صہیونی وزیراعظم آریل شارون نے ۱۹۵۶ء میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا ’’میں نے اس خطے میں پیدا ہونے والے ہرفلسطینی بچے کو جلا کر راکھ کر دینے کا عہد کیا ہے۔ یہ بچے اور عورتیں ہمارے لیے زیادہ خطرہ ہیں کیونکہ ان کے باقی رہنے کا مطلب آیندہ فلسطینی نسلوں کا تسلسل ہے۔ فلسطین کرانیکل نامی رسالے نے اپنے تازہ شمارے میں ۴۵ سال پرانے جس انٹرویو کا اعادہ کیا ہے اس سے شارونی ذہنیت اور ارادوں کی تصویر واضح دکھائی دیتی ہے۔ اس نے مزید کہا تھا ’’خواہ مجھے ہر منصب کھونا پڑے اور میں ایک عام اسرائیلی شہری شمار کیا جانے لگوں‘ میرا یہ عہد ہے کہ اپنے سامنے آنے والے ہر فلسطینی کو کچل ڈالوں گا‘ اور اسے موت کی وادی میں جھونکنے سے پہلے اسے بدترین عذاب سہنے پر مجبور کروں گا۔ مجھے کسی عالمی قانون یا ضابطے کی پروا نہیں ہے۔ میں نے رفح میں ایک ہی حملے کے دوران ۷۵۰ فلسطینی قتل کیے تھے… میں چاہتا ہوں کہ اپنے فوجیوں کو فلسطینی خواتین کی عزت لوٹنے پر اُبھاروں کیونکہ وہ سب اسرائیل کے غلام ہیں۔ وہ ہم پر اپنی رائے اور اپنا ارادہ مسلط نہیں کر سکتے۔ حکم جاری کرنے کا حق صرف ہمیں حاصل ہے‘ باقی سب کو ہماری اطاعت کرنا ہے‘‘۔ ۴۵ سال کے بعد ایک بار پھر شارون قول و عمل سے اپنی اسی پالیسی کا اعلان کر رہا ہے۔ اس نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے ’’اے اسرائیلی قوم! اسرائیل حالت جنگ میں ہے… دہشت گردی کے خلاف جنگ… ہمیں ان دہشت گردوں کے خلاف بے رحم جنگ لڑنا ہے تاکہ ان وحشی فلسطینیوںکا مکمل خاتمہ ہو جائے‘ ان کا بنیادی ڈھانچہ ختم ہو جائے… ان دہشت گردوں کے ساتھ کوئی درمیانی راستہ نہیں نکل سکتا‘‘۔
شارون نے فلسطینی شہروں‘ بستیوں اور مہاجر کیمپوں میں اپنی اس درندہ ذہنیت کا جس طرح عملی مظاہرہ کیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ شہروں کے شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں‘ لاشوں کے انبار کسی دفن کرنے والے کے انتظار میں گھلنا اور پگھلنا شروع ہو گئے ہیں‘ لاتعداد عمارتوں کے مکینوں کے لیے ان کی تباہ شدہ عمارتیں ہی قبریں بن گئی ہیں‘ کوئی انھیں ملبے کے نیچے سے نکالنے والاباقی نہیں بچا۔ تباہی اس انتہا کو پہنچی ہوئی ہے کہ دسیوں ورلڈ ٹریڈ سنٹر اس کے سامنے ہیچ ہیں‘ لیکن ۱۱ ستمبر کے بعد پوری دنیا کو اپنے ساتھ کھڑا دیکھنے یا اسے دہشت گرد قرار دینے والے صدر جارج بش اپنے باغیچے میں اپنے کتے کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے ہوئے بیان دیتے ہیں کہ ’’مجھے اسرائیل کی اپنے دفاع کے لیے کی جانے والی کارروائیوں کی اہمیت و ضرورت کا بخوبی ادراک ہے‘‘۔ پھر مزید کہا: ’’پوری دنیا کے رہنمائوں کو دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ہمارا ساتھ دینا ہوگا۔ یہ بات یاسرعرفات پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب سے تین ہفتے پہلے یاسر عرفات کے لیے بہت کچھ کرنا ممکن تھا اور اب بھی بہت کچھ ممکن ہے۔ لیکن اس نے میری اُمیدوں کو خاک میں ملا دیا ہے۔ وہ دہشت گردی کو کچلنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں‘‘۔
