتھ پکڑ لے گا‘ جھاڑ پونچھ کر‘ اٹھا کر اپنی آغوش رحمت میں سمیٹ لے گا‘ راہ پر رکھے گا۔ یہ اس کا وعدہ ہے۔ وہ خود ہی تو پکارتا ہے کہ آئو‘ مجھ سے اپنے گناہ بخشوائو! ہے کوئی جو استغفار کرے اور میں اس کے گناہ بخش دوں!
دیکھو‘ کتنا آسان اور صاف سیدھا راستہ ہے! مشکلات اور الجھنیں اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ ہم خود مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ ہم اپنے خودساختہ طریقوں کو قرب حاصل کرنے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ جب خود اپنے معیارات پر پورے نہیں اُترتے تو ہم ہمت ہارنے لگتے ہیں‘ چلنا ناممکن نظر آنے لگتا ہے‘ زندگی بار بن جاتی ہے اور یاس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جو اس نے آسان بنایا تھا‘ اسے ہم مشکل بناتے ہیں۔ اس سے منع کیا گیا ہے۔ غلو اور تشدد میں نہ پڑیں‘ آپ تھک جائیں گی مگر اللہ نہ تھکے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدھا رکھو‘ کوشش میں لگے رہو‘ بس اتنا ہی مطلوب ہے۔ اس پر سب موعود ہے۔ مسلمان ہونا تو بہت آسان ہے۔
قرب کی راہ میں مایوسی اور پست ہمتی تو کینسر کی طرح کے مرض ہیں‘ لیکن قابل علاج۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اُولٰٓئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ ط (اہل ایمان اللہ کی رحمت کی اُمید رکھتے ہیں۔ البقرہ۲:۲۱۸) اور وَلاَتَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِط (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یوسف ۱۲:۸۷)‘ اور وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلاَّ الضَّآلُّوْنَ o (اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ الحجر ۱۵:۵۶)
قرب اور قرب کے راستے کے خودساختہ تصورات کیا ہیں جو پتھر بن کر سدّراہ ہو جاتے ہیں؟ قرب اس دنیا میں کسی کیفیت کا نام نہیں‘ کیفیت کی کوشش مطلوب ہے‘ خودکیفیت مطلوب نہیں۔ اس لیے کہ کیفیت آپ کے اختیار میں نہیں اور اللہ تعالیٰ نے کسی ایسی شے کو مطلوب قرار نہیں دیا جو انسان کے دائرۂ اختیار سے باہر ہو۔ کسی گناہ کا دوبارہ نہ ہونا بھی علامت قرب نہیں۔ اس طرح دوبارہ ہونا عدمِ استقامت اور ناراضی رب کی علامت نہیں ہے۔ جو صحیح راستے پر ہے‘ رخ صحیح ہے‘ کوشش میں لگا ہوا ہے‘ جو دن میں ہزارگناہ کرے لیکن ہر بار استغفار کی توفیق ملتی رہے‘ وہ قرب الٰہی کے راستے پر ہے۔
یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ ایک دفعہ گرنے والا سنبھل سکتا ہے‘ ہزار بار گرنے والے کا سنبھلنا ناممکن ہے۔ اس غفور و رحیم کی شان میں یہ خیال کیسے کیا جا سکتا ہے‘ جو کہتا ہے کہ ’’وہ تم کو مغفرت کی طرف پکارتا ہے‘ وہ سارے گناہ معاف کردے گا‘ اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘ اگر آسمان تک اور زمین بھر گناہ لائو گے تو اس سے اونچی اور وسیع مغفرت تمھارے استقبال کے لیے تیار ہے!‘‘ ایسا سمجھنا تو خدا کی لامحدود رحمت و مغفرت کو ہزار بار گرنے والے کے گرنے سے عاجز ہو جانا تصور کرنا ہے۔ کیا اس کی رحمت و مغفرت اتنی بھی وسیع نہیں کہ ایک ہی گناہ انسان ہزار بار کرے اور ہر بار اسے تکلیف ہو اور وہ پلٹ کر آئے اور وہ اسے اپنے اندر نہ سمیٹ سکتی ہو۔ آپ کم سے کم مشکوٰۃ میں توبہ اور استغفار کا باب ضرور دیکھ لیں اور قرآن مجید میں مغفرت کے عنوان پر جو آیات ہیں ان پر غور کریں۔
