مئی ۲۰۰۲

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| مئی ۲۰۰۲ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

صابر نظامی ‘ الٰہ آباد

’’مسلمان اور مغرب‘‘ (اپریل ۲۰۰۲ء) کتاب کے تعارف کے حوالے سے دو تہذیبوں کے تصادم کے سب پہلو سامنے آئے۔ جوں جوں دنیا اور عالمی طاقتیںاسلام کے سیاسی‘ معاشی اور عدالتی نظام سے متعارف ہو رہی ہیں‘ جدید تہذیب اور اسلام کا تصادم بڑھتا جا رہا ہے۔ اسلام اگر امور مملکت‘ قانون و اختیار اور عملی زندگی سے کنارہ کش ہو کر عیسائیت کی طرح ایک رسمی اور رواجی مذہب بن کر رہے تو باطل طاقتوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اگر وہ اپنے نفاذ اور اجرا کے لیے حکومت کے حصول کو لازمی قرار دے تو پھر تصادم ناگزیر ہے۔ اب مسلم حکمرانوں کو بھی پوری طاقت سے مجبور کیا جائے گا کہ وہ اسلام کے غلبے کو روکیں لیکن یہی وہ حالات ہیں جب اسلام سیلاب بن کر مضبوط بندوں میں اپنا راستہ بناتا ہے۔ اب کامیابی دُور نہیں‘ بہت قریب ہے!!

سید ہاشم رضا   ‘ بابڑہ ‘ چارسدہ

ناصر قریشی صاحب کے مضمون ’’دعوت بذریعہ میڈیا‘‘ (مارچ ۲۰۰۲ء) میں ریڈیو کے حوالے سے جو بات کہی گئی ہے‘ واقعی دل کو لگتی ہے اور خاص طور پر مولانا مودودیؒ کے اس کے بارے میں تاثرات اور رائے۔ مگرجو بات دل کو کھٹکی اور جو بہرحال قابل توجہ ہے‘ وہ ہے اس طرح کی دعوت میں خواتین کا کردار!

موصوف نے انگریزی فلموں کا حوالہ دیا ہے اور مذہبی طرز کی دو فلموں کا نام بھی لکھا ہے اور پھر آگے چل کر یہ بات بھی کی ہے کہ اس میں خواتین کی شرکت بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس ضمن میںیہ سوال اُٹھتا ہے کہ فلم میں کام کرنے کے لیے   مرد و زن کا اختلاط بہرحال لازمی ہے جو قرآنی حکم کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایک پورا خاندان دعوتی ہو اور اپنوں میں بیٹھ کر فلم بنائیں تو بھی وہ فلم دیکھنے والے اس خاندان کا حصہ نہیں ہوں گے۔ اس کا کیا ہوگا؟ تیسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی تاریخی فلم بنانا ہو‘ مثلاً فرعون کے دربار کے منظر کی عکاسی میں نیم عریاں لباس میں کنیزوں وغیرہ کا کردار کون ادا کرے گا؟ کیا یہ فحش پھیلانے کا ذریعہ نہ ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت کی رُو سے خاتون اس قسم کے کردار ادا نہیں کر سکتی اور نہ اس قسم کی فلمیں بن ہی سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں شریعت کے احکامات کے تحت جتنی گنجایش ہے ‘ اس کے مطابق ہی دعوت بذریعہ میڈیا دی جانی چاہیے۔

عامر شکیل   ‘  لاہور

فلم سازی اور اسلامی ادارے کے حوالے سے مضمون (دسمبر ۲۰۰۱ء) پڑھا۔ آج ہماری تہذیب پر مغربی یا ہندو تہذیب کے جو اثرات ہیں وہ نٹشے‘ ڈارون‘ کینزیا چانکیہ کے فلسفے پر مبنی کتب کے نہیں بلکہ ممبی اور ہالی وڈ میں بننے والی فلموں کا نتیجہ ہیں۔ دور حاضر فلم سازی اور ابلاغ کا دور ہے۔ اسے صرف غیر مسلموں تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے۔ ہالی وڈ نے عورت‘ جنس اور تشدد سے پاک ایسی فلمیں بھی بنائی ہیں جنھوں نے ریکارڈ بزنس کیا ہے۔ فلم سازی کے اس پہلو پر مزید غور کرنے اور اسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