اقوام متحدہ کی تازہ ترین قرارداد ۱۴۰۲ میں صہیونی افواج سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ رملّہ سمیت تمام فلسطینی علاقوں سے نکل جائیں اور تشدد کی تمام کارروائیاں ختم کر دیں۔ چونکہ یہ قرارداد کویت و عراق سے متعلق نہیں تھی اس لیے امریکہ نے اسے بھی سابقہ قراردادوں کی طرح ردی کا ایک ٹکڑا سمجھا اوربیان دیا : ’’اسرائیل اپنے طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق فلسطینی علاقوں سے نکلے گا اور اس نے اس ضمن میں ہمیں پوری طرح اعتماد میں لیا ہے‘‘۔ صہیونی وزیراعظم نے امریکہ کا شکریہ ادا کیے بغیر کہا: ’’امریکہ کو ہماری دفاعی ضروریات کا پورا ادراک ہے۔ البتہ ہم نے اسے یقین دلایا ہے کہ ہم یاسر عرفات کی جان کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے‘‘۔
یاسر عرفات جو گذشتہ تقریباً تین ہفتوں سے اپنے ہیڈ کوارٹرز میں محصور ہیں بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ’’یہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں یا گرفتار کرنا چاہتے ہیں یا یہاں سے بھگا دینا چاہتے ہیں لیکن میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں شہید ہوں گا‘ شہید ہوںگا‘ شہید ہوں گا‘‘۔ پھر مزید کہا کہ ’’اسرائیل کبھی امن نہیں چاہے گا۔ شارون امن کو نہیں جانتا… ہم پر یہ بات پوری طرح واضح ہو جانی چاہیے‘‘۔ جناب یاسر عرفات کو اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنے میں تقریباً ۱۵ سال لگ گئے۔ گذشتہ ۱۵ برس سے وہ صہیونی انتظامیہ کے ساتھ امن معاہدوں کے سراب کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ اوسلو معاہدے کے بعد بھی مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے۔ وائی ریور اور کیمپ ڈیوڈ ثانی سمیت کئی بار اسی بات کا اعادہ کیا گیا کہ ’’زمین کے بدلے امن‘‘ فارمولا موثر ثابت ہو رہا ہے۔ چیئرمین یاسر عرفات کو صدر یاسر عرفات کہا جانے لگا‘ انھیں امن کے نوبل انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا‘ دہشت گردی کو کچلنے کے لیے انھیں چکی کا دوسرا پاٹ کہا گیا‘ دنیا بھر میں امریکی صدر کو تعریف کے قابل کوئی شخصیت ملتی تو وہ یاسر عرفات تھے۔ لیکن انھیں کیسا یاسرعرفات مطلوب تھا؟ یاسر عرفات کے ایک مشیر نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے تھے یا تو ہم اپنی فلسطینی قوم کو جلاد بن کر خود قتل کرنا شروع کر دیں‘یا جیلر بن کر انھیں جیل میں ڈال دیں۔ لیکن ہم نے یہ کردار قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اگرچہ یاسر عرفات کے گرد بھڑکتی آگ کو وہی پتے ہوا دینے لگے ہیں جن پہ انھوں نے تکیہ کیا تھا۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یاسر عرفات انتظامیہ نے امن کے سراب اور تعریفوں کے انبار کا شکار ہو کر اپنے ہی بھائی بند کو جیل اور گولی کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کیا۔ ان موجودہ حالات میں بھی عرفات انتظامیہ کے سیکورٹی انچارج جبریل الرجوب نے حماس کے چھ مجاہدین کو اپنی جیل میں بند رکھ کر انھیں صہیونی افواج کی گولیوں کا نشانہ بننے دیا۔ یہ چھ فرشتہ صفت مجاہد آخری لمحے تک رجوب سے یہ اپیل کرتے رہے کہ یا تو وہ انھیں رہا کر دے تاکہ وہ یاسر عرفات سمیت پوری فلسطینی قوم کو تہ تیغ کرنے پر آمادہ صہیونی افواج کا مقابلہ کرسکیں اور اگر نہیں تو قید ہی میں ان کے لیے کوئی ایسا انتظام کر دے کہ اگر وہاں اسرائیلی افواج حملہ آور ہوں تو وہ اپنا دفاع کر سکیں۔ رجوب نے دونوں مطالبات نہیں مانے اور مزید چھ شہدا کا خون اپنے سر لے لیا۔