گرتے پڑتے چلنے سے کس انسان کو مفر ہوسکتا ہے؟ اگراللہ تعالیٰ کو گناہوں سے پاک زندگی مطلوب ہوتی تو فرشتے پہلے ہی موجود تھے۔ اس کو تو وہ مخلوق مطلوب تھی جو ظلم و جہل میں پڑ سکتی ہو اور نہ پڑے ‘ اور اگر پڑجائے تو لوٹ آئے۔ اس کو بار بار آنے والے (اوّاب)‘ آہ آہ کرنے والے (اوّاہ)‘ لوٹنے والے (منیب) مطلوب ہیں۔ انھی سے جنت‘ رضا اور قرب کا وعدہ ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ تم گناہ نہ کرتے تو اللہ دوسری مخلوق پیدا کرتا جو گناہ کرنے کی استعداد رکھتی‘ گناہ کرتی‘ استغفارکرتی اور جنت کی مستحق بنتی۔ اگر گناہ گار اور منیب انسان نہ ہوتا تو جنت تو راہ تکتی رہ جاتی‘ خالی رہتی‘ اس لیے کہ وہ فرشتوں کے لیے نہیں بنائی گئی۔
کوشش کے بارے میں آپ کو یہ بات بھی جاننا چاہیے کہ جس کو اللہ نے جہاں رکھ دیاہے‘ جو کام سپرد کر دیا ہے‘ جو مواقع عنایت فرما دیے ہیں‘ انھی کو اخلاص و احسان کے ساتھ بجالاتے رہنا ہی جنت اور قرب کی راہ ہے۔ خود سے اپنے اوپر اعمال کا بوجھ لاد لینا‘ کسی خاص عمل پر نجات کو منحصرسمجھنا بھی صحیح نہیں۔ جنت اور قرب کا انحصار جب اعمال پر نہیں‘ بلکہ رحمت پرہے جس کو اعمال متوجہ کرتے ہیں‘ تو شہادت جیسے کسی عمل کو نجات کے لیے کافی سمجھ لینا کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔ کتنے غازی اور شہید ہیں جو عدم اخلاص کی وجہ سے ‘ عدم صبر کی وجہ سے (جیسے یہ کہ مصائب سے تنگ آکر خودکشی کرلی) جہنم میں چلے جائیں گے اورکتنے مجاہدین کی راہ میں آنکھیں بچھانے والے‘ صبح شام شہادت کی تمنا و دعا کرنے والے‘ مجاہدین کا سامان تیار کرنے والے‘ تیرانداز کے لیے تیر بنانے والے اور ہاتھ میں تھمانے والے جنت میں چلے جائیں گے۔ اگر جنت میں جانے کے لیے افغانستان اور فلسطین کے محاذ ہی درکار ہوتے تو سب انسان کیسے جنت میں جا سکتے تھے۔ جو محاذ اللہ تعالیٰ نے اس وقت آپ کے سپرد کر رکھا ہے اسی پر جان لگا کر کام پورا کریں۔ یہی جنت کی راہ ہے۔ پتا نہیں محاذ جنگ پر کیا پیش آئے ۔ اسی لیے ہمیں تو اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ یہ آرزو کریں کہ حضورؐ کے زمانے میں ہوتے۔ اس طرح کی سوچ اللہ کے فیصلے پر عدم رضا ہے۔ اُس زمانے میں تو ابولہب اور عبداللہ بن ابی بھی تھے‘ پتا نہیں ہم کہاں ہوتے۔
اطمینان بھی فی نفسہ مطلوب نہیں‘ ایمان اور عمل مطلوب ہیں۔ اپنے کسی عمل پر یہ اطمینان کہ اب ہم جنت میں چلے جائیں گے‘ بہت مہلک ہے۔ جو مطلوب حالت ہے وہ تو یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا (اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں۔ السجدہ ۳۲:۱۶)کی حالت ہے۔
