پروفیسر خورشید احمد | مئی ۲۰۰۲ | اشارات
جنرل پرویز مشرف نے بالآخر وہی کیا جس کا خطرہ تھا۔ بے لوثی‘ پاک دامنی‘ اقتدار طلبی سے بے اعتنائی‘ جنرل ایوب‘ جنرل یحییٰ اور جنرل ضیا الحق کے راستے سے اجتناب اور سابقہ سیاست دانوں کی روش سے نفرت کے تمام دعووں کے باوجود‘ اپنے ذاتی اقتدار کو مستحکم اور مستقل کرنے کے لیے وہ بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو ہر خودپسند اور جاہ طلب کرتا رہا ہے۔
پہلے رفیق تارڑ صاحب کو بیک بینی و دوگوش منصب صدارت سے فارغ کر کے ’’قومی مفاد‘‘ میں اس پر قبضہ کیا‘ بحیثیت سربراہ افواج اپنی مدت ملازمت میں خود ہی غیر محدود توسیع کی‘ اور پھر اپنے ہی بتائے ہوئے بحالیِجمہوریت کے نقشۂ کار سے یوٹرن (U-turn)کر کے ۵ اپریل ۲۰۰۲ء کو ریفرنڈم کا اعلان کر دیا۔ جنرل ضیا الحق کا مذاق اڑایا اور ان کے ۱۹۸۴ء کے ریفرنڈم کے سوالات اور ان کے پردے میں پانچ سالہ صدارت پر قبضے کو احمقانہ اور مضحکہ خیز قرار دیا اور پھر انھی کا اتباع کرتے ہوئے پانچ سوالوں کے شانوں پر اپنی مزید پانچ سالہ صدارت کی مسند بچھانے کا اہتمام کر ڈالا ۔
انھوں نے زعم کے ساتھ اعلان کر دیا ہے کہ ریفرنڈم ہونے سے پہلے ہی وہ ریفرنڈم جیت چکے ہیں۔ ان کو عوام کی آنکھوں میں اپنے لیے پیار اور ’’ہم خیالی‘‘ کے تالاب نظر آنے لگے ہیں جن کی پہلی قطار بھی ڈائس سے ۱۰۰ گز کے فاصلے پر رکھی جاتی ہے۔ پھر صرف یہی زعم نہیں ہے بلکہ یہ واشگاف اعلان بھی کر دیا ہے کہ اگر ریفرنڈم کا نتیجہ ان کے حق میں نہ ہوا تب بھی ان کا کرسی صدارت چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ گویا جو بات وہ پہلے فرما چکے ہیں کہ ان کا تقرر تو بلاواسطہ حکم الٰہی کا درجہ رکھتا ہے اور جس کے لیے وتعز من تشاء کے ارشاد الٰہی تک کا سہارا لینے کی جسارت وہ کر چکے ہیں‘ ریفرنڈم اسی ڈرامے کا تازہ ترین منظر ہے--- اس کے بعد یہ توقع کہ پاکستان ان کے ہاتھوں ’’مشرف بہ جمہوریت‘‘ ہو سکے گا اگر دم نہ توڑ دے تو اور کیا ہو۔ لیکن وتعز من تشاء کے ساتھ وتذل من تشاء کا قرآنی ارشاد ہر برخود غلط حکمران اور اقتدار پر قابض ہونے والے کے لیے ایک انتباہ اور کمزور انسانوں کے لیے اُمید کا پیغام ہے۔ عزت اور ذلت محض اقتدار پر براجمان ہونے اور وہاں سے ہٹا دیے جانے سے عبارت نہیں۔ مسنداقتدار پر تو اس ملک میں جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ بھی جلوہ افروز ہوئے تھے اور وہ ہی نہیں دنیا میں کون کون نہیں رہا۔ ہٹلر‘ مسولینی اور اسٹالن سے لے کرنوری السعید‘ شاہ ایران‘ حفیظ اللہ امین اور ڈاکٹر نجیب تک سب ہی اپنے اپنے وقت میں تخت حکومت پر جلوہ افروز رہے ہیں اور اسے اپنے اپنے انداز میں خود کو ’’تعز من تشاء‘‘ ہی کا مصداق سمجھتے رہے ہیں لیکن عزت اور ذلت وہ دیرپا حقیقتیں ہیں جو بالآخر اللہ کے قانون کے تحت انسانوں کو نصیب ہوتی ہیں‘ جن کی کچھ جھلکیاں تو دُنیا میں نظر آجاتی ہیں مگر ان کا اصل اظہار آخرت ہی میں ممکن ہے۔
ریفرنڈم کے دستوری جواز کا مسئلہ سپریم کورٹ میں زیرغور ہے اور عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے‘ ریفرنڈم ہوتا ہے یا نہیں‘ اور اگر ہوتا ہے تو کس سوال پر اور کس شکل میں‘ اور اگر ہو جاتا ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے‘ ان سطور کی اشاعت تک یہ سب باتیں سامنے آچکی ہوں گی‘ اس لیے ان کے بارے میں اندازے قائم کرنے کو ہم سعی لاحاصل سمجھتے ہیں۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف‘ عدالت عالیہ اور پاکستان کی قوم ‘سب ہی وقت کی کسوٹی پر پرکھے جا رہے ہیں اور ان کے بارے میں بالآخر تاریخ کا قاضی جس کا محاکمہ بڑا سچا‘ بڑا بے لاگ اور بڑا محکم ہوتا ہے اپنا فیصلہ اسی طرح ضرور دے گا جس طرح ماضی میں دیتا رہا ہے اور جس کی ایک ادنیٰ مثال پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے مسئلے پر مولوی تمیز الدین خاں کے مقدمے میں جسٹس محمد منیر کا فیصلہ تھا جسے قوم کے ضمیر اور تاریخ نے رد کر دیا اور بالآخر خود جسٹس محمد منیر کے مجرم ضمیر کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ وہ فیصلہ دستور‘ قانون اور اصولِ عدل پر مبنی نہ تھا بلکہ ایک سیاسی فیصلہ تھا اور جس کی سزا پوری پاکستانی قوم گذشتہ ۴۸برسوں سے بھگت رہی ہے۔ اس مقدمے میں مولوی تمیزالدین خاں کے وکیل نے عدالت کو خطاب کرتے ہوئے ایک تاریخی جملہ ادا کیا تھا کہ ’’آج ۱۹۳۵ء کے قانون کی تعبیر کرتے ہوئے آپ جو فیصلہ بھی کریں گے اس کے اثرات صرف اس مقدمے تک محدود نہیں ہوںگے بلکہ آنے والی نسلیں اس سے متاثر ہوں گی‘‘۔
اس فیصلے سے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا جن بوتل سے نکلا جس نے پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ اور ۱۹۵۶ء‘ ۱۹۶۲ اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ جمہوریت کے ارتقا کے سارے عمل کو درہم برہم کر دیا‘ قوم کو بانٹ کر رکھ دیا اور ریاست کے بنیادی اداروں مقننہ‘ انتظامیہ‘ عدلیہ‘ اورفوج کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا اور جسٹس محمد منیر کو پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک مجرم کردار بنا کر رکھ دیا--- آج بھی قوم ایک ایسے ہی نازک مقام پر کھڑی ہے۔ اس لیے ہم اپنی بحث کا مرکز ان بنیادی سوالات کو بنانا چاہتے ہیں جن پر ملک اور قوم کے مستقبل کا انحصار ہے--- اور جن کے صحیح یاغلط جواب پر کارفرما شخصیات کے لیے عزت اور ذلت کا فیصلہ تاریخ کا قاضی ایک دن ضرور دے گا۔