یاسر عرفات اور ان کے ساتھیوں کو گویا اب بھی کوئی یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ صہیونی انتظامیہ اور اس کی سرپرست امریکی حکومت کے دل جیتنے کی کوشش ہی سے دوام و بقا حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت تو وہی ہے جسے یہ سب بھی جانتے ہیں اور جسے قرآن کریم میں بھی تاکید کے ساتھ کہہ دیا گیا: ’’یہ یہود و نصاریٰ ہرگز تم سے راضی نہ ہوں گے یہاں تک کہ تم ان کے دین کی پیروی کرنے لگو‘‘۔
حالیہ تباہی اور صہیونی درندگی نے اُمت مسلمہ کی عمومی صورت حال پر گہرا اثر مرتب کیا ہے۔ عوام تو عوام‘ خواص تک بھی اس قیامت پرتلملا اُٹھے ہیں۔ عوام میں بیداری تو اس حد تک جا پہنچی ہے کہ متعدد عرب حکومتوں کو اپنا اقتدار بچانے کے لیے مختلف ڈرامے رچانے پڑ رہے ہیں۔ فلسطین میں برپا یہ قیامت گزشتہ قیامتوں سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ گذشتہ ادوار میں آزاد عرب ابلاغیاتی ذرائع ناپید تھے لیکن اب الجزیرہ سمیت کئی عرب سیٹلائٹ چینل موجود ہیں جو فلسطین میں وقوع پذیر ہر واقعے اور حادثے کی ۲۴گھنٹے فوری رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ عرب سربراہی کانفرنس یا اس کی سفارشات و قراردادیں ہوں یا اس کے اگلے ہی دن اسرائیلی تازہ جارحیت کا آغاز ہو‘ لاشوں کے ڈھیر ہوں یا یاسر عرفات اور مسیحی کلیسوں تک سے پانی‘ بجلی‘ غذا کا منقطع ہو جانا اور وہاں ٹینکوں ‘ توپوں‘ راکٹوں اور دیگر امریکی ہتھیاروں کے انبار ہوں‘ ہر چیز اسی لمحے دنیا بھر کے سامنے ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ صہیونی درندگی‘ امریکی سرپرستی اور عرب حکمرانوں کی بے حسی پر اس ابلاغیاتی کارکردگی کا کوئی اثر نہیں ہوا‘ لیکن عرب عوام تڑپ اٹھے ہیں۔ وہ لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اگر آج بھی فلسطینیوں کی مدد نہیں کرنا تو اربوں ڈالر کے اخراجات سے بنائی گئی عرب افواج کس مرض کی دوا ہیں؟ لندن کے ایک مظاہرے میں شریک ایک نوجوان‘ ٹی وی نمایندے کو کہنے لگا ’’ہم اپنے حکمرانوں سے کسی چیز کا تقاضا نہیں کرتے سوائے اس کے کہ خدارا ہماری جان چھوڑ دو… دولت چاہتے ہو تو جتنی چاہتے ہو اپنے ساتھ لے جائو‘ لیکن اپنے دشمن سے نمٹنے کے لیے ہمیں آگے آنے دو‘‘۔ ایک اور شریک مظاہرہ کہنے لگا: ’’ہمیںہتھیار دے دو اور ہمارے سامنے سرحدیں کھول دو‘‘۔ اور تو اور لیبیا کا صدر قذافی کہنے لگا: ’’ہمارا اسلحہ زنگ آلود ہورہا ہے‘ اسے استعمال کرنے کی نوبت کب آئے گی‘‘۔ واضح رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق صرف خلیجی ریاستوں کی امریکی اسلحے کی سالانہ خرید ۵۰ ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔
اس عوامی ردعمل میں یہ مطالبہ بھی پوری شدت سے سامنے آیا کہ اسرائیلی جارحیت رکوانے کے لیے اس کے سرپرست امریکہ پر دبائو بڑھایا جائے۔ پٹرول کا ہتھیار آخر کب کام آئے گا۔ عراق نے تو اپنی مجبوری کے عالم میں ۳۰ روز کے لیے پٹرول کی ترسیل منقطع کر دی لیکن اس کی اصل افادیت اس صورت میں سامنے آتی کہ اہم عرب اور اسلامی ممالک اس ہتھیار کواستعمال کرتے‘ لیکن بدقسمتی سے انھوں نے کہا کہ ’’پٹرول کی ترسیل روکنے کا زیادہ نقصان خود ہمیں ہوگا‘کیونکہ پیسہ ملنا بند ہو جائے گا‘‘۔
اس مفروضے کو پٹرولیم کے معروف ماہر‘ شاہ فیصل اور دیگر سعودی فرماں روائوں کے ساتھ ربع صدی تک وزیر پٹرول کی حیثیت سے ذمہ داری انجام دینے والے احمد ذکی یمانی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں غلط ثابت کیا۔ انھوں نے کہا ’’پٹرول کے ہتھیار کو استعمال کرنے کا یہ آخری موقع ہے۔ ہم اگر آج بھی یہ نہ کر سکے تو یہ ہتھیار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کند ہو کر رہ جائے گا۔ اس وقت بھی دنیا کے پٹرولیم ذخائر کا تین چوتھائی حصہ خلیج میں ہے۔ امریکہ مجبور ہوگا کہ اس قوت کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے ہم سے بات کرے‘‘۔ انھوں نے ۱۹۷۳ء کے اختتام اور ۷۴ء کے اوائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب شاہ فیصل نے یہ ہتھیار استعمال کیا تو امریکہ اس وقت بھی مجبور تھا کہ تیل کی صنعت کے لیے ضروری آلات کی ترسیل جاری رکھے اور اس نے ایسا ہی کیا‘‘۔
صہیونی مظالم کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے احمد ذکی یمانی نے کہا ’’مجھے آج اپنے عرب ہونے پر شرم اور ذلت محسوس ہوتی ہے‘ میری راتوں کی نیند اُڑ گئی ہے‘ میں اپنی زندگی کے بدترین ایام گزار رہا ہوں‘ میں فلسطینی عوام پر توڑے جانے والے مظالم کے مناظر دیکھتا ہوں تو میرا رواں رواں تڑپ اٹھتا ہے: کیا ہم واقعی ان کے بھائی ہیں؟‘‘ عرب عوام میں بیداری اور اپنے حکمرانوں سے بیزاری کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’’میں عرب عوام کو غیظ و غضب سے کھولتا ہوا دیکھتا ہوں لیکن ساتھ ہی یہ دیکھتا ہوں کہ وہ ایک وادی میں ہیں اور ہمارے حکمران دوسری وادی میں ہیں۔ حالانکہ انھیں بخوبی معلوم ہے کہ امریکی کانگریس اسرائیلی پارلیمنٹ سے زیادہ اسرائیل کی وفادار اور امریکہ میں شارون امریکی صدر بش سے زیادہ طاقت ور ہے‘‘۔
آج حکومتوں کی بے حسی‘ امریکہ کی سرپرستی اور صہیونی درندگی کی بدترین تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ لیکن اس پورے تناظر میں فلسطینی نوجوانوں اور بچوں ہی نہیں‘ فلسطینی خواتین کا ایک کردار ایسا ہے کہ حالات جتنے بھی سنگین ہوتے چلے جائیں کامیاب اسی کردار کے رکھنے والوں کو ہونا ہے کہ ان سے ان کے رب کا یہ وعدہ ہے کہ اگر تم اللہ کی نصرت کرو گے تووہ تمھاری نصرت کرے گا۔ ان فلسطینی جانبازوں کا ذکر بہت طویل نہیں ہوسکتا ہے لیکن ایک شہید محمد عودہ کی وصیت کے یہ الفاظ ہمارے اس پورے مضمون کا عنوان ہیں: ’’جب تم میری شہادت کی خبر سنو تو فخر سے اپنے سربلند کر لینا… اتنے بلند کہ آسمان کی وسعتوں کو چھونے لگوکیونکہ تمھارے بیٹے نے اللہ سے ملاقات چاہی تھی اور اللہ نے اسے اس ملاقات کا شرف عطا کردیا‘‘۔ واضح رہے کہ محمد عودہ ۲۵ سالہ صہیونی افواج کی فہرست مطلوبین میں سرفہرست تھا اور اس کی اس استشہادی کارروائی کے نتیجے میں ۲۰ سے زائد یہودی فوجی جہنم رسید ہوئے۔