اللہ جس راہ سے آپ کو جنت میں پہنچانا چاہتا ہے‘ اس سے غیر مطمئن ہو کر کوئی دوسری راہ کیوں تلاش کرتی ہیں؟ ہر معاملہ اس پر چھوڑنے میں اطمینان ہے۔ اس نے آپ پر اتنے خصوصی انعامات کیے ہیں کہ ان کاشکر ادا کرنا آپ کے بس میں نہیں۔ اس نے آپ کو اپنے قرب کی خواہش عطا کی ہے‘ یہ ایک ایسی بے بہا نعمت ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ اس نے آپ کو اپنے قرب کے راستے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے‘ یہ خود کچھ کم قیمت نہیں‘مگر اس نے تو آپ کو اس راہ پر قدم بڑھانے کی توفیق بھی عنایت کی ہے۔ یہی نہیں‘ بلکہ جب آپ سے خطا ہو جائے تو اس پر تکلیف اور ندامت اور واپس پلٹنے کی دولت بھی دی ہے اور سب سے بڑھ کر ‘ جس کے آگے سب نادار‘ محتاج اور فقیر ہیں‘ اس کے آگے اعمال کے لحاظ سے اپنی کم مایگی اور ناداری کا احساس بھی دیا ہے۔ ان سب باتوں کا آپ نے خود اقرار کیا ہے۔ آپ کو تو خوشی سے بھر جانا چاہیے‘ نہ یہ کہ بے چینی اور اضطراب‘ مایوسی اور کم حوصلگی کا شکار ہوجائیں۔ ایسی زندگی جس میں آپ بار بار اپنے محبوب کی طرف پلٹ کر آئیں بڑی لذیذ ہونا چاہیے‘ نہ یہ کہ آپ کے لیے یہ بار بن جائے۔ جو شکر کریں وہی مزید پاتے ہیں۔ یہ سب پاکر آپ زندگی سے فرار کا کیوں سوچیں۔ جب ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو طریق نبوت عطا کر دیا ہے‘ تو طریق تصوف اور رہبانیت پر کیوں جائیں۔
اُمید ہے کہ میری یہ چند باتیں آپ کے لیے کچھ مفید ثابت ہوں گی۔ (خرم مراد‘ ۱۹۹۲ء)
س : شادی سے قبل میری بیوی ہسپتال میں نرس تھی۔ نکاح کے وقت یہ بات طے پائی تھی کہ شادی کے بعد نوکری کروانا یا نہ کروانا میری مرضی ہوگی۔ شادی کے بعد میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ میرا ڈپلومہ مکمل ہونے میں سات ماہ لگیںگے۔ آپ مجھے نوکری کرنے دیں پھر میں چھوڑ دوںگی۔ اسی دوران میری والدہ کا انتقال ہو گیا۔ کچھ عرصے کے بعد میری بیوی نے پھر نوکری کرنے کے لیے کہا تو میں نے سمجھایا کہ بوڑھے والد‘ چھوٹے بہن بھائیوں کو توجہ کی ضرورت ہے ‘ اس لیے نوکری کرنا مناسب نہیں۔ اس پر وہ ناراض ہو کر لاہور اپنے میکے چلی گئی اور ایک ہسپتال میں جا کر نوکری شروع کر دی۔
کچھ عرصے بعد میں نے سسرال والوں سے رابطہ کیا اورمسئلے کے حل کی کوشش کی لیکن انھوں نے کوئی تعاون نہ کیا۔ میں نے اپنی بیوی سے بات کی مگروہ بضد تھی کہ اسے نوکری کرنی ہے‘ چاہے میں اسے طلاق دے دوں۔
میرا ایک بیٹا بھی ہے۔ بوڑھے والد اور چھوٹے بہن بھائیوں کی بھی مجھ پر ذمہ داری ہے اور ان کے بھی حقوق ہیں۔ بیوی کو چھوڑتا ہوں تو بچے کا مستقبل اور گھر کے تباہ ہونے کا خیال آتا ہے لاہور جانا بھی محال ہے۔ میں اپنی بیوی کی تمام ضروریات بھی پوری کرتا رہا ہوں لیکن وہ نوکری چھوڑنے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں۔ اس الجھن کا قرآن و سنت کی روشنی میں کوئی حل بتایئے تاکہ مسئلہ حل ہو سکے۔