بظاہر ریفرنڈم کا انعقاد ’’پالیسیوں کے تسلسل‘‘ کے نام پر کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے جنرل پرویز مشرف اپنی صدارت کو ناگزیر ضرورت کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ہماری نگاہ میں خرابی کی اصل جڑ یہی ذہنیت ہے۔ تسلسل ایک اچھی چیز صرف اس وقت ہے جب وہ خیر‘ حق اور انصاف کا تسلسل ہو۔ یہ تسلسل بھی افراد پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ اداروں‘ نظامِ کار اور جان دار عمل (process)کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنت اور بدعت کی کش مکش میں سنت مبنی بر خیر ہونے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تواترکے ذریعے جاری و ساری رہتی ہے اور بدعت کا مقابلہ اور قلع قمع کرتی رہتی ہے۔ جمہوریت اور آمریت میں یہی فرق ہے کہ جمہوریت میں دستور‘ قانون اور اداروں کے ذریعے تسلسل کو دوام بخشا جاتا ہے۔ افراد بھی جماعت اور اداروں کے ذریعے اس تسلسل کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ اقتدار کے اعلیٰ مقامات پر کارفرما ہونے والے افراد کے لیے تومدت کی تحدید بھی کر دی جاتی ہے تاکہ افراد بدلتے رہیں لیکن تسلسل منقطع نہ ہو۔ آمریت میں استحکام کا انحصار ایک فرد پر ہوتاہے اور یہی صورت بادشاہت کے نظام میں ہوتی ہے۔ لیکن جمہوریت میں سیاسی قیادت ہی نہیں بلکہ اعلیٰ انتظامی اور عسکری مقامات کے لیے بھی افرادِ کار کے لیے متعین مدت (tenure)مقرر کر کے تسلسل کو افراد نہیں ادارے اورپروسیس کا رہین منت بنایا گیا ہے۔ فرانس کے اس وزیراعظم سے جس کی قیادت میں پہلی جنگ عظیم میں فرانس کو فتح ہوئی تھی جب یہ کہا گیا کہ آپ فرانس کے لیے ناگزیر ہیں تواس نے فوراً یہ کہہ کر کہ ’’قبرستان بہت سے ناگزیر افراد سے بھرا پڑا ہے‘‘ جمہوریت کی روح‘ اور تاریخ کے اہم سبق کی نشان دہی کر دی تھی۔ پاکستان کا المیہ ہی یہ ہے کہ یہاں ہر اس شخص نے جسے فوجی قوت یا عوامی تائید سے اقتدار نصیب ہوا‘ پالیسی کے تسلسل اوراستحکام کو اپنی ذات سے وابستہ کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں ادارے مضبوط نہ ہو سکے اور فرد کے ہٹتے ہی اس کے بنائے ہوئے سارے بظاہر مضبوط قلعے زمین بوس ہوگئے۔
اگر کسی پالیسی کو تسلسل حاصل ہو سکتا ہے تو وہ مبنی برحق ہونے کی بنیاد پر‘ اور پالیسی اور پالیسی سازوں کی سندِ جواز اور اداراتی استحکام سے حاصل ہو سکتا ہے‘ محض کسی بھی حکمران یا اس کے حواریوں کے برخود غلط زعم کی بنیاد پر کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ لیکن اقتدار ایک ایسا دھوکا اور طلسم ہے کہ اس کے زیراثر اکثر لوگ ان حقائق کو بھول جاتے ہیں۔ ہفت روزہ اکانومسٹ نے جنرل مشرف کے ریفرنڈم کے راستے کو اختیار کرنے پر جو انتباہ کیا ہے وہ ایک آئینہ ہے جس میں جنرل صاحب اور ان کے رفقا کو اپنا حال اور مستقبل دیکھ لینا چاہیے۔ چند اقتباسات:
کسی کو بھی پاکستانی کابینہ کے اس متفقہ فیصلے پر حیرت نہیں ہوئی کہ ریفرنڈم کا انعقاد کیا جائے اور اس کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کی آیندہ پانچ سال کے لیے صدارت کے اُس منصب پر توثیق ہو جس پر انھوں نے خود ہی گذشتہ جون میں اپنا تقررکیا تھا۔
اس حقیقت نے کہ پاکستان کے دستور کے تحت صدر کو قومی اور چار صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے حلقے سے منتخب ہونا چاہیے‘ نہ کہ ہاں یا نہ والے ریفرنڈم کے راستے سے‘ جنرل اور اس کی اپنی چنی ہوئی کابینہ کو کسی تردد میں نہیں ڈالا۔ ایک آمر مطلق کی حیثیت سے اس نے ماضی میں بھی دستوری ترامیم کیں اور اگر ضرورت ہوئی تو یقینا آیندہ بھی کرے گا۔
جنرل اپنی فتح کو یقینی سمجھتا ہے۔ تاریخ سے ایک یاد دہانی مفید مطلب ہے۔ ۱۹۸۴ء میں ایک دوسرے فوجی غاصب جنرل ضیا الحق نے اپنے کو صدر کے عہدے پر فائز کرنے کے لیے ریفرنڈم کا راستہ اختیار کیا تھا۔
جنرل مشرف نے اپنے حربے خود تیار کیے ہیں۔ ان کاارادہ ہے کہ اس سوال کی ایک تمہید تیار کریں کہ ووٹر ان کو پانچ سال کے لیے صدر رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس میں حکومت کے اب تک کے کارناموں کی فہرست شامل ہوگی‘ بشمول ان کے اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کا پروگرام جس کے تحت حال ہی میں بلدیاتی حکومت کی مختلف سطحوں کے ۲ لاکھ ناظموں کا جوش و خروش سے انتخاب کیا گیا ہے۔ اب وہ دکھاوے کے جواز کے ساتھ صدر ہو سکتے ہیں اور پھر پارلیمانی انتخابات سے پہلے دستور میں ترمیم کر سکتے ہیں تاکہ آیندہ پارلیمنٹ اور منتخب وزیراعظم کے اوپر بالادست رہ سکیں۔
یہ ہوشیاری سے تیار کردہ ایک منصوبہ ہے مگر ایسے ہی منصوبے ۱۹۶۰ء میں جنرل ایوب خان اور ۱۹۸۴ء میں جنرل ضیا کے تھے۔ دونوں نے امریکہ کی منظوری سے ایک عشرے سے زیادہ حکومت کی لیکن کسی نے بھی عوام کی نظروں میں حقیقی جواز حاصل نہیں کیا اور دونوں کو رخصت ہونے کے بعد حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھا گیا۔ انھوں نے پاکستان پر بغیر کسی دستوری استحقاق کے فریب دہی سے جو سیاسی نظام مسلط کیے تھے وہ ان کے جانے کے بعد باقی نہ رہے ۔ (اکانومسٹ‘ ۶اپریل ۲۰۰۲ء‘ ص ۶۱-۶۶)
تسلسل کی دلیل سے زیادہ بودی دلیل ممکن نہیں۔ یہ محض ایک دکھاوا اور بہروپ ہے جس کی آڑ میں ذاتی اقتدار اور ارتکازِ قوت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے لیکن آج کے کھلاڑیوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ جس طرح ماضی میں ایسے نقاب کبھی حقیقت کو چھپا نہیں سکے اسی طرح آج بھی نہ چھپا سکیں گے۔ جنرل صاحب کا ایک مداح اور ان کے سیکولر اور موڈرن وژن کا ان سے بھی بڑا علم بردار ہفت روزہ دی فرائی ڈے ٹائمز ان کے اس شاہکار میں ان کی کیا تصویر دیکھ رہا ہے:
مسئلہ ان کے ریفرنڈم کے منصوبوں سے شروع ہوا۔ یہ اس وقت مزید بگڑ گیا جب پریس نے ان کے جلسوں میں ہجوم کو کرائے پر لانے کے لیے سرکاری وسائل کے استعمال پر تنقید کی۔ یہ قدرتی نتیجہ تھا ان کے ایک صاف اور سچے سپاہی سے موقع پرست سیاست دان میں تبدیل ہونے کا‘ جس کے نتیجے میں ان کا صاف ستھرا دامن گندے سیاست دانوں سے لازماً آلودہ ہوگا جنھیں انھوں نے حال ہی میں گلے لگایا ہے۔ (دی فرائیڈے ٹائمز‘بحوالہ ایشین ایج‘ لندن‘ ۲۲ اپریل ۲۰۰۲ء)
دوست اور مخالف‘ ملکی اور غیر ملکی پریس‘ تجزیہ نگار اور کالم نویس سب جنرل صاحب کے اس نئے روپ اور کاروبارِ ریفرنڈم پر ششدر ہیں۔ ایک بزرگ اور قابل احترام صحافی‘ جو جنرل صاحب کو پانچ نہیں ۱۰سال ’’عشرہ مشرف‘‘ کے نام پر دینے کو تیار تھے‘ ریفرنڈم کے کرتبوں (antics) پر نوحہ کناں ہیںکہ ’’حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘ (جنگ‘ ۱۱ اپریل ۲۰۰۲ء)
اندرون خانہ تیاریاں خواہ جو بھی ہوں جنرل پرویز مشرف کا اقتدار ایک اتفاقی حادثے کا مرہون منّت ہے۔ان کا اپنا بیان ہے کہ اگر نواز شریف صاحب نے ان کی برطرفی کا بھونڈا اور فوج اور ملک کے لیے ہتک آمیز اقدام نہ کیا ہوتا تو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کا انتقالِ اقتدار کا واقعہ رونما نہ ہوتا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعدانھوں نے ایک ایجنڈا تصنیف فرما ڈالا اور اس طرح وہ سات نکاتی پروگرام وجود میں آیا جسے انھوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کیا۔ لیکن قوم نے ان کے اقتدار کو صرف اسی خاص پس منظر کی وجہ سے عارضی طور پر قبول کیا تھا اور فوری احتساب اور انتخاب کا مطالبہ پہلے دن ہی سے کیا تھا۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں سپریم کورٹ نے ان کو تین سال کی محدود اور متعین مہلت دی اور گند صاف کرنے اور نیا انتخاب کرانے کا مینڈیٹ دیا جس نے ان کے اقتدار کو مشروط قانونی جواز (legitimacy) دیا۔
انھوں نے صدر تارڑ کو ہٹا کر اس مینڈیٹ کی پہلی بڑی خلاف ورزی کی اور جو تھوڑا بہت جواز ان کو حاصل تھا اسے تباہ کرنے کا عمل شروع کر دیا۔ پھر اپنے عہدے کی توثیق اور انتخابات کا ایک شیڈول دینے کے بعد (جس میں ریفرنڈم کا کوئی ذکر نہ تھا) اب ریفرنڈم اور اس کے ذریعے اپنے لیے پانچ سال کی مہلت حاصل کرنے کا راستہ اختیار کر کے ملک کے سیاسی نظام کو تہ و بالا کرنے کا ایک خطرناک کھیل شروع کردیا ہے۔ اس کے لیے ان کو حوصلہ ایک دوسرے اتفاقی حادثے سے حاصل ہوا جو ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو رونما ہوا اور جس کے بعد امریکہ کی دھمکی پر اس کے دامن سے اپنے کو وابستہ کر کے اور اس کے عالمی کھیل میں شریک اور معاون بن کرخود اپنے ملک اور اپنی قوم کی ’’اصلاح‘‘ کا نیا سودا ان کے سر میں سما گیا ہے۔ وہ جو ان کے ساتھ فوٹو کھچوانے کے سزاوار نہ تھے‘ ان کو فوجی ڈکٹیٹر اور اقتدار پر ناجائز قابض (usurper)قرار دیتے تھے ان کو بہترین دوست اور وفادار ساتھی قرار دینے لگے تو جنرل صاحب نے بھی نئے ایجنڈے اور ملک کے سیاسی نظام کی تشکیل نو (restructuring)کی باتیںشروع کر دیں۔
ان کو صاف نظر آ رہا تھا کہ یہ مقصد سیدھے سیدھے انتخابات اور بحالیِجمہوریت کے ذریعے ممکن نہیں‘ اس لیے ریفرنڈم کا جال بچھانے کا کھیل شروع کیا جس کا پہلا شکار ملک کا دستور اور قانون ہے۔ اس ریفرنڈم کے بڑے دُور رس اثرات پورے نظام حکومت پر مترتب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس اقدام کے تمام مضمرات کا صحیح شعور اور ادراک بھی پیدا کیا جائے اور اس کا توڑ کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ آج اصل مسئلہ ملک کی آزادی‘ حاکمیت‘ دستور‘ جمہوریت‘ قومی وقار اور غیرت اور اسلامی مستقبل کے تحفظ کا مسئلہ ہے جو سب اس خطرناک کھیل کی زد میں ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ اصل ایشو کسی قومی مسئلے پر عوام کی رائے معلوم کرنے کا نہیں بلکہ اس نظامِ کار کو تبدیل اور مسخ کرنے کا ہے جس پر ہماری آزادی‘ حاکمیت‘ جمہوریت اور اسلامیت کا انحصار ہے۔ اصل ایشو یہ ہے کہ:
__ کیا کسی فرد واحد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بزعم خود دستور‘ قانون اور نظامِ مملکت کو تبدیل کر دے؟
__ کیا کوئی قوم یہ برداشت کر سکتی ہے کہ جس کو ملک کی حفاظت کا کام سونپا گیا تھا وہ ملک کا مالک بن جائے؟
__ کیا ایک فرد یا گروہ کی کسی ایسی کارروائی کو جو ملک کے دستور اور مملکت کے تاریخی کردار کے منافی ہو‘ اس لیے گوارا کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس وقت اقتدار پر قابض ہے اور اپنے اپنے مفادات کی خاطر کچھ بیرونی قوتیں خصوصیت سے واحد سوپر پاور اسے اپناحلیف بنائے ہوئے ہے؟
جنرل پرویز مشرف کا اصل پاور بیس اس وقت فوج کی سربراہی اور امریکہ کی پشت پناہی ہے۔ سپریم کورٹ نے جو مینڈیٹ ان کو دیا تھا اس میں کسی نئے نظام کو لانے‘ دستور کی بنیادی ہیئت (structure) سے کھل کھیلنے اور ملک پر اپنی آمریت قائم کرنے کی کوئی گنجایش نہیں تھی۔ صاف اور شفاف بحالیِ جمہوریت میں انھیں اپنے ان عزائم کی تکمیل کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اکانومسٹ نے ان کے کھیل کے اس پہلو کو بھی بہت صاف لفظوں میں بیان کیا ہے جسے ریکارڈ پر لانا مفید اور ضروری ہے:
کم سے کم جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے وہ بیرونی طاقتوں کی حمایت کے حوالے سے یقینا صحیح بات کہہ رہے ہیں۔ عالمی دہشت کے خلاف جنگ میں ایک وفادار حلیف کی جنرل کی حیثیت اس ہفتے پاکستان میں ابوزبیدہ کی گرفتاری سے مزید مضبوط ہوئی جسے القاعدہ گروپ کا تیسرا بڑا آدمی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی اہل کاروں نے یہ گرفتاری ایف بی آئی کے ایجنٹوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے کی‘ جنھیں پاکستان میں کام کرنے کے لیے قابل لحاظ آزادی دی گئی ہے۔ یہ خصوصی طور پر اس لیے خوش آیند ہے کہ اس کے علاوہ القاعدہ کی قیادت ہاتھ نہیں آ رہی ۔
مگر امریکی جو بھی سوچیں‘ جنرل کی تازہ ترین چال بازی پر پاکستان میں کافی تنقید ہو رہی ہے۔ وہ لوگ جو ریفرنڈم کے حامی نہیں ہیں اور اس کی مخالفت کرنے یا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں ان میں دو بڑی پارٹیاں (بے نظیر کی قیادت میں پیپلز پارٹی اور نوازشریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ‘ دونوں سابق وزراے اعظم ہیں)‘ ملک کی نمایاں مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کا چھ کا گروپ اور طلبا اور وکلا کی تمام نمایاں تنظیمیں شامل ہیں۔ پھر آخر کس طرح جنرل کو جیتنے کی اُمید ہے؟(How on earth does the General hope to win it?) (اکانومسٹ‘ ۶ اپریل ۲۰۰۲ء)
ریفرنڈم جیتنے کا ایک ہی راستہ ہے--- جبر اور عیاری کی قوتوں کا بے روک ٹوک استعمال! نہ ووٹروں کی کوئی فہرست ہو‘ نہ مقابل میں کوئی امیدوار ہو‘ نہ سیاسی جماعتوں کو راے عامہ ہموار کرنے کا کوئی موقع دیا جائے‘ عدالتوں پر اثر ڈالا جائے‘ سرکاری مشینری اور وسائل کا بے محابا استعمال ہو‘ پریس اور سیاسی کارکنوں پر لاٹھیاں چلائی جائیں‘ الیکٹرانک میڈیا کو گوبلز کے اصولوں پر استعمال کیا جائے‘ اور ان تمام عناصر کو اعوان و انصار بنایا جائے جو اپنے اپنے مفادات کے تحفظ یا حصول کے لیے وفاداریاں بدلنے اور نوکریاں حاصل کرنے کے لیے تیار ہوں اور اس وقت یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ اس پر غور کرنے کی کس کو ضرورت ہے کہ اس طرح کون سے سیاسی کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے ؟
چند پہلو غور طلب ہیں اور سب لوگوں کو ٹھنڈے دل سے ان پر غور کرنا چاہیے‘ خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت یا نقطہء نظر سے ہو اور وہ زندگی کے کسی بھی سول یا عسکری شعبے سے متعلق ہوں۔
ریفرنڈم کا جواز: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس اقدام کی کیا ضرورت ہے؟ اگر ہدف ملک میں جمہوریت کی بحالی اور نئی قیادت کو زمامِ کار سونپنا ہے تو اس کا واحد دستوری اور قابل عمل ذریعہ شفاف اور آزاد انتخابات ہیں‘ جن کا حکم سپریم کورٹ نے دیا ہے اور جن کا طریق کار دستور میں واضح طور پر مرقوم ہے۔ جسے بھی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنا ہے اس کے لیے دستور کے مطابق اس عمل میں شریک ہونے کا حق اور موقع ہے۔ اس کے لیے دستور سے ہٹ کر‘ بلکہ اس کے منافی کوئی بھی راستہ اختیار کرنا جمہوریت کے قتل کے مترادف ہے اور کسی ایسے عمل کو کبھی بھی سندِجواز حاصل نہیں ہو سکتی۔ انتخابات کے لیے اکتوبر کی تاریخیں طے ہیں۔ انتخابات سے چند ماہ پہلے صدارت پرشب خون مارنے کے لیے چور دروازے اختیار کرنا بددیانتی اور قوم کے ساتھ ظلم ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ صدارت کے انتخاب کے لیے دستور میں ایک واضح طریقہ دفعہ ۴۱ میں طے ہے جس میں انتخابی حلقہ‘ طریق انتخاب اور انتخاب کے لیے میدان میں آنے والے افراد کی صفات بالکل واضح طور پر موجود ہیں۔ ریفرنڈم کی دفعہ کا تعلق صدر کے انتخاب سے نہیں‘ ملک کے مسائل کے بارے میں عوامی رائے معلوم کرنے سے ہے۔ اسی لیے اس کا ذکر دفعہ ۴۸ میں ہے جو صدر کے اختیارات کے بارے میں ہے اور جسے دستور کے تحت کسی بھی طرح انتخاب کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا۔
سابق نظیر کا حوالہ: کہا جاتا ہے کہ اس کی نظیر موجود ہے اور جنرل ضیا الحق نے ۱۹۸۴ء میں ریفرنڈم کو انتخاب کا ذریعہ بنایا تھا یا ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۷ء میں وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ریفرنڈم کا راستہ اختیار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا مگر یہ دونوں نظائر غلط اور غیر متعلق ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ جنرل ضیا الحق نے ایک شعبدہ کیا تھا مگر انھوں نے اور ۱۹۸۹ء میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ‘ دونوں نے بالآخر اس بات کو تسلیم کیا کہ محض ریفرنڈم سے وہ صدر نہیں بن سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور کی دفعہ ۴۱ میں شق (۷) کا اضافہ صرف جنرل ضیا الحق کی صدارت کو دستوری اور قانونی شکل دینے کے لیے کیا گیا جو اس امر کا اعتراف ہے کہ دفعہ ۴۸ (۶) کے تحت ریفرنڈم انتخاب کا ذریعہ نہیں ہو سکتا اور اگر اسے استعمال کیا گیا تھا تووہ غلط تھا جو ۴۱ (۷) کے بغیر غیرموثر اور باطل تھا۔ رہا بھٹو کا معاملہ تو وہاں بھی مسئلہ انتخاب کا نہیں تھا بلکہ اس وقت کے وزیراعظم کے لیے ایک قسم کے اعتماد کے ووٹ کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے دستوری دفعہ۹۶-اے کے طور پر دستور کی ساتویں ترمیم کی شکل میں لایا گیا تھا۔ ۹۵-۹۶ وزیراعظم پر عدم اعتماد کے اظہار سے متعلق ہیں اور دستور کی ساتویں ترمیم پی این اے کی تحریک کے خاص پس منظر میں صرف چار ماہ کے لیے صرف ایک بار اختیار کرنے کے ارادے سے لائی گئی تھی جسے حزب اختلاف نے قبول نہیں کیا اور اس پر عمل نہ ہو سکا۔ وہ چار ماہ گزرنے پر آپ سے آپ ختم ہو گئی۔ البتہ اس ترمیم میں بھی یہ صراحت موجود تھی کہ یہ اعتماد کا ووٹ فہرست رائے دہندگان پرحاصل کیا جائے گا اور اگر اکثریت نے خلاف فیصلہ دیا تو وزیراعظم کو معزول کر دیا جائے گا۔ جنرل مشرف جو ریفرنڈم کرا رہے ہیں وہ غیر دستوری‘ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہی نہیں اس میں تو فہرست رائے دہندگان کا تکلف بھی نہیں کیا گیا اور شکست کی صورت میں بھی معزولی کا کوئی تصور نہیں۔
پاکستان کے دستور میں صدر کے انتخاب کے لیے ریفرنڈم کی کوئی گنجایش نہیں۔ ریفرنڈم کسی سیاسی یا دستوری مسئلے پر تو ہو سکتا ہے لیکن کسی فرد کے انتخاب کے لیے صرف وہی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے جو دستور میں اس کے انتخاب کے لیے طے کیا گیا ہے۔ اشتراکی ممالک نے انتخاب کے لیے واحد نمایندے کا طریقہ اختیار کیا تھا اور ہاں یا نہیں میں ووٹ دیا جاتا تھا اور اس کی روشنی میں چند دوسرے ممالک نے جہاں آمریت کا نظام ہے (مثلاً مصر) یہی راستہ اختیار کیا۔۔۔۔ کسی جمہوری ملک میں یہ طریقہ نہ کبھی اختیار کیا گیا ہے اور نہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ جن ممالک میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا وہاں کے دستور اور انتخابی قانون میں وہی راستہ طے تھا۔ اس لیے غیر جمہوری ہونے کے باوجود ان کے دستور کے مطابق تھا‘ جب کہ ہمارے دستور میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کچھ وہ جماعتیں جو اِس وقت ریفرنڈم کی مخالفت کر رہی ہیں انھوں نے جنرل ضیاالحق کے ریفرنڈم کی مخالفت نہیں کی تھی اس لیے ان کا رویہ تضاد پر مبنی ہے۔ یہ بات بڑی سطحی اور غیر معقول ہے اس لیے کہ دونوں کے حالات میں بڑا فرق ہے۔ جنرل ضیا الحق کے وقت مسئلہ صدر کے انتخاب کا نہیں ملک کو مارشل لا سے نجات دلانے کا تھا تاکہ کسی طرح جمہوری عمل شروع ہو سکے۔ آج یہ صورت نہیں۔ ملک میں مارشل لا نہیں‘ دستوری حکومت ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق دستور اور عدالتی جائزے (judical review) کے نظام کے اندر کام کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں تین سال میں انتخابات کرانے کا حکم ہے۔ انتخابات سے پارلیمنٹ‘ صوبائی اسمبلیوں اور صدر کا انتخاب‘ سب مراد ہیں۔ اس لیے دونوں صورتوں میں جوہری فرق ہے۔ دوسری بات یہ بھی سامنے رہے کہ گو جنرل ضیا الحق نے ریفرنڈم کرایا مگر دستور کی بحالی کے بعد ان کی صدارت کا انحصار ریفرنڈم پر نہیں دستور کی دفعہ ۴۱ (۶) پر تھا جس نے ریفرنڈم کے غلط اقدام کی غلطی واضح کی اور اس غلطی کی تصحیح کی۔ دوسرے الفاظ میں اس ترمیم کی وجہ سے اب یہ اصول بھی مسلّم ہوگیا کہ ریفرنڈم انتخاب کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ تیسری بات یہ ہے کہ اگر ایک غلطی کسی انسان یا جماعت سے کسی وقت ہوگئی تو وہ آیندہ کے لیے نظیر نہیں بن سکتی۔ غلطی کے غلط ثابت ہو جانے کے بعد اس کا اعادہ کرنا پہلی غلطی سے بڑی غلطی بلکہ بددیانتی ہے۔
سیاسی نظام کی من مانی صورت گری: جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں ایک اور بڑا خطرناک پہلو پوشیدہ ہے ۔ وہ اپنی پالیسیوں کے تسلسل کے نام پر ایک ایسا اختیار حاصل کرنے کی کوشش ہے جسے وہ سیاسی تشکیلِ نوکے نام پر سیاسی نظام کی من مانی صورت گری کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ پارلیمانی نظام کو تبدیل کر کے ایک نیا سہ فریقی نظام (triarchy)قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں اقتدار صدر‘ وزیراعظم اور بری فوج کے سربراہ میں تقسیم ہو۔ اس کے بڑے خطرناک اوردُور رس اثرات ہوں گے۔
اولاً: اس سے پارلیمانی نظام ختم ہو جائے گا اور پارلیمنٹ پر ایک بالاتر نظام وجود میں آئے گا جس میں پارلیمنٹ کے منتخب وزیراعظم اور وزرا کے ساتھ صدر اور فوج کا سربراہ‘ جو دستور کے تحت وزیراعظم کا نامزد اور سول انتظامیہ کے ماتحت ہے (دستوری دفعہ ۲۴۳‘ ۲۴۴‘ ۲۴۵) شریک اقتدار ہوگا۔ اس میں یہ گنجایش بھی پیدا کی جا رہی ہے کہ صدر‘ دستور کے تحت فوج کا سپریم کمانڈر ہونے کے ساتھ عملاً چیف آف سٹاف بھی ہو اور اس کے علاوہ فوج کا ڈپٹی چیف آف اسٹاف بھی سیکورٹی کونسل کا رکن ہو۔ اس نظام میں وزیراعظم اور پارلیمنٹ کی حیثیت ثانوی بلکہ نمایشی ہو جائے گی اور ملک کا نظام ایک قسم کی ایسی جمہوریت کی شکل اختیار کر لے گا جو مستقل فوجی کنٹرول میں ہو۔ یہ آمریت کی ایک شکل ہے جیساکہ کمیونسٹ نظام میں روس اورچین میں تھا اور انڈونیشیا اور برما میں بھی جس پر عمل ہوا۔ اس نظام کو جمہوری اور وہ بھی پارلیمانی جمہوری نظام کہنا خلاف واقعہ ہوگا۔ سپریم کورٹ نے بھی دستور کے بنیادی نظام اور ہیئت کی حفاظت کی جو بات کی ہے اور دستور کو ایک نامیاتی اکائی (organic whole) قرار دیا ہے اس میں اس نوعیت کی کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔
ثانیاً: اس نظام کا خاصا یہ ہوگا کہ فوج سیاست میں مکمل طور پر ملوث ہو اور ایک مستقل فریق کی حیثیت اختیار کر لے گی۔ یہ فوج‘ ملک اور سیاسی نظام تینوں کے لیے خطرناک ہے۔ فوج کی تربیت کچھ متعین مقاصد کے لیے ہوتی ہے اور اس کے اعلیٰ ترین افسر بھی صرف پیشہ ورانہ کام کے لیے موزوں ہیں مگر نظامِ سیاست کو چلانے کے اہل نہیں ہوتے۔ ان کا مزاج‘ تربیت‘ تجربہ بالکل دوسری نوعیت کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں فوج نے سیاسی زمام کار سنبھالی ہو اور وہ ملک جمہوریت تودُور کی بات ہے‘ اچھی حکومت اور اچھی فوج ہی اسے نصیب ہوگئی ہو۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ کے ممالک اس کی بدترین مثال ہیں۔ خود پاکستان اور ان مسلم اور عرب ممالک کے تجربے ایک عبرت ناک نمونہ پیش کرتے ہیں جہاں فوج نے سیاست میں مداخلت کی‘ نہ ملک ترقی کر سکا اور نہ فوج ہی اپنا پیشہ ورانہ کردار باقی رکھ سکی۔ اسرائیل کی چھوٹی سی پیشہ ور فوج نے کئی عرب ممالک کی سیاست زدہ فوج کو بار بار عبرت ناک شکست دی ہے جو سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل ضیا الحق تک سب کا دور پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کے صحت مند ارتقا کی تاریخ میں تاریک باب اور ملک کے لیے کھوئے ہوئے سالوں (lost years)کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس سلسلے میں ترکی کی مثال دی جاتی ہے مگر وہ کسی حیثیت سے بھی ایک قابل تقلید نمونہ نہیں۔ اولاً ترکی کی تاریخ میں اور خصوصیت سے پہلی جنگ کے بعد ترکی کی جمہوریہ کے قیام میں جو کردار ترکی کی فوج نے ادا کیا وہ ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ کسی دوسرے مسلمان ملک میں فوج نے وہ کردار ادا نہیں کیا۔ چین کے انقلاب میں ماوزے تنگ اور ان کی لبریشن آرمی یا روس کے انقلاب میں کمیونسٹ پارٹی کے عسکری بازد (سوویت) کا خاص کردار رہاہے اور اسی مناسبت سے نئے نظام کا وہ حصہ بنے اور بالآخر ہر اس جگہ جہاں فوج کا اس نوعیت کا رول تھا فوجی آمریت پرمبنی نظام وجود میں آیا۔ پاکستان میں تحریک آزادی کی تاریخ اور پاکستان کے دستوری نظام دونوں میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔ پھر ترکی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ فوج کا مستقل کردار وہاں بھی جمہوریت کے فروغ کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ خصوصیت سے ایورین کے فوجی انقلاب کے بعد سے جو کردار فوج ادا کر رہی ہے وہ پیچیدگیاں پیدا کرنے کا باعث ہے اور ملک میں فوج کے کردار کے بارے میں نئی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔ یورپین یونین میںترکی کے داخلے کی راہ میں ایک رکاوٹ وہاں کے نظام میں فوج کا مستقل کردار بھی ہے۔ ترکی میں بھی یہ گنجایش نہیں کہ فوج کا حاضر سروس سربراہ صدرمملکت بن سکے۔ اس کا نیشنل سیکورٹی کونسل کا تجربہ بھی ہر لحاظ سے مفید قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان کے حالات میں تو یہ اقتدار کی مساوات کو خراب کرنے اور فوجی آمریت کی راہ ہموار کرنے کا ہی ذریعہ بن سکتی ہے۔ لطف یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج کو سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہیے اور اس کے مستقل کردار کی بات بھی کرتے ہیں۔ یہ تضادِ فکر کا غماز ہے اور فوج کے لیے ایک ایسے مقام کے حصول کی کوشش ہے جو نہ فوج کے حق میں ہے اور نہ ملک کے حق میں۔ ایسے حالات میں کبھی بھی جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی۔
پھر اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس سیاسی نظام میں جس میں فوج ایک حصہ بن جائے اور بری افواج کے سربراہ کا ایک خاص رول ہو‘ وہ فوج کبھی بھی اچھی دفاعی قوت نہیں بن سکتی۔ سیاست میں ملوث ہونے کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ خود مخصوص مفادات کی حامل بن جاتی ہے جو اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو شدت سے متاثر کرتا ہے اور دوسری طرف ایسی فوج کو پوری قوم کی تائید حاصل نہیں ہوتی۔ وہ سیاست میں بلکہ اس کے مختلف گروہی اور حزبی نظام میں ایک شریک بن جاتی ہے۔ فوج جس کی بنیادی خصوصیت یک جہتی اور یک رنگی ہونی چاہیے وہ باقی نہیں رہتی اور سیاسی اختلاف اور پارٹیوں کے نظام کی وجہ سے اس کی شناخت پوری قوم سے نہیں اس کے کچھ حصوں سے ہونے لگتی ہے۔ اس سے فوج کی دفاعی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ فوج کے لیے ضروری ہے کہ اسے پوری قوم کی تائید اور تعاون بلکہ محبت حاصل ہو اور وہ کسی اعتبار سے بھی متنازع نہ بنے۔ جو نظام تجویز کیا جا رہا ہے ملک کے دفاع کے نظام کو درہم برہم کر دے گا اور قوم کبھی بھی فوج پرنہ وہ اعتماد کر سکے گی جو اس کا حق ہے اور نہ پوری یکسوئی کے ساتھ اسے وہ وسائل فراہم کر سکے گی جو اس کے غیر متنازع ہونے کی صورت ہی میں اسے حاصل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اپنی زندگی کے پہلے لمحے سے جن بیرونی خطرات سے دوچار ہے ان میں فوج کو سیاست میں شریکِ کار بنانا ملک کی سالمیت کے لیے ایک خطرہ اور بڑے خسارے کا سودا ہے۔
اصولوں کی پامالی: ان تمام وجوہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف جس سیاسی ایجنڈے اور جس تسلسل کی بات کر رہے ہیں وہ ملک کی سالمیت اور سیکورٹی کے لیے خطرے کا ایک پیغام ہے اور اس راہ میں ایک قدم بھی بڑھاناسخت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
جنرل صاحب کے ریفرنڈم کا ایک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ وہ قوم کو تقسیم کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ جارج بش نے جو آمرانہ رویہ اختیار کیا تھا کہ ’’یا تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے مخالف‘‘، جنرل پرویز مشرف کے اعلانات میں بھی اسی کی بازگشت سنی جا سکتی ہے۔ وہ قوم کو دو دھڑوں میں بانٹ رہے ہیں۔ زمین پر ایک لکیر کھینچ رہے ہیں اور اس بنیاد پر صف بندی فرما رہے ہیں۔ دیوار پر بیٹھنے والوں کو دعوت مبازرت دے رہے ہیں۔ ساتھ دینے والوں کو نہ صرف نواز رہے ہیں بلکہ آیندہ کے لیے بھی وعدے وعید کا بازار گرم فرما رہے ہیں۔ کھلے بندوں سرکاری افسروں‘اہل کاروں‘ اساتذہ‘ فوج اور پولیس کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ ریفرنڈم ایک دستوری عمل ہے۔ اگر دستور کے دائرے میں کسی کی ذات کے لیے تائید حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک ایشو پر قوم کی رائے معلوم کرنے کے لیے ہو تو دستور کا تقاضا یہ ہے کہ پارلیمنٹ اس کے لیے ایک قانون بنائے جس کے تحت ریفرنڈم ہو۔ یہ الیکشن کمیشن کا کام نہیں۔ پارلیمنٹ نے ایسا کوئی قانون آج تک نہیں بنایا اوریہی وجہ ہے الیکشن کمیشن کو اس کام کے لیے غلط طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک شدید قسم کی بدعنوانی ہے جس نے جسٹس طارق محمود کو مجبور کیا کہ الیکشن کمیشن سے مستعفی ہوں اور پھر مجبور ہو کر جج کے عہدے سے بھی استعفا دے دیں۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی جس قسم کی بدعنوانی کر رہے ہیں وہ ایک دستوری جرم ہے اور ان کا اس بارے میں پورا پورا احتساب ہونا چاہیے۔
اسی طرح سرکاری مشینری‘ ریاست کے وسائل اور میڈیا کو جس طرح استعمال کیا جا رہا ہے اور بلدیاتی اداروں کے نظام کا جس طرح اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استحصال کیا جا رہا ہے وہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ ماضی کے غلط کار سیاست دانوں نے جو جو بدعنوانی کی ہے اور جس کے نتیجے میں ملک میں جمہوری نظام کا ارتقا متاثر ہوا آج کے حکمران وہ سب کچھ کر رہے ہیں اور پوری دیدہ دلیری سے کر رہے ہیں۔ سیاست کو بدعنوانی سے پاک کرنے اور انتظامیہ کو سیاست میں ملوث ہونے سے روکنے کے سارے دعوے پادر ہوا ہوگئے ہیں۔ جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ ناظمین اور کونسلروں نے غیر سیاسی ہونے کا عہد کیا ہے اور اگر کسی سیاسی جماعت کے کہنے پر وہ ریفرنڈم میں عدم تعاون کریں گے تو حلف کی خلاف ورزی ہوگی لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کو اپنے انتخاب کے لیے استعمال کر کے سب سے پہلے وہ ان کو اپنے حلف کو توڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اگر انتخاب سیاسی سرگرمی نہیں تو پھر کیا ہے؟ صدر کی پارٹی‘ بلکہ ان تمام پارٹیوں کا کارندہ بننا جو صدر کا ساتھ دے رہی ہیں سیاست نہیں تو پھر ریفرنڈم سے اجتناب ہی کو سیاست کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا لوکل باڈیز آرڈی ننس میں ریفرنڈم میں تعاون ان اداروں کی ذمہ داری ہے؟ ان کا دائرہ کار ان کے اپنے قانون کے تابع ہے اور اس کا کوئی تعلق ریفرنڈم سے نہیں چہ جائیکہ ایسے ریفرنڈم سے جسے صدارت کے انتخاب کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔
جنرل صاحب ناظمین کو تو حلف یاد دلا رہے ہیں لیکن کیا ان کو خود یاد ہے کہ ایک حلف انھوں نے بھی فوج کے افسر کی حیثیت سے اُٹھایا تھا جس کے الفاظ یہ ہیں:
میں ---------- صدق دل سے حلف اُٹھاتا ہوں کہ میں خلوص نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی حمایت کروں گا جو عوام کی خواہشات کا مظہر ہے ‘ اور یہ کہ میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں مشغول نہیں کروں گا اور یہ کہ میں مقتضیات قانون کے مطابق اور اس کے تحت پاکستان کی بّری فوج (یا بحری یا فضائی فوج) میں پاکستان کی خدمت ایمان داری اور وفاداری کے ساتھ انجام دوں گا۔
اللہ تعالیٰ میری مدد اور رہنمائی فرمائے۔ (آمین)
ان کا دعویٰ ہے کہ وہ صاف اور سچے آدمی ہیں لیکن وہ دیکھیں کہ اس آئینے میں انھیں اپنی کیا تصویر نظر آتی ہے۔
دستور جس ریفرنڈم کے لیے گنجایش فراہم کرتا ہے (دفعہ۴۸ (۶) ) اس کی دو خصوصیات ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ قومی اہمیت کے کسی مسئلے کے بارے میں ہو‘ اور دوسری یہ کہ اس مسئلے کو ایسی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہو کہ جس کا جواب سیدھے سادھے ہاں یا نہیں میں دیا جا سکتا ہو۔ ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ سوال یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص ملک کا صدر ہو سکتا ہے یا نہیں یا بطور صدر مملکت وہ قبول ہے یا نہیں۔ اس لیے کہ صدر کے انتخاب کا ایک واضح اور متعین طریقہ دستور میں مرقوم ہے اور انتخاب صرف اسی طریقے سے ہو سکتا ہے۔ پھر اس انتخاب میں حصہ لینے والوں کی کچھ شرائط (qualifications) ہیں جن کو الیکشن کمیشن طے کرتا ہے کہ کسی شخص میں وہ پائی جاتی ہیں یا نہیں۔ یہ کام عوام کا نہیں۔ اسکریننگ کے بغیرکوئی شخص کسی بھی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا۔ صرف اسکریننگہی نہیں اس پر اعتراضات کا اہتمام بھی ضروری ہے تاکہ دوسرے افراد بھی ان شرائط پر کلام کر سکیں۔ تیسرے یہ کہ انتخاب میں ایک ہی شخص صرف اس وقت منتخب ہو سکتا ہے جب مقابلے پر کوئی دوسرا موجود نہ ہو‘ یعنی بلامقابلہ۔ لیکن انتخاب میں صرف ایک ہی فرد ہو اور کسی دوسرے کو مقابلے کا موقع ہی نہ ہو‘ یہ انتخاب کے دستوری تصور اور قانونی ضابطے کے صریح خلاف ہے۔ ریفرنڈم میں ان میں سے کوئی ایک صورت بھی ممکن نہیں۔ اس لیے ریفرنڈم کسی فرد کے صدر یا کسی بھی عہدے کے لیے انتخاب کا ذریعہ تو بن ہی نہیں سکتا۔ ورنہ کل وزیراعظم‘ چیف جسٹس‘ چیف آف آرمی اسٹاف سب ہی کا تقرر ریفرنڈم کے ذریعے ہونے لگے گا جو مضحکہ خیز اور لغو ہے۔ اس لیے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ اگر ریفرنڈم کے پرچے میں کسی کے صدر بنائے جانے کے بارے میں رائے لی جائے تو وہ خلافِ دستور اور غیر قانونی ہوگی اور پورے ریفرنڈم کو غیر قانونی بنادینے کا ذریعہ ہوگی۔
جو بات پوچھی جا سکتی ہے وہ کسی مسئلے کے بارے میں موقف کا تعین ہے۔اس ریفرنڈم میں ایک اشکال یہ بھی ہے کہ پانچ سوال پوچھے جا رہے ہیں جن کا ایک ہی جواب ضروری نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص لوکل باڈیز کے مسئلے پر ایک رائے رکھتا ہو اور معاشی پروگرام کے بارے میں دوسری‘ نیز جسے فرقہ وارانہ انتہا پسندی کہا جا رہا ہے اس کے بارے میں اس کی رائے کچھ اور ہی ہو۔ ان میں سے ہر سوال میں شدید ابہام ہے۔ معاشی اصلاحات کی فہرست طویل ہے۔ ان میں کچھ چیزیں اچھی اورکچھ غلط ہو سکتی ہیں۔ معاشی اصلاحات اور حکومت کی تمام معاشی پالیسیاں ایک ہی بات نہیں ہیں۔ آج سیکڑوں معاشی معاملات کے بارے میں حکومت کی پالیسیاں جاری ہیں۔ سوال میں کون سی پالیسیاں مراد ہیں اور کون سی نہیں۔ ایسے مبہم‘ متعدد معنوں کی گنجایش والے معاملات پر ہاں اور نہیں میں جواب کیسے دیا جا سکتا ہے؟ کیا ایک سوال کا جواب ہاں اور دوسرے کا نہیں میں دیا جا سکتا ہے؟
اگر ایسا نہیں بلکہ سب کا ایک ہی جواب ہونا ہے تو یہ عقل کے خلاف ہی نہیں‘ دستور کی خلاف ورزی بھی ہے کہ دستور ایک متعین مسئلے پر ہاں یا نہیں کے جواب کی بات کر رہا ہے اور آپ پانچ سوالوں کے ایک جواب کی بات کر رہے ہیں اور جواب سے صدر کے انتخاب کا نتیجہ اسی طرح نکال رہے ہیں جس طرح مداری اپنی ٹوپی سے خرگوش نکال لیتا ہے:
ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے
ریفرنڈم کا سب سے زیادہ ہولناک پہلو وہ آمرانہ کلچر ہے جس میں یہ پوری مشق (exercise) روبہ عمل آ رہی ہے۔ جمہوریت کے روڈ میپ کو نظرانداز کر کے ۵ اپریل کو اچانک ریفرنڈم کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ سے رجوع کر کے پہلے معلوم نہیں کیا جاتا کہ یہ اقدام دستور کے مطابق ہے یا اس سے متصادم۔ پھر سرکاری خزانے سے اور سرکاری ملازموں کے ذریعے ایک ملک گیر مہم کا آغاز کیا جاتا ہے۔ مخالف آوازوں کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔ جلسے صرف آپ کر سکتے ہیں۔ آپ کے موقف کی مخالفت کرنے والوں کو منافق کہا جاتا ہے اور جلسے‘ جلوس ‘ میڈیا کسی بھی راستے کو ان کے لیے کھلا نہیں چھوڑا جاتا۔
صدر کا انتخاب ایک خالص سیاسی عمل ہے‘ کوئی دستوری مسئلہ نہیں۔ یہ عہدہ اپنے ساتھ تنخواہ اور مراعات رکھتا ہے۔ کسی کو حق نہیں کہ اپنے لیے عہدے کے حصول کے لیے سرکاری وسائل اور سرکاری مشینری استعمال کرے۔ کوئی مدمقابل نہ ہو اور پالیسی کے پہلوئوں پر بھی احتساب اور تنقید کی راہیں مسدود کی جائیں۔ تمام اہم سیاسی اور دینی جماعتیں مخالفت کررہی ہیں‘ تمام بار ایسوسی ایشین حتیٰ کہ بار کونسل اسے غیر دستوری قرار دے رہی ہے اور تمام ملک کے وکلا مجبور ہوئے ہیں کہ عدالت کا احتجاجاً بائیکاٹ کریں۔ اگر ایک معزز جج احتجاج کرتا ہے اور الیکشن کمیشن سے مستعفی ہو جاتا ہے تو اس پر بھی دبائو ڈالا جاتا ہے کہ بیان واپس لے حتیٰ کہ اعلیٰ عدالت کا جج اپنے عہدے تک سے استعفا دیتا ہے جسے جوشِ انتقام میں فوراً قبول کر لیا جاتا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس پر دبائو بھی استعمال ہوا اور محض کسی عمل کے دستوری ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ایک واضح رائے رکھنے اور اس کے اظہار پر ایک شخص کو آپ اعلیٰ عدالت تک سے فارغ کرنے پر تیار ہیں۔
پریس کو گالیاں دی جاتی ہیںبلکہ اس پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں کہ حاضری کم بتا رہے ہیں۔ جس شہر میں جلسہ ہو وہاں کی بلکہ قریبی شہروں تک کی ساری سرکاری اور غیر سرکاری ٹرانسپورٹ پر زبردستی قبضہ کر لیا جاتا ہے اور جلسے کی رونق بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاسی قائدین اور کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ سیاسی کاروان کے راستے روکے جا رہے ہیں‘ جلسوں پر لاٹھی چارج اور آنسوگیس کی بارش کی جا رہی ہے۔ اختلاف کے اظہار کے راستے بند کیے جا رہے ہیں مگر آزادی اور رواداری کے ڈھول بھی پیٹے جا رہے ہیں۔ مدمقابل کے ہاتھ پائوں باندھ کر دعوتِ مبارزت دینا کون سی شرافت‘ مردانگی اور شجاعت ہے؟ کیا یہی وہ بدعنوانی سے پاک نظام اور سیاسی کلچر ہے جسے آپ قائم کرنا چاہتے ہیں اور جس کے لیے آپ فوج اور سول انتظامیہ کو آلہ کار بنا رہے ہیں؟
جس نظام کا نام جمہوریت ہے اس میں تو جو شخص بلامقابلہ کامیاب ہونے کے لیے یہ سارے دھندے کرے وہ پہلے قدم پر ہی نااہل قرار دے دیا جاتا ہے۔
آپ ریفرنڈم جیتے نہیں ہیں پہلے ہی قدم پر شکست کھا گئے ہیں۔ پہلی شکست اس وقت ہوئی جب صدارت کے انتخاب کے دستوری طریقے کو اختیار کرنے کے لیے ایک غیر قانونی اور غیر اخلاقی چور دروازہ اختیار کیا گیا۔ پھر دوسری شکست اس وقت ہوئی جب آپ نے فہرست رائے دہندگان کی نفی کر دی اور اعلان عام فرما دیا کہ جو چاہے آئے ووٹ دے دے۔ پھر تیسری شکست اس وقت ہوئی جب آپ نے مخالف قوتوں کا منہ بند کیا اور ہاتھ پائوں باندھ دیے۔ یہ کیسا مقابلہ ہے کہ اکھاڑے میں صرف ایک پہلوان ہے۔ باقی سب کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیں اور دعویٰ ہے کہ دنگل ہو رہا ہے۔ پُرامن احتجاج‘ سیاسی جلسہ اور جلوس‘ ریلی اور کاروان‘ اخبارات کی آزادی اور ریڈیو اور ٹی وی پر تمام نقطہ ہاے نظر کا اظہار‘ سرکاری ذرائع کی مکمل غیر جانب داری--- یہ وہ کم سے کم چیزیں ہیں جو کسی انتخاب اور استصواب کے لیے ضروری ہیں۔ اگران سب سے آپ قوم اور اختلافی رائے رکھنے والوں کو محروم کر دیتے ہیں اور پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ جمہوری عمل کو فروغ دیا جا رہا ہے اور عوام سے اعتماد کا ووٹ لیا جا رہا ہے تو اس سے بڑا جھوٹ روے زمین پر اور کون سا ہو سکتا ہے؟ جو شخص یہ راستہ اختیار کرتا ہے وہ ریفرنڈم میں پہلے ہی قدم پر اپنی شکست کا اعتراف کرتا ہے۔ اس کا نام مقابلہ سے فرار ہے‘ مقابلہ اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی فتح نہیں۔
درحقیقت آپ تو ایک ایسے انوکھے مقابلے کا اہتمام کر رہے ہیں جس کے بارے میں یہ تک کہہ دیا گیا ہے کہ اگر نتیجہ نفی میں رہا تو بھی آپ کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ جنرل ضیا الحق نے کم از کم اتنا توکہا تھا کہ اگر ریفرنڈم میں میرے خلاف اکثریت کا ووٹ ہواتو میں استعفا دے دوں گا لیکن آپ کا ریفرنڈم تو ایسا نرالا ریفرنڈم ہے کہ اگر نتیجہ حق میں ہو تو فتح اور اگر خلاف ہو تو بھی فتح--- اسے ریفرنڈم نہیںڈھونگ کہا جاتا ہے۔ ایک ایسا ڈھونگ جس پر قوم کا کروڑوں روپیہ اورہزاروں لاکھوں انسانوں کا وقت ضائع کیا جا رہا ہو اسے کون قومی مفاد کا نام دے سکتاہے۔ لیکن افسوس کہ آج قومی مفاد کے نام پر قوم سے یہ سنگین مذاق کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس سے جمہوریت کے احیا کی راہ ہموار ہوگی۔
اگر نیم کے درخت سے آم برآمد ہونے لگیں تو شاید ریفرنڈم سے بھی یہ کرشمہ صادر ہو جائے!