ج: آپ کے خط سے اس توثیق میں مزید اضافہ ہوا کہ ہم ایک ایسے معاشرتی بحران کا شکار ہو چکے ہیں جس کا ہمیں اب بھی پوری طرح احساس نہیں ہے۔ گھر اور خاندان اسلام کا وہ امتیازی ادارہ ہے جو ایمان‘ عفت و عصمت‘اخلاق اور معاملات کی پہلی درس گاہ اور تجربہ گاہ ہے۔ اسی بنا پر شیطان کی ذریت جب اسے بتاتی ہے کہ انھوں نے کسی گھر میں تفرقہ ڈلوا دیا تو وہ اس کام کو تمام خرابیوں سے زیادہ اہم سمجھتے ہوئے اپنی ذریت کو شاباش دیتا ہے۔
آپ نے جو حالات لکھے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح سے قبل آپ نے اپنی اہلیہ کے گھر والوں سے ان کی ملازمت کے سلسلے میں واضح طور پر بات کر لی تھی اور ان کو اس کا پاس کرنا چاہیے۔ خود آپ کی اہلیہ کا بھی فرض ہے کہ وہ پروفیشن کو خاندان پر اہمیت نہ دیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے افراد نے یہ سمجھ لیا ہے کہ گھر میں اچھا ماحول کا پیداکرنا‘ اور اولاد کی صحیح تربیت کرنا ایک کم تر جہاد ہے‘ جب کہ کسی ہسپتال یا دفتر میں کام کرنا جہاد اکبر ہے۔ اس کی کوئی بنیاد دین میں نہیں ہے۔ اگر ایک خاتون‘ اپنی بنیادی ذمہ داری‘ یعنی تربیت و تعلیم اولاد کے ساتھ اتنا وقت نکال سکتی ہے کہ وہ کوئی رفاہی یا فنی کام کر سکے تو دین میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن بنیادی ذمہ داری کو نظرانداز کرکے محض حقوقِ نسواں کا جھنڈا ہاتھ میں لے کر اپنے گھر کو تباہ کر دینا انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ آپ کے سسرال والے اگر آپ سے تعاون پر آمادہ نہیں ہیں تو آپ خود اپنی اہلیہ کو محبت و نرمی سے سمجھائیں کہ جو کچھ وہ کر رہی ہیں‘ اس میں خاندان کی بربادی کے لیے کتنا خطرہ ہے۔
آپ کے بوڑھے والد اور چھوٹے بھائی بہنوں کا آپ پر اتنا ہی حق ہے جتنا آپ کی اہلیہ اور بچے کا۔ اس لیے دونوں میں توازن ضروری ہوگا۔ اگر گھر والوں کو چھوڑ کر لاہور جانے سے حالات بہتر ہونے کی زیادہ اُمید ہو تو آپ والد صاحب اور بھائی بہنوں کو اعتماد میں لے کر اور ان کی دیکھ بھال کا بندوبست کر کے‘ یا ان کے ہمراہ لاہور جانے پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کی اہلیہ کام کرنے پر بہت زیادہ مصر ہوں تو وہ آپ کے شہر میں کسی اچھے ہسپتال میں بھی کام کر سکتی ہیں تاکہ بچے اور آپ کے قریب ہوں۔
دراصل یہ سارے معاملات باہمی افہام و تفہیم اور اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی خوشی کو سامنے رکھتے ہوئے باہمی تبادلۂ خیال سے طے کرنے کے ہیں‘ اس میں کوئی ایسا فقہی نسخہ میرے علم میں نہیں کہ اسے استعمال کرتے ہی تمام معاملات حل ہو جائیں۔ قرآن و سنت یہی بتاتے ہیں کہ اختلاف کی شکل میں خود عدل کے ساتھ معاملات پر غور کیا جائے‘ گھر کے بزرگ افراد کو حکم بنا کر مسئلے کا حل نکالا جائے‘ اور آخرکار قانونی امداد سے کوئی صورت نکالی جائے